Wednesday, August 28, 2019

Prime Minister Modi Has Changed the Disputed Status of Kashmir Unilaterally, And Then Telling President Trump “These issues are bilateral.” India And Pakistan Solve These Issues by Bilateral Talks. Mr. Modi No More Bilateral Talks, Now the Solution Is to Accept the Will of Kashmiri People



    Prime Minister Modi Has Changed the Disputed Status of Kashmir Unilaterally, And Then Telling President Trump “These issues are bilateral.” India And Pakistan Solve These Issues by Bilateral Talks. Mr. Modi No More Bilateral Talks, Now the Solution Is to Accept the Will of Kashmiri People

Do Not Invest in Those States of India Where Zealous Hindu’s are in Power, Invest Only in Those States Where Secular, Liberal, and Progressive Parties are in Government
مجیب خان

Prime Minister Modi and President Trump meet at G-7 summit, Discuss Kashmir Issue

For every 10 killed 20 more will join until this land is freed from Indian occupation," said, one protester 

Crown Prince of Abu Dhabi Mohammed bin Zayed Al Nahyan, conferred UAE's highest civilian award 'Order of Zayed' Prime Minister Modi 

Kashmiris wants Freedom

Prime Minister Narendra Modi was conferred, King Hamad' Order of the Renaissance' by Bahraini King Hamad bin Isa bin Salman Al Khalifa   




  کشمیر- کرفیو کا 24واں دن ہر گلی ہر چوہراۓ ہر طرف فوجی ٹرک ہر چوہراۓ پر فوجیوں کے جتھے ڈنڈا بردار اسپیشل  پولیس، بھارت کی جمہوریت میں کرفیو کے اس منظر میں مارشل لا خاصا Mild ہوتا تھا۔ مودی حکومت میں کشمیریوں کے ساتھ کرفیو لگا کر جو سلوک ہو رہا ہے۔ ایسا سلوک تو شاید انگریزوں نے بھی مودی کے باپ اور دادا کے ساتھ نہیں کیا ہو گا۔ آزادی اور حقوق کا مطالبہ کرنا اتنا بڑا جرم نہیں ہے کہ بستی اور آبادی کو سخت کرفیو لگا کر جیلیں بنا دیا جاۓ۔ لیکن آزادی مانگنے والوں پر ظلم و بربریت کرنا۔ ان پر تشدد کرنا۔ بہت بڑا جرم ہے۔ یہ عالمی قانون اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ اور جو حکومتیں ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوتی ہیں۔ انہیں انسانیت کے خلاف کرائم کرنے کے الزام میں عالمی عدالت میں کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ نریندر مودی کو دنیا ایک مرتبہ معاف کر چکی ہے۔ مودی جب گجرات کے وزیر اعلی تھے۔ ان کی حکومت میں انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔ ان کے گھروں اور کاروباروں کو آگ لگائی تھی۔ عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ بد سلوکی کی تھی۔ ایک ہزار سے زیادہ مسلمان اس وقت ہندو مسلم فسادات میں مارے گیے تھے۔ اب یہ وہ ہی مودی ہیں اور ان کے انتہا پسند ہندو ہیں۔ کشمیریوں کا انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں قتل عام ہونے کے بجاۓ انہیں گھروں میں کرفیو لگا کر ایک طرح سے نظر بند کر دیا ہے۔ انہیں تمام بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم کر دیا ہے۔ تاکہ وہ اپنی موت آپ مر جائیں۔ اور یہ مودی حکومت کا ایک نیا تجربہ ہے۔ باہر کی دنیا سے کشمیریوں کے تمام رابطہ منقطع کر دئیے ہیں۔ تاکہ باہر کی دنیا کو یہ پتہ نہیں چلے گا کہ کون کس حال میں ہے اور کون کس حال میں مر رہا ہے۔ طالبان اگر اس طرح کرفیو لگا کر حکومت کرتے تو شاید ابھی تک حکومت کر رہے ہوتے۔  مودی حکومت سے بھی ان کے اچھے تعلقات ہوتے۔ مغربی دنیا بھی طالبان سے خوش ہوتی۔ عرب حکمران ملا عمر کے گلے میں اعلی تغمہ ڈال رہے ہوتے۔ شاید یہ دنیا بنانے کے لیے سرد جنگ لڑی اور ختم کی گئی تھی۔
  نریندر مودی کا اپنے انتہا پسند ہندو برادری سے یہ انتخابی عہد کہ منتخب ہونے کے بعد وہ کشمیر کا آزاد مقام ختم کر کے اسے یونین میں شامل کریں گے۔ اس عہد سے مودی نے اپنی انتخابی جیت کیش کی تھی لیکن اب اس عہد پر عملدرامد مودی کو مہنگا پڑ رہا ہے۔ مودی اب آ گے بڑھ نہیں سکتے اور پیچھے ہٹ نہیں سکتے ہیں۔ وہ خود بھی ایک کرفیو کے عالم میں ہیں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ پہلے پانچ سال مودی نے حالات خراب سے خراب تر کرنے کے لیے کشمیر فوج کے حوالے کر دیا تھا۔ اور اب حالات بہتر بنانے کے لیے کشمیر بھارتی یونین میں شامل کر لیا ہے۔ اور صدر ٹرمپ کو بتایا ہے کہ کشمیر کے حالات کنٹرول میں ہیں۔ جب کشمیر میں ہر طرف فوج اور ڈنڈا بردار فورس ہو گی اور باہر کی دنیا سے کشمیریوں کے رابطہ منقطع ہوں گے۔ بلاشبہ حالات تو بہتر نظر آئیں گے۔
  وزیر اعظم مودی کو اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ کشمیر کے بارے میں ان کا فیصلہ انہیں مہنگا پڑ رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی کو ان کے فیصلے پر عالمی رد عمل دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی ہے۔ مودی نے غلط فیصلہ بڑے غلط وقت کیا ہے۔ جس سے بھارت کا سیاسی امیج خراب ہوا ہے۔ اور دوسری طرف بھارت کی معیشت بھی خراب ہو رہی ہے۔ کشمیر کی سیاسی صورت حال بھارت کی اقتصادی سرگرمیوں کو متاثر کر رہی ہیں۔ ایک غیر یقینی حالات کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے۔ کہ مودی حکومت کا کشمیر فیصلہ بھارت کو کس سمت میں لے جاۓ گا؟ انتہا پسند ہندو مودی حکومت کے فیصلوں کا تعین کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں بھارت کو دنیا میں تنہا کیا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور NGOs عالمی سرمایہ کاروں کو بھارت کی ان ریاستوں میں سرمایہ کاری سے روک سکتے ہیں جن ریاستوں میں انتہا پسند ہندو جماعتوں کی حکومتیں ہیں۔ اور صرف ان ریاستوں میں سرمایہ کاری کریں جن میں سیکولر، لبرل اور پروگریسو جماعتوں کی حکومتیں ہیں۔ بھارت کو سیکولر سیاست میں رکھنے میں عالمی برادری رول ادا کر سکتی ہے۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کا حکومت پر قبضہ ایسا ہی ہو گا جیسے افغانستان میں حکومت پر طالبان کا قبضہ تھا۔ بھارت کے پاس نیو کلیر ہتھیار بھی ہیں۔ اور اگر یہ ہتھیار انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں تو علاقائی ملک صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ پاکستان کے لیے یہ بہت مشکل ہو گا کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کی انتہا پسندی ختم کرنے میں امریکہ کی مدد کرے اور امریکہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی سے منہ موڑ لے جو پاکستان بلکہ علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔ افغانستان میں 18سال سے انتہا پسندی کا خاتمہ کرنے کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اور دوسری طرف بھارت میں ہندو 'طالبان' کی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ اب اگر مودی حکومت کشمیر کا خود مختار ریاست کا مقام ختم کر کے اسے بھارت کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ تو یہ ہندو 'طالبان' تحریک کی ایک بہت بڑی جیت ہو گی۔ اور بھارت کو اس سے ہمسایہ میں چھوٹے اور کمزور ملکوں کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کرنے کی شہ ملے گی۔
  فرانس میں G-7 کانفرنس میں بھارت کو ایک مہمان مندوب کی حیثیت سے مدعو کیا تھا۔ کانفرنس Sidelines پر صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی کی خصوصی طور پر کشمیر کی صورت حال پر گفتگو ہوئی تھی۔ صدر ٹرمپ کو یہ احساس ہوا تھا کہ اس ایشو پر ان کی ثالثی کی پیشکش کو مودی نے رد کر دیا تھا۔ کہ “These issues are bilateral” اور بھارت اور پاکستان انہیں bilateral مذاکرات سے حل کریں گے۔ مودی کی یہ باتیں سن کر صدر ٹرمپ کو شاید احساس ہوا تھا کہ وزیر اعظم مودی انہیں بے وقوف بنا رہے تھے۔ مودی کے پہلے 5 سال اقتدار میں  پاکستان کے ساتھ سنجیدہ Bilateral مذاکرات کے کوئی ثبوت نہیں تھے۔ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد اپنی حکومت کے پالیسی پلان پر اپنے پہلے خطاب میں بڑے کھلے دل سے بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے پر کہا تھا کہ اگر بھارت ایک قدم آگے آۓ گا تو ہم دو آگے بڑھے گے۔ لیکن مودی کے ارادے پاکستان کو 20قدم پیچھے کی طرف لے جانے کے تھے۔ مودی نے صدر ٹرمپ سے پاکستان کے ساتھ bilateral مذاکرات کرنے کے بارے میں بھی جھوٹ بولا ہے۔ مودی نے Unilaterally ایک متنازعہ کشمیر کا Status بدل دیا ہے۔ کشمیر پر بھارت کا آئین لاگو کر دیا ہے۔ کشمیریوں سے بھارت کی حکومتوں نے جو وعدے کیے تھے۔ مودی حکومت ان سے مکر گئی ہے۔ اور صدر امریکہ سے وزیر اعظم مودی کہتے ہیں “These issues are bilateral” صدر ٹرمپ شاید مودی سے اس پر بحث کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ صدر ٹرمپ نے ملاقات مختصر کرتے ہوۓ کہا ' وہ یہاں ہیں اور جب انہیں ضرورت ہو وہ حاضر ہیں۔' بہر حال معاملہ اب bilateral کی حدود سے باہر نکل گیا ہے اور وزیر اعظم مودی کو اب کشمیریوں کی Will پوری کرنا ہو گی۔ وہ جو مانگ رہے انہیں وہ دینا ہو گا۔ بھارتی فوج نے کشمیریوں کا بہت خون بہایا ہے۔ بھارتی حکومت نے انہیں بہت اذیتیں دی ہیں۔ جنت کی وادی کو نفرتوں کی دوزخ بنا دیا ہے۔ بھارتی حکومتیں پاکستان کو سرحد پار دہشت گرد بھیجنے کے الزام دے کر حالات اس مقام پر لے آئی ہیں۔ ان الزامات کی سیاست میں انہوں نے سب کا وقت برباد کیا ہے۔ دنیا بھارتی لیڈروں کے اس Behavior کو دیکھے اور پھر اس سوال کا جواب دے کہ کیا بھارت عالمی قیادت کا رول ادا کرنے کا مستحق ہے۔ جس نے کشمیر کے حالات بہتر بنانے کے بجاۓ اور زیادہ بگاڑ دئیے ہیں۔ ایسی قیادت تو دنیا کے حالات بگاڑ دے گی۔
  وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک ایسے موقع پر عرب حکمران لاکھوں ڈالر کے تغمے نواز رہے ہیں کہ جب کشمیر میں بے بس اور محکوم مسلمانوں پر ہندو حکومت ظلم و بربریت کر رہی ہے۔ اسلامی ملکوں کو کشمیریوں کے ساتھ  مکمل یکجہتی اور اسلامی اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ جو عرب حکومتیں بھارت میں بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ یہ بھارت کے ٹریڈ پارٹنر بھی ہیں۔ بھارتیوں کی ایک بہت بڑی تعداد عرب ملکوں میں کام کر رہی ہے۔ کشمیر کی صورت حال پر ان عرب حکومتوں کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوۓ مودی حکومت کو اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور کرنا چاہیے تھا۔ اسلامک ورلڈ شدید Disarray کا شکار ہے۔ اسلامی دنیا کو ان حالات اور مقام پر لانے کی منصوبہ بندی 25سال پہلے کی گئی تھی۔ میں اسے اس وقت سے واچ کر رہا ہوں کہ جب 1997 میں تہران میں اسلامی سربراہ کانفرس کا انعقاد ہوا تھا۔ 9سال کی ایران عراق جنگ کو فراموش کر کے ایران نے اسلامی دنیا کے اتحاد کو سپریم اہمیت دی تھی۔ اور صد ام حسین کو تہران میں اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ عراق پر امریکہ اور برطانیہ کی انتہائی سخت اور انسانی تاریخ کی بدترین بندشیں لگی ہوئی تھیں۔ صدر کلنٹن امریکہ کے صدر تھے۔ ان کے قومی سلامتی امور کے مشیر سینڈی برگر تھے۔ تہران میں اسلامی سربراہوں کی کانفرنس صد ام حسین کو شرکت کی دعوت پر سینڈی برگر کو خاصی تشویش تھی۔ وائٹ ہاؤس میں پریس بریفنگ میں انہوں نے عراق کے ایک اعلی وفد کی اس کانفرنس میں شرکت پر سوال کے جواب میں کہا کہ وہ تہران کانفرنس کو بڑے قریب سے واچ کر رہے ہیں۔ اور وہ کانفرنس کے اعلامیہ کا جائزہ لیں گے۔ عراق کے خلاف اقتصادی بندشوں کو 6سال ہو گیے تھے  اور عراقی عوام ان بندشوں سے بری طرح متاثر ہو رہے تھے۔ ایران کی کوشش تھی کہ تہران اسلامی سربراہ کانفرنس عراق پر سے اقتصادی بندشیں ختم کرنے کا مطالبہ کرے۔ لیکن خلیج کے ملکوں نے امریکہ کے دباؤ میں سرد رویہ اختیار کیا تھا۔ ایران کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ اسلامی ملکوں کو متحد کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔ تہران کانفرنس کے 4سال بعد 9/11 کا واقعہ ہو گیا تھا۔ آج مڈل ایسٹ کے حالات، خوشحال اسلامی کا کھنڈرات بننا، پہلا نیوکلیر اسلامی ملک پاکستان میں محاذ جنگ کے مناظر، ایران کو تباہ و برباد کرنے کی کوششیں، ایران کے بعد اور کون سے ملکوں کا نمبر ہو گا؟  یہ حالات دیکھ کر کون اس سے  انکار کرے گا کہ کیا یہ 9/11 کے مقاصد نہیں تھے؟ اس کی تفصیل کسی اور موقعہ پر اس وقت تک Stay-tuned          







                      

Friday, August 23, 2019

Not Russia, But Russians From Israel Meddle In America’s Elections On Behalf Of Prime Minister Netanyahu



Not Russia, But Russians From Israel Meddle In America’s Elections On Behalf Of Prime Minister Netanyahu  

Global Rise Of Anti-Israel And Antisemitism, Under Netanyahu Government
مجیب خان

Robert Mueller testified before the House Judiciary and Intelligence Committee

US Representatives Rashida Tlaib and Ilhan Omar 



  روس کی 2016 کے انتخابات میں مداخلت کی تحقیقات کے لیے خصوصی کمیٹی کے کونسل Robert Mueller نے کانگریس کی جوڈیشیل کمیٹی کے سامنے بیان شہادت کے دوران کمیٹی کے ایک رکن کانگریس مین کے کئی مرتبہ یہ سوال دوہرانے پر کہ کیا روس نے 2016 کے انتخابات میں مداخلت کی تھی؟ Robert Mueller نے کہا ہاں روس نے مداخلت کی تھی۔ اور روس کے علاوہ بھی دوسرے ملک تھے۔ صرف اتنا کہہ کر Robert Mueller رک گیے اور کمیٹی کے اراکین کی طرف دیکھا۔ کمیٹی کے اراکین نے ان کی طرف دیکھا۔ جیسے دونوں نے ایک دوسرے سے نظریں ملا کر یہ معلوم ہو گیا تھا کہ یہ دوسرا ملک کو ن تھا۔ ایک مختصر خاموشی کے بعد روس کی انتخابات میں مداخلت پر سوالات کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا تھا۔ تاہم کمیٹی کے کسی رکن نے جوڈیشیل کمیٹی کے ریکارڈ پر اس ملک کا نام آنے سے گریز کرتے ہوۓ Robert Mueller سے اس ملک کا نام بتانے پر اصرار نہیں کیا تھا۔ لیکن یہ ملک اسرائیل تھا۔ اس کا نام بتانے سے سب اس لیے ڈر رہے تھے کہ پھر ان پر Anti-Israel اور Anti-Semitic کے لیبل لگ جاتے۔ اور وہ  دوبارہ شاید کبھی منتخب نہیں ہو سکتے تھے۔ جیسے صدر ٹرمپ نے دو خواتین رکن کانگریس Ilhan Omar اور Rashida Tlaib پر Anti-Israel اور Anti-Semitic ہونے کے لیبل لگاۓ ہیں۔ صدر ٹرمپ کیا Anti-Iran ہیں؟ یا سیکرٹیری آف اسٹیٹ اور قومی سلامتی امور کے مشیر کیوں Die Hard Anti-Iran ہیں؟ جس طرح ان کے Anti-Iran ہونے کے کچھ اسباب ہوں گے۔ اسی طرح دو خواتین رکن کانگریس کے اسرائیل سے اختلاف ہوں گے۔ یہ اسرائیلی حکومت کی غیر جمہوری اور ظلم پر مبنی پالیسیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن ضروری نہیں ہے کہ اسے Anti-Israel اور Anti-Semitic کہا جاۓ۔ اپنے مخالفین کی سوچ تبدیل کرنے کی بھی ایک Politics ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی اپنے مخالفین کو دشمن رکھنے کی ایک سیاست ہے۔ 70 سال سے اسرائیل کی دشمنوں کو دشمن رکھنے کی پالیسی ہے۔ اوراس پالیسی نے اسرائیلی لیڈروں کو Anti-Israel بنا دیا ہے۔ اور جو اس پالیسی کی مخالفت اور تنقید کر رہے ہیں وہ Anti-Israel نہیں ہیں۔
  لیکوڈ پارٹی تقریباً 16سال سے اقتدار میں ہے جس میں 10سال سے وزیر اعظم نتھن یا ہو اقتدار میں ہیں۔ اور لیکوڈ پارٹی کے دور میں دنیا میں Anti-Semitic بڑھا ہے۔ اور وزیر اعظم نتھن یاہو کے اقتدار میں Anti-Israel پھیلا ہے۔ جو اب B.D.S تحریک Boycott, Divestment and Sanctions] [ بن گئی ہے۔ اور امریکی کانگریس میں اس تحریک کی حمایت میں قرار داد منظور کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ اور بات اب یہاں تک پہنچ گئی ہے۔ امریکہ اور دنیا میں اسرائیل کے بارے میں راۓ عامہ اس تیزی سے تبدیل ہوئی ہے۔ Peace Process کو ہمیشہ کے لیے ختم کر نے کے یہ نتائج ہیں۔ لیکوڈ پارٹی کا امن میں یقین نہیں ہے۔ یہ Warmongers کی پارٹی ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے مڈل ایسٹ میں امریکہ کو امن کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا ہے۔ لیکن Chaos پھیلانے میں امریکہ کی ہمیشہ رہنمائی کی ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے پہلے اسرائیل کی سرحد پر شام کو عدم استحکام کرنے کے نظارہ کیا تھا۔ امریکہ اور خلیج کے ملکوں کو شام تباہ کرنے سے روکا نہیں۔ اس کے دور رس اثرات پر خاموشی اختیار کی تھی۔ اور جب اسد حکومت کی فتح ہونے لگی تو شام میں ایران کی موجودگی پر واویلا کرنا شروع کر دیا تھا۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ اور اسرائیل کے ہر غلط فیصلوں کے نتائج کا الزام اب ایران کو دینے لگے ہیں۔ لیکن دنیا الزامات کی سیاست میں اب یقین نہیں کرتی ہے۔ مڈل ایسٹ کی سرزمین پر جو حقائق ہیں دنیا انہیں دیکھ رہی ہے۔
  صدر پو تن کے لیے امریکہ سے زیادہ Ukraine اہم ہے۔ اور اگر Ukraine کے انتخابات میں روس نے کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ تو اس کا مطلب تھا کہ امریکہ کے انتخابات میں بھی روس نے کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ 2016 کے انتخابات میں روس کی مداخلت پر دو سال  تحقیقات  اور 25ملین ڈالر خرچ کرنے کے بعد جو رپورٹ سامنے آئی ہے۔ اس میں روس کی مداخلت کے واضح ثبوت نہیں ملے ہیں۔ تاہم 2016 کے انتخابات میں اسرائیل کی مداخلت نظر ضرور آئی ہے۔ سوال یہ تھا کہ Russia نے مداخلت کی تھی یا Russians نے مداخلت کی تھی۔ اسرائیل بھی ایک Little Russia ہے۔ اسرائیل میں 15% eligible voters Russian ہیں۔ اور تقریباً  20فیصد اسرائیلی آبادی روس میں پیدا ہوئی ہے۔ 2018 کے اختتام تک تقریباً 11ہزار روسی  اسرائیل میں آباد ہوۓ ہیں۔ اور گزشتہ سالوں میں اس میں 45فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ نئے روسی Settlers ہیں۔ اسرائیلی حکومت ان کے لیے نئی بستیاں بناۓ گی۔ امریکی کانگریس اور انتظامیہ نے روس پر اقتصادی بندشیں لگائی ہیں۔ لیکن نئے روسیوں کو اسرائیل میں آباد کرنے کے لیے امریکہ کی 3بلین ڈالر امداد استعمال کی جاۓ گی۔ بہرحال یہ روسی اب اسرائیلی شہری ہیں۔ گولا ن کی چوٹیوں میں زیادہ تر روسی آباد ہیں۔ اور یہ یہاں کاشتکاری کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے گولا ن کو اسرائیل کا Sovereign علاقہ قرار دیا ہے۔
  1999 میں صدر بل کلنٹن نے اسرائیل میں انتخابات میں Likud Party کو ناکام بنانے کے لیے مداخلت کی تھی۔ نتھن یا ہو وزیر اعظم کے لیے امیدوار تھے۔ اور ان کے مقابلے پر لیبر پارٹی تھی۔ اور Ehud Barak وزیر اعظم کے لیے امیدوار تھے۔ James Carville صدر کلنٹن کے ایڈ وائزر تھے۔ اور صدر کلنٹن کی انتخابی مہم کے Strategist بھی تھے۔
 James Carville has helped Ehud Barak of Israel’s Labor Party at the suggestion of President Clinton, who had grown frustrated with Benjamin Netanyahu’s intransigence in the Peace Process, in the 1999 Knesset election.
  نتھن یا ہو کی Likud Party یہ انتخاب ہار گئی تھی۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو کو خدشہ اب یہ تھا کہ  ہلری کلٹن اگر صدر منتخب ہو جاتی ہیں۔ تو شاید Likud Party پھر دوبارہ منتخب نہیں ہو سکے گی اور وہ وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔ 2016 کے انتخابات کے آخری دس بارہ دن میں نتھن یا ہو اور صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ میں معاملات طے ہو گیے تھے۔ ری پبلیکن پارٹی کی ہائی کمان پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ ہلری کلٹن کو کسی صورت میں صدر منتخب نہیں ہونے دیا جاۓ گا۔ نتھن یا ہو نے اس مقصد میں اسرائیلی Russians فرنٹ لائن پر کر دئیے تھے۔ ان کے فلوریڈا، نیویارک، نیو جرسی وغیرہ میں رابطوں کو استعمال کیا تھا۔ امریکی میڈیا کے ریڈار پر اسے روس کی Meddling  فوکس کیا تھا۔ اس Meddling میں صدر پو تن کو Villain بنا کر ایران کے ساتھ قریبی اتحاد بنانے کی سزا دی تھی۔ Mueller Report میں صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی کمیٹی میں George Papadopoulos ٹرمپ کے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر تھے۔ جو اسرائیل کے Unregistered Lobbyist تھے۔ انہیں صرف 14 روز جیل کی سزا دی گئی تھی۔ اگر وہ روس کے Unregister Lobbyist ہوتے  تو انہیں شاید 14 ماہ کی سزا ہوتی۔ بہرحال ہلری کلنٹن کی صدارتی انتخاب میں شکست ہونے کی سازش بھی ایسی ہی کہ جیسے جان ایف کنیڈی کو قتل کرنے کی سازش میں گولی کس طرف سے آئی تھی۔ آج تک اس کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔    

                                                                                                                                                               

Monday, August 19, 2019

Big Support From The World Community For The Extremely Oppressed People Of Kashmir



  Big Support From The World Community For The Extremely Oppressed People Of Kashmir

U.N.’s Security Councils’ Verdict: Kashmir Is A Disputed Problem, Modi’s Government Decision To Annex Kashmir Is A Violation Of The Security Council’s Resolutions And U.N. Charters.
مجیب خان

United Nations, China-backed Pakistan's request for the UN Security Council to discuss Indian's decision to revoke the special status of Jammu and Kashmir

"Zhang Jun, Chinese envoy to the U.N. "Deeply concerned about the current situation in Kashmir

Prime Minister Narendra Modi and Home Minister Amit Shah, Master mind of modi's Kashmir policy

Kashmiris protest against the Indian rule 



  چین نے ایک ایسے مشکل حالات میں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو غیر قانونی اقدام سے تبدیل کرنے کے خلاف پاکستان کے موقف کی مکمل حمایت کی ہے۔ اور کشمیر تنازعہ پر اقوام متحدہ کے فیصلے ایک بار پھر سلامتی کونسل میں زندہ کیے ہیں۔ اور کشمیر کے تنازعہ کی نوعیت اور اہمیت Refresh کی ہے کہ جب خود چین ہر طرف سے مسائل میں گھیرا ہوا ہے۔ ہانگ کانگ میں 10ہفتہ سے Black Hands نوجوانوں کو چین کی حکومت کے خلاف سرکشی کی شہ دے رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے چین کے خلاف Trade war شروع کر دی ہے۔ جو Cold war سے زیادہ مہلک ہے۔ صدر ٹرمپ چین پر ایک کے بعد دوسرا Tariff اعلامیہ جاری کر رہے ہیں۔ چین کی کمپنیوں کو قومی سلامتی کے لیے خطرے کا لیبل لگا کر Sanctions کیا جا رہا ہے۔ تائیوان کو ٹرمپ انتظامیہ نے 66 F-16 طیارے  فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایک Uighur-American خاتون پروفیسر کو قومی سلامتی کونسل کی چین پالیسی کا ڈائریکٹر نامزد کیا ہے۔ جو خود ایک Uighur ہیں۔ جبکہ امریکی بحریہ کے جہاز ساؤتھ چائنا Sea میں داخل ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ امریکہ  آسٹریلیا میں بحری اڈہ قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ اس صورت حال کے باوجود چین نے پاکستان کو کشمیر کے مسئلہ پر خصوصی اہمیت دی ہے۔ کشمیر کا کیس چین نے سلامتی کونسل میں پاکستان کے Behalf پر پیش کیا ہے۔ سلامتی کونسل نے 1948 اور پھر 1950s میں بھارت اور پاکستان میں کشمیر کے تنازعہ پر قرار دادیں منظور کی تھیں۔ جن میں مسلم اکثریتی کشمیر کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے استصواب راۓ کرانے کا کہا گیا تھا۔ ایک دوسری قرارداد میں دونوں ملکوں سے ایسے بیانات دینے اور کچھ کرنے یا سبب بننے یا کوئی بھی اقدام جس سے صورت حال میں شدت پیدا ہو سکتی تھی، محتاط رہنے کا کہا گیا تھا۔ سلامتی کونسل کے اس ہنگامی اجلاس میں ان قراردادوں کے حوالے دئیے گیے تھے۔ جس کے بعد کونسل کے اراکین نے مودی حکومت کے فیصلے کو غیر قانونی اقدام قرار دیا ہے۔ اور مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے اقتدار اعلی کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ ہر مشکل وقت میں چین کی حمایت پاکستان- چین دوستی Great Wall of China کی تاریخ بن رہی ہے۔
  کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوج کی بربریت اور ظلم 30سال سے جاری ہے۔ جس کے نتیجہ میں کشمیری عوام بھارتی فوج کے خلاف مزاحمت کرنے پر مجبور ہوۓ ہیں۔ کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوج کی بربریت اور ظلم کی کاروائیوں کے ثبوت ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ بلاشبہ سلامتی کونسل کے اراکین ان رپورٹوں سے با خوبی واقف تھے۔ مودی حکومت نے کشمیر میں گجرات کی تاریخ دہرانے کے بجاۓ کشمیری مسلمانوں کو سخت کرفیو لگا کر گھروں میں قید کر دیا ہے۔ انہیں تمام بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم کر دیا ہے۔ باہر کی دنیا سے کشمیر کے تمام رابطہ کاٹ دئیے ہیں۔ عوام کی بھاری اکثریت سے منتخب  ہونے والا لیڈر اب غیر جمہوری مزاج کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ کشمیریوں کو جمہوری حقوق دینے کی بجاۓ انہیں کٹر ہندو پرستوں کے ماتحت بنایا جا رہا ہے۔ بھارت کی جمہوریت کے دو چہرے ہیں۔ ایک دہلی میں پارلیمنٹ ہے اور دوسرا مقبوضہ کشمیر ہے۔ بہرحال بھارت کا یہ کردار، کشمیر میں بھارتی حکومت کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، نہتے شہریوں پر بھارتی فوج کے مظالم اب سلامتی کونسل کے ریکارڈ پر ہیں۔ بھارت ایک عرصہ سے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت مانگ رہا ہے۔ کیا کشمیریوں کے ساتھ بھارت کا یہ  Behavior  دیکھنے کے بعد دنیا بھارت کو سلامتی کونسل کے مستقل رکن بننے کا مستحق سمجھتی ہے؟ جبکہ بھارت نے سلامتی کونسل کی کشمیر کے تنازعہ پر قرار داروں کی خلاف ورزی کی ہے۔ پاکستان کے خلاف نیو کلیر ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ بھارت کا عالمی امن، استحکام اور تنازعوں کے پر امن حل کا “Credit” خراب ہے۔
 اقوام متحدہ میں بھارت کے سفیر نے اور دہلی میں حکومت کے وزیر دعوی کر رہے ہیں کہ کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔ سلامتی کونسل نے بھارت کے ان دعووں کو رد کر دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ کشمیر ایک عالمی تنازعہ ہے۔ اور بھارت کو اسے سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنا چاہیے۔ روس کے وزیر خارجہ Sergey Lavrov نے کشمیر تنازعہ پر سلامتی کونسل  کے اجلاس سے چند روز قبل کہا تھا کہ بھارت اور پاکستان کو 1972 میں شملہ معاہدے اور 1999 میں لاہور معاہدے کے تحت باہمی مذاکرات سے حل کرنا چاہیے۔ گزشتہ ماہ وائٹ ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ سے ملاقات میں کشمیر کے تنازعہ میں Mediation کرنے کی درخواست کی تھی۔ جسے صدر ٹرمپ نے قبول کرتے ہوۓ کہا تھا کہ Osaka جاپان میں ان کی وزیر اعظم مودی سے ملاقات میں بھی کشمیر کے تنازعہ پر بات ہوئی تھی۔ اور اگر وہ بھی کشمیر کے تنازعہ کے حل میں مدد کرنے کے لیے کہیں گے تو وہ ضرور مدد کریں گے۔ اس وقت صدر ٹرمپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ کشمیر پر بھارت کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ مودی حکومت ظلم و جبر سے کشمیریوں کی مرضی کے خلاف ان پر بھارت کی شہریت مسلط نہیں کر سکتی ہے۔ 70 سال سے ہر بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو اس آس میں رکھا تھا کہ انہیں Plebiscite کا حق دیا جاۓ گا۔ 40سال تک کشمیری عوام پر امن بیٹھے اس دن کا انتظار کرتے رہے۔ اور جب وہ دن نہیں آیا تو 30سال سے کشمیری عوام اس دن کی تلاش میں سڑکوں پر آۓ  ہیں۔ بھارتی حکومت انہیں اس دن میں لے جانے کے بجاۓ کشمیریوں کو وردیوں میں فوجی دے رہے ہیں جن کے ہاتھوں میں ڈنڈے لاٹھیاں اور گنیں ہیں۔ جو کشمیریوں کے گلے گھونٹ رہی ہیں۔ بھارتی فوجیوں کے نہتے کشمیریوں پر ظلم اور بربریت دیکھ کر یقین نہیں آتا ہے کہ واقعی بھارت دنیا کی ایک بڑی جمہوریت ہے۔
 حالانکہ 1990s میں پاکستان میں جو سیاسی حکومتیں تھیں وہ بھارت کے ساتھ فرینڈ لی تھیں۔ انہوں نے بھارت کو ایک انتہائی پسندیدہ ملک ہونے کا درجہ دیا تھا۔ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات فروغ دینے کو اہمیت دی تھی۔ دونوں ملکوں کے درمیان آمد رفت کے راستے کھولے تھے۔ کشمیر کو دونوں ملکوں میں تعلقات کی بحالی میں رکاوٹ نہیں بنایا تھا۔ حالانکہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک جاری تھی۔ پاکستان نے شملہ معاہدہ اور لاہور سمجھوتے کے تحت باہمی مذاکرات سے کشمیر کا تنازعہ حل کرنے کے سیاسی عمل کو اہمیت دی تھی۔ بلاشبہ اس سیاسی عمل کو نشیب و فراز، سو نامی، زلزلوں، آندھیوں، طوفانوں، طغیانیوں کے باوجود جاری رکھا جاتا۔ لیکن بھارت نے 9/11 کے بعد یہ سیاسی عمل ختم کر دیا اور کشمیر کا تنازعہ بش انتظامیہ کی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں لپیٹ دیا تھا۔ امریکہ نے اسرائیلی فوجی قبضہ کے خلاف فلسطینیوں کی جد و جہد کو دہشت گردی قرار دے دیا تھا۔ اور بھارت کے خلاف کشمیریوں کی جد و جہد کے پیچھے پاکستان کی دہشت گردی کا لیبل لگ گیا تھا۔ بھارت میں ٹرین پٹری سے اترنے کا الزام پاکستان کی دہشت گردی بتایا جاتا تھا۔ بھارت نے 17سال ان الزام تراشیوں میں برباد کر دئیے تھے۔ دنیا دہشت گردی کی جنگ سے تنگ آ گئی تھی۔ صدر ٹرمپ کی اس جنگ میں دلچسپی نہیں ہے۔ کشمیر کے حالات 17 سال پہلے کے مقابلے میں آج انتہائی بدتر ہیں۔ کشمیریوں سے بھارت کے روئیے نے نفرت پیدا کی ہے۔ کشمیری اب بھارت کے ساتھ  رہنا نہیں چاہتے ہیں۔ کشمیر کے حالات خراب کرنے کے ذمہ دار بھارتی لیڈر ہیں۔ مودی حکومت نے جذباتی اور ہندو پرستی میں کشمیر کا فیصلہ کر کے بھارت کو نئی الجھن میں ڈال دیا ہے۔ لیکن بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ 'آئیں بیٹھ کر بات چیت کریں۔
  بھارت کے معاشی مسائل کشمیر تنازعہ سے زیادہ اہم تھے۔ مودی حکومت کو اس وقت بھارتی معیشت پر توجہ دینا چاہیے تھی۔ عالمی معیشت میں Recession کے الارم سنائی دے رہے ہیں۔ بھارت کو ہر سال لاکھوں نوجوانوں کے لیے روز گار فراہم کرنا ہے۔ اس سال بھارت کا GDP 7.2 سے 5.69 فیصد پر آ گیا ہے۔ بیروزگاری تقریباً 8فیصد پر پہنچ رہی ہے۔ بھارت کی آ ٹو انڈسٹری نے ساڑھے تین لاکھ لوگوں کو بیروزگار کر دیا ہے۔ کیونکہ بھارت میں کاریں فروخت نہیں ہو رہی تھیں۔ TATA نے اپنے کئی کاروں کے پلانٹ بند کر دئیے ہیں۔ جاپان کی آ ٹو کمپنیوں نے بھی اپنے کئی آ ٹو پلانٹ بند کر دئیے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں بھارت میں Toilet کا نظام بہتر بنانے کے لیے کہا ہے۔ بھارت کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے پرانا دقیانوسی Toilet system ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بھارت میں لڑکی والے رشتہ دینے سے پہلے لڑکے والوں سے گھر کے Toilet system کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ بھارت کے مسائل میں کمی نہیں ہو رہی ہے بلکہ ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مودی حکومت نے اپنے پہلے 5سالوں میں گجراتی کاروبار یوں کے مسائل حل کیے ہیں۔ اور اب اپنے دوسرے 5سال کی ابتدا کشمیر کو چھیڑ کر سارے بھارت کو مسائل کے بھنور میں ڈال دیا ہے۔ بھارت کی معیشت پر اس کے گہرے اثرات ہوں گے۔ Brexit کا مسئلہ طے ہونے کے بعد بھارت کو  برطانیہ کی یلغار کا سامنا ہو گا۔ برطانیہ نے کہا ہے کہ جنوبی اور مشرقی ایشیا اس کی بڑی تجارتی مارکیٹ ہوں گے۔ اور بھارت اس میں پہلے نمبر پر ہے۔ بھارتی لیڈر جنوبی اور مشرقی ایشیا پر اپنا سیاسی تسلط دیکھ رہے ہیں۔ اور برطانیہ بھارت کی مارکیٹ پر اپنا تجارتی تسلط دیکھ رہا ہے۔ اس مرتبہ برطانیہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ نہیں بلکہ گجراتیوں کی کمپنیوں کے ذریعہ آۓ گا۔ جن کے کاروبار برطانیہ میں بھی ہیں اور بھارت میں بھی ہیں۔ عرب برطانیہ کے لیے اپنا سرمایہ بھارت میں لگا رہے ہیں۔ اور گجراتیوں کے کاروباروں میں انویسٹ کر رہے ہیں۔              



Wednesday, August 14, 2019

“Modi, Kashmir Is Not Your Father’s Property” “what do We Want? Freedom! When Do We Want It? Now



   “Modi, Kashmir Is Not Your Father’s Property” “what do We Want? Freedom! When Do We Want It? Now

Arab Regimes Interfered In Syria’s Internal Affairs, But On Kashmir They Say This Is India’s Internal Matter; Typical Hypocrisy.
مجیب خان

Incompetent political Leaders of India, using the military to solve a political conflict 





   جب تک بھارت کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں تھے۔ بھارتی لیڈروں کے مزاج جمہوری تھے اور قانون کا احترام بھی کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے کشمیر کی خود مختاری اور کشمیریوں کے قانونی حقوق کے بارے میں جن قانونی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ ان کا احترام بھی کرتے تھے۔ لیکن اسرائیل کے بھارت کے قریب تر آنے سے بھارتی لیڈروں کے دماغ بدل گیے ہیں۔ بھارتی لیڈروں کے مزاج زیادہ Aggressive ہو گیے ہیں۔ نہتی انسانیت کو Iron Fist سے Suppress کرنے لگے ہیں۔ اسرائیلی لیڈروں نے جس طرح اسرائیل کو صرف white Jews کی ریاست ہونے کا قانون منظور کیا ہے اسی طرح ہندو بھارتی لیڈر بھی بھارت کو بالخصوص کشمیر کو صرف ہندوؤں کی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ بہت جلد مقبوضہ کشمیر میں بھی مسلمانوں کے گھروں کو بلڈو زر سے گرایا جا رہا ہو گا۔ اور وہاں نئی ہندو بستیاں تعمیر ہونے لگے گی۔ بھارتی ہندوؤں نے صرف اس ایک مقصد سے نریندر مودی کو بھاری اکثریت دی ہے۔ اور مودی نے حکومت بنانے کے بعد سب سے پہلے کشمیریوں کے حقوق اور خود مختاری پر چھری چلائی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک لاکھ بھارتی فوج کشمیریوں کو ان کے گھروں میں نظر بند کرنے کے لیے بھیجی ہے۔ کشمیریوں کے باہر کی دنیا سے تمام رابطہ منقطع کر دئیے ہیں۔ اگر کشمیری گھروں سے باہر نکلے تو یہ مودی کا ایک دوسرا گجرات ہو گا۔
  وزیر اعظم مودی نے 9 اگست کو بھارتی عوام سے اپنے خطاب میں انہیں یہ خوش خبری سنائی ہے کہ "ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ انتشار زدہ علاقہ زیادہ محفوظ ہے۔" قوم سے خطاب میں مودی کہتے ہیں "جموں اور کشمیر کی خود مختار ریاست کا درجہ ختم کر کے [ جو ایک واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے] اسے وفاق کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے۔ تاکہ یہ ایک صاف ستھرا علاقہ ہو گا۔ حکومت میں کرپشن کم ہو گا۔ زیادہ سیکورٹی اور ایک مضبوط مقامی معیشت ہو گی۔" جیسے دہلی کی وفاقی حکومت فرشتوں کی حکومت ہے۔ جس میں کرپشن بالکل نہیں ہے۔ کشمیر کو انتشار زدہ علاقہ دراصل ایک Incompetent دہلی کی وفاقی حکومت نے بنایا ہے۔ جس نے سیکورٹی اور انتشار کے مسئلوں کو نئے مسئلے پیدا کر کے حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ مقبوضہ کشمیر کے حالات انتشار زدہ بنانے میں دہلی کی وفاقی حکومت کا ہاتھ ہے۔ یہ بھارت ہے جس نے کشمیر کو پسماندہ رکھنے کی پالیسی اختیار کی تھی۔ کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیا تھا اور بیرونی سرمایہ کاری کے دروازے بند کر دئیے تھے۔ اول یہ کہ بھارت کی کس ریاستی حکومت میں کرپشن نہیں ہے۔ وفاقی حکومت میں کرپشن ہے۔ یہ بھارت میں Good Governance کا فقدان ہے جس نے کشمیریوں کو اپنے حقوق اور خود مختاری کے لیے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ بھارت نے کشمیریوں سے Self Determination کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن پھر بھارت کے وعدہ سے Self غائب ہو گیا تھا۔ اور Determination اپنے لیے رکھا تھا کہ کشمیریوں کو خود مختاری کبھی نہیں ملے گی۔ دنیا گزشتہ کئی برسوں سے کشمیر میں جو مزاحمت دیکھ رہی ہے وہ دراصل Indian Determination Versus Kashmiri Determination ہے۔ بھارت نے کشمیریوں کو حق خود مختاری نہ دینے کا عزم کیا ہے اور کشمیریوں نے حق خود مختاری لینے کا عزم کر لیا ہے۔ بھارتی حکومت نے وقت گزاری اس میں دیکھی تھی کہ پاکستان کو کشمیر میں دہشت گردوں کو بھیجنے کا الزام دینے کی مہم شروع کر دی تھی۔ لیکن بھارتی حکومت نہ تو دہشت گردی کے مسئلہ پر پاکستان سے سنجیدہ بات چیت کرنے کے لیے تیار تھی۔ اور نہ ہی کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان سے سنجیدہ  ڈائیلاگ کرنے کے لیے تیار تھی۔ لیکن بھارتی حکومت پاکستان کے خلاف صرف الزام تراشیاں کرنے میں بہت سنجیدہ تھی۔
  80s افغانستان میں کمیونسٹ فوجوں کے خلاف امریکہ کی قیادت میں جہاد کے دور رس اثرات اور خطرناک نتائج پر وزیر اعظم اندرا گاندھی کی گہری نظر تھی۔ اور وہ جہاد ختم ہونے کے بعد جہادیوں کا کیا ہو گا اس بارے میں خاصی فکر مند تھیں۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے امریکہ کو جہادیوں کو دہشت گردی کی تربیت دینے سے منع کیا تھا۔ لیکن اس وقت امریکہ افغان اسلامی جہاد میں سوویت یونین کی شکست دیکھ رہا تھا۔ پھر 80s میں سکھوں کی خالصتان تحریک شروع ہو گئی تھی جو بھارت سے علیحدہ ہونا چاہتے تھے۔ اور اپنی ایک آزاد ریاست قائم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ خالصتان تحریک نے کشمیریوں میں آزادی کی تحریک کا  جذبہ پیدا کیا تھا۔ بھارت کے اندر اور اس کے ارد گرد یہ حالات تھے جو مقبوضہ کشمیر میں انتشار کی فضا پیدا کرنے کا سبب تھے۔ دہلی کی حکومت نے اس صورت حال پر توجہ دینے کے بجاۓ اپنی گنوں کا رخ پاکستان کی طرف کر دیا تھا۔ اور 9/11 کے بعد بھارت نے امریکہ کے ساتھ یہ حکمت عملی بنائی تھی کہ پاکستان کو افغانستان میں گھیر کر رکھا جاۓ۔ لیکن بھارت کشمیر میں کیا کر رہا تھا؟ بھارتی فوج کشمیریوں کو Suppressed کر رہی تھی۔ امریکہ نے اپنی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو فرنٹ لائن پر کھڑا کر دیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان اپنے بقا کی لڑائی لڑ رہا تھا۔ لیکن بھارت کی حکومت کیا کر رہی تھی؟ مقبوضہ کشمیر کے حالات پر توجہ دینے کے بجاۓ بھارتی حکومت پاکستان میں حالات خراب کرنے پر کام کر رہی تھی۔ آج مقبوضہ کشمیر کے حالات مشرقی پاکستان کے حالات سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ اور یہ حالات بھارت میں جمہوری حکومتوں نے پیدا کیا ہیں۔ کشمیریوں کے خلاف 20سال سے طاقت کا بھر پور استعمال ہو رہا ہے۔ بھارتی حکومت کے بھر پور فوجی طاقت کے استعمل نے کشمیریوں کی معیشت تباہ کی ہے۔ کشمیریوں کو بے روز گاری دی ہے۔ کشمیریوں کا انفرا اسٹیکچر تباہ کیا ہے۔ ان میں احساس محرومی پیدا کی ہے۔ انہیں یہ تاثر دیا جا رہا کہ کشمیر بہت جلد ہندو ریاست ہو گا۔ دہلی کی وفاقی حکومت امریکہ اور مغربی ملکوں کے لے اپنی مارکیٹ کھولنا نہیں چاہتی ہے کہ بھارت پر ان کا غلبہ ہو جاۓ گا۔ اور غلبہ ہونے سے بھارت پھر ان کی کالونی بن جاۓ گا۔ لیکن مقبوضہ کشمیر کو وفاقی حکومت میں لا کر مودی حکومت کشمیر کو ہندوؤں کے لیے کھول رہی کہ وہ اب یہاں زمینیں خرید سکیں گے۔ اور کشمیریوں کو ہندو بنا لیں گے۔
  70سال بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کیے تھے۔ تعلیم میں بھی بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو پیچھے رکھا تھا۔ کشمیر میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹیں پیدا کی تھیں۔ جس کے نتیجہ میں کشمیر میں بڑی صنعتیں نہیں ہیں۔ بے روز گاری بھارت کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں یہاں سب سے زیادہ ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو انتہائی پسماندہ رکھا ہے۔ وزیر اعظم مودی اور ان کے وزیر داخلہ اس کا الزام دہشت گردی کو دیتے ہیں کہ اس کی وجہ سے کشمیر کی معیشت بالکل تباہ ہو گئی ہے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت اب کشمیر میں ترقیاتی کاموں کو خصوصی اہمیت دے گی۔ سڑکیں اور پل تعمیر کیے جائیں گے۔ یہاں بیرونی سرمایہ کاری بھی آۓ گی۔ وزیر اعظم مودی کے کشمیریوں کو یہ سہا نے خواب  ایسے ہی ہیں۔ جو صدر ٹرمپ کے داماد Jared Kushner  اپنے امن منصوبہ میں فلسطینیوں کو دیکھا رہے ہیں کہ 50بلین ڈالر کے ترقیاتی منصوبے فلسطین میں شروع کیے جائیں گے۔ فلسطین میں سڑکیں اور پل تعمیر کیے جائیں گے۔ ایجوکیشن اور صحت عامہ کے شعبوں کو ترقی دی جاۓ گی۔ فلسطینیوں کے لیے روز گار کے موقعہ فروغ دئیے جائیں گے۔ یہ صرف باتیں ہیں اور اس میں کوئی قابل اعتماد حقیقت نہیں ہے۔
  وعدے اور معاہدوں پر عملدرامد کرنے میں بھارت کا ریکارڈ خراب ہے۔ کانگریس پارٹی کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پاکستان کے ساتھ شملہ معاہدہ کیا تھا۔ جس میں دونوں ملکوں نے کشمیر سمیت تمام تنازعہ دو طرفہ مذاکرات سے حل کرنے کا کہا تھا۔ پھر جنتا پارٹی  کے وزیر اعظم  اٹل بہاری با جپائی لاہور آۓ تھے۔ اور مینار پاکستان پر لاہور سمجھوتہ کیا تھا۔ اور دونوں ملکوں نے ایک بار پھر مذاکرات کے ذریعہ تمام تنازعہ حل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اور دونوں ملکوں میں تجارت بحال کرنے  اور آمد و رفت میں سہولیتیں دینے کا کہا تھا۔ شملہ اور لاہور سمجھوتوں میں بھارت نے جو اپنے مفاد میں دیکھا تھا۔ اس پر پاکستان سے عملدرامد کرایا تھا۔ لیکن جو پاکستان کے مفاد میں اہم تھا۔ اس پر ٹال مٹول، حیلے بہانے کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور پھر اس سے  منہ موڑ لیتے تھے۔ Universal حقوق اور آزادی کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو دہشت گردی کی جنگ کا حصہ بنا دیا تھا۔ بھارتی حکومتیں اپنی نااہلی اور غلطیوں کے بہتان پاکستان پر Dump کر رہی ہیں۔ تنازعوں کا حل الزام تراشی میں دیکھنے میں بھارت، اسرائیل اور امریکہ بری طرح Fail ہوۓ ہیں۔ سیاسی طور پر اب یہ Brain Drain کا شکار ہیں۔ اس لیے امریکہ اور اسرائیل Economic Sanctions اور بھارت Military کو استعمال کر رہے ہیں۔
  عرب حکومتیں کشمیریوں کی سیاسی حقوق اور آزادی کی تحریک کو مودی حکومت کی بھر پور فوجی طاقت سے Suppressed کرنے کو بھارت کا داخلی معاملہ کہہ کر اس لیے حمایت کر رہے ہیں کہ وہ خود اپنے عوام کے سیاسی حقوق اور آزادی کی آوازوں کو Suppressed کر رہے ہیں۔ اور ٹرمپ انتظامیہ کا رد عمل اس لیے Cold ہے کہ یہ فلسطینیوں پر اپنا امن منصوبہ مسلط کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ دیکھ کر مودی نے بھی کشمیریوں پر اپنا امن منصوبہ کرفیو کی صورت میں مسلط کر دیا ہے۔