Sunday, August 30, 2015

ایران عالمی برادری اور اسرائیل

                                                    عالمی امور  
                                                                                                    

   ایران عالمی برادری اور اسرائیل   
          
   مجیب خان



      برطانیہ،فرانس،جرمنی،روس اور چین نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتے کو قبول کرلیا ہے۔ لیکن امریکی کانگریس میں ابھی تک یہ بحث ہورہی ہے کہ اوبامہ انتظامیہ نے جن پانچ بڑی طاقتوں کے ساتھ  ایران سے ایٹمی سمجھوتے پر دستخط کئے ہیں اسے مسترد کیا جائے یامنظور کیا جائے۔ یوروپی یونین نے ایران پر عائد پابندیاں ہٹالی ہیں۔ اور سلامتی کونسل نے بھی ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتہ کی حمایت میں کسی مخالفت کے بغیر قرارداد منظور کرلی ہے۔اور ایران پر عائد اقوام متحدہ کی پابندیاں بھی ختم ہوگئ ہیں۔ایران قوموں کی برادری میں واپس آگیا ہے۔
          تہران میں برطانیہ کا سفارت خانہ دوبارہ کھول گیا ہے۔اس موقع پر برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ فلپ ہمونڈ ( Hammond) خصوصی طور پر تہران آئے تھے۔تہران میں بی بی سی سے انڑویو میں سیکریٹری خارجہ فلپ ہمونڈ نے کہا  ایران اس خطہ کا ایک بڑا کردار ہے، ایک بہت اہم کردار ہے اور اسے تنہا کیسےرکھا جاسکتا ہے۔حقائق اس وقت زیادہ واضح نظر آتے ہیں جب انھیں طاقت کی بلندیوں سے نیچے اتر کر دیکھا جاتا ہے۔اور برطانیہ کو اب اس حقیقت کا احساس ہوا ہے کہ جب مشرق وسطی انتشار کی آگ میں جل رہا ہے۔
         عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارےمیں جھوٹ سے حقائق چھپانے کے بجائے اگر حقائق کو سامنے آنے کا موقعہ دیا جاتا تو دنیا آج بہت بہتر ہوتی۔لیکن حقائق چھپائے گئے تھے۔اور طاقت کے بھرپور استعمال سے دنیا کو بہتر بنانے کے جو دعوی کرتے تھے۔وہ بھی جھوٹے نکلے ہیں۔۔انھوں نے دنیا سے یہ بھی کہا تھا کہ عراق میں حکومت تبدیل ھونے سے دنیا کو ایک بڑے Evil سے نجات مل جائےگی۔ لیکن ایک Evil ختم کرکے انھوں نے دنیا کو ہزاروں نئے Evil دیےدیئے  ہیں۔
         دنیا بہتر ہونے کے بجائے اتنی زیادہ خطرناک ہوگئ ہے کہ عرب خوفزدہ
  ہیں۔اور ایک بہتر دنیا کی تلاش میں اپنے خاندانوں کے ساتھ نقل مکانی پر مجبور ہوگئےہیں عرب دنیا میں حالات جس سمت میں جارہے ہیں۔اور جس پیمانے پر خاندان نقل مکانی پر مجبور ہورہیے ہیں۔ یہ نظر آرہا ہے کہ بہت جلد عرب دنیا میں شہر ویران ہوجائیں گے۔ دنیا نے اس طرح حالات سے خوفزدہ ہوکر لوگوں کو اپنے گھروں اور اپنے ملک سے نقل مکانی کرتے نہیں دیکھا ہوگا۔
                    جنہوں نے عراق کےبارے میں دنیا سے جھوٹ بولےتھے۔ انھوں نے دنیا سے یہ بھی کہا تھا کہ دنیا میں جہاں بھی انسانی بحران پیدا ہوگا ۔مغربی طاقتیں وہاں انسانی بنیادوں پر مداخلت کرنے سے گریز نہیں کریں گی۔ لیکن عرب دنیا اور شمالی افریقہ میں انہی مغربی طاقتوں نے اکیسویں صدی کا انسانی بحران    پیدا کیا ہے۔لوگ امن کی تلاش میں اس طرح جارہے ہیں کہ جس طرح لوگ  ریگستان میں پانی تلاش کرتے ہیں۔
         عرب دنیا کے موجودہ حالات میں اگر ایران میں حکومت تبدیل کر نےکے  
  1979کے حالات پیدا ہو جاتےہیں۔تو اس صورت میں مشرق وسطی کا سیاسی نقشہ کیا ہوگا؟ یہ حالات مشرق وسطی کو تیسری جنگ عظیم کے قریب لے جائیں گے۔ 
         ایران کے ساتھ جو ایٹمی معاہدہ طے پایا ہے۔ وہ بڑی حد تک جرمنی اور جاپان کے ایٹمی پروگرام کے خطوط پر ہے۔ جرمنی اور جاپان کی طرح ایران بھی اپنے ایٹمی پروگرام کو صرف ریسرچ اور انرجی کے مقاصد میں استعمال کرے گا۔اگر یہ معاہدہ اسرایئل کے ساتھ ھوتا تو کانگریس اس معاہدے کی دوسرے ہی دن بھاری اکثریت سے توثیق کرچکی ہوتی۔لیکن اسرائیل اس معاہدے کے خلاف ہے۔ اس لئے کانگریس کے اراکین کی اکثریت بھی خواہ وہ اس معاہدے کو ایک معقول معاہدہ سمجھتے ہوں گے  لیکن اسرائیل کے بھرپور دباؤ میں معاہدے کو مسترد کررہے ہیں۔
        کانگریس کے سامنے اب ایک طرف امریکا کا پریزیڈنٹ ہے۔جو دنیا میں ایک طاقتور مقام رکھتا ہے۔ جبکہ دوسری      طرف اسرائیل ہے۔جیسےامریکا کھربوں ڈالرکی            
 امداد بھی دیتا ہے۔ امریکا کے قریبی اتحادی برطانیہ،فرانس،جرمنی کے سفیروں نے سسینٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی کے سامنے ایران کے ساتھ معاہدہ پر اپنا موقف بیان کیا تھا۔ان سفیروں نے سینٹروں کے سوالوں کے جواب دئے تھے۔اور کانگریس سے اس معاہدے کو منظور کرنے کی اپیل کی ہے ۔یہ امریکا کے قریبی اتحادی ملکوں کے سفیر تھے۔سینٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی کے سامنے ان سفیروں کے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی حمایت میں دلیلوں اور وضاحتوں کے بعد کانگریس کو اس معاہدے کو بھاری اکثریت سے منظور کرنا چاہیے۔اور جیسا کہ ان کا پریزیڈنٹ بھی ان سے یہ اپیلیں کررہا ہے۔ لیکن کانگریس پر اسرائیل کا انفلوئنس خاصا ہے۔ کانگریس اگر اسے منظور کرے گی تو  بہت معمولی ووٹ سے کرے گی۔
        دنیا کے پیشتر سے زیادہ ملکوں نے ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے کا خیرمقدم کیا ہے۔لیکن اسرائیل واحد ملک ہے جس نے اس سمجھوتے کی مذمت  کی ہے۔اور ابھی تک اس کی مخالفت کررہاہے۔ایران کے ساتھ یہ سمجھوتہ ہونے سے مشرق وسطی میں اسرائیل کے کیا اسڑیٹجک منصوبےالٹے ہوگئے ہیں؟











           

Saturday, August 29, 2015

بھارت کی پریشانی کیا ہے؟

                                                                                                                                                                       
                                                                                                                             بھارت کی پریشانی کیا ہے؟
               
                                                                                                                                                    مجیب خان



    بظاہر پاکستان کے خلاف بھارت کا معاندانہ دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔پاکستان کی سرحدوں پر بھارتی فوجوں کی گولہ باری روز کا معمول بن گئ ہے۔دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔دہلی میں دونوں ملکوں  کے مشیروں کی ہونے والی کانفرنس بھارت نے منسوخ کردی ہے۔پاکستان یہ بھی مدنظر رکھے کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ،پینٹاگون اور قومی سلامتی امور میں بھارتی نژاد امریکی اہم پالیسی ساز عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔جو اوبامہ انتیظامیہ کی جنوبی ایشیا بلخصوص بھارت پاکستان امور سے متعلق پالیسیوں میں معاونت کرتے ہیں۔ 
               تنازعہ کشمیر 67 سال سے پاکستان بھارت تعلقات کے فروغ میں ایک بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔یہ تنازعہ اگر 65 سال قبل حل کرلیا جاتا تو آج دونوں ملکوں کے اس خطہ میں مفادات مشترکہ ہو سکتے تھے۔ یہ تنازعہ اگر 50 سال قبل تاشقند معاہدے کے تحت حل کرلیا جاتا تو آج اس خطہ کی سیاست کا نقشہ شاید مختلف ہوتا۔ یہ تنازعہ اگر 44 سال قبل شملہ معاہدے کے تحت حل کر لیا جاتا تو شاید آج دونوں ملکوں کو خوفناک  بیرونی دہشت گردی کا سامنا بھی نہیں ہوتا۔اگربھارت اور پاکستان کے اچھے تعلقات ہوتے تو سوویت فوجیں شاید افغانستان میں نہیں آتیں۔اور اگر آگئ تھیں تو بھارت اور پاکستان اسے علاقائ امن اور استحکام کے مفاد میں سیاسی اور سفارتی طریقوں سے بہتر طور پر حل کر لیتے۔اور افغانستان سوویت فوجوں کے خلاف دہشت گردی کا اکھاڑہ بھی نہیں بنتا۔یہ خطہ آج آس صورت حال کے اثرات میں  اسی طرح ہے کہ جس طرح ہیرو شیما اور ناگاساکی ستر سال بعد بھی اٹیم بم کی تباہی کے اثرات سے ابھی تک مکمل طور پر نکل نہیں سکیں ہیں۔ 
                پاکستان بھارت کا ایک اھم ھمسایہ ملک ہے اور اھم ھمسایہ ملک کے ساتھ دروازےکبھی بند نہیں رکھے جاتے ہیں۔پاکستان نے جس دن چین کی کمیونسٹ حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے تھے۔وزیراعظم جواہرلال نہرو نے اسی دن کشمیر کے تنازعہ پر اپنا موقف بدل دیا تھا ۔اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ آنگ کہنا شروع کردیا تھا۔اور اس وقت سے یہ بھارتی پالیسی تبدیل نہیں ہوئ ہے۔
                حالانکہ بھارت نے بھی چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے تھے  اور آج چین بھارت کا ایک بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت تقریباً سو بلین ڈالر پر پہنچ رہی ہے۔لیکن یہاں چین سے بھارت کو کوئ خطرہ نہیں ہے۔لیکن پاکستان میں چین کے اسٹرٹیجک اقتصادی مفادات بھارت کے لئے خطرہ بن گئے ہیں۔چین نے پاکستان کو 46 بلین ڈالر  کا معاشی  راہداری کا جو منصوبہ دیا ہے۔اس نے بھارت کی پریشانی میں اور اضافہ کردیا ہے۔
                 وزیراعظم مودی اس سال موسم بہار میں جب چین کے دورے پر گئے تھے ۔تو انھوں نے صدر شی جن پنگ سے پاکستان کے لئے 46 بلین ڈالر کےمعاشی راہداری کے منصوبے پر بھارت کی تشویش کا اظہار کیا تھا۔اور صدر شی سے اس منصوبہ کو منسوخ کرنےکی درخواست کی تھی۔لیکن صدر شی نے وزیراعظم مودی کو پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور بھارت کو بھی معاشی راہداری کے منصوبے میں شامل ھونے کی پیشکش کی تھی۔
                 بھارت معاشی راہداری منصوبہ کے کیوں خلاف ہے؟ پاکستان کو جب فوجی ہتھیار دینے کے منصوبہ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ بھارت اس کی مخالفت کرتا ہے؟پاکستان کے لئے معاشی راہداری کا منصوبہ بھارت کے مفاد میں کیوں نیہں ہے؟معاشی راہداری کے منصوبہ پر عملدرامد ہونے سے بھارت کو جنوبی ایشیا سے اپنا بستر بوریا لپیٹنا پڑے گا۔جنوبی ایشیا میں چین کا اثر خاصا بڑھ جائے گا۔اور جنوبی ایشیا جس کے اثر میں ہوگا وسط ایشیا بھی اس کے حلقہ اثر میں ہوگا۔بھارت کشمیر سے ایک انچ پیچھےہٹنا نہیں چاہتا ہے۔لیکن جنوبی ایشیا اس کے قدموں سے کھسک رہا ہے؟بھارت اس بوکھلاہٹ میں مبتلا ہے۔اور اس بوکھلاہٹ میں بھارت پاکستان کے اندر سے، پاکستان کے باہر سے، پاکستان پر اوپر سے بھرپور دباؤ ڈالنے کے پتے کھیل رہا ہے۔ تاکہ کسی طرح معاشی راہداری منصوبہ پر عملدرآمد نہ ہو سکے۔
                 متحدہ عرب امارات بھارت کے ہاتھ میں ایک نیا پتہ ہے۔اس معاشی راہداری منصوبہ پر دونوں ملکوں کے مفادات مشترکہ ہوگئے ہیں۔گوادر میں ایشیا کی سب سے بڑی بندرگاہ تعمیر ھونے پر امارات زیادہ خوش نہیں ہے۔اس کے علاوہ بعض دوسرے ایشوز بھی ہیں جن پر دونوں ملکوں کے کچھ اختلافات ہیں۔
                  وزیراعظم مودی کے دورہ امارات کے دوران پاکستان کو جیسے یہ اشاریے دئے گئے تھے کہ امارات کے پاس 800 بلین ڈالر انویسٹمینٹ فنڈز  ہیں۔اور پاکستان اگر اپنی پالیسی تبدیل کریے تو امارات پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
                    امریکا اس وقت صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔اور حالات کا جائزہ لے رہا ۔سوال یہ ہے کہ کیا بھارت پاکستان پر دباؤ کے لئے امریکا کو اسی طرح استعمال کرے گا کہ جس طرح اسرائیل نے ایران پر دباؤ کے لئے امریکا کو استعمال کیا تھا؟صدر اوبامہ نے وزیراعظم نواز شریف کو اکتوبر میں وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے لئے دعوت دی ہے۔امریکا کو روس اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی اور اقتصادی تعلقات پر بھی تشویش ہوگی۔
                   اب پاکستان سے اگر یہ کہا جائے کہ بھارت کشمیر کا تنازعہ حل کرنے کے لئے تیار ہے۔ لیکن پاکستان کو چین کے ساتھ معاشی راہداری کے منصوبے کو سرد کرنا ہوگا؟ اس پیشکش پر وزیراعظم نواز شریف حکومت کا جواب کیا ہوگا؟
                     

Tuesday, August 18, 2015

پاکستان کی داخلی سیاست بلا عنوان

 پاکستان کی داخلی سیاست     

بلا عنوان  

 مجیب خان


    ویسے تو پاکستان ہر طرح کے مسلوں میں خود کیفل ہے۔لیکن لندن میں پاکستانی نثراد برطانیہ کے شہری جو پاکستان کی ایک علاقائ جماعت کے رہنما ہیں۔پاکستان سے اب روٹھ گئے ہیں۔اور انھیں کس طرح منایا جائے اس وقت حکومت کے سامنے یہ سب سے بٹرا مسلئہ ہے۔
       وزیراعظم اپنی کابینہ کے سنیئر وزرا اور چوٹی کےدہنماؤں کے ساتھ سر جوڑے بیٹھےتھے۔اور سب اس پر غور کررہے تھےکہ انھیں اب کیسے منایا جائے۔آیا       کابینہ کے کسی وزیر کو  لندن بھیجا جائے؟ لیکن پھر  حکومت اور لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے رہنما میں ثالثی کرانے کا ٹھیکہ مولانا فضل الرحمن کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اور مولانا نے یہ  فیصلہ قبول کرلیا ہے۔
       ملا محمد عمر اس حسرت کے ساتھ دنیا سے چلےگئے کہ ان کی طا لبان جماعت اور صدر حامد کرزئی حکومت کے درمیان مولانا فضل الرحمان ثالثی کراسکتے تھے۔صدر کرزئ بھی ان کے ثالثی کی کوششوں کا ضرور خیرمقدم کر تے
لیکن مولانا مصالحت پسند ہیں ۔ بہرحال مولانا ایم کیو ایم کے رہنما سے ملاقات کرنے لندن  جانے کے لئے بھی تیار ہیں ۔
        دنیا میں بعض لوگوں کو خدا  عزت دیتا ہے۔ اور بعض لوگوں کو برطانیہ اور امریک عزت سے نوازتے ہیں۔اب ذوالفقار علی بھٹو کو کیونکہ خدا نے بے پناہ      عزت دی تھی اس لئے کسی مفتی یا مولوی نے جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت اور پیپلزپارٹی میں ثالثی کرانے کو شاید غیر اسلامی سمجھا تھا۔ اگربھٹو صاحب پاکستان کے بجائے عوام اور برطانیہ کے ہر دلعزیز ہو تے تو شاید   فوجی حکومت اور ان کے درمیان ثالثی ہو جاتی ۔
         فیڈل کاسترو خدا  نے دنیا میں جو عزت دی ہے۔وہ خدا جیسے عزت دیتا ہے اس کا ثبوت ہے۔اور خدا نے کاسترو کو بڑی پائیدار عزت دی ہے۔ کاسترو کو اپنی سیاسی زندگی میں کبھی زلت کاسامنانہیں ہوا ہے ۔سی آئ اے نے انھیں کئ مرتبہ زہر دینے کی سازش بھی کی تھی لیکن خدا نے انھیں ہر ایسی سازش سے بھی بچایا تھا۔اور خدا نے اب انھیں یہ عزت بھی دی ہے کہ ان کی زندگی میں امریکا ان کے ساتھ تعلقات بحال کرنے میں فخر محسوس کررہا ہے۔سیکرٹری خارجہ جان کیری خصوصی طور پر ہوانا امریکی سفارت خانے پر امریکا کا پرچم لہرانے آئے   تھے ۔اس روز کاسترو کی سالگرہ تھی اور وہ 89 برس کے ہوگئےتھے۔
بیسویں صدی کی سیاسی تاریخ میں فیڈل کاسترو کو ایک عظیم سیاسی مدبر ہونے  کا اعزاز حاصل رہے گا۔
        ایم کیو ایم کے رہنما پچیس سال سے ملک سے غیرحاضر ہیں۔ اور لندن میں ان کی رہائش ہے۔ان کے لندن میں بیٹھ کر پاکستان میں آن کی سیاسی سرگرمیاں برطانیہ کو پاکستان کی اندرونی سیاست میں ملوث ہونے کا موقعہ دے رہی ھیں۔اور کبھی یہ تاثر پیدا ہونے لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کو برطانیہ کی نیم کالونی بنایا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم کی ایک قیادت کراچی میں بھی ہے جو اسمبلیوں کے اراکین بھی ہیں۔ اور سیاست میں خاصے سرگرم ہیں ۔حکومت سے سیاسی مطالبےکرتےہیں۔اپنے مطالبے منوانے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔حکومت سے مذاکرات بھی کرتےہیں۔
         پھر حکومت ایم کیو ایم کی کراچی قیادت کو لندن میں اس کی قیادت سے رابطہ کا ذریعہ کیوں نہیں بناتی ہے۔حکومت صرف کراچی قیادت کو اہمیت دے۔صرف اس سے معاملات طےکرےاور کراچی قیادت خود لندن میں اپنے قائد سے صلاح و مشورے کرے۔حکومت کی جو پالیسی بلوچستان کے بارے میں ہے۔ جن بلوچ رہنماؤں نے لندن میں پناھ لیلی ہے۔ حکومت ان سے بات نہیں کرتی ہے بلکہ جو بلوچ  بلوچستان میں ہیں۔ حکومت انہیں سیاسی عمل میں لانے کے لئے صرف آن سے مذاکرات کرتی ہے۔ حکومت کو خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ لندن میں ایم کیو ایم کے رہنما کو منانے کا کام ایم کیو ایم کی رابط کمیٹی سے لیا جاتا۔
          نو سال قبل بش انتظ میہ کے جنوبی ایشا کے امور کےاسیسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ رچرڈ Boucher  نے صدر پرویز مشرف اور اور پیپلزپارٹی کی جلاوطن
قیادت کے درمیان ثالثی کرآئ تھی جس کے نتیجے میں صدر مشرف ،پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں سمجھوتہ ھوا تھاپاکستان کی اندرونی سیاست میں اس وقت امریکہ نے مداخلت کی تھی۔بیرونی مداخلت کا یہ دروازہ اتنا زیادہ کھل گیا تھا کہ پیپلزپارٹی کی حکو مت نے امریکہ میں پاکستان کا جس کو سفیر بنایا تھا۔ وہ واشنگٹن میں امریکہ کا سفیر بن کر کام کرنے لگے تھے۔
         آصف علی زرداری کا پاکستان میں اینٹ سے اینٹ بجانے والی تقریر کے بعد امریکہ آنے کا پروگرام تھا۔ لیکن دوبئ سے امریکہ آنے کے بجائے وہ لندن چلے گئے۔امریکہ کی جس لابی نے اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے جن اہل کاروں نےبینظربھٹو کی پاکستان واپس جانے میں مدد کی تھی۔وہ اب آصف علی زرداری کی ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آنے کی کوششوں میں مدد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔شاید امریکہ میں یہ موڈ دیکھ کر زرداری امریکہ آنے کے بجائے لندن چلے گئے ہیں۔
          صدر کارٹر ایک ٹرم کے بعد 1980 کا صدارتی انتخاب ہار گئے تھے۔اور پھر بارہ سال تک ڈیموکر ٹیس اقتدار میں نہیں آئے تھے۔ اور اب ریپبلیکن دو صدارتی انتخاب ہار چکے ہیں۔اور تیسرے صدارتی انتخاب میں بھی ان کی کامیابی کے امکان یقینی نہیں ہیں۔امریکہ میں اگر دو سے زیادہ سیاسی پادٹیوں کا نظام ہوتا تو تیسری پارٹی ظرور اقتدار میں آجاتی۔
            پاکستان میں انتخابات کیونکہ پانچ سال بعد ہوتے ہیں۔ لہذا پیپلزپارٹی کو پندرہ سال تک اقتدار میں نہیں آنا چاہیے۔پیپلزپارٹی کو انتہائ گھٹیا اقتدار کرنے کی سزا عوام اسے انتخابات میں مسترد کرکے دے سکتے ہیں۔جمہیوریت میں عوام  تمام اداروں سے بٹرا ادارہ ہوتے ہیں۔اور جب کوئ ادارہ حکمرانوں کا احتساب نہیں کرتاہے ۔پھر عوام کا ادارہ بیلٹ باکس سے آن کا احتساب کرتا ہے۔ حکمرانی کو صاف ستھرا بنانے کا عمل اب عوام کو شروع کرنا ہوگا۔ برادری ازم ،چودھری ازم ،سردار ازم جیسا کچرا جمہوری عمل سےنکال کر جمہوریت کا معیار  بلند کرنا ہوگا۔

Friday, August 14, 2015

A Message From The Founder Of Progressive Pakistan Post

         

       ھمارا مشن

     پروگریسوپاکستان پوسٹ اردو کا آن لائن اخبار ھوگا ۔جس میں اہم داخلی، علاقائی او عالمی امور سے متعلق خبروں پر صرف تبصرے او تجزئے کئے جاینگے ۔ ہم قلم کی طاقت میں  یقین دکھتے ھیں ۔ھمارے خیال میں ڈرون کی طاقت سے جو مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکے ھیں۔ ان مقاصد کو قلم کی طاقت سے حاصل کیا جا سکتا  ہے۔  ڈرون کی طاقت سے انتہا پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔لیکن ان کے انتہاپسندانا نظریات بدستور زندہ ہیں۔ ھم یہ سمجتھے ھیں کہ انتہاپسندانا سیاسی نظریات صرف قلم کی طاقت سے ختم کیے جاسکتے ھیں۔ قلم کی طاقت انتہا پسندوں کی سوچ میں تبدیلی لا سکتی ہے۔
    پروگریسو پاکستان پوسٹ میں تبصرے اور تجزئے مثبت اور تعمیری ھوں گے۔تنقید برائے تنقید اور مخالفت برائے مخالفت کی سیاسی صحافت  سے گریز کیا جائے گا۔ 
قانون خوف سے بالاتر ہوکر حق کی بات  کی جائے گی۔پوسٹ عوام کے مفادات کو 
خصوصی اہمیت دے گا۔
    عالمی اسٹبلشمینٹ کے مفادات کی سیاست کے نتیجے میں آج دنیا کے ہرخطے میں عام عوام سب سے زیادہ متاثر ھورھے ھیں ۔عالمی اسٹبلشمینٹ نے ھیومن پروگریس جیسے منجمد کردی ھے ۔ دنیا کی توجہ  دھشت گردی کی نام نہاد جنگوں پر مرکوز کرکے غربت کو فروغ دیا گیا ھے۔یۂ ایشوز پروگریسو پاکستان. پوسٹ کےتبصروں اور تجزیوں کے اھم موظوع ہوں گے۔پوسٹ کے تبصروں اورتجزیوں پرقارئین کی آرا کا خیرمقدم کیا جائے گا۔


                                                                مجیب خان

                                                             ایڈیٹر انچیف