Thursday, May 30, 2019

John Bolton “No Doubt that North Korea has violated the United Nations resolutions”




     John Bolton “No Doubt that North Korea has violated the United Nations resolutions”
 
 But the World has no doubt that America has also violated the United Nations’ resolutions on Iran nuclear deal     
مجیب خان
Paul Wolfowitz Lead Architect of regime change in Iraq

Bernard Henri Levy organizer  of regime change in Libya 

Working hard for regime change in Iran  

John Bolton Under Secretary of State Arms control and International security in Bush administration




    قومی سلامتی کے مشیر John Bolton نے جاپان میں شمالی کوریا کے Short range ballistic missile تجربہ پر کہا ہے کہ "یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔" یہ بیان دے کر انہوں نے دنیا میں امریکہ کا مذاق بنایا ہے۔ کیونکہ خود امریکہ نے ایران کے ایٹمی سمجھوتہ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی Gross violations کی ہے۔ سلامتی کونسل کے 15 اراکین نے اس سمجھوتہ کی حمایت میں قرار داد منظور کی تھی۔ اور اسے ایک قانونی مسودہ بنایا تھا۔ امریکہ کی سابق انتظامیہ نے بھی اس سمجھوتہ پر دستخط کیے تھے۔ لیکن John Bolton جس انتظامیہ کا حصہ ہیں۔ اس نے اقوام متحدہ کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ اور ایران ایٹمی سمجھوتہ کے قانونی دستاویز کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ ایران پر صدر ٹرمپ نے اپنی اقتصادی بندشیں لگائی ہیں۔ اور دنیا کو دھونس اور دھم کیوں سے ان اقتصادی بندشوں کا پابند بنایا جا رہا ہے۔ جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ایک مسئلہ کا جب پرامن حل ہو گیا تھا تو ٹرمپ انتظامیہ اس مسئلہ کو اب فوجی طاقت سے حل کرنا چاہتی ہے۔ دنیا میں Donald Trump, Johan Bolton, Benjamin Netanyahu, Saudi King جنہیں ایران کے ایٹمی سمجھوتہ میں خامیاں نظر آ رہی ہیں۔ جبکہ امریکہ کے 3 ہزار سے زیادہ سائنسدانوں نے اس سمجھوتہ کی حمایت کی ہے۔ یہ چار افراد اکثریت کے فیصلے نہیں مانتے ہیں۔ جو جمہوریت میں بنیادی اصول ہیں۔ اور یہ بھی جمہوریت کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ایران کے لوگوں کو B-52 اور دوسرے خوفناک ہتھیاروں کی نقل و حرکت سے خوفزدہ کرنا، Threat کرنا اقوام متحدہ کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ عالمی قوانین کو By Pass کرنے کا سلسلہ 9/11 کی آ ڑ میں قومی سلامتی کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ سابقہ دو انتظامیہ میں عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹیری جنرل قو فی عنان مرحوم نے بش انتظامیہ کے عراق کے خلاف بھر پور فوجی طاقت استعمال کرنے کو غیر قانونی اقدام کہا تھا۔
  ہر امریکی انتظامیہ نے مڈل ایسٹ کے تنازعوں کو پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنایا ہے۔ اور پھر انہیں فوجی طاقت سے حل کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اور حالات اور زیادہ خراب کیے ہیں۔ یہ پالیسی ہتھیار بنانے والی کمپنیوں کے مفاد میں ہو سکتی ہے۔ لیکن اس خطہ کے لوگوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ عراق میں مہلک ہتھیاروں کو تباہ کرنے اور صد ام حسین کا اقتدار ختم کرنے کے بعد امریکہ نے عراق کی تعمیر نو کرنے کے بجاۓ اسے سب سے پہلے کھربوں ڈالر کے  نئے ہتھیار فروخت کیے تھے۔ عراق میں شیعہ اور سنی ملیشیا بناۓ تھے۔ انہیں بھی لاکھوں ڈالر کے ہتھیار دئیے تھے۔ John Bolton بش انتظامیہ میں Arms control and International security affairs کے Under Secretary of State تھے۔ لیکن انہوں نے مڈل ایسٹ میں Arms control اور Security کے سلسلے میں کیا کیا تھا۔ دنیا میں امریکہ کے علاوہ کسی ملک کے پاس 18سال تک جنگ لڑنے کے وسائل ہیں اور نہ خزانہ میں کھربوں ڈالر ہیں۔ صدر قد ا فی نے اپنے ملک کو تباہی سے بچانے اور امن و استحکام کے لیے اپنے تمام مہلک ہتھیاروں کو امریکہ کے حوالے کر دیا تھا۔ لیکن ایک دوسرے صدر نے Bunch of NATO ملکوں کے ساتھ لیبیا پر بمباری کر کے ریاست گرا دی۔ لیبیا کے ٹکڑے کر دئیے۔ 8سال ہو رہے ہیں لیبیا ابھی تک ایک ملک بن سکا ہے نہ ہی لیبیا میں امن ہے اور استحکام ہے۔ امریکہ کے صدر فرانس کے صدر برطانیہ کے وزیر اعظم لاکھوں بے گناہ لوگوں کی زندگیاں تباہ کر کے چلے گیے۔ ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ اپنے عوام کی بقا سلامتی اور استحکام کے لیے کیا تھا۔ اپنے نیو کلیر پاور پلانٹ بند کر دئیے تھے۔ امریکہ کے ایک نئے صدر آۓ انہوں نے کہا مجھے ایران کا ایٹمی سمجھوتہ پسند نہیں ہے اور میں اس سمجھوتہ کو نہیں مانتا ہوں۔ اس سمجھوتہ پر دنیا نے اپنے دو قیمتی سال لگاۓ تھے۔ انہوں نے قلم اٹھایا اور ایران پر انتہائی ظالمانہ اقتصادی بندشیں لگا دی ہیں۔ اور اب اس کا انتظار ہے کے ریاست پہلے گرتی ہے یا Regime پہلے گرتا ہے۔ اور اگر دونوں میں سے کوئی نہیں گرتا ہے تو امریکی فوجیں تیار کھڑی ہیں۔ عراق میں بھی امریکہ نے یہ ہی کیا تھا۔ 9سال عراق پر انسانی تاریخ کی انتہائی بدترین اقتصادی بندشیں لگائی تھیں۔ اور پھر انتظار کیا تھا کہ عراقی ریاست پہلے گرتی ہے یا صد ا م حسین حکومت گرتی ہے لیکن جب دونوں ہی نہیں گرے تو امریکہ نے فوجی طاقت استعمال کی اور دونوں ہی گرا دئیے تھے۔ کس امریکی انتظامیہ نے کب مڈل ایسٹ میں اچھے فیصلے کیے ہیں؟ صدر ٹرمپ جس قلم سے ایران کے خلاف اقتصادی بندشوں کے احکامات جاری کر رہے ہیں۔ اسی قلم سے صدر ٹرمپ  مڈل ایسٹ کو نیو کلیر ہتھیاروں سے صاف خطہ بھی قرار دے سکتے ہیں۔ مڈل ایسٹ کے تمام رہنما اس کے حق میں ہیں اور اس کا ایک عرصہ سے مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ لیکن امریکہ کا یہاں مفاد ہتھیاروں کی مارکیٹ ہے۔ یہاں بادشاہوں کو دشمن بنا کر دینا اور جنگیں Arrange کرنا سب سے آسان کام ہے۔ صدر ٹرمپ نے جاپان میں کہا ہے " وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ایران نیو کلیر ہتھیار نہیں بناۓ۔" لیکن دوسری طرف واشنگٹن میں صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کو نیو کلیر پاور پلانٹ فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ کی یہ پالیسیاں دنیا کے لیے مسئلے پیدا کر رہی ہیں۔ شاہ ایران کے دور میں قومی سلامتی امور کے مشیر ہنری کیسنگر تھے۔ جنہوں نے اپنی انتظامیہ سے ایران کو 4 نیو کلیر پاور پلانٹ فروخت کرنے کی درخواست کی تھی۔ لیکن شاہ ایران کے زوال کے بعد آیت اللہ خمینی نے نیو کلیر پاور پلانٹ بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن ریگن انتظامیہ نے سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں کے ساتھ ایران کے اسلامی انقلاب کو سبوتاژ کرنے کی سازش کی تھی اور صد ام حسین کو ایران سے جنگ کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ اس سے قبل امریکہ نے 1950s میں ایران میں ڈاکٹر مصدق کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر شاہ کی آمریت بحال کی تھی۔ ایران کی انقلابی حکومت نے اپنے اطراف دشمنوں اور سازشوں کا جال دیکھ کر نیو کلیر پاور پلانٹ کے دروازے کھولنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور اب تیسری بار ایران میں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ خمینائی نے نیو کلیر ہتھیار بنانے اور رکھنے کے خلاف فتوی دیا ہے۔
   بش انتظامیہ میں عراق میں Regime change کے Lead architect ڈپٹی سیکرٹیری ڈیفنس Paul Wolfowitz تھے۔ جنہوں نے انتظامیہ اور کانگرس میں عراق کے خلاف ملٹری ایکشن کو بڑے Aggressively Push  کیا تھا۔ عراق پر حملہ کرو مہم میں Paul Wolfowitz ڈرائیونگ سیٹ پر تھے۔ جبکہ انتظامیہ، کانگرس، مختلف لابیوں کے War mongers اور میڈیا ان کے پیچھے تھا۔ عوام کی راۓ عامہ کی حمایت کے لیے 9/11 کو Ruthlessly exploit کیا گیا تھا۔ Paul Wolfowitz اپنے عراق مشن میں کامیاب ہو گیے تھے۔ صدر بش نے عراق پر Preemptive حملہ کیا تھا۔ اور صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ صدر بش اب عراق کے بھی صدر ہو گیے تھے۔ تاہم امریکہ کا عراق پر حملہ اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کی خلاف ورزی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کسی قرارداد میں صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کا نہیں کہا گیا تھا۔ امریکہ Rule of Law اگر میں اپنے رول ماڈل ہونے کا ثبوت دیتا۔ تو شاید آج شمالی کوریا بھی اس مثال کی پیروی کرتا۔
  لیبیا میں قد ا فی حکومت کے خلاف اقوام متحدہ کے کس قانون کے تحت کاروائی کی گئی تھی؟ صدر قد ا فی نے اپنے ملک کو تمام مہلک ہتھیاروں سے خالی کر دیا تھا۔ قد ا فی حکومت کے خلاف اپوزیشن کا احتجاج لیبیا کا داخلی مسئلہ تھا۔ جیسے فرانس میں تقریباً 4ماہ سے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ پیرس میں زندگی مفلوج ہو گئی ہے۔ لیکن یہ فرانس کا داخلی مسئلہ ہے۔ اور اس میں کس طرف سے بھی مداخلت نہیں کی جا رہی ہے۔ لیکن فرانس کے ایک شہری Bernard Henri Levy   کا حکومت میں اتنا زیادہ اثر و رسوخ تھا کہ  لیبیا میں قد ا فی حکومت کو ختم کرنے میں اس کا رول تھا۔ Levy نے قد ا فی حکومت کے مخالفین  کی صدر Nicolas Sarkozy سے ملاقات کر آئی اور صدر Sarkozy سے اپوزیشن کی حمایت کرنے کا کہا تھا۔ صدر Sarkozy نے قد ا فی کے مخالف اپوزیشن کو مشورہ  دیا کہ وہ ایک National Libyan Council بنائیں۔ فرانس کونسل  کو لیبیا کی نئی حکومت تسلیم کر لے گا۔ لیبیا کی اپوزیشن کونسل نے فرانس کی اس مکمل حمایت پر لیبیا کے Total Crude Oil کا 35 فیصد فرانس کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ Bernard Henri Levy نے صدر Sarkozy سے لیبیا میں قد ا فی حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے لابی کی تھی۔ [اس وقت Venezuela میں ٹرمپ انتظامیہ نے اسی پلان کے تحت Maduro حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اپوزیشن لیڈر کو Venezuela کا قانونی صدر قرار دیا ہے۔ اور یورپی ملکوں نے بھی اسے قبول کر لیا ہے۔] صدر Sarkozy نے اس مشن میں برطانیہ کے وزیر اعظم David Cameron کی حمایت حاصل کر لی تھی۔ وزیر اعظم David Cameron نے صدر اوبامہ کو لیبیا میں Regime Change کرنے کے مشن کی قیادت کرنے کا کہا۔ صدر اوبامہ نے امریکہ کی قومی سلامتی کے مفاد میں ایک غیر قانونی مشن کو قانونی ثابت کرنے کی دلیلیں دینا شروع کر دیں تھیں۔ چند ہی ہفتوں میں امریکہ کے B-52 ، برطانیہ اور فرانس کے طیاروں سے بم برسنے لگے تھے۔ ان کی اس بمباری کا مقصد صدر قد ا فی کو لیبیا میں Genocide سے روکنا تھا۔ دنیا کے لیے B-52 طیاروں کی بمباری سے Genocide کو روکنے کی یہ ایک نئی ایجاد تھی۔ حالانکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کسی قرار داد میں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ 3 ویٹو پاور لیبیا پر بمباری کر کے قد ا فی حکومت کا خاتمہ کر دیں۔ اب 8سال سے لیبیا میں مغربی طاقتوں کے ہتھیاروں سے Genocide ہو رہا ہے۔ بے گناہ لوگ Wholesales سے مر رہے ہیں۔ صدر اوبامہ، صدر Sarkozy ، وزیر اعظم David Cameron اپنے گھروں کو چلے گیے ہیں۔ Bernard Henri Levy لیبیا کے حالات میں اپنا نیا فلسفہ ایجاد کر رہے ہیں۔ John Bolton شمالی کوریا کے میزائل تجربہ کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کہتے ہیں۔ لیکن عراق لیبیا یمن شام فلسطین ایران اقوام متحدہ کی قرار دادوں، اقوام متحدہ کے قوانین، اقوام متحدہ کے Nation States اصولوں کی مسلسل خلاف ورزیوں کی مثالیں ہیں۔ John Bolton اب ایران میں Regime change مشن پر ہیں۔                                                                                                     


Saturday, May 25, 2019

Yesterday, Saddam Hussein Was A Danger, Today The Iranian Regime Is A “Threat”, Will Turkey’s Erdogan Also Be A Threat Tomorrow?



    Yesterday, Saddam Hussein Was A Danger, Today The Iranian Regime Is A “Threat”, Will Turkey’s Erdogan Also Be A Threat Tomorrow?
     
Saudi Arabia, since The 1980s, from King Khalid to King Fahd to King Abdullah to King Salman we’re supporters of America’s radical foreign policy; and financiers of all-American wars. Saudi Arabia also supports and finances the radical, extremist Islamic organizations in the Islamic World.    

مجیب خان
Hiroshima-Nagasaki

Hiroshima-Nagasaki

Saudi-led airstrike wreak destruction in Sana

Saudi-led coalition pounding of Shiite rebel forces, Sana
Human destruction in Syria

Syria, just like Hiroshima-Nagasaki





     سعودی کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "Kingdom کا اس میں یقین ہے کہ خطہ کے تمام لوگوں کو امن سے رہنے کا حق ہے اور ایرانی بھی اس میں شامل ہیں، عالمی برادری تہر ان میں ایرانی حکومت کو  انتشار اور تباہی پھیلانے سے روکنے کے لیے اس کے خلاف سخت اقدام کرے۔ کابینہ نے علاقائی اور عالمی امور میں ہونے والی تبدیلیوں پر رپورٹوں کا جائزہ لینے کے بعد سعودی شاہ نے 30 مئی کو GCC اور عرب رہنماؤں کی مکہ میں کانفرنس کا اعلان کیا ہے۔ شاہ کے اس فیصلے سے اس کی عکاسی ہوتی ہے کہ Kingdom دوسرے ملکوں کے ساتھ  علاقہ کی سلامتی اور استحکام کے لیے کام کرنے میں خصوصی دلچسپی رکھتی ہے۔ سعودی کابینہ نے عالمی برادری سے تہر ان میں حکومت کے خلاف سخت اقدام کرنے اور اپنی ذمہ دار یوں کو پورا کرنے پر زور دیا ہے۔ ایران کو دنیا بھر میں دخل اندازی کرنے اور اسے انتشار پھیلانے کی سرگرمیوں سے باز رکھا جاۓ۔' رمضان کے انتہائی مقدس اور اللہ کی رحمتوں کے ماہ مقدس میں سعودی کابینہ نے عالمی برادری سے تہران میں حکومت کے خلاف اپنے غضبناک اقدام نازل کرنے کا کہا ہے۔ تاہم ایران میں ایک اسلامی حکومت ہے۔ اور اس حکومت میں بھی بڑی پابندی سے روزے ر کھے جاتے ہیں۔ رمضان عبادتوں کا مہینہ ہے۔ عالم اسلام پر اس برے وقت میں ایرانی خصوصی طور پر عالم اسلام کی سلامتی، امن، استحکام، اور فلاح و بہبود کے لیے دعائیں مانگتے ہوں گے۔ بلاشبہ تہران میں یہ عالمی کائنات کے مالک اللہ سے کہا جاتا ہو گا کہ ' اے اللہ انسانیت کی بقا اور سلامتی میں تو اپنی ذمہ دار یاں پوری کر اور جن عرب رہنماؤں کی عقلوں پر دنیا کے آ قا ؤ ں نے پردے ڈال دئیے ہیں۔ اور انہیں اپنے ہر طرف تیرے کلمہ گو دشمن نظر آ رہے ہیں۔ اے اللہ ان کی عقلوں سے پردے ہٹا دے۔ بھٹکے حکمرانوں کو امن کا راستہ دیکھا۔ اور یہ GCC کے حکمران ہیں۔ جو Kingdom کی قیادت میں بھٹک گیے ہیں۔ ماہ رمضان میں عالمی برادری سے کہتے ہیں کہ ایران دنیا بھر میں دخل اندازی کر رہا ہے۔ تباہیاں پھیلا رہا ہے۔ اور دنیا کے آ قا ؤ ں سے کہتے ہیں کہ اسے روکا جاۓ۔ یہ مکہ اور مدینہ میں بیٹھے ہیں اور اللہ کا کلمہ پڑھ کر یہ خود بھی اسے روک سکتے ہیں۔ لیکن عالمی برادری کو یہ بتاتے ہیں کہ یہ امریکہ نہیں ایران ہے جو 9/11 کے بعد سے اسلامی ملکوں میں مداخلت کر رہا ہے۔ حکومتیں تبدیل کر رہا ہے۔ اور مڈل ایسٹ کو اس نے عدم استحکام کر دیا ہے۔ ہر اسلامی ملک انتشار کے حالات میں گھرا ہوا ہے۔ معیشتیں ان کی تباہ حال ہیں۔ 4 اسلامی ملک بالکل تباہ ہو چکے ہیں۔ اور ایران کو تباہ کرنے کے لیے چھریاں تیز ہو رہی ہیں۔ امریکہ کے مفادات خطرے میں ہیں۔ جیسے 300 ملین عرب لوگوں کی زندگیوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟
  لیکن یہ ایران تھا جس نے عراق میں ایک سنی حکومت کے خلاف بش انتظامیہ کے فوجی حملہ کی مخالفت کی تھی۔ جبکہ GCC کے سنی ملکوں نے عراق پر امریکی فوجی حملہ کو Facilitate کیا تھا۔ یہ ایران تھا جس نے لبنان کے علاقوں کو اسرائیلی فوجی قبضہ سے آزاد کرانے میں حزب اللہ کی مدد کی تھی۔ ورنہ صدر ٹرمپ آج جنوبی لبنان پر اسرائیل کے قبضہ کو اس کی سلامتی کے مفاد میں اس کا Sovereign حصہ قرار دے دیتے۔ لبنانی آج ایران کے شکر گزار ہوں گے۔ جیسے اسرائیلی آج امریکہ کے ممنون ہیں کہ عربوں کے علاقوں پر اس کا قبضہ اب اسرائیل کی نئی سرحدیں بن گئی ہیں۔ فلسطینیوں کو بے گھر کر کے اس کی جگہ نئی یہودی بستیاں بھی عظیم تر اسرائیل کا حصہ بن گئی ہیں۔ بہرحال لبنان میں آج امن اور استحکام کے فروغ میں ایران کا ایک اہم رول ہے۔ شیعہ سنی اور عیسائی حکومت میں ہیں۔ جمہوری آئینی اور قانونی ادارے نظام کو استحکام اور عوام کے حقوق کا تحفظ کر رہے ہیں۔ اکثریت اور اقلیتیں مل کر حکومت کر رہی ہیں۔ جبکہ اسرائیل کی Pseudo Democracyمیں صرف یورپی نسل کے یہودیوں کو حکومت کرنے کا حق ہے۔ GCC ملک سعودی عرب کی قیادت میں اگر خطہ میں بالخصوص عراق کے استحکام میں سنجیدہ ہوتے تو یہ ایران کے ساتھ مل کر عراق کو خانہ جنگی سے بچاتے اور اسے استحکام دینے کے اقدامات کرتے۔ لیکن GCC ملکوں نے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونے کو اہمیت دی تھی۔ جن کی ملٹری پاور مڈل ایسٹ کو ایک جنگ کے بعد دوسری جنگ سے Destabilize کر رہی تھی۔ GCC ملکوں نے شام کو تباہ کرنے کی جنگ میں کس مقصد سے حصہ لیا تھا؟ سعودی کابینہ کے اجلاس میں یہ کہا ہے کہ ایران دنیا کو عدم استحکام کرنے کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ لیکن حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اس خطہ کو اسرائیل اور دنیا کو امریکہ کے بغیر کوئی عدم استحکام کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔ Hiroshima  Nagasaki  اور Syria اس کے ثبوت ہیں۔ GCC ملکوں نے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ اتحاد میں شام کے ایک داخلی سیاسی انتشار میں مداخلت کی پھر اسے ایک خوفناک خانہ جنگی  کا گھڑ بنایا اور اس سے دنیا کو عدم استحکام کرنے کی کوشش کی تھی۔ فرانس، برطانیہ، بلجیم، ڈنمارک، اسپین میں بموں کے دھماکہ ہونے لگے تھے۔ شام کی خانہ جنگی کے شعلوں نے یورپ کو لپیٹ میں لے لیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جو جنگ جارج بش نے شروع کی تھی وہ دراصل دہشت گردی کو فروغ دینے کی جنگ ثابت ہو رہی تھی۔ GCC ملکوں کی دولت اس جنگ میں رول ادا کر رہی تھی۔ یہ ملک شام کے لوگوں کی آزادی کی حمایت کن چہروں سے کر رہے تھے۔ جبکہ ان کے اپنے ملکوں میں لوگوں کو کوئی سیاسی آزادی نہیں تھی۔ ان کے ہزاروں شہری جیلوں میں اذیتوں کا سامنا کر رہے تھے۔ سعودی حکومت نے پہلے 150 اور حال ہی میں 37 لوگوں کے صرف حکومت کی مخالفت کرنے پر گلے کاٹ کر موت کی سزائیں دی ہیں۔ سعودی حکومت، اسرائیل اور امریکہ آج ایران کے خلاف جو پراپگنڈہ کر رہے ہیں۔ دنیا کے 6بلین لوگ جن میں ایک بلین سے زیادہ مسلمان بھی ہیں اس پر بالکل  یقین نہیں کرتے ہیں۔
  دنیا میں جو Genuine Human Beings ہیں جب وہ شام میں انسانیت کی تباہی اور اس ملک کی بربادی دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ یہ دیکھ کر انہیں دہشت گردوں اور دہشت گردوں کے خلاف باتیں کرنے والوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ہے۔ دونوں سے انہیں نفرت ہونے لگتی ہے۔ ان کی نگاہوں میں دونوں انسانیت کے دشمن ہیں۔ یہ Senseless Human ہیں۔ شام ایک قدیم اسلامی تاریخ کا نگینہ تھا۔ اسلام کے عظیم پیغمبروں کے یہاں مقبرے ہیں۔ اسلام کی یہاں عظیم یاد گاريں ہیں۔ یہاں عیسائوں کی ایک ہزار سال کی تاریخ ہے۔ ان کے مقدس مقامات ہیں۔ اس شام کو تعلیم یافتہ ملکوں نے جاہلوں کے ساتھ مل کر تباہ کیا ہے۔ تاریخ انہیں شاید کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ان ملکوں نے لیبیا کو Destabilize کیا ہے۔ لیبیا کے لوگوں کا امن استحکام اور اقتصادی خوشحالی تہس نہس کر دی ہے۔ لیبیا کے بچوں کا مستقبل تاریک کر دیا ہے۔ ہتھیار ان کے ہاتھوں میں دے دئیے ہیں اور دنیا سے کہا جا رہا ہے کہ ہم دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں۔  یہ وہ حقائق ہیں جو سعودی کابینہ کے اس بیان کی تائید نہیں کرتے ہیں کہ ایران دنیا کو Destabilize اور Destroy کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کہتے ہیں ایران دنیا کا ایک انتہائی Dangerous ملک ہے۔ B-52 امریکہ کے پاس ہے، Daisy Cutter Bomb امریکہ کے پاس ہیں، ایٹم بم امریکہ کے پاس ہے، 30ہزار سے زیادہ Nuclear Weapons امریکہ کے پاس ہیں۔ لیکن ایران دنیا کا ایک انتہائی خطرناک ملک ہے۔ کوئی جاہل انسان یہ سنے گا تو قہقہہ لگاۓ گا۔ دنیا میں امریکہ نے ہتھیاروں کا استعمال سب سے زیادہ کیا ہے یا ایران نے؟ ایرانی ملاؤں نے صرف ایک جنگ عراق سے لڑی تھی جو ان پر مسلط کی گئی تھی۔ اور انقلاب ایران کے ابتدائی دنوں میں ان کے انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے شروع کی گئی تھی۔ یہ جنگ 9 سال جاری رہی تھی۔ ایک ملین سے زیادہ ایرانی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ ایران میں مردوں کی قلت ہو گئی تھی۔ ایرانی عورتوں کو شادی کے لیے مرد نہیں تھے۔ لیکن ان حالات میں بھی انقلاب ایران نے Survive کیا تھا۔ اور اس جنگ کے بعد ایران کبھی جنگ نہیں کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کے ویت نام جنگ میں 60ہزار فوجی مارے گیے تھے۔ جبکہ کوریا کی جنگ میں بھی بڑی تعداد میں امریکی مارے گیے تھے۔ لیکن امریکہ نے جنگوں کو ترک نہیں کیا ہے۔ امریکہ کا ہر صدر دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگ ضرور کرے گا۔ ورنہ اسے امریکہ کی قومی سلامتی اسٹبلیشمنٹ کمزور اور نامرد صدر سمجھتی ہے۔ اس لیے امریکہ کے صدر کو قومی سلامتی کے مفاد میں کہیں نہ کہیں مہم جوئیاں ضرور کرنا پڑتی ہیں۔ Fake Enemy Invent کیے جاتے ہیں۔ امریکی میڈیا جنگ کا ماحول بناتا ہے۔ اور امریکہ کے مفادات کے دشمنوں کے خلاف جنگ شروع ہو جاتی ہے۔
  ایسی ہی ایک Fake war امریکہ نے سعودی عرب کو مصروف رکھنے کے لیے یمن میں دی ہے۔ اور اس سے امریکہ برطانیہ فرانس اور اسرائیل کھربوں ڈالر بنا رہے ہیں۔ یمن کی جنگ ایران نے سعودی عرب کو نہیں دی ہے۔ یہ جنگ صدر اوبامہ  سعودی بادشاہ کو دے کر گیے ہیں۔ امریکہ تقریباً 17سال سے یمن میں القا عدہ کے خلاف آپریشن  کر رہا تھا۔ سی آئی اے، اسپیشل فورسز ز کی کاروائیاں ہو ری تھیں۔ ڈرون حملہ بھی ہو رہے تھے۔ 2015 میں اوبامہ انتظامیہ نے یمن میں علی عبداللہ صالح حکومت کو 500ملین ڈالر سے زیادہ کا اسلحہ دیا تھا۔ یہ اسلحہ یمن میں سعودی عرب کے ساتھ ہو تیوں کی جنگ شروع ہونے سے کچھ ماہ قبل غائب ہو گیا تھا۔ پینٹ گان کے حکام کو یہ خدشہ تھا کہ یہ ہتھیار ہو تیوں اور القا عدہ کے ہاتھوں میں پہنچ جائیں گے۔ بلاشبہ ہوتی ان ہتھیاروں سے سعودی عرب سے لڑ رہے ہیں۔ علی عبداللہ صالح خود بھی ہوتی تھے۔ امریکہ اور اسرائیل میں امن کے لیے اتنے Experts نہیں ہیں۔ لیکن جنگیں شروع کرنے کے لیے سازشیں کرنے کے Experts کی ایک فوج ہے۔ عالمی میڈیا پر ان کا کنٹرول ہے۔ عراق کی مثال دنیا کے سامنے ہے کہ اس ملک میں تباہی پھیلانے کی جنگ کے لیے میڈیا کے ذریعہ کس قدر جھوٹ بولا گیا تھا۔ دنیا میں یمنی ہو تیوں کی حمایت ہر وہ ملک کرے گا جن کے دل میں غریب انسانیت کا درد ہے۔ اور ایران بھی ان میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ سعودی، اسرائیلی اور امریکہ جو کہتے ہیں وہ سب Myth ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نے 1980s میں ایران اور عراق جنگ میں دونوں ملکوں کو 9سال تک ہتھیار فروخت کیے تھے۔ اور اس جنگ سے کھربوں ڈالر کا کاروبار کیا تھا۔ اگر امریکہ اور اسرائیل نے اس وقت عراق اور ایران کو ہتھیار فروخت کیے تھے تو اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ اب سعودی عرب اور یمن میں ہو تیوں کو بھی ہتھیار دے رہے ہیں۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo کے پاس یہ اطلاع آ گئی تھی کہ ونزویلا میں Maduro ملک چھوڑ کر جانے کے لیے طیارے میں سوار ہو گیے  تھے۔ لیکن روس نے انہیں جانے سے روکا تھا اور وہ طیارے سے اتر آۓ تھے۔ لیکن Mike Pompeo سی آئی اے کے ڈائریکٹر تھے لیکن انہیں ایک تو یہ نہیں معلوم تھا کہ ISIS کو کس نے بنایا تھا؟ اور کون اسے فنڈ ز دے رہا تھا؟ دوسرے ایران کس راستہ سے ہو تیوں کو ہتھیار پہنچا رہا تھا؟ اور 500ملین ڈالر کی مالیت کے ہتھیار جو یمن میں غائب ہوۓ تھے وہ کہاں ہیں؟ یہ امریکی عوام کے ٹیکس کے ڈالر تھے۔ یہ ان زخمی امریکی فوجیوں پر خرچ کیے جا سکتے تھے جو عراق اور افغان جنگ میں زخمی ہوۓ ہیں اور ابھی تک زیر علاج ہیں۔
  اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ایران دنیا کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ آج Social Media کی دنیا میں لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے۔ لوگ آج لیڈروں سے زیادہ Smart ہیں۔ دنیا کے لیے ایران اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا کے امن اور استحکام کے لیے مسئلہ امریکہ ہے کہ  کسی طرح دنیا اس کی ہتھیاروں اور جنگوں کے نشہ کی عادت کو ختم کرے اور کس طرح اسے پرامن انسان بنانے کے لیے Rehabilitate  کیا جاۓ؟؟؟ ہر وقت ہر جگہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے خوفناک ہتھیار لے کر امریکہ آ جاتا ہے۔ آج کے حالات میں پلٹ کر 50سال پہلے کی دنیا دیکھی جاۓ تو کمیونسٹ خاصے معقول جمہوری ذہن کے نظر آتے ہیں۔ امریکہ نے آج اپنے جمہوری انسانی اخلاقی قانون کی بالا دستی، انسانی حقوق کے کپڑے اتار دئیے ہیں۔ اور عدی امین کی فوجی وردی میں B-52 اڑانے  شروع کر دئیے ہیں۔ اور اس Endeavor میں سعودی عرب ان کا بنک  ہے۔                               

Wednesday, May 15, 2019

Who Is Destabilizing The Middle East?



  Who Is Destabilizing The Middle East?
مجیب خان






  دو اسلامی ملکوں کے ساتھ یہ کیسا مذاق ہے کہ عراق میں صد ام حسین کے بارے میں دنیا کو یہ بتایا جاتا تھا کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ کرنے کے عالمی سمجھوتہ پر عملدرامد نہیں کر رہے تھے۔ اور اس لیے عراق پر بمباری کی جاتی تھی۔ اور عراق سے ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ کرنے پر عملدرامد کرایا جاتا تھا۔ لیکن اب ایران اپنے ایٹمی ہتھیاروں پر ہونے والے سمجھوتہ پر مکمل عملدرامد کر رہا ہے۔ IAEA کے انسپکٹر ز دو سال سے معاہدہ پر عملدرامد ہونے کی رپورٹیں سلامتی کونسل کو دے رہے ہیں۔ اور ان رپورٹوں میں معاہدے کی خلاف ورزی کی کوئی رپورٹ نہیں ہے۔ یہ سمجھوتہ ایران نے عالمی برادری پر مسلط نہیں کیا ہے۔ بلکہ عالمی طاقتوں جن میں امریکہ بھی شریک تھا۔ دو سال کے مذاکرات کے بعد عمل میں آیا تھا۔ اور پھر مذاکرات میں شریک ملکوں نے سمجھوتہ پر دستخط کیے تھے۔ یورپی یونین کی خارجہ امور کی انچارج نے بھی معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ سلامتی کونسل کے 15 اراکین نے سمجھوتہ کو منظور کیا تھا۔ اور اسے ایک قانونی دستاویز بنایا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ جو اس وقت صدارتی امیدوار تھے اور بینجمن نتھن یا ہو اسرائیل کے وزیر اعظم تھے۔ دونوں نے اس سمجھوتہ کی مخالفت کی تھی۔ ٹرمپ نے کہا تھا وہ اقتدار میں آنے کے بعد اس  معاہدہ سے امریکہ کو نکالیں گے۔ اور ایران کے ساتھ ایک نئے معاہدہ کے لیے مذاکرات پر زور دیں گے۔ ٹرمپ کے اس اعلان کا وزیر اعظم نتھن نے خیر مقدم کیا تھا۔ اس کے بعد امریکہ کے انتخابات میں روسیوں کی Meddling ہوتی ہے۔ تاہم Robert Mueller یہ تعین نہیں کر سکے ہیں کہ یہ روسی اسرائیل کے شہری تھے اور امریکہ میں بھی رہتے تھے یا صدر پو تن کے روس کے شہری تھے۔ یہ فیصلہ انہوں نے کانگرس پر چھوڑ دیا ہے۔ بہرحال ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتہ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ یورپ چین روس اور تمام اسلامی ملکوں سواۓ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ان ملکوں نے کر لیا ہے۔ دنیا کی عراق میں امریکہ کے  Regime Change عزائم کی حمایت ایک بہت بڑا Blunder تھا۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo ٹرمپ انتظامیہ کی ایران میں Regime Change کی پالیسی کی حمایت کے لیے دنیا کے کونے  کونے  میں بھاگتے پھر رہے ہیں۔ صدر روحانی نے یورپی ملکوں کو 60روز دئیے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ اپنے  Commitments پورے کریں ورنہ ایران بھی اس سمجھوتہ سے نکل جاۓ گا۔
   صدر ٹرمپ نے 2015 میں جب ایران کے ایٹمی سمجھوتہ پر سخت تنقید کی تھی۔ اور یہ عہد کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ سب سے پہلے ایران کے ایٹمی سمجھوتے کو Null and void کریں گے۔ اس وقت صدر ٹرمپ کے ذہن میں مقصد انتخاب جیتنا تھا۔ لیکن انتخاب جیتنے کے بعد صدر ٹرمپ کو اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے دبوچ لیا تھا اور صدر ٹرمپ سے ایران کے خلاف کچھ کرنے پر زور دیا تھا۔ کھربوں ڈالر انہوں نے واشنگٹن میں لابیوں کو دئیے تھے۔ صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم میں لابیوں کے بارے میں کہا تھا کہ واشنگٹن ان لابیوں کی وجہ سے کر پٹ ہو گیا ہے اور وہ اپنی انتظامیہ میں لابیوں کو قریب نہیں آنے دیں گے۔ لیکن Russian Meddling Investigation Sword جو ان کے سر پر لٹک رہی تھی اس کے دباؤ سے صدر ٹرمپ نے قومی سلامتی امور John Bolton کو دے دیا تھا۔ جان بولٹن National Security سے زیادہ International Insecurity Expert تھے۔ اور وہ اپنے ساتھ جو ٹیم لاۓ تھے۔ ان کا مشن ایران میں Regime Change تھا۔ اور یہ ایران کے خلاف حالات کو عراق کے راستہ پر لے جا رہے ہیں۔ اگر John Bolton اور Mike Pompeo یہ کہتے ہیں کہ ایران میں Regime Change ہمارا مقصد نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ان کا بنیادی مقصد ہے۔ تاہم 2019 میں2003 کے حالات نہیں ہیں۔ 2001 سے قومی سلامتی Cabal نے جتنی جنگیں Forged کی ہیں۔ وہ سب جنگیں امریکہ نے ہاری ہیں۔ اور امریکہ ابھی تک ان جنگوں میں پھنسا ہوا ہے۔ کھربوں ڈالر ان جنگوں میں پھونک دئیے ہیں۔ جنگوں کا نقصان پورا کرنے کے لیے صدر ٹرمپ کو چین سے ٹریڈ وار کرنا پڑی ہے۔ اور Tariffs سے لاکھوں ڈالر امریکہ کے خزانہ میں آ رہے ہیں۔John Bolton کی نظر ان کھربوں ڈالروں پر ہے جنہیں وہ قومی سلامتی کے مفاد میں ایران کے خلاف جنگ میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ویسے بھی امریکہ کی معیشت بہت مضبوط ہے۔  یہ ایک اور نئی جنگ کا بوجھ اٹھا سکتی ہے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ عراق، افغانستان، لیبیا اور شام کی جنگوں میں امریکہ کے جو اتحادی تھے وہ سب ایران کے خلاف جنگ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اور امریکہ کے اتحادی بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ اتحادی ایران کے ایٹمی سمجھوتہ پر عملدرامد سے بالکل مطمئن ہیں۔ اور اس سمجھوتہ میں انہیں کوئی Defects نظر نہیں آ رہے ہیں۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo ایران کے خلاف امریکہ کا کیس لے کر یورپ کے جس ملک میں بھی جا رہے ہیں ہر یورپی ملک ان کے سامنے اپنا مفاد رکھ دیتا ہے۔ صدر ٹرمپ اس کنفیوژن میں ہیں کہ اب کیا کریں۔ امریکہ دنیا میں ایران کے مسئلہ پر تنہا نظر آ رہا ہے۔ اس تنہائی میں صدر ٹرمپ نے ایرانی رہنماؤں سے کہا کہ وہ انہیں فون کریں۔ لیکن ایرانی رہنماؤں نے انہیں فون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
   ٹرمپ انتظامیہ کے لیے یہ صورت حال ایک ایسا ہی Debacle ہو گئی ہے کہ جیسے 1970s میں صدر کارٹر نے ایران میں یرغمالی امریکی سفارت کاروں  کی  رہائی کے لیے فوجی آپریشن کیا تھا۔ اور ہپاچی ہیلی کاپٹر ایران کے قریب ریگستان میں دھنس گیا تھا۔ صدر کارٹر انتخاب ہار گیے تھے۔ جان کیری نے کہا ہے کہ "ایرانی فون نہیں کریں گے۔" ان کا مطلب شاید یہ تھا کہ ایرانی 2020 کے صدارتی انتخاب کے بعد فون کریں گے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ایران کا مسئلہ ایک  Stalemate بن گیا ہے۔ قومی سلامتی امور کے مشیر John Bolton اور سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ایران کو ایک دوسرا عراق کس طرح بنایا جاۓ۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ ایران مڈل ایسٹ کو Destabilize کر رہا ہے۔ کبھی کہتے ہیں ایران حزب اللہ کی پشت پنا ہی کر رہا ہے۔ کبھی کہتے ہیں ایران ہوتیوں کی مدد کر رہا ہے۔ کبھی کہتے ایران شام میں مداخلت کر رہا ہے۔ کبھی کہتے ہیں ایران عراق میں مداخلت کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایرانی انقلابی گارڈ ز کو شاید اس لیے دہشت گرد قرار دیا ہے کہ اس نے عراق اور شام میں ISIS سے ان کے علاقہ آزاد کرانے میں کیوں مدد کی تھی۔ یہ ایران نہیں تھا جس نے عراق پر حملہ کر کے اس ملک کو Destabilize کیا تھا۔ عراق میں انارکی پھیلائی تھی۔ عراق کی پہلی جنگ کے بعد صدر جارج ایچ بش نے عراق میں صرف سنی علاقوں پر No fly zone کی پابندی لگائی تھی۔ اور شیعہ علاقوں کو اس سے مستثنی رکھا تھا۔ لیکن ایران نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تھا۔ ایران عراق میں شیعاؤں کو حکومت میں نہیں لایا تھا۔ یہ صدر بش تھے جنہوں نے شیعہ سنی فرقہ کی بنیاد پر عراق کو جمہوریت دی تھی۔ اور سنیوں کو جمہوریت سے محروم رکھا تھا۔ شام کو صدر اوبامہ نے Destabilize سعود یوں اور اسرائیل کے ساتھ مل کر کیا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ کے واچ میں شام کو کھنڈرات  بنایا گیا تھا۔ 6 سال تک صدر اوبامہ نے شام میں Regime Change انتہا پسند عناصر کی سرپرستی کی تھی۔ صدر اوبامہ ہزاروں شامی خاندانوں کو بے گھر کر کے چلے گیے۔ اب اگر ایران روس اور ترکی کے ساتھ مل کر شام میں امن اور استحکام میں مدد کر رہا ہے تو امریکہ کو اس پر اس لیے  اعتراض ہے کہ یہ اسرائیل کو پسند نہیں ہے۔ اسرائیل نے شام کو عدم استحکام کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ گو لان کے قریب اسلامی انتہا پسندوں کو ہتھیار فروخت کیے تھے۔ شام کی خانہ جنگی سے اسرائیل نے لاکھوں ڈالر بناۓ تھے۔ لیکن شام میں خانہ جنگی کے Consequences اسرائیل کو پسند نہیں ہیں۔ اسرائیل نے اسے روکا کیوں نہیں تھا؟ اسرائیل نے شام میں بمباری کر کے ایران کے بہت سے فوجی ہلاک کیے تھے۔ لیکن ایران نے اس کا جواب نہیں دیا تھا۔ ایران نے صرف شام میں امن اور استحکام کے لیے اسے برداشت کیا تھا۔ اور اسرائیل سے اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کا انتقام نہیں لیا تھا۔
   سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے پچھلے ماہ عرب ملکوں کا دورہ کیا تھا۔ اور وہ حزب اللہ کے خلاف اپنا کیس لے کر بیر و ت حکومت سے بات کرنے گیے تھے۔ انہیں شاید یہ نہیں معلوم تھا کہ حزب اللہ ایران کے نہیں، لبنان کے شہری تھے۔ لبنان کی حکومت کے صدر اور وزیر اعظم نے انہیں بتایا کہ حزب اللہ لبنان کے شہری ہیں۔ عوام انہیں منتخب کرتے ہیں۔ حزب اللہ کے کابینہ میں وزیر ہیں۔ اور اس کا لبنان کے استحکام اور امن میں ایک اہم رول ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ لبنان کی حکومت کی یہ وضاحت سن کر خاموشی سے واپس آ گیے۔ لیکن دنیا کی سمجھ میں ابھی تک یہ نہیں آتا ہے کہ امریکہ کا ہر سیکرٹیری آف اسٹیٹ عربوں سے اسرائیل کے تحفظات پر بات کرتا ہے لیکن اسرائیل سے اسے یہ کہنے کی جرات نہیں ہوتی ہے کہ اب بہت ہو گیا ہے اور اسرائیل کو اب خطہ کے حقائق تسلیم کرنا چاہیے اور ان حقائق کے ساتھ رہنا سیکھنا چاہیے۔ لیکن امریکہ کی ہر انتظامیہ کی مڈل ایسٹ پالیسی میں معقولیت کا فقدان ہوتا ہے۔ اور اپنی نامعقولیت سے وہ عربوں کو قائل کرتے ہیں۔ عرب حکمران اسے بڑے غور سے سنتے ہیں۔ اور انہیں اس میں اپنا مفاد نظر آتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ لبنان کی حکومت کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ دے رہی ہے۔ اور سیکرٹیری آف اسٹیٹ کو حزب اللہ کی حمایت کرنے پر ایران کو دہشت گردوں کی فہرست میں رکھنے کا کہا ہے۔
   دنیا میں جو معقول ذہن ہیں ان سے یہ سوال ہے کہ ایران کے لیے مڈل ایسٹ کو Destabilize کرنے میں کیا Opportunities ہو سکتی ہیں؟ صرف برطانیہ نے یمن سے جنگ سعودی حکومت کو 60بلین پوںڈ کا اسلحہ فروخت کیا ہے جبکہ امریکہ اور فرانس بھی سعودی عرب کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کر رہے ہیں۔ ایران کا عربوں کو یہ معقول مشورہ ہے کہ اسلحہ پر کھربوں ڈالر برباد مت کریں یہ کھربوں ڈالر اس خطہ کی تعمیر اور ترقی اور عوام کے حالات بہتر بنانے میں استعمال کریں آئیں ہمارے ساتھ مل کر انسانیت کے لیے کچھ اچھے کام کریں۔ ایران کی ان باتوں کو ہر انتظامیہ میں ایران کی دہشت گردوں کی حمایت کرنا دیکھا جاتا ہے۔ کسی ملک کو اپنے ہمسایہ میں رونما ہونے والے سیاسی واقعات پر بولنے اور حصہ لینے سے نہیں روکا جا سکتا ہے۔ سیاسی ایشو ز سیاسی طریقوں سے حل ہوتے ہیں۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کو علاقہ کے سیاسی حالات سے نہیں جوڑا جا سکتا ہے۔ امریکہ نے یہ عراق میں صد ام حسین حکومت کے ساتھ بھی کیا تھا۔ عراق سے صرف مہلک ہتھیاروں کو ختم کرنے کا کہا گیا تھا۔ لیکن عراق کے خلاف سیاسی اختلافات پر غیر قانونی حملہ کر کے حکومت تبدیل کی گئی تھی۔ اور اب  ایران کے خلاف بھی اس پالیسی کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
   صدر ٹرمپ اب چین کے ساتھ ایک Fair Trade Deal کے لیے گزشتہ سال سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ Fair Trade نہ ہونے کی وجہ سے امریکہ کو کھربوں ڈالروں کا Trade Deficit کا سامنا ہو رہا ہے۔ Trade Deal  کے لیے صرف Trade Issues پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ ان کے قومی سلامتی امور کے مشیر اور سیکرٹیری آف اسٹیٹ نے ان مذاکرات میں سیاسی ایشو ز کو شامل نہیں کیا ہے۔ چین کی خطہ میں سرگرمیوں اور روس کے ساتھ اس کے عالمی رول کو Trade deal مذاکرات کا حصہ نہیں بنایا ہے۔ اسی طرح ایران کا ایٹمی ہتھیاروں پر سمجھوتہ بھی ہوا تھا۔ علاقائی سیاست علاقائی ہے۔ اور ایران پر علاقائی سیاست میں حصہ لینے پر امریکہ کی بندشیں ایسی ہیں جیسے سعودی عرب میں یا مصر میں سیاست میں حصہ لینے پر بندشیں ہیں۔