Thursday, April 27, 2017

First Historical Verdict Against A Prime Minister In Office: Guilty Until Proven Innocent

First Historical Verdict Against A Prime Minister In Office:         
Guilty Until Proven Innocent

Two Judges Have Said The Prime Minister Is Dishonest, Incompetent, And Should Be Dismissed

مجیب خان  
  
Prime Minister Nawaz Sharif


"?Is it true that behind every great fortune there is a crime"

 Imran Khan Chairman  Pakistan Tehreek-i-Insaf
     وزیر اعظم میاں نواز شریف خاندان کے پانامہ کیس کرپشن پر سپریم کورٹ کی 5 رکنی بینچ نے ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا ہے۔ اس بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھو سہ اور جسٹس گلزار نے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا ہے۔ اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کا کہا ہے۔ جبکہ تین ججوں نے اپنے فیصلے میں وزیر اعظم کے لئے لفظ نااہل استعمال نہیں کیا ہے۔ لیکن ان ججوں نے جو دس سوالات اٹھاۓ ہیں۔ وہ دراصل جسٹس سعید کھو سہ اور جسٹس گلزار کے فیصلے کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان ججوں نے نواز شریف اور ان کے خاندان کے بیانات میں بہت سنجیدہ تضاد ات بتاۓ ہیں۔ ان ججوں نے یہ سوال کیے ہیں کہ سرمایہ کیسے جدہ، لندن اور قطر پہنچا؟ کم عمر بیٹوں نے نوے کی دہائی میں فلیٹس کیسے خریدے؟ حسن نواز نے کیسے ان کمپنیوں کو حاصل کیا؟ ان کمپنیوں کو چلانے کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا؟ حسن نواز نے میاں نواز شریف کو کہاں سے لاکھوں روپے تحفہ میں دئیے؟ وغیرہ وغیرہ ۔ میاں نواز شریف خاندان کےخلاف کرپشن کیس میں صفائی میں اتنے ٹھوس ثبوت نہیں ہیں کہ جتنے شبہات پر مبنی تضاد ات ہیں۔ یہ تضاد ات دیکھ کر خود ان کے خاندان کے لوگ ایک دوسرے کے چہرے دیکھ رہے ہوں گے۔ تین ججوں نے اس لئے نواز شریف کو بری نہیں کیا ہے۔ اور نواز شریف کو ان سوالوں کے جواب دینے کا ایک موقعہ اور دیا ہے۔ اور سول اور ملڑی انٹیلی جنس کی ایک مشترکہ ٹیم سے ان سوالوں کے بارے مزید تحقیقات کرنے کا کہا ہے۔ اور 60 دن میں اس کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم  دیا ہے۔ ساڑھے پانچ سو صفحات کی رپورٹ پر پانچوں ججوں نے دستخط کیے ہیں۔ یہ فیصلہ تاہم مشترکہ نہیں ہے۔ دو ججوں نے وزیر اعظم نواز شریف کو پانامہ کیس کرپشن میں Guilty قرار دیا ہے۔ لیکن تین ججوں کے فیصلے کو Guilty Until Proven Innocent   دیکھا جاۓ گا۔
    اس کیس میں ججوں پر بھاری ذمہ داری تھی۔ اور انہوں نے بڑے محتاط ہو کر یہ فیصلہ دیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی پارٹی کے کارکن اور وزرا یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف پر کرپشن کے الزامات ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ اور یہ فیصلہ ان کے حق میں ہے۔ جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ جسٹس کھو سہ اور جسٹس گلزار کا جو فیصلہ تھا اگر یہ بینچ کا مشترکہ فیصلہ ہوتا تو پاکستان میں پھر کیا ہوتا؟ وزیر اعظم کے خلاف دو ججوں کے فیصلہ پر حکومت کے وزرا کا رد عمل قوم نے دیکھا ہے کہ کس طرح سپریم کورٹ کے باہر یہ چیخ پکار رہے تھے۔ Low لہجہ پر اتر آۓ تھے۔ سول سوسائٹی کو بھول گیے تھے۔ اگر یہ پانچ ججوں کا متفقہ فیصلہ ہوتا تو سارے ملک کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔ پاکستان سیاسی انتشار میں آ جاتا۔ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال پہلے ہی بہت نازک ہے۔ پانچ ججوں نے انتہائی غور خوص کے بعد اور ملک کے سیاسی حالات کو مد نظر رکھتے ہوۓ یہ اختلافی فیصلہ دیا ہے۔ اس فیصلہ میں ججوں نے سیاسی اور جمہوری عمل کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ اور ملک میں امن رکھنے میں فوج کی مدد کی ہے۔ بلاشبہ فوج بھی سپریم کورٹ سے یہ توقع کر رہی ہو گی کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے ملک کا استحکام اور امن درہم برہم نہیں ہونا چاہیے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "پہلے فوج ملک کی سلامتی اور استحکام میں آ گے رہتی تھی۔ اور سپریم کورٹ اس کے پیچھے ہوتی تھی۔ اور اب سپریم کورٹ کو ملک کی سلامتی اور استحکام میں آ گے آنا ہو گا اور فوج اس کے پیچھے رہے گی۔" لہذا سپریم کورٹ نے ملک میں سیاسی تقسیم کو مد نظر رکھا ہے۔ حالات کا جائزہ لیا ہے اور اس کے مطابق فیصلہ دیا ہے۔
    سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد میاں نواز شریف کی سیاست کا یہ آخری باب نظر آ رہا ہے۔ میاں نواز شریف JIT کے سامنے پیش ہونے کے بجاۓ جس میں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے لوگ بھی ہوں گے شاید مستعفی ہونے کو ترجیح دیں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی جگہ جو بھی آۓ گا وہ جلد یا آئندہ سال وقت پر انتخاب کر آۓ گا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ ایک نئی مثال ہو گی۔ میاں نواز شریف کو 1993 میں صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن کے الزام میں وزیر اعظم کے عہدہ سے برطرف کیا تھا۔ ان 24 سالوں میں نواز شریف بدلے نہیں تھے۔ اور 24 سال بعد اب انہیں کرپشن کے کیس میں سپریم کورٹ کا سا منا کرنا پڑا ہے۔ اس مرتبہ میاں نواز شریف اپنے سیاسی زوال کے خود ذمہ دار ہیں۔ اور وہ اپنے سیاسی زوال کا کسی کو الزام نہیں دے سکتے ہیں۔
    وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ سننے کے بعد آصف علی زر داری یہ مت سمجھیں کہ انہوں نے پیغمبروں کی طرح حکومت کی تھی۔ آصف علی زر داری پاکستان میں کرپشن کے چمپین ہیں۔ زر داری کو 60 ملین ڈالر کا ابھی حساب دینا ہے کہ یہ کہاں سے آۓ تھے؟ اور کہاں گیے ہیں؟ عوام زر داری اور ان کی پیپلز پارٹی کو اس وقت تک ووٹ نہیں دیں کہ جب تک زر داری 60 ملین ڈالر کا حساب نہیں دیتے ہیں۔ آصف علی زر داری کا دور اقتدار پاکستان کے عوام کے لئے Hell تھا۔ ان کے دور میں پاکستان کے حساس اداروں پر حملہ پاکستان پر حملہ تھے۔ ان حملوں میں فوج کے اعلی افسر مارے گیے تھے۔ ہزاروں بے گناہ شہری دہشت گردوں کے حملوں میں مارے گیے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا دور شاید کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ اتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے واقعات ہونے پر کسی وزیر نے اپنی ناکامی بتا کر وزارت سے استعفا نہیں دیا تھا۔ وزیر داخلہ وزارت کی کرسی سے چپکے رہے۔ افغانستان میں دو وزیروں نے اس ہفتہ اس لئے استعفا دے دیا کہ طالبان نے فوجی چھاؤنی پر حملہ کر کے  170 افغان فوجی ہلاک کر دئیے تھے۔ لیکن پاکستان میں ایسی مثال قائم نہیں کی گئی ہے۔
    فوج میں کرپشن کے خلاف کاروائی کرنے کی مثال قائم کی گئی ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے فوج میں بعض سینیئر افسروں کے خلاف کرپشن کے الزام میں کورٹ مارشل کیا تھا۔ اور انہیں سزائیں دی تھیں۔ صدر جنرل مشرف سابق ایڈ مرل کو جس نے لاکھوں ڈالر خرد برد کیے تھے اور اس نے امریکہ میں پناہ لے لی تھی۔ اسے امریکہ سے پکڑ کر پاکستان لاۓ تھے۔ اور اسے سزا دی تھی۔ اس کے اثاثے ضبط کر لئے تھے۔ اور اس سے خرد برد کے لاکھوں ڈالروں کا حساب لیا تھا۔ جنرل راحیل شریف نے بھی فوج کے بعض افسروں کو کرپشن کرنے پر برطرف کر دیا تھا۔ اور کچھ کو ان کے عہدوں سے Demoteکر دیا تھا۔ لیکن سیاستدانوں نے اپنے کلب میں ابھی تک ایسی مثال قائم نہیں کی ہے۔ عمران خان پہلے سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے سیاسی پارٹیوں میں کرپشن کے خلاف احتساب کی ابتدا کی ہے۔ اور اپنے آپ کو بھی احتساب کے لئے پیش کیا ہے۔ کرپشن ایک ایسی دیمک ہے جو اداروں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ اس کا علاج ضروری ہے۔       
  

             

Monday, April 24, 2017

America’s New Korean War With The Grandson of Kim Il-Sung

America’s New Korean War With The Grandson of Kim Il-Sung

“.All options are on the table” 

But Palestinians Have Only One Option, Dialogue With Israel Forever

مجیب خان
The American aircraft carrier Carl Vinson during an exercise in South China sea

U.S aircraft carrier USS Nimitz East Asia

East Asia military build up

"Kim Jong-un "we are ready for war 

North Korea

     مشرق وسطی، شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیا میں افغانستان کے حالات دیکھنے کے بعد یہ کیسے یقین کیا جاۓ کہ شمالی کوریا دنیا کے امن اور سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے؟ بلکہ یہ کیوں نہیں کہا جاۓ کہ مشرق وسطی، شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیا کے حالات میں شمالی کوریا کو بھی گھسیٹا جا سکتا ہے۔ عراق، لیبیا اور افغانستان میں طالبان کو جن لفظوں میں کہ “All options are on the Table” دھمکیاں دی جاتی تھیں۔ اب ان ہی لفظوں میں یہ دھمکیاں شمالی کوریا کی قیادت کو دی جا رہی ہیں۔ بلکہ صدر ٹرمپ نے بڑے زور دار لہجہ میں کہا ہے کہ "شمالی کوریا کا مسئلہ حل کیا جاۓ ورنہ امریکہ اسے حل کرے گا۔" ایسے ہی لفظ 15 پندرہ سال قبل صدر جارج بش نے بھی عراق میں مہلک ہتھیاروں کا مسئلہ کرنے کے بارے میں استعمال کیے تھے۔ لیکن ایسی دھمکیوں سے مسئلے حل نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ مسئلے اور زیادہ پیچیدہ ہو گیے ہیں۔ تاہم شمالی کوریا عراق نہیں ہے۔ اور ایسٹ ایشیا مڈل ایسٹ نہیں ہے۔ ایسٹ ایشیا کے ان ملکوں نے امریکہ سے بڑی جنگیں لڑی ہیں۔ ان ملکوں کے لاکھوں شہری ان جنگوں میں مارے گیے تھے۔ انہوں نے یہاں بڑی تباہی دیکھی تھی۔ ان کے ذہنوں میں ان جنگوں کے زخم ابھی تک تازہ ہیں۔ یہاں شاید امریکہ سے اتنی نفرت نہیں ہو گی کہ جتنی جنگوں سے یہاں لوگ نفرت کرتے ہوں گے۔ ایسٹ ایشیا میں جب جنگوں کے لئے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ شمالی کوریا کے سیکورٹی انتظامات کو تباہ کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ایسٹ ایشیا میں امریکہ کی فوجی سرگرمیوں میں گرمی آ رہی ہے۔  بحر ساؤ تھ چائنا میں فوجی کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ امریکہ کے بحری بیڑے ایسٹ ایشیا کے گرد حلقہ بنا رہے ہیں۔ اور جاپان کو اب فوجی طاقت بننے کی شہ دی جا رہی ہے۔ مشرقی ایشیا میں نئے فوجی اتحاد بن رہے ہیں۔ مشرقی ایشیائی ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھ  رہی ہے۔ اور مشرق وسطی کے بعد اب مشرقی ایشیا کا نمبر آ گیا ہے۔ شمالی کوریا کی قیادت یہ حالات دیکھ کر اپنے ملک کی سلامتی میں اقدام کرے گی۔
    مشرق وسطی میں تباہیاں لانے کے لئے عراق کو Epic center بنایا گیا تھا۔ اور مشرقی ایشیا میں شمالی کوریا کو اس مقصد میں ٹارگٹ کیا جاۓ گا۔ امریکہ کی 30 ہزار فوجیں جنوبی کوریا میں شمالی کوریا کی سرحدوں کے قریب بیٹھی ہوئی ہیں۔ جن کے پاس انتہائی خطرناک ہتھیار ہیں۔ یہاں امریکی فوجوں کی موجودگی کو شمالی کوریا اپنی سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ جبکہ واشنگٹن سے شمالی کوریا کو دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔ اسے ہراس کیا جا رہا ہے۔ 20 سال سے شمالی کوریا پر اقتصادی بندشیں لگی ہوئی ہیں۔ شمالی کوریا کے جو خدشات ہیں انہیں دور کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ چھوٹے اور کمزور ملکوں کی سلامتی اور اقتدار اعلی کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔ امریکہ کو جب یہ علم ہو گیا تھا کہ عراق میں اب مہلک ہتھیار نہیں ہیں۔ امریکی فوجیں اسی روز عراق میں گھستی چلی گئی تھیں۔ لیبیا میں صدر قدافی نے پرامن طور سے اپنے مہلک ہتھیاروں سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور اپنے مہلک ہتھیار بش انتظامیہ کے حوالے کر دئیے تھے۔ لیکن پھر دوسری انتظامیہ جب اقتدار میں آئی اس نے لیبیا پر بمباری کر کے صدر قدافی کا اقتدار ختم کر دیا ۔ اور صدر قدافی کو القا عدہ کے حوالے کر دیا تھا۔ اور انہوں نے صدر قدافی کو قتل کر دیا تھا۔
    اوبامہ انتظامیہ نے روس، چین، برطانیہ، جرمنی اور یورپی یونین کے ساتھ شامل ہو کر ایران کا نیوکلیر پروگرام ختم کرنے کا سمجھوتہ کیا تھا۔ اس سمجھوتہ کے تحت ایران نے اپنا نیوکلیر پروگرام منجمد کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس سمجھوتہ کی توثیق کی تھی۔ اور ایران  اس سمجھوتہ پر عملدرامد کر رہا ہے۔ لیکن امریکہ نے اس سمجھوتہ کے مطابق ابھی تک ایران پر سے پابندیاں ختم نہیں کی ہیں۔ اور نئی ٹرمپ انتظامیہ اس سمجھوتہ کو ختم کرنے کا تہیہ کیے ہوۓ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ ایران کے ساتھ اس سمجھوتہ کو انتہائی خراب سمجھوتہ قرار دیتی ہے۔ لیکن اس سمجھوتہ میں خرابیاں کیا ہیں۔ اس کی کبھی نشاندہی نہیں کی ہے۔ حالانکہ روس اور چین کے علاوہ امریکہ کے یورپی اتحادیوں جرمنی برطانیہ فرانس نے اسے ایک اچھا سمجھوتہ کہا ہے۔ جس نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر بریک لگا دئیے ہیں۔ لیکن دوسری طرف بش انتظامیہ کو عراق پر حملہ کرنے کے بعد جب وہاں مہلک ہتھیار نہیں ملے تھے۔ تو بش انتظامیہ نے یہ کہا تھا کہ برطانیہ فرانس جرمنی روس اور دوسرے ملکوں کی انٹیلی جنس کا بھی یہ ہی کہنا تھا کہ عراق میں مہلک ہتھیار تھے۔ امریکہ کی یہ پالیسیاں اور فیصلے دراصل دنیا کے مسئلوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اور دوسری حکومتوں کے لئے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔
    Kim Jong Un اب 30 برس کا ہے۔ کوریا کی جنگ ختم ہونے کے تقریباً  34 سال بعد پیدا ہوا تھا۔ Kim کے Grand Father اور Great Grand Father نے 50 کی دہائی میں کوریا میں امریکہ سے جنگ لڑی تھی۔ اور ٹرمپ انتظامیہ اب ان کے Grand Child سے جنگ کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ Kim Jong Un نے 50 کی دہائی میں کوریا جنگ کی فلم دیکھی تھی۔ اور اسے بتایا گیا تھا کہ کوریا جنگ میں 5 ملین لوگ کس طرح مارے گیے تھے۔ جن میں کوریا کے فوجیوں اور شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی۔ دوسری جنگ عظیم سے زیادہ لوگ کوریا کی جنگ میں مارے گیے تھے۔ Kim کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آج امریکہ کے پاس زیادہ مہلک ہتھیار ہیں۔ اور وہ شمالی کوریا کو قبرستان میں بدل سکتا ہے۔ پھر Kim کے سامنے عراق اور لیبیا کی مثال بھی ہے کہ کس طرح امریکہ نے ان ملکوں کو اپنی بھر پور فوجی طاقت سے تباہ کیا ہے۔ اور صد ام حسین اور کرنل قدافی کا کیا حشر ہوا تھا۔ یہ حقائق ہیں جو شمالی کوریا کی قیادت کو صرف  نیوکلیر ہتھیاروں میں محفوظ پناہ دیکھا رہے ہیں۔ شمالی کوریا کی قیادت کو اب شاید کسی پر بھرو سہ  نہیں ہے۔ صرف نیوکلیر ہتھیاروں پر بھرو سہ  ہے۔
    ٹرمپ انتظامیہ کو ہراس اور دھمکیاں دینے کے بجاۓ شمالی کوریا کی قیادت میں Trust بحال کرنے لئے اقدام کرنا ہوں گے۔ اس سلسلے میں جنوبی کوریا کے ساتھ  دفاعی معاہدہ ختم کرنے کی پیشکش اور جنوبی کوریا سے امریکی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کرنا ہو گا۔ جنوبی کوریا کو براہ راست شمالی کوریا سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔ اور اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنا ہوں گے۔ جنوبی کوریا امریکی فوجیں اپنی سرزمین پر رکھنے کے لئے امریکہ کو 800 ملین ڈالر دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود جنوبی کوریا اور خطہ کی سلامتی کو خطروں کا سامنا ہے۔ اگر جنوبی کوریا یہ 800 ملین ڈالر شمالی کوریا کی ترقی میں انویسٹ کرے تو اس کے زیادہ مثبت نتائج امن کے مفاد میں ہوں گے۔           

Wednesday, April 19, 2017

The Unending Wars: Who Is Suffering The Most And Who Is Profiting More

The Unending Wars: Who Is Suffering The Most And Who Is Profiting More

Afghan War Started In The Eighties Against The Soviet Army, And Afghanistan Is Still In Wars

It has been thirty-seven years of
Civil War in Afghanistan. In Somalia, which war started in the nineties, has been in twenty-six years and Somalia is still in war
The First Iraq War Started in the nineties, and Iraq is still in war. It has been twenty-six years
The war in Syria, seven years. The war in Libya, seven years. The war in Yemen, three years

مجیب خان
A convoy of Soviet-armored vehicles crossing a bridge at the Soviet-Afghan border    

Congressman Charlie Wilson With Afghan Mujahideen

Operation Iraqi Freedom, March 20, 2003 

President Bush with Pilots and Crew members of the aircraft
Children of All Wars 
    افغان جنگ کا Part One سوویت فوجوں کے خلاف جہاد 80 کی دہائی پر چھایا ہوا تھا۔ جبکہ 90 کی دہائی میں داخلی افغان خانہ جنگی Part Two تھا۔ جن مجاہدین کو امریکہ نے تربیت، اسلحہ اور فنڈ فراہم کیے تھے۔ اور مغربی طاقتوں نے ان کی حمایت کی تھی۔ وہ مجاہدین مختلف گروپوں میں تقسیم ہو گیے تھے۔ اور ان میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی تھی۔ افغان جنگ امریکہ کے 40 ویں صدر رونا لڈ ریگن کے دور میں شروع ہوئی تھی۔ امریکہ کے 41 ویں صدر جارج ایچ بش کے دور میں یہ جنگ پھر داخلی خانہ جنگی بن گئی تھی۔ 21 سال بعد امریکہ کے 43 ویں صدر جارج ڈ بلو بش کے دور میں افغان جنگ کا Part Three شروع ہوا تھا۔ کابل میں طالبان حکومت کا خاتمہ کرنے کے لئے بش انتظامیہ نے امریکہ کی زمینی فوج کو استعمال نہیں کیا تھا۔ بلکہ طالبان کے مخالف ازبک اور تا جک وار لارڈ ز کو ڈالروں سے بھرے بریف کیس دئیے تھے۔ اور انہیں طالبان کی حکومت ختم کرنے اور ان کا مکمل خاتمہ کرنے کا مشن دیا تھا۔ اور ان کی مدد امریکہ کی فضائیہ نے کی تھی۔ جس نے کابل پر بمباری کی تھی۔ یہ ازبک اور تا جک وار لارڈ ز شام کے صدر اسد سے زیادہ خوفناک Butcher اور Animal تھے۔ طالبان مجاہدین نے نومبر 2001 میں کندوز کا محاصرہ ہونے کے بعد جنرل عبدالرشید دو ستم کے دستوں کے آگے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ جنرل دو ستم کے حکم پر انہیں پھر Sheberghan جیل بند Containers  میں لے جایا گیا تھا۔ راستہ میں ایک ہزار طالبان بند Containers میں ہوا اور پانی نہ ملنے سے مر گیے تھے۔ وہاں موجود بعض گواہوں نے بتایا تھا کہ یہاں امریکی فوجی بھی موجود تھے۔ ایک ہزار طالبان کے قتل عام کو Dasht-i-Leili Massacre کہا جاتا ہے۔ جنرل دو ستم کے فوجیوں نے انہیں ایک بڑے گڑھے میں پھینک کر اس پر مٹی ڈال دی تھی۔ انسانیت کے خلاف یہ کرائم کسی طرح بھی انسانیت کے خلاف Chemicals استعمال کرنے سے کم نہیں تھے۔
    طالبان حکومت ختم ہونے پر افغانوں نے مسرت کا اظہار کیا تھا۔ افغانستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غیر ملکی فوجوں کا خیر مقدم کیا گیا تھا۔ اور امریکہ بہت آسانی سے اور بہت جلد یہ جنگ جیت سکتا تھا۔ لیکن بش انتظامیہ کا جنگ ختم کرنے کا جیسے ایجنڈا نہیں تھا۔ اور افغان جنگ کی منصوبہ بندی بھی اسی کے مطابق کی گئی تھی۔ جنگ  جیت کر ہارنے کے بعد یہ جنگ دوبارہ جیتنا مشکل ہو جاتا ہے۔ امریکہ اور نیٹو اب افغانستان میں اس صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ افغانستان میں صدر بش کے Blunders کا صدر اوبامہ نے علاج کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس مرتبہ افغانستان فتح کرنے کے لئے صدر اوبامہ نے امریکی فوجوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ کر دی تھی۔ جبکہ نیٹو کی ساٹھ ہزار فوجیں اس کے علاوہ تھیں۔ اس کے علاوہ افغانستان پر 26000 ہزار بم اور میزائل بھی گراۓ تھے۔ لیکن صدر اوبامہ اس کے باوجود اس جنگ کو ناکامیوں سے نہیں نکال سکے تھے۔ امریکی اور نیٹو فوجیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ افغان جنگ کے دس سال بعد صدر اوبامہ نے افغانستان سے تمام فوجیں نکالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ صرف 8 ہزار امریکی فوجیں اور 5 ہزار نیٹو فوجیں افغان سیکورٹی فورس کو تربیت دینے کے لئے افغانستان میں رکھی تھیں۔ لیکن یہ امریکہ کی افغان جنگ کی دوسری دہائی کے 7 سال ہیں اور افغانستان کے حالات بہتر ہونے کے کہیں کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔
    امریکہ نے وار لارڈ ز کو اس جنگ میں اپنا اتحادی بنایا تھا۔ لیکن وہ بھی افغان جنگ جیت کر امریکہ کو نہیں دے سکے تھے۔ امریکہ نے تورہ بورہ میں ڈیزی کٹر بم گرا کر دیکھ لیا۔ امریکہ نے افغانستان میں فوجوں میں اضافہ کر کے اور فوجوں میں کمی کر کے دیکھ لیا ہے۔ لیکن افغانستان کے حالات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ امریکہ نے ڈرون  سے بم گرانے کا تجربہ بھی کر لیا ہے۔ لیکن طالبان افغانستان میں ابھی تک زندہ سلامت ہیں۔ اور افغانستان کے تقریباً ایک تہائ حصہ پر ان کا قبضہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں افغانستان کے دروں میں اسلامی ریاست کے کمپلیکس پر پہلا بم گرایا گیا ہے۔ جو 21 ہزار ٹن کا Non-Nuclear بم تھا۔ اور اسے Mother of All Bombs بتایا تھا۔ یہ 16 ملین ڈالر کا بم تھا۔ لیکن صرف 94 اسلامی ریاست کے دہشت گردوں کے مرنے کی خبر سنائی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں فوجی کامیابی نہیں ہونے پر پاکستان کو طالبان کی حمایت کرنے کا الزام دینے لگتے ہیں۔ اور پاکستان سے ان کے خلاف کاروائی کرنے کے مطالبہ ہونے لگتے ہیں۔ حالانکہ یہ افغانستان کے طالبان ہیں جنہوں نے پاکستان کو اپنی دہشت گردی دی ہے۔ افغانستان کے بعد پاکستان کو بھی عدم استحکام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور پاکستان کا ہمسایہ بھارت ان  کی حمایت کرتا ہے جو پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ اور پاکستان کو عدم استحکام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تقریباً 11 سال سے پاکستان ان سے لڑ رہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے قومی سلامتی امور کے مشیر میکماسٹر نے روس سے بھی طالبان کی حمایت ختم کرنے کا کہا ہے۔ یہ پالیسی بش انتظامیہ کی تھی۔ یہ پالیسی اوبامہ انتظامیہ کی تھی۔ اور اب یہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی بنتی نظر آ رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف قطر نے طالبان کو اپنا دفتر کھولنے کی اجازت دی ہے۔ قطر انہیں فنڈ ز دے رہا ہے۔ سعودی عرب بھی ان کی مالی مدد کر رہا ہے۔ تیسری طرف بھارت ہے۔ جو افغانستان میں انتشار اور عدم استحکام کو اپنے اسٹرٹیجک مقاصد میں استحصال کر رہا ہے۔ امریکہ کی تین انتظامیہ کی جب یہ پالیسی ہے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے در پردہ عزائم اور ایجنڈا کچھ اور نظر آنے لگتا ہے۔
    افغانستان کے بعد صومالیہ دوسرا قبائلی ملک تھا۔ جہاں 1991 سے دو بڑے قبائلی وار لارڈ محمد فرح ادید  Aideed اور علی مہدی محمد کے درمیان اقتدار کی لڑائی ہو رہی تھی۔ صومالیہ بھی ایک انتہائی غریب ملک تھا۔ 1992 میں تقریباً 4 لاکھ صومالی بیماری، فاقہ کشی اور خانہ جنگی کی وجہ سے  مارے گیے تھے۔ صدر جارج ایچ بش نے صومالیہ کو فوری طور پر غذائی اشیا فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے امریکہ کی قیادت میں Operation Restore Hope منظور کیا تھا۔ اور ایک فاقہ کش ملک کی مدد کرنے کے لئے امریکہ کو غذائی اشیا کی فراہمی کا تحفظ کرنے کا اختیار دیا تھا۔ جس کے تحت امریکہ وار لارڈ ز کے خلاف کاروائی کر سکتا تھا۔ 1993 میں صومالی باغیوں نے امریکہ کے دو ہیلی کاپٹر گرا دئیے تھے۔ جس میں امریکہ کے 18 فوجی مارے گیے تھے۔ صومالیہ میں گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی تھی۔ اور کئی ہزار صومالی اس لڑائی میں مارے گیے تھے۔ 1994 میں امریکہ نے اپنا صومالی مشن ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس مشن پر امریکہ نے 1.7 بلین ڈالر خرچ کیے تھے۔ اس مشن میں 43 امریکی فوجی مارے گیے تھے۔ اور 153 فوجی زخمی ہوۓ تھے۔ 2002 میں امریکہ کو یہ  اطلاع ملی تھی کہ القا عدہ کے جنگجو صومالیہ میں پناہ لے رہے تھے۔ اس اطلاع کے بعد امریکہ نے خطہ میں اپنا فوجی آپریشن بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔ صومالیہ میں خانہ جنگی ابھی تک جاری ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے صومالی حکومت کی مدد کرنے اور صومالی فوج کو تربیت دینے کے لئے امریکی فوج صومالیہ  بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ صومالیہ میں جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔
    عراق جنگ کو 14 سال ہو گیے ہیں۔ اور عراق ابھی تک عدم استحکام کے حالات سے نہیں نکل سکا ہے۔ 14 سال سے عراق میں ہر ماہ دو ہزار بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں۔ امریکہ کے عراق پر حملہ سے ایک پوری نسل تباہ ہو گئی ہے۔ عراق اقتصادی ترقی، سائنس، ٹیکنالوجی اور ایجوکیشن میں 50 سال پیچھے چلا گیا ہے۔ ایک ملک کے لوگوں کو ایک غیر قانونی جنگ کے ذریعہ اقتصادی ترقی اور ایجوکیشن میں پیچھے کرنا بھی انسانیت کے خلاف کرائم ہے۔ تقریباً دو ملین عراقی اس جنگ میں مارے گیے ہیں۔ اور چار ملین عراقی بے گھر ہو گیے ہیں۔ اس جنگ سے حاصل کیا ہوا ہے؟ یہ جنگ کس کے مفاد میں تھی؟ ان سوالوں کے جواب دینے کے لئے تاریخ سے کہا ہے۔
    اوبامہ انتظامیہ اور مغربی ملکوں نے کیا سوچ کر شام میں فساد پھیلانے والوں کی حمایت کی تھی؟ انہوں نے مصر میں اخوان المسلمون کی منتخب  جمہوری کا خاتمہ صرف اس لئے قبول کیا تھا کہ اس حکومت میں مصر میں اسلامی انتہا پسندوں کا فروغ ہو رہا تھا۔ جو اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ بن رہا تھا۔ اسرائیل اسلامی انتہا پسندوں میں گھرتا جا رہا تھا۔ لیکن پھر مصر میں ناکام ہونے والے اسلامی انتہا پسندوں کی شام میں اسد حکومت کے خلاف تحریک کی امریکہ اور مغربی ملکوں نے حمایت کی تھی۔ اسد حکومت سیکولر اور لبرل تھی۔ جس میں تمام مذہبی عقیدے امن اور آزادی سے رہتے تھے۔ ایک ایسی حکومت کے خلاف اوبامہ انتظامیہ نے اسلامی انتہا پسندوں کو فوقیت دی تھی۔ انہیں تربیت اور اسلحہ فراہم کیا تھا۔ اور دنیا کو 6 سال سے اس خونی خانہ جنگی سے Entertain کرایا تھا۔ القا عدہ، اسلامی ریاست، داعش، النصرہ جیسے دہشت گرد گروپ شام کو تباہ کر رہے تھے۔ اسد حکومت کے حامیوں، عیسا ئیوں اور Alawite شیعہ فرقہ کے لوگوں کا قتل عام کر رہے تھے۔ شام میں قدیم تاریخ کی تمام نشانیاں مٹا رہے تھے۔ اور اوبامہ انتظامیہ ان کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹی تھی۔ یہاں اسرائیل کا کیا مفاد تھا؟ چھ سال سے اسرائیل کی سرحد پر اسلامی انتہا پسندوں کو جمع کیا جا رہا تھا۔ اور اسرائیل کو اس پر کوئی پریشانی نہیں تھی۔
    اوبامہ انتظامیہ نے شام میں اسد حکومت کے خلاف نام نہاد ماڈریٹ اور Free Syrian Army کو تربیت اور اسلحہ بالکل اسی طرح دیا تھا۔ جیسے 80 کی دہائی میں صدر ریگن نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کو تربیت اور اسلحہ دیا تھا۔ اور شام کو اس خطہ میں اب ایک دوسرا افغانستان بنا دیا ہے۔ نجیب اللہ کی حکومت کا زوال ہونے کے بعد افغانستان میں جہادی گروپ تقسیم ہو گیے تھے۔ اور ان میں اقتدار کی خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ شام میں اس وقت افغانستان سے زیادہ انتہا پسند گروپ ہیں۔ افغانستان میں صرف پاکستان براہ راست ملوث تھا۔ لیکن شام میں اس خطہ کا ہر ملک ملوث ہے۔ افغانستان کی طرح اگر شام میں بھی آئندہ 30 سال تک عدم استحکام اور داخلی خانہ جنگی جاری رہتی ہے۔ تو یہ اسرائیل کے مفاد میں ہو گا۔ آئندہ 30 سال میں اسرائیل کی آزادی کے 100 سال ہو جائیں گے۔ اور عربوں کے علاقوں پر اسرائیل کے فوجی قبضہ کے 80 سال ہو جائیں گے۔ فلسطینیوں کی آزاد ریاست کا خواب اس وقت تک پورا ہو گا یا نہیں؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران Regime Change کرنے کے حملے ایک نئی قسم کی دہشت گردی ہے۔ جس نے ملکوں کو تباہ کیا ہے۔ لوگوں کی زندگیاں اجڑ گئی ہیں۔ ان کا امن برباد ہو گیا ہے۔ دوسری طرف اس صورت حال کے نتیجہ میں سیکورٹی کی نئی کمپنیاں وجود میں آئی ہیں۔ ہتھیاروں کی صنعت میں زبردست Boom آیا ہے۔                                                                     

Saturday, April 15, 2017

The Fall of Assad Government, Will It Be The Exodus of Christians From The Middle East?

 The Green Zone, No Fly Zone, And Red Line Is A New Middle East?

The Fall of Assad Government, Will It Be The Exodus of Christians From The
 Middle East?  
    
مجیب خان
Muslim and Christian Palestinians are fighting against Israeli occupation, but the west do not support violence 

Israel has a right to defend it's people and country from extremist and terrorists, with full force

In Syria these extremists and terrorists are supported by the west

Al-Qaeda in Syria is fighting with the ISIS

    “World is a mess” صدر ٹرمپ نے عالمی صورت حال کے بارے میں یہ بالکل درست کہا ہے۔ اور اس بارے میں کوئی دو راۓ نہیں ہو سکتی ہے۔ دنیا میں یہ Mess پیدا کرنے کے دو سابق صدر جارج بش اور برا ک ا و با مہ ذمہ دار ہیں۔ صدر جارج بش کی Mess صاف کرنے کے بجاۓ صدر اوبامہ نے اس میں نیا اضافہ کیا ہے۔ اور اب صدر ٹرمپ کے لئے دعا کی جاۓ کہ خدا انہیں Wisdom دے اور پہلے سے Mess میں دبی دنیا کو مزید Mess نہیں دیں۔ صدر بش افغانستان، عراق، القا عدہ اور ا سا مہ بن لا دن صدر اوبامہ کو دے کر گیے تھے۔ صدر اوبامہ نے آٹھ سال میں صرف ایک مسئلہ حل کیا تھا۔ اور بن لا دن کو دریافت کر لیا تھا۔ لیکن پھر بن لا دن کی جگہ ابوبکر الا بغدای ایجاد کر لیا جو داعش کا سربراہ تھا۔ داعش القا عدہ سے زیادہ بڑی اور خطرناک تنظیم تھی۔ القا عدہ نے نائن الیون کو امریکہ پر حملہ کیا تھا۔ لیکن داعش  نے عرب عوام پر حملہ کیے ہیں۔ داعش کے علاوہ لیبیا شام یمن النصرہ الشہاب وغیرہ دنیا کے لئے  نئی Mess تھے۔ صدر اوبامہ قانون کے پروفیسر تھے۔ لیکن صدر اوبامہ نے صدر بش کی جو قانون کو نہیں سمجھتے تھے ان کی Regime change پالیسی بھی جاری رکھی تھی۔ اور لیبیا پر نیٹو کے  ساتھ Preemptive حملہ کر کے کرنل قدافی کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ اور القا عدہ نے قدافی کو قتل کر دیا تھا۔ عرب ملکوں کو اسلامی ریاست بنانے کا آغاز لیبیا سے ہوا تھا۔ لیبیا پہلی سنی ریاست تھی جسے صدر اوبامہ نے آزاد کرایا تھا۔ صدر بش نے عراق میں ایک سنی- عیسائی حکومت ختم کر کے شیعاؤں کو حکومت دی تھی جو عراق میں اکثریت میں تھے۔
    صدا م حسین دنیا سے چلے گیے ہیں۔ لیکن 14 سال ہو گیے ہیں۔ عراق ابھی تک جرمنی بن سکا ہے اور نہ ہی جاپان بنا ہے۔ جیسا کہ بش انتظامیہ نے اس کے دعوی کیے تھے۔ مغربی میڈیا میں کبھی یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ صدا م حسین کے بعد عراق میں اب عیسا ئیوں کی کتنی تعداد ہے اور ان کے کتنے Church تباہ ہو گیے ہیں۔ عراق میں Regime change  شیعاؤں سنیوں اور عیسا ئیوں کے لئے Hell ثابت ہوا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ نے لیبیا میں Regime change کیا تھا۔ اور اسے القا عدہ  کو اسلامی ریاست بنانے کے لئے دے دیا تھا۔ اور پھر لیبیا میں اسلامی ریاست کے خلاف ایک نئی جنگ شروع کر دی تھی۔ اور یہ جنگ ابھی تک جاری ہے۔ اوبامہ انتظامیہ شام کو Regime change کی جنگ کے ساتھ پانچ دہشت گروپوں کے خلاف جنگ میں لٹکا کر گیے ہیں۔ شام کی حکومت زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے۔ امریکہ اسرائیل سعودی عرب ترکی اس حکومت کے دشمن ہیں۔ اور داعش القا عدہ  النصرہ دہشت گرد گروپ اس حکومت کے خون کے پیاسے ہیں۔ اگر ان گروپوں کو موقعہ ملا تو یہ بشار الا اسد کو بھی اسی طرح قتل کر دیں گے جیسے انہوں نے نیٹو کے واچ میں کرنل  معمر قدافی کو قتل کیا تھا۔ بش اور اوبامہ انتظامیہ کی پالیسیاں بہت Hotchpotch تھیں۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ بھی جاری تھی۔ اور Regime change کر کے دہشت گردوں کو نئے موقعہ بھی دئیے تھے۔ امریکہ کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں دنیا میں دہشت گردی کو فروغ ملا ہے۔ اس عرصہ میں اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی تھنک ٹینکس کی جتنی رپورٹیں آئی ہیں ان میں بھی دہشت گردی میں مسلسل اضافہ ہونے کا بتایا گیا تھا۔
    Institute for Economics and Peace کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2014 میں دہشت گردی میں 80 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ اور یہ ایک ریکارڈ اضافہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق 2014 میں دہشت گردی کے نتیجہ میں ہلاکتوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا تھا۔ 2013 میں دہشت گردی سے  18111 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جو 2014 میں 32685 پر پہنچ گئی تھیں۔ 2000 کے بعد سے دہشت گردی سے ہلاکتوں میں 9 گنا اضافہ ہوا تھا۔ رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے 57 فیصد حملے اور 78 فیصد ہلاکتیں صرف ان پانچ ملکوں عراق، نائجیریا، افغانستان، پاکستان اور شام میں ہوئی تھیں۔ IEP کے ایگزیکٹو چیرمین Steve Kellelea نے 2013 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ دہشت گردی سے ہلاکتوں میں شام میں خانہ جنگی کی وجہ سے زبردست اضافہ ہوا تھا۔ شام میں یہ خانہ جنگی 2011 میں شروع ہوئی تھی۔ اور شام میں عدم استحکام کے سیلاب نے عراق کو بھی لپیٹ لیا ہے۔ ایگزیکٹو چیرمین Steve Kellelea نے کہا ہم یہ سمجھتے ہیں یہاں سے دہشت گردی کو فروغ ملا ہے۔
    اگر اوبامہ انتظامیہ شام کے معاملہ میں اس قدر غیر ذمہ دار ہونے کا ثبوت نہیں دیتی۔ روس شام میں کبھی نہیں آتا۔ روس شام میں فوجی اڈے قائم کرنے اور امریکہ کے ساتھ نئی جنگ شروع کرنے نہیں آیا ہے۔ یہ امریکہ کے Warmongers ہیں جو دنیا کو پھر 60s اور 70s کی دنیا میں لے جانا چاہتے ہیں۔ دنیا کے تقریباً ہر خطہ میں انہوں نے جنگیں اور کشیدگی پیدا کر دی ہے۔ روس شام میں Christianity کو بچانے آیا ہے۔ اگر اسد حکومت گرتی ہے۔ تو مڈل ایسٹ سے یہ عیسا ئیوں کا انخلا ہو گا۔ شام میں عیسا ئیوں کی ایک بہت بڑی آبادی ہے۔ ان کی قدیم مذہبی عبادت گاہیں ہیں۔ ان کی یہاں ایک قدیم تاریخ ہے۔ روس نے دیکھا تھا کہ عراق میں عیسا ئیوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا تھا اور مصر میں ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ پھر امریکہ نے بھی پوپ کی ان اپیلوں کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی کہ مسلمانوں کو عیسا ئیوں سے لڑایا جا رہا تھا۔ اور پھر پوپ کی یہ اپیلیں کہ عیسا ئیوں کو مڈل ایسٹ سے نہیں نکالا جاۓ۔ شام میں تقریباً تین ملین عیسائی رہتے ہیں۔ اور یہ صدر بشار الا اسد کی حمایت کرتے ہیں۔ امریکہ نے مڈل ایسٹ میں عیسا ئیوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا اس کی صرف مذمت کی ہے۔ لیکن اس سے زیادہ ان کے لئے کچھ نہیں کیا ہے۔ عراق، شام، لیبیا اور یمن کو امن سے دور اور عدم استحکام میں رکھا ہے۔ اور دہشت گردوں کو دہشت گردی کرنے کی  پالیسی اختیار کی ہے۔
    حیرت انگیز جہالت یہ ہے کہ لبنا ن میں حزب اللہ عیسا ئیوں کے ساتھ حکومت میں ہے۔ اور اس نے لبنا ن میں سیاسی استحکام رکھا ہے۔ لیکن اسرائیل اور سعودی عرب نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ یہ وہ ملک ہیں جو عوام کی راۓ عامہ میں کبھی ایمان نہیں رکھتے ہیں۔ لبنا ن کے سنیوں اور عیسا ئیوں کے لئے حزب اللہ  کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اسی طرح ایران سے بھی اسرائیل کو تکلیف ہے۔ حالانکہ ایران کا لبنا ن کے امن اور استحکام میں ایک اہم رول ہے۔ ایران اور حزب اللہ شام کے امن استحکام اور اس کی یکجہتی کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن امریکہ کا اتحاد ان ملکوں کے ساتھ ہے جو مڈل ایسٹ کو عدم استحکام میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور شام کے بعد صدر ٹرمپ کے ایجنڈہ میں ایران میں Regime change اور حزب اللہ کا خاتمہ کرنا ہے۔ اور اس کے بعد حما س کا نمبر ہو گا۔ حالانکہ حما س اور فلسطینی عیسائی دونوں اسرائیلی فوجی قبضہ کے قیدی ہیں۔ اور دونوں اسرائیل کی فوجی جارحیت کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ لیکن یہ مغرب کا قانون انصاف ہے۔ یہ عیسائی اور اسلامی فلسطینیوں کی اسرائیل کے خلاف Violence کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اسرائیل کے ہمسایہ میں امریکہ اور یورپ شام میں حکومت کے خلاف Violence کی 6 سال سے حمایت کر رہے ہیں۔ اور انہیں ہتھیار دے رہے ہیں۔ اور انہیں ہتھیاروں سے اپنے تنازعہ حل کرنے کی تربیت دے رہے  ہیں۔ یہ پالیسیاں صورت حال کو aggravate کرتی ہیں۔ حکومتیں چلی جاتی ہیں۔ جارج بش اور بارک اوبامہ بھی چلے گیے ہیں۔ لیکن دنیا کو Violence میں چھوڑ کر گیے ہیں۔ اسد حکومت کے جانے سے کیا دنیا میں یہ  Violence ختم ہو جاۓ گا؟ عراق میں صد ام حسین کے جانے کے بعد دنیا خوبصورت بننے کے بارے میں بھی بڑی Bullshit دی گئی تھی۔ لیکن آج ہر طرف دنیا  سرخ خون میں ڈوبی  نظر آ رہا ہے۔                  

Sunday, April 9, 2017

Civilized Nations' Uncivilized Politics of "Gotcha"

Civilized Nations' Uncivilized Politics of "Gotcha"   

Since The 1990's, Every American President Has Used Bombs And Missiles In The Arab-Islamic Middle
East

Peace Will Come In The Middle East, When Commonsense Will Prevail Over The Nonsense

Why would Mr. Assad use chemical weapons when his army was 
winning and advancing in rebel-controlled areas? No army in the world would use unconventional weapons when they are winning the war with conventional weapons. When America was not winning in Japan, they used the Atom Bomb. And in Vietnam, America used Agent Orange.

مجیب خان
 American Ambassador in U.N Security Council

Israel's war on Gaza, Children killed by Israeli missile strike on Gaza  

Bloodshed in the Middle East

Children killed in Yemen
Iraq War Pollutants to blame for birth defects after using depleted Uranium

Children killed by U.S Drone in Afghanistan

    کیمیکل ہتھیاروں کا یہ حملہ اگر عراق میں ہوتا تو داعش ISIS کو اس کا الزام دیا جاتا۔ لیکن کیمیکل ہتھیار شام میں استعمال ہوۓ ہیں۔ لہذا فوری الزام اسد حکومت کو دیا گیا ہے۔ اور 48 گھنٹوں کے اندر شام پر حملہ کر دیا ہے ۔ شام پر 59  Tomahawkمیزائلوں کی بو چھار کر دی۔ اتنے تیز فیصلہ تیسری دنیا کے آمرانہ نظام میں ہوتے ہیں۔ جہاں سزائیں پہلے دی جاتی ہیں اور جرم بعد میں ثابت کیے جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں جہاں 90 فیصد دہشت گردی 6 سال سے ہو رہی ہے۔ اسلامی انتہا پسندی ہر طرف چھائی ہوئی ہے۔ وہاں کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال پر سو فیصد اسد حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا دراصل اسلامی انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ یہ بڑے حیرت کی بات ہے کہ امریکہ اور مغربی ملکوں نے القا عدہ  اور داعش پر ان ہتھیاروں کے استعمال پر شبہ تک نہیں کیا ہے۔ ساری دنیا سے القا عدہ اور داعش کے خلاف لڑنے کا شور مچا ہوا ہے۔ لیکن  امریکہ کو ان گروپوں پر اس قدر اعتماد ہے۔ بہرحال امریکہ اور یورپ  الزام تراشیوں کی عادت ترک کر کے اپنے مہذب ہونے کا ثبوت دیتے اور پہلے اس واقعہ کی تحقیقات کرائی جاتی کہ یہ ہتھیار کس نے استعمال کیے ہیں۔ شام میں 6 سال سے صرف دہشت گردی ہو رہی ہے۔ ہر طرف سے شام کی سرحدیں کھلی ہوئی ہیں۔ دنیا بھر سے اسلامی دہشت گرد شام میں داعش میں شامل ہونے آ رہے تھے۔ اسرائیل اور سعودی عرب بھی شام میں مداخلت کر رہے تھے۔ اور یہ صدر اسد کے Staunch Enemy ہیں۔ اسرائیل اور سعودی عرب شام میں اسلامی انتہا پسندوں کو قبول کر لیں گے لیکن ایران اور حزب اللہ کی شام میں موجودگی انہیں برداشت نہیں ہے۔
   امریکہ کے سیکرٹیری آف اسٹیٹ Rex Tillerson اور یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف Federica Mogherini کے اس بیان کے بعد کہ "صدر اسد کے اقتدار میں رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ شام کے عوام کریں گے۔" یہ کیمیکل ہتھیار استعمال کیے گیے ہیں۔ اب ذرا سوچنے کی بات ہے کہ اسد کی فوجوں کو جنگ میں جب کامیابی ہو رہی تھی۔ اور اسلامی دہشت گردوں کے قبضہ سے شام کی فوج نے ایک بڑے حصہ کو آزاد کرا لیا تھا۔ پھر اسد حکومت کیمیکل ہتھیار کیوں استعمال کرے گی؟ جنہیں  محاذ جنگ پر جب کامیابی نہیں ہو رہی ہوتی تو وہ Desperate ہو کر پھر Unconventional ہتھیار استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ جیسے امریکہ کو جاپان کے خلاف جنگ میں جب کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ تو امریکہ نے ایٹم بم استعمال کیے تھے۔ اور امریکہ یہ جنگ جیت گیا تھا۔ اب داعش ISIS اور القاعدہ کو عراق اور شام میں شکست ہو رہی تھی۔ اور ان پر کیمیکل ہتھیار استعمال کرنے کا شبہ کیا جا سکتا ہے۔  ٹرمپ انتظامیہ برطانیہ اور فرانس کا صرف اسد حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانے کا موقف دراصل داعش اور القا عدہ کی حمایت میں ہے۔
Israeli Defense Minister Avigdor Lieberman said that “Assad ordered the chemical attack”. Lieberman said that “Syrian planes carried out the two chemical attacks which were directly ordered and planned by Syrian President Bashar Assad.” He stressed he was “100 percent certain.” The defense minister said he did not know if Russia was involved in the attack.
   شايد صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر دفاع کے اس بیان کو ایک ٹھوس ثبوت سمجھا تھا۔ اور اس بنیاد پر اسد حکومت کے خلاف فوری فوجی کاروائی کی ہے۔ جس طرح اسرائیلی وزیر دفاع کو یہ سو فیصد  یقین تھا کہ اسد حکومت نے کیمیکل ہتھیار استعمال کیے تھے۔ اسی طرح یہ بھی یقین سے کہا جا سکتا ہے داعش ISIS سعودی عرب اسرائیل خلیج کے ملکوں، امریکہ برطانیہ اور فرانس کا Joint Venture ہے۔ جس میں ترکی بھی شامل ہو گیا تھا۔ اسرائیلی وزیر دفاع کے اس بیان کے بعد امریکی میڈیا سے داعش ISIS  القا عدہ غائب ہو گیے ہیں۔ اور صرف بشر السد کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ جس طرح صدام حسین کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ ٹی وی چینلز پر گفتگو کی اسکرپٹ بھی بالکل وہ ہی ہے۔ بلاشبہ شام میں صدر اسد کی مخالفت ہے لیکن حمایت بھی ہو گی۔ جب ہی فوج ان کے ساتھ کھڑی ہے اور بہادری سے حکومت اور مملکت کا دفاع کر رہی ہے۔ مڈل ایسٹ میں کوئی ایسی حکومت نہیں ہے جس نے انسانیت کے خلاف کرائم نہیں کیے ہیں۔ 80 کی دہائی میں اسرائیلی جنرل ایرئیل شرون نے لبنان میں صابرہ اور شتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپوں پر بلڈوزر چلا دئیے تھے۔ ہزاروں بچوں عورتوں اور مردوں کی لاشیں کئی روز تک پڑی ہوئی تھیں۔ اور گدھ انہیں کھا رہے تھے۔ صدر جارج بش نے ایرئیل شرون کو Men of Peace کہا تھا۔ سعودی حکومت نے 150 شیعاؤں کو جن میں ایک شیعہ عالم دین بھی تھے۔ صرف سیاسی بنیاد پر انہیں موت کی ‎سزائیں دی تھیں۔ اور ان کے سر قلم کر دئیے تھے۔ امریکی میڈیا میں صرف صد ام حسین، کرنل قدافی اور اب بشر اسد بہت ظالم حکومتیں تھیں۔ اور یہ  حکومتیں انسانیت کے خلاف کرائم کرتی تھیں۔ صدر اسد کو اقتدار سے  ہٹانے کے بعد شام عراق سے زیادہ بدتر ہو گا۔ اور یہ طالبان کا افغانستان ہو گا۔ شام میں بھی سارے گروپ ہتھیاروں سے مسلح ہیں اور سی آئی اے کے تربیت یافتہ ہیں۔
   صدر ٹرمپ پانچویں صدر ہیں۔ جنہوں نے عرب اسلامی دنیا کے ایک اور ملک شام پر حملہ کیا ہے۔ عرب اسلامی دنیا میں امریکہ کے حملوں کا یہ سلسلہ 90 کی دہائی سے جاری ہے۔ صدر جارج   بش پہلے صدر تھے۔ جنہوں نے عرب اسلامی دنیا میں جنگ کی بنیاد رکھی تھی۔ اور عراق پر حملہ کیا تھا۔ کویت کو صد ام حسین کی فوجوں سے آزاد کرایا تھا۔ اقوام متحدہ نے عراق پر سخت ترین اقتصادی بندشیں لگائیں تھیں۔ اور عراق میں مہلک ہتھیاروں کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ پھر صدر بل کلنٹن کے دور میں 8 سال تک  اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرامد کرانے کے لئے عراق پر بمباری ہوتی رہی۔ 1997 میں صدر صد ام حسین نے جب اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کو عراق میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ صدر کلنٹن نے وزیر اعظم ٹونی بلیر کے ساتھ عراق پر حملہ کر دیا۔ اور تقریباً ایک ماہ تک روزانہ بمباری ہوتی رہی۔ صدر کلنٹن کے بعد صدر جارج بش نے 2003 میں عراق پر Preemptive حملہ کر دیا۔ صدر صد ام حسین کو اقتدار سے معزول کر دیا۔ صدام حسین قبر میں چلے گیے تھے۔ لیکن عراق پر بمباری کا سلسلہ پھر بھی جاری تھا۔ صدر بش کی عراق جنگ میں تقریباً ایک لاکھ بے گناہ عراقی مارے گیے تھے۔ جبکہ دو لاکھ عراقی بے گھر ہو گیے تھے۔ پھر صدر بش چلے گیے اور صدر اوبامہ آ گیے تھے۔ صدر  اوبامہ کے دور میں بھی عراق میں فوجی کاروائیاں ہوتی رہیں۔ اس کے علاوہ صدر اوبامہ نے کرنل قدافی کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے نیٹو ملکوں کے ساتھ لیبیا پر بمباری کی تھی۔ یمن میں ڈر ون حملوں کے علاوہ فضائی طیاروں سے بمباری بھی کی تھی۔ جبکہ شام میں پراکسی جنگ شروع کی تھی۔ اور شام میں حکومت کے باغیوں کو اسد حکومت سے لڑنے کی شہ دی تھی۔ اس جنگ میں 4 لاکھ  بے گناہ شہری مارے گیے ہیں۔ جن میں ایک بڑی تعداد میں بچوں عورتوں اور مردوں کی ہے۔ اور اب صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے صرف 77 دن میں شام پر میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔ اور عراق میں موصل کو داعش سے آزاد کرانے کی جنگ میں امریکی طیاروں کی بمباری سے 300 عراقی مارے گیے ہیں۔ جن میں ایک بڑی تعداد میں بچے اور عورتیں تھے۔ 27 سال سے عرب اسلامی سر زمین پر صرف بم اور میزائل برس رہے ہیں۔ جس نے سیاسی عمل کو Bankrupt کر دیا ہے۔