Sunday, December 31, 2017

First Year Of Trump’s Presidency

First Year Of Trump’s Presidency

Donald Trump Entered In Washington As A Non-Politician Emigrant, Both Parties Have Built A Wall Of Investigation Around The Trump Presidency

President Trump’s De-Obamanization Is Also Obama’s Legacy

مجیب خان
 
President Donald J. Trump


 

   بڑے عرصہ بعد 2017 پہلا سال ہے جس میں امریکہ کی سیاست پر صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی داخلی سیاست چھائی ہوئی تھی۔ گزشتہ دو سابق انتظامیہ میں 2001 سے 2016 تک صرف نائن الیون کی سیاست چھائی ہوئی تھی۔ جس میں پہلے طالبان اور ا سا مہ بن لادن، پھر القا عدہ اور صد ام حسین، پھر عراق میں مہلک ہتھیار اور عراق جنگ، پھر اسلامی انتہا پسندی کا چرچہ اور ISIS کا پراپگنڈہ، پھر شام میں انسانی تباہی اور عرب دنیا میں روس کی آمد امریکہ کی داخلی سیاست پر چھاۓ ہوۓ تھے۔ لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کی 2016 کے صدارتی انتخاب میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد امریکی عوام کو نائن االیون کی اس سیاست سے بھی نجات ملی ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کے لئے صدارت کا پہلا سال بہت مشکل رہا ہے۔ صدارتی انتخاب کے نتائج سب نے قبول کر لئے تھے۔ لیکن صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت کے انکشاف سے ایسا تاثر پیدا کیا جا رہا تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ روس کی مداخلت کے نتیجہ میں کامیاب ہوۓ تھے۔ اور اس میں میڈیا کے انکشاف کا ایک بڑا رول تھا۔ تاہم اب تک کی تحقیقات میں روس کی مداخلت کے واضح ثبوت نہیں ملے ہیں۔ کانگرس اور سینٹ میں دونوں پارٹیوں کے اراکین پر مشتمل کمیٹیاں اس کی تحقیقات کر رہی ہیں۔ جسٹس ڈیپارٹمنٹ کا ایک خصوصی کمیشن بھی اس کی تحقیقات کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کا اصرار ہے کہ یہ تحقیقات اب جلد ختم ہونا چاہیے۔
  ری پبلیکن اور ڈیموکریٹ دونوں پارٹیوں کے لئے واشنگٹن میں ان کی سیاسی دنیا میں ڈونالڈ ٹرمپ ایک غیر سیاسی شخصیت تھے۔ اور صدر ٹرمپ جو باتیں کر رہے تھے وہ ان کے سروں سے گزر جاتی تھیں۔ واشنگٹن کے سیاسی ماحول میں صدر ٹرمپ جیسے ایک غیر سیاسی امیگرینٹ تھے۔ اور سیاست کرنے کے لئے دونوں پارٹیوں سے ویزا مانگ رہے تھے۔ اور دونوں پارٹیاں ڈونالڈ ٹرمپ کو پہلے واشنگٹن کی سیاست سیکھانا چاہتی تھیں۔ صدر ٹرمپ دن میں کئی مرتبہ Tweet کرتے تھے۔ واشنگٹن میں سیاست کرنے والوں کو یہ پسند نہیں تھا۔ اس پر خاصا اعتراض ہو رہا تھا کہ صدر ٹرمپ کے Tweet کرنے کی عادت ایک مسئلہ بن گیا تھا۔ حالانکہ Tweet عوام کو رابطہ میں رکھنے کا ایک نیا میڈیا تھا۔ اور عوام بھی اہم ایشو ز پر اپنے لیڈر کے خیالات سے آگاہ رہتے تھے۔ لیکن واشنگٹن میں Transparent سیاست کی روایت نہیں ہے۔ یہاں اہم ایشو ز پر بند کمروں میں تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ اور ضرورت کے مطابق عوام کو اس سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے Tweet کرنے کی اپنی عادت ترک نہیں کی تھی۔ اور اب سینیٹر اور کانگرس مین بھی Tweet کرنے لگے ہیں۔
  اس سال 20 جنوری کو صدارتی حلف کی تقریب کے بعد صدر ٹرمپ جب وائٹ ہاؤس میں آۓ تھے تو سب سے پہلے سابق صدر بارک اوبامہ کے کئی ایگزیکٹو آرڈر کو صدر ٹرمپ نے اپنے ایگزیکٹو آرڈر سے ختم کر دیا تھا۔ امریکہ کے شاید کسی صدر نے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے بعد پہلے ہی دن چند گھنٹوں قبل سابق ہونے والے صدر کے ایگزیکٹو آرڈر کبھی اس طرح ختم نہیں کیے تھے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے سابق اوبامہ انتظامیہ کے فیصلوں اور پالیسیوں کو سب سے پہلے      -Obamanization De  کرنے سے اپنی انتظامیہ کے فیصلوں کی ابتدا کی تھی۔ اور چھ ماہ میں صدر ٹرمپ نے تقریباً  صدر اوبامہ کے پیشتر فیصلوں اور پالیسیوں کو بدل دیا تھا۔ صدر اوبامہ نے کیوبا کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے تھے۔ اور کیوبا پر سے اقتصادی بندشیں ختم کر دی تھیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے ایگزیکٹو آرڈر سے کیوبا پر دوبارہ اقتصادی بندشیں لگا دیں۔ اور کیوبا کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی ختم کر دئیے۔ اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ کیوبا ایک کمیونسٹ ملک تھا۔ اور کیوبا میں لوگوں کو سیاسی آزادی نہیں تھی۔ جبکہ ایسٹ ایشیا میں ویت نام، کمبوڈیا اور لاؤس کے ساتھ امریکہ کے سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔ اور یہ کمیونسٹ ملک ہیں۔ ان ملکوں میں سیاسی آزادیوں کی صورت حال کیوبا سے مختلف نہیں ہے۔ ہر امریکی انتظامیہ اپنی سیاست میں امریکہ کے مفادات کو دیکھتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے کمیونسٹ ویت نام کے دورے میں ویت نام کی شاندار اقتصادی ترقی کو زبردست سراہا یا تھا۔ ویت نام کے ساتھ امریکہ کے preferential تجارتی تعلقات کے بارے میں صدر ٹرمپ نے کچھ نہیں کہا تھا۔ ویت نام میں سیاسی آزادیوں کی کوئی بات نہیں کی تھی۔
  جنوبی کوریا کے ساتھ امریکہ کا فری ٹریڈ معاہدہ  صدر ٹرمپ نے برقرار رکھا تھا ۔ تاہم اس معاہدہ سے جنوبی کوریا کو شمالی کوریا کے مسئلہ پر امریکہ کی پالیسی کے ساتھ رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ جنوبی کوریا کی نئی لبرل حکومت کے صدر Moon Jae-in نے اپنی انتخابی مہم میں شمالی کوریا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے اور اس کے ساتھ پرامن تعلقات کو فروغ دینے کا اعلان کیا تھا۔ برسراقتدار آنے کے بعد صدر مون نے شمالی کوریا کا دورہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن شمالی کوریا کی حکومت کے میزائلوں کے تجربے کرنے کی وجہ سے امریکہ اور شمالی کوریا میں کشیدگی بہت بڑھ گئی تھی۔ صدر ٹرمپ نے جنوبی کوریا کے صدر مون کے  شمالی کوریا جانے پر کہا کہ "امریکہ جنوبی کوریا کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدے کا جائزہ لے گا" یہ سن کر صدر Moon Jae-in نے شمالی کوریا جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور صدر ٹرمپ کے ساتھ کھڑے ہو گیے تھے۔ اور اب اس خبر پر کہ چین شمالی کوری کو تیل فراہم کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ چین کے ساتھ ٹریڈ ایشو ز پر بہت نرم تھے۔ اور وہ اس سے خوش نہیں ہیں کہ چین شمالی  کوریا کو تیل فراہم کر رہا ہے۔ شمالی کوریا کے مسئلہ پر صدر ٹرمپ کی پالیسی ابھی واضح نہیں ہے کہ ان کے پاس اس کا کیا حل ہے۔ آیا وہ اس مسئلہ کا پرامن حل چاہتے ہیں یا اس مسئلہ کا حل بھی جنگ ہو گا؟
     صدر ٹرمپHawkish Businessman  ہیں لیکن Belligerent Politician نہیں ہیں۔ اس لئے تمام تر زور جنگوں کی آگ بجھانے پر ہے۔ جبکہ بالخصوص عرب اسلامی ملکوں اور بالعموم افریقہ اور لاطین امریکہ کے ملکوں میں امریکہ کی غیر ضروری مداخلت میں کمی آئی ہے۔ گزشتہ سالوں کے مقابلے میں اس سال دہشت گردی کے واقعات کم ہوۓ ہیں۔ افغانستان مں اس سال صرف 17 امریکی فوجی مارے گیے ہیں۔ جو گزشتہ 16 سالوں میں بہت کم تعداد ہے۔ افغانستان کے حالات اتنے تسلی بخش نہیں ہیں۔ لیکن گزشتہ سالوں کے مقابلے میں قدرے بہتر ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ بش انتظامیہ افغانستان میں منشیات کی پیداوار کو اگر resurge ہونے کے موقعہ فراہم نہیں کرتی اور اوبامہ انتظامیہ صرف پاکستان سے do more کرنے کے بجاۓ اپنے فوجی کمانڈروں سے افغان وار لارڈ اور طالبان کی منشیات کی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے do more کرتی تو ٹرمپ انتظامیہ کو آج پاکستان کو دھمکیاں دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور افغان مسئلہ کا حل بھی آسان ہو جاتا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اب طالبان، ISIS ، اور دوسرے دہشت گروپوں کے معاشی وسائل پر چھری رکھی ہے۔ دہشت گردی دم توڑتی نظر آ رہی ہے۔ تاہم ISIS کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ بھی transparent نہیں ہے۔ اس نے ابھی تک یہ نہیں بتایا ہے کہ ISIS کو کس ملک کی سرزمین پر کس نے منظم کیا تھا؟ اور اس کو فنڈ ز کون فراہم کر رہا تھا؟ ISIS کا آئین کس نے لکھا تھا؟ اور اسے دنیا بھر میں کن ملکوں کی خارجہ پالیسی کے عزائم میں پھیلایا جا رہا ہے؟
   صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے سال میں 70 فیصد وقت امریکہ کے اندرونی امور کو سدھارنے پر دیا ہے۔ اور صرف 30 فیصد وقت خارجہ امور پر نظر رکھنے کے لئے مخصوص کیا ہے۔ جبکہ سابقہ انتظامیہ میں بیرونی دنیا کو سیدھے راستہ پر رکھنے اور انہیں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر لیکچر دینے پر 70 فیصد وقت دیا جاتا تھا۔ اور صرف 30 فیصد وقت امریکہ کے اندرونی امور پر دیا جاتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب دنیا کا infrastructure اور امریکہ میں infrastructure ہر طرف تباہ حال ہے۔ شاید یہ دیکھ کر صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ اب Sovereign ملکوں کے امور میں مداخلت نہیں کرے گا۔ اس لئے 70 فیصد وقت کی جو بچت ہوئی ہے اسے صدر ٹرمپ امریکہ کے اندرونی امور میں دے رہے ہیں۔ امریکی عوام بھی اس تبدیلی سے خوش ہیں۔ لوگوں کی قوت خرید میں اعتماد آیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ اس سال ریکارڈ بریک رہا ہے۔ بیروزگاری میں کمی ہوئی ہے۔ بعض اشیا کی قیمتوں میں کمی آ رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کے ٹیکس ریفارم سے امریکی عوام کو با ظاہر ٹیکس میں چھوٹ ملی ہے۔ کمپنیوں اور کارپوریشن کے ٹیکسوں میں کمی کر کے 21 فیصد کر دیا ہے۔ تاکہ کمپنیاں اور کارپوریشن اپنا سرمایہ واپس امریکہ میں لائیں۔ اور امریکہ میں انویسٹ کریں۔ لوگوں کو بہتر اجرتیں دیں۔ امریکہ کو دنیا کی اول درجہ کی معاشی طاقت بنایا جاۓ۔ لیکن اہم سوال جس کا صدر ٹرمپ کے ٹیکس ریفارم میں کوئی ذکر نہیں ہے کہ امریکہ پر 22 ٹیریلین ڈالر کا جو قرضہ ہے اسے کیسے ادا کیا جاۓ گا؟ اور اس میں جو مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسے کیسے روکا جاۓ گا۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق صدر ٹرمپ کے ٹیکس ریفارم سے آنے والے سالوں میں قرضہ میں 1.5 ٹیریلین ڈالر کا اضافہ ہو گا۔
   2018 صدر ٹرمپ کے لئے کتنا آسان اور کتنا مشکل ہو گا؟ یہ آئندہ چند ماہ میں واضح ہو گا۔ 2018 کانگرس اور سینٹ کے مڈ ٹرم انتخاب کا سال ہے۔ ڈیموکریٹ اور ری پبلیکن دونوں کی کانگرس اور سینٹ کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہو گی۔ 2016 کے صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت اور ٹرمپ انتخابی ٹیم کے ساتھ روس کے Collusion کی تحقیقات کی رپورٹ بھی آئی گی۔ یہ رپورٹ صدر ٹرمپ کے لئے سو نامی ہو گی۔ یا وہ اس بحران سے نکل جائیں گے۔ جبکہ شمالی کوریا اور مڈل ایسٹ بڑے مسئلہ رہیں گے۔ صدر ٹرمپ کو ان challenges کا سامنا رہے گا۔                                                                                           

Wednesday, December 27, 2017

Ambassador Nikki Haley’s “High Heel” Threat To The World

Ambassador Nikki Haley’s “High Heel” Threat To The World       

In Israel, America is standing, supporting, and defending those that murdered a peace-making Prime Minister, Yitzhak Rabin; and then they Killed The peace. Since then, America has destroyed the peace in Iraq, destroyed peace in Libya, destroyed peace in Syria, and has destroyed peace in Yemen. President Donald J. Trump has presented Jerusalem on a silver plate as a reward to Israel.

مجیب خان
The Security Council meeting to declare the U.S's Jerusalem decision unlawful, 14 to one

U.S. Ambassador to the United Nations Nikki Haley vetoed an Egyptian-drafted resolution that called on countries to not establish diplomatic mission in Jerusalem
    اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر Nikki Haley نے سلامتی کونسل میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے پر
 امریکہ کے فیصلے کے خلاف قرارداد پر ووٹنگ سے قبل اپنے خطاب میں کہا کہ "امریکہ اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کو سب سے زیادہ فنڈ ز دیتا ہے۔ اور اس کے عوض امریکہ اپنے فیصلہ کی حمایت میں توقع کرتا ہے۔ اس پر پہلے ہی بحث ہو چکی ہے۔ یہ فیصلہ 1995 کے امریکی قانون کے مطابق ہے۔ اس فیصلہ میں کوئی آخری معاہدہ تجویز نہیں کیا گیا ہے۔ اس فیصلہ سے امن کی کوششوں کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔" امریکی سفیر نے کہا" امریکہ اس دن کو یاد ر کھے گا کہ جب اقوام متحدہ میں ہماری Sovereignty میں عملی اقدام کرنے پر اسے تنہا کر دیا گیا تھا۔ یروشلم میں امریکہ کا سفارت خانہ بنے گا۔ امریکی عوام بھی ہم سے یہ چاہتے ہیں۔" امریکی سفیر Nikki Haley نے سلامتی کونسل کے 14 اراکین اور جنرل اسمبلی کے 193 اراکین کے سامنے اپنی انتظامیہ کا فیصلہ تسلیم کروانے کے لئے جو دلیل دی ہے۔ وہ بالکل نا معقول دلیل ہے۔ اس کا اصولوں اور قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں ایسی کوئی شق نہیں ہے کہ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جو ملک اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کو سب سے زیادہ فنڈ ز دے گا۔ اقوام متحدہ کے 193 اراکین اس ملک کے فیصلہ ماننے کے پابند ہوں گے۔ امریکہ کے آئین میں بھی ایسی کوئی آرٹیکل نہیں کہ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ امریکہ کے ارب پتی اور کھرب پتی جو سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔ امریکہ کے 300 ملین لوگ ان کے فیصلہ ماننے کے پابند ہیں۔ اہم عالمی تنازعوں اور ایشو ز پر سلامتی کونسل کی 80 فیصد قرار دادیں امریکہ نے اپنے خارجہ پالیسی مفاد میں استعمال کیا ہے یا انہیں ویٹو کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ نہیں لکھا ہے کہ جو ملک اسے سب سے زیادہ فنڈ ز دے گا اس کی پارلیمنٹ یا کانگرس عالمی تنازعوں پر جو قانون منظور کرے گی۔ اقوام متحدہ کے رکن ملک اسے قبول کرنے کے پابند ہوں گے۔ امریکی سفیر Nikki Haley نے شاید اقوام متحدہ کا چارٹر نہیں پڑھا ہے۔ جس میں تمام ملکوں کے اقتدار اعلی اور آزادی کو مساوی اہمیت دی گئی ہے۔ بڑے اور چھوٹے، طاقتور اور کمزور، امیر اور غریب ملکوں کی سلامتی کی ضمانت دی گئی ہے۔ امریکی سفیر Nikki Haley نے کہا ہے " امریکہ کی کانگرس نے 1995 میں امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا قانون منظور کیا تھا اور اب اس قانون پر عملدرامد ہو رہا ہے۔" لیکن اقوام متحدہ کے رکن ممالک امریکی کانگرس کے منظور کردہ قانون کو نافذ کرانے کے پابند نہیں ہیں۔ کانگرس نے یہ قانون اسرائیلی لابی کے زبردست influence میں منظور کیا تھا۔ اور پھر صدر کلنٹن سے اس پر دستخط کرنے کا کہا گیا تھا۔ دنیا نے سو ویت ایمپائر کو اس لئے ختم نہیں کیا تھا کہ اس کی جگہ امریکی ایمپائر قائم ہو جاۓ گی اور پھر دنیا کو امریکی کانگرس کے قانون پر عملدرامد کرنا ہو گا۔
    1998 میں کانگرس نے عراق میں حکومت تبدیل کرنے کا قانون منظور کیا تھا۔ یہ Law of Sovereign Nations کی خلاف ورزی کرتا تھا۔ صدر کلنٹن نے کانگرس کے اس قانون پر بھی دستخط کیے تھے۔ حالانکہ کسی بھی قانون کے تحت ایک خود مختار ملک میں حکومت تبدیل  کرنے کا اختیار غیر ملکی طاقت کو نہیں ہے۔ یہ صرف اس ملک کے لوگوں کو حاصل ہے۔ لیکن امریکہ نے اپنے قانون کے تحت عراق میں فوجی مداخلت کی تھی اور عالمی قانون کی خلاف ورزی کر کے عراق میں حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔ اب اگر صدر پو تن امریکی کانگرس کے اس قانون کے تحت جس پر صدر کلنٹن نے دستخط کیے تھے، اور جس پر صدر بش نے عملدرامد کیا تھا اور عراق میں حکومت کو اقتدار سے ہٹایا تھا، یو کر ین میں حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے استعمال کریں تو امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کا رد عمل کیا ہو گا؟ نائن الیون کے بعد عالمی قوانین جیسے معطل ہو گیے تھے۔ اقوام متحدہ کو سائڈ لائن پر کر دیا گیا تھا۔ عالمی قیادتیں امریکہ کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئی تھیں۔ 17 سال سے دنیا کا نظام صدر امریکہ کے ایگزیکٹو آ ڈر اور کانگرس جو قانون منظور کرتی تھی اس پر چل رہا تھا۔ بے شمار ملکوں پر اقتصادی بندشیں لگ رہی تھیں۔ اسلامی ملکوں کو بلیک لسٹ کیا جا رہا تھا۔ اسلامی ملکوں میں ناپسندیدہ حکومتوں کو تبدیل کرنے کی فہرستیں بن رہی تھیں۔ یعنی Law of Bully نیا ورلڈ آ ڈر تھا۔ 17 سال میں امریکہ کی دو انتظامیہ نے دنیا میں امن کو فروغ نہیں دیا تھا۔ بلکہ امن کو تباہ کرنے کی جنگوں کو فروغ دیا تھا۔ صدر بش نے عراق میں امن کو تباہ کیا تھا۔ طالبان کے خلاف جنگ کی حکمت عملی ایسی تھی کہ اس خطہ میں امن کبھی نہیں ہو گا۔ پھر امریکہ کے امن کا نوبل انعام یافتہ صدر اوبامہ نے بھی جن پالیسیوں کو فروغ دیا تھا وہ امن کی دشمن تھیں۔ صدر اوبامہ نے لیبیا میں امن کو تباہ کیا تھا۔ شام میں امن کو تباہ کرنے کے ساتھ اس ملک کو ایسا تباہ کیا ہے کہ کئی نسلیں اس ملک کی تعمیر کرتی رہیں گی۔ یمن میں بھی امن کو تباہ کر دیا ہے۔ صدر اوبامہ سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں کو half glass امن میں چھوڑ کر گیے ہیں۔
    17 سال سے اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ تنازعہ کے حل کے لئے کوئی مذاکرات نہیں کیے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ  اسرائیل کو امن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر Nikki Haley نے بھی اسرائیلی فوجی قبضہ میں  فلسطینیوں کے حالت زار پر کبھی کوئی بات نہیں کی ہے۔ تاہم اقوام متحدہ میں اسرائیل Bashing پر دنیا کو لیکچر دئیے ہیں۔ لیکن اسرائیل Bashing کا سبب نہیں بتایا تھا۔ دنیا کی تاریخ میں فلسطینیوں کو 70 سال سے غلاموں کی طرح رکھا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس تاریخ بنانے کا ایوارڈ اسرائیل کو چاندی کی طشتری میں یروشلم دیا ہے کہ یہ اب اسرائیل کا دارالحکومت ہو گا۔ یہ ایوارڈ دینے کے ساتھ صدر ٹرمپ نے سلامتی کونسل کی ان تمام قراردادوں کو Null and Void کر دیا ہے۔ جو 1967 کی جنگ میں عربوں کے علاقوں پر اسرائیل کے قبضہ کے نتیجے میں سلامتی کونسل نے منظور کی تھیں جن میں اسرائیل سے عربوں کے علاقے واپس دینے کا کہا گیا تھا۔ اس میں ایسٹ یروشلم بھی شامل تھا۔ سلامتی کونسل میں ان قراردادوں کی فائلیں 50سال گزرنے کے باوجود ابھی تک کھلی ہوئی ہیں۔ کیونکہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی فوجی کاروائیاں جاری ہیں۔ اور فلسطینیوں کے علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ کرنے کا سلسلہ بھی 50 سال سے جاری ہے۔ اور 1967 سے ہر سال اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں عرب اسلامی ملک اسرائیل سے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرامد کرنے اور ان کے  علاقے انہیں واپس کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جسے امریکہ کی سفیر اسرائیل Bashing کہتی ہیں۔      

Thursday, December 21, 2017

Israel And America Are Taking Advantage From Impotent Arab Leaders


Israel And America Are Taking Advantage From Impotent Arab Leaders

Most American Middle East Envoys Were Jewish, Pro-Israel And Zionist. They Had wasted Palestinian Time. They Had Given More Time To Israel To Expand Deep In The Palestinian Land   

مجیب خان
President Mahmoud Abbas

Israeli riot and undercover police arrest an Arab-Israeli protester in Umm Al-Fahm 

Israeli Forces arresting a Palestinian boy


    ٹرمپ انتظامیہ کا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلہ پر عربوں کے انتہائی پھسپھسا رد عمل پر ترکی نے شدید تنقید کی ہے کہ بعض عرب ممالک واشنگٹن کو ناراض کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ ترکی نے یہ تنقید استنبول میں اسلامی ملکوں کے سربراہوں کی ایک ہنگامی کانفرنس کے موقعہ پر کی ہے۔ جو یروشلم کے مسئلہ پر اسلامی ملکوں کا ایک مشترکہ موقف واضح کرنے کے لئے بلائی گئی تھی۔ ترکی اسلامی ملکوں کے سربراہوں کی کانفرنس کا صدر ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ Mevlut Cavusoglu نے کہا کہ "بعض عرب ملکوں کا رد عمل بہت کمزور ہے۔ یہ نظر آتا ہے کہ بعض ممالک امریکہ سے خوفزدہ ہیں۔" استنبول میں اسلامی سربراہوں کی ہنگامی کانفرنس میں مصر اور متحدہ عرب امارات نے صرف وزیر خارجہ بھیجے تھے۔ سعودی عرب یہ فیصلہ نہیں کر سکا تھا کہ اس کانفرنس میں کیا کہنے کے لئے شرکت کی جاۓ؟ ترکی کی حکومت کے مطابق دوسرے اسلامی ملکوں نے بھی یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ کسے بھیجیں گے۔ جن رہنماؤں نے کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ ان میں فلسطینی صدر محمود عباس، اردن کے شاہ عبداللہ، لبنان کے صدر Michel Aoun ، ایران کے صدر حسن روحانی، کویت اور قطر کے امیر شامل تھے۔ ترکی کے صدر طیب ارد گان نے کانفرنس سے اپنے خطاب میں اسلامی ملکوں سے مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا کہا۔ صدر ارد گان نے کہا "تمام اسلامی ممالک فوری طور پر فلسطین کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کریں۔" ایران کے صدر حسن روحانی نے اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی تحریک کی حمایت کرنے کا کہا۔ فلسطین کے صدر محمود عباس نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ صدر محمود عباس نے کہا " یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلہ سے امریکہ کی غیر جانبداری ختم ہو گئی ہے۔ اس تنازعہ کو حل کرنے میں امریکہ اب مخلص نہیں ہے۔ اور فلسطینی امریکہ کے ساتھ اب کوئی مذاکرات نہیں کریں گے۔ صدر محمود عباس نے کہا "اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں فلسطینی امریکہ کا رول بھی قبول نہیں کریں گے۔ یروشلم ہمیشہ فلسطین کا دارالحکومت ہے اور رہے گا۔ صدر محمود عباس نے کہا امریکہ اسے ایسے دے رہا تھا کہ جیسے یہ امریکہ کا شہر تھا۔ امریکہ کے اس فیصلہ سے تمام سرخ لائنیں بھی عبور ہو گئی ہیں۔" صدر محمود عباس کا Frustration اور فلسطینیوں میں Anger  امریکہ اور اسرائیل کی کبھی سمجھ میں نہیں آیا ہے اور وہ انہیں صرف دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ اور ان کے نزدیک یہ تنازعہ کا سب سے آسان حل ہے۔ لیکن دنیا میں جنہیں انسانیت سے ہمدردی ہے۔ اور جو انصاف، انسانی حقوق اور قانون میں واقعی یقین رکھتے ہیں۔ وہ صدر محمود عباس کے Frustration اور فلسطینیوں کے Anger کو سمجھتے ہیں۔
    امریکہ برطانیہ فرانس اور اسرائیل نے فلسطینیوں کو اتنے زیادہ Bullshit دئیے ہیں کہ اب ان کے پاس فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات میں Bullshit دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ 90 کی دہائی میں امریکہ برطانیہ فرانس فلسطینیوں کو یہ دلاسے دیتے تھے کہ صبر کرو “at the end of the tunnel there is a light” اس سرنگ کے آخر میں روشنی کے انتظار میں ہزاروں فلسطینیوں کی زندگیاں اسرائیل نے  ہمیشہ کے لئے تاریک کر دی تھیں۔ عرب دنیا کے دریاؤں کا پانی سرخ ہونے کے بعد اب امریکہ کا رول لوگوں کی سمجھ میں آ رہا ہے۔ صدر محمود عباس کا اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات میں امریکہ کا رول قبول نہ کرنے کا فیصلہ بہت معقول ہے۔ صدر عباس کو یہ فیصلہ بہت پہلے کرنا چاہیے تھا۔ ان کے سامنے چیرمین یا سر عرفات کے ساتھ جو سلوک ہوا تھا اور پھر ان کا جو حشر کیا گیا تھا وہ بھی تھا۔ کسی بھی انتظامیہ کو فلسطینیوں سے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ 70 سال سے فلسطینی جن حالات میں ہیں وہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوجی بربریت اور غیر انسانی سلوک کی مذمت میں ہر قرارداد کو امریکہ نے سلامتی کونسل میں ویٹو کیا ہے۔ یہاں امریکہ کی اخلاقی قدروں میں انصاف اور نا انصافیوں  میں فرق نظر نہیں آتا تھا۔ اگر اس میں ذرا بھی فرق ہوتا تو فلسطینیوں کے ساتھ ضرور انصاف ہوتا۔
    نہ صرف یہ بلکہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل کے لئے امریکہ نے جتنے بھی خصوصی سفیر نامزد کیے تھے ان میں زیادہ تر Jewish تھے۔ اسرائیل نواز تھے۔ اور Zionist تھے۔ یہ فلسطینیوں کا صرف وقت برباد کرتے تھے اور اسرائیل کو انہوں نے فلسطینیوں کے علاقوں میں پھیلنے کا وقت دیا تھا۔ فلسطینی اسرائیل کے ساتھ جو امن معاہدے کرتے تھے۔ عالمی میڈ یا میں ان کی سرخیاں لگتی تھیں۔ اسرائیلی رہنما فلسطینیوں کو گلے لگاتے تھے۔ اس کی تصویریں صفحہ اول پر شائع ہوتی تھیں۔ فلسطینی اپنے مقبوضہ گھروں میں سرنگ کے آخر میں روشنی دیکھنے کا انتظار کرتے تھے۔ اسرائیلی حکومت کو کچھ ماہ بعد فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدوں سے نفرت ہونے لگتی تھی اور وہ اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے تھے۔ فلسطینی یہ دیکھ کر گھروں سے نکل آتے تھے اور اسرائیلیوں پر پتھر پھینکنے لگتے تھے۔ یہ دیکھ کر امریکہ اسرائیل کی حمایت میں فلسطینی رہنماؤں سے اسرائیل کے خلاف دہشت گردوں کو روکنے کا مطالبہ کرنے لگتا تھا۔ امریکہ جو انسان کو چاند پر بھیج سکتا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے  کہ فلسطینیوں کو جب امن ملے گا تو اسرائیل بھی امن سے رہے گا۔ Peace is Reciprocal۔ سرد جنگ میں مغربی یورپ نے مشرقی یورپ میں امن اور استحکام رکھا  تھا۔ اس کے جواب میں مشرقی یورپ نے بھی مغربی یورپ میں امن اور استحکام رکھنے میں تعاون کیا تھا۔  
    اسرائیلی مذہبی نظریاتی قدامت پسند فلسطینیوں کے ساتھ  امن نہیں چاہتے ہیں۔ اور موجودہ  Status quo انہیں Suit کرتا ہے۔ اور وہ اسے اسرائیل کے مفاد میں سمجھتے ہیں۔ یہ نظریاتی قدامت پسند اسرائیلی 15 سال سے اسرائیل کی سیاست پر قابض ہیں۔ اور فلسطینیوں پر ان کا فوجی قبضہ ہے۔ انہوں نے اپنے ایک وزیر اعظم اسحاق رابین کو فلسطینیوں کے ساتھ امن سمجھوتہ کرنے کی سزا یہ دی تھی کہ انہیں قتل کر دیا تھا۔ یہ اسحاق رابین کا قتل نہیں تھا یہ امن کا قتل تھا۔ اور امریکہ امن کے قاتلوں کا اتحادی تھا۔ صدر جارج بش نے وزیر اعظم جنرل ایریل شرون کو Man of Peace کہا تھا۔ جنرل شرون نے اتنی ہی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو ہلاک کیا تھا کہ جتنا صد ام حسین کو اپنے مخالفین کو ہلاک کرنے کا الزام دیا جاتا تھا۔ 17 سال سے فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل میں کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ لیکن عرب ملکوں کے آپس کے تنازعوں کو حل کرنے میں امریکہ نے بڑی تیزی کے ساتھ فوجی پیش رفت کی ہے۔ فلسطینیوں کو امن دینے کے بجاۓ عرب عوام سے ان کا امن چھین کر اسرائیل کو دے دیا۔
    فلسطین اسرائیل تنازعہ کو 70 سال ہو گیے ہیں۔ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے عربوں کے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ اس قبضہ کے 50 سال ہو گیے ہیں۔ عرب حکمران فلسطین کا تنازعہ حل کر سکے ہیں اور نہ ہی اسرائیل سے اپنے علاقوں کو واپس لے سکے ہیں۔ اور یہ ان کے نااہل اور Impotent ہونے کے ثبوت ہیں۔ افغانستان میں سو ویت یونین کی فوجوں کے خلاف جنگ اسلامی دنیا کے لئے صرف تباہی لائی ہے۔ سرد جنگ سے اسلامی دنیا کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ وسط ایشیا کی اسلامی تہذیب جو سو ویت کمیونزم کے Orbit میں تھے۔ ان عربوں کی اسلامی تہذیب سے بہت بہتر تھی جو امریکہ کے Orbit  میں تھے۔ افغانستان کی اب کوئی اسلامی تہذیب نہیں ہے۔ جن عرب حکم رانوں نے اپنے نوجوانوں کو افغانستان میں آزادی کی جنگ لڑنے بھیجا تھا۔ 17 سال سے وہ ان نوجوانوں کا دہشت گردی کے نام پر خاتمہ کرنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
    صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد مڈل ایسٹ کیا جنت بن گیا ہے؟ سعودی اور خلیج کے حکم رانوں کو کیا یہ عقل نہیں تھی کہ وہ کس کے ایجنڈہ پر کام کر رہے تھے؟ اور اب ایران سے کشیدگی پیدا کرنے میں سعودی عرب کا کیا مفاد ہے؟ جو خطہ کو شیعہ سنی میں تقسیم کر دیا ہے۔ یہ اس خطہ کے بارے میں Zionists کے منصوبوں پر سے توجہ ہٹانے کی سیاست ہے۔ سعودی عرب، بحرین، اومان، کویت، متحدہ عرب امارات میں شیعاؤں کی ایک بڑی آبادی ہے۔ جو عرب شیعہ ہیں۔ یہ شیعہ سنی کی لڑائی ان کے ملکوں کو Rwanda بنا دے گی۔ مشرق وسطی میں امریکہ کے Jingoism کے در پردہ اسرائیل کے مقاصد ہوتے ہیں۔ اور عرب حکمران 70 سال سے صرف اس Jingoism  کے Allies ہیں۔ جس دن ان عرب حکم رانوں کا اقتدار ختم ہو جاۓ گا۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ بھی اسی دن حل ہو جاۓ گا۔ اس لئے اسرائیل بھی ان عرب حکم رانوں کو اقتدار میں رکھنے لئے اب فرنٹ لائن میں آگیا ہے۔ اور یہ عرب حکمران اسرائیل کے لئے ایران کے خلاف فرنٹ لائن پر آ گیے ہیں۔ اور سعودی عرب کو اس فرنٹ کا لیڈر بنا دیا  ہے۔ ایسی سیاست میں فلسطین اسرائیل تنازعہ کبھی حل ہو گا اور یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہو گا؟  سعودی عرب کو اپنے مرحوم شاہ عبداللہ کا امن پلان جو انہوں نے مارچ 2002 میں بیروت عرب لیگ کانفرنس میں دیا تھا۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں اسے بنیاد بنانا چاہیے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر جو مرحوم شاہ عبداللہ کے مشیر تھے۔ وہ بھی شاہ عبداللہ کے امن پلان پر عملدرامد کے لئے کوششیں کرنے کے بجاۓ ایران کے خلاف مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ اور وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ اس مہم سے خطہ میں سعودی عرب کا اثر و رسوخ بڑھے گا۔
    صدر ٹرمپ نے امریکہ کی سیکورٹی Strategy پر تقریر میں یہ درست کہا ہے کہ “We recognize that weakness is the surest path to conflict.” اور مڈل ایسٹ weak حکم رانوں کی وجہ سے ہر طرف سے conflicts میں گھیرا ہوا ہے۔                                                                                                                        
Protest in southern Beirut, Lebanon 


Yemen, mass demonstration to reject US decision, solidarity with Jerusalem 

Protest in the Jordanian capital Aman
                                 

Thursday, December 14, 2017

Palestine-Israel Conflict: Is America’s Two State Solution Policy Pushing Israel Toward A One State Solution?

Palestine-Israel Conflict: Is America’s Two State Solution Policy Pushing Israel Toward A One State Solution?  

مجیب خان
Al-Aqsa Mosque was the first Qibla of Muslims

Anti-Zionist Orthodox Jews participate in Al-Quds day rallies

Palestinians protest against U.S. President Trump decision to recognize Jerusalem as Israel's capital




    یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے صدر ٹرمپ نے صرف اپنا انتخابی وعدہ پورا کیا ہے۔ لیکن یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اس تنازعہ کا حل نہیں ہے۔ یروشلم بدستور تنازعہ رہے گا۔ صدر ٹرمپ نے خود اپنے خطاب میں یہ کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین بات چیت سے اپنی سرحدوں کا تعین کریں گے۔ اور فلسطینیوں کے ساتھ بات چیت میں یروشلم اب سر فہرست ہو گا۔ ایسٹ یروشلم فلسطین کا دارالحکومت ہو گا۔ اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں ایسٹ یروشلم پر قبضہ کیا تھا۔ اور اسے ویسٹ یروشلم میں شامل کر کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنا لیا تھا۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں اور عالمی قوانین کے مطابق ایسٹ یروشلم پر اسرائیل کا فوجی قبضہ غیر قانونی ہے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں میں 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے عربوں کے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا انہیں خالی کرنے اور عربوں کو واپس دینے کا کہا گیا تھا۔ ایسٹ یروشلم پر اسرائیل کا فوجی قبضہ اور کویت پر صد ام حسین کے فوجی قبضہ کا کیس مختلف نہیں ہے۔ لیکن امریکہ کے انصاف اور قانون کی قدریں صرف مختلف ہیں۔ اسرائیل نے 50 سال تک عربوں کے علاقوں پر فوجی قبضہ برقرار رکھنے کے بعد انہیں اب اسرائیل میں شامل کر لیا ہے۔ امریکہ اور یورپ نے بھی اسرائیل کو عربوں کے علاقوں پر 50 سال تک قبضہ رکھنے کا موقعہ دیا تھا۔
   50 سال تک عربوں کے علاقوں پر فوجی قبضہ رکھنے کے بارے میں اسرائیل نے شاید یہ دیکھا تھا کہ امریکہ نے بھی میکسیکو کے ساتھ جنگ میں اس کے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ امریکہ نے وہ میکسیکو کو واپس نہیں دئیے تھے۔ اور انہیں   امریکہ میں شامل کر لیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اب فلسطینیوں کے ایسٹ یروشلم پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کر لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل نے 50 برس قبل عربوں کے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ وہ بھی صدر ٹرمپ کے اس فیصلہ  سے اسرائیل کا حصہ ہونے کی justified کرتے ہیں؟ صدر ٹرمپ نے اپنے اس خطاب میں عربوں کے علاقوں پر اسرائیلی فوجی قبضہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ہے۔ تاہم فلسطین کے تنازعہ کے حل کے لئے Two state solution  پر زور دیا ہے۔ امریکہ کی 8 انتظامیہ بھی Two state solution کی باتیں کرتی تھیں۔ لیکن اس کے کوئی مثبت نتائج نہیں دئیے تھے۔
   امریکہ کی 8 انتظامیہ کی فلسطین اسرائیل تنازعہ کے بارے میں Two state solution کی باتوں سے یہ نظر آتا ہے کہ  یہ امریکی پالیسی اسرائیل کو One state solution  کی طرف لے جا رہی ہے۔ یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم ہونے کے بعد ایسٹ یروشلم میں آباد لاکھوں فلسطینی اسرائیل کے شہری ہو جائیں گے۔ اور اسرائیل کو انہیں مساوی حقوق دینا ہوں گے۔ اور اگر فلسطین تنازعہ کا One state solution ہو گا تو اس صورت میں فلسطینی اسرائیل کے شہری بن جائیں گے۔ اسرائیل کو انہیں حکومت میں شامل کرنا ہو گا۔ انہیں بھی جمہوری اور سیاسی  حقوق دینا ہوں گے۔ انہیں پارلیمانی انتخاب میں حصہ لینا کا حق ہو گا۔ جو حقوق اور اختیارات اسرائیلیوں کے ہیں وہ فلسطینیوں کے بھی حقوق اور اختیارات ہوں گے۔ ویسے بھی اسرائیلی فوجی قبضہ میں نصف صدی سے رہنے کے بعد فلسطینی اسرائیلی شہری ہونے کا قانونی حق رکھتے ہیں۔ فلسطینیوں کی تین نسلیں اسرائیلی فوجی قبضہ میں پیدا ہوئی ہیں۔ عالمی قانون کے مطابق یہ اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینیوں کو تمام بنیادی انسانی ضرورتیں فراہم کرے۔ امریکہ نے میکسیکو کے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ ان کے تمام شہریوں کو امریکی شہری تسلیم کیا تھا۔ اور امریکی آئین اور قانون کے مطابق انہیں مساوی حقوق دئیے تھے۔ صدر ٹرمپ کا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے سیاسی فیصلے کا یہ ایک پہلو ہے۔
   ڈونالڈ ٹرمپ Evangelical Christians کے پہلے صدر ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں Christianity کے ساتھ America first مذہبی قوم پرستی کا ایک سیاسی تصور دیا تھا۔ اور اس مذہبی قوم پرستی سے متاثر ہو کر امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت نے ڈونالڈ ٹرمپ کو ووٹ دئیے تھے۔ اور انہیں امریکہ کا صدر منتخب کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں مڈل ایسٹ میں عیسا یوں کے Persecution کی بات کی تھی۔ ان کے ساتھ غیر  انسانی سلوک کی مذمت کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے عراق اور شام کے عیسا یوں کو امریکہ میں پہلے پناہ دینے کا کہا تھا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ ایک عیسائی ملک ہے اور امریکہ میں صرف عیسائی قدروں کو فروغ دیا جاۓ گا۔ کرسمس پر Happy Holiday کہنے کی بجاۓ صرف Merry Christmas کہا جاۓ گا۔ پہلی مرتبہ امریکہ میں Evangelical  اور Catholic میں اتحاد بھی دیکھا جا رہا ہے۔ یہ مختلف عیسائی فرقہ ہیں۔ دوسری طرف گزشتہ چند سالوں سے امریکہ اور یورپ میں یہودیوں کی مخالفت بڑھتی جا رہی ہے۔ جبکہ عرب اسلامی دنیا میں فلسطینیوں کے مسئلہ پر اسرائیل کے خلاف پہلے ہی زبردست مزاحمت جاری ہے۔  سعودی عرب اور خلیج کے حکمران اندرونی اور بیرونی، ہر طرف سے خطروں میں گھرے ہوۓ ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل امریکہ کے ساتھ مڈل ایسٹ میں ایک عرصہ سے جو کھیل کھیل رہے تھے۔ وہ اب بیک فائر ہو رہا ہے۔ اور اس بیک فائر کی شدت کو دیکھ کر سعودی عرب اور اسرائیل ایک دوسرے قریب آ گیے ہیں۔ اسرائیل نے سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں سے ایران کو اپنا مشترکہ دشمن تسلیم کرا لیا ہے۔ اور خلیج کے ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے غیر اعلانیہ رابطوں کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نتھن یا ہو نے خلیج کے عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات کا اعتراف کرتے ہوۓ کہا کہ " آج عرب ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات اتنے اچھے ہیں کہ اس سے پہلے کبھی ایسے اچھے تعلقات نہیں تھے۔ امریکہ اور یورپ میں سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے بڑھتے تعلقات کو کس طرح دیکھا جا رہا ہے۔ ان کے بعض سفارتی ایکشن اور پالیسیوں سے اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
   صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں یہودی بھی ہیں۔ ان کے داماد یہودی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے داماد کو فلسطین اسرائیل تنازعہ کو حل کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ کا ایجنڈا یہودی لابیوں کا ایجنڈا نہیں ہے۔ Christianity اور America First مذہبی قوم پرستی صدر ٹرمپ کا ایجنڈا ہے۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، پنٹا گان، سی آئی اے اور بعض دوسرے اداروں سے بڑے پیمانے پر چھانٹیاں ہو رہیں۔ اور بعض اعلی سفارت کار استعفا دے کر جا رہے ہیں۔ ان اداروں میں جو لابیوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے تھے شاید ان سے اداروں کو صاف کیا جا رہا ہے۔ اس لئے بھی صدر ٹرمپ کو میڈیا کے ذریعہ کئی طرف سے اسکنڈل میں گھیر دیا ہے۔ اور یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ شاید اپنی میعاد پوری نہیں کر سکیں گے۔ اور صدر نکسن کی طرح انہیں بھی استعفا دینا پڑے گا۔ لیکن صدر ٹرمپ کی Evangelical میں مقبولیت تقریباً 85 فیصد ہے۔ صدر ٹرمپ ان کے پہلے صدر ہیں جو ان کے ایجنڈے پر عملدرامد کرنے کے وعدے پورے کر رہے ہیں۔ Evangelical اسرائیل کے زبردست حامی ہیں۔ اور یہ ہر امریکی انتظامیہ سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ اور صدر ٹرمپ نے ان کا مطالبہ بھی پورا کر دیا ہے۔ اسرائیل اور واشنگٹن میں اس کی لابیوں کو اب صدر ٹرمپ کے کڑوے فیصلے نگلنا ہوں گے۔ صدر ٹرمپ کو اقتدار سے ہٹانے کا مطلب Evangelical Christians کی مخالفت اور مزاحمت کا سامنا کرنا ہو گا۔
   صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اب اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا ہے۔ اسرائیل اس فیصلے سے خوش  ہے۔ لیکن سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے فروغ کو اس فیصلے سے کاری ضرب لگی ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس فیصلہ کے خلاف عرب اسلامی دنیا میں شدید رد عمل ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے خلاف بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یورپی یونین، چین، روس، جاپان نے صدر ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ سلامتی کونسل نے امریکہ کے علاوہ دوسرے تمام اراکین نے یروشلم کی متنازعہ حیثیت تبدیل کرنے کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں Churches نے صدر ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی مخالفت کی ہے۔ پوپ Francis نے یروشلم کے Status quo کو برقرار رکھنے پر زور دیا ہے۔ جبکہ مصر میں Coptic Church نے امریکہ کے نائب صدر Mike Pence سے ملنے سے انکار کر دیا ہے۔ جو مڈل ایسٹ کا دورہ پر جا رہے ہیں۔ صرف بحرین کا ایک وفد اسرائیل کا دورہ کر رہا ہے۔
   سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر جو مڈل ایسٹ میں ایران کے بڑھتے ہوۓ اثر و رسوخ پر خاصا واویلا کرتے رہتے ہیں۔ عربوں کے معاملات میں ایران کی مداخلت پر شکایتیں کرتے رہتے ہیں۔ جس سے اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی وزیر خارجہ جیسے اسرائیل کی وزارت خارجہ کے ترجمان ہیں۔ لیکن عالم اسلام کے اتنے اہم مسئلہ پر کہ امریکہ نے یروشلم اسرائیل کو دے دیا ہے۔ یا یروشلم پر اسرائیل کے فوجی قبضے کو تسلیم کر لیا ہے۔ سعودی عرب کا رد عمل انتہائی مایوس اور سرد ہے۔ سعودی عرب کی اس خاموشی سے کیا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے میں صدر ٹرمپ کو سعودی عرب کی خاموش حمایت حاصل تھی؟ عالم اسلام کے ایک بلین مسلمان جن  میں ایران کے مسلمان بھی شامل تھے، یہ توقع کر رہے تھے کہ سعودی عرب اور خلیج کے حکمران صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج میں امریکہ کے ساتھ ہتھیاروں کے سمجھوتے معطل کر دیں گے۔ اثر و رسوخ چاندی کی طشتریوں میں رکھ کر دینے سے نہیں آتا ہے۔ اثر و رسوخ عوام کے جذبات کے ساتھ کھڑے ہونے سے آتا ہے۔ اور سعودی عرب نے ہمیشہ عالم اسلام کو در پیش اہم ایشو ز پر عوام کے جذبات سے منہ موڑا ہے۔