Monday, April 30, 2018

Now East Asia Should Be De-Militarized President Trump Opposed Iran Nuclear Deal, But Why Not Support Iran’s Nuclear Weapon Free Middle East Proposal?


Now East Asia Should Be De-Militarized 
President Trump Opposed Iran Nuclear Deal, But Why Not Support Iran’s Nuclear Weapon Free Middle East Proposal?

مجیب خان
Kim Jong-un and Moon Jae-in Shake hands

North Korea and South Korea unite

Crown Prince Muhammad Bin Salman with Richard Branson founder of Virgin Group, Los Angeles
    امریکہ اور شمالی کوریا میں Balance of Power کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ یہ Balance of Threat ہے جس نے امریکہ کو پیچھے ہٹنے اور شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہونے پر آمادہ کیا ہے۔ امریکہ اور شمالی کوریا دونوں اپنی حکمت عملی میں کامیاب نظر آ رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ سال اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں شمالی کوریا کو اس کرہ ارض سے مٹانے کی دھمکی دی تھی۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے امریکہ کے شہروں نیویارک واشنگٹن ہوائی اور لاس انجیلس کو تباہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ چند ماہ قبل ہوائی میں صبح سویرے خطرے کا سائرن بجنے سے لوگ گھروں سے نکل آۓ تھے۔ اور Shelter لینے بھاگنے لگے تھے۔ ہوائی کے شہریوں نے سمجھا تھا کہ شمالی کوریا کے Little Rocket man نے میزائل سے حملہ کر دیا ہے۔ امریکہ کے لوگوں میں شمالی کوریا سے جنگ کا اتنا زیادہ خوف تھا۔ Kim Jong Un نے صدر ٹرمپ سے مخاطب ہوتے ہوۓ کہا تھا کہ ایٹمی میزائلوں کے بٹن میری ٹیبل پر ہیں۔ جس پر صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ میرے بٹن تمہارے بٹن سے زیادہ بڑے ہیں۔ Kim Il Sung کے Grandson نے یہ ٹکر امریکہ سے لی تھی۔ جو دنیا کی واحد سپر پاور تھا۔ اور جس کے صدر کو دنیا کی انتہائی طاقتور شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ کم جونگ ان نے اس طاقتور صدر کی دھمکیوں کو بڑی ہوشیاری اور ذہانت سے Deal کیا ہے۔ اور صدر امریکہ کو اس کے ساتھ معاملات ٹیبل پر بیٹھ کر طے کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ 34 سالہ کم جونگ ان نے یہ تاریخ بنائی ہے۔ جبکہ جنوبی کوریا کے ساتھ 65 سال سے جنگ کے حالات ختم کر نے اور امن سے رہنے کے دور کا آغاز کیا ہے۔ شمالی کوریا کا یہ ڈکٹیٹر ان اسرائیلی جمہوریت پسندوں سے بہتر ہے۔ جنہوں نے 70 سال سے فلسطینیوں کو جنگ کے حالات میں رکھا ہوا ہے۔ اور جنگ ختم کرنے میں انہیں ابھی تک کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کم جونگ ان جسے دنیا ڈکٹیٹر کہتی ہے اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف اس سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا ہے۔
   شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان Demilitarized Zone میں جنوبی کوریا کے صدرMoon Jae-in  سے ملنے آۓ تھے۔ 65 سال میں پہلی مرتبہ دونوں ملکوں کے رہنما ایک دوسرے سے بغل گیر ہو ۓ تھے۔ اور پہلی مرتبہ ایک دوسرے کو دیکھ کران کے چہروں پر مسکراہٹ بھی نئی تھی۔ صرف چند ماہ قبل جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان DMZ کو دنیا کی انتہائی خطرناک سرحد بتایا جاتا تھا۔ اور آج شمالی اور جنوبی کے رہنما اس سرحد پر بغل گیر ہو کر امن کی ایک نئی تاریخ جنم دے رہے تھے۔ دونوں ملکوں کے رہنماؤں میں ملاقات کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا ہے اس میں Korean Peninsula free of nuclear weapons کا اعادہ کیا گیا ہے۔ جس پر شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong Un اور جنوبی کوریا کے صدر Moon Jae-in نے  دستخط کیے ہیں۔ اعلامیہ میں دونوں ملکوں میں ہم آہنگی فروغ دینے، جو خاندان دونوں ملکوں میں تقسیم ہیں انہیں سفر کی سہولتیں فراہم کرنے کا کہا گیا ہے۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے کہا" میں یہاں محاذ آ رائی کی تاریخ ختم کرنے آیا ہوں۔ آج میں ان پختہ ارادوں کے ساتھ آیا ہوں کہ میں امن، خوشحالی اور کوریا کے درمیان تعلقات کی ایک نئی تاریخ کی شمع روشن کروں گا۔" شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے امن اور انسانی ترقی کے مفاد میں اپنا ایٹمی پروگرام ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اس کے لئے کوئی شرائط نہیں ر کھی تھیں۔ با ظاہر یہ نظر آتا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان انتہائی خوشگوار ماحول بن گیا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کا موقف سنا ہے۔ ایک دوسرے کے تحفظات کو سمجھا ہے۔ جیسا کہ گفتگو کے آغاز پر شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے جنوبی کوریا کے صدر مون سے کہا "میں امید کرتا ہوں کہ ہم کھلے دل سے باہمی مفاد کے ایشو ز پر بات کریں گے۔ جو آج اچھے نتائج کا سبب بنیں گے۔" صدر مون نے جواب میں کم جونگ ان کی DMZ کو تقسیم کی ایک علامت سے امن کی علامت بنانے میں معاونت کرنے  کو سراہا یا۔" صدر مون نے کہا میں اس ملاقات کے انعقاد میں تمہارے دلیرانہ فیصلے کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔" صدر مون نے کہا" میں امید کرتا ہوں ہم آج برابری اور کھلے ذہن سے باتیں کریں گے۔ پھر ہم کسی سمجھوتہ پر پہنچ سکتے ہیں۔ اور وہ نتائج دے سکیں گے جو ہمارے ملکوں کے عوام اور ساری دنیا دیکھنے کی خواہش رکھتی ہے؛ امن"
   جب ایک ہی خطہ اور ایک ہی کلچر کی قیادتیں مل بیٹھ کر آپس کے اختلاف اور تنازعوں کو حل کرتے ہیں تو ان کی سوچ اور گفتگو کرنے کا یہ انداز ہوتا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں تنازعوں کو حل کرنے اور امن میں سنجیدہ ہیں۔ بیرونی طاقتیں 65 برس سے تنازعہ حل کرنے کے بجاۓ انہیں صرف الجھانے اور لڑانے کی سیاست کرتی رہی تھیں۔ جبکہ دونوں ملکوں کے رہنماؤں میں چند گھنٹوں کی ملاقات میں تنازعوں کو حل کرنے کے طریقہ کار پر اتفاق ہو گیا تھا۔ اور ہم آہنگی بھی ہو گئی تھی۔ دونوں ملکوں میں جو امور طے پاۓ ہیں۔ امریکہ کو بھی اب اسی حدود میں رہتے ہوۓ ہم آہنگی اور امن کو آ گے بڑھانے میں معاونت کرنا ہو گی۔ شمالی کوریا Denuclearize ہونے سے ایسٹ ایشیا کو بھی اب Demilitarize کیا جاۓ۔ یہاں امریکہ کو اپنی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیاں بھی ختم کرنا ہوں گی۔ اس خطہ کے ملکوں کو چین سے خوفزدہ کر کے یہاں فوجی اڈے اور بحری بیڑے کھڑے رکھنے کی سیاست بھی تبدیل کرنا ہو گی۔ ایسٹ ایشیا کے ممالک اپنے تنازعہ اور اختلافات طے کرنے کی مکمل صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ امن اور انسانی ترقی اب علاقہ کے ملکوں کی ذمہ داری ہے۔
   Korean Peninsula کے بعد Arab Peninsula دنیا کا سب سے زیادہ خطرناک خطہ ہے۔ جہاں خوفناک ہتھیاروں کی دوڑ 100 میل کی رفتار سے ہو رہی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی 34 سال کے ہیں۔ لیکن شہزادہ کی سوچ وہ نہیں ہے جو کم جونگ ان کی سوچ ہے۔ سعودی شاہی خاندان لندن پیرس واشنگٹن کو اپنا ہمسایہ سمجھتا ہے۔ اور اب تل ابیب بھی  سعود یوں کا ہمسایہ بن گیا ہے۔ اس لئے سعود یوں کو اپنے ہمسایہ میں جنگوں کی لگی آگ کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد نے گزشتہ 3 سال میں اپنے ہمسایہ میں یا تو دشمن بناۓ ہیں یا پھر اپنے مخالفین بناۓ ہیں۔ سعود ی شاہی خاندان کیونکہ لندن پیرس واشنگٹن کو اپنا ہمسایہ سمجھتا ہے اس لئے یہ  اپنے خطہ میں امن کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا ہے۔ اسرائیل ایک یورپی ملک ہے۔ اس لئے یہ اپنے آپ کو یورپ میں شامل سمجھتا ہے۔ 70 سال سے اس ملک نے اپنے اطراف میں جنگیں پھیلا ر کھی ہیں۔ اسرائیل ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر پر بیٹھا ہے۔ اس نے عراق پر حملہ کر کے اس کے ایٹمی پلانٹ تباہ کیے تھے۔ پھر امریکہ نے عراق پر حملہ کر کے اس کے conventional ہتھیاروں کو تباہ کر دیا تھا۔ پھر اسرائیل نے شام پر حملہ کر کے اس کے ایٹمی پلانٹ تباہ کر دئیے تھے۔ اور امریکہ نے لیبیا پر حملہ کر کے اس کی conventional فوجی طاقت ختم کر دی تھی۔ اور اب اسرائیل اور سعودی عرب ایران کو عراق اور شام بنانے کا عزم کیے ہوۓ ہیں۔ جس کے بعد اسرائیل Arab Peninsula کی واحد ایٹمی اور معاشی طاقت ہو گا۔
    کیا ولی عہد شہزادہ محمد Kim Jong Un کی طرح اپنی سوچ بدل سکتے ہیں۔ اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن کے لئے تعلقات استوار کرنے سرحد عبور کر کے ان ملکوں میں جا سکتے ہیں جن کے ساتھ انہیں اختلاف ہے۔ Arab Peninsula کے استحکام اور امن کے لئے ولی عہد شہزادہ محمد اسے  De weaponize کرنے کا اعلان کریں۔ یمن میں جنگ بند کرنے کا اعلان کریں۔ ولی عہد شہزادہ محمد ایران کی اس تجویز کی حمایت کیوں نہیں کرتے ہیں کہ Middle East کو Nuclear Weapons Free Region قرار دیا جاۓ اور ایران اس میں شامل ہو گا؟ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل اور سعودی عرب Iran nuclear deal کی مخالفت کرتے ہیں لیکن Meddle East  کو Nuclear Weapons Free Region  بنانے کی حمایت بھی نہیں کرتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر اس مسئلہ کو Mount Everest بنا دیا ہے۔ دنیا کے پاس ان کے لئے ایک ہی لفظ ہے go to hell, do not waste world’s precious time.
  شمالی اور جنوبی کوریا کے رہنماؤں نے 4 گھنٹے میں Korean Peninsula کو ایٹمی ہتھیاروں  سے تمام  خطروں کو ختم کرنے کا سمجھوتہ کر لیا۔ اور دوسرے دن آ گے بڑھنے کے نئے منصوبوں پر کام شروع کر دیا۔                                                                     

Thursday, April 26, 2018

What Guarantee Will President Trump Give To Leader Of North Korea Kim Jong Un, That His Administration’s Agreement On North Korea’s Nuclear Programmed Will Be Honor And Next Administration Will Not Call It Insane And Ridiculous


What Guarantee Will President Trump Give To Leader Of North Korea Kim Jong Un, That His Administration’s Agreement On North Korea’s Nuclear Programmed Will Be Honor And Next Administration Will Not Call It Insane And Ridiculous 

مجیب خان
President Xi Jinping and Leader of North Korea Kim Jong Un

President Xi Jinping   President Donald Trump   Kim Jong Un  Leader of North Korea
    شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong Un امن کے مفاد میں فیصلے کرنے میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں۔ Kim Jong Un نے فوری طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے تجربہ منجمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایٹمی میزائلوں کا پروگرام ختم کر دیا ہے۔ امریکہ کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات سے پہلے Kim Jong Un نے یہ unilateral فیصلے کیے ہیں۔ اور ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام ترک کرنے کا اعلان کر کے Kim Jong Un نے اپنے مخلص اور سنجیدہ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی دنیا سے نکال کر سیاست معیشت اور ڈپلومیسی کی دنیا میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دنیا 34 سالہ Kim کے اس فیصلہ کا ضرور خیر مقدم کرے گی۔ اور Kim کے ان اقدامات کو کامیاب بنانے میں دنیا ان کی مدد اور حوصلہ افزائی کرے گی۔ اور اس خطہ کو Warmongering کے سیاہ بادلوں سے نجات دلانے اور امن اور انسانی خوشحالی کی روشنی پھیلانے میں دنیا تعاون کرے گی۔ شمالی کوریا کی قیادت حالات کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ 60سال سے جنگ کے خوف اور مملکت کو ہتھیاروں کا گودام بنانا کوئی اچھی پالیسی نہیں ہے۔ آج کی دنیا میں سیاست، ڈپلومیسی اور معیشت دشمنوں کے عزائم ناکام بنانے کے بہترین Tools ہیں۔ ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے کا مطلب Warmongers کے عزائم کی تکمیل کرنا ہے۔ شمالی کوریا کی قیادت نے دنیا کے مختلف حصوں میں ان جنگوں کا جائزہ بھی لیا ہو گا جنہیں امریکہ برطانیہ اور فرانس کے ہتھیاروں سے مسلسل فروغ دیا جا رہا ہے۔ امریکہ نے افغان جنگ، عراق جنگ، لیبیا شام یمن کی جنگوں میں 7ٹریلین ڈالر خرچ کیے ہیں لیکن جنگی ہتھیار بنانے والی کمپنیوں نے ان جنگوں سے 3ٹریلین ڈالر کی تجارت کی ہو گی۔ آج کی جنگیں 110ڈالر کے Video games نہیں ہیں۔ امریکہ نے شام میں ایک منٹ میں 106 میزائل گراۓ تھے اور تقریباً 200 ملین ڈالر خرچ کر دئیے تھے۔ لیکن امریکہ کے پاس Puerto Rico میں hurricane کے بعد basic services restore کرنے کے لئے اتنے ڈالر نہیں تھے۔  جنگیں انسانی تباہی اور وسائل کی بربادی لاتی ہیں۔ شام انسانیت کا قبرستان بن گیا ہے۔ شمالی کوریا کی عقلمند قیادت نے مڈل ایسٹ کی بیوقوف قیادتوں سے بھی سبق سیکھا ہے۔ جو انسانی ترقی کے منصوبوں سے زیادہ انسانی تباہی پر خرچ کر رہے ہیں۔
   شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong Un کی ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں آ گے رہنے کی سوچ بدلنے میں جنوبی کوریا میں Winter Olympic Games کے انعقاد کا ایک اہم رول ہے۔ تین ہفتہ Kim نے اولمپک گیم ز دیکھے تھے۔ جنوبی کوریا کو بھی دیکھنے کا موقعہ ملا تھا۔ اور اس دوران Kim Jong Un کی سوچ تبدیل ہوئی تھی۔ پھر جنوبی کوریا میں Moon Jae-in کی نئی لبرل حکومت بھی شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات دوستانہ بنانے کا ایجنڈا لے کر اقتدار میں آئی تھی۔ یہ بھی سیاسی فضا میں  خوشگوار تبدیلی تھی۔ شمالی کوریا نے اولمپک گیم ز میں حصہ لینے کا اظہار کیا تھا۔ اور اس سلسلے میں جنوبی کوریا کے وفد کو Pyongyang آنے کی دعوت دی تھی۔ جنوبی کوریا کے صدر Moon Jae-in نے یہ دعوت قبول کر لی۔ دونوں ملکوں میں یہ سیاسی پیش رفت بڑی تیزی سے ہو رہی تھیں۔ جنوبی کوریا کا وفد شمالی کوریا آیا۔ شمالی کوریا کے کھلاڑی اعلی حکام کے ساتھ وفد میں جس کی قیادت کم جونگ ان کی بہن نے کی تھی۔ اولمپک گیم ز میں حصہ لینے جنوبی کوریا آۓ تھے۔ اولمپک گیم ز کے سائڈ لائن پر دونوں ملکوں کے حکام میں ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اور اولمپک گیم ز ختم ہونے کے فوری بعد جنوبی کوریا کے اعلی سیکیورٹی حکام کا وفد شمالی کوریا آیا۔ وفد نے کم جونگ ان سے ملاقات کی۔ جنوبی کوریا کے وفد نے شمالی کے رہنما کم جونگ ان کے روئیے میں ایٹمی ہتھیاروں کے مسئلہ پر Flexibility دیکھی تھی۔ جنوبی کوریا کا  اعلی سیکیورٹی  وفد پھر واشنگٹن آیا۔ وفد نے صدر ٹرمپ کو Pyongyang میں کم جونگ ان سے ملاقات کی تفصیل بتائی اور کم کا ایک خصوصی لیٹر صدر ٹرمپ کو دیا۔ وفد نے صدر ٹرمپ کو بتایا کہ کم جونگ ان ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اور صدر ٹرمپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ جس کے بعد صدر ٹرمپ نے مئی میں کم جونگ ان سے ملاقات کرنے کا اعلان کیا۔ اس ماہ کے آغاز میں سی آئی اے ڈائریکٹر Mike Pompeo نے Pyongyang کا خفیہ دورہ کیا اور کم جونگ ان سے ملاقات کی تھی۔ اسی اثنا میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان بیجنگ پہنچ گیے اور صدر شی سے ایٹمی ہتھیاروں پر اپنے فیصلوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ بلاشبہ اس ملاقات میں کم جونگ ان نے صدر شی سے اپنی اور اپنے ملک کی سلامتی کی ضمانت  بھی مانگی ہو گی۔ ایسی ہی ضمانت کم جونگ ان نے جنوبی کوریا سے مانگی ہو گی۔ جس کے بعد شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے Unilaterally ایٹمی پروگرام ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ Kim Jong Un مخلص ہیں۔ اور اپنے عوام کی خوشحالی کے لئے شمالی کوریا کو اب اقتصادی ترقی کے راستہ پر لانا چاہتے ہیں۔
    سرد جنگ ختم ہونے کے بعد یہ خصوصیت سے نوٹ کیا جا رہا ہے کہ امریکہ عالمی Commitment اور اپنے سمجھوتوں پر عملدرامد سے پھر جاتا ہے۔ ایک انتظامیہ جو سمجھوتے کرتی ہے دوسری انتظامیہ انہیں Honor نہیں کرتی ہے۔ انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔ اکثر انتظامیہ بدلنے کے ساتھ  پالیسی بھی بدل جاتی ہے۔ دنیا میں Chaos امریکہ کی اس سیاست کا نتیجہ ہے۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد بش سینیئر انتظامیہ نے سوویت صدر میکائیل گارباچوف کو یہ یقین دلایا تھا کہ نیٹو کو ایسٹ کی طرف نہیں پھیلایا جاۓ گا۔ لیکن پھر بل کلنٹن انتظامیہ نے ایسٹ کے ملکوں کو نیٹو کا رکن بنانا شروع کر دیا تھا۔ روس کے اطراف نیٹو کی Wall Build ہورہی تھی۔ امریکہ نے روس کے ساتھ اپنے عہد کو پورا نہیں کیا تھا۔
   عراق میں ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ کرنے اور اس پر عملدرامد کرنے کے بارے میں سلامتی کونسل کی کسی قرارداد میں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ عراق میں جب مہلک ہتھیاروں کا خاتمہ ہو جاۓ گا تو پھر بغداد میں Regime Change کیا جاۓ گا۔ امریکہ کے41ویں صدر جارج ایچ بش کی انتظامیہ میں عراق میں ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ کرنے کی قراردادیں سلامتی کونسل نے منظور کی تھیں۔ 42ویں صدر بل کلنٹن کی انتظامیہ میں ان قرار دادوں پر عملدرامد کرایا گیا تھا۔ اور پھر 43ویں صدر جارج بش نے عراق پر Regime Change کرنے کے لئے Preemptive حملہ کیا تھا۔ حالانکہ 10 سال تک امریکہ نے دنیا کو یہ بتایا تھا کہ عراق میں Regime Change امریکہ کا مشن نہیں تھا۔
   2004 میں لیبیا کے صدر معمر قد ا فی نے اپنے ایٹمی پروگرام سے دستبردار ہونے اور  مہلک ہتھیاروں کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بش انتظامیہ نے صدر قد ا فی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا۔ لیبیا پر سے بندشیں ختم کر دی تھیں۔ اور صدر قد ا فی کو یہ یقین دلایا تھا کہ لیبیا میں Regime Change اب امریکہ کی پالیسی نہیں ہے اور وہ اقتدار میں رہے سکتے ہیں۔ لیکن  صدر بش نے لیبیا کے صدر قد ا فی کو جو یقین دلایا تھا صدر اوبامہ نے اسے Honor نہیں کیا اور برطانیہ فرانس اور اٹلی کے ساتھ مل کر لیبیا پر Preemptive حملہ کر کے قد ا فی حکومت ختم  کر دی۔ لیبیا کا سیاسی اور اقتصادی Infrastructure تباہ کر دیا۔ لیبیا کے ساتھ اس کے ہمسایہ ملک بھی Destabilize ہوۓ ہیں۔
   صدر اوبامہ نے کیوبا کے خلاف امریکہ کی 60سال قدیم پالیسی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور کیوبا پر سے بندشیں ختم کرنے اعلان کیا تھا۔ امریکہ کی تقریباً تمام ائر لائنیں ہوانا جانے لگی تھیں۔ سیاحت اور تجارت بھی شروع ہو گئی تھی۔ امریکہ کے ساتھ کیوبا کے تعلقات بحال ہو گیے تھے۔ ہوانا میں امریکہ کا سفارت خانہ کھل گیا تھا۔ صدر اوبامہ ہوانا کے دور پر گیے تھے۔ ہوانا کے لوگ امریکی صدر کو اپنے درمیان دیکھ کر خوش ہوۓ تھے۔ لیکن پھر عوام کی یہ خوشی اس وقت مایوسی بن گئی تھی کہ جب صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ایگزیکٹو آرڈر سے کیوبا کے ساتھ نئے تعلقات ختم کر کے پرانے تعلقات برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کیونکہ کیوبا ایک کمیونسٹ ملک تھا۔
   60 سال میں امریکہ فلسطینیوں کو امن دینے میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل میں پہلے میڈرڈ معاہدہ  اور اس کے بعد اوسلو معاہدہ ہوا تھا۔ امریکہ ان معاہدوں میں ایک Guarantor تھا۔ اور امریکہ کا یہ Commitment تھا کہ وہ ان معاہدوں پر عملدرامد کراۓ گا۔ اور اس Process کو جاری ر کھا جاۓ گا۔ لیکن اسرائیل نے میڈرڈ اور اوسلو معاہدوں کو ختم کر دیا تھا۔ اور امریکہ نے اپنا Commitment  ختم کر دیا۔ بم اور میزائل برسانے میں امریکہ سب سے آ گے ہوتا ہے۔ لیکن  فلسطینیوں کو امن کی زندگی دینے میں امریکہ سب سے پیچھے ہے۔
  اوبامہ انتظامیہ نے عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے صرف ایٹمی پروگرام پر دو سال تک مذاکرات کیے تھے۔ اس میں یہ شامل نہیں تھا کہ ایران کا دنیا میں Political Behavior کیا ہو گا۔ اور نہ ہی ایران نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اس کے ساتھ ہمسایہ ملکوں کا بالخصوص اسرائیل اور سعودی عرب کا کیا Attitude ہو گا۔ یہ Rogue اور Wild حکومتیں اسے Destabilize کرنے میں کیا سازشیں کریں گی؟ ایران نے دنیا کی Civilize  حکومتوں سے مذاکرات کیے تھے۔ لیکن ڈونالڈ  ٹرمپ نے دنیا کی Uncivilized حکومتوں کے ساتھ شامل ہو کر اس معاہدہ کی مخالفت کرنا پسند کیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ دنیا کے جن ملکوں نے ایران سمجھوتہ کی حمایت کی ہے اور اسے عالمی امن کے لئے ایک اچھا سمجھوتہ کہا ہے ان ملکوں کی آبادی تقریباً 6بلین ہے۔ اور اسرائیل اور سعودی عرب کی آبادی 50ملین ہے۔ جبکہ ایران کی آبادی 80ملین ہے۔ ایران کے مسئلہ پر ان دو ملکوں کی مخالفت کو اب صدر ڈونالڈ ٹرمپ Represent کر رہے ہیں۔ اور 80ملین اور 6بلین پر ان ملکوں کا فیصلہ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ Totalitarianism ہے۔ Kim Jong Un کو ایران کے اس تجربہ کو مد نظر رکھ کر ٹرمپ انتظامیہ سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔ لیکن اس کی کوئی Guarantee نہیں ہو گی کہ شمالی کوریا کا ٹرمپ انتظامیہ سے جو سمجھوتہ ہو گا نئی انتظامیہ اسے Insane اور Ridiculous کہہ کر قبول کرنے سے انکار کر دے گی۔ اور جس طرح صدر ٹرمپ نے کیوبا ایک کمیونسٹ ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہونے پر 60سال پرانی بندشیں دوبارہ بحال کر دی ہیں۔ اسی طرح نئی امریکی انتظامیہ بھی شمالی کوریا پر پرانی بندشیں دوبارہ بحال کر سکتی ہے۔ شمالی کوریا بھی ایک کمیونسٹ ملک ہے۔                                                                               

Saturday, April 21, 2018

“It’s Too Bad That The World Puts Us In A Position Like That,” President Trump


 “It’s Too Bad That The World Puts Us In A Position Like That,” President Trump

In 1973, Prime Minister Zulfikar Ali Bhutto Said To President Richard Nixon, "Mr. President Please
 Solve The Palestine-Israel Problem It Will Become A Bigger Problem For The World Peace And Stability".

In 1980s, Prime Minister Indira Gandhi Opposed The President Reagan’s Afghan Policy To Arm And Train Jihadis In Pakistan. Prime Minister Gandhi Warned America That They Will Become A Problem For Our Region.

مجیب خان
Prime Minister Zulfikar Ali Bhutto meets with U.S.President Richard Nixon in 1973 in the Oval office 
President Ronald Reagan and Prime Minister Indira Gandhi, July 29 1982 

   "یہ بہت برا ہے کہ دنیا نے ہمیں ایک ایسی صورت میں ڈال دیا ہے۔" صدر ٹرمپ نے یہ شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے پر اسد حکومت کے خلاف فوجی کاروائی کا فیصلہ کرنے پر کہا تھا۔ تاہم صدر ٹرمپ نے یہ غلط کہا ہے کہ "دنیا نے امریکہ کو ایک ایسی صورت میں ڈالا ہے" بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ امریکہ نے دنیا کو ایک ایسی میں ڈال دیا ہے۔" کہ دنیا کے لئے اس صورت سے نکلنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس صورت سے نکلنے کے تمام راستوں کا جنگوں نے گھراؤ کر لیا ہے۔ دنیا امن چاہتی ہے۔ لیکن جنگیں دنیا کو امن سے دور لے جا رہی ہیں۔ عراق، شام، لیبیا، یمن دنیا نے امریکہ کو نہیں دئیے ہیں۔ امریکہ نے انہیں عدم استحکام کر کے یہ دنیا کو دئیے ہیں۔ 3ملین شامی مہاجرین کے سیلاب نے یورپ کو مشکل صورت میں ڈال دیا ہے۔ شامی مہاجرین کے مسئلہ پر یورپی حکومتوں کو خانہ جنگی کا سامنا ہو رہا ہے۔ کیونکہ ان کے شہری مہاجرین کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اور ان کے خلاف وہ سڑکوں پر آ گیے تھے۔ دنیا ابھی القا عدہ سے نجات حاصل نہیں کر سکی تھی کہ عراق کے عدم استحکام اور شام کی خانہ جنگی سے ISIS کا جنم ہوا تھا۔ اور اس نے عراق اور شام کے ایک بڑے علاقہ پر قبضہ کر کے اپنی اسلامی خلافت قائم کر لی تھی۔ امریکہ کی قیادت میں افغانستان کو طالبان کی اسلامی خلافت سے آزاد کرایا تھا۔ اور پھر امریکہ کی قیادت میں صد ام حسین کی سیکو لر حکومت سے عراق کو آزادی دلائی تھی۔ عرب دنیا میں ہر طرف ڈکٹیٹروں کا راج تھا۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس کے لئے اچھے اور برے ڈکٹیٹر تھے۔ لیکن عوام کے لئے ڈکٹیٹر ڈکٹیٹر ہوتے ہیں۔ اور اب  عرب دنیا کے دوسرے ڈکٹیٹروں کے ساتھ اتحاد بنا کر شام کو ڈکٹیٹر سے آزادی دلانے کی جنگ لڑی جار ہی ہے۔ اس جنگ کے دوران شام میں دو اور عراق میں ایک نئی جنگ ISIS کی اسلامی خلافت کے خلاف شروع ہو گئی تھی۔ صدر اوبامہ کے دوسرے 4سال ان جنگوں کی مصروفیت میں گزر گیے تھے۔ صدر اوبامہ دنیا سے امن کا نوبل انعام لے گیے لیکن دنیا کو جنگوں میں چھوڑ گیے۔ جبکہ صدر بش کے دور کی جنگیں بھی جاری تھیں۔ دہشت گردی میں کمی ہونے کے بجاۓ اور اضافہ ہو گیا تھا۔ بش انتظامیہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جو Framers تھے۔ انہوں نے اسے سرد جنگ کا متبادل بنایا تھا۔ اور اسے 50سال تک جاری رکھنے کا کہا تھا۔
   امریکہ War addicted ہو گیا ہے۔ 1990s میں سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ میں 5 صدر آۓ ہیں۔ اور ہر صدر نے مڈل ایسٹ میں بمباری کی ہے۔ صدر ٹرمپ پانچویں صدر ہیں۔ اور اب تک وہ دو مرتبہ شام میں حکومت کے خلاف بمباری کر چکے ہیں۔ 27 سال میں مڈل ایسٹ کے عوام کے مفاد میں کسی ایک امریکی صدر نے کوئی اچھا کام کیا ہے اور نہ ہی انہیں امن دیا ہے۔ انہیں صرف جنگوں اور دہشت گردی کے راستہ پر رکھا ہے۔ اسرائیل 70سال سے فلسطینیوں کو اس راستے پر ر کھے  ہوۓ ہے۔ فلسطینی ابھی تک اسرائیلی فوجی بربریت میں انتہائی Heartbroken حالات میں بمشکل زندہ ہیں۔ اسد حکومت کو 500,000 لوگوں کو ہلاک کرنے کا الزام دیا جاتا ہے۔ جبکہ اسرائیلی حکومت نے ساٹھ سال میں اس سے دو گنی تعداد میں فلسطینی مارے ہیں۔ تاہم اسد حکومت کے حامیوں کو ISIS القا عدہ النصرہ اور دوسرے دہشت گردوں نے جس پیمانے پر ہلاک کیا ہے اسے بھی اسد حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ یہ مڈل ایسٹ میں امریکہ کے رول کا پس منظر ہے جس نے دنیا کو ان حالات میں ڈالا ہے۔
    صدر ٹرمپ نے 2018 میں مڈل ایسٹ کے حالات پر یہ کہا ہے کہ' یہ بہت برا ہے کہ دنیا نے ہمیں ایک ایسی صورت میں ڈالا ہے۔' لیکن 45سال قبل پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے 1973 میں تیسری عرب اسرائیل جنگ کے بعد وائٹ ہاؤس میں صدر رچرڈ نکسن سے ملاقات میں کہا تھا کہ 'مسٹر پریذیڈنٹ فلسطین اسرائیل تنازعہ حل کریں۔ ورنہ یہ دنیا کے امن اور استحکام کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن جاۓ گا۔' مڈل ایسٹ کے بارے میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ پیشن گوئی بھی کی تھی کہ ' تیسری جنگ عظیم مڈل ایسٹ میں ہو گی۔' اور آج 45 سال بعد وزیر اعظم بھٹو کی یہ پیشن گوئی بالکل درست نظر آ رہی ہے۔ روس اور امریکہ شام میں ایک دوسرے کے مد مقابل آ گیے ہیں۔ واشنگٹن میں Hot head کا ایک غلط فیصلہ یا اقدام تیسری جنگ عظیم کا سبب بن سکتا ہے۔ یا عرب دنیا میں کسی سر پھرے کی شرارت تیسری جنگ عظیم کی ابتدا ہو سکتی ہے۔ مڈل ایسٹ میں حالات انتہائی خطرناک ہیں۔ ہنری کسنگر صدر نکسن کے قومی سلامتی امور کے مشیر تھے۔ مڈل ایسٹ Shuttle Diplomacy میں ہنری کسنگر مشہور تھے۔ لیکن فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل میں ہنری کسنگر کی ڈپلومیسی فیل ہو گئی تھی۔ پاکستان امریکہ کا دوست اور قریبی اتحادی تھا۔ وزیر اعظم بھٹو نے صدر نکسن کو عرب اسرائیل تنازعہ حل کرنے کی Urgency پر مخلص مشورہ دیا تھا۔ لیکن امریکی انتظامیہ اپنے ایجنڈے پر اتحادیوں کے مشورے کو اہمیت نہیں دیتی ہے۔
   پھر 1980s میں افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف صدر ریگن کی جہاد یوں کو استعمال کرنے کی پالیسی کی پاکستان میں لبرل اور پروگریسو جماعتوں نے شدید مخالفت کی تھی۔ ریگن انتظامیہ اپنے محدود مقاصد میں جہادیوں کی اسلامی انتہا پسندی کو ابھار رہی تھی۔ اور اسے کمیونسٹ فوجوں کو شکست دینے میں استعمال کیا جا رہا تھا۔ طویل المدت میں یہ حکمت عملی پاکستان کے مفاد میں بالکل نہیں تھی اور قلیل المدت میں یہ اسلامی انتہا پسندی  روشن خیال اور لبرل قدروں کے حامیوں کے لئے خطرہ بن رہی تھی۔ لیکن ریگن انتظامیہ نے ان کے خدشات کو نظر انداز کر دیا تھا۔ بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی بھی ریگن انتظامیہ کی افغان پالیسی کے خلاف تھیں۔ اور پاکستان میں جہادیوں کو تربیت اور ہتھیار دینے کی پالیسی سے خاصی خوفزدہ تھیں۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ یہ ہمارے خطہ کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن جائیں گے۔ وزیر اعظم گاندھی نے ماسکو میں سوویت رہنماؤں سے ملاقات کے بعد کہا کہ سوویت قیادت کو احساس ہوا ہے کہ افغانستان میں فوجیں بھیجنے کا فیصلہ غلط تھا۔ اور اب وہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنا چاہتے ہیں۔ اگر افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف جہادیوں کی کاروائیاں بند ہو جائیں تو سوویت فوجیں وہاں سے چلی جائیں گی۔ وزیر اعظم گاندھی نے وائٹ ہاؤس میں صدر ریگن سے بھی ملاقات کی تھی۔ اور صدر ریگن کو افغانستان میں جہادیوں کی کاروائیاں ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن وزیر اعظم کامیاب نہیں ہو سکی تھیں۔ افغانستان سوویت یونین کے لئے ویت نام نہیں بنا تھا لیکن یہ پاکستان کے لئے ویت نام بن گیا تھا۔ اب 18 سال سے امریکہ ان افغان مجاہدین سے لڑ رہا ہے جو سوویت یونین کے خلاف جہاد میں امریکہ کے اتحادی تھے۔
   امریکہ پر نائین الیون کے حملہ کے بعد پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے پہلے اور پھر ملیشیا کے وزیر اعظم Mahathir Mohamad نے وائٹ ہاؤس میں صدر بش سے ملاقات کی تھی۔ اور دونوں رہنماؤں نے فلسطین اسرائیل تنازعہ کو اسلامی دنیا میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا Root Cause بتایا تھا۔ اور صدر بش سے فلسطین اسرائیل تنازعہ کو حل کرنے پر زور دیا تھا۔ لیکن جیسے امریکہ کی ہر انتظامیہ نے تہیہ کر لیا تھا کہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کا کوئی حل نہیں تھا۔ افغانستان میں طالبان حکومت ختم ہونے کے بعد صدر پرویز مشرف نے صدر بش کو طالبان سے سیا سی مذاکرات کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ جسے صدر بش کے قومی سلامتی، خارجہ اور دفاعی امور کے پالیسی میکرز  نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ طالبان سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور ان کا مکمل خاتمہ کیا جاۓ گا۔ اور اس وقت تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ بش انتظامیہ 8 سال اقتدار میں تھی اور 8 سال میں یہ 6ملین پشتون طالبان کا خاتمہ نہیں کر سکی تھی۔ اوبامہ انتظامیہ نے بھی 8 سال اقتدار کیا تھا۔ اور وہ بھی طالبان کا خاتمہ نہیں کر سکی تھی۔ طالبان کو جب اقتدار سے ہٹایا تھا اس وقت وہ بہت کمزور تھے۔ ان کی تحریک کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ افغان عوام بھی طالبان کا اقتدار ختم ہونے سے خوش تھے۔ اور یہ افغانستان میں ایک سیاسی حل کا بہترین موقعہ تھا۔ لیکن بش انتظامیہ طالبان سے مذاکرات کرنے کی مخالفت کرتی رہی۔ صدر بش کی اس Anti-Peace پالیسی کا نتیجہ تھا کہ طالبان منظم اور مضبوط ہو گیے تھے۔ امریکہ ایک جیتی ہوئی جنگ ہار گیا تھا۔ امریکہ کی دو سابق انتظامیہ افغانستان کو ایسے حالات میں چھوڑ کر گئی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ ان کی غلطیوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا رہی ہے۔
    عراق جنگ کی دنیا کے امن پسند ملکوں اور شہریوں نے مخالفت کی تھی۔ دنیا بھر میں ہزاروں اور لاکھوں لوگ اس جنگ کے خلاف سڑکوں پر آۓ تھے۔ وائٹ ہاؤس کے سامنے امریکی شہریوں نے اس جنگ کی مخالفت میں مظاہرہ کیا تھا۔ لیکن وائٹ ہاؤس کے اندر Anti-peace قیادت نے اپنے عوام کو بھی نظر انداز کر دیا تھا۔ ڈکٹیٹر بن کر عوام پر اپنے فیصلے مسلط کرنے لگے تھے۔ امریکہ کے دو پارٹی نظام میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ ایک پارٹی کی غلط پالیسی یا فیصلہ کو دوسری پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے بدل دیا تھا۔ امریکی عوام نے  پہلی مرتبہ ایک Black امریکہ کا صدر منتخب کیا تھا۔ لیکن اس نے بھی ایک White صدر کی Regime Change اور Anti-Peace پالیسیاں جاری رکھی تھیں۔ اس لئے امریکی عوام  اب ڈونالڈ ٹرمپ کو اقتدار میں لاۓ ہیں۔ جو دونوں پارٹیوں کی ان پالیسیوں کو بدل رہے ہیں جن کی امریکی عوام نے مخالفت کی تھی۔ لیکن اس کی مزاحمت اتنی شدید ہے کہ صدر ٹرمپ کو یہ کہنا پڑا ہے کہ ' یہ بہت برا ہے کہ دنیا نے ہمیں ایک ایسی صورت میں ڈال دیا ہے۔'