Friday, October 30, 2015

Foreign Intervention And Weapons: Humanity In The Quagmire

اسلامی دنیا کا بحران


:Foreign Intervention And Weapons
Humanity In The Quagmire


مجیب خان
           


         یورپی یونین کی خارجہ پالیسی چیف Federica Mogherini نے کہا ہے کہ " یہ خطرہ ہے کہ روس افغانستان کی طرح ایک دوسرے دلدل  {quagmire}میں پھنس رہا ہے۔ روس کو شام میں سیاسی تبدیلی میں مدد کرنا چاہیے "۔ فیڈ ریکا موگھرینی نے کہا "مجھے یقین ہے کہ روس اس سے بخوبی واقف ہو گا۔ اگر وہ سیاسی عمل شروع کرنے میں انتھک کوشش نہیں کرے گا۔ تو اسے افغانستان جیسی صورت کا شام میں سامنا کرنا ہو گا۔ اور ایک بہت بڑی عرب آبادی اور روس کے مسلم شہری یہ دیکھیں گے کہ وہ شیعہ سنی تقسیم میں حصہ لے رہا ہے۔ اور  میں یہ سمجھتی ہوں کہ بہت جلد روسی یہ دیکھیں گے کہ ان کی فوجی موجودگی کے ساتھ ان کا مفاد سیاسی عمل جلد شروع کرنے میں ہے۔"  روس کی فوجیں جب شام میں داخل ہوئی تھیں تو واشنگٹن میں پہلے رد عمل میں quagmire کے خدشہ کا اظہار کیا گیا تھا۔ کہ روس اب شام پھنس جاۓ گا۔ اور اس quagmire سے روس کو افغانستان یاد دلایا تھا۔
      لیکن افغانستان اور شام دو مختلف صورت حال کا سیاسی بحران ہیں۔ افغانستان سرد جنگ کے دور کا سیاسی بحران تھا۔ جبکہ شام سرد جنگ ختم ہونے کے بعد دنیا کی واحد سپر پاور کی فوجی مہم جوئیوں اور خود مختار ملکوں میں جارحانہ مداخلت کرنے کی سیاست سے حکومتیں تبدیل کرنے کا بحران ہے۔ اور ان ملکوں کو عدم استحکام کرنا ہے۔ اس وقت عراق ، لیبیا ،شام، یمن اور افغانستان اس quagmire میں ہیں۔ اور روس شام کو اس quagmire سے نکالنے آیا ہے۔ quagmire میں گہرے دوسرے ملک بھی اب روس کی طرف مدد کے لئے دیکھ رہے ہیں۔ روس نہیں انسانیت quagmire میں ہے۔
      80 کے عشر ے میں سوویت فوجیں جب افغانستان میں آئیں تھیں ۔افغانستان میں سیاسی استحکام تھا۔ وہاں حکومت مستحکم تھی۔ حکومت کے تمام ادارے معمول کے مطابق کام کر رہے تھے۔ افغانستان کے بڑے شہروں میں روشن خیال اور پروگریسو Elite طبقہ تھا۔ ایک دانشورانہ  ماحول شہروں کی روشنیوں میں نظر آتا تھا۔ اگر صدر ریگن وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر جنرل ضیا الحق اور سعودی عرب افغانستان میں پنگے لینے کی سیاست نہیں کرتے تو افغانستان سوویت یونین کے لئے quagmire  نہیں بنتا جس طرح مشرقی یورپ سوویت یونین کے لئے quagmire نہیں تھا۔ افغانستان آج بہت بہتر حالات میں ہوتا۔ افغانستان میں سوویت فوجوں نے افغان ثقافتوں کو آپس میں لڑانے کی سیاست نہیں کی تھی۔ اس وقت کابل حکومت اور فوج میں تا جک  ازبک اور پختون سب تھے۔ اور یہ سوویت فوجوں کی حمایت بھی کرتے تھے۔  یہ غیرملکی مداخلت تھی جس نے افغانستان کے دیہاتوں اور قصبوں کے لوگوں کو یہ جھوٹا پراپگنڈہ  کر کے خوفزدہ کیا تھا کہ کمیونسٹ افغانستان میں آ گئے ہیں۔ اور یہ مسجدیں تباہ کر رہے ہیں۔ افغانستان کو کمیونسٹ بنا رہے ہیں۔ اسلام کو بچانے کے لئے ہمیں جہاد کرنے کے لئے گھروں سے نکلنا ہو گا۔ اس پیغام کے پمفلٹ طیاروں سے دیہاتوں اور قصبوں میں گراۓ گۓ تھے ۔ دیہی علاقوں کے لوگ بہت زیادہ مذہبی جنونی تھے۔ اور یہ اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان سے بھاگ کر پاکستان میں پناہ لینے آ گئے  تھے۔ اور یہاں ان کا تعارف سی آئی اے سے کرایا گیا تھا۔ جس کے بعد افغانستان کے خلاف جہاد کا افتتاح صدر ریگن کے خصوصی پیغام کے ساتھ ہوا تھا ۔"تم حق پر ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے۔" اور یہ افغان جہادی افغانستان کے شہروں میں آباد لوگوں پر حملے کرنے لگے تھے ۔ اور آج شام میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ اس وقت افغانستان میں ہو رہا تھا۔ افغانستان کا تعلیم یافتہ طبقہ ملک چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اور دیہاتوں اور قصبوں کے لوگ شہروں پر قابض ہو گئے تھے۔ اور یہ اب طالبان ہیں۔ اور جو پڑھے لکھے افغان یورپ اور امریکہ چلے گئے تھے وہ اب واپس آ گئے ہیں اور حکومت اور اداروں میں ہیں۔ افغانستان میں لڑائی ایک محاذ پر نہیں ہے بلکہ یہ کئی محاذوں پر ہو رہی ہے۔ افغانستان اب کس کے لئے quagmire ہے ؟
       روس اس وقت بھی غلط نہیں تھا۔ روس کو وقت بھی یہ گلہ تھا کہ سی آئی اے پاکستان میں جہادیوں کو تربیت دے رہی تھی جن میں بڑی تعداد میں غیرملکی جہادی تھے جو افغانستان میں تخریبی سرگرمیاں کرتے تھے۔ حامد کر ذ ئی اور ان کے خاندان کے لوگوں کو اس وقت پاکستان نے پناہ دی تھی۔ اور کر ذ ئی آج پاکستان میں دہشت گردوں کے کیمپوں کے دعوی کرتے  ہیں کہ یہ دہشت گرد افغانستان میں پاکستان سے آتے ہیں۔ افغانستان میں سوویت فوجوں کو شکست دینے کے لئے ہر ہتکنڈہ استعمال کیا گیا تھا۔ اسلام کا استحصال کیا گیا تھا ۔ قرآن کو استعمال کیا گیا تھا۔ اسلامی دنیا کے مذہبی جنونی نوجوانوں کو جہادی بنایا گیا تھا۔ اور اس طرح افغانستان کو سوویت یونین کے لئے quagmire بنایا تھا۔
      افغان جنگ ختم ہونے کے بعد بھی کابل میں حکومت اور ادارے بدستور موجود تھے ۔ نجیب اللہ افغانستان میں صدر تھے۔ اور حکومت کا کاروبار تمام خوف و ہراس کے باوجود جاری تھا۔ نجیب اللہ حکومت باغی گروپوں سے مفاہمت کے لئے سیاسی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن افغان باغی اور غیرملکی جہادی اس وقت نجیب اللہ  حکومت کو اسی طرح ختم کرنا چاہتے تھے کہ جس طرح آج شام میں حکومت کے باغی اور غیر ملکی ماڈریٹ دہشت گرد بشار السد حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ صدر میکائیل گار با چو ف کو تشویش یہ تھی کہ سوویت فوجوں کے انخلا کے بعد نجیب اللہ حکومت زیادہ عرصہ تک اقتدار میں نہیں رہے سکے گی۔ اور افغانستان میں خطرناک خونی خانہ جنگی شروع ہو جاۓ گی۔ اور افغانستان عدم استحکام کی دلدل میں دھنس جاۓ گا۔ اور یہ اس سارے خطہ کو اپنے عدم استحکام سے بری طرح متاثر کرے گا۔ صدر جارج ایچ بش سوویت ایمپائر کی شکست سے اتنے زیادہ خوش تھے کہ وہ ساتویں آسمان پر پہنچ گۓ  تھے ۔ اور انہوں نے زمین کی طرف افغانستان کو دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔ تاہم صدر گا ر با چو ف اپنی طرف  سے یہ بھر پور کوششیں کرتے رہے کہ افغانستان میں سیاسی استحکام کے لئے کسی طرح تمام افغان گروپوں اور نجیب اللہ حکومت میں صلح ہو جاۓ ۔اور ایک مخلوط حکومت بن جاۓ ۔ تاکہ یہ حکومت افغانستان میں امن اور استحکام قائم ر کھے۔ اور کسی بیرونی مداخلت کے بغیر یہ حکومت افغانستان میں ایک سیاسی عمل کے ذریعے نظام اور حکومت تبدیل کرنے کا راستہ بناۓ۔ لیکن امریکہ نے صدر گا ر با چو ف سے تعاون نہیں کیا اور پاکستان اور سعودی عرب نے ان کے مشوروں  کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ یہاں اپنا ایجنڈہ تھا جو یہاں سے وسط ایشیا تک اسلامی سلطنت بنانا چاہتے تھے۔ صدر گا ر با چو ف نے مایوس ہو کر افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلا کا حکم دے دیا۔
      افغانستان کے بارے میں اس وقت صدر گا ر با چو ف کے جو خدشات تھے آج وہ خدشات صدر پو تن کے شام کے بارے میں ہیں ۔ امریکہ اور مغربی طاقتیں اس وقت افغانستان کے بارے میں غلط تھیں اور آج امریکہ اور مغربی طاقتیں شام کے بارے میں غلط ہیں۔ شام اس وقت ساٹھ فیصد افغانستان بن چکا ہے۔ اور نجیب اللہ حکومت کی طرح اگر اسد حکومت گر جاتی ہے ۔ تو شام مشرق وسطی کے وسط میں ایک دوسرا افغانستان ہو گا۔ افغانستان کے ارد گرد اس وقت ہر طرف استحکام تھا۔ لیکن شام کے ارد گرد ہر طرف عدم استحکام ہے۔ اور ہر طرف خونی خانہ جنگی ہو رہی ہے۔ اور یہ غلط کہا جا رہا ہے کہ شام روس کے لئے quagmire بن جاۓ گا۔ یہ خطہ یہاں کے لوگوں کے لئے quagmire  بن گیا ہے اور روس لوگوں کو quagmire سے نکالنے آیا ہے. 
     

          

Tuesday, October 27, 2015

American Hypocrisy And The Middle East

عرب دنیا میں بحران


American Hypocrisy And The Middle East

The Regime Change In Syria Should Be
Linked To Political Reform In Saudi Arabia, Kuwait, And U.A.E


مجیب خان





     شام کے بارے میں فیصلے اسی ذہنیت سے ہو رہے ہیں کہ جس ذہنیت سے پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اور فرانس نے صحراۓ عرب کے مستقبل کا سیاسی فیصلے کۓ تھے۔ عرب ملکوں کی نئ سرحدیں بنائ تھیں ۔ کچھ نۓ ملک بنا دیۓ تھے۔ سعود قبیلے کو سعودی ریاست بنا دیا تھا۔ لبنان عظیم تر شام کا حصہ تھا ۔ اور لبنان کو شام سے علیحدہ کر کے ایک نیا ملک بنا دیا تھا۔ پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد بڑی طاقتوں نے فلسطین کو تقسیم کر دیا تھا ۔اور اسرائیل ایک نیا ملک بنا دیا تھا۔ اور فلسطین میں صدیوں سے آباد عیسائوں اور مسلمانوں سے کوئی مشورہ کیا تھا اور نہ ہی ان سے پوچھا تھا۔ ان طاقتوں نے اپنا فیصلہ فلسطینی عوام پر مسلط کر دیا تھا۔ حالانکہ ان طاقتوں نے فاش ازم کو شکست دی تھی۔ لیکن یہ خود فاشسٹ بن گۓ تھے۔ اور اپنے فیصلے دوسروں پر مسلط کرنے لگے تھے۔ اسی ذہنیت سے انہوں نے عراق پر اپنے فیصلے مسلط کیے ہیں۔ اور اسی ذہنیت سے کبھی عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اور کبھی شام کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
    اسد حکومت کا خاتمہ کرنے کے لئے باغیوں کو تربیت اور ہتھیار دئیے جا رہے ہیں ۔ اور اب اس لڑائی میں داعش آ گئی ہے۔   اور باغیوں اور داعش میں خانہ جنگی ہونے لگی ۔ ایک خانہ جنگی کے اندر دوسری خانہ جنگی شروع ہو گئی ۔ امریکہ نے داعش کے خلاف نیا محاذ کھول دیا ۔ فرانس اور برطانیہ بھی امریکہ کے ساتھ داعش کے خلاف محاذ میں شامل ہو گۓ۔ ایران اور اسد حکومت نے بھی داعش کے خلاف کاروائی کرنے لگے امریکہ نے اسد حکومت کے باغیوں سے کہا کہ وہ پہلے داعش سے لڑیں۔ اور داعش کو شکست دی جاۓ ۔ لیکن اس کے ساتھ ان کا یہ اصرار بھی تھا کہ بشارالسد اقتدار میں نہیں رہے سکتے ہیں ۔ اور انہیں جانا ہو گا۔ امریکہ دہشت گردوں کی ماڈریٹ قسم کو اسد حکومت کے خلاف تربیت اور ہتھیار دے رہا ہے۔ لیکن بشار السد ایک ماڈریٹ ڈکٹیٹر ہیں۔ جبکہ سعودی حکمران انتہائی نظریاتی قدامت پسند ڈکٹیٹر ہیں۔
   آخر سعودی عرب کی شام کے داخلی معاملات میں اچانک یہ دلچسپی کیسی ہے؟ جبکہ سعودی عرب نے ایک فوجی ڈکٹیٹر کو مصر پر مسلط کیا ہے ۔ اور اس  فوجی ڈکٹیٹر نے مصر کی جیلوں کو فوجی آمریت کے خلاف مزاحمت کرنے والوں سے بھر دیا ہے۔ سینکڑوں سیاسی قیدیوں کو جیلوں میں اذیتیں دے کر ہلاک کر دیا ہے۔ ہزاروں سیاسی قیدی پھانسی گھر میں اپنی پھانسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور امریکہ سعودی عرب کے ساتھ شام میں ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے کی خانہ جنگی میں ہتھیار تقسیم کر رہا ہے۔ جبکہ سعودی عرب کا انسانی حقوق کا ریکارڈ بھی شام سے زیادہ اچھا نہیں ہے۔ آخر ان جمہوری قدروں کا ضمیر کہاں مر گیا ہے ؟ کیا صدر اوبامہ یا جان کیری بتائیں گے کہ سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کا شام میں سیاسی ایجنڈا کیا ہے ؟ کیا شام کو عرب دنیا کے سلا فسٹ کے لئے ریاست بنایا جاۓ گا ؟ اور اس لئے شام کے مہاجرین کو امریکہ میں آباد کیا جا رہا ہے ؟ آخر سعودی عرب کا شام میں کیا مفاد ہے ؟ غیرملکی حکومتوں کو خود مختار ملکوں میں حکومتیں تبدیل کرنے کا حق کس نے دیا ہے؟ آخر کس قانون کے تحت غیر ملکی حکومتیں خود  مختار ملک کے داخلی معاملات میں گھس کر انسانیت کا خون بہا رہی ہیں۔ اور اس ملک کو تباہ کر رہی ہیں۔ اینگلو امریکہ نے عراق پر غیر قانونی غیر اخلاقی اور غیر مہذب حملہ کیا تھا۔ دنیا ان کی اس جا حا ریت کو قانونی تسلیم نہیں کرے گی۔ صدام حسین کو غیر قانونی طریقے سے اقتدار سے ہٹایا گیا تھا ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل کوفی عنان نے عراق پر حملہ کو غیر قانونی کہا تھا۔ غیر ملکی طاقتوں نے جب بھی دو سرے ملکوں میں مداخلت کی ہے اس کے نتائج انسانیت کے لئے ہمیشہ تباہی ثابت ہوۓ ہیں۔ اینگلو امریکہ کے اس حملے کی وجہ سے عراق کو ابھی تک استحکام نصیب نہیں ہوا ہے۔ ریاست تباہ ہو گئی ہے۔ انسانیت تہس نہس ہو گئی ہے۔ غیر ملکی طاقتیں دوسرے ملکوں میں مداخلت کر کے یہ کام کرتی ہیں۔ پھر فرانس برطانیہ اور امریکہ نے لیبیا میں مداخلت کی تھی اور صدر قدافی کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ انہوں نے لیبیا کو بھی عراق بنا دیا ہے ۔ اور اب امریکہ کی مدد سے شام میں حکومت تبدیل کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جبکہ امریکہ برطانیہ اور فرانس کی عراق اور لیبیا میں حکومتیں تبدیل کرنے کی ساکھ بہت خراب ہے۔ کیا بنک ان لوگوں کو قرضہ دینے کی حمایت کر ے گا جن کی مالی ذمہ دار یاں پوری کرنے کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔ اور ان ملکوں کی عراق اور لیبیا میں سیاسی ذمہ دار یا ں پوری کرنے کی ساکھ بہت خراب ہے۔ لہذا ان ملکوں کی مداخلت سے شام میں حکومت تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جاۓ۔ امریکہ کو ان کی حمایت سے اس وقت پیچھے ہٹ جانا چاہیے تھا کہ جب یہاں امریکی شہری کا گلہ کاٹا گیا تھا۔ اور دوسرے بےگناہ لوگوں کے گلے کاٹے جا رہے تھے ۔انسانیت کو اذیتیں دی جا رہی تھیں ۔ ڈھائی لاکھ شامیوں کو بشار السد نے ہلاک نہیں کیا ہے ۔ بشار السد اور ان کے والد حافظ السد کے چالیس سالہ دور میں شام کو ایک خوبصورت ملک بنایا تھا ۔ شام کو ترقی دی تھی۔ استحکام دیا تھا۔ شام ایک سول سوسائٹی تھا۔ ہر عقیدے کے لوگ یہاں امن سے رہتے تھے۔
   غیرملکی طاقتوں اور غیرملکی ماڈریٹ دہشت گردوں نے شام کو اب کھنڈرات بنا دیا ہے۔ شام کے قدیم تاریخی مقامات جو شام کا قیمتی اثاثہ تھے ۔اسے سلافسٹ نے امریکہ کے واچ میں تباہ کردیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا ذرا شامیوں سے ان کے ملک کو تباہ کرنے پر تاثرات بھی پوچھے کہ شام اب کیسا ہے؟ شامی اپنے کھنڈرات ملک کو دیکھ کر روتے ہوں گے۔ امریکہ کا بہروپیا رول یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں نے مزاحمت کی تحریک شروع کی تھی ۔ فلسطینیوں نے چھرے مار کر چار اسرائیلی ہلاک کر دئیے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیلی فوج نے بھی سات فلسطینی ہلاک کر دئیے  تھے ۔ کشیدگی بڑھ رہی تھی۔ سیکرٹیری خارجہ جان کیری اسرائیل پہنچ گۓ ۔ اور رمالہ میں صدر محمود عباس سے ملے اور دونوں فریقوں کو حالات خراب کرنے سے روکا تھا۔ امریکہ نے فلسطینی اتھارٹی کی مالی امداد میں 80 ملین ڈالر کمی کرنے کا اعلان کر دیا۔ کیونکہ  صدر محمود عباس اسرائیلیوں کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت روکنے میں مدد گار ثابت نہیں ہو رہے  تھے۔ لیکن شام میں پانچ سال سے امریکہ ماڈریٹ دہشت گردوں کو اسد حکومت کے خلاف ہتھیار دے رہا ہے ۔ انہیں تربیت دے رہا ہے۔ انہیں فنڈ دئیے جا رہے ہیں۔ لیکن شام میں ایک انسانی جان بچانے کے لئے امریکہ نے کچھ نہیں کیا۔ ڈھائی لاکھ شامی ان ہتھیاروں اور ان کی  تربیت کے نتیجے میں مارے گیے  ہیں۔
     خلیج کے بادشاہوں کے کلب نے امریکہ سے کھربوں ڈالر کے ہتھیار خریدنے  کے معاہدے کر کے امریکہ کی معیشت  کو بہت اچھا کر دیا ہے ۔ امریکہ میں خوشحالی آ گئی ہے۔ زندگی کی رونقیں واپس آ گئی ہیں۔ اس لئے امریکہ کو شام میں سعود یوں کے مطالبے پورے کرنا ہیں۔ سعود یوں نے اس مقصد میں کھربوں ڈالر واشنگٹن میں لابیوں کو بھی دئیے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سعودی یمن میں جو جنگی جرائم کر رہے ہیں۔ امریکی میڈ یا میں اسے بھی بلیک آوٹ کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ سعود یوں کا یمن پر حملہ صدام حسین کے کو یت پر حملے سے مختلف نہیں ہے۔ لیکن صدام حسین نے امریکی میڈیا کا منہ بند رکھنے کے لئے واشنگٹن میں لابیوں کو کھربوں ڈالر نہیں دئیے تھے۔ اور نہ ہی  امریکہ سے کھربوں ڈالر کا اسلحہ خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔ سات ماہ ہو گۓ ہیں اور یمن کے خلاف سعودی جا حا ریت ابھی تک جاری ہے۔ اب تک چار ہزار سے زیادہ یمینی جو انتہائی غریب اور بےگناہ تھے۔ مار دئیے ہیں۔ لیکن کیونکہ وہ امریکہ کی معیشت میں خوشحالی لاۓ ہیں۔ لہذا انہیں یہ ایوارڈ دیا گیا ہے کہ شام میں اسد حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے مذاکرات کی ٹیبل پر سعودی وزیر خارجہ   جان کیری کے برابر بیٹھے ہیں۔ اور یمن میں انسانیت کے خلا ف کرائم کرنے کی بھی اجازت ہیے۔
    بادشاہوں کا یہ کلب جن کے ملکوں میں سیاسی آزادیاں نہیں ہیں۔ جو انسانی حقوق کا احترام نہیں کرتے ہیں۔ جو آزادی اظہار میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔ جہاں حکومت کی مخالفت کرنے کی سزا پھانسی ہے۔ جہاں جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ جہاں عورتوں کے حقوق مساوی نہیں سمجھے جاتے ہیں۔ جو قومی دولت میں عوام کو شریک نہیں کرتے ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ساری عیش و عشرت اللہ نے انہیں دی ہے۔ لیکن عوام کو عشرت دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔ بادشاہوں کا یہ کلب شام میں حکومت تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ وہ خود سب سے بڑے مطلق العنان حکمران ہیں۔
     دنیا میں جمہوری اور اخلاقی قدروں کے چمپین جو بادشاہوں کے کلب میں بیٹھے ہیں۔ اور شام میں حکومت  تبدیل کرنے میں ان کی مدد کر رہے ہیں ۔ اگر وہ واقعی انسانی حقوق اور سیاسی آزادیوں میں یقین رکھتے ہیں تو انہیں شام میں حکومت کی تبدیلی کو سعودی عرب  کویت اور متحدہ عرب امارت میں سیاسی اصلاحات سے منسلک کرنا چاہیے۔ ا ور پریس کی آزادی عورتوں کے حقوق ، انسانی حقوق کا احترام ،سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی اور سیاسی مخالفین کو پھانسی کی سزاؤں کا خاتمہ جیسے ایشو شام کے تنازعہ پر ہونے والے مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کیا جاۓ۔

    شام کے ڈھائی لاکھ لوگوں نے عرب عوام کی آزادی کے لئے  اپنی جانیں دی ہیں۔ اور دنیا کو ان کی قربانیوں کا احترام کرنا  چاہیے۔               

Saturday, October 24, 2015

“My Brother Kept Us Safe” But At What Cost

مڈل ایسٹ


“My Brother Kept Us Safe”

But At What Cost


مجیب خان





      ری  پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ  نے Jeb Bush کو ٹوئٹ میں کہا ہے  کہ تمہارے بھائی نے عراق پر حملہ کیوں کیا تھا ؟ اور مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کر دیا ہے۔ حالانکہ وہاں مہلک ہتھیار نہیں تھے۔ انفارمیشن غلط تھی۔  ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ بالکل درست کہا ہے۔ اس میں انتخابی مہم کی سیاست نہیں ہے۔ اس لئے Jeb Bush کے پاس اس کا کوئی معقول جواب بھی نہیں تھا۔ اور ان کا مختصر جواب یہ تھا کہ میرے بھا ئ [ جارج بش] نے ہمیں محفوظ رکھا ہے۔ لیکن سوال یہ تھا کہ کس قیمت پر ہمیں محفوظ رکھا تھا؟ اگر دنیا کو غیر محفوظ کر کے ہمیں محفوظ رکھا ہے ۔ تو یہ خود غرضی اور مفاد پرستی تھی۔ حالانکہ صدا م حسین کو اقتدار سے ہٹایا اس لئے گیا تھا کہ ان کے اقتدار میں رہنے سے دنیا غیر محفوظ ہو رہی تھی۔ لیکن عراق پر حملے سے دنیا آج زیادہ غیر محفوظ ہو گی ہے۔ مڈل ایسٹ کے تین سو ملین لوگ بالکل غیر محفوظ ہو گۓ ہیں۔ اور یہ لوگ تکلیفوں اور اذیتوں میں ہیں۔ عراق میں پچیس ملین لوگ زندگی اور موت کے درمیان لٹکے ہوۓ ہیں۔ گزشتہ بارہ سال سے روزانہ سینکڑوں عراقی ہلاک ہو رہے ہیں۔ جبکہ شام میں بیس ملین لوگ محفوظ نہیں ہیں۔ لیبیا میں بائیس ملین لوگوں کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں۔ افغانستان میں ساری انسانیت غیر محفوظ ہے۔ پاکستان میں 180 ملین لوگوں میں محفوظ ہونے کا اعتماد نہیں ہے۔
    عراق میں دو لاکھ سے زیادہ لوگ بش انتظامیہ کی فوجی مہم جوئی کے نتیجے میں مارے گۓ ہیں۔ لیبیا میں بیس ہزار لوگ صرف سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتوں کی جا حا ریت کے نتیجے میں مارے گۓ ہیں۔ شام میں ڈھائ لاکھ لوگ امریکہ کی غلط پالیسی کی وجہ سے مارے گۓ ہیں۔ افغانستان میں 80 کے عشر ے میں مغربی طاقتوں کے مفاد میں پچاس ہزار افغانوں نے سوویت یونین کو شکست دینے کی جنگ میں اپنی جا نيں دی تھیں۔ اور پھر نائن الیون کے بعد افغانستان میں طالبان سے امریکہ کی سلامتی کو خطرہ ہو گیا تھا ۔ لہذا امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر کے  طالبان کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ اور حملے میں پچاس ہزار سے زیادہ افغان مارے ‏گۓ تھے۔ اور افغانوں کی ہلاکتوں کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
    مڈل ایسٹ شمالی افریقہ افغانستان جنوبی ایشیا غیر محفوظ ہیں۔ اور اس خوف سے لوگ محفوظ دنیا میں پناہ لینے بھاگ رہے ہیں۔ ان کی اس جدوجہد میں کتنے مرد عورتیں اور بچے سمند رو ں میں دریاؤں میں ڈوب گۓ ہیں۔ کتنے بچے عورتیں اور مرد پانی نہ ملنے اور بھوک سے مر گۓ ہیں۔ خود کو محفوظ رکھنے اور دوسروں کو غیر محفوظ کرنے کی لڑائی میں کتنے خاندان اجڑ گۓ ہیں۔ کتنے گھر برباد ہو گۓ ہیں۔ کتنے ملک تباہ ہو گۓ ہیں۔ تاریخ میں اسے اکیسویں صدی کا  Holocaust کہا جاۓ گا۔ ایک محفوظ دنیا  نے یہ اذیتیں اور تکلیفیں غیر محفوظ انسانیت کو دی ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے شاید انسانیت کے اس درد کو محسوس کیا ہے۔ اور Jeb Bush سے یہ سوال کیا ہے کہ تمہارے بھائی  نے عراق پر حملہ کیوں کیا تھا ؟ اس حملے نے مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کے بھنور میں دھکیل دیا ہے۔
     جب تک امریکہ کو یہ یقین تھا کہ عراق میں مہلک ہتھیار ہیں اس وقت تک عراق پر صرف بلندیوں سے بمباری ہوتی رہی۔ لیکن جس دن امریکہ کو یہ یقین ہو گیا کہ عراق میں اب مہلک ہتھیار نہیں ہیں ۔ امریکی فوجیں اسی دن عراق میں گھس گئی تھیں۔ اور اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس ملک کا شیرازہ بکھیر دیا ۔اس ملک کی تہذیب و تمدن تہس نہس کر دیا۔ یہ ملک اب کبھی دوبارہ عراق بن سکے گا یا نہیں ؟ یہ مسئلہ بھی بغیر جنگ کے اسی طرح حل ہو سکتا تھا کہ جیسے ایران کے ایٹمی پروگرام کا مسئلہ حل کیا گیا ہے۔ صدا م حسین بش سینیئر کی Gotcha پالیسی کا شکار ہو گۓ تھے۔ حالانکہ صدام  حسین نے بغداد میں امریکی سفیر کے ذریعے کویت کے بارے میں اپنے عزائم پر صدر جارج ایچ بش کی رائے معلوم کی تھی۔ لیکن صدام حسین کو دیانتدارانہ مشورہ دینے کے بجاۓ ۔ انہیں گمراہ کیا گیا تھا۔ ا پھر سوویت صدر میکائیل گارباچوف کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں صدام حسین کویت سے اپنی فوجیں واپس بلانے پر آمادہ ہو گۓ تھے۔ اور اس مسئلے کو سیاسی طور پر حل کر لیا تھا۔ لیکن صدر جارج ایچ بش کو جب یہ یقین ہو گیا کہ صدا م حسین واقعی کویت سے اپنی فوجیں نکال رہے تھے۔ تو صدر بش سينئر نے اسی وقت عراق پر حملہ کا حکم دے دیا۔
     نائن الیون کے بعد یہ ہی افغانستان کے ساتھ ہوا تھا۔ طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اور طالبان سے کہا گیا تھا کہ اگر وہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہیں کریں گے تو ان کے خلاف فوجی کاروائی کی جا ۓ گی۔ پاکستان نے اس تنازعہ میں مداخلت کرتے ہوۓ اسے سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اور طالبان کے رہنما ملا عمر سے اسامہ بن لادن امریکہ کے حوالے کرنے کا اصرار کیا تھا۔ تاہم
پاکستان کی کوششوں سے ملا عمر بن لادن کو امریکہ کے بجاۓ کسی تیسرے ملک کے حوالے کرنے کے لئے تیار ہو گۓ تھے۔ لیکن اس سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے بجاۓ صدر جارج ڈ بلو بش نے افغانستان پر حملہ کر دیا تھا۔
  صدر کرنل معمرقدافی نے اپنے تمام مہلک ہتھیار امریکہ کے حوالے کر دئیے  تھے۔ جس کے بعد صدر بش نے قدافی کو اقتدار میں رہنے کا سرٹیفکیٹ دے دیا تھا۔ صدر بش کی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں صدر قدافی  امریکہ سے تعاون بھی کر رہے تھے۔ بش انتظامیہ نے القا عدہ کے متعدد دہشت گرد لیبیا کے حوالے ان سے تحقیقات کرنے کے لئے دئیے تھے۔ جبکہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سالانہ رپورٹ میں لیبیا میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں بتایا جاتا تھا۔ پھر یہ اوبامہ انتظامیہ تھی جس نے برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر لیبیا پر بمباری کر کے قدافی حکومت کو اقتدار سے ہٹا یا تھا۔ یہ سامراجی اور نوآبادیاتی جا حا ریت تھی۔ اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھی۔ صدام حسین نے بیس سال قبل کویت  میں ایک ایسی ہی فوجی جا حا ریت سے حکومت کو اقتدار سے معزول کیا تھا ۔ لیکن یہاں یکے بعد دیگرے عرب ملکوں میں حکومتیں تبدیل کر کے ان ملکوں کو Destabilize کیا جا رہا تھا۔
       اوبامہ انتظامیہ کی یہ پالیسیاں دراصل بش انتظامیہ کی پالیسیوں کا تسلسل تھا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اوبامہ انتظامیہ کا خارجی امور میں بش انتظامیہ کے Neo-Cons کے ساتھ سمجھوتہ ہو گیا تھا۔ اور صدر اوبامہ کے داخلی ایجنڈے پر انہوں نے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ صدر اوبامہ قانون کے پروفیسر تھے ۔ اور ان سے قانون کی بالا دستی بحال کرنے کی توقع کی جا رہی تھی۔ اور صدر بش کی انتظامیہ میں عالمی قوانین کی جس طرح خلاف ورزیاں کی گی تھیں انہیں اب نہیں دہرایا جاۓ گا۔ لیکن یہ دیکھ کر بڑی ما یوسی ہوئی ہے کہ عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ اوبامہ انتظامیہ میں بھی جا رہی تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے دنیا میں امریکہ کا امیج خراب ہوا ہے۔ چار سال سے شام میں حکومت کے خلاف دہشت گردی سے دنیا تنگ آ گی تھی ۔ امریکہ نئے دہشت گرد گروپوں پر ماڈریٹ کا لیبل لگا کر انہیں تربیت اور اسلحہ فراہم کر رہا تھا ۔ امریکہ کی اس پالیسی سے حاصل کچھ نہیں ہو رہا تھا۔ صرف بے گناہ لوگ مر رہے تھے۔ اور تباہی پھیل رہی تھی۔ بالآخر شام میں دہشت گردوں کے خلاف روس کو مداخلت کرنا پڑی ہے۔ یورپ نے روس کے اقدام کی خاموش حمایت کی ہے۔ جبکہ ایشیا افریقہ اور لاطین امریکہ کے ملکوں میں اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ سوال درست ہے کہ عراق پر حملہ کیوں کیا تھا ؟ یہ عراق پر اس حملہ کی آگ ہے جس نے سارے مڈل ایسٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اور یہ آگ پھیلتے  پھیلتے یورپ تک پہنچ رہی تھی۔ اور روس اس آگ کو بھجانے آیا ہے۔ امریکہ کی سمجھ میں اب آیا ہے کہ سلامتی کونسل میں روس اور چین نے اس کی قراردادوں کو کیوں ویٹو کیا تھا ؟


   

Tuesday, October 20, 2015

The Bush Administration and The Debacle of Afghanistan

افغانستان کا مسئلہ

 The Bush Administration And

The Debacle of Afghanistan


مجیب خان





       افغان فوج اور پولیس کو تربیت دینے میں بارہ سال لگے تھے۔ جس کے بعد فوج اور پولیس افغان حکومت کے باقاعدہ ادارے بن گۓ تھے اور یہ امید کی جا رہی تھی کہ فوج اور پولیس افغانستان میں امن اور استحکام لانے میں ایک کلیدی کردار ادا کریں گے۔ لیکن اب نظر یہ آ رہا ہے کہ افغان فوج اور پولیس بھی امریکہ اور نیٹو فوجوں کی طرح اس مقصد میں ناکام ہو رہے ہیں۔ پولیس اور فوج شہریوں کی جانیں بچانے کے بجاۓ اپنی جانیں بچانے کی فکر میں ہیں۔ طالبان کا خوف جیسے ان کا پیچھا کرتا رہتا ہے۔ اور جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ طالبان ان کی ڈسٹرکٹ یا شہر میں داخل ہو گۓ ہیں۔ وہ تھانے اور پولیس چوکیاں طالبان کے حوالے کر کے بھاگ جاتے ہیں۔ جبکہ افغان فوجی کئی ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے فوج کو چھوڑ کر چلے گۓ ہیں۔
    عراق میں امریکہ نے صدام حسین کے فوجی ادارے کو تباہ کر کے ایک نئی فوج بنائی تھی اور اسے  تربیت امریکہ نے دی تھی ۔ لیکن عراقی فوج کا ایک بریگیڈ اس سال فوج سے منحرف ہو گیا تھا ۔ اور داعش سے مل گیا تھا۔ شام میں اسد حکومت سے لڑنے کے لیۓ  سی آئی اے نے سو نام نہاد ماڈریٹ باغیوں کو تربیت دی تھی۔ جس پر پانچ سو ملین ڈالر خرچ کئے تھے۔ لیکن تربیت لینے کے بعد نام نہاد ماڈریٹ میں سے 95 نے اپنے ہتھیار القاعدہ کو دے کر چلے گۓ تھے۔ اور اسد حکومت سے لڑنے کے لئے میدان میں صرف پانچ رہے گۓ تھے۔
   امریکہ کو افغانستان میں ابھی تک کوئی کامیابی ہوئی ہے اور نہ ہی عراق میں امریکہ کو کامیابی ہوئی ہے۔ بعد کی تمام جنگیں جیتنے کے لئے افغان جنگ کا جیتنا ضروری تھا۔ لیکن افغانستان میں امریکہ کی ناکامی نے باقی جنگوں کو بھی ناکام بنا دیا ہے۔ جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی شامل ہے۔ افغان جنگ نیٹو کی ساکھ کا سوال تھا۔ پہلی بار نیٹو نے ایک گرم جنگ لڑی تھی ۔ نیٹو کو یہ شکست بھی ایک ایسے ملک میں ہوئی ہے جو انتہائی غریب ملک تھا۔ جس کی کوئی فوج تھی اور نہ ہی ان کے پاس جدید ہتھیار تھے۔ نیٹو کے لئے یہ شرمناک شکست ہے۔
   افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کو چودہ سال سے مصروف رکھنے کا مقصد نیٹو کو دراصل کمزور کرنا اور اس فوجی اتحاد میں دراڑیں ڈالنا تھا۔ طالبان اور القاعدہ امریکہ اور نیٹو کے لئے ایک بڑا خطرہ تھے اور نیٹو روس کے لئے ایک بڑا خطرہ بن رہا تھا۔ جو روس کے گرد حلقہ تنگ کر رہا تھا۔ جبکہ چین کو یورپ سے باہر نیٹو کی بڑھتی ہوئی مہم جوئیوں پر تشویش تھی۔ بھارت کا افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کو عدم استحکام کرنے کی کوششوں نے دراصل نیٹو کے لئے مشکلات پیدا کی تھیں۔ افغانستان میں بھارت امریکہ کی مدد کر رہا تھا اور نہ ہی نیٹو کو کامیاب بنانے میں مدد دے رہا تھا۔ بلکہ بھارت افغانستان میں صرف اپنے مفادات دیکھ رہا تھا۔ جبکہ پاکستان میں تاثر یہ تھا کہ امریکہ اور بھارت کے اسٹرٹیجک تعلقات ہیں جو پاکستان کو عدم استحکام کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ افغان جنگ سے سب اپنے مقاصد حاصل کر رہے تھے۔  افغانستان میں بھارت امریکہ اور نیٹو کی مدد صرف  پاکستان کو عدم استحکام کرنے میں کر رہا تھا۔
  بش چینی انتظامیہ کے انجنیئر جو جنگوں کے نقشے تیار کر رہے تھے۔ ان کے خیال میں افغانستان میں کامیابی عراق میں حکومت کی تبدیلی سے منسلک ہے۔ افغانستان میں طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد بڑی کامیابیوں کے لئے عراق میں صدا م حسین کو اقتدار سے ہٹانا ضروری تھا۔ لہذا افغان جنگ کو چوراہے پر چھوڑ کر بش چینی انتظامیہ نے عراق پر حملہ کر دیا تھا۔ امریکہ نے قبائلی معاشروں میں کبھی جنگیں نہیں لڑی تھیں اور نیٹو نے کبھی گرم جنگ نہیں لڑی تھی۔ لہذا افغانستان اور عراق ان کے لئے نیا تجربہ تھے۔ اور امریکہ اور نیٹو دونوں اس تجربے میں بری طرح ناکام ہوۓ ہیں۔
   حیرت کی بات تھی کہ بش انتظامیہ نے افغانستان پر حملے سے پہلے روسی جنرلوں سے افغانستان میں سوویت یونین کے ناکام ہونے میں غلطیوں کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ لیکن انہوں نے افغانستان کی تاریخ کو اتنی اہمیت نہیں دی تھی جو یہ بتا رہی تھی کہ افغانستان میں جتنے بھی حملہ آور آئیے تھے سب نے ماریں کھائیں تھیں۔ اور افغانستان سے ناکام ہو کر گۓ تھے۔  افغانستان میں داخل ہونے کے لیۓ اس تاریخ کو ذہین میں رکھنا ضروری تھا۔ بش چینی انتظامیہ نے اس حقیقت کو بھی نظر انداز کر دیا تھا کہ طالبان اصل مجاہدین تھے جو سوویت ایمپائر سے لڑے تھے اور اسے شکست دی تھی۔ انہیں ایمپائر سے لڑنے کا تجربہ تھا۔ افغان مجاہدین سوویت ایمپائر سے اس وقت تک لڑتے رہے تھے کہ جب تک اس نے شکست قبول نہیں کی تھی۔ یہ سابق مجاہدین اب طالبان ہیں۔ اور یہ امریکی ایمپائر سے بھی اسی طرح اس وقت تک لڑتے رہیں گے کہ جب تک امریکہ شکست قبول نہیں کرے گا۔ خواہ اسے اٹھارہ سال لگ جائیں۔
   بش چینی انتظامیہ نے امریکہ سے چھوٹے قد والوں کو امریکہ کا ایک بہت بڑا دشمن بنا لیا تھا۔ امریکہ افغان جنگ صرف اٹھارہ ماہ میں جیت سکتا تھا۔ اگر بش چینی انتظامیہ کے پالیسی سازوں کے ذہنوں میں دنیا میں ہر طرف جنگوں کے جال بچھانے کا منصوبہ نہیں ہوتا۔ افغانوں نے اپنی تاریخ میں پہلی بار غیرملکی فوجوں کا خیر مقدم کیا تھا۔ اور وہ طالبان کا اقتدار ختم ہونے پر خوش تھے۔ طالبان کمزور ہو گۓ تھے۔ اور یہ بہترین موقعہ تھا جب افغانستان میں سیاسی عمل تیز کیا جاتا۔ اور طالبان کو اس عمل میں شامل ہونے کی ترغیب دی جاتی۔ جب سیاسی اور عسکری طور پر کمزور ہوتے ہیں تو سمجھوتہ کرنے میں زیادہ مشکلات نہیں ہوتی ہے۔ طالبان نے افغانستان میں دو کام اچھے کئے تھے ۔ ایک تو انہوں نے افغان وار لارڈ کا نظام ختم کر دیا تھا ۔ اور دوسرا افغانستان سے افیون کی کاشت کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا تھا۔ اس کا اعتراف اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی کیا گيا تھا۔ افغان معاشرے کے لیۓ یہ بڑی اہم اصلاحات تھیں۔ طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد بھی اسے برقرار رکھا جاتا۔ اور اس کے ساتھ افغانستان میں استحکام اور سیاسی اصلاحات کا عمل آ گے بڑھایا جاتا۔ اور ذہین میں یہ رکھا جاتا کہ طالبان سابق مجاہدین ہیں۔ جو سوویت ایمپائر کو شکست دے چکے ہیں۔اور انہیں ایمپائر سے لڑنے کا تجربہ ہے۔ لہذا ان سے غیر معینہ مدت تک تصادم نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ اور انہیں جتنی جلدی سیاسی عمل میں شامل کیا جاتا ۔ اس میں سب کی کامیابی بھی ہوتی۔
    لیکن بش چینی انتظامیہ نے افغانستان میں وار لارڈ کا نظام بحال کر دیا تھا۔ اور وار لارڈ  سے افغانستان کی تعمیر نو کا کام لیا جا رہا تھا۔ افغانستان میں وار لارڈ نے افیون کی کاشت بحال کر دی تھی۔ وار لارڈ، افیون کی کاشت اور منشیات کی تجارت افغانستان میں کرپشن دہشت گردی اور انتشار کی اب اصل جڑ ہیں۔ اور اسے امریکہ برطانیہ اور نیٹو کے واچ میں افغانستان میں فروغ دیا گیا ہے۔ افغانستان میں وار لارڈ اب طالبان سے زیادہ مضبوط ہوگۓ ہیں۔ ان کے اپنے ملیشیا ہیں۔ اپنے علاقوں میں پولیس اور فوج پر ان کا کنڑول بھی ہے ۔ بعض صوبوں میں وار لارڈ طالبان کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں۔ وار لارڈ کی افیون کی معیشت کابل حکومت کی معیشت سے بڑی ہے۔
  سابق صدر حامد کرزئ نے افغانستان کے انتشار میں وار لارڈ کے کردار پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی ہے۔ وار لارڈ  طالبان کو جس طرح اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں ۔ سابق صدر کرزئ نے کبھی اس کا اعتراف نہیں کیا ہے ۔ بلکہ سابق صدر صرف پاکستان کو طالبان کی حمایت کرنے کا الزام دیتے رہتے ہیں۔ حالانکہ افغانستان کا بڑا مسئلہ اس وقت وار لارڈ ہیں۔ اور طالبان کا نمبر ان کے کرپشن کے بعد آتا ہے۔ بش چینی انتظامیہ پر اگر جنگوں کا نشہ طاری نہیں ہوتا اور وہ دانشمندی سے فیصلے کرتے تو افغانستان آج بہت مختلف ہوتا۔
   جارج بش اور ڈک چینی کوPolitical Science کے کن پروفیسروں نے یہ پڑھایا تھا کہ وار لارڈ اور منشیات کی تجارت سول سوسائٹی قائم کرتے ہیں اور جمہوریت کو فروغ دیتے ہیں؟
                                                                                                                                                                                                         



Friday, October 16, 2015

پاکستان کی سلامتی کے مفادات اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات

امریکہ پاکستان تعلقات



پاکستان کی سلامتی کے مفادات

اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات



مجیب خان





     وزیر اعظم نواز شریف ایسے وقت واشنگٹن کے دورے پر آ رہے ہیں کہ جب اسلامی دنیا شدید انتشار، عدم استحکام اور عدم اتحاد کے حالات میں ہے۔ اسلامی ملکوں کا اس وقت کوئی مستقبل نظر نہیں آ رہا ہے ۔ شام کے بعد کس اسلامی ملک کا نمبر ہے؟ اس کا کسی کو علم نہیں ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اسلامی ملکوں کے لیۓ غنڈہ گردی کی جنگ بن گئی ہے۔ اسلامی ملکوں کو جیسے دہشت گردی اور غنڈہ گردی میں جیکڑ دیا  گیا ہے۔ پاکستان کا اس جنگ میں 100 بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ۔ اور جو لوگ اس جنگ میں مارے گئے ہیں وہ نقصان علیحدہ ہے اس جنگ کی وجہ سے پاکستان اقتصادی طور پر بیس پچیس سال پیچھے ہو گیا ہے۔ اس جنگ نے پاکستان کو جو نئے مسائل دئیے ہیں۔ وہ علیحدہ مسئلہ بنے ہوۓ ہیں۔
       پاکستان نے80 کے عشرہ میں افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف اور پھر  نائین الوین کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف امریکہ سے تعاون یہ دن دیکھنے کے لیۓ نہیں کی تھی۔ بہرحال پاکستان کے لئے یہ بڑا تلخ تجربہ ہے اور قومیں تلخ تجربوں سے سبق سیکھتی ہیں۔ پاکستان میں قیادتوں کی تاہم یہ ثقافت نہیں ہے کہ انہوں نے تلخ تجربوں سے کبھی سیکھا ہے۔ اس مرتبہ فوج نے کیونکہ بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اس لئے اس تلخ تجربہ سے کچھ سبق سیکھنے کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ اور وزیر اعظم نواز شریف اپنے واشنگٹن کے دورے میں اسے ذہن میں رکھیں گے ۔  قومی سلامتی اور قومی مفاد پر ایک ٹھوس موقوف اختیار کریں گے۔ اور اس پر کوئی سودے بازی نہیں کریں گے۔
       پاکستان کی خارجہ پالیسی میں حالیہ برس میں جو تبدیلی آر ہی ہے ۔ وہ وزیر اعظم نوازشریف اور آئندہ ماہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ان ملاقاتوں کا ایک اہم موضوع ہو گا۔ اور اس حوالے سے خلیج کی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا سرد پڑنا،  جنوبی ایشیا میں پاکستان کا چین کے اثرو رسوخ کو فروغ دینے پر بھارت کی تشویش اور روس کے ساتھ پاکستان کے نئے قریبی تعلقات کا فروغ جس میں فوجی اور اقتصادی امور میں قریبی تعاون پر امریکہ کی تشویش اہم موضوع ہوں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف سے شاید یہ بھی پوچھا جاۓ گا کہ شام میں روس کی فوجی مداخلت پر ان کی حکومت کا کیا رد عمل ہے۔ امریکہ کو بھارت کے روس اور چین کے ساتھ BRICS معاہدے میں سرگرم ہونے پر اتنی تشویش نہیں ہے۔ لیکن پاکستان کے مفاد میں روس اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات کا فروغ امریکہ اور بھارت کو قبول نہیں ہے؟ اگر مڈل ایسٹ روس اور امریکہ کے درمیان تقسیم ہو جاتا ہے تو اس صورت میں پاکستان کس طرف کھڑا ہو گا؟
       افغانستان بھی اس ملاقات میں ایک اہم موضوع ہو گا۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کے ڈاکٹروں کے انتھک فوجی آپریشن میں ناکامیوں کے بعد اب تھینک تھینکس یہ کہہ رہے کہ افغان مسئلے کے حل کی چابی پاکستان کے پاس ہے۔ اور پاکستان کا طالبان پر خاصا اثر و رسوخ ہے۔ پاکستان افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سمجھوتہ کرانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس حقیقت میں اکتوبر 2001 تک کچھ وزن تھا۔ لیکن طالبان تنظیم اب وہ نہیں ہے جو اکتوبر 2001 سے قبل تھی۔ اس وقت طالبان کے سینکڑوں گروپ ہیں۔ طالبان کے کچھ گروپ وار لارڈ کے ساتھ ہیں۔ کچھ گروپ منشیات کے مافیا کے ساتھ ہیں۔ جبکہ بعض حکومت میں کرپشن کرنے والوں کے ساتھ لوٹ مار میں شامل ہو گۓ ہیں۔ طالبان کی قیادت کا خود طالبان کی تنظیم پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ چودہ سال میں افغانستان کو اتنا زیادہ کرپٹ اور معاشرے کو اتنا زیادہ تقسیم در تقسیم کر دیا گیا ہے کہ افغانستان میں امن اور استحکام سب کے لیۓ صرف ایک خواب ہے۔ کابل میں ایک جمہوری حکومت بیٹھا دی ہے لیکن سیاسی عمل میں افغان معاشرے کے تمام گروپوں کو شامل کرنے کے لئے کسی نے کچھ نہیں کیا تھا۔ اب ان حالات میں پاکستان کیا کر سکتا ہے ۔ جبکہ پاکستان خود پاکستانی طالبان سے لڑ رہا ہے۔
      بھارت افغانستان میں جن اقلیتی گروپوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ اور انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے ۔اس سے افغانستان میں پاکستان کی کوششوں کے لئے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں ۔امریکہ کو اسے روکنا ہو گا۔   ادھر قطر میں طالبان کا آفس کھولنے کے در پردہ مقاصد مشکوک نظر آ رہے ہیں ۔ طالبان کے قطر آفس کے ذریعے افغانستان میں طالبان  کو کیا داعش کا اسلام قبول کرنے کے لئے کلمہ پڑھایا جا رہا ہے؟اورپھر امریکہ پاکستان سے داعش کے خلاف لڑنے کے لئے کہہ گا۔ امریکہ ڈھائ سو سال سے جنگیں لڑ رہا ہے اور دنیا کی واحد طاقت بن گیا ہے۔ لیکن کیا پاکستان اس طرح امریکہ کے ساتھ جنگیں لڑ کر اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا؟ پاکستان کو ہر طرف سے اپنی آزادی اور بقا کو اس طرح بچانا ہو گا کہ جیسے غنڈوں سے اپنی آبرو بچائی جاتی ہے۔ وزیر اعظم کو محدود سوچ کے ساتھ واشنگٹن نہیں آنا چاہیے ۔ بلکہ حالات کے وسیع  مطالعہ کے ساتھ آنا چاہیے۔
    یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ1998 میں ایٹمی دھماکوں سے قبل صدر کلنٹن نے جب وزیر اعظم نواز شریف کو وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دی تھی۔ چوبیس ماہ کے لئے صدر تھے۔ اور نئے صدارتی انتخاب کی مہم شروع ہو چکی تھی ۔ صدر جارج بش نے 2007  میں صدر جنرل پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی سمجھوتہ کرایا تھا اس وقت صدر جارج بش تیرہ ماہ کے لئے صدر تھے۔ اور امریکہ میں صدارتی انتخابات کی تیاریاں ہو رہی تھیں ۔اور سترہ سال بعد وزیر اعظم نوازشریف  صدر اوبامہ کی دعوت پر وائٹ ہاؤس آ رہے ہیں ۔اور صدر اوبامہ چودہ ماہ کے لئے صدر ہیں۔ اور امریکہ میں صدارتی انتخاب کی مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔ صدر اوبامہ پاکستان کو نئی انتظامیہ کے لئے Set کر رہے ہیں ۔ جیسے ان سے قبل صدربش نے کیا تھا۔ اور ان سے قبل صدر کلنٹن پاکستان کو صدر بش کے لئے Set کر کے گۓ تھے۔ ایک بات واضح ہونا چاہیے کہ پاکستان نے خارجہ پالیسی میں جو تبدیلیاں کی ہیں۔ اس میں کسی دھمکی اور دھونس میں U-Turn بالکل نہیں لیا جاۓ ۔  پاکستان کو روس اور چین کے ساتھ تعلقات کی خصوصی  اہمیت برقرار رکھنا چاہیے  ۔ پاکستان کو عالمی پیچیدہ حالات اور جنوب مغربی ایشیا کے انتہائی مشکل صورت حال میں انتہائی مشکل فیصلے کرنا ہیں۔ اور یہ قیادت کا امتحان بھی ہے؟   

                        

Tuesday, October 13, 2015

Hate Between Israeli and Arab People, Business Normal Between Elite Jewish and Elite Arab

عرب اسرائیل تنازعہ

Hate Between Israeli and Arab People,
Business Normal Between Elite Jewish
and Elite Arab                                                     

مجیب خان






   عرب اسرائیل تنازعہ دنیا کی تاریخ کا قدیم طویل اور محکوم انسانیت کا ایک درد ناک خونی تنازعہ ہے۔ جسے 67 برس ہوگۓہیں۔ لیکن دنیا کے سیاسی اجارہ داروں کے پاس اس تنازعہ کا ابھی تک حل نہیں ہے۔ یہ تنازعہ سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتوں نے شاید اس یقین کے ساتھ تخلیق کیا تھا کہ اس تنازعہ کو کبھی حل نہیں کیا جائے گا۔ حالانکہ انہوں نے فلسطین کو جب تقسیم کیا تھا اور یہودی ریاست وجود میں آئی تھی۔ انہیں اسی وقت فلسطینیوں کی خود مختار ریاست کو بھی تسلیم کرنا چاہیے تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی یہودی ریاست کی سرحدوں کا تعین بھی کرنا چاہیے تھا۔ لیکن ایسے تنازعہ سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتیں دنیا میں اپنی سیاسی اجارہ داری رکھنے کے لئے استحصال کرتی ہیں۔ اور عرب اسرائیل تنازعہ کو اس مقصد میں ناقابل حل بنایا گیا ہے۔ اور یہ تنازعہ ان کے مفادات کی تکمیل کر رہا ہے۔ انہوں نے یہودی ریاست بنا دی تھی۔ لیکن یہودیوں کو امن دیا اور نہ ہی عربوں کو امن دیا ہے۔
    دنیا میں بڑے تنازعوں کو حل کیا گیا ہے۔ سرد جنگ کا مسئلہ بھی حل ہو گیا ہے ۔ جرمنی بھی دوبارہ متحد ہو گیا ہے۔ اور جرمنی ایک طاقت بن کر پھر ابھر رہا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی نئی ایجاد دیں دنیا کے بہت سے مسائل حل کر رہی ہیں۔ لیکن 67 برس میں عرب اسرائیل تنازعہ کو حل کرنے میں ایسی سیاسی ایجاد ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ فلسطینیوں کے لئے مقبوضہ فلسطین  گو تانوموبے ہے۔ اسرائیلی ٹینک بک تربند گاڑیاں اور فوجیں فلسطینیوں کی بستیوں گلیوں اور سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔ 67 برس میں جو فلسطینی بچے پیدا ہوئیے ہیں انہوں نے اس ماحول میں پرورش پائی ہے۔ ان کی حالت زار غلاموں سے بھی بد تر ہے۔ لیکن فلسطینیوں کے حقوق اور آزادی کا جب بھی سوال ہوتا ہے ۔ دنیا بے ضمیر ہو جاتی ہے ۔ امریکہ نے عراقیوں کو آزادی دلائی ہے۔ امریکہ نے لیبیا کے لوگوں کو آزادی دلائی ہے۔ امریکہ شام کے لوگوں کو آزادی دلانے کے لئے ان کے ساتھ لڑ رہا ہے۔ امریکہ افغانوں کو طالبان سے آزادی دلانے کے لئے لڑ رہا ہے۔ لیکن امریکہ فلسطینیوں کو اسرائیل سے آزادی دلانے کے لئے تیار نہیں ہے۔
    یہود یوں کی نسل کشی یورپ میں ہوئی تھی۔ عربوں کا یورپ میں یہود یوں کی نسل کشی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عرب دنیا میں یہود یوں کی ایک بڑی آبادی تھی۔ اور یہ یہودی عرب تھے۔ ان کی ثقافت اور زبان بھی عرب تھی۔ اور صدیوں سے یہ عرب شہری تھے۔ یورپی یہودی عرب یہود یوں سے مختلف تھے۔ ایران میں اس وقت بھی ایک بڑی تعداد میں ایرانی یہودی ہیں۔ ان کی زبان اور ثقافت ایرانی ہے۔ ان کی عبادت گاہیں ہیں۔ اور یہ  اپنے تہوار بھی مناتے ہیں۔ اور یہ ایرانی مسلمانوں کے درمیان رہتے ہیں۔ ترکی میں بھی یہودی رہتے ہیں۔ جو ترکی کےشہری ہیں۔ ترکی میں ان کی اپنی عبادت گاہیں۔ اسی طرح تونس میں بھی یہودی آباد ہیں۔ مراکش میں بھی یہودی رہتے ہیں۔ اور یہ بڑے امن سے رہتے ہیں۔ عرب یہودی عراق شام مصر ارد ن یمن اور بہت سے دوسرے عرب ملکوں میں بھی رہے سکتے تھے۔ اور انہیں  اپنے آبائی گھر چھوڑ کر اسرائیل جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن سامراجی اور نوآبادیاتی  طاقتوں نے جس طرح فلسطین کی تقسیم کی تھی۔ یہودیوں کی ریاست بنا کر فلسطینیوں کو سڑکوں پر چھوڑ کر چلے گۓ تھے۔ اور یہ فلسطینیوں کے ساتھ  ایک Immoral ناانصافی تھی۔ عرب اسرائیل تنازعہ کی اصل جڑ سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتیں ہیں۔ جنہوں نے 67 برس سے عرب اسرائیل تنازعہ کو اپنے سیاسی مفادات  میں استحصال کرنے کے لیۓ زندہ رکھا ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کتنے عرب اور اسرائیلی اس تنازعہ میں مارے گۓ ہیں؟ بلکہ یہ سب انسان تھے اور یہ کیوں مارے گۓ ہیں؟
      عرب اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم کرنے کے لیۓ تیار نہیں ہیں کہ جب تک اسرائیل عربوں کے علاقہ انہیں واپس نہیں کرتا ہے جن پر اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں قبضہ  کیا تھا ۔ عربوں کے علاقہ پر اسرائیلی قبضہ کو اب 48 سال ہو گۓ ہیں۔ اسرائیلی یہ کہتے ہیں کہ کیا امریکہ نے میکسیکو کے علاقے واپس کر دیۓ تھے جن پر امریکہ نے میکسیکو کے ساتھ جنگ میں قبضہ کیا تھا۔ ور اب ایک تنازعہ سے دو تنازعہ ہو گۓ ہیں ایک فلسطین اسرائیل تنازعہ ہے جسے 67 سال ہوگۓ ہیں ۔اور دوسرا تنازعہ عربوں کے علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ہے جسے 48 سال ہو گۓ ہیں۔ اور ان کا حل کسی کے پاس نہیں ہے ۔ لیکن مسئلہ کیا ہے؟   
     جو یہودی یورپ اور شمالی امریکہ کے شہری ہیں ۔ لیکن ان کی رواداریاں اسرائیل کے ساتھ ہیں ۔ ان میں بعض دوہری شہریت بھی رکھتے ہیں ۔ کیونکہ یہ امریکہ فرانس برطانیہ سوئڈ ن ڈنمارک  وغیرہ  کے شہری ہیں اور ان ملکوں کی حکومت میں اہم عہدوں پر بھی ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کے عرب اسلامی ملکوں کے ساتھ بھی رابطہ ہوتے ہیں۔ اکثر امریکہ اور یورپی ملک عرب اسلامی ملکوں میں اپنے سفیر یہود ی نامزد کرتے ہیں۔ امریکی کانگرس اور یورپی پارلیمانی وفد عرب اسلامی ملکوں کے دورے کرتے ہیں۔ اور ان ملکوں کے اعلی حکام سے ملاقاتیں کرتے ہیں ان کے  ساتھ دو طرفہ تعلقات فروغ دینے پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ عرب اسلامی ملکوں میں امریکہ اور یورپ کے یہودیوں کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہنری کیسنجر جو خود ایک جرمن یہودی تھے ایک عرصہ تک مڈ ل ایسٹ پیس پروسس مشن کے سلسلے میں سعودی عرب بھی جاتے تھے۔ عراق بھی گۓ تھے۔ ار دن بھی گۓ تھے۔ شاہ کے دور میں ایران بھی جاتے تھے۔ شام بھی صد ر حافظ السد سے ملاقات کرنے جاتے تھے۔ لیکن اسرائیل کے وزیر خارجہ ان ملکوں میں نہیں جا سکتے تھے۔ نہ ہی عرب اسلامی ملکوں کے وزیر خارجہ اسرائیل کے وزیر خارجہ سے مڈل ایسٹ پیس پروسس پر براہ راست مذاکرات کر سکتے تھے۔ سینڈ ی برگر صد ربل کلنٹن  کے قومی سلامتی امور کے مشیر تھے ۔ امریکی یہودی تھے۔ ولیم کوہن کلنٹن انتظامیہ  میں سیکرٹیری دفاع تھے۔ اور یہ بھی یہودی تھے۔ عراق کے مسئلے پر ولیم کوہن اور سینڈ ی برگر عرب حکومتوں کو رابطہ میں رکھا کرتے تھے۔  سینڈی برگر خطہ کے سیکورٹی امور پر عرب حکومتوں سے صلاح و مشورہ کر تے رہتے تھے۔ سعودی عرب اور خلیج کی ریاستیں ان کی فہرست میں خصوصی اہمیت رکھتی تھیں۔ ان ریاستوں کے حکمرانوں  کو علاقائی خطروں سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ 1998 میں عراق سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرامد کرانے کے لیۓ صدام حسین کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی مہم میں سیکرٹیری دفاع ولیم کوہن نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ،کویت،اردن اور مصر کے دورے کۓ تھے۔ اور ان ملکوں کے رہنماؤں کو بتایا کہ صدام حسین کے پاس کیمیائی ہتھیار اس خطہ   اور دنیا کے لیۓ کتنا بڑا خطرہ تھے۔ لیکن عرب ملکوں کے وزیر دفاع اسرائیل کے وزیر دفاع سے اس خطہ کو مہلک ہتھیاروں سے دور رکھنے کے لیۓ مشترکہ اقدام کرنے کے لیۓ خود بات نہیں کر سکتے تھے۔
    سعودی شہزادہ بندر بن سلطان تیس سال تک واشنگٹن میں امریکہ کے سفیر تھے۔ واشنگٹن میں انہوں نے بااثر یہودیوں کے ساتھ  بہت اچھے تعلقات تھے۔ نائین الیون کے بعد سعودی حکومت نے واشنگٹن میں ایک انتہائ بااثر یہودی لابی کوHire کیا تھا۔ جو واشنگٹن میں سعودی مفادات کو فروغ دینے کے لۓ لابی کرتی تھی۔ گوتانوموبے میں نظربند عرب اسلامی قیدیوں کی عدالتوں میں اکثر یہودی وکلا پیروی کرتے تھے۔ جبکہ اسرائیلی جیلوں میں جو فلسطینی تھے ۔اسرائیلی عدالتوں میں ان کی پیروی اسرائیلی وکلا کرتے تھے۔
    دنیا میں سب سے زیادہ تیل عربوں کی سرزمین سے نکلتا ہے لیکن دنیا میں تیل کی بڑی کمپنیاں یہودیوں کی ہیں یا ان کمپنیوں کے چیرمین اور چیف ایگز یکٹو یہودی تھے۔ اعلی عرب حکام لندن، پیرس، نیویارک جنیوا میں یہودی تاجروں اور سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ اعلی سطح پر عربوں اور یہودیوں کے درمیان معمول کا کاروبار ہوتا تھا۔ لیکن عرب عوام میں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ کشیدگی کی فضا برقرار رکھی ہے۔ جبکہ یہودیوں نے اسرائیلی عوام میں عربوں کو دشمن رکھنے کی فضا برقرار رکھی ہے۔ عرب اور اسرائیلی عوام ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں ۔ لیکن یہودی اشرفیہ اور عرب اشرفیہ میں کاروبار معمول کا ہے۔
    


    
                                      




Tuesday, October 6, 2015

Enemy of Islam, Within Islam

اسلا مک ورلڈ

                                      Enemy of Islam, Within Islam

مجیب خان     


         مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز آل شیخ نے مسجد نمرہ میں خطبہ حج میں کہا ہے کہ دشمن لبادہ اوڑھ کر اسلام کی جڑوں کو کمزور کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ اور مختلف شکلوں میں اسلام کے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔ یہود و نصارا  مسجد اقصی کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔مفتی اعظم نے کہا کہ اسلامی ریاستوں پر حملہ کرنے والوں کا اسلام سے کوئ تعلق نہیں ہے۔ حملہ کرنے والے یہ لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔مسلمانوں فتنہ پھیلانے والوں کے ہاتھ کھلونا نہ بنو۔آج امت میں فساد پھیل چکا ہے۔اسلام کا لبادہ اوڑھ کر گمراہ کرنے والوں کے خلاف امت متحد ہوجائے۔ان گمراہ جماعتوں کا مقصد امت مسلمہ کو پستیوں کی جانب دھکیلنا ہے۔
         مفتی اعظم نے خطبہ حج میں مسلمانوں کو درپیش جن مسائل کا ذکر کیا ہے۔ وہ آج کوئ نئے مسائل نہیں ہیں۔ نصف صدی سے مسلم دنیا ان مسائل سے دو  چار ہے۔اگر گزشتہ نصف صدی کے خطبہ حج دیکھے جائیں تو ان سب میں یہ ہی باتیں کی جاتی تھیں۔ خطبہ دینے والوں کا کام اسلام کے حق میں خطبہ دینا ہے۔ اور ان کے حکمرانوں کا کام اپنے مفاد میں فیصلے کرنا ہے۔مفتی اعظم نے اپنے خطبہ میں اسلام کے جن دشمنوں کا ذکر کیا ہے۔ اسلام کے یہ دشمن دراصل اسلام کے اندر ہیں۔ جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔
        اسلامی دنیا کو سعودی قیادت پر بڑا فخر تھا۔سعودی قیادت پر اسلامی دنیا کا اعتماد تھا۔مسلم اُمّہ پر جب بھی مشکل وقت آئے تھے ۔ہمیشہ سعودی قیادت سے رہنمائ لی جاتی تھی۔لیکن پھر اسلامی دنیا میں سعودی عرب کے اس خصوصی مقام کا مغربی طاقتیں اپنے مفاد میں استحصال کرنے لگی تھیں۔اسلامی اُمّہ کا مفاد پس پشت چلا گیا تھا۔سعودی عرب نے مغربی مفادات کو اپنے مفادات بنا لیا تھا۔سعودی عرب کا کردار بدل گیا تھا۔اسلامی ملکوں کی تنظیم کے بعض رکن ملک سعودی عرب کو مغرب کا مخبر سمجھنے لگے تھے۔سعودی عرب کے اس رول کی وجہ سے اسلامی ملکوں کی تنظیم اسلامی اُمّہ کے مفاد میں موثر ثابت نہیں ہو سکی ہے۔اسلامی دنیا اس وقت خطرناک موڑ پر کھڑی ہے۔لیکن اس صورت کا سامنا کرنےکے لئے اسلامی ملکوں کی تنظیم کا کوئ مشترکہ لائحہ عمل نہیں ہے۔سعودی عرب نے گلف حکمرانوں کے ساتھ اپنی ایک تنظیم بنالی ہے۔ جو گلف بادشاہوں کی تنظیم ہے۔اور اس تنظیم کے فیصلوں کو اسلامی ملکوں پر مسلط کیا جارہا ہے۔سعودی عر ب کا پولٹیکل اسلام اب کھل کر سامنے آگیا ہے۔اور یہ پولٹیکل اسلام شیعہ سنی فرقہ پرستی کو ہوا دے رہا ہے۔اور یہ پولٹیکل اسلام ہے جو اسلام کی جڑیں کھوکھلا کررہاہے۔اسلامی دنیا میں جتنی زیادہ لڑائیاں ہوں گی اسلام کی جڑیں بھی کھو کھلی ہوتی جائیں گی۔یہود ونصارا کے ساتھ یہ سازشیں کون کررہا ہے؟ یہ لڑائیاں کس کے مفاد میں ہیں۔ان لڑائیوں میں اسلام کا کیا مفاد ہے؟
         سعودی پالیسیوں میں شاہ فیصل کے بعد نمایاں تبدیلیاں آئ تھیں۔جنہں محل میں ان کے بھانجے نے قتل کردیا تھا۔شاہ خالد کے دور میں سعودی عرب مغرب نواز زیادہ ہوگیا تھا۔امریکا کی سرد جنگ کی پالیسیوں کو سعودی عرب نے اسلامی ملکوں میں فروغ دینا شروع کردیا تھا۔ جس کی وجہ سے اسلامی دنیا بلخصوص عرب دنیا میں خلفشار پیدا ہوا تھا۔عرب یکجہتی اختلافات کا شکار  ہوگئ  تھی۔مشرق وسطی کے تنازعہ حل ہونے کے بجائے نئے تنازعے پیدا ہوگئے تھے۔عرب اسلامی دنیا میں سعودی عرب سرد جنگ میں امریکا کی مدد کررہا تھا۔ اور امریکا مشرق وسطی میں نئے تنازعہ پیدا کررہا تھا۔لیکن سعودی عرب کے لئے باعث شرم بات یہ تھی کہ امریکا اور مغربی طاقتوں کےساتھ سعودی عرب کے انتہائ قریبی  تعلقات ہونے کے باوجود یہ فلسطین اسرائیل تنازعہ حل کروانے میں کچھ نہیں کر سکا تھا۔ آج عرب سرزمین پر جس قدر خون بہہ رہا ہے اس وقت بھی اتنا ہی خون بہہ رہا تھا۔
        شاہ فیصل کو اگر قتل نہیں کیا جاتا۔اور وہ زندہ ہوتے تو ان کی قیادت میں عرب اسلامی دنیا کا نقشہ آج ضرور مختلف ہوتا۔ شاہ فیصل عرب اسلامی کاز کو اپنی پالیسیوں میں اہمیت دیتے تھے۔شاہ فیصل اسلامی یکجہتی اور اتحاد میں یقین رکھتےتھے۔ 1974 میں پاکستان میں پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس اس یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ تھا۔1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں امریکا اور مغربی ملکوں کی اسرائیلی جاحاریت  کی حمایت کرنے پر شاہ فیصل نے امریکا اور مغربی ملکوں کو تیل کی فراہمی پر پابندی لگادی تھی۔ شاہ فیصل کو قتل کرنےکا یہ سبب بھی تھا کہ وہ سعودی عرب کو مختلف سمت میں لے جارہے تھے۔جو امریکا اور مغربی طاقتوں کو قبول نہیں تھا۔ شاہ فیصل کے بعد سعودی عرب بدل گیا تھا۔سعودی عرب مغربی مفادات کا تابعدار ہوگیا تھا۔عرب اسلامی مفادات کو فراموش کردیا تھا۔اور اس سعودی پالیسی کےنتائج آج عرب اسلامی دنیا میں ہر طرف نظر آرہے ہیں۔شاہ خالد، شاہ فہد،  شاہ عبداللہ اور موجودہ شاہ سلمان ان ہی پالیسیوں  پر چل رہے ہیں۔
         مفتی اعظم خطبہ حج میں یہود و نصارا مسجد اقصی کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، کی بات کررہے تھے لیکن ان کی حکومت کی پالیسیوں نے اسلامی دنیا کو تقسیم کردیا ہے۔مسلمان مسلمانوں سے لڑرہےہیں۔صلیبی جنگیں سعودی عرب کے ذریعےلڑی جارہی ہیں ۔ سعودی عرب نے مصر میں پہلی اسلامی  منتخب جمہوری حکومت کا یہود کے ساتھ مل کر تختہ آلٹ دیا ہے۔مصر میں اسلامی جمہوری حکومت سے اسرائیل کو خوف ہورہا تھا کہ اسلامسٹ اس کے گرد حلقہ تنگ کررہے تھے۔ مصر میں اخوان المسلمون غزہ میں ھماس لبنان میں حزب اللہ اور یہ ایک نیا اتحاد بن رہاتھا۔ایران اور ترکی بھی اس اتحاد میں شامل ہورہے تھے۔
          مصر کی جمہوری حکومت کا تختہ آلٹنے والے فوجی ڈکٹیڑ کو سعودی شاہ عبداللہ مرحوم نے دس بلین ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔فوجی حکومت نے اخوان المسلمون کے نو سو کارکنوں کو جن میں وزیر اعظم محمد مرسی بھی شامل تھے موت کی سزائیں دینے کا اعلان کیا تھا۔جبکہ اخوان المسلمون کے سینکڑوں کارکنوں کو جیلوں میں اذیتیں دے کر ہلاک کردیا گیا تھا۔بش اور اوبامہ انتظامیہ کے جو اعلی حکام ایک عرصہ سے عرب دنیا میں آزادی اور جمہوریت کو فروغ دینے کی باتیں کرتے تھےوہ صرف لیکچر دینا ثابت ہوئے تھے۔امریکا نے اپنی اخلاقی اور جمہوری قدروں کو فراموش کردیا تھا اور سعودی مصری آمریت کے آگے ہتھیار ڈال دئے تھے۔
          جبکہ سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں  نے عراق میں ایک سنی حکومت کا خاتمہ کرنے میں نصارا سے تعاون کیا تھا۔ لیبیا میں معمر قدافی کی حکومت ختم کرنے میں بھی سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں نے نصارا کے فیصلے کی حمایت کی تھی۔مفتی اعظم خطبہ حج میں کہتے ہیں کہ اسلام کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔لیکن اسلام کے خلاف سازشوں میں شریک کون ہے؟ اتحادی کون ہے؟مفتی اعظم نے اپنے خطبہ حج میں یہ بھی کہا ہے کہ اسلامی ریاستوں پر حملے کرنے والوں کا اسلام سے کوئ تعلق نہیں ہے۔ حملہ کرنے والے اسلام سے خارج ہیں۔لیکن یمن ایک اسلامی مملکت ہے ۔قدیم تاریخی ملک ہے ۔اسلامی تاریخ اس کی دولت ہے۔لوگ انتہائ غریب ہیں۔ اس اسلامی ملک پر کس نے حملہ کیا ہے؟ کون یمن کی قدیم اسلامی تاریخ کو نیست و نابود کررہاہے؟
         نہ صرف یہ بلکہ شام میں بھی سعودی عرب ایک پروکسی جنگ کررہا ہے۔شام میں حکومت تبدیل کرنے کا حق سعودی عرب کو کس نے دیا ہے؟پھر بحرین میں جو حکومت تبدیل کرنا چاہتے ہیں انھیں یہ حق کیوں نہیں ہے؟سعودی عرب نے بحرین میں حکومت کے دفاع میں اپنی فوجیں بھیجی تھیں۔لیکن شام میں سعودی عرب نے حکومت تبدیل کرنے کے لئے دہشت گردوں کو بھیجا ہے ۔امریکا کو کھربوں ڈالر انھیں تربیت اور ہتھیار دینے کے لئے دئیےہیں۔ شام میں ایک شخص کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے ڈھائ لاکھ شامی مسلمان مارے گئے ہیں۔شام کو مسلمانوں نے پتھر کے دور میں پہنچا دیا ہے۔عراق کو امریکا نے پتھر کے دور میں پہنچا دیا ہے۔ لیبیا کو برطانیہ، فرانس اور امریکا سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانو ں کی حمایت سے پتھر کے دور میں پہنچا دیا ہیے۔لاکھوں شامی ،لاکھوں عراقی، لاکھوں لیبین در بدر پناہ کی تلاش  میں ٹھوکر یں کھا رہے ہیں۔سعودی عرب کی شاندار قیادت میں مسلمانوں کو یہ ملا ہے۔
         پھر ایک شخص کو اقتدار کی کرسی پر بیھٹانے کے لئے سعودی عرب نے بھرپور طاقت سے یمن پر حملہ کیا ہے۔سات ماہ سے یمن پر مسلسل بمباری میں ہزاروں لوگ ہلاک ہوگئے ہیں۔ ایک اسلامی یمن کو ایک اسلامی سعودی عرب نے تباہ کردیا ہے۔اس کی معشیت تباہ کردی ہے۔اس کی قدیم اسلامی تاریخ کو نیست و نابود کردیا ہے۔ یمن کے لوگوں کا پانی خوراک بند کردیا ہے۔ لوگ بھوک اور پیاس سے دم توڑ رہے ہیں۔ مفتی اعظم صاحب کیا یہ یہود ونصارا کررہے ہیں؟ یا اسلام میں ان کے جو پروکسی ہیں  وہ یہ کر رہے ہیں۔
         سرد جنگ اسلام کی جنگ نہیں تھی۔یہ دو بڑی طاقتوں کے درمیان سیاسی نظریات کی جنگ تھی۔جس کا اسلامی نظریات سے کوئ تعلق نہیں تھا۔شاہ فیصل سرد جنگ میں اسلامک ورلڈ کو ملوث کرنے کی حمایت میں نہیں تھے۔شاہ فیصل اگر زندہ ہوتے  تو افغانستان میں جہاد بھی نہیں ہوتا۔سوویت یونین کو شکست دینے میں مذہب اسلام کا جس طرح استحصال کیا گیا تھا۔شاہ فیصل اس کی اجازت کبھی نہیں دیتے۔شاہ خالد کے دور میں اسلام کو سرد جنگ میں استعمال کیا گیا تھا۔اسلامی ملکوں میں اسلامی جماعتوں میں انتہا پسندی کے رجحانات ابھارے گئے تھے۔مغربی میڈیا سعودی عرب کی اس تحریک کو پھیلانے میں پروپگنڈہ کا کام کررہا تھا۔افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف جہاد کے لئے جہادیوں کی بھرتی شروع ہوگئ تھی۔سعودی عرب کے اس فیصلے کی حمایت میں امریکا نے یہ فتوی دیا تھاکہ افغانستان میں مسلمان حق پر ہیں۔ اور اللہ ان کے ساتھ ہے۔ یہاں اللہ سے ان کی مراد امریکا تھا۔اگر اللہ ان کے ساتھ ہوتا تو آج افغانستان اور مسلمانوں کی دنیا اس عذاب میں نہیں ہوتی۔ شاہ خالد کے بعد شاہ فہد نے بھی اس سعودی پالیسی کو جاری رکھا تھا۔
         افغانستان میں جہاد کی تیاریاں ابھی جاری تھیں کہ اس اثنا میں ایران میں اسلامی انقلاب نے تہلکہ مچا دیا تھا۔ دنیا کو ایران کا اسلامی انقلاب  دوسرے اسلامی ملکوں میں پھیلنے کی تشویش ہونے لگی تھی۔امریکا کے 52 سفارتکاروں کو ایرانی طالب علموں  نے یرغمالی بنا لیا تھا۔ امریکا کے یرغمالی سفارتکاروں کو رہا کرانے کے لئے سعودی عرب نے خلیج کے حکمرانوں کے ساتھ مل کر صدام حسین کو ایران پر حملہ کرنے کی ترغیب دی تھی ۔اسلام کو افغانستان میں سوویت یونین پر حملے کر نے کے لئے استعمال کیا جارہا تھا۔ جبکہ صدام حسین کو ایران کا اسلامی انقلاب سبوتاژ کر نے کے لئے استعمال کیا جارہا تھا۔
                   اس وقت بھی اسلامی دنیا میں بیک وقت کئ مقامات پر کئ جنگیں ہورہی تھیں۔لبنان میں خانہ جنگی ہورہی تھی ۔فلسطائین میں اسرائیلی جارحیت جاری تھی۔صابرہ اور شتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپوں کی خونی تاریخ کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی ہے۔ایران عراق دو اسلامی ملکوں کے درمیان جنگ آٹھ  سال تک لڑی گئ تھی ۔اس جنگ میں امریکا اور اسرائیل نے کھربوں کے ہتھیار فروخت کئے تھے۔ان ہتھیاروں سے لاکھوں ایرانی اور عراقی مارے گئے تھے۔ اور مفتی اعظم خطبہ حج میں یہ کہتے ہیں کہ یہود و نصارا اسلام کے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔ آ ج 35 سال بعد بھی اسلامی ملکوں کی سرزمین پر اتنی ہی جنگیں ہورہی ۔ افغانستان میں جنگ ہورہی ہے۔ عراق میں جنگ ہورہی ہے۔ شام میں جنگ ہورہی ہے۔ لیبیا میں جنگ ہورہی ہے۔ یمن میں جنگ ہورہی ہ  ۔اور یہ سعودی عرب کی 35 سالوں کی پالیسیاں ہیں۔جنہوں نے اسلام اور اسلامی ملکوں کو  کھائ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔سعودی سیاست کے گندے تالاب میں غوطہ لگانے اتر آئے ہیں تو ان پر انگلیاں بھی آٹھیں گی۔ اور ان سے سوال بھی ہوں گے۔اور ان سے یہ سوال بھی ہوگا کہ اسلام کے خلاف سازشیں کون کررہا؟