Sunday, February 24, 2019

War With Pakistan, India Will lose Kashmir As Pakistan Had Lost East Pakistan In War With India; Facts On The Ground In Kashmir Are Very Similar

 War With Pakistan, India Will lose Kashmir As Pakistan Had Lost East Pakistan In War With India; Facts  
On The Ground In Kashmir Are Very Similar

مجیب خان
Jammu and Kashmir under a heavy military presence

Kashmir encounter: Two soldiers and Three insurgents killed, south of Kashmir 

Jammu and Kashmir Police operation against insurgents

Indian army in Kashmir

Protest against an Indian army operation in Srinagar, in district Pulwama  

   مودی حکومت کے اقتدار کے 5سال مکمل ہو رہے ہیں۔ انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے۔ انتخابات مئی میں ہوں گے۔ وزیر اعظم مودی اب اپنے 5سال دور اقتدار کا ریکارڈ دیکھ رہے ہیں لیکن انہیں اس میں کوئی نمایاں کامیابیاں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ جو انہیں دوبارہ منتخب کرنے کا جواز فراہم کرتی ہیں۔ لہذا وزیر اعظم مودی کو ایک ضمنی بجٹ لانا پڑا تھا جس میں کاشتکاروں کو خصوصی مراعات دی گئی تھیں۔ غریبوں پر ٹیکس کے بوجھ میں کمی کی گئی تھی۔ مودی کے 5 سال دور اقتدار میں بیروز   گاری میں اضافہ ہوا تھا۔ لیکن پھر بے روز گاری کے نمبروں میں ہیرا پھیری اس طرح کی گئی تھی کہ جس میں نئے روز گار زیادہ بڑھا چڑھا کر بتاۓ گیے تھے۔ صدر ٹرمپ نے اس پروگرام کو ختم کر دیا تھا جس کے  تحت ہر سال بھارت سے Software انڈسٹری میں ایک لاکھ بھارتی بھرتی کیے جاتے تھے۔ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کے نتیجہ میں دو لاکھ Software انجنیئر بے روز گار تھے۔ خارجہ امور میں مودی حکومت کی کوئی خاص Achievements نہیں ہیں۔ Trade میں بھارت امریکہ سے فائدے اٹھا رہا ہے۔ اور Terrorism کی سیاست سے بھارت پاکستان کو الزام دینے سے فائدے اٹھا رہا ہے۔ مودی حکومت کے 5سال میں تقریباً ہر سال پاکستان کو یہ الزام دئیے گیے ہیں کہ دہشت گرد پاکستان سے بھارت میں دہشت گردی کرنے آتے ہیں۔ مودی حکومت سے پہلے من موہن سنگھ حکومت میں بھی بھارت میں دشت گردی کے ہر واقعہ کا الزام پاکستان کو دیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ٹرین کے حادثوں کو بھی دہشت گردی کہا جاتا تھا۔ اور اس کا الزام بھی پاکستان کو دیا جاتا تھا۔ وزیر اعظم اٹل بہاری وا جپائی حکومت نے 2003 میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شرون کے دورہ بھارت کے بعد Terrorism کے الزامات پاکستان کو دینے کی پالیسی اختیار کی تھی۔ اس وقت تک بش انتظامیہ افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں پاکستان سے تعاون کر رہی تھی۔ اس جنگ میں پاکستان کے تحفظات کو بھی اہمیت دی جاتی تھی۔ لیکن پھر وزیر اعظم ایریل شرون کے دورہ بھارت کے بعد صورت حال بدل گئی تھی۔ امریکہ- بھارت Strategic تعلقات افغان جنگ پر غالب آ گیے تھے۔ افغان جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا Epicenter پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں سے محروم کرنے کا مشن بن گیا تھا۔ وزیر اعظم شرون نے کہا تھا "ہم امریکہ کو چلاتے ہیں۔ ہم امریکہ سے جو کہتے ہیں امریکہ وہ کرتا ہے" بش انتظامیہ نے بھارت کو افغانستان میں رول دے دیا تھا۔ بھارت نے پاکستان کی سرحدوں کے قریب اپنے دہشت گردوں کے مورچے بنا لئے تھے۔ امریکہ- بھارت Strategic تعلقات بہت زیادہ بھارت کے مفاد میں بن گیے تھے۔ پاکستان ہر طرف سے دہشت گردوں کے حملوں میں گھر گیا تھا۔ پاکستان کی سلامتی اور بقا خطروں میں آ گئی تھی۔ دہشت گردوں کے حملہ پاکستان میں ہو رہے تھے۔ لیکن امریکہ اور بھارت پاکستان کو دہشت گردوں کو پناہ دینے اور ان  کی پشت پنا ہی کرنے کے الزام دیتے تھے۔ اس دہشت گردی میں پاکستان میں 50ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ جن میں بڑی تعداد میں فوجی بھی شامل تھے۔ پاکستان کی معیشت کا 100 بلین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ بہرحال پاکستان نے اپنی سرزمین سے داخلی اور غیرملکی دہشت گردوں کا صفایا کیا ہے۔ اور اس کا کریڈٹ پاکستان کی فوج کو دیا جاۓ گا۔ امریکہ- بھارت Strategic تعلقات افغان جنگ جیتنے میں ناکام ثابت ہوۓ تھے۔ امریکہ افغان جنگ ہار گیا تھا۔ اگر امریکہ یہ Strategic تعلقات افغانستان سے دور رکھتا تو اس میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ افغان جنگ 10سال پہلے ختم ہو گئی ہوتی۔ بھارت افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا تھا۔ جبکہ امریکہ اور نیٹو پاکستان کی سر زمین افغان جنگ جیتنے کے لئے استعمال کر رہے تھے۔  پاکستان کے لئے یہ ایک انتہائی Bitter Lesson تھا۔
  امریکہ- بھارت Strategic تعلقات کو دراصل چین کی ابھرتی طاقت کے پس منظر میں دیکھا جا رہا تھا۔ جو امریکی پالیسی ساز کی ایک غلط فہمی تھی۔ سرد جنگ دور کی بھارت کی غیر جانبدارانہ پالیسی خارجہ امور میں برقرار رہے گی۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اسے اپنی خارجہ پالیسی کا  ستون بنایا تھا۔ اور یہ ستون اب بھارت کی خارجہ پالیسی کا کلچر بن گیا ہے۔ بھارت اب چین کے سلسلے میں بھی اس پالیسی کو جاری ر کھے گا۔ بھارت امریکہ کے لئے چین سے جنگ نہیں کرے گا۔ وزیر اعظم موہن سنگھ کی حکومت میں چین نے صرف یہ دھمکی دی تھی کہ 'چیونٹی کی طرح مسل دیں گے' اس کے بعد دو مرتبہ چین کی فوجیں لداخ میں داخل ہوئی تھیں۔ دوسری مرتبہ لداخ میں150میل اندر آ گئی تھیں۔ بھارت کی سیکیورٹی چوکیاں تباہ کر دی تھیں۔ سیکیورٹی کیمرے توڑ دئیے تھے۔ من موہن سنگھ وزیر اعظم تھے۔ بھارتی جنرلوں نے وزیر اعظم سے کہا کہ چین کی فوجیں لداخ میں 150 میل اندر آ گئی ہیں۔ وزیر اعظم موہن سنگھ  نے کہا 'چلی جائیں گی'۔
  18سال سے کشمیریوں کی ا نسر جنسی کے خلاف بھارتی فوج کی کاروائیوں کے یہ نتائج ہیں کہ کشمیری اب فوج سے لڑنے سڑکوں پر آ گیے ہیں۔ کشمیر کا ہر شہر جنگ کا محاذ بنا ہوا ہے۔ کشمیری 18 سال سے بھارتی فوج کی وحشیانہ کاروائیوں کے Pressure cooker میں گھٹ رہے تھے۔ اور اب یہ Pressure cooker پھٹ پڑا ہے۔ Pulwama میں ایک کشمیری بچے نے حالات اور زندگی سے تنگ آ کر 40 بھارتی فوجیوں کو مار کر خود کشی کر لی۔ یہ دہشت گردی نہیں تھی۔ یہ جنگ ہے۔ بھارتی فوجیں 18 سال سے نہتے کشمیریوں سے جنگ کر رہی ہیں۔ کشمیریوں پر ان کے ظلم و بربریت کے بارے میں تفصیل ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں میں بیان کی گئی ہیں۔ حال ہی میں بھارتی حکومت نے انسانی حقوق کی ایک تحقیقاتی ٹیم کو کشمیر میں جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ ہندو انتہا پسند گجرات کی تاریخ اب کشمیر میں دوہرا رہے ہیں۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ مغربی طاقتیں 40 بھارتی فوجیوں کے مرنے پر بھارت سے اظہار ہمدردی کر رہے ہیں۔ لیکن بھارتی فوج 18 سال سے جس بربریت سے نہتے کشمیریوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ اس پر انہیں انسانیت سے جیسے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ یہ کسی آمرانہ ملک میں نہیں ہو رہا ہے۔ یہ بھارت میں ہو رہا ہے جسے دنیا کی ایک سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔ اس جمہوری ملک کے سیاسی لیڈروں کے پاس کشمیر کے مسئلہ کا سیاسی حل نہیں ہے۔ اس لئے انہوں نے اسے حل کرنے کا ٹھیکہ فوج کو دے دیا ہے۔
  آج کشمیر کے حالات 48 سال قبل مشرقی پاکستان کے حالات سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ اس وقت فوجی حکومت نے جو غلطیاں کی تھیں۔ آج وہ ہی غلطیاں بھارت کی سیاسی حکومت کر رہی ہے۔ بھارت نے اگر پاکستان سے جنگ شروع کی تو کشمیر بھارت سے نکل جاۓ گا۔ جس طرح 1971 میں مغربی سرحدوں پر بھارت کے ساتھ پاکستان کی جنگ شروع ہونے سے مشرقی پاکستان نکل گیا تھا۔ پاکستان میں ایک فوجی حکومت تھی۔ بھارت میں ایک سیاسی حکومت ہے۔ لیکن مودی حکومت نے 5 سال میں کشمیر کی صورت حال کا کوئی سیاسی حل نہیں دیکھا تھا۔ فوج نے کشمیر کے حالات زیادہ بگاڑ دئیے ہیں۔ ایک مرتبہ حالات جب قابو سے باہر ہو جاتے ہیں تو پھر حالات کو قابو میں لانا ممکن نہیں ہوتا ہے۔         

Thursday, February 21, 2019

What Will Be Future Of Middle East, When America Going Home, Saudi Arabia Going East Via Pakistan And Arabs Are Dividing That Which Direction They Go

   What Will Be Future Of Middle East, When America Going Home, Saudi Arabia Going East Via Pakistan And Arabs Are Dividing That Which Direction They Go
مجیب خان
Pakistan's Prime minister Imran Khan welcome Saudi Arabia's Crown Prince Mohammed Bin Salman arrival at Nur Khan air base in Rawalpindi, Feb 19, 2019   

Prime Minister Narendra Modi received at the airport in New Delhi Saudi Crown Prince Mohammed Bin Salman, Feb 20, 2019  

Turkey-Iran strategic cooperation, Iranian President Hassan Rouhani shakes hand with Turkish President Recep Tayyip Erdogan, in Ankara




   ایران کو تنہا کرنے کی کوششوں میں اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کے شامل ہونے سے خلیج کے ملکوں میں یہ احساس بڑھ رہا تھا کہ ایران کے بجاۓ جیسے وہ تنہا ہوتے جا رہے تھے۔ ایران کا اثر و رسوخ  روکنے کے لئے اسے تنہا کیا جا رہا تھا۔ لیکن پھر گردن گھمائی تو یہ نظر آیا کہ ترکی کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر اسرائیل نے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی مہم شروع کر دی۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے ا و مان کے امیر کے محل کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ وار سا پولینڈ میں امریکہ کی مڈل ایسٹ امن اور استحکام کانفرنس میں وزیر اعظم نتھن یا ہو عرب وزراۓ خارجہ کے ساتھ ایک ہی ٹیبل پر بیٹھے تھے۔ یہ ایران سے خطرہ تھا جس نے  انہیں ایک ٹیبل پر سر جوڑ کر بیٹھا یا تھا۔ یہ دیکھ کر عرب عوام میں شدید رد عمل ہوا تھا۔ عرب حکومتوں کو گالیاں پڑ رہی تھیں۔ عرب عوام پہلے اسرائیلی رہنماؤں کو فلسطینیوں کے ساتھ ایک ٹیبل پر بیٹھ کر تنازعوں کا تصفیہ چاہتے ہیں۔ عرب حکومتوں اور غیر عرب حکومتوں کی سوچ میں یہ فرق ہے۔ جو عرب سڑکوں پر عوام کی سوچ سے قریب ہے۔ جسے عرب حکمران اور اسرائیل ان کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ دیکھتے ہیں۔ حالانکہ تاریخ  یہ بتاتی ہے کہ جو حق کی بات کرتے ہیں اثر و رسوخ ہمیشہ ان کا ہوتا ہے۔
  گزشتہ ماہ ایران کے صدر حسن روحانی کا ترکی کا دورہ بہت کامیاب تھا۔ دونوں ملکوں نے شام میں استحکام اور اس کے جلد تعمیر نو پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں میں اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے معاہدہ ہوۓ تھے۔ دونوں ملکوں نے تجارت 100بلین ڈالر پر لے جانے کا عزم  کیا تھا۔ ایران کے صدر حسن روحانی کے ترکی کے کامیاب دورے کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم  عمران خان صدر طیب اردو گان کی خصوصی دعوت پر ترکی آۓ تھے۔ دونوں رہنماؤں نے علاقائی صورت حال پر گفتگو کی تھی۔ عالم اسلام کو جن مسائل کا سامنا ہے اس پربھی بات ہوئی تھی۔ دونوں ملکوں میں اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے معاہدے ہوۓ تھے۔ ترکی نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا معاہدہ بھی کیا تھا۔ ترکی، ایران اور پاکستان اس خطہ کے غیر عرب بڑے ملک ہیں۔ ترکی اور ایران کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ سعودی عرب ایران کے خلاف اسرائیل کے موقف کی حمایت کرتا ہے۔ جبکہ ترکی کے بارے میں شہزادہ محمد بن سلمان کے یہ خیالات تھے کہ سلطنت عثمانیہ میں ترکوں نے عربوں کا قتل عام کیا تھا۔ لیکن پھر جمال کشو گی کے بہیمانہ قتل سے سعودی عرب کی ساکھ بری طرح خراب ہو ئی تھی۔ دوسری طرف یمن جنگ میں بے گناہ شہریوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مذمت بڑھ رہی تھی۔ ان پر جنگی جرائم کرنے کے الزامات لگ رہے تھے۔ اور ان سے  یمن جنگ بند کرنے کی آوازوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ یمن جنگ کسی مقصد کے بغیر شروع کی تھی اور کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر ختم کرنا پڑ رہی تھی۔ سعودی عرب کی قیادت میں GCC ملک اسلامی ملکوں، یورپی ملکوں میں تنہا ہو رہے تھے۔ اسلامی دنیا میں ان کے بارے میں راۓ عامہ خلاف ہوتی جا رہی تھی۔ ادھر امریکہ میں بھی راۓ عامہ اور کانگریس میں سعودی عرب کی مخالفت بڑھ گئی تھی۔ اسرائیل میں نتھن یا ہو حکومت سعودی عرب کی پشت پر تھی۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو کے خلاف کرپشن کے کیس تیار ہیں۔ اور اسرائیلی پولیس نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں ان پر کرپشن کا مقدمہ چلانے کا کہا ہے۔ اسرائیل میں انتخابات اپریل میں ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو 12 سال سے اقتدار میں ہیں۔ اور اس انتخاب میں وہ ہارنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اور اگر وہ انتخاب ہار جاتے ہیں تو اسرائیل میں جیسے انقلاب ایران آ گیا ہے۔ اسرائیل میں حیرت انگیز تبدیلی آۓ گی۔
  خطہ کی اس صورت حال کے پس منظر میں سعودی عرب کی قیادت میں GCC ملکوں نے پاکستان کا رخ کیا ہے۔ جہاں چین کے 65بلین ڈالر کے CPEC منصوبہ دراصل پاکستان کی اہمیت اجاگر کرنے میں Investment ہے۔ جیسا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے یہ اعتراف کیا ہے کہ " مشرق میں یہ ان کا پہلا دورہ ہے۔ اور ہمیں یقین ہے کہ پاکستان مستقبل میں ایک انتہائی اہم ملک بننے جا رہا ہے۔ بلاشبہ ہم بھی اس کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ پاکستان 2030 میں چین اور بھارت کے بعد تیسری بڑی معیشت ہو گا۔" جبکہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا 2030 تک سعودی عرب کو ایک جدید صنعتی ریاست بنانے کا پلان ہے۔ پاکستان میں یہ Political idiots ہیں جو خلیج سے آنے والے شہزادوں اور امیر کے دوروں کو Cash Trap Pakistan” کے کشکول میں Cash ڈالنے آ رہے ہیں، کہتے ہیں۔ یہ ایسے کہتے ہیں کہ جیسے وہ اس ملک کا حصہ نہیں ہیں۔ بہرحال پاکستان کے لئے ایران اور ترکی بھی بہت اہم ہیں۔ ترکی اسلامی ملکوں میں ایک بڑی معیشت ہے۔ ایران کو ایک بڑی معیشت بننے سے روکا جا رہا ہے۔ امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب نے اس کی معیشت کے آ گے اقتصادی بندشوں کے Barricade لگا دئیے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں اسرائیل پر ان کے شہریوں نے اپنی اقتصادی بندشیں اسرائیلی اشیا کا بائیکاٹ کرنے کی صورت میں لگائی ہیں۔ اور یہ مہم پھیلتی جا رہی ہے۔ امریکی سینیٹ میں اسرائیلی اشیا کا بائیکاٹ کرنے کے خلاف قانون کا مسودہ دو مرتبہ پیش کیا گیا تھا۔ لیکن یہ منظور نہیں ہو سکا کہ یہ بنیادی شہری آزادی کے منافی تھا۔
  سعودی عرب اور خلیج کے ملک اب مشرق کا رخ کر رہے ہیں۔ اسرائیل عربوں کی طرف دوستی کا ہاتھ  بڑھا رہا ہے۔ مڈل ایسٹ اور پاکستان نصف بلین لوگوں کی مارکیٹ ہے۔ اسرائیل اس مارکیٹ میں داخل ہونے کا راستہ دیکھ رہا ہے۔ 2022 میں امریکہ کی اسرائیل کو 3بلین ڈالر کی امداد بند ہو جاۓ گی۔ اس کا قانون کانگریس نے کلنٹن انتظامیہ میں منظور کیا تھا۔ مڈل ایسٹ کے تیل اور گیس پر امریکہ کا انحصار بھی ختم ہو گیا ہے۔ امریکہ کا اس وقت جاپان اور جنوبی کوریا سے جو تجارتی خسارہ ہو رہا ہے۔ اس کے لئے صدر ٹرمپ نے جاپان اور جنوبی کوریا سے آئل صرف امریکہ سے خریدنے کی Condition ر کھی ہے۔ تاکہ اس سے امریکہ کا تجارتی خسارہ کم ہوتا جاۓ گا۔ اب آئل اور گیس کا کیا مستقبل ہو گا؟ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ مڈل ایسٹ آئل کے دو بڑے گاہک اب صرف امریکہ سے آئل کے خریدار بن گیے ہیں۔ سعودی عرب نے اپنے آئل کی معیشت کو صنعتی اور ٹیکنالوجی کی معیشت میں منتقل کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ اس عمل کے تکمیل کے لئے 2030 ٹارگٹ ہے۔ یہ 2019 ہے اور اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لئے سعودی عرب کے پاس صرف گیارہ سال ہیں۔ جبکہ یمن کی جنگ کو 6 سال ہو رہے ہیں۔
  اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان ملاقات کے بعد ایک بیان میں دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ سلوک کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن مسلمان ملک مسلمان ملکوں سے جو سلوک کر رہے ہیں اس پر کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ شام میں مسلمانوں کے ساتھ مسلمان ملکوں نے کیا سلوک کیا ہے؟ کس طرح مسلم ملکوں کو تباہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی دنیا  میں مسلمانوں کے ساتھ اس سلوک کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ سعودی عرب کے خارجہ امور کے وزیر مملکت عادل الجبیر نے اسلام آباد میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ پریس کانفرنس میں ایران کو دنیا بھر میں دہشت گردی کا سرغنہ ایک ایسے موقعہ پر کہا ہے کہ جب صرف چند روز قبل دہشت گردوں نے ایران کے فوجیوں کی بس پر حملہ کر کے اس کے 27 فوجی ہلاک کر دئیے تھے۔ اور ایرانی قوم اس کا سوگ منا رہی تھی۔ لیکن سعودی وزیر عادل الجبیر ایران کو دنیا میں دہشت گردی کا سرغنہ بتا رہے تھے۔ اور ایران پر دہشت گردی کے الزامات کی ایک لمبی فہرست بیان کر رہے تھے۔ اسلام میں الزام تراشی کرنا بھی گناہ میں شمار ہوتا ہے۔ ایرانی عوام امریکہ-اسرائیل کی اقتصادی بندشوں کی وجہ سے انتہائی مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسلام مشکل وقت میں لوگوں کی مدد کرنے اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کا درس دیتا ہے۔
  صدر ٹرمپ اپریل میں اسرائیل میں انتخابات کے بعد فلسطین تنازعہ کا حل ایک ایسے مڈل ایسٹ میں پیش کریں گے جسے امریکہ کی سیاست نے عرب اور غیر عرب میں تقسیم کر دیا ہے۔ اور عرب عرب میں بھی شدید اختلافات ہیں۔ یہ حل بلاشبہ تل ابیب میں تیار کیا گیا ہے۔ اور یہ یکطرفہ حل سمجھا جاۓ گا۔ فلسطینیوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن یہ فلسطینیوں کے مقدر کے بارے میں ہے۔ جس پر صدر ٹرمپ کے دستخط  کی مہر ہو گی۔ اور اسے پھر فلسطینیوں پر مسلط کیا جاۓ گا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، ا و مان، سوڈان اسے تسلیم کر لیں گے۔ عراق شام لبنان یمن لیبیا اسے قبول نہیں کریں گے۔ مصر اور ا ر دن کے اس پر شاید کچھ تحفظات ہوں گے۔ قطر ترکی ایران انڈونشیا ملائشیا اور پاکستان فلسطینیوں کے فیصلہ کی حمایت کریں گے۔ اسلامی ملکوں کو آئندہ چند ماہ میں انتہائی اہم فیصلے کرنا ہیں۔               

                                                                                         

Friday, February 15, 2019

Forty-Years Of America’s Failed Middle East Policies

  Forty-Years Of America’s Failed Middle East Policies  
Forty-Years Success Of Iran Revolution, While Surrounding By Iran Haters And Enemies
مجیب خان
Forty-Years of Iran's Islamic revolution

Camp David Accords: President Jimmy Carter, Egyptian President Anwer Sadat, and Israeli Prime Minister Menachem Begin on March26,1979

Oslo Accords: PLO Chairman  Yasser Arafat Shakes hands with Israeli Prime Minister Yitzhak Rabin, US President Bill Clinton stands between them, after signing of the Israeli-PLO Peace Accord, at the White House, Sept13, 1993 

Palestinian Prime Minister Mahmoud Abbas, US President George W. Bush, and Israeli Prime Minister Ariel Sharon, Red Sea Summit in Aqaba, Jordan June 4, 2003

President Obama with Prime Minister Netanyahu and Palestinian President Mohammed Abbas, 2010



  صدر ٹرمپ نے ایران انقلاب کے 40سال یوم جشن پر اپنے ایک Tweet میں کہا ہے " بدعنوانیوں کے 40سال، جبر و تشدد کے 40سال، دہشت کے 40سال، ایرانی حکومت کی ناکامیوں کے 40سال ہیں، ایک مدت سے اذیت میں ایرانی عوام زیادہ روشن مستقبل کے مستحق ہیں۔" صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی امور کے مشیر جان بولٹن نے اپنے ایک Tweet بیان میں کہا ہے کہ " یہ ناکامیوں کے 40 سال ہیں۔ یہ ایرانی حکومت کو طے کرنا ہے کہ وہ اپنا رویہ تبدیل کرے۔ بالا آخر اپنے ملک کی سمت کا تعین کرنے کا فیصلہ ایرانی عوام کو کرنا ہے۔ واشنگٹن ایرانی عوام کے فیصلہ کی حمایت کرے گا۔ اور ان کی پشت پر کھڑا ہو گا۔ اور یہ یقینی بناۓ گا کہ ان کی آوازیں سنی جائیں۔" اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ اور قومی سلامتی امور کے مشیر جان بولٹن کے یہ بیان اسرائیلی حکومت کی خواہش اور ارادوں کے مطابق ہیں۔ خود John Bolton مڈل ایسٹ کے بارے میں 40 سال سے ناکام ہیں۔ ان کے Hawkish نظریات ہمیشہ غلط ثابت ہوۓ ہیں۔ اور مڈل ایسٹ کے عوام کے لئے صرف تباہی بربادی لائیں ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مڈل ایسٹ میں امریکہ کی 40 سال سے مسلسل ناکامیوں میں ایران انقلاب کی کامیابی کے 40 سال ایک چمکتا نگینہ ہیں۔ ایرانی حکومت کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ قوم اس کے پیچھے متحد ہے۔ ایرانی عوام ابھی تک یہ نہیں بھولیں ہیں کہ کس طرح امریکہ اور برطانیہ نے ان کی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف سازش کی تھی اور اس کا تختہ الٹا تھا۔ اور ان پر ایک بدترین آمریت مسلط کی تھی۔ سی آئی اے اس آمریت کی پشت پر تھی جس نے ایرانی عوام کو ہر طرح کی اذیتیں دی تھیں۔ ایرانی قوم اسے کبھی نہیں بھولیں گے۔ اس پس منظر میں ایرانی عوام کی جد و جہد اور قربانیاں یہ انقلاب لائی تھیں۔
  40سال میں انقلاب ایران کو ناکام بنانے کی کوششیں کی گئی تھیں۔ لیکن انقلاب ایران کی جڑیں عوام تھیں۔ انقلاب ایران کو سبوتاژ کرنے کی ایک کوشش عراق کو ایران پر حملہ کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ عراق ایران جنگ میں صدر صد ام حسین کو ہر قسم کے مہلک ہتھیار فروخت کیے تھے۔ اسرائیل نے بھی عراق اور ایران دونوں کو کھربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے۔ عراق ایران جنگ 8سال تک لڑی گئی تھی۔ ایک ملین ایرانی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ جبکہ اتنی ہی تعداد میں عراقی مارے گیے تھے۔ اس جنگ سے کسی نے کچھ حاصل نہیں کیا تھا۔ امریکہ اور اس کے عرب اتحادی سب ناکام ہوۓ تھے۔ لیکن انقلاب ایران اس جنگ سے اور زیادہ کامیاب ہو کر ابھرا تھا۔ سنی عربوں میں ایران اس وقت بھی تنہا تھا۔ مغربی ملکوں میں بھی انقلابی ایرانی حکومت کو کوئی حمایت حاصل نہیں تھی۔ ان حالات میں ایرانی حکومت نے انقلاب کو مضبوط کیا تھا۔ ایران کو سیاسی استحکام دیا تھا۔ جبکہ ایران نے لبنان میں استحکام اور امن بحال کرنے میں بھی ایک اہم رول ادا کیا تھا۔ لبنان ایران کی مدد کے بغیر اسرائیل کے قبضہ سے اپنا وادی بکا کا علاقہ آزاد نہیں کرا سکتا تھا۔ اور گو لان کی چوٹیوں کی طرح آج وادی بکا پر بھی اسرائیل کا قبضہ ہوتا۔ 40 سال میں یہ انقلاب ایران کے تما متر مشکل حالات کے باوجود مثبت کامیابیاں ہیں۔
  اب 40 سال میں مڈل ایسٹ میں امریکہ کی ناکامیوں بھی دیکھی جائیں۔ 1979 میں صدر کارٹر کی انتظامیہ میں مصر اور اسرائیل میں جو کیمپ ڈیوڈ امن سمجھوتہ ہوا تھا۔ وہ مڈل ایسٹ کو ایک پائدار امن دینے میں ناکام ہوا تھا۔ صدر ریگن کی انتظامیہ میں لبنان کی خانہ جنگی میں بیروت میں امریکی فوجیں بھیجنے کا مشن ناکام ہو گیا تھا۔ اور صدر ریگن کو امریکی فوجیں لبنان سے واپس بلانا پڑیں تھیں۔ امریکی فوجی بیرک پر بم دھماکہ میں 100 سے زیادہ فوجی مارے گیے تھے۔ صدر بش 41 کی انتظامیہ کویت پر عراق کے حملہ کے تنازعہ کو پرامن سفارتی طریقوں سے حل کرنے میں ناکام ہوئی تھی۔ اور عراق کو مسلسل جنگ کے حالات میں رکھنے کے دور رس نتائج کو بش انتظامیہ نے بالکل نظر انداز کر دیا تھا۔ کلنٹن انتظامیہ عراق کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام ہوئی تھی۔ اور عراق جنگ کو جاری رکھا تھا۔ کلنٹن انتظامیہ کے پہلے سال میں فلسطین اسرائیل اوسلو امن معاہدہ ہوا تھا۔ PLO نے اسرائیل کا وجود تسلیم کر لیا تھا۔ اور PLO کے چارٹر سے اسرائیل کا وجود ختم کرنے کی شق نکال دی تھی۔ ایران نے PLO کے اس فیصلہ کی مخالفت نہیں کی تھی۔ لیکن پھر کلنٹن انتظامیہ کے آخری دنوں میں یہ اوسلو امن معاہدہ بھی ناکام ہو گیا تھا۔ جارج بش انتظامیہ میں فلسطین اسرائیل تنازعہ پھر Square one پر آ گیا تھا۔ بش انتظامیہ میں مڈل ایسٹ میں امریکہ کی Grand Slam ناکامیاں تھیں۔ صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانا ایک آسان کامیابی تھی۔ لیکن عراق کا استحکام اور امن بحال کرنے میں امریکہ  ناکام ہوا تھا۔ عراق جنگ سے مڈل ایسٹ میں امریکہ کی ناکامیوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ بش انتظامیہ میں فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل میں شرم الشیخ مصر میں معاہدہ ہوا تھا۔ یہ معاہدہ بھی بش انتظامیہ میں ناکام ہو گیا تھا۔
  صدر اوبامہ نے بھی فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل کے لئے کوشش کی تھی لیکن صدر اوبامہ بھی اس مشن میں ناکام ہو گیے تھے۔ اوبامہ انتظامیہ نے مڈل ایسٹ کو جمہوریت اور آزادی میں Transform کرنے کے پروجیکٹ پر 500ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ مصر کی تاریخ میں پہلی بار آز ادانہ انتخابات ہوۓ تھے۔ اخوان المسلمون نے 60% فیصد ووٹ  لیے تھے۔ اور بھاری اکثریت سے انتخاب جیتا تھا۔ مصر میں پہلی مرتبہ ایک منتخب جمہوری حکومت اقتدار میں آئی تھی۔  مصری عوام کو پہلی بار سیاسی آزادی ملی تھی۔ لیکن پھر چند ماہ میں سعودی عرب اور اسرائیل نے مصر کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ اور فوج اقتدار میں آ گئی تھی۔ سعودی عرب اور اسرائیل امریکہ کے قریبی اتحادی تھے۔ جنہوں نے مڈل ایسٹ کو جمہوریت اور آزادی میں Transform کرنے کا 500ملین ڈالر کا پروجیکٹ ناکام کر دیا تھا۔ اور اب John Bolton کا ایرانی عوام کے لئے یہ پیغام ہے کہ "واشنگٹن ایرانی عوام کے ہر فیصلہ کی حمایت کرے گا اور ان کی پشت پر کھڑا ہو گا۔" جبکہ امریکہ مصری عوام کا ساتھ چھوڑ کر اسرائیل اور سعودی عرب کے ساتھ مصر میں فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ کھڑا ہو گیا تھا۔ عوام کی منتخب جمہوری حکومت کے صدر محمد مو رسی اور ان کے ساتھ 900 سیاسی کارکن جیلوں میں تھے۔ جنہیں فوجی حکومت نے پھانسیاں دینے کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ نے ان مصری عوام کے لئے کیا کیا تھا؟ حالانکہ مصر میں جو لوگ منتخب ہو کر اقتدار میں آۓ تھے وہ آ ئرلینڈ میں IRA سے زیادہ برے نہیں تھے۔ انہیں بھی IRA کی طرح ایک جمہوری سیاسی عمل میں لایا جا سکتا تھا۔ لیکن اسرائیل سعودی عرب اور امریکہ کا مشترکہ مفاد انہیں دہشت گردی کے سیاسی عمل میں رکھنے میں تھا۔ عرب عوام کے ساتھ یہ Mockery تھی کہ مصر میں فوجی ڈکٹیٹر کی حمایت کی جا رہی تھی۔ اور اوبامہ انتظامیہ  سعودی عرب اور اسرائیل کے ساتھ شام میں انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی پشت پر کھڑے تھے اور شام میں ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے میں ان کی مدد کر رہے تھے۔ ان پالیسیوں سے مڈل ایسٹ کھنڈرات بن گیا ہے۔ لوگوں کی زندگیاں عذاب بن گئی ہیں۔ امریکہ کی مڈل ایسٹ میں پالیسیاں دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے میں کامیاب ہیں۔ لیکن اس خطہ کے لوگوں کو امن استحکام اور اقتصادی خوشحالی دینے میں ناکام ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ اب سعودی شہزادہ کی پشت پر کھڑی ہے۔ اور اس کی سن رہی ہے کہ وہ بے گناہ ہے۔ لیکن مصر کی جیلوں میں جو پھانسی کا انتظار کر رہے ہیں امریکہ نے ان سے منہ موڑ لیا ہے۔ انہیں بے گناہ تسلیم کرنے کے لئے امریکہ تیار نہیں ہے۔ مصر، عراق، شام، لیبیا، یمن میں انسانی تباہی اور بربادی دیکھنے کے بعد ایرانی عوام کا John Bolton اور صدر ٹرمپ کی باتوں پر یقین کرنا خود کشی کرنا ہو گا۔


  امریکہ کی Extreme Unilateral اقتصادی بندشوں کا مقصد دراصل ان ملکوں کے لوگوں کو سزا دینا ہے۔ تاکہ وہ اقتصادی مسائل کا الزام حکومت کو دیں اور پھر حکومت کے خلاف بغاوت کریں۔ جیسا کہ یہ ونزویلا میں دیکھا جا رہا ہے۔ اور ٹرمپ انتظامیہ اب ایران میں بھی ایسے حالات پیدا کر رہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اس خطہ کو ایک نئی تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس خطہ کی حکومتوں کو اپنے ملکوں کی سلامتی  میں Extreme Unilateral اقتصادی بندشوں کی مخالفت کرنا چاہیے۔ دوسری طرف امریکہ کی یہ اقتصادی بندشیں ان ملکوں میں مڈل کلاس کو تباہ کر رہی ہیں۔ امریکہ کی یہ پالیسی اس خطہ کے ملکوں کے لئے شمالی کوریا  کے ایٹمی پروگرام سے زیادہ خطرناک ہیں۔                            

Sunday, February 10, 2019

Is Anti Zionism, Is Anti-Semitic?

  Is Anti Zionism, Is Anti-Semitic?
When Palestinian Youths In Jewish Designers’ Jeans And T-Shirts Threw Rock On Israeli Army
مجیب خان
Palestinians sitting in front of the rubble of a destroyed house by the Israeli army

Israeli army demolition of Palestinian homes

Palestinian youths use slingshots to hurl rocks at an Israeli checkpoint in West Bank 

A teenager  has been killed and more than 200 Palestinians injured as clashes with the Israeli army


 

  اسرائیل اقوام متحدہ کا رکن ہے۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اسرائیل اسی طرح ایک Sovereign ملک ہے جس طرح 190 دوسرے ملک Sovereign ہیں۔ عالمی قوانین کا جس طرح اقوام متحدہ کے دوسرے ملکوں پر اطلاق ہوتا ہے اسی طرح اسرائیل بھی عالمی قوانین کا پابند ہے۔ عالمی قوانین میں کسی ملک کو مذہب، رنگ اور نسل کی بنیاد پر برتری نہیں دی گئی ہے۔ عالمی برادری صرف ایک قانون کے ماتحت ہے۔ اور صرف یہ نظام قانون ہے جس نے دنیا کو منظم رکھا ہے۔ چند ممالک ہیں جو سیکورٹی کے نام پر قانون کی حدود سے باہر کاروائیاں کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اور اسرائیل ان ملکوں میں ہے۔ جس نے فلسطینیوں کو اپنے فوجی قبضہ میں 7 دہائیوں سے  رکھا ہوا ہے۔ انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا ہے۔ فلسطینیوں کے گھروں پر بلڈ و زر اور فلسطینی عورتوں اور بچوں پر مشین گنوں کی گولیاں روز کا معمول بن گیا ہے۔ اسرائیل کی یہ کاروائیاں اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزیاں ہیں۔ ان اسرائیلی پالیسیوں کی مذمت عالمی قوانین کے دائرے میں ہیں۔ اور اس کا تعلق Anti-Semite سے نہیں ہے۔ سعودی عرب یا کسی بھی اسلامی ملک میں ایسی پالیسیوں کی مذمت اور تنقید Anti-Islam نہیں دیکھی جاتی ہے۔ تاہم امریکہ یورپ اور بعض دوسرے مقا مات پر جہاں یہودیوں کے Synagogue پر حملہ کیے جاتے ہیں، ان کے کاروبار یا ان کی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ یا یہودیوں کو ہلاک کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ Anti-Semite ہے۔ اور اس کی مذمت کی جاۓ۔ اس کے خلاف اقدام کیے جائیں۔
  اسرائیل ایک Zionist State ہے۔ اس پر Jewish State کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ لیکن اس کی پالیسیاں Zionist Ideology  کو فروغ دیتی ہیں۔ مغربی ممالک سعودی عرب کے وہابی نظریات فروغ دینے کو انتہا پسند ی پھیلانا قرار دیتے ہیں۔ اس کی مذمت ا کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اسرائیل کی Anti-Semite کا لیبل لگنے کے خوف سے اس کی انتہا پسند Zionist Ideology کی مذمت اور مخالفت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ Zionists نے اسرائیل کے قیام کے لئے اسی طرح انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مہم چلائی تھی جس طرح  فلسطینی اب اسرائیل کے فوجی قبضہ سے آزادی کے لئے  مہم چلا رہے ہیں۔ Zionists نے فلسطائین میں King David Hotel کو بم سے اڑا دیا تھا۔ جس میں برطانوی فوجی ٹھہرے ہوۓ تھے۔ اس Zionists تحریک کے دباؤ میں دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر امریکہ اور برطانیہ اور دوسرے یورپی ملکوں نے Zionists کا مطالبہ تسلیم کر لیا تھا۔ اور فلسطائین میں ان کی Zionists یہودی ریاست بنا دی تھی۔ فلسطینیوں سے ان کی ریاست یہودی ریاست کے برابر قائم کرنے کا کہا تھا۔ تاہم اسرائیل کی سرحدوں کا تعین نہیں کیا تھا۔ یہ فیصلہ Zionists کے لئے چھوڑ دیا تھا۔ اگر امریکہ برطانیہ اور دوسرے یورپی ملک اسی وقت فلسطینی ریاست بھی بنا دیتے اور اسے تسلیم کر لیتے تو شاید اس خطہ میں اتنا خون خرابہ نہیں ہوتا۔ جنگیں اس خطہ کی نسلوں کا مقدر نہیں بنتیں۔ Zionists اس دور کے طالبان تھے۔ ان کا انتہائی Combative Behavior تھا۔ اسرائیلی ریاست کے حکمران بننے کے دوسرے ہی دن سے انہوں نے فلسطینی کاشتکاروں کی زر خیز زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ انہیں ان کی زمینوں سے بے دخل کر دیا تھا۔ یہ فلسطینی یہاں صدیوں سے آباد تھے۔ اور کاشتکاری کرتے تھے۔ یہ Zionists کا اپنی سرحدوں کے تعین کا پہلا اقدام تھا۔ عرب بادشاہوں نے فلسطینیوں کو Zionists کے خلاف مزاحمت کرنے کے بجاۓ انہیں اپنے علاقہ چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا۔ ان فلسطینیوں میں ایک بڑی تعداد عیسائی فلسطینیوں کی بھی تھی۔1948 میں اسرائیل وجود میں آیا تھا۔ اور 1948 میں پہلی اسرائیل عرب جنگ کی ابتدا ہو گئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہو نے کے صرف 3 سال بعد مشرق وسطی میں مستقبل کی نئی جنگوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ دوسری اسرائیل عرب جنگ 1967 میں اور پھر تیسری عربوں کے ساتھ اسرائیل کی جنگ 1973 میں ہوئی تھی۔ یہ جنگیں اسرائیل کی مستقبل کی سرحدوں کا تعین کرنے کے لئے تھیں۔ اسرائیل نے عربوں کے ایک بڑے علاقہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسرائیل فلسطین نا ختم ہونے والی جنگ کا سلسلہ اس وقت سے جاری ہے۔ امریکہ اور یورپ مڈل ایسٹ میں ‘War and Peace’ کو Micromanage کرنے کی سیاست کر رہے تھے۔
   مشرق وسطی میں عرب اسلامی ملکوں کی اسرائیل سے جنگ جاری تھی۔ لیکن دوسری طرف امریکہ اور یورپ کے یہودیوں کے ساتھ ان کے سیاسی تجارتی اور سفارتی تعلقات تھے۔ اور یہ امریکہ اور یورپ کے شہری تھے۔ اور ان یہودیوں کا عرب اسلامی ملکوں میں آنا جانا رہتا تھا۔ امریکہ اور یورپ کے ملک یہودیوں کو عرب اسلامی ملکوں میں اپنے سفیر بھی نامزد کرتے تھے۔ ان کے سفارت خانہ کے اسٹاف میں بھی یہودی سفارت کار ہوتے تھے۔ لیکن یہ امریکہ اور یورپی ملکوں کے شہری تھے۔ امریکہ اور یورپ میں تیل کی بڑی کمپنیاں یہودیوں کی تھیں۔ اور تیل اور گیس کے بڑے Producers عرب اسلامی ملک تھے۔ لہذا یہودی تیل کمپنیوں کے مالکوں کے عرب حکمرانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ وہ عرب ملکوں میں جاتے تھے۔ عرب سربراہوں سے ملتے تھے۔ اعلی عرب حکام کے ساتھ تجارتی معاملات طے کرتے تھے۔ ان کے ساتھ ڈنر بھی کرتے تھے۔ Slim Fast کے چیرمین کے شام میں صدر حافظ السد سے خاصہ دوستانہ تعلقات تھے۔ اور وہ اکثر صدر حافظ سے ملنے دمشق جاتے تھے۔ بعض دوسری کمپنیوں کے یہودی سربراہوں کے بھی صدر حافظ السد  سے دوستانہ تعلقات تھے اور وہ بھی دمشق جاتے تھے۔ صدر قد ا فی اسرائیلی Zionists کے خلاف تھے۔ پی ایل او کی حمایت کرتے تھے۔ اور اسے فنڈ ز بھی دیتے تھے۔ لیکن صدر قد ا فی نے لیبیا کا Investment fund نیویارک میں وال اسٹریٹ کی Goldman Sachs کو دئیے تھے۔ جو ایک Jewish firm تھی۔ لیبیا کے علاوہ خلیج کے ملکوں نے بھی اپنے Sovereign funds امریکہ اور یورپ میں Jewish investments اداروں کو دئیے تھے۔
  عرب اسلامی ملکوں سے ہر سال ہزاروں طالب علم امریکہ اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کے لئے آتے ہیں۔ ان یونیورسٹیوں میں وہ Jewish Professors کے اسٹوڈنٹ ہوتے ہیں۔ ان سے اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر  ان یونیورسٹیوں میں لیکچرار ہو جاتے ہیں اور یہودی ان کے اسٹوڈنٹ ہوتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ اور یورپ کے ہسپتالوں میں عرب اسلامی ملکوں کے ڈاکٹر ز ہیں۔ یہ Gynaecologists ہیں، Heart surgeons ہیں اور میڈیکل کے دوسرے شعبوں میں بھی ہیں۔ اور یہ یہودی عورتوں مردوں اور بچوں کے معالج بھی ہیں۔ یہ مضبوط انسانی رشتہ ہیں جو مذاہب سے بالاتر ہیں۔ عرب اسلامی ملکوں میں امریکہ اور یورپ کے Jewish Designers  کے کپڑے ، پرفیوم، گھڑیاں، عورتوں کے ہینڈ بیگ ، Jeans وغیرہ بھی خاصی مقبول ہیں۔ فلسطینی Jewish Designers کی Jeans اور T-shirts میں اسرائیلی فوج پر پتھر پھینکتے ہیں۔ عرب اسلامی ملکوں کے لوگوں کو مغربی ملکوں میں جب کھانے کی Halal اشیا نہیں ملتی ہیں تو وہ پھر Kosher food کو ترجیح دیتے ہیں۔ عرب اسلامی لوگوں میں Anti-Semitism نہیں ہے۔ البتہ یہ Anti Zionists ہیں۔ جرمنی میں تقریبا دو ملین سے زیادہ ترک کئی دہائیوں سے آباد ہیں لیکن یہ New Nazi نہیں ہیں اور نہ ہی Anti-Semite ہیں۔ جبکہ ترکی میں لوگ Anti Zionists ہیں اور فلسطینیوں کے ساتھ ان کے سلوک پر انہیں غصہ ہے۔ صدر اردو گان کے بیانات میں اکثر اس غصہ کا اظہار بھی نظر آتا ہے۔

  ایران میں ایک بڑی تعداد میں ایرانی یہودی صدیوں سے آباد ہیں۔ اور آیت اللہ ؤں کے نظام میں بھی یہودی ایران میں ہیں۔ ان کے Synagogues بھی ہیں۔ ایران میں Anti-Semitism نہیں ہے۔ لیکن اسرائیل اور امریکہ میں Anti- Iranianism  عروج پر ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو ایسے حالات میں اومان گیے تھے کہ جب اسرائیلی فوجیں بے گناہ فلسطینی بچوں اور عورتوں کو مار رہی تھیں۔ لیکن اومان کے امیر نے وزیر اعظم نتھن یا ہو اور ان کی بیگم کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا تھا۔ ان کی آؤ بھگت کی تھی۔ اسلامی تعلیمات میں اسے Show your Greatness’ کہتے ہیں۔ امریکہ ایک Great Nation ہے لیکن ٹرمپ انتظامیہ اور ان کے سیکرٹیری آف اسٹیٹ نے ایران کے سلسلے میں انتہائی Mean ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو جس طرح اومان گیے تھے اسی طرح وہ ایران بھی جا سکتے تھے۔ انہیں ایران سے جو شکایتیں تھیں اس پر ڈائیلاگ ہو سکتے تھے۔ امن استحکام، سلامتی اور انسانی بقا کے لئے مخالفین کے دروازے پر دستک دینا عظیم رہنما ہونے کا ثبوت ہے۔