Sunday, February 26, 2017

Terrorism In Pakistan: Target Those Countries And Individuals Who Are Funding Terrorists

Terrorism In Pakistan: Target Those Countries And Individuals Who Are Funding Terrorists

In This Regard, Trump Administration Should Help Pakistan     
Pakistan’s Neighbors Are Uncooperative 

مجیب خان
Lahore terrorist attack on February 23, 2017

Pakistan Army General Bajwa

Retired Army General Raheel Sharif
     بڑے عرصہ بعد پاکستان کے بارے میں عالمی میڈیا میں کچھ اچھی خبریں آ رہی تھیں۔ پاکستان کی معاشی صحت بہتر ہونے کی خبریں آ رہی تھیں۔ پاکستان میں چین کے ساتھ  CPEC منصوبوں پر بڑی تیزی سے عملدرامد ہونے کی خبریں بھی آ رہی تھیں۔ گوادر کی بندر گاہ پر تجارتی بحری جہازوں کی آمد و رفت شروع ہونے کی خبریں بھی آ رہی تھیں۔ پاکستان میں گزشتہ دنوں غیر ملکی کمپنیوں کے اعلی حکام کی کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا۔ یہ کمپنیاں پاکستان میں انویسٹ کرنے میں دلچسپی لے رہی تھیں۔ پھر اس دوران 37 ملکوں کی پاکستان کے ساتھ بحر عرب میں مشترکہ نیول مشقوں کی خبر بھی آئی تھی۔ امریکہ، روس، چین کی بحریہ نے ان مشقوں میں حصہ لیا تھا۔ ان کے علاوہ آسٹریلیا، جاپان، انڈونیشیا، ترکی، برطانیہ اور ملیشیا کی بحریہ بھی ان مشقوں میں شریک تھیں۔ ان اچھی خبروں سے پاکستان کے اندر، پاکستان کے باہر، پاکستان کے ہمسایہ میں ان لوگوں کو دھچکا پہنچا تھا جو پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کی مہم چلا رہے تھے۔ اور جو بھارت کی یوم جمہوریہ کی تقریب میں ابو دہا  بی کے ولی عہد شہزادہ شیخ محمد بن زید النہان کی خصوصی شرکت اور مودی حکومت کے ساتھ 75 بلین ڈالر انویسٹمینٹ کے معاہدہ پر "ہاۓ ہاۓ پاکستان تنہا ہو گیا" کی بانسریاں بجا رہے تھے۔ انہیں پاکستان کے بارے میں اچھی خبروں سے مایوسی ہوئی تھی۔ اور پھر پاکستان کے بارے میں دنیا کو بری خبریں دینے کے لئے انہوں نے اپنی چھریاں تیز کرنا شروع کر دی تھیں۔ گزشتہ 15 روز میں دہشت گردی کے آگے پیچھے کئی دھماکہ کر کے انہوں نے دنیا کو یہ بری خبریں دی ہیں کہ دہشت گرد پاکستان میں ابھی زندہ ہیں۔ یہ بے گناہ لوگوں کے مسلمان قاتل ہیں۔ جنہیں اللہ نے اسلام سے خارج کرنے کا فیصلہ کر لیا ہو گا۔ اور ان پر اللہ اور اس کے نبی صلعم کے قریب آنے کے تمام دروازے بند کرنے کا حکم صادر کر دیا ہو گا۔ رسول اللہ صلعم کے دور میں اسلام قبول کرنے والوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا تھا۔ آج وہ بر تاؤ مسلمان مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اور اس برتاؤ سے تنگ آ کر مسلمان خاندان آج غیر مسلم ملکوں میں پناہ لینے کے لئے عیسائی ہو رہے ہیں۔ اللہ کے اسلام پر یہ برا وقت اسلامی جماعتیں اور ان کے قائدین کی وجہ سے آیا ہے۔ اسلام پر اتنے برے وقت میں بھی یہ فرقہ پرستی کی نفرتیں پھیلا رہے ہیں۔ یہ فحاشی کو بے غیر تی کہتے ہیں۔ لیکن ان کی بے غیر تی فحاشی سے کم نہیں ہے۔
    15 دن میں پاکستان میں دہشت گردی کے 6 واقعات ہوۓ ہیں۔ جن میں تقریباً تین سو کے قریب بے گناہ لوگ مارے گیے ہیں۔ دہشت گردوں نے جو خود کو مسلمان کہتے تھے۔ تین سو خاندانوں کی دنیا انہوں نے تاریک کر دی ہے۔ تین سو خاندانوں کے گھروں میں کہرام مچا ہوا ہے۔ لیکن مذہبی جماعتوں کے رہنما بالکل خاموش ہیں۔ جیسے مودی کے انتہا پسند ہندو اور پاکستان کے مذہبی رہنما ایک ہی صفحہ پر ہیں۔ اسلامی جماعتوں کے رہنما پاکستان کو بچانے کی باتیں کرتے ہیں۔ اور مودی کے انتہا پسند ہندو پاکستان کو تباہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ بھارت کے انتہا پسند ہندو جب پاکستان کو تباہ کرنے کی باتیں کرتے ہیں تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ پاکستان کے دشمن ہیں۔ لیکن پاکستان میں اسلامی رہنما 70 سال سے پاکستان کو بچانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اور پھر یہ کہتے ہیں کہ صرف اسلام ہی پاکستان کو بچا سکتا ہے۔ لیکن پاکستان اب اسلام کو بچانے کے لئے مذہبی انتہا پسندوں سے لڑ رہا ہے۔ یہ اسلامی رہنما پاکستان کو دہشت گردوں سے بچانے باہر آۓ ہیں اور نہ ہی سر سے کفن باندھ  کر اسلام کو بچانے سڑکوں پر نکلے ہیں۔ ان کی اسلامی سیاست سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوا ہے؟ پاکستان آج جس  mess میں ہے۔ اس کی ذمہ دار یہ مذہبی جماعتیں ہیں۔ جو جنرل ضیا الحق کو اقتدار میں لائی تھیں۔ اور پھر جنرل ضیا الحق سے پاکستان میں اسلامائزیشن کا کام لیا تھا۔ اور افغانستان کے جہاد کو بھی اس اسلامائزیشن کا حصہ بنا لیا تھا۔ مسجدوں کی بھر مار اور مدرسوں کے پھیلاؤ سے پاکستان ایک اچھا معاشرہ بننے کے بجاۓ بدتر معاشرہ بن گیا ہے۔ اور اسلام کے نام پر دہشت گردی تمام برائیوں کی ماں ہے۔
    پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف فوجی کاروائیوں کو 13 سال ہو گیے ہیں۔ تین آرمی چیف دہشت گردی کے خلاف جنگ کرتے رٹائرڈ ہو گیے ہیں۔ اور اب  چوتھے آرمی چیف نے بھی اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کا عزم کیا ہے۔ اس جنگ کے تین محاذ ہیں۔ لیکن صرف فوجی محاذ پر جنگ لڑی جا رہی ہے۔ سیاسی محاذ sideline پر ہے۔ مذہبی رہنماؤں کا محاذ اعتکاف میں ہے۔ جبکہ پاکستان کے ہمسایہ uncooperative ہیں۔ فوجی محاذ کے ساتھ اگر یہ تین محاذ بھی سرگرم ہوتے تو دہشت گردی ختم کرنے میں بارہ سال نہیں لگتے اور یہ جنگ ابھی تک جاری ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ بھی کشمیر اور ‌فلسطین کا تنازعہ بنا دیا ہے۔ جس کا شاید کوئی حل نہیں ہے۔ کشمیر میں بھارتی فوج اور فلسطین میں اسرائیلی فوج بے گناہ لوگوں کے خلاف دہشت گردی کر رہی ہیں۔ جبکہ پاکستان اور بعض دوسرے اسلامی ملکوں میں دہشت گرد بے گناہ لوگوں کے خلاف دہشت گردی کرتے رہیں گے۔ عراق کی طرح اب شام میں بھی بموں کے دھماکے ہوتے رہیں گے۔ عراق میں تیرہ سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ حالات پیدا کرنے کی منصوبہ بندی صدر بل کلنٹن کے دور سے ہو رہی تھی۔ اور نائن الیون اس منصوبہ کا حصہ تھا۔ جس کے بعد اس منصوبہ کو عملی جامہ بنایا گیا ہے۔
    اسلامی رہنما کیونکہ اس دنیا میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو آخرت کو اپنی دنیا بنانے کا درس دیتے ہیں۔ اور اس میں یقین رکھتے ہیں۔ لہذا یہ دنیا مسلمانوں کے لئے جہنم بن گئی ہے۔ حالانکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ دنیا میں تمہارے عمال اور کردار سے تمہاری آخرت بنے گی۔ اسلامی رہنما اگر ذرا بھی دور اندیش ہوتے اور ان میں سوجھ بوجھ ہوتی وہ ان کے منصوبوں کو کبھی کامیاب نہیں بناتے۔ مراکش سے لے کر افغانستان تک دہشت گردی بالکل نہیں ہونے دیتے۔ ان کی سازشوں کو بے نقاب کرتے رہتے۔ انہیں ناکام کرنے کی یہ بہترین اسٹرٹیجی تھی۔ لیکن ستم ظریفی یہ تھی کہ اسلامی رہنما ان کی سازشوں کو کامیاب بنانے کی سازشیں کرنے لگے تھے۔ پاکستانی جب یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو رہے  تھے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ان کی ہے۔ تو پھر پاکستان کے مختلف شہرو ں میں بموں کے ہونے لگے تھے۔ اور پھر ان سے پوچھا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اب بھی تمہاری نہیں ہے۔ پھر اسے سب نے تسلیم کر لیا کہ ہاں یہ ہماری جنگ ہے۔ سیاست میں مذہب کے بہت زیادہ رول نے سازش کو اسلام کا چھٹا ستون بنا دیا ہے۔
    پاکستان کی ستر سال کی تاریخ میں فوج کے کردار پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ لیکن ستر سال کی تاریخ میں اسلامی جماعتوں کے کردار پر کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔ سیاست میں مذہبی جماعتوں کی مداخلت سے پاکستان کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ ایوب خان کی حکومت کا زوال ہونے کے بعد اسلامی جماعتوں پر عائد پابندیاں بھی ختم ہو گئی تھیں۔ مذہب کے نام پر سیاست ہونے لگی تھی۔ پاکستان ٹوٹ گیا تھا۔ اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تھا۔ 1977 میں اسلامی جماعتوں کی انتخابات میں دھاندلیوں کے نام پر نظام مصطفی کی تحریک کے نتیجہ میں پاکستان  کا جمہوری آئین توڑ دیا اور اسلامی جماعتیں فوج کو اقتدار میں لے آئیں تھیں۔ اور ملک کو پھر مارشل لا کے حوالے کر دیا تھا۔ جماعت اسلامی اقتدار کی اس قدر بھوکی تھی کہ یہ جنرلوں کی حکومت میں شامل ہو گئی تھی۔ عوام سے انہوں نے نئے انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا اور انہیں اسے پورا کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اسلامی جماعتوں نے قوم کو دھوکا دیا تھا۔  جمہوریت کے خلاف انہوں نے سازش کی تھی۔ جماعت اسلامی کی جنرل ضیا الحق کی حکومت میں شمولیت، اسلامی جماعتوں کی جنرل ضیا الحق کے فیصلوں کی حمایت، ایک انتہائی Rigid قبائلی افغانستان میں جہاد کو فروغ دینے کی اسلامی جماعتوں کی نامعقول حمایت کے یہ نتائج ہیں۔ جس کے عذاب میں 36 سال گزرنے کے بعد ابھی تک پاکستان پھنسا ہوا ہے۔ اور یہ اسلامی جماعتیں اپنے اس ماضی کے آئینے میں اپنے چہرے دیکھنا پسند نہیں کرتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوریت کو انہوں نے ناکام بنایا تھا۔ جنرل ضیا الحق نے پاکستان کو جو اسلامی نظام دیا تھا اسے بھی انہوں نے ناکام کر دیا تھا۔ لیکن افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف اسلامی جہاد سے صرف امریکہ کو انہوں نے کامیاب کیا تھا۔ یہ رہنما باتیں بہت کرتے ہیں۔ لیکن کام کی بات کبھی نہیں کرتے ہیں۔ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے بارے میں ان کے پاس تجویزیں ہیں اور نہ ہی مشورے ہیں۔ اسلام کے لئے یہ المیہ ہیں۔
    پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف اب اور زیادہ Drastic اقدام کرنا ہوں گے۔ اور جو انہیں فنڈنگ کر رہے ہیں۔ انہیں بھی ٹارگٹ کرنا ہو گا۔ دنیا میں پیسوں کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔ پیسوں کے بغیر انسان سانس نہیں لے سکتا ہے۔ دہشت گردوں کی فنڈنگ بند کرانا ہو گی۔ سلامتی کونسل کے ذریعہ ان ملکوں اور افراد کے خلاف کاروائی کی درخواست کی جاۓ جو دہشت گردوں کی فنڈنگ کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کو بھی اسلامی دہشت گردی کے خلاف اپنی اسٹرٹیجی میں سب سے پہلے دہشت گردوں کی فنڈنگ کو ٹارگٹ کرنا ہو گا۔ خلیج کی حکومتوں کو بھی اس سلسلے میں Blunt Message دینا ہو گا۔ اور Sanction بھی کیا جاۓ۔                                      

Tuesday, February 21, 2017

America’s Decision To Block Libya Envoy On Israel’s Objection Was Not President Trump’s "America First" Strategy

America’s Decision To Block Libya Envoy On Israel’s Objection Was Not President Trump’s "America First" Strategy     

Israel Is Allergic To The Word “Palestine”

مجیب خان
Israeli Prime Minister and U.S. President meet at the White House

Israel's largest city, Tel Aviv

Palestinian refugees in Syria agree to work with Assad to oust ISIS from refugee camps

Lebanon refugee camp shelters Palestinians, haunted by memories of war, past and present 

     اسرائیل 69 سال کا ہو گیا ہے۔ لیکن امریکہ نے اسرائیل کو جیسے ابھی تک grow up نہیں ہونے دیا ہے۔ امریکہ کی انگلی پکڑ کر چلنے کی اسرائیل کی عادت بن گئی ہے۔ امریکہ کے لا ڈ و پیار نے اسرائیل کو brat بنا دیا ہے۔ اسرائیل جب سے وجود میں آیا ہے۔ اس نے جب بھی امریکہ سے جو مانگا ہے۔ امریکہ نے کبھی نہیں کیا ہے اور اسرائیل کو وہ فراہم کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے 192 رکن ملکوں میں اسرائیل ابھی تک امریکہ کے سہارے پر ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف یا اس کی مذمت میں قراردادوں کو امریکہ نے ہمیشہ ویٹو کیا ہے۔ اور اسرائیل کو خود ان قراردادوں کا سامنا کرنے کے قابل نہیں بنایا ہے۔ گزشتہ سال  اوبامہ انتظامیہ نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں نئی یہودی بستیاں آباد کرنے کی اسرائیلی پالیسی کے خلاف سلامتی کونسل میں ‍قرارداد کو جسے کونسل کے 14 اراکین نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ لیکن امریکہ نے قرارداد کو ویٹو نہیں کیا تھا صرف ووٹنگ میں حصہ  نہیں لیا تھا۔ جس پر اسرائیل نے خاصا واویلا کیا تھا کہ اوبامہ انتظامیہ نے اس قرارداد کو ویٹو کیوں نہیں کیا تھا؟ اسرائیل کا behavior بالکل brat بچے جیسا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ کو اسرائیل کے اس Behavior پر اسے  38 بلین ڈالر کی امداد یاد دلا کر خاموش کرنا پڑا تھا۔
    ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کی حمایت میں سلامتی کونسل میں پہلا ویٹو  کیا ہے۔ جس سے بہت سے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ سلامتی کونسل میں یہ ویٹو کیا America first تھا یا Israel first تھا۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ کو دنیا میں اب کوئی استعمال نہیں کرے گا۔ لیکن امریکہ صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے تیس دن میں استعمال ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل Antonio Guterres نے فلسطینی اتھارٹی کے سابق وزیر اعظم سلام فیائد (Salam Fayyad) کو لیبیا کے لئے اقوام متحدہ کا خصوصی نمائندہ نامزد کیا تھا۔ لیبیا میں وزیر اعظم فیاض سراج کی حکومت کو اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہے۔ اور یہ حکومت ملیشیا اور اسلامی انتہا پسندوں کے خطرے کا سامنا کر رہی ہے۔ سلام فیائد اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ کی حیثیت سے وزیر اعظم فیاض سراج کی حکومت کو کامیاب بنانے میں معاونت کرتے اور حکومت اور مختلف گروپوں میں مصالحت کرانے کوششیں کرتے۔ 2011 میں امریکہ اور نیٹو کی فوجی مداخلت کے نتیجہ میں صدر قدافی کی حکومت کا زوال ہوا تھا۔ جس کے بعد لیبیا خانہ جنگی کا سامنا کر رہا ہے۔ داعش اور دوسرے اسلامی انتہا پسند گروپ لیبیا میں قدم جمانے کے لئے لڑ رہے ہیں۔ سابق فلسطینی وزیر اعظم سلام فیائد کی اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ براۓ لیبیا کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کو خوش کرنے کے لئے اس نامزدگی کو ویٹو کر کے دراصل اقوام متحدہ کی لیبیا میں استحکام اور امن کی کوششوں کو سبوتاژ کیا ہے۔ حالانکہ سابق فلسطینی وزیر اعظم کی اقوام متحدہ کے لیبیا کے لئے خصوصی نمائندے کی نامزدگی سے اسرائیل کا کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔ کیونکہ اسرائیل کو فلسطینیوں سے نفرت ہے۔ اس لئے اسرائیل نے سابق فلسطینی وزیر اعظم سلام فیائد کی نامزدگی کی مخالفت کی ہے۔ اور ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل سے Obsession میں سلامتی کونسل میں اس نامزدگی کو ویٹو کر دیا۔ مشرق وسطی میں 80 فیصد مسائل امریکہ کی ان پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ اس نامزدگی کو ویٹو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل Antonio Guterres کو 190 ملکوں نے اس عہدے کے لئے منتخب کیا ہے۔ اور یہ ویٹو سیکرٹیری جنرل اور 190 ملکوں کی توہین تھا۔
    سلام فیائد نے مغرب میں تعلیم حامل کی تھی۔ 2007 سے 2013 تک فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم تھے۔ سلام فیائد نے اپنے دور میں جو اصلاحات کی تھیں۔ بش انتظامیہ نے انہیں خاصا سراہا یا تھا۔ سابق وزیر اعظم سلام فیائد کے لیبیا میں قدافی دور سے پرانے تعلقات تھے۔ اور وہ لیبیا میں سیاسی استحکام کے لئے بہتر کردار کر سکتے تھے۔ سلام فیائد لیبیا میں مختلف سیاسی کرداروں کو جانتے تھے۔ اور عربی بھی بولتے تھے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل کا یہ ایک اچھا انتخاب تھا۔ لیبیا میں داعش، القا عدہ اور اسلامی انتہا پسندی کے خاتمہ کی سیاسی کوشش میں سلام فیائد ایک اہم رول ادا کر سکتے تھے۔ لیکن اسرائیل کی سیاست میں امریکہ نے ویٹو کر کے  اپنی سیاست کے لئے ہمیشہ مشکلات پیدا کی ہیں۔ اور دنیا کے لئے Miserable حالات پیدا کیے ہیں۔  صدر ٹرمپ نے اپنے اس انتخابی وعدہ کو پورا نہیں کیا ہے کہ امریکہ کو ہمیشہ سب نے استعمال کیا ہے۔ لیکن جب وہ صدر ہوں گے تو امریکہ کو کوئی استعمال نہیں کرے گا۔ لیکن سلامتی کونسل میں سیکرٹیری جنرل کے لیبیا کے لئے خصوصی نمائندہ کی نامزدگی کی اسرائیل کی مخالفت پر ویٹو کر نے کا فیصلہ دراصل اسرائیل نے امریکہ کو استعمال کیا ہے۔ حالانکہ مڈل ایسٹ میں امن اور استحکام کی سیاسی کوششوں میں اقوام متحدہ سے تعاون کرنے میں امریکہ کا مفاد تھا۔
    مشرق وسطی میں امریکہ کی پالیسیاں اب امریکہ کو Dead End پر لے آئی ہیں۔ اور اسرائیل کی ساٹھ سال کی پالیسیاں اب Back Fire ہو رہی ہیں۔ اسرائیل باکس میں بند ہو گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ کہہ کر کہ امریکہ فلسطین اسرائیل تنازعہ میں   Two States حل پر زور نہیں دے گا، اس تنازعہ سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔ اور اسرائیل سے یہ کہا ہے کہ اگر وہ Two States چاہتا ہے یا One States دونوں پارٹیاں اگر اس فیصلے سے خوش ہیں تو امریکہ کو بھی یہ قبول ہو گا۔ اور یہ گیند اب اسرائیل کے کورٹ میں آ گئی ہے۔ یورپ میں اسرائیل تنہا ہوتا جا رہا ہے اور امریکہ میں راۓ عامہ اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف ہوتی جا رہی ہے۔ میڈیا میں جسے Anti-Semitism کہا جا رہا ہے۔ یہ اسرائیل کی پالیسیوں کے خلاف رد عمل ہے۔ اسے Anti-Semitism کہنا غلط ہے۔ سعودی عرب کی پالیسیوں کے خلاف رد عمل کو Anti-Islam نہیں کہا جاۓ گا۔
    عراق اور شام کو تقسیم کرنے میں ناکام ہونے کے بعد اب مشرق وسطی کو نئے سیاسی اتحاد میں تقسیم کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ سنی عربوں اور اسرائیل کا اتحاد بنانے کی بھی ایک تحریک زیر غور ہے۔ اور ایران، شام، عراق اور لبنان کو اپنا ایک علیحدہ اتحاد بنانے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ جبکہ روس کا جھکاؤ شاید اس اتحاد کی طرف ہو گا۔ ترکی ایران کا ہمسایہ ہے۔ شام اور عراق بھی ترکی کے ہمسایہ ہیں۔ لہذا ترکی کے لئے سنی عربوں کے اتحاد میں شامل ہو کر اپنے قریبی ہمسائیوں کے خلاف محاذ بنانا ممکن نہیں ہو گا۔ مشرق وسطی کا جو بھی سیاسی نقشہ بنتا ہے۔ عربوں کے مقبوضہ علاقہ اور مہاجر کیمپوں میں فلسطینیوں کا تنازعہ پھر بھی رہے گا۔ سنی عرب اور اسرائیل اس کو کس طرح حل کرتے ہیں۔ یہ سوال پھر بھی کشیدگی کا سبب بنا رہے گا۔
    سنی عربوں نے اگر اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور اس کے ساتھ تعلقات بحال ہو گیے تو پھر فلسطین کے تنازعہ کا حل اور مشکل ہو جاۓ گا۔ خلیج کی عرب ریاستوں نے اسرائیل کے ساتھ ابھی صرف رابطہ بحال کیے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ محدود تجارت شروع کی ہے۔ سعودی عرب نے بھی اسرائیل کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھولیں ہیں۔ ایران کے مسئلہ پر سعودی عرب اور اسرائیل ایک page پر آ گیے  ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ سنی عربوں کی ان سرگرمیوں کا نتیجہ یہ دیکھا جا رہا ہے کہ اسرائیل نے آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ترک کر دیا ہے۔ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کا کام تیز کر دیا ہے۔ مصر نے اسرائیل کو اس شرط پر تسلیم کیا تھا کہ اسرائیل فلسطین کا تنازعہ حل کرے گا۔ اور عربوں کے مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی فوجیں واپس جائیں گی۔ امریکہ نے بھی اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ لیکن مصر اسرائیل کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو 38 سال ہو گیے ہیں۔ اور اس پر ابھی تک مکمل عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ 1993 میں اوسلو معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کو 23 سال ہو گیے ہیں اور اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ اسرائیل نے آج تک اقوام متحدہ کی کسی ایک قرارداد پر عمل نہیں کیا ہے۔ امریکہ سلامتی کونسل میں اسرائیل کی ہر غیر قانونی کاروائیوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو ویٹو کر کے انہیں قانونی کرتا رہا ہے۔ لوگوں کے ساتھ جب ناانصافیاں  ہونے لگتی ہیں۔ انہیں انصاف دینے کے تمام راست بند ہو جاتے ہیں۔ تو لوگ پھر ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔                                                     

         

Wednesday, February 15, 2017

In Islam, The Holiest Place Has Become The Warehouse of Western Countries’ Arms

In Islam, The Holiest Place Has Become The Warehouse of Western Countries’ Arms 

Saudi Arabia Should Be "The Vatican" For The Muslim World

مجیب خان
Mecca, Saudi Arabia 

Coordinated military exercises between Arab Nations

Masjid al-Nabi, The Prophet's Mosque, is the Place where he is buried  

Fighter Jets provided by Western Nations

     صدر ٹرمپ کے اقتدار کا یہ چوتھا ہفتہ ہے۔ 25 روز میں صدر ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کے علاوہ عالمی رہنماؤں کو فون کیے ہیں۔ مڈل ایسٹ میں بادشاہوں، خلیج کے امیروں اور ڈکٹیٹروں کو فون کیے ہیں۔ اور ان سے مڈل ایسٹ کی صورت حال، اسلامی دہشت گردی کے خلاف اقدامات اور دوسرے اہم امور پر گفتگو کی ہے۔ لیکن مڈل ایسٹ کے 300 ملین لوگوں سے صدر ٹرمپ نے ابھی تک براہ راست خطاب نہیں کیا ہے۔ اور نہ ہی انہیں آزادی اور جمہوریت کے بارے میں کوئی پیغام دیا ہے۔ ابھی تک صرف Radical Islamic Terrorism کی بات ہو رہی ہے۔ ان 300 ملین لوگوں کو عرب ڈکٹیٹروں اور Radical Islamic Terrorism کے درمیان Sandwich بنا دیا ہے۔ اس صدی کی دو سابقہ انتظامیہ مڈل ایسٹ کے لوگوں کو آزادی اور جمہوریت دینے اور Radical Islamic Terrorism سے نجات دلانے میں بری طرح ناکام ہوئی ہیں۔ صدر جارج بش کا عراق مشن اور صدر اوبامہ کا لیبیا، یمن اور شام مشن Debacle ثابت ہوۓ ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے مڈل ایسٹ کے 300 ملین لوگوں کو سات اسلامی ملکوں کے شہریوں کی امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا پیغام دیا ہے۔
   ان سات ملکوں میں سے تین ملک سوڈان، یمن اور صومالیہ پر سرد جنگ میں امریکہ نے اپنی پسند کے ڈکٹیٹر مسلط کیے تھے۔ اور 50 سال انہیں اپنے مفاد میں استعمال کیا تھا۔  ان ڈکٹیٹروں نے اپنے عوام کا خوب Plunder کیا تھا۔ اور انہیں غریب بنا کر رکھا تھا۔ اور اس غربت نے انہیں انارکسٹ بنا دیا تھا۔ جو سرد جنگ ختم ہونے کے بعد انتہا پسند ہو گیے تھے۔ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ نے انہیں اسلامی ریڈیکل بنا دیا ہے۔ جبکہ عراق لیبیا اور شام کو امریکہ برطانیہ اور فرانس کی مداخلت اور غیر قانونی فوجی مہم جوئیوں نے پہلے ان ملکوں کو عدم استحکام کیا ہے۔ پھر ان ملکوں میں انتشار پھیلایا ہے۔ اور پھر اسلامی گروپوں کو ان ملکوں میں داخل ہونے اور اسلامی ریڈیکل بننے کے موقعہ دئیے ہیں۔ جبکہ ایران پر پابندیاں دراصل سعودی حکومت اور اسرائیل کو خوش رکھنے کے لئے لگائی گئی ہیں۔ ایران پر پابندیاں “America First” پالیسی کیسے بن گئی ہیں؟ اگر برطانوی شہری لندن میں ہائڈ پارک میں ملکہ برطانیہ یا اپنی حکومت کے خلاف نعرے بازی یا سخت باتیں کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ برطانیہ کے دشمن ہیں۔ ایرانی اگر اپنے شہروں میں امریکی پالیسیوں کے خلاف سخت باتیں کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ امریکہ دشمن ہیں۔ ایرانی عوام بلاشبہ امریکی عوام کے خلاف نہیں ہیں۔ ایران نے افغانستان میں طالبان کے خلاف فوجی کاروائی کی حمایت کی تھی۔ القا عدہ اور داعش کے خلاف بھی ایران عراق اور شام کی حکومتوں کی مدد کر رہا ہے۔ شام میں جو دہشت گردوں کی مدد کر رہے تھے۔ انہیں تربیت اور اسلحہ دے رہے تھے۔ کیا وہ دہشت گردی کے خلاف تھے؟ ٹرمپ انتظامیہ میں القا عدہ کے خلاف یمن میں پہلی فوجی کاروائی ہوئی تھی۔ لیکن القا عدہ یمن میں سعودی حکومت کی مدد کر رہی ہے اور ہوتیوں سے لڑ رہی ہے۔ شام میں القا عدہ داعش سے لڑ رہی تھی۔ اور داعش اسد حکومت کے خلاف باغیوں کے ساتھ  لڑ رہی ہے۔ جنہیں امریکہ اور خلیج کے ملکوں کی پشت پنا ہی تھی۔
           
    Human destruction is the serious problem for the Nation-State’s Security
Saudi airstrike against Houthi rebels near Sanaa Airport on March 26, 2015, which killed at least 13 civilians
   
   ایک ایسے خطہ میں جہاں اسلامی انتہا پسندی کی جڑیں بہت گہری تھیں۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پالیسیاں اس خطہ کو مسلسل عدم استحکام کر رہی ہیں۔ اس خطہ میں نصف درجن جنگیں ہو رہی ہیں۔ اسلحہ فروخت کیا جا رہا ہے۔ اسلحہ انتہا پسندوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ ایسا نظر آ رہا ہے کہ یہ جنگیں جیسے القا عدہ کو زندہ رکھنے اور دہشت گردوں کو پیدا کرنے کی فیکٹری ہیں۔ داعش، النصرہ، الشہاب اور شمالی افریقہ میں بعض دوسرے گروپ اس فیکٹری سے پیدا ہوۓ ہیں۔ خلیج کی ریاستیں ان جنگوں میں ایک کلیدی رول ادا کر رہی ہیں۔ ان جنگوں نے عرب اسپرنگ کو شکست دی ہے۔ جو القا عدہ کی بڑی فتح تھی۔ اور عرب حکمران ان جنگوں میں کھربوں ڈالر انویسٹ کرتے رہیں گے۔ امریکہ اور نیٹو کا مفاد Militarism اور Armament Industry کو ان جنگوں کے ذریعہ زندہ رکھنا ہے۔ سعودی عرب اور خلیج کی حکومتوں کو ایک جنگ یمن میں دی گئی ہے۔ دوسری شام میں اسد حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کی جنگ ہے۔ اور تیسری جنگ القا عدہ اور داعش کے خلاف ہے۔ اور ایران کے ساتھ جنگ Waiting List میں ہے۔ القا عدہ کا خاتمہ کرنے کی جنگ کو 16 سال ہو گیے ہیں۔ امریکہ کی دو اور برطانیہ کی تین حکومتیں القا عدہ کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہو کر چلی گئی ہیں۔ عراق میں 13 سال سے عدم استحکام ہے۔ اور شیعہ سنی خانہ جنگی جاری ہے۔ شام میں خانہ جنگی کو 6 سال ہو گیے ہیں۔ اور یمن کی جنگ کو تقریباً 3 سال ہو گیے ہیں۔ پرانی جنگیں ختم نہیں ہو رہی ہیں۔ لیکن نئی جنگوں کا ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سعودی عرب اور خلیج کی ریاستیں عرب اسپرنگ کی کامیابی سے شاید اتنی Vulnerable نہیں ہوتی کہ جتنی ان جنگوں میں ناکامیوں سے یہ ریاستیں Vulnerable ہوتی جا رہی ہیں۔
    سعودی عرب اور خلیج کی حکومتوں کو ان حالات سے خوفزدہ  کرکے امریکہ برطانیہ اور فرانس کا ان عرب ملکوں کو ہتھیاروں کی فروخت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک دور تھا جب خلیج کے ملک مغربی ملکوں کی صنعتی ترقی کی Life Line تھے۔ اور اب خلیجی ملک مغربی ملکوں کی ہتھیاروں کی صنعت کے لئے Life Line بن گیے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے مڈل ایسٹ کی صورت حال کا ابھی پوری طرح جائزہ نہیں لیا ہے۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ پہلے سعودی عرب اور بحرین کو بڑے پیمانے پر ہتھیار فروخت کرنے کی توثیق کرنے جا رہی ہے۔ سعودی عرب کو 300 ملین ڈالر کی میزائل ٹیکنالوجی فروخت کی جاۓ گی۔ اور بحرین کے لئے کھربوں ڈالر کے جنگی طیاروں کی فروخت کے معاہدے شامل ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں سینیٹ نے سعودی عرب کے لئے 1.15 بلین ڈالر کی مالیت کے ٹینکوں اور دوسرا فوجی سامان فروخت کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ جبکہ اسی سال اگست میں پینٹاگان نے اعلان کیا تھا کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے سعودی عرب کو 130 Abrams ٹینکوں، 20 Armored recovery vehicles اور دوسرا فوجی ساز و سامان فروخت کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اور ان ہتھیاروں کی فروخت کا سب سے بڑا Contract بھی General Dynamics Corp کو دیا گیا تھا۔ اکتوبر 2010 میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے سعودی عرب کو 60 بلین ڈالر کی مالیت کے ملٹری ائرکرفٹ فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس میں 84 نئے بوئنگ، F-15 ائرکرفٹ اور سعودی عرب کے پاس پہلے سے 70 F-15 طیاروں کو Upgrade کرنے کا کہا تھا۔ اس کے علاوہ بوئنگ کے 70 Apache    helicopters بھی شامل تھے۔ امریکہ نے سعودی عرب کی نیوی کو جدید بنانے کی ڈیل کا بھی عندیہ دیا ہے جس کی مالیت 30 بلین ڈالر ہوگی۔
   امریکہ کے علاوہ برطانیہ نے 2015 میں سعودی عرب کو2.9 بلین پونڈ کا اسلحہ فروخت کیا تھا۔ سعودی عرب برطانیہ کے ہتھیاروں کا بھی ایک اہم گاہک ہے۔ مارچ 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں مڈل ایسٹ ملکوں کا اتحاد جب ہوتی باغیوں سے یمن کا دارالحکومت خالی کرانے کی کوشش کر رہا تھا اس موقعہ پر برطانیہ نے سعودی عرب کو 3.3 بلین پونڈ کا اسلحہ فروخت کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ امریکہ اور برطانیہ کے بعد فرانس نے بھی سعودی عرب کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا تھا۔ 2015 میں یمن جنگ کے دوران فرانس نے  18.8 بلین ڈالر کا اسلحہ سعودی عرب کو فروخت کیا تھا۔
    سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں کے ساتھ کھربوں ڈالر کی ہتھیاروں کی تجارت نے اس خطہ کو ہتھیار فروخت کرنے والے ملکوں کے لئے جنگوں کی جنت بنا دیا ہے۔ جس دن خلیج کے ملکوں کی دولت ختم ہو جاۓ گی۔ یہ جنگیں بھی اسی وقت ختم ہو جائیں گی۔ حالانکہ اس خطہ میں انتہا پسندی سے زیادہ ہتھیار عرب حکمرانوں کی سلامتی کے لئے خطرہ بن رہے ہیں۔ یہ ہتھیار شاہ ایران کو نہیں بچا سکے تھے۔ شاہ ایران کو بھی ان ہی ملکوں نے کھربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے۔ امریکہ نے شاہ کے دور میں ایران میں تین نیو کلیر پاور پلانٹ بھی لگاۓ تھے۔ صد ام حسین اور کرنل قدافی کو امریکہ برطانیہ فرانس اور (مغربی) جرمنی کی کمپنیوں نے ہر طرح کے مہلک ہتھیار فروخت کیے تھے۔ اور ان ملکوں کو ہتھیاروں کی فروخت سے کھربوں ڈالر بناۓ تھے۔ لیکن ان کی خفیہ ایجنسیاں صد ام حسین اور کرنل قدافی پر نظر ر کھے ہوۓ تھیں۔ اور پھر پہلی فرصت میں عراق اور لیبیا میں ان ہتھیاروں کو تباہ کرایا تھا۔ صد ام حسین اور کرنل قدافی کے ساتھ جو بر تاؤ ہوا تھا وہ سب کے لئے ایک خوفناک مثال ہے۔ صد ام حسین نے ایران سے جنگ لڑی تھی۔ کرنل قدافی نے اپنی فوجیں چڈ اور افریقہ کے بعض دوسرے ملکوں میں بھیجی تھی۔ سعودی عرب اب یمن سے جنگ لڑ رہا ہے۔ خلیج کے ملکوں کی ایران سے سرد جنگ جاری ہے۔ سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں کے شہری شام میں باغیوں کے ساتھ لڑ رہے تھے۔ Human Destruction سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں کی سلامتی  کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہتھیاروں پر جو کھربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ اگر سعودی عرب اور خلیج کے ملک  یہ کھربوں ڈالر اپنے خطہ میں Human Development پر خرچ کریں تو یہ ان کی سلامتی کے مفاد میں ہو گا۔                                                                                                                                                                                               

Sunday, February 12, 2017

Since The End of The Cold War The Islamic World Has Become The Battle Ground War of The Holocaust

Since The End of The Cold War The Islamic World Has Become The Battle Ground War of The Holocaust

The Leaders of The Arab-Islamic World Are Allies of America’s War Machine, And They Are
 Producing “Radical Islamic Terrorists”

مجیب خان


     ڈونالڈ ٹرمپ نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے افتتاحی خطاب میں جو اہم بات کی ہے اور عالمی میڈیا میں جیسے اہمیت نہیں دی گئی ہے، وہ یہ تھی کہ عالم اقوام کو اب اپنے مفاد کا تعین خود کرنے کا  اختیار ہوگا۔ اور امریکہ اپنے مفاد کا خود تعین کرے گا۔ اور اس کی بنیاد America first” ہو گی۔ صدر ٹرمپ کا یہ پیغام دنیا کے ہر ملک کے لئے تھا۔ جس میں عرب اسلامی دنیا کے ملک بھی شامل ہیں۔ لیکن عرب اسلامی ملکوں نے صدر ٹرمپ کے اس پیغام کو اس طرح سمجھا ہے کہ یہ عالمی سیاست میں امریکہ کے سرگرم رول سے گوشہ نشینی اختیار کرنے کا پیغام ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ نے امریکہ کے تجارتی اور معاشی امور سے متعلق معاملات کو خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں رکھا ہے۔ اور اس پالیسی کی ابتدا “Made in America”  اور “Buy America” کے قوم پرستی کے نعروں سے کیا ہے۔ اور یہ ٹرمپ انتظامیہ کی ٹریڈ اور اکنامک قوم پرست Doctrine ہے۔ اس Doctrine کی بنیاد پر ایک نئی ٹریڈ اور معاشی جنگ ہو گی۔ جبکہ پہلی جنگ صدر ٹرمپ کو ورثہ میں ملی ہے۔ “Radical Islamic Terrorism” ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی پر چھائی رہے گی۔ عرب اسلامی ملکوں کو اس جنگ میں مصروف رکھا جاۓ گا۔ اور “Radical Islamic Terrorism” سابقہ انتظامیہ کی طرح ٹرمپ انتظامیہ کو بھی ان کے ساتھ جنگ میں مصروف ر کھے گی۔ یہ ایک Premeditated war ہے۔ جس میں نقصانات سے زیادہ فائدے اٹھانے کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ اس لئے دہشت گردی ختم کرنے میں مسلسل ناکامی ہونا کسی کا موضوع نہیں ہے۔
    با ظاہر نظر ایسا آتا ہے کہ عرب اسلامی ملکوں کو نائن الیون کے بعد بش چینی انتظامیہ نے اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی منصوبہ بندی کے سلسلے میں جیسے یہ Assignment دیا تھا کہ اسلامی ملکوں کی حکومتیں امریکہ کے ساتھ اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لیں گی۔ اور اس جنگ کو ختم نہیں کیا جاۓ گا۔ اس جنگ کو جاری رکھا جاۓ گا۔ اور اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ بالکل اس منصوبے کے مطابق جاری رکھا جا رہا ہے۔ اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو سرد جنگ کا substitute بنایا گیا ہے۔  صدر اوبامہ جنگوں کے خلاف تھے۔ اور امن کے لئے کام کرنے کے عزم کے ساتھ اقتدار میں آۓ تھے۔ صدر اوبامہ کو صرف ان کے اس عزم پر امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ جو بعد میں نوبل جنگوں کا انعام ثابت ہوا تھا۔ 16 سال میں 1600 نئے اسلامی دہشت گرد گروپ دنیا کے ہر Avenue پر نظر آ رہے ہیں۔ اور اسلامی ملکوں کے حکمران بالخصوص عرب حکمران اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اپنے عوام کو ذلیل کر رہے ہیں۔ اپنے مذہب کی تذلیل کر رہے ہیں۔ اور یہ سب وہ صرف اپنے شاہانہ عیش و عشرت کے مفاد میں کر رہے ہیں۔ انہیں اسلامی دنیا کے کروڑوں بچوں کے مستقبل کی پروہ نہیں ہے۔ اسلامی دہشت گردی میں مسلمان سب سے زیادہ مارے جا رہے ہیں۔ لیکن شور امریکہ میں ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم میں امریکی عوام کو بتایا تھا کہ داعش اوبامہ انتظامیہ نے ایجاد کی ہے۔ اور اب صدر ٹرمپ داعش کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کرنے کی جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ صدر بش 8 سال تک القا عدہ کے خلاف جنگ لڑتے رہے تھے۔  صدر اوبامہ پہلے صدر بش کی القا عدہ کے خلاف اور پھر داعش کے خلاف اپنی جنگ لڑتے رہے تھے۔ اور اب صدر ٹرمپ  ان اسلامی دہشت گردوں کے خلاف اپنی جنگ شروع کریں گے۔ اور عرب اسلامی حکمران امریکہ کے نئے کمانڈر انچیف کے ساتھ اسلامی دہشت گردی ختم کرنے کی جنگ آئندہ چار سال بھی اسی طرح  لڑیں گے۔
    اس جنگ میں اصل مجرم عرب اسلامی ملکوں کے حکمران ہیں۔ جنہوں نے سرد جنگ میں کمیونزم کے خلاف اسلام کو ہتھیار بنایا تھا۔ اور پھر اپنے نوجوانوں کے کندھوں پر گنیں رکھ کر سوویت فوجوں کو نشانہ بنایا تھا۔ اور امریکہ اور مغرب کو سرد جنگ جیت کر دی تھی۔ سوویت یونین کی شکست سے اسلامی ملکوں کو کیا ملا ہے؟ اسلام آج ایک خطرناک آئيڈیا لوجی ہے جس کے خلاف امریکہ اور مغرب اب جہاد کر رہے ہیں۔ اور عرب اسلامی حکمران اس جہاد میں بھی ان کے اتحادی ہیں۔ سوویت یونین سے دشمنی میں امریکہ اور مغرب نے شیطان اور خدا دونوں کو استعمال کیا تھا۔ اسلامی دنیا کے لئے یہ تباہی اور بربادی اسلامی حکمران لاۓ ہیں۔ جو 60 سال سے امریکہ اور مغرب کی ہر جنگ میں ان کے اتحادی ہیں۔ لیکن اسلامی ملکوں کی سلامتی اور استحکام کے لئے عرب اسلامی حکمرانوں کا کبھی آپس میں ایسا اتحاد نہیں ہوا ہے۔ اور اب نائن الیون کے بعد یہ عرب اسلامی حکمران اسلامی ملکوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا رول ادا کر رہے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرے اسلامی ملک کو تباہ کرتے جا رہے ہیں۔ اگر یہ اسلامی حکمران اسلامی ملکوں کے داخلی معاملات میں امریکہ کو اتنا زیادہ اندر گھسنے کا اختیار نہیں دیتے۔ اور اپنے معاملات خود طے کر لیتے تو اسلامی دہشت گردی بھی ختم ہو جاتی۔ عرب حکمرانوں میں اپنے تنازعہ اور مسائل خود حل کرنے کی صلاحیتیں ہیں اور نہ ہی یہ اپنے عوام میں پھیلی ہوئی بے چینی کو سمجھتے ہیں۔ اللہ نے ان کو تنازعہ پیدا کرنے کی ذہانت دی ہے۔ اور انہیں اپنے عوام کو جہادی بنانا آتا ہے۔ 60 سال سے یہ امریکہ اور مغرب کی تابعداری کر رہے ہیں۔ اور اپنے عوام کو یہ اپنا تابعدار رکھنا چاہتے ہیں۔ سائنس، ٹیکنالوجی، انجیرنگ، میڈیکل سائنس میں اپنے نوجوانوں کو انہوں نے آگے آنے کا راستہ نہیں دکھایا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ نے اسلامی ملکوں کو ترقی میں 30 سے 50 سال پیچھے کر دیا ہے۔ اور اس لئے بھی یہ جنگ  جاری رہے گی ۔ اسلامی حکمران دراصل اسلامی ملکوں کو ترقی میں پیچھے رکھنے میں اسلامی دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کی مدد کر رہے ہیں۔ 

The Hodgepodge Trump Administration And America’s Warmongers

        
  The Hodgepodge Trump Administration And America’s Warmongers

Who Can Fix A Politically Incorrect America?

مجیب خان

.Once upon a time, Islamic extremists were welcomed in the White House. Now Islam is not welcome in America
    
     صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے حلف وفا داری کی تقریب میں امریکی عوام سے خطاب میں کہا کہ "آج یہ تقریب بہت خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ کیونکہ آج ہم اقتدار صرف ایک انتظامیہ سے دوسری انتظامیہ کو یا ایک پارٹی سے دوسری پارٹی کو منتقل نہیں کر رہے ہیں۔ بلکہ ہم اقتدار واشنگٹن ڈی سی سے منتقل کر کے آپ، عوام کو واپس دے رہے ہیں۔ یہ آپ کا دن ہے۔ یہ آپ کا جشن منانے کا دن ہے۔ اور یہ متحدہ ریاست ہاۓ امریکہ آپ کا ملک ہے۔ ہمارے ملک کے مردوں اور عورتوں جنہیں فراموش کر دیا گیا تھا۔ اب انہیں زیادہ فراموش نہیں کیا جاۓ گا۔ اب ہر کوئی آپ کو سن رہا ہے۔ آپ لاکھوں کی تعداد میں آۓ تھے۔ اور اس تاریخی تحریک کا حصہ بن گیے تھے۔ دنیا نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس تحریک کا مرکز ایک پختہ عزم ہے کہ قوم کا وجود اس کے شہریوں کی خدمت میں ہوتا ہے۔" ایسا پیغام دراصل مڈل ایسٹ کے تین سو ملین لوگوں کے لئے ہونا چاہیے تھا۔ مڈل ایسٹ میں بھی نصف صدی سے زیر سطح لوگوں کی ایک تحریک ہے۔ اور امریکہ نے مڈل ایسٹ کے لوگوں کو بالکل فراموش کر دیا ہے۔ 90 کے عشر ے سے مڈل ایسٹ میں صرف امریکہ کے فیصلے اور پالیسیاں لوگوں کی زندگیوں پر بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔ مڈل ایسٹ میں ملک بادشاہوں، حکمرانوں اور ڈکٹیٹروں کے ہیں۔ عام لوگ صرف ان کی رعایا ہیں۔ اور لوگوں کو "یہ ملک ان کا ہے"  کا احساس دلانے والا کوئی نہیں ہے۔ مڈل ایسٹ میں قوم کا وجود شہریوں کا بادشاہوں، حکمرانوں اور ڈکٹیٹروں کی خدمت کرنے میں سمجھا جاتا ہے۔ مڈل ایسٹ میں لوگوں کی زیر سطح تحریک کا لاوا ابل کر باہر آگیا ہے۔ 90 کے عشر ے  سے امریکہ کے 41 ویں صدر سے 44 ویں صدر تک امریکہ نے اپنے فیصلوں اور پالیسیوں میں مڈل ایسٹ کے لوگوں کو بالکل فراموش کر دیا تھا۔ اور اپنے پسندیدہ  بادشاہوں، حکمرانوں اور ڈکٹیٹروں کے ساتھ مڈل ایسٹ میں استحکام رکھا تھا۔ جبکہ دوسری طرف جو ڈکٹیٹر امریکہ کی Good Book میں نہیں تھے۔ ان کے خلاف کاروائیوں سے مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کیا تھا۔ اور اب امریکہ کے 45 ویں صدر ڈونالڈ ٹرمپ عرب شہریوں کو مڈل ایسٹ کے حالات کا ذمہ دار ٹھہرا  رہے ہیں۔
    مارچ 2003 میں عراق پر اینگلو امریکہ کے Preemptive حملہ نے مڈل ایسٹ کا سیاسی نقشہ بدل دیا ہے۔ مڈل ایسٹ کے کونے کونے میں اسلامی انتہا پسندوں کو Unleash کر دیا ہے۔ ایران نے عراق میں شیعاؤں کی اکثریت ہونے کے بات کبھی نہیں کی تھی۔ اور نہ ہی عراق میں شیعاؤں کی حکومت ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ تھی جس نے صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد عراق کے شیعاؤں کو یہ خوشخبری دی تھی کہ عراق کی تاریخ میں پہلی بار شیعاؤں کو حکومت ملی ہے۔ جو عراق میں اکثریت میں تھے۔ صدر بش کی شیعاؤں کے لئے یہ خوشخبری سنیوں کے لئے بری خبر تھی۔ جس کے بعد سے عراق میں شیعہ سنی فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اور فسادات ابھی تک جاری ہیں۔ ان فسادات میں پھر عرب عیسائی بھی ٹارگٹ بننے لگے تھے۔ اور اب صدر ٹرمپ یہ کہتے ہیں کہ مڈل ایسٹ میں مسلمان عیسائوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ حالانکہ مڈل ایسٹ میں مسلمان مسلمانوں کے گلے بھی کاٹ رہے ہیں۔ یہ امریکہ کی مڈل ایسٹ پالیسی کے نتائج ہیں۔ عراق، شام اور لیبیا میں عرب عیسائی اور عرب مسلمان صدیوں سے اس طرح رہتے تھے کہ صدر بش، صدر اوبامہ اور ڈونالڈ ٹرمپ بھی ان کی مذہب کی بنیاد پر کبھی شناخت نہیں کر سکتے تھے۔ اور اینگلو امریکی فوجوں نے جب عراق پر حملہ کیا تھا تو انہوں نے عراقی عیسائوں، شیعاؤں اور سنیوں کے ساتھ یکساں بر تاؤ کیا تھا۔ اس فوجی حملہ میں ایک لاکھ عراقی مارے گیے تھے۔ اور ان میں سنیوں کے ساتھ شیعہ اور عیسائی بھی شامل تھے۔ امریکہ میں ہر انتظامیہ کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ ان کی انتظامیہ میں جو کچھ ہوا تھا۔ کچھ عرصہ بعد لوگ اسے بھول جاتے ہیں۔ اور شاید صدر ٹرمپ بھی اسے بھول گیے ہیں۔ اس لیے صدر ٹرمپ نے عراقیوں کے امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی ہے۔
   
“Keep America Safe.” How? When America’s eight-hundred military bases in the world can’t keep the world safe. America has the largest military presence in the Persian Gulf but the Persian Gulf has become unsafe and the most dangerous region in the world.

    امریکہ میں کسی کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ عیسائی فلسطینی بھی تھے۔ جو اسرائیلی فوجی قبضہ میں بربریت اور ظلم کا سامنا مسلمان فلسطینیوں کے ساتھ  کر رہے تھے۔ عیسائی فلسطینی بھی مسلمانوں کے ساتھ مہاجر کیمپوں میں تھے۔ اور عیسائی اور مسلمان فلسطینی اسرائیلی فوجی قبضہ کے خلاف شانہ بشانہ لڑ رہے تھے۔ جبکہ عرب اسرائیل تنازعہ کو میڈیا میں مسلمانوں اور یہودیوں کی لڑائی بتایا جاتا تھا۔ حالانکہ مصر کی فوج میں مصری عیسائی بھی تھے۔ شام کی فوج میں شامی عیسائی تھے۔ عراق کی فوج میں عراقی عیسائی تھے۔ اردن کی فوج میں اردنی عیسائی تھے۔ اور ان ملکوں کی فوجوں نے اسرائیل سے 1967 اور 1973 کی جنگیں لڑی تھیں۔ انٹرنیٹ آنے کے بعد اب امریکیوں کو یہ پتہ چلا ہے کہ فلسطین میں عیسائی فلسطینی بھی ہیں۔ امریکہ میں یہ بیداری آنے کے بعد اسرائیل کی پالیسیوں کے بارے میں انتظامیہ پر امریکی راۓ عامہ کا دباؤ آیا ہے۔
    صدر جارج بش کو خدا نے عراق پر حملہ کرنے اور صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کا کہا تھا۔ لیکن صدر اوبامہ سے شام میں اسلامی انتہا پسندوں کی مدد کرنے اور بشر الا اسد کو اقتدار سے ہٹانے کا کن خداؤں نے کہا تھا؟ جبکہ عراق میں شیعہ سنی فسادات جاری تھے۔ عیسائوں کو عراق چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ داعش کا زور بڑھ رہا تھا۔ یہ حالات دیکھنے کے باوجود صدر اوبامہ نے شام میں شیعہ سنی اور عیسائوں کے درمیان فسادات کے نئے محاذ کھول دئیے تھے۔ حیرت کی بات تھی کہ اوبامہ انتظامیہ نے شام کے ارد گرد کی صورت حال کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ کے اس Blunder کے نتیجہ میں ایک ملک تباہ ہو گیا، آبادی تہس نہس ہو گئی  تقریباً ایک ملین بے گناہ لوگ مارے گیے ہیں۔ حاصل کیا ہوا؟ کچھ نہیں۔ پھر پانچ سال سے شام میں دہشت گردوں اور انسانی ہلاکتوں کا یہ میلہ کیوں لگایا تھا؟
    دنیا میں مہاجرین کا بحران صد ام حسین پیدا کر کے نہیں گیے ہیں۔ اور نہ ہی بشر الا السد حکومت نے اپنے شہریوں کو ملک بدر کیا ہے۔ مہاجرین کا بحران بش اور اوبامہ انتظامیہ کی مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کرنے کی پالیسیوں نے پیدا کیا ہے۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ کے تیل کے مفادات کی اہمیت اب ختم ہو گئی ہے۔ مڈل ایسٹ میں ہتھیاروں کو فروخت کرنے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ مڈل ایسٹ سے اتنا تیل امریکہ امپورٹ نہیں کیا جا رہا ہے کہ جتنے بڑی تعداد میں ہتھیار مڈل ایسٹ میں ایکسپورٹ کیے جا رہے ہیں۔ مڈل ایسٹ کے ان حالات کے بارے میں آسان پالیسی یہ ہے کے دوسروں کو الزام دیا جاۓ۔ جیسے ٹرمپ انتظامیہ کے قومی سلامتی امور کے مشیر Michael Flynn نے کہا ہے کہ ایران مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کر رہا ہے۔ دوسروں کو الزام دینا بہت آسان ہوتا ہے۔ لیکن کیا دنیا یہ یقین کرتی ہے۔ کیا ایرانی اتنے احمق ہیں کہ جس خطہ میں وہ رہتے ہیں اس خطہ کو عدم استحکام کر کے وہ محفوظ ہو جائیں گے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اقتدار میں آنے کے بعد دو ہفتہ کے اندر ایران کو دھمکی دی ہے۔ اور دوسری دھمکی شمالی کوریا کو دی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ بھی جنگ کے موڈ میں نظر آ رہی ہے۔
    امریکہ دنیا کا انتہائی طاقتور اور دولت مند ملک ہے۔ اس کی انسانی حقوق، قانون کی بالا دستی اور اخلاقی قدریں بھی بہت Rich ہیں۔ لیکن اس کے باوجود چھوٹے اور کمزور ملکوں کے قدرتی وسائل اور کارپوریٹ  Greed  تیل کے چند کنوؤں پر قبضہ کرنے  کے لئے غیر قانونی سرگرمیاں امریکہ کی اعلی قدروں کو داغدار کر رہی ہیں۔