Wednesday, January 30, 2019

Latin America: America’s Cold War Right Wingers Pal Are In Power

 Overthrow Nicolas Maduro's Government, Venezuela Will Be A Battle Ground of War Between Rich And Poor

مجیب خان
Maduro attends a rally in support of his government, and to commemorate the 61st anniversary of the end of the dictatorship of Marcos Perez Jimenez in Caracas 

The Trump Administration recognize Juan Guaido the elected leader of the opposition National Assembly as the country's legitimate President 

Looting and unrest in Venezuela



   امریکہ میں دو سال سے 2016 کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت پر بڑا شور ہے۔ دونوں سیاسی پارٹیوں میں یہ غصہ ہے کہ روس نے امریکہ کے انتخابات میں یہ مداخلت کیسے کی تھی۔ روس کی مداخلت پر ایک خصوصی کمیشن اس کی  تحقیقات کر رہا ہے۔  ابھی روس کی مداخلت پر بحث جاری ہے کہ امریکہ نے ونزویلا کے انتخابات میں مداخلت کی ہے۔ اور اب اقوام متحدہ کا ایک خصوصی کمیشن قائم کیا جاۓ جو یہ تحقیقات کرے کہ سی آئی اے نے ونز ویلا کے انتخابات میں Juan Guaido کو جتانے میں کیا رول ادا کیا تھا۔ اور اپو‌زیشن کو کامیاب کرانے پر کس قدر ڈالر خرچ کیے گیے تھے؟ امریکہ ابھی تک سرد جنگ کی سیاست سے آزاد نہیں ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ نے 20جنوری 2017 کو حلف برداری کی تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ امریکہ اب دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔ ہر ملک کو اپنے مفاد اور سلامتی میں فیصلے کرنے کا حق ہے۔ تمام ملکوں کو اپنے خطہ میں استحکام اور امن کے لئے خود اقدام کرنا ہوں گے۔ لیکن حلف برداری کی اس تقریب کے دو سال بعد صدر ٹرمپ نے اپنے اس وعدہ کی خلاف ورزی کی ہے اور و نیز ویلا  کی داخلی سیاست میں Meddling کی ہے۔ اپوزیشن پارٹی کے لیڈر Juan Guaido کو و نیز ویلا کا De-jure صدر ہونے کا فتوی دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس فتوی کے فوری بعد لاطین امریکہ کی Right wings حکومتوں نے بھی Juan Guaido کو صدر تسلیم کر لیا ہے۔ کینیڈا بھی ان ملکوں کی یونین میں شامل ہو گیا ہے۔ امریکہ نے عالمی قانون کی خلاف ورزی میں لا طین امریکہ کے ان ملکوں کو شامل کیا ہے جو ماضی میں انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزیاں کرتے تھے۔ صدر ٹرمپ سے قبل صدر بش اور صدر اوبامہ نے بھی عالمی قانون کی ایسی ہی خلاف ورزیاں کی تھیں۔ اور بھر پور فوجی طاقت سے Sovereign ملکوں میں Regime change کیے تھے۔ حیرت کی بات تھی کہ صدر ٹرمپ نے امریکہ کی سرحد پر میکسیکو کے ساتھ دیوار تعمیر کرنے کا اپنا انتخابی وعدہ پورا کرنے کے لئے کانگرس سے فنڈ ز منظور کرانے کے لئے 35 دن حکومت کا کاروبار بند رکھا تھا۔ لیکن صدر ٹرمپ نے دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرنے کے وعدہ سے انحراف کیا ہے۔ صدر ٹرمپ بھی ابNeoCon  کے سامنے جھک گیے ہیں۔ صدر ریگن کی انتظامیہ میں Iran-Contra scandal میں سزا یافتہ Elliot Abrams کو و نیز ویلا کے لئے امریکہ کا خصوصی Envoy نامزد کیا ہے۔ بڑے بش نے صدر بننے کے بعد Iran-Contra scandal کے تمام ایکٹروں کو صدارتی معافی دے دی تھی۔ چھوٹے بش نے انہیں اپنی انتظامیہ میں شامل کر لیا تھا۔ 2002 میں ونزیلا میں Hugo Chavez کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں Elliot Abrams کا نام بھی شامل تھے۔
  صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے رہنما سے ملاقات کے بعد اسے ایک اچھا ڈکٹیٹر تسلیم کیا تھا۔ جمال کشو گی کے قتل میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کے بارے میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ولی عہد محمد بن سلمان کے جمال کشوگی کے قتل میں ملوث ہونے کے ثبوت نہیں تھے۔ جبکہ سی آئی اے کی تحقیقات میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے کشوگی کے قتل میں ملوث ہونے کے واضح ثبوت بتاۓ گیے تھے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر عالمی سمجھوتہ کو عالمی مخالفت کے باوجود مستر د کر دیا تھا۔ امریکہ کو و نیز ویلا میں ڈکٹیٹر اور جمہوریت کی باتیں کرنے سے پہلے مصر میں جمہوریت بحال کر کے دکھانا چاہیے۔ فلسطینی جو 70سال سے اپنے حقوق اور آزادی سے محروم ہیں۔ انہیں حقوق اور آزادی دلا کر دکھانا چاہیے۔ اس وقت سوڈان میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ سوڈان کے لوگ حکومت تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی سوڈان میں حکومت  تبدیل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سوڈان میں اپوزیشن کے احتجاج پر سیکرٹیری آف اسٹیٹ، قومی سلامتی امور کے مشیر نے ابھی تک کوئی بیان نہیں دئیے ہیں۔ سوڈان کی صورت حال سے  بالکل منہ موڑ لیا ہے۔ اس “Two face” پالیسی سے امریکہ کی ساکھ گر رہی ہے۔
  و نیز ویلا کو عراق نہیں بنایا جاۓ۔ لاطین امریکہ میں بچے بھی یہ جانتے ہیں کہ و نیز ویلا میں کھربوں ڈالر کا تیل ہے۔ 570بلین ڈالر کا سونا ہے۔ اس کے علاوہ Irone ore, Bauxite, Coal  اور دوسری معدنیات ہیں۔ امریکہ کینیڈا اور یورپی ملک و  نیز ویلا کے قدرتی دولت میں اپنی کمپنیوں کے لئے منافع کے سنہری مواقع دیکھ رہے ہیں۔ جیسے سرد جنگ کے دور میں ایشیا، افریقہ اور لاطین امریکہ کے ملکوں میں ڈکٹیٹروں کو اقتدار میں بیٹھا کر ان کے قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کی جاتی تھی۔ اور ڈکٹیٹروں کو بھی اس میں حصہ دیا جاتا تھا۔ اور اب اپوزیشن کو اقتدار پر مسلط کر کے و نیز ویلا کے قدرتی وسائل کا استحصال کیا جاۓ گا۔ امریکہ کینیڈا اور یورپ اپنی کمپنیوں کا مفاد دیکھ رہے ہیں۔ و نیز ویلا کے عوام اسی طرح غربت میں پڑے رہے گے۔ عراق میں 15سال قبل کے مقابلے میں آج غربت بہت زیادہ ہے۔ عراقی ابھی تک بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ صدر بش نے صد ام حسین کو 72 گھنٹے دئیے تھے کہ وہ اقتدار چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ صدر ٹرمپ نے و نیز ویلا کے صدر Nicolas Maduro سے یہ کہنے کے بجاۓ اپوزیشن کے رہنما Guaido کو و نیز ویلا کا صدر بنا دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اسے بھی کوئی اہمیت نہیں دی کہ صدر Maduro کی حمایت میں بھی لاکھوں لوگ ہیں۔ اور ان کی سیاسی راۓ کا بھی احترام کیا جاۓ۔ صدر ٹرمپ نے اپنے صرف چند لفظوں سے و نیز ویلا میں دشمنوں کے دو بلاک بنا دئیے۔ اور خانہ جنگی کے لئے میدان زر خیز کر دیا۔ امریکی میڈیا میں بھی صرف حکومت کے خلاف اپوزیشن کے اجتماع اور سڑکوں پر توڑ پھوڑ کو دکھایا جاتا ہے۔ بالکل یہ ہی کچھ شام میں ہوا تھا۔ صدر اوبامہ یہ کہتے رہے ‘Assad has to go’ صدر اوبامہ نے جب یہ کہا تو برطانیہ فرانس اور ترکی بھی یہ کہنے لگے تھے۔ بیرونی مداخلت سے غیرملکی کسی ملک میں اپنی پسند کی حکومت قائم نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ صرف اس ملک کے عوام کریں گے۔ اس لئے امریکہ کو ہر جگہ Regime change جنگوں میں شکست ہو رہی ہے۔
  سرد جنگ ختم ہونے کے بعد روس نے مشرقی یورپی ملکوں میں جمہوریت اور آزادی سبوتاژ کرنے میں مداخلت نہیں کی ہے۔ حالانکہ یہ مشرقی یورپی ملک روس کی سلامتی کے لئے خطرے پیدا کر رہے ہیں۔ یہ نیٹو میں شامل ہو گیے اور نیٹو کے ہتھیار روس کی سرحد کے قریب پہنچ گیے ہیں۔ روس کی جگہ اگر امریکہ ہوتا تو اس صورت میں وہ کیا کرتا؟ تاہم امریکہ نے ایشیا افریقہ اور لاطین امریکہ کے ملکوں میں مداخلت کرنے کی سرد جنگ کی پالیسی جاری ر کھی ہے۔ بش انتظامیہ نے 2002 میں و نیز ویلا میں صدر Hugo Chavez کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی تھی۔ اور فوج اقتدار میں آ گئی تھی۔ صدر بش نے فوری طور پر فوجی حکومت کو تسلیم کر لیا تھا جس طرح آج صدر ٹرمپ نے اپوزیشن رہنما Guaido کو و نیز ویلا کا صدر تسلیم کر لیا ہے۔ لیکن 2002 میں لاطین امریکہ میں ہر طرف پروگریسو حکومتیں تھیں۔ جو سرد جنگ میں بائیں بازو کی فوجی حکومتوں سے لڑی تھیں۔ ان تمام حکومتوں نے صدر بش کے فیصلے کے خلاف شدید مزاحمت کی تھی۔ بلا آخر صدر بش کو اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ اور صدر Hugo Chavez کی حکومت بحال ہو گئی تھی۔ لیکن آج پیشتر سے زیادہ ملکوں میں Right wings اقتدار میں ہیں جو سرد جنگ دور کے امریکہ کے اتحادی ہیں۔ لہذا امریکہ نے ان کے ساتھ مل کر و نیز ویلا میں Regime change کا منصوبہ بنایا ہے۔ و نیز ویلا پر سخت اقتصادی بندشیں لگا کر اس کی معیشت کا تباہ کیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں لوگوں کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ غربت بھوک اور افلاس میں 50 گنا اضافہ ہوا ہے۔ ضروریات زندگی کی اشیا کی قلت سے لوگوں کے لئے مسائل پیدا ہوۓ ہیں۔ اور پھر میڈیا کے ذریعہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ Maduro حکومت کر پٹ ہے۔ حکومت کی اقتصادی پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں۔ جو لوگوں کے اقتصادی مسائل میں اضافہ کا سبب بنی ہیں۔ و نیز ویلا کے دولت مند اپنی  دولت کے سات بھاگ کر فلو ر یڈا امریکہ آ گیے ہیں۔ ان کے علاوہ و نیز ویلا کے سیاسی اور اقتصادی حالات سے تنگ آ کر تقریباً  تین لاکھ و نیز ویلن سیاسی پناہ لینے فلو ریڈا میں آ گیے ہیں۔ امریکہ کی پالیسیاں و نیز ویلا کے حالات خراب کر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ و نیز ویلا سے بھاگ رہے ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ لوگوں کے اس سیلاب کو روکنے کے لئے میکسیکو کے ساتھ امریکہ کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن امریکہ کی سرد جنگ کی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوں گی۔   



Friday, January 25, 2019

Crusade Among Islamic Countries

Crusade Among Islamic Countries 

American Sanctions Squeezing Iran, But ISIS Is Exempted
 From Sanctions

مجیب خان
ISIS, World's richest terrorist organization

ISIS convoy go to Syria

ISIS convoy in Mosul, Iraq

    چار دہائیوں سے اسلامی دنیا کو جنگوں، تنازعوں اور انتشار نے گھیر لیا ہے۔ اقتصادی اور صنعتی ترقی میں اسلامی دنیا بہت پیچھے ہے۔ 1980s میں سوویت کمیونسٹ فوجوں کے خلاف افغانستان جہاد کا محاذ بنایا گیا تھا۔ افغانستان میں سو ویت فوج کی شکست سے افغان عوام کو صرف طالبان ملے تھے۔ لیکن ان کا امن اور سکون چلا گیا تھا۔ جو جنگ 1980s میں شروع ہوئی تھی اس جنگ کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ افغانستان زندگی کے ہر شعبہ میں اب پتھر کے دور میں ہے۔ آج مڈل ایسٹ میں ایران کی نام مداخلت پر اسرائیل سعودی عرب اور امریکہ بڑا واویلا کر رہے ہیں۔ ایران پر امریکہ نے بندشیں لگا رکھی ہیں۔ ایران کو مڈل ایسٹ میں دہشت گردوں کی حمایت کرنے کا الزام دیا جا رہا ہے۔ جو ایسا ہی ہے جیسے صد ام حسین نے 9/11 کے امریکہ پر حملہ میں القا عدہ کی مدد کی تھی۔ لیکن 1980s میں یہ اسرائیل تھا جس نے بلا کسی اشتعال کے عراق پر بمباری کی تھی۔ اور ایک عرب ملک کے خلاف جارحیت کی تھی۔ 1980s میں اسرائیل لبنان کی خانہ جنگی میں اپنی فوج کے ساتھ ملوث تھا۔  لبنان   کی خانہ جنگی میں اسرائیل کے اپنے 'ہوتی' تھے۔ جن کی اسرائیل پشت پنا ہی کر رہا تھا۔ صابرہ اور شتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپوں پر اسرائیلی فوج کے بلڈ و زر چلانے کی تاریخ فلسطینیوں کے لئے Holocausts تھا۔ 1980s میں عراق ایران جنگ جو تقریباً 9 سال تک لڑی گئی تھی اور جس میں دو ملین سے زیادہ عراقی اور ایرانی مارے گیے تھے۔ اس جنگ میں خلیج کے عرب حکمرانوں نے کھربوں ڈالر صد ام حسین میں invest کیے تھے۔ امریکہ اور اسرائیل  نے عراق اور ایران دونوں کو ہتھیار فروخت کیے تھے۔ عراق اور ایران دونوں ہی یہ جنگ جیت نہیں سکے تھے۔ دونوں نے اپنے قیمتی وسائل برباد کیے تھے۔ وقت برباد کیا تھا اور حاصل کچھ نہیں ہوا تھا۔ عراق ایران جنگ ختم ہونے کے تقریباً چار سال بعد 1990s  میں امریکہ کی قیادت میں عراق کے خلاف ایک نئی جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ صد ام حسین کو پہلے کویت پر حملہ  کرنے اور پھر اس پر قبضہ کرنے میں گمراہ کیا گیا تھا۔ اور پھر عراق کے خلاف فوجی کاروائی کی گئی تھی۔ تاہم اس تنازعہ کو ڈائیلاگ سے بھی حل کیا جا سکتا تھا۔ لیکن سرد جنگ ختم ہونے کے بعد ڈائیلاگ پہلی Casualty تھے۔ حالانکہ صد ام حسین نے کویت سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن بش سینیئر نے اسی وقت عراق پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ عراق کے خلاف اس پہلی جنگ میں دو لاکھ عراقی فوجی مارے گیے تھے۔ سعودی عرب نے 90بلین ڈالر اس جنگ کے اخراجات امریکہ کو ادا کیے تھے۔ جبکہ امیر کویت نے کویت کو آزاد کرانے اور شاہی خاندان کی حکمرانی بحال کرانے پر امریکہ کو 100بلین ڈالر دئیے تھے۔ عراق پر مہلک ہتھیاروں کے الزام میں دنیا کی تاریخ کی انتہائی بدترین اور غیر انسانی اقتصادی بندشیں لگائی گئی تھیں۔ ان بندشوں کے نتیجہ میں پانچ لاکھ معصوم بچے پیدائش کے بعد چند روز میں مر گیے تھے۔ کیونکہ بندشوں کی وجہ سے ہسپتالوں میں دواؤں کی قلت تھی۔ اور طبی سہولتوں کا فقدان تھا۔ اس دوران امریکہ اور برطانیہ کی وقفہ وقفہ سے عراق پر بمباری کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ 1990s کے اختتام پر امریکہ اور برطانیہ نے عراق پر تین ہفتہ تک مسلسل بمباری کی کیونکہ صد ام حسین سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عملدرامد نہیں کر رہے تھے۔ اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کو عراق میں داخل ہونے اور مہلک ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی اجازت دینے سے صدر صد ام حسین نے انکار کر دیا تھا۔ اسلامی ملکوں کی 1990s کی دہائی عراق پر اس تباہ کن بمباری پر ختم ہوئی تھی۔
   اسلامی دنیا میں 21ویں صدی کی پہلی دہائی کا آغاز 1980s میں سوویت فوجوں کے خلاف جن جہادیوں نے حصہ لیا تھا ان کا خاتمہ کرنے کی جنگ سے ہوا تھا۔ 9/11 کو امریکہ پر حملہ کا ذمہ دار ان جہادیوں کو ٹھہرایا  گیا تھا۔ ان کا سرغنہ بن لادن تھا۔ اس کی تنظیم القا عدہ تھی۔ امریکہ کا یہ کہنا کہ طالبان جو اس وقت افغانستان میں حکومت میں تھے۔ انہوں نے القا عدہ کے دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ دی تھی۔ اس لئے امریکہ نے طالبان حکومت کا خاتمہ کر نے اور القا عدہ کے دہشت گردوں کو پکڑنے کے لئے افغانستان میں فوجی کاروائی کی تھی۔ بعد میں نیٹو بھی امریکہ کے ساتھ جنگ میں شامل ہو گیا تھا۔ امریکہ اور نیٹو کی اس فوجی کاروائی میں تین ہزار سے زیادہ افغان طالبان مارے گیے تھے۔ ان میں ایک بڑی اکثریت ان کی تھی جنہوں نے سوویت یونین کو شکست دی تھی۔ اور افغانستان کو کمیونسٹ فوجوں سے آزاد کرایا تھا۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی یہ فوجی کاروائی 21ویں صدی کی دوسری دہائی میں بھی جاری ہے۔
   کویت کو عراقی فوجوں سے آزاد کرانے کی جو جنگ 1990s میں ہوئی تھی۔ وہ جنگ 21ویں صدی کی پہلی دہائی کے تیسرے سال میں بغداد میں Regime change کرنے کی جنگ بن گئی تھی۔ بش انتظامیہ نے برطانیہ اور چند دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر بھر پور فوجی طاقت سے عراق پر Preemptive حملہ کیا تھا۔ اور عراق کا امن استحکام  اقتدار اعلی شیعہ سنی عیسائی جو عراق میں ایک فیملی کی طرح صدیوں سے رہ رہے تھے  سب تہس نہس کر دیا تھا۔ بش انتظامیہ نے افغانستان پر حملہ دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لئے کیا تھا۔ لیکن عراق پر حملہ کر کے اسے دہشت گردوں کی جنت بنا دیا تھا۔ دہشت گردوں کے لئے عراق  Revolving door بن گیا ہے۔ صد ام حسین کے 40سال دور اقتدار میں عراق میں دہشت گردی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ وہاں امریکہ کے فوجی حملہ کے 40 روز میں دہشت گردی ہونے لگی تھی۔ شیعہ سنی عیسائی مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے تھے۔ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں پر حملے ہونے لگے تھے۔ اور یہ دہشت گردی عراق میں امریکہ اور برطانیہ کے فوجی قبضہ کے دور میں ہو رہی تھی۔ ایران کا اس میں کوئی رول نہیں تھا۔ ایران کو اپنی سلامتی اور استحکام کی فکر تھی۔
   القا عدہ کے خلاف بش انتظامیہ کی جنگ کا آغاز 2001 میں ہوا تھا۔ پھر اوبامہ انتظامیہ کے ابتدائی چند سالوں تک یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ریڈار پر تھی۔ 2012 کے صدارتی انتخابات سے چند ماہ قبل بن لادن کو دریافت کر لیا تھا اور اسے اسی وقت مار دیا تھا۔ القا عدہ کی دہشت گردی کا ایک Chapter ختم ہوا تھا اس طرح 2001-2011 تک اسلامی ملکوں کو القا عدہ کے خلاف دہشت گردی کی جنگ میں مصروف رکھا تھا۔ 2011 کے  بعد القا عدہ کی جگہ ISIS آ گئی تھی۔ اوبامہ انتظامیہ نے لیبیا میں Regime change کر کے ISIS کو پھیلنے کا موقع دیا تھا۔ حالانکہ صدر قد ا فی اور ان کی حکومت کے اعلی انٹیلی جینس حکام نے دنیا کو اس سے آگاہ کیا تھا کہ اسلامی انتہا پسند  ان کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور لیبیا کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن صدر اوبامہ لیڈر آف دی فری و ر لڈ نے صدر قد ا فی کی اس تشویش کو بالکل Ignore کر دیا تھا۔ اور اب ابوبکر الا بغدادی آ گیے تھے۔ جو ISIS کے لیڈر تھے۔ اب ISIS کے خلاف جنگ جاری ہے۔  اسلامی ملکوں کی 21ویں صدی کی دوسری دہائی ISIS سے جنگ میں گزر رہی ہے۔ اسے شاید 2021-22 تک جاری رکھنے کا منصوبہ ہے۔ ان جنگوں کے نتیجہ میں اسلامی ملکوں میں جو انتشار آیا ہے۔ وہ اسلامی ملکوں کو تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور اقتصادی ترقی میں 50سال پیچھے لے گیا ہے۔
   لیبیا میں 6 امریکی جن میں امریکی سفیر اور اسپیشل فورسز ز  کے فوجی شامل تھے دہشت گردی کے حملہ میں مارے گیے تھے۔ اور چار امریکی فوجی اب شام میں ایک خود کش بم کے دھماکے میں مارے گیے ہیں۔ ISIS نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ یہ بات خصوصی طور پر نوٹ کی جاتی ہے کہ جب بھی امریکی انتظامیہ نے  فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات ہونے لگتے ہیں۔ Warmongers فوجیں واپس بلانے کی مخالفت کرنے لگتے ہیں۔ امریکی عوام کو دہشت گردوں سے خوفزدہ کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ افغانستان میں 18 سال سے امریکہ کی فوجیں ہیں۔ لیکن امریکی فوجوں کی موجودگی میں طالبان آدھے سے زیادہ افغانستان پر قابض ہیں۔ افغانستان میں دہشت گردی کے انتہائی خوفناک دھماکہ ہوۓ ہیں جن میں سینکڑوں افغان مارے گیے ہیں۔ عراق میں 5 ہزار امریکی فوجوں کی موجودگی میں ISIS نے مو صل میں اپنی اسلامی ریاست قائم کر لی تھی۔ عراقی اور ایرانی فوجوں نے مل کر موصل اور عراق کے دوسرے حصوں سے ISIS کی اسلامی ریاست تباہ کی تھی۔ دوسری طرف شام کے جن علاقوں پر ISIS نے قبضہ کر لیا تھا۔ شام اور ایران کی فوجوں نے مل کر وہ علاقہ بھی ISIS سے آزاد کراۓ تھے۔ سوال یہ ہے کہ امریکی فوجیں 15 سال سے عراق میں اور 8 سال سے شام میں تھیں۔ اور امریکہ کے واچ میں ISIS کا عروج ہوتا ہے۔ اور ISIS عراق اور شام کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کر لیتی ہے۔ اور اپنی اسلامی ریاست قائم کر لیتی ہے؟ اور اب امریکہ کے ذریعہ ایران کو اس کی سزا دی جا رہی کہ ایران نے عراق اور شام کے ساتھ مل کر ISIS کی اسلامی ریاست کا خاتمہ کیا تھا۔ جو سنی مسلمانوں کی اسلامی ریاست تھی۔ اسرائیل کو عراق اور شام میں ISIS کی اسلامی ریاست قائم ہونے سے اتنا بڑا خطرہ نہیں تھا کہ جتنا شام میں ایران کی موجودگی کو اسرائیل اپنے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ اس لئے امریکہ نے بھی تمام بندشیں ایران پر لگائی ہیں۔ اور ISIS کے خلاف کوئی بندشیں نہیں ہیں۔ ISIS کی قیادت کو بھی امریکہ نے بندشوں سے آزاد رکھا ہے۔ ISIS کے خزانے ڈالروں سے بھرے ہوۓ ہیں۔ ISIS میں لڑنے والوں کے اہل خاندان کی دیکھ بھال ہو رہی ہے۔ انہیں تین وقت کا کھانا مل رہا ہے۔


  دنیا کو اب آنکھیں کھولنا چاہیں اور سمجھنا چاہیے کہ دہشت گردی کی جنگ 21ویں صدی کا ایک بہت بڑا فراڈ اور ڈرامہ ہے۔ اس جنگ میں اتنے Facts نہیں ہیں کہ جتنا جھوٹ، Distortions اور Contradictions ہیں۔                                 

Saturday, January 19, 2019

Post Cold War World: Militarism Encouraging Fascism

Post Cold War World: Militarism Encouraging Fascism 

Western Great Values Are Under NATO’s Boots, Middle East Transforming From Arab Spring To Arab NATO

مجیب خان


Anti-NATO protest across Europe

Belgium: Protesters rally against NATO's militarism, 12 July 2018

NATO on the march


     صدر ٹرمپ نے امریکہ کو نیٹو سے نکالنے کا کہا ہے۔ اور نیٹو کو ایک Obsolete تنظیم کہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر نیٹو کیوں ہے؟ جس دن دیوار بر لن گری تھی اسی دن نیٹو بھی ختم ہونا چاہیے تھا۔۔ سرد جنگ کی تمام نشانیاں بالکل ایسے ہی ختم کی جاتی جیسے امریکی فوجوں نے صد ام حسین کا اقتدار ختم کرنے کے بغداد میں صد ام حسین کا Statue تباہ کیا تھا۔ نیٹو کا وجود برقرار رکھنے سے سرد جنگ ختم ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ اور سرد جنگ کی دنیا کے مقابلے میں Post-Cold war world زیادہ خطرناک ہو گئی ہے۔ 30سال ہو گۓ ہیں سرد جنگ ختم ہوۓ لیکن آج دنیا میں 30 سے زیادہ مقام پر نئی جنگیں ہو رہی ہیں۔  بعض مقام جنگ کی خطرناک کشیدگی میں ہیں۔ اور بعض خطوں میں انتشار حالات کو جنگ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ دنیا کے کئی جگہوں پر یہ حالات نیٹو کی وجہ سے پیدا ہوۓ ہیں۔ اور بعض ملکوں میں نیٹو اپنی سرحدوں سے نکل کر جنگ کر رہی ہے۔ سرد جنگ میں مشرقی یورپ کے جو ممالک سوویت وار سا ملٹری پیکٹ میں تھے۔ وہ اب مغربی ملٹری پیکٹ نیٹو میں شامل ہو گیے ہیں۔ اور ان کی سرزمین پر نیٹو فوجی اڈے قائم ہو گیے ہیں۔ مغربی اور مشرقی یورپ کے نیٹو ملکوں نے روس کو گھیر لیا ہے۔ دوسری طرف یورپی یونین کی روس پر اقتصادی بندشیں لگی ہوئی ہیں۔ جبکہ روس پر امریکہ کی ایگزیکٹو اور کانگریس کی اقتصادی بندشیں علیحدہ ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے آج روس کے ساتھ تعلقات سرد جنگ دور سے زیادہ خراب ہیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد دنیا میں امن کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی ہے کہ جس قدر نیٹو ملٹری الائنس  فروغ دینے کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ اور یہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے مفاد میں کیا جا رہا تھا۔ نیٹو میں مشرقی یورپ کے نئے رکن ملکوں سے یہ کہا گیا کہ انہیں اپنے فوجی معیار کو نیٹو ملکوں کے فوجی معیار کے برابر بنانا ہو گا۔ اور اس کے لئے انہیں امریکہ اور دوسرے مغربی یورپی ملکوں سے ہتھیار خریدنا ہوں گے۔ روس کے گرد نیٹو کا حصار بنانے سے ہتھیاروں کی کمپنیوں کی تجارت میں زبردست Boom آیا تھا۔ اور دوسری طرف جنگیں انہیں منافع دے رہی تھیں۔
   روس 1990s میں انتہائی خطرناک حالات کا سامنا کر رہا تھا۔ روس کی معیشت بالکل تباہ ہو چکی تھی۔ حکومت کا خزانہ خالی تھا۔ حکومت کے اثاثوں کی لوٹ مار ہو رہی تھی۔ بینکوں، کمپنیوں، آئل اور گیس کا اونے پونے سودا ہو رہا تھا۔ حکومت کے پاس فوجیوں اور سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے فنڈ ز نہیں تھے۔ ماسکو میں بم پھٹ رہے تھے۔ روس کے شمالی Caucasus میں علیحدگی پسند بغاوت کر رہے تھے۔  چیچن اور د قستان میں خانہ جنگی عروج پر تھی۔ روس کے حالات افغانستان سے مختلف نہیں تھے۔ واشنگٹن اور یورپی دارالحکومتوں میں عام تاثر یہ تھا کہ روس کا ان حالات سے دوبارہ ایک بڑی طاقت بن کر ابھرنا ممکن نہیں تھا۔ ان حالات میں ویلا دیمیر پوتن  اقتدار میں آۓ تھے۔ اور روس کو سرد جنگ کے ملبہ سے نکالا تھا۔ معیشت کو استحکام دیا تھا۔ جو حکومت کے اثاثے لوٹ کر لے گیے تھے۔ وہ ان سے واپس لئے تھے۔ چیچن میں خانہ جنگی ختم کی تھی۔ چیچنیا جو شام کی طرح کھنڈرات بن گیا تھا۔ اسے دوبارہ تعمیر کیا تھا۔ چیچنیا میں چیچن کی حکومت قائم کی تھی۔ ان کے سیاسی حقوق تسلیم کیے تھے۔ ایک انتہائی مختصر عرصہ میں یہ صدر پو تن کی شاندار کامیابیاں تھیں۔ صدر پو تن کے جرمن چانسلر Gerhard Schroder سے بہت اچھے ذاتی تعلقات تھے۔ چانسلر شورو ڈر نے روس کے آئل اور گیس کے منصوبوں میں صدر پو تن کی مدد کی تھی۔ یورپ میں روس کے تیل اور گیس کی پائپ لائنیں پھیلتی جا رہی  تھیں۔ جیسے جیسے روس کا آئل اور گیس مارکیٹ میں پہنچ رہا تھا۔ روس کی معیشت پوری رفتار سے ترقی کے راستہ پر تھی۔ صرف چند سال میں روس کے Foreign Reserve 700بلین ڈالر پر پہنچ گیے تھے۔ صدر پو تن نے سرد جنگ دور کے تمام قرضہ ادا کر دئیے تھے جن میں جرمن حکومت کے 80بلین ڈالر کا قرضہ بھی شامل تھا۔ روس یورپ میں اکنامک پاور ہاؤس بننے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ حیرت کی بات تھی کہ روس نے 200بلین ڈالر امریکہ کو قرضہ دیا تھا۔ اور امریکہ کو قرضہ دینے والے ملکوں کی فہرست میں شامل ہو گیا تھا۔
   دوسری طرف روس کے گرد حلقہ تنگ کرنے کی نیٹو سرگرمیاں بھی جاری تھیں۔ Baltic ملکوں کو بھی نیٹو کا رکن بنا لیا تھا۔ یورپ بھر میں نیٹو کی ان سرگرمیوں میں یہ  واضح ثبوت نظر آ رہے تھے کہ امریکہ اور نیٹو دنیا کو ایک نئی سرد جنگ کی طرف لے جا رہے تھے۔ روس کو یورپ میں تنہا کیا جا رہا تھا۔ اگر ایسا امریکہ کے ساتھ ہوتا تو شاید ایٹمی ہتھیار امریکہ کے اطراف میں لگ چکے ہوتے۔ لیکن صدر پو تن نے انتہائی ٹھنڈے ذہن سے اس صورت حال کا مقابلہ کیا تھا۔ اور نیٹو کو Obsolete بنا دیا تھا۔ دراصل صدر بش نے 9/11 سے غلط فائدے اٹھانے کی کوشش کی تھی۔ جس کے نتیجہ میں نیٹو Obsolete ہوا ہے۔ نیٹو کو افغانستان میں کبھی ملوث نہیں ہونا چاہیے تھے۔ بش انتظامیہ میں جنہوں نے نیٹو کو طالبان کے خلاف جنگ میں شامل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے دراصل روس کو ایک Favor دی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ویت نام امریکہ کی پہلی جنگ تھی۔ اور افغان جنگ نیٹو کی پہلی جنگ تھی۔ افغانستان نیٹو کے لئے ویت نام بن گیا تھا۔ 18 سال ہو گیے ہیں اور نیٹو ابھی تک افغان جنگ میں لٹکا ہوا ہے۔ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور افغان جنگ جیتنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ متعدد نیٹو رکن ملکوں کے فوجی افغانستان میں مارے گیے ہیں۔ ان ملکوں میں عوام اپنی حکومتوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارے فوجی افغانستان میں کس کی جنگ لڑ رہے ہیں؟ برطانیہ میں مائیں جن کے بچے افغان آپریشن میں مارے گیے ہیں وہ بھی اپنی حکومت سے یہ پوچھتی ہیں کہ ان کے بچے افغانستان میں کیوں ہیں۔ افغانوں نے ہمارے ملک پر حملہ نہیں کیا تھا۔ پھر ہم ان سے کیوں لڑ رہے ہیں؟ بعض نیٹو ملکوں نے افغانستان سے اپنی فوجیں بلا لی ہیں۔  اور وہ دوبارہ اپنی فوجیں افغانستان بھیجنا نہیں چاہتے ہیں۔ لیکن امریکہ میں کانگریس اور سینیٹر ز  افغانستان سے فوجیں واپس بلا نے کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ افغانستان میں 18 سال سے جنگ کے نیٹو اور الائنس پر کیا اثرات ہو رہے ہیں۔  کیا نیٹو برقرار رہے سکتا ہے؟ صدر ٹرمپ نے نیٹو سے امریکہ کو نکالنے کا کہا ہے۔ ایک بار جب یہ بحث شروع ہو جاۓ گی تو پھر پنڈو رہ با کس کھلنا شروع ہو جاۓ  گا کہ نیٹو کے وجود سے کیا مغربی قدریں پامال ہورہی ہیں۔ ہاں یہ قدریں بری طرح پامال ہوئی ہیں۔ جمہوریت انسانی حقوق اور قانون کی با لا دستی جیسی مقدس قدریں نیٹو کے  فوجی  Boots کے نیچے آ گئی ہیں۔ سرد جنگ میں مغربی قدروں کو کمیونزم سے اتنا نقصان نہیں پہنچا تھا کہ جتنا نیٹو کی فوجی سرگرمیوں سے  مغربی قدروں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ عالمی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیاں ایک معمول بن گیا ہے۔ Sovereignty Law of کو Preemptive war سے پامال کر دیا ہے۔ بگرام، ابو غریب جیل، گو تانو مو بے نظر بندی کیمپ، واٹر بو رڈنگ، اذیتیں، سیاسی قیدیوں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنا، انہیں صرف الزامات کی بنیاد پر غیر معینہ عرصہ تک نظر بند رکھنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ جن کا تصور صرف سرد جنگ میں اشتراکی ملکوں میں کیا جاتا تھا۔ سرد جنگ میں سو ویت یونین اپنے حلقہ اثر ریاستوں میں Regime change کرتا تھا۔ اب Regime change مغربی جمہوری قدروں کا نظام بن گیا ہے۔ Arab Spring عرب ڈکٹیٹروں اور اسرائیلی Warmongers نے ناکام بنا دیا اور مغربی جمہوریت نے اسے قبول کر لیا۔ اور اب Arab Spring کو Arab NATO میں Transform کرنے کی تجویز ہے۔ اور Arab NATO کی یہ تجویز سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے اپنے حالیہ مڈل ایسٹ کے دورے میں عرب حکم رانوں کو دی ہے۔ NATO کو جیسے McDonald کی طرح Franchise کیا جا رہا ہے۔ Arab NATO کے بعد پھر African NATO ہو گا۔ پھر Latin NATO ہو گا۔ شاید اس لئے صدر ٹرمپ نے NATO سے امریکہ کے دستبردار ہونے  کا کہا ہے۔  

                      

Monday, January 14, 2019

Iran Didn’t Occupy Arab Land, Iran Is Not Killing Arab Women And Children, Iran Is More Interested In Arab People's Economic Well-being

Iran Didn’t Occupy Arab Land, Iran Is Not Killing Arab Women And Children, Iran Is More Interested In Arab People's Economic Well-being

مجیب خان
The U.S 'is acting against Iran at the economic level and we here in Israel are acting against Iran at the military level' Mr. Netanyahu address to Israel army Cadets

The murderous regime and its supporters will face significant consequences if they do not change their behavior. John Bolton national security advisor 

We will not ease our campaign to stop Iran's malevolent influence and actions against this regime and the world. Mike Pompeo, 10 January 2019 


 
   گزشتہ سال نومبر میں CSIS کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 9/11 کے بعد 17 سال میں دہشت گردوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دو لاکھ تیس ہزار سلا فسٹ جہادی جنگجو 70 سے زیادہ ملکوں میں ہیں۔ شام ان ملکوں میں سر فہرست ہے۔ جہاں 45 ہزار سے 70 ہزار جہادی لڑ رہے ہیں۔ جبکہ عراق میں یہ 10 ہزار سے 15 ہزار ہیں۔ اسی سال براؤن یونیورسٹی کے Watson Institute for International and Public Affairs نے اپنی سالانہ رپورٹ کے Costs of War جائزے میں یہ تخمینہ دیا تھا کہ اکتوبر 2019  تک دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی سرگرمیوں کے اخراجات 5.9 ٹیریلین ڈالر پر پہنچ جائیں گے۔' صدر جارج ڈبلو بش نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے آغاز پر کہا تھا کہ "امریکہ 60 ملکوں میں جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔" لیکن CSIS کی رپورٹ کے مطابق 17 سال میں دہشت گردوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اور یہ 70 ملکوں پھیلے ہوۓ ہیں۔ اور ان کے خلاف عالمی مہم پر امریکہ کے اخراجات 5.9 ٹیریلین پر پہنچ رہے ہیں۔ میرے خدشات درست تھے کہ جنگ دہشت گردی ختم نہیں کر رہی تھی۔ بلکہ اسے وسعت دے رہی تھی۔ عراق کے بعد شام دہشت گرد پیدا کرنے کے فیکٹری بن گیا تھا۔
   تاہم برسوں بعد 2018 پہلا سال تھا جس میں کوئی نئی جنگ نہیں ہوئی تھی۔ Regime change کرنے کی مہم نہیں چلی تھی۔ اچھی خبر یہ تھی کہ دہشت گردی کے واقعات میں حیرت انگیز کمی آئی تھی۔ شام میں گزشتہ سالوں کے مقابلے میں بہت کم ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ دنیا میں بموں کے دھماکے بھی نہیں ہوۓ تھے۔ صدر ٹرمپ کے لئے بلاشبہ یہ ایک اچھا سال تھا۔ شمالی کوریا نے اپنا ایٹمی پروگرام ختم کرنے میں 180ڈگری سے یو ٹرن لیا تھا۔ صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کی پہلی تاریخی ملاقات سنگاپور میں ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں ایٹمی ہتھیاروں کے ایشو پر دونوں رہنماؤں کو ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کا موقع ملا تھا۔ اس لحاظ سے یہ ایک کامیاب ملاقات تھی۔ آ بناۓ کوریا جسے دنیا کا ایک انتہائی خطرناک خطہ کہا جا رہا تھا۔ 2018 میں آ بناۓ کوریا ان خطروں سے نکل آیا ہے۔ دنیا کے بعض دوسرے خطرناک خطوں کے لئے یہ ایک اچھی مثال بن سکتی ہے۔ چین کے ساتھ تصادم کی پالیسی بیک فائر ہو رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے 2018 میں چین کے ساتھ  ٹریڈ وار شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ صدر ٹرمپ کا خیال تھا کہ ٹریڈ وار جیتنا افغان وار جیتنے سے زیادہ آسان تھا۔ لیکن کوئی بھی وار جب مفادات کی وار ہوتی ہے تو اس کو جیتنا پھر اتنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی ٹریڈ وار نتائج کی شدت کو اب محسوس کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کی معیشت پر اس کے منفی اثرات ہو رہے ہیں۔ اور اب چین کے ساتھ ٹریڈ وار جلد ختم کرنے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ صدر بش اور صدر اوبامہ نے جو جنگیں شروع کی تھیں 2018 بھی ان جنگوں میں گزر گیا۔ صدر بش اور صدر اوبامہ امریکہ کی فوجیں جہاں چھوڑ کر گیے تھے۔ یہ فوجیں ابھی تک وہاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ اور جنگ جاری ہے۔ شاید اس صورت حال سے تنگ آ کر صدر ٹرمپ نے 2018 کے اختتام پر شام سے فوری طور پر فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ اور افغانستان میں فوجوں کی تعداد میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
   2018 میں Alliances کی نوعیت بھی بدل گئی ہے۔ یورپ میں Collective Security کا تصور بدل گیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں عالمی اداروں کی افادیت کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے ادارہ مہاجرین کی امداد بند کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ براۓ انسانی حقوق سے بھی امریکہ نے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیٹو میں ٹرمپ انتظامیہ کی دلچسپی انتہائی Low Point پر ہے۔ صدر ٹرمپ کو نیٹو رکن ملکوں سے شکایت ہے کہ وہ نیٹو میں اپنے حصہ کی ادائیگی نہیں کر رہے ہیں اور ان کے حصے کی ادائیگیوں کا بوجھ امریکہ کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں امریکہ کی پالیسیوں میں ان تبدیلیوں کے پیش نظر یورپی ممالک یورپ کی سیکیورٹی کے سلسلے میں خود اپنے اقدامات تجویز کر رہے ہیں۔ روس کے ساتھ Tension بڑھانے کے بجاۓ کم کرنے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ روس کی نیوی نے Black Sea میں یوکرین کی نیوی کے کئی جہازوں پر جب قبضہ کر لیا تھا۔ تو اس پر یورپ کا رد عمل خاصا سرد تھا۔ جرمنی اور دوسرے یورپی ملکوں نے روس کے خلاف نئی بندشیں نہیں لگائی تھیں بلکہ یوکرین کو روس کے ساتھ مذاکرات کے ذریعہ تنازعہ  حل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
   با ظاہر ری پبلیکن پارٹی نے صدر ٹرمپ کے خارجہ امور میں ان خیالات سے اختلاف نہیں کیا ہے۔ البتہ خارجہ پالیسی اسٹبلیشمنٹ کو صدر ٹرمپ کے خارجہ امور میں تبدیلیوں پر شدید اختلاف ہے۔ اسٹبلیشمنٹ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو عالمی ادارے وجود میں لاۓ گیے تھے۔ اور جو Alliance بننے تھے۔ انہیں ختم کرنے کے خلاف ہے۔ اسٹبلیشمنٹ کا کہنا کہ یہ عالمی ادارے اور Alliance امریکہ اور مغرب کے مفادات بہتر طور پر Served کرتے تھے۔ اور انہیں برقرار رکھا جاۓ۔ لیکن یہ تبدیلیاں اب یقینی نظر آ رہی ہیں۔ صدر ٹرمپ یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کے روس کے ساتھ تعلقات اچھے ہونا چاہیں۔ اور دونوں ملکوں کو مڈل ایسٹ کا نقشہ Shape دینے میں مل کر کام کرنا چاہیے۔ لیکن امریکہ میں روس کی مخالفت آج سرد جنگ دور سے کہیں زیادہ ہے۔
 مڈل ایسٹ ایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل ترین خطہ ہے۔ جو جنگوں اور تنازعوں کی گتھیوں میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ جو بھی اس خطہ کو اس صورت حال سے نکالنے میں کامیاب ہو جاۓ گا وہ پیغمبر ہو گا۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کی پالیسیوں کی America First بنیاد بتایا تھا۔ صدر ٹرمپ نے خارجہ اور دفاعی امور اور تجارت اور اقتصادی پالیسیوں میں America First کو بنیاد بنایا ہے۔ لیکن مڈل ایسٹ میں صدر ٹرمپ جیسے بلکل بھٹک گیے ہیں۔ مڈل ایسٹ میں صدر ٹرمپ کی پالیسی یا تو Saudi Arabia First ہے۔ یا پھر Israel First ہے۔ ان کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ کی مڈ ل ایسٹ میں کوئی نئی تبدیلی نہیں ہے۔ اسرائیلی منصوبوں کے مطابق مڈل ایسٹ کا سیاسی نقشہ Shape دیا جا رہا ہے۔ اور سعودی عرب کو اس میں Accommodate کر لیا ہے۔ دو سال میں صدر ٹرمپ نے فلسطینیوں کے حال زار پر کوئی بات نہیں کی ہے۔ اسرائیلی فوجی روزانہ فلسطینی بچوں اور عورتوں کا اس طرح شکار کرتے ہیں جیسے Wyoming میں لوگ پرندوں کا شکار کرتے ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کے 70سال فوجی قبضہ کے جشن پر صدر ٹرمپ نے یروشلم تحفہ میں اسرائیل کو دے دیا ہے۔ دنیا کے اصول، قانون اور لوگوں کے حقوق سب کے لئے یکساں ہیں۔ کوئی ان سے بالاتر نہیں ہے اور کوئی ان سے ابتر نہیں ہے۔ سابقہ دو انتظامیہ اور اب ٹرمپ انتظامیہ میں آزادی، حقوق، قانون اور اصولوں پر باتیں بہت کی گئی تھیں۔ لیکن کیا کچھ نہیں تھا۔ دنیا کو لیکچر بہت دئیے  تھے۔ لیکن ان کے ایکشن میں ان لیکچروں کی جھلک نہیں ہوتی تھی۔ صدر بش نے عرب رہنماؤں سے یہ عہد کیا تھا کہ صد ام حسین کا مسئلہ حل کرنے کے بعد وہ فلسطین کا تنازعہ حل کریں گے۔ کیونکہ صد ام حسین اس تنازعہ کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ بنے ہوۓ تھے۔ حالانکہ صد ام حسین رکاوٹ نہیں تھے۔ چیرمین یا سر عرفات نے اسرائیل کے ساتھ اوسلو معاہدہ کیا تھا اور اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا تھا۔ صد ام حسین کوئی رکاوٹ نہیں تھے۔ صد ام حسین اور معمر قد ا فی فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوج کی بربریت کے خلاف بولتے تھے۔ صد ام حسین اور معمر قد ا فی کے جانے کے بعد عرب دنیا میں کوئی لیڈر اسرائیلی فوج کے فلسطینیوں پر ظلم اور بربریت کی مذمت میں بولنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ عرب حکومتیں انتہائی کمزور اور خوفزدہ ہیں۔ کیونکہ یہ سب مطلق العنان اور ڈکٹیٹر ہیں۔ اور اپنی بقا اور سلامتی کے لئے یہ امریکی Orbit سے نکل کر اب اسرائیلی Orbit میں جانے کا راستہ دیکھ رہے ہیں۔ اس عمل میں انہیں ایران ایک بڑی رکاوٹ نظر آ رہا ہے۔ ایران فلسطینیوں کے حقوق اور آزادی کی جد و جہد میں شانہ بشانہ ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایران کو راستہ سے ان ہی الزامات اور Fake داستانوں سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو انہوں نے صد ام حسین کے خلاف استعمال کی تھیں۔
   صدر ٹرمپ نے فلسطینیوں کی طرف سے منہ موڑ لیا ہے۔ اور وہ ان کی آہ و بکا سننے کے لئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ انہیں ونزویلا کے عوام سے ہمدردی ہے۔ انہیں ایران کے عوام سے ہمدردی ہے۔ لیکن فلسطینی عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ قومی سلامتی امور کے مشیر جان بولٹن اور سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo کے حالیہ دورہ مڈل ایسٹ میں عربوں کو صرف 'ایران ایک بڑا خطرہ' کا پیغام دیا ہے۔ دونوں نے اپنے دورے میں صرف اسرائیل کے موقف کی وکالت کی تھی۔ جیسے عربوں سے کہا ہے کہ وہ ایران کے بڑھتے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے اسرائیل کی قیادت میں متحد ہو جائیں۔ ایران کے بارے میں عربوں میں صرف Irrational fear پھیلایا جا رہا ہے۔ حالانکہ ایران اس خطہ میں جنگیں نہیں چاہتا ہے۔ نہ ہی ایران دوسروں کی جنگوں میں ملوث ہونا چاہتا ہے۔ ایران نے 1980s میں عراق کے ساتھ 9 سال جنگ لڑی تھی۔ ایک ملین ایرانی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ کھربوں ڈالر اس جنگ میں برباد ہوۓ تھے۔ دونوں کو اس جنگ سے تباہی کے سوا کچھ نہیں ملا تھا۔ دونوں ہمسایہ ملک اقتصادی طور پر تباہ و برباد ہو گیے تھے۔ دنیا میں شاید صرف اسرائیل ہے جس کے لئے جنگ ایکLuxury ہے۔ اور جو 70سال سے عربوں سے جنگیں کر رہا ہے۔ اور اقتصادی اور معاشی طور پر بہت خوشحال ہے۔
   شام ایک خود مختار ملک ہے۔ شام کی حکومت نے اپنے ملک کی بقا اور سلامتی میں انتہائی مشکل ترین حالات میں ایران سے مدد مانگی تھی۔ ایران نے دمشق حکومت کو گرنے سے بچایا ہے۔ اور اس کے ساتھ اس خطہ کو بھی ایک بہت بڑی تباہی سے بچایا ہے۔ لہذا ایران کی شام میں موجودگی کو تنازعہ بنانے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب نے جن خدشوں کی وجہ سے مصر کے لوگوں کی جمہوریت کا خاتمہ کرایا تھا۔ اسرائیل اور سعودی عرب کو شام کے حالات میں بھی ان خدشوں کو مد نظر رکھنا چاہیے تھا۔ شام میں ان کا جو رول تھا انہیں اب اس کی قیمت بھی ادا کرنا ہو گی۔ شام میں ایران کی موجودگی اگر اسرائیل کے لئے اتنا بڑا خطرہ ہے تو پھر امریکہ کو اسرائیل کی سرزمین پر اپنا فوجی اڈہ قائم کرنا چاہیے اور اسرائیل کا دفاع کرنا چاہیے۔ جیسے امریکہ کی فوجیں جنوبی کوریا میں ہیں۔ اور 60سال سے جنوبی کوریا کا شمالی کوریا سے خطروں کا دفاع کر رہی ہیں۔ یا جس طرح امریکہ کی فوجیں جاپان میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سے بیٹھی ہوئی ہیں اور جاپان کا شمالی کوریا اور چین سے خطروں کا دفاع کر رہی ہیں۔ امریکہ کی فوجیں عرب دنیا کے ہر کونے میں ہیں اور اسرائیل کا دفاع کر رہی ہیں لیکن اسرائیل پھر بھی ایران کے خطرے سے خوفزدہ ہو رہا ہے۔