Tuesday, March 26, 2019

Humanity’s First Religion Is Humanity: Prime Minister Jacinda Ardern’s Love for Humanity is Natural

  Humanity’s First Religion Is Humanity: Prime Minister Jacinda Ardern’s Love for Humanity is Natural
One Billion Muslims Are Very Impressed From Prime Minister Jacinda Ardern, The Way She Brings People And Country ‘We Are One’, She Has Changed Thinking In The Islamic World
مجیب خان

Prime Minister Jacinda Ardern, very popular in the Islamic World

Prime Minister Jacinda Ardern, leaves after a visit to the Kilbirnie Mosque in Wellington, New Zealand  

United in grief: New Zealand Prime Minister Jacinda Ardern



  نیوزی لینڈ  کی لبرل پارٹی کی وزیر اعظم Jacinda Ardern کی انسانیت سے محبت Fake نہیں بلکہ  Natural تھی۔ وزیر اعظم نے انسانیت سے اپنی عقیدت کا دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ انسانیت کا پہلا مذہب انسانیت ہے۔ ایک سفید فام نسل پرست دہشت گرد نے Christ Church نیوزی لینڈ میں مسجد میں اندھا دھند فائرنگ کر کے 50 مسلمانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ وزیر اعظم Jacinda Ardern نے اسے ایک مذہبی عقیدہ پر حملہ نہیں سمجھا تھا بلکہ اسے انسانیت پر حملہ کہا تھا۔ اور نیوزی لینڈ میں آباد مسلم آبادی سے کہا ' ہم ایک ہیں اور نیوزی لینڈ  تمہارے ساتھ سوگ میں ہے۔' 50 بے گناہ لوگوں کی ہلاکتوں کا غم 7 دن تک وزیر اعظم Jacinda کے چہرے پر تھا۔ اور وہ خاصی اداس نظر آ رہی تھیں۔ جن لوگوں کے محبوب اس دنیا سے چلے گیے تھے۔ وزیر اعظم Jacinda انہیں گلے لگا رہی تھیں۔ ان کا غم وزیر اعظم کا غم تھا۔ اس المناک واقعہ پر وزیر اعظم کا over reaction تھا اور نہ ہی under reaction تھا۔ بلکہ ایک حقیقی انسانی رد عمل تھا۔ انہوں نے یہ بالکل درست کہا ہے کہ ' دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہے۔' لیکن انسانیت کا پہلا مذہب انسانیت ہے۔ انسانیت میں اس پختہ ایمان سے وزیر اعظم Jacinda Ardern نے جس طرح اس المناک صورت حال کو Handle کیا ہے۔ دنیا میں One Billion Muslim اس سے بہت متاثر ہوۓ ہیں۔ انسانیت سے وزیر اعظم Jacinda کا Love اور Compassion دیکھ کر مسلمانوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ اسلامی دنیا میں وزیر اعظم ایک پسندیدہ شخصیت بن گئی ہیں۔ انہیں ایک Special مقام حاصل ہو گیا ہے۔ اور ان کے اس کردار ہمیشہ یاد رکھا جاۓ گا۔ وزیر اعظم نے "ہم ایک ہیں" ہونے کی جو مثال قائم کی ہے۔ اسلامی دنیا میں لوگ اسے ضرور اپنی زندگی کا ایک مقدس مشن بنائیں گے۔ ایک اچھا لیڈر اپنے خلوص اور کردار سے لوگوں کا رویہ اور سوچ بدل دیتا ہے۔
As General Abdel Fateh el-Sisi imposed his decrees on Egyptian people, same, Commander in chief Donald Trump imposing his proclamations on Arab-Palestinian people, Arab-Palestinian are under Israel’s Armed Forces occupation   
President Donald Trump signs a Proclamation on the Golan Heights, alongside Israeli Prime Minister Benjamin Netanyahu 



  نظریاتی قدامت پسند مذہبی تنگ نظر ہوتے ہیں۔ دنیا کو اپنے بند ذہین سے دیکھتے ہیں۔ اس لئے روشن خیال نہیں ہوتے ہیں۔ ان کی سوچ میں تاریکی رہتی ہے۔ انسانیت سے ان کی عقیدت Fake ہوتی ہے۔ جب انسانیت کو در پیش مسائل کا حل وہ اپنے مفاد میں نہیں سمجھتے ہیں تو انسانیت سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ جیسے ہم یہ مقبوضہ فلسطین اور شام میں دیکھ رہے ہیں۔ اور جب انسانیت کی آ ڑ میں یہ اپنا مفاد دیکھتے ہیں تو انسانیت کو Exploit کرنے لگتے ہیں۔ اور یہ ہم نے عراق میں صد ام حسین اور لیبیا میں کرنل معمر قد ا فی کے خلاف دیکھا تھا۔ اور یہ ان کی موقعہ پرستی تھی کہ عراق اور لیبیا میں انسانیت کا امن تباہ کر کے چلے گیے۔ Double standard اور Hypocrisy ان کی اخلاقی قدریں ہیں۔ عراق میں انسانی تاریخ کی انتہائی فاشسٹ اقتصادی بندشوں کے نتیجہ میں 5لاکھ معصوم بچے پیدائش کے ابتدائی چند گھنٹوں میں مر جاتے تھے۔ لیکن امریکہ میں یہ Abortion کو معصوم بچہ کا قتل کہتے تھے۔ شام کے ایک معصوم  بچہ کو سمندر کی موجیں اٹلی کی ساحل پر مر دہ حال میں لائی تھیں۔ اس بچہ کی سوشل میڈیا اور تمام عالمی اخبارات میں تصویر شائع ہوئی تھی۔ امریکہ میں انہیں شام کی خانہ جنگی فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ ایک ملین لوگ پہلے ہی اس خانہ جنگی میں مارے جا چکے تھے۔ دو ملین سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گیے تھے۔ لیکن انہوں نے ہتھیاروں کے منافع کو انسانیت پر فوقیت دی تھی۔ شام میں یہ ایران کی مداخلت پر شور کر رہے تھے۔ لیکن شام کی داخلی خانہ جنگی میں یہ غیرملکی دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کر رہے تھے۔ انہیں ہتھیار اور تربیت دے رہے تھے۔ امریکہ برطانیہ فرانس سعودی عرب اسرائیل شام میں دہشت گردوں کے ذریعہ شام کے لوگوں کو آزادی دلا رہے تھے۔ لیکن شام کے ہمسایہ میں فلسطینیوں کی اسرائیل کے فوجی قبضہ سے آزادی کی جد و جہد کو دہشت گردی کہتے تھے۔ یہ ان کی انسانی اور اخلاقی قدریں تھیں۔ نظریاتی مذہبی قدامت پسند پھر جھوٹ بھی بولتے ہیں اور اپنے غلط فیصلوں کا الزام دوسروں کو دینے لگتے ہیں۔ عراق میں صدر صد ام حسین نے یہ سچ کہا تھا کہ انہوں نے تمام مہلک ہتھیار بہت پہلے تباہ کر دئیے تھے۔ لیکن بش انتظامیہ نے یہ یقین نہیں کیا تھا۔ اور فوجی حملہ کے بعد جب عراق میں مہلک ہتھیار نہیں ملے تھے۔ تو صدر بش نے کہا کہ صد ام حسین سچ کیوں نہیں بولے تھے۔
  جنہوں نے پہلے امریکہ کی فوجی طاقت کو استعمال کیا تھا اور عراق لیبیا شام یمن میں حکومتیں تبدیل کرائی تھیں۔ وہ اب امریکہ کی اقتصادی طاقت کو استعمال کر رہے ہیں۔ اور اسے Excessive economic sanctions میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ انسانیت کو ہتھیاروں سے ہلاک کرنے کے بجاۓ اب بھوک اور بیماریوں سے لوگوں کو مارا جا رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو نے کہا ہے ' ہم ایران کو اقتصادی بندشوں میں اتنا جکڑ دیں گے کہ ایرانی ریاست گر جاۓ گی۔' یہ مذہبی نظریاتی قدامت پسندوں  کی انسانیت سے نفرت کا ثبوت ہے۔ مڈل ایسٹ کو ایک منصوبہ کے تحت پہلے جنگیں دی گئی ہیں۔ پھر ان جنگوں سے دہشت گرد گروپ پیدا کیے گیے ہیں۔ ان گروپوں کی دہشت گردی سے نفرت پھیلائی گئی ہے۔ نفرت نے عربوں کو کمزور کیا ہے۔ مڈل ایسٹ میں شیعہ سنی تقسیم کے بیج صدر بش نے بوۓ تھے۔ صد ام حسین کی سنی حکومت کا خاتمہ کر کے، یہ ایران کے آیت اللہ نہیں تھے، یہ صدر بش تھے جنہوں بڑے فخر سے کہا تھا کہ ہم نے ایک ہزار سال کی تاریخ میں پہلی بار عراق میں شیعاؤں کی حکومت قائم کی ہے۔ شیعہ عراق میں اکثریت میں تھے۔ امریکہ جہاں انتہائی تعلیم یافتہ ہیں وہ مذہب کی بنیاد پر جمہوریت کا ایک سیاسی نظام عراق کو دے کر گیے ہیں۔ اور ٹرمپ انتظامیہ اب  یہ الزام ایران کو دے رہی ہے کہ ایران مڈل ایسٹ میں شیعہ سنی لڑائی کو شہ دے رہا ہے۔ مذہبی اور قدامت پسند نظریاتی جھوٹ سے اپنے آپ کو معصوم ثابت کرتے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کے ایران کو شیعہ سنی کی لڑائی سے کیا حاصل ہو گا؟ یہ لڑائی اسرائیل کے مفادات پورے کرے گی؟
  صدر ٹرمپ دو سال سے اقتدار میں ہیں۔ ان دو سالوں میں صدر ٹرمپ نے مڈل ایسٹ کو متحد کرنے کے بجاۓ اور زیادہ تقسیم کر دیا ہے۔ نفرتوں کو گہرا کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں کہا تھا ' وہ عرب اسرائیل تنازعہ میں Neutral رہیں گے۔ کیونکہ انتظامیہ اس تنازعہ کے حل میں جب کسی ایک فریق کے ساتھ پارٹی بن جاتی ہے تو پھر اسے حل کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔' صدر ٹرمپ نے اپنے اس وعدہ پر عمل نہیں کیا ہے۔ اور اسرائیل کے ساتھ پارٹی بن گیے ہیں۔ اور اس تنازعہ کے Victims کو انصاف سے محروم کرتے جا رہے ہیں۔ ان میں نفرت اور غصہ پیدا کرنے کی سیاست کر رہے ہیں۔ اور پھر یہ کہتے ہیں کہ ایرانی امریکہ کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔ آخر صدر ٹرمپ اپنے آپ سے یہ سوال کیوں نہیں کرتے ہیں وہ ایسے کیا اقدام کریں کہ انہیں امریکہ کے خلاف یہ نعرے نہیں سننا پڑیں۔ دنیا کو دھونس اور دھمکیوں سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا ہے۔ نہ ہی ان پر فیصلے مسلط کیے جا سکتے ہیں۔ یہ نظر آتا ہے کہ صدر ٹرمپ مڈل ایسٹ میں وزیر اعظم نتھن یا ہو کے لئے کام کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے حکم دیا کہ یروشلم  ہمیں دو۔ 3 ہزار سال سے یہ اسرائیل کا دارالحکومت تھا۔ صدر ٹرمپ نے یہ اسرائیل کو دے دیا۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے جب صدر پو تن سے یہ کہا تھا تو ان کا جواب تھا آج کی بات کریں۔ اور صدر ٹرمپ نے اب گولان پر بھی اسرائیل کے قبضہ کو قانونی تسلیم کر لیا ہے۔ امریکہ نے جس قانون اور اصول کے تحت گولان پر اسرائیلی قبضہ کو قانونی تسلیم کیا ہے اب اسی قانون کے تحت امریکہ کو Crimea بھی روس کا قانونی حصہ تسلیم کرنا چاہیے۔ Crimea بھی 3 ہزار سال سے روس کا حصہ تھا۔
  سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo کو اسرائیل سے یہ کہنے کی بجاۓ کہ لبنان میں عیسائی، شیعہ اور سنی سب ایک ہیں۔ اور حزب اللہ ان کے اس اتحاد کا حصہ ہے۔ امریکہ ان کی داخلی سیاست میں مداخلت نہیں کرے گا۔ تین بڑے مذہبی عقائد اگر لبنان میں متحد ہیں۔ تو ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔ لیکن سیکرٹیری آف اسٹیٹ لبنان جا کر ان کے صدر وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کے اسپیکر سے کہتے ہیں کہ وہ حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دیں اور اس کے ساتھ تمام تعلقات ختم کر دیں۔ وہ یہ سن کر بڑے حیران ہوۓ۔ انہوں نے کہا حزب اللہ لبنان کی ایک بڑی جماعت ہے۔ اور عوام کی ایک بھاری اکثریت  انہیں منتخب کرتی ہے۔ حزب اللہ دہشت گرد تنظیم  نہیں ہے۔ امریکہ اسرائیل سے ہمیشہ سیدھی بات کرتا ہے اور عربوں سے ہمیشہ الٹی بات کرتا ہے۔ لیکن کوئی امریکہ اور اسرائیل سے یہ نہیں کہتا ہے کہ جناب پہلے آپ فلسطین اسرائیل تنازعہ حل کر دیں۔ پھر یہ دیکھا جاۓ گا کہ وہ امن سے رہتے ہیں یا اب بھی دہشت گرد ہیں؟ عربوں کو کچھ دیتے نہیں ہیں۔ ان سے Demands بہت کرتے ہیں۔ یہ تنازعہ کا حل نہیں ہے۔ صرف دنیا کا وقت برباد کرنا ہے۔ 70 سال امریکہ نے  باتیں کرنے، مطالبے کرنے، اور الزامات کی سیاست کرنے میں گزار دئیے ہیں۔ اسرائیلی حکومت دیوار کی دوسری طرف فلسطینیوں کو انسان نہیں سمجھتی ہے۔ ان کی sufferings کا کسی کو احساس نہیں ہے۔ Northern Ireland کا مسئلہ ہو گیا ہے۔ IRA اور دہشت گرد اب کہاں ہیں؟      


          

Thursday, March 21, 2019

Nationalism Texas Brand ‘Wanted Dead Or Alive, Rather We Fight Here, Rather We Fight Over There'

Nationalism Texas Brand ‘Wanted Dead Or Alive, Rather We Fight Here, Rather We Fight Over There'

They Went To Afghanistan And Iraq To Leash Islamic Extremists,
 They Unleashed White Supremacists, New Nazis, And Other Like-Minded Groups

مجیب خان
Do not blame Social Media, blame National Security team, everybody knows what happens in the world of social media, but nobody knows what happens behind the closed doors, they defend our freedom or taking our freedom, social media is like open BOOK   

   امریکہ Internationalism سے اب نیشنلزم کی طرف آ رہا ہے۔ صدر ٹرمپ معیشت اور تجارت میں زیادہ نیشلسٹ ہوتے جا رہے ہیں۔ نیشنلزم پر بحث جاری ہے۔ White Supremacists, Ku Klux Klan  اور دوسرے گروپ نیشلسٹ ہو رہے ہیں۔ سرد جنگ میں نیشنلزم کو امریکہ میں سوشلزم اور کمیونزم کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ عرب نیشلسٹ، افریقی نیشلسٹ، لا طین امریکہ میں نیشلسٹ امریکہ کے کبھی دوست نہیں تھے۔ مغربی یورپ میں نیشلسٹ  رجحان رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کو حکومت میں آنے سے روکا جاتا تھا۔ سرد جنگ میں نیشلسٹ تحریک کسی مذہبی عقیدہ یا فرقہ کے خلاف نہیں تھی۔ بلکہ یہ تحریک ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں نوآبادیاتی اور سامراجی ملکوں کے تسلط کے خلاف تھی۔ سامراجی اور نوآبادیاتی ملکوں کی Proxies حکومتوں سے نیشلسٹوں کی لڑائی رہتی تھی۔ امریکہ کی تاریخ میں اب پہلی بار لفظ نیشنلزم سیاست میں داخل ہو رہا ہے۔ تاہم یہ نیشنلزم ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں نیشلسٹ تحریک سے مختلف ہو گا۔ صدر ٹرمپ اور ان گروپوں کے امیگریشن کے مسئلہ پر یکساں خیالات ہیں۔
  
 Washington become refugees manufacturing factory and refugees distribution center, America will take 5million Syrian refugees, Germany will take 2million, one million France, one million Britain, one million Italy, and rest will take care European Union
Syrian refugees
   
  امریکہ پر اسلامی  دہشت گردوں کے 9/11 حملہ کے بعد پہلا شدید رد عمل مسلمانوں کے خلاف تھا۔ امریکی عوام کو ان پر غصہ تھا اور ماحول میں کشیدگی محسوس کی جا رہی تھی۔ صدر بش نے 9/11 کے بعد پہلے اسے Crusade کا آغاز کہا تھا۔ لیکن پھر اسے اسلامی دہشت گردوں کے خلاف جنگ قرار دیا تھا۔ صدر بش نے کہا' وہ ہماری آزادی اور ترقی سے نفرت کرتے ہیں۔ اور ان سے یہاں لڑنے کے بجاۓ ان کی سرزمین پر لڑا جاۓ گا۔ اور ان کا مکمل خاتمہ کیا جاۓ گا۔' صدر بش نے کہا ' ٹیکساس میں اسے Wanted dead or alive کہا جاتا ہے۔' صدر بش اور ان کی کابینہ کے اعلی حکام نے اسلامی دہشت گردی کے خلاف جس لہجہ سے بیانات دئیے تھے ان سے امریکی عوام میں مسلمانوں سے نفرت بڑھنے لگی تھی۔ اس کے نتیجہ میں بعض جگہوں پر مسلمانوں پر حملہ بھی ہوۓ تھے۔ یہ صورت قابو سے باہر ہوتا دیکھ کر صدر بش نے اپنا لہجہ بدل دیا اور یہ کہا کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے۔ اور سارے مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں۔ لیکن جو فوجی افغانستان اور پھر عراق گیے تھے۔ وہ اس Mind set کے ساتھ  گیے تھے کہ انہیں اسلامی دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کرنا تھا۔ حالانکہ 9/11 کی دہشت گردی میں افغان اور طالبان شامل نہیں تھے۔ انہوں نے کسی امریکی شہری کو ہلاک نہیں کیا تھا۔ امریکہ سے ان کی کوئی لڑائی نہیں تھی۔ امریکہ سے ان کے صرف اختلافات تھے۔ لیکن افغانستان پر حملہ میں ان کے ساتھ انتہائی غیر انسانی سلوک کیا گیا تھا۔ بلگرام نظر بندی کیمپ میں انہیں اذیتیں دی جاتی تھیں۔ ازبک وار لارڈ عبدالرشید دوستم طالبان سے سخت نفرت کرتا تھا۔ طالبان پختون تھے۔ بش انتظامیہ نے اس سے طالبان کا مکمل صفایا کرنے کا کام لیا تھا۔ اسے اس کام کے لئے ڈالروں سے بھرے بریف کیس دئیے تھے۔ اس کے حکم پر ایک ہزار طالبان کابل سے پکڑے تھے۔ اور انہیں اس کے علاقہ کی جیل لے جانے کا حکم دیا تھا۔ ایک ہزار طالبان کو Container میں بند کر دیا تھا۔ جو راستہ میں سخت گرمی ہوا اور پانی نہیں ہونے سے Container میں مر گیے تھے۔ جنہیں Garbage کی طرح ایک بڑے گڑھے میں Dump کر دیا تھا۔ یہ امریکہ کی فوجی موجودگی میں ہو رہا تھا۔ ازبک وار لارڈ دوستم طالبان کے خلاف جنگ میں امریکہ کا قریبی اتحادی تھا۔ افغانستان میں ایسے بے شمار واقعات تھے۔ جو صرف اس نفرت پر تھے کہ امریکہ پر 9/11 کا حملہ ہوا تھا۔ امریکی فوجیوں کو افغانستان نفرت کے اس پیغام کے ساتھ بھیجا تھا۔ یہ 20s اور 30s کی عمروں کے تھے۔ ریگن انتظامیہ میں افغانستان میں کمیونسٹ فوجوں کے خلاف عرب اسلامی دنیا کے نوجوان جہادیوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ کمیونسٹ فوجیں افغانستان میں اسلام تباہ کر رہی تھیں۔ اور افغانستان کو ایک کمیونسٹ ریاست بنایا جا رہا تھا۔ افغانستان میں جنگ ختم ہونے کے بعد یہ جہادی Islamic Radical ہو گیے تھے۔ بڑے بش اس وقت صدر ریگن کے نائب صدر تھے۔ جہادیوں کے لئے ان کا یہ پیغام تھا کہ ' وہ حق پر ہیں اور خدا ان کے ساتھ ہے۔' جو حق پر تھے اور خدا ان کے ساتھ تھا' وہ سب گوتانوموبے میں Transport کر دئیے گیے تھے۔
  افغانستان کے بعد پھر عراق میں صد ام حسین کے خلاف نفرت پھیلانے کا مشن شروع ہو گیا تھا۔ امریکی فوجیوں کو یہ پیغام دیا جا رہا تھا کہ صد ام حسین انتہائی خطرناک ڈکٹیٹر ہیں اور اگر ان کا خاتمہ نہیں کیا گیا تو صد ام حسین کے مہلک ہتھیار امریکہ کے شہروں پر گرنے لگے گے۔ عراق میں صد ام حسین سے نفرت پھر عراقی شہریوں سے نفرت میں بدل گئی تھی۔ ابو غریب غریب جیل میں عراقیوں کے ساتھ جو شرم ناک سلوک کیا گیا تھا وہ اس نفرت کا نتیجہ تھا۔ جن امریکی فوجیوں نے ابو غریب جیل میں عراقیوں کے ساتھ یہ شرم ناک سلوک کیا تھا۔ وہ 20s اور 30s کی عمروں کے تھے۔ یہ نفرت اتنی زیادہ تھی کہ انہوں نے صد ام حسین کی Underwear میں تصویر بنائی تھی اور پھر عراقی شہریوں کی تذلیل کرنے کے لئے اسے عالمی اخبارات میں شائع کرنے کے لئے ریلیز کیا تھا۔ حالانکہ صد ام حسین نے امریکہ کے خلاف کچھ نہیں کیا تھا۔ امریکہ سے کبھی جنگ نہیں کی تھی۔ صد ام حسین عرب نیشلسٹ تھے۔ اور دوسرے عرب اور فلسطینی قوم پرستوں کے ساتھ ان کی یکجہتی تھی۔ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی بر تاؤ پر صد ام حسین اسی طرح بیان دیتے تھے جیسے آج ترکی کے صدر اردو گان اسرائیل کی شدید لفظوں میں مذمت کرتے ہیں۔ صد ام حسین سے سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں کی دشمنی بھی ایسی ہی تھی جیسے آج سعودی عرب کو قطر سے دشمنی ہو گئی ہے۔ صد ام حسین نے سعودی شاہ سے کبھی ایسے نہیں کہا تھا کہ جو صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ان کے بغیر 7 دن سے زیادہ Survive نہیں کر سکتے ہیں۔ عراق پر حملہ سے آخر کس نے کیا حاصل کیا ہے؟
  صدر جارج ڈبلو بش نے Timothy McVeigh کی سزاۓ موت پر عملدرامد کے سرٹیفکیٹ پر دستخط کیے تھے۔ بڑے بش نے پہلی خلیج جنگ میں جو فوجی بھیجے تھے۔ Timothy McVeigh ان میں شامل تھا۔ اس وقت یہ 20s میں تھا۔ خلیج کی جنگ سے واپس آنے کے بعد اس کی سوچ اور رویہ تبدیل ہو گیا تھا۔ اور وہ بھی حکومت کے مخالف گروپوں سے مل گیا تھا۔ صدر بش اور ان کی قومی سلامتی امور کی ٹیم نے یہ نہیں سوچا تھا کہ افغانستان اور عراق سے واپس آنے کے بعد یہ فوجی کہیں Timothy McVeigh کی Legacy نہیں بن جائیں۔ امریکہ میں Past کو Cover up کیا جاتا ہے اور Present کو Focus کیا جاتا ہے اور Future کے بارے میں کہا جاتا ہے will see what happened۔ سابقہ انتظامیہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے۔ سابقہ انتظامیہ کے غیر ذمہ دارا نہ فیصلوں کا الزام Social Media کو دینا سب سے آسان جواب ہے۔ حالانکہ Social Media ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ سب یہ دیکھ سکتے ہیں کہ Social Media میں کیا ہو رہا ہے۔ لیکن بند کمروں کے پیچھے کیا ہو رہا یہ کوئی نہیں دیکھ سکتا ہے۔                   

Friday, March 15, 2019

Elections In Israel And India: Both Countries Need New Leaders

  Elections In Israel And India: Both Countries Need New Leaders
Bibi Netanyahu’s 4380 Days In Government, Killing Palestinians, War In The Region, No Peace, Even No Effort To Make Peace With Palestinian Women And Children
مجیب خان
Prime Minister Netanyahu is greeted by prime Minister Modi in India, January 14, 2018

A Palestinian woman argues with Israeli soldiers 

Indian Army, Kashmir, and war with unarm Peoples 

Prime Minister Modi with Israeli Prime Minister Netanyahu, Olga beach in northern Israel, July 2017 




  اسرائیل میں اپریل میں اور بھارت میں مئی میں انتخابات ہوں گے۔ اسرائیل میں وزیر اعظم نتھن یا ہو 12 سال سے اقتدار میں ہیں۔ اور وزیر اعظم نر یندر مودی اپنے اقتدار کی میعاد پوری کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی Rigid ہندو انتہا پسند ہیں۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو Rigid انتہا پسند یہودی ہیں۔ اور دونوں کی سیاست میں مذہبی Rigidity بہت نمایاں ہے۔ اپنے سیاسی تنازعوں کو اپنی مذہبی نظریاتی سیاست میں دیکھتے ہیں۔ اس لئے ان تنازعوں کو حل کرنے میں بھٹکے ہوۓ ہیں۔ اسرائیلی حکومت میں مذہبی انتہا پسندی بہت گہری ہے۔ جبکہ مودی حکومت میں ہندو انتہا پسندی کو فروغ مل رہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ ان حالات میں ہو رہا ہے کہ جب اسلامی ملکوں میں سیاست سے مذہبی انتہا پسندی کا Purge ہو رہا ہے۔ اور اپنے معاشرے دوسرے مذاہب کے لئے کھولے جا رہے ہیں۔ لیکن اسرائیلی وزیر اعظم کا دعوی ہے کہ اسرائیل صرف یہودی ریاست ہے۔ جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی بھارت کی 70 سال کی سیکولر جمہوری ثقافت تباہ کر کے بھارت کو 21 ویں صدی کی ہندو انتہا پسندوں کی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔
  وزیر اعظم نتھن یا ہو 12 سال سے حکومت میں ہیں۔ لیکن امن کے لئے انہوں نے کیا کیا ہے؟ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے اپنے اقتدار کے 4380 دن فلسطینیوں سے صرف جنگ کی ہے۔ ان پر بم گراۓ ہیں۔ انہیں گولیاں ماری ہیں۔ انہیں ہلاک کیا ہے۔ انہیں مجبور کیا ہے کہ وہ فلسطین سے چلیں جائیں۔ ان کے گھروں پر بلڈ وزر چلائیں ہیں۔ ان کی زمینوں پر قبضہ کیا ہے۔ انہیں گھروں سے بید خل کیا ہے۔ فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے اپنی ان پالیسیوں سے ثابت کیا ہے کہ اسرائیل ایک Apartheid  ریاست ہے۔ اور اس لئے اسرائیل صرف ایک یہودی ریاست ہے۔ Please اسے Anti-semitism نہیں کہا جاۓ۔ یہ نتھن یا ہو حکومت کے 12 سال دور اقتدار میں ہونے والے واقعات کی تفصیل ہے۔ اسرائیل کے ہمسایہ میں عرب حکومتوں کے دور میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں مغربی میڈیا میں رپورٹیں آتی تھیں۔ صد ام حسین حکومت کے بارے میں امریکہ کا دعوی تھا کہ صد ام حسین کی پالیسیاں خطہ کے لئے خطرہ بن رہی تھیں۔ صد ام حسین مشرق وسطی پر اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتے تھے۔ اور پھر صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹایا گیا تھا۔ لیکن اب دیکھا یہ جا رہا ہے کہ صد ام حسین کا اقتدار ختم ہونے سے جو خلا آیا تھا۔ اسے اسرائیل کی خطرناک پالیسیوں نے پر کیا ہے۔ اور اب یہ نتھن یا ہو حکومت کی پالیسیاں ہیں جو 12 سال سے اس خطہ کو Destabilize  کر رہی ہیں۔ اور مشرق وسطی کو اسرائیل کے حلقہ اثر میں لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
  مصر میں جمہوری حکومت کے آنے سے وزیر اعظم نتھن یا ہو کو یہ پریشانی ہو گئی تھی کہ Islamists اسرائیل کے گرد اقتدار میں آ رہے تھے۔ لیکن پھر یہ ہی وزیر اعظم نتھن یا ہو تھے جنہوں نے شام میں حکومت کے خلاف اسلامی انتہا پسندوں کی حمایت کی تھی۔ انہیں ہتھیار بھی دئیے تھے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو Side line پر کھڑے ہو کر شام کھنڈرات بنتا دیکھتے رہے۔ پھر اسلامی دہشت گردوں کے خلاف جب روس اور ایران آ گے آۓ تو وزیر اعظم نتھن یا ہو واویلا کرنے لگے تھے۔ شور مچانے لگے کہ ایرانی فوجیں شام میں اپنے فوجی اڈے قائم کر رہی تھی۔ اور اسرائیل اس کی اجازت نہیں دے گا۔ لیکن اسرائیل نے غیر ملکی جہادیوں کو شام میں حکومت پر حملے کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ دوسری طرف امریکہ حما س اور حزب اللہ کو اسرائیل پر حملے کرنے کے نتیجہ میں دہشت گرد تنظیمیں قرار دے رہا تھا۔ اسرائیل، امریکہ، سعودی عرب اور خلیج کی حکومتیں شام میں اسلامی دہشت گردی پھیلا رہے تھے۔ اور الزام ایران کو دیتے تھے۔ ان ملکوں نے صد ام حسین کو دنیا میں تمام خرابیوں کے اتنے زیادہ الزام دئیے تھے۔ جو بعد میں سب جھوٹ ثابت ہوۓ تھے۔ اس لیے اب ان کے الزامات کو کوئی نہیں مانتا ہے۔ دنیا اب صرف Facts دیکھتی ہے۔ اور Facts ان کے خلاف ہیں۔
  صدر ٹرمپ نے نتھن یا ہو کی لیڈر شپ کی بہت تعریف کی ہے۔ اور نتھن یا ہو کو Tough, Smart, Strong لیڈر کہا ہے۔ اور وزیر اعظم کی حیثیت سے انہوں نے شاندار کام کیے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے انتخابات میں ان کی کامیابی کی امید کا اظہار کیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ صدر ٹرمپ نے ایک ایسے اسرائیلی وزیر اعظم کے کاموں کو شاندار کہا ہے جس نے 12 سال میں فلسطینیوں سے امن کی کوئی بات نہیں کی ہے اور خود بھی امن کے لئے کچھ نہیں کیا ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف بھر پور فوجی طاقت کا استعمال کیا ہے۔ ہزاروں فلسطینی مار دئیے ہیں۔ اور صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم نتھن یا ہو کی لیڈر شپ کی تعریف کی ہے اور انہیں شاندار کام کرنے پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ صدر ٹرمپ سے پہلے سابق صدر جارج ڈبیلو بش نے ایک دوسرے اسرائیلی وزیر اعظم ایرئیل شرون کو Man of Peace کہا تھا۔ صدر بش سے پوچھا جاۓ کہ ایرئیل شرون نے امن کے لیے کیا  کام کیے تھے؟ صدر ٹرمپ نے کہا ہے ' نتھن یا ہو نے وزیر اعظم کی حیثیت سے شاندار کام کیے ہیں۔' لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیا شاندار کام کیے ہیں؟ کیا فلسطینیوں کو امن سے محروم رکھنا شاندار کام ہے؟ وزیر اعظم نتھن یا ہو 12 سال سے جن پالیسیوں کو فروغ دے رہے تھے۔ وہ اب Back fire ہو رہی ہیں۔ ان سے Anti-Semitism بڑھا ہے۔ ان سے  اسرائیل کے خلاف BDS تحریک کا آغاز ہوا ہے۔ ایران نے اسرائیل کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا ہے کہ جتنا وزیر اعظم نتھن یا ہو کی حکومت سے اسرائیل کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ فیصلہ اب اسرائیلی عوام کو کرنا ہے کہ ایک Iron fist لیڈر کی قیادت کیا ان کے مفاد میں ہے؟

  بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کا DNA اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو کے DNA سے مختلف نہیں ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو فلسطینیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اور وزیر اعظم مودی کشمیریوں سے نفرت کرتے ہیں جو مسلمان ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے کچھ دن قبل کہا ہے کہ ' ہم گھروں میں گھس کر مارتے ہیں۔' انہوں نے یہ بالکل درست کہا ہے۔ جب وہ گجرات کے وزیر اعلی تھے ان کی جماعت کے انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کو ان کے گھروں میں گھس کر مارا تھا۔ اور اب 5 سال سے ان کے اقتدار میں بھارتی فوج کشمیریوں کو ان کے گھروں میں گھس کر مار رہی ہے۔ اور وہ دنیا کی ایک بڑی جمہوریت کے لیڈر بنے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے یہ نہیں سیکھا ہے کہ جمہوریت میں عوام کے ساتھ کیسے کام کیا جاتا ہے؟ اور تنازعوں کو کیسے حل کیا جاتا ہے۔ چین کے لیڈر بھارتی لیڈروں کو اب یہ سیکھا رہے کہ صرف ڈائیلاگ سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ اور ڈائیلاگ کرو۔ تمہارا دشمن اگر تم سے نفرت کرتا ہے اور تم اس سے صرف محبت کا اظہار کرو گے تو تمہارے آدھے مسائل وہیں حل جائیں گے۔ نریندر مودی کی قیادت بھارت کی جمہوریت پر ایک سیاہ داغ ہے۔ 5 سال میں وہ کشمیریوں کو امن نہیں دے سکے ہیں۔ اپنے ہمسایہ میں انہوں نے پاکستانیوں کی نیندیں حرام کر ر کھی ہیں۔ بھارت اور اسرائیل میں اب لیڈروں کو تبدیل کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ معقول دماغ کے لیڈروں کو اقتدار میں لایا جاۓ جو دشمنوں سے ڈائیلاگ کرنا اور ان کے ساتھ رہنا سمجھتے ہوں۔              

Monday, March 11, 2019

New World Order, ‘By hook or by crook’

 New World Order, ‘By hook or by crook’

Today Venezuela, Tomorrow A Dissident Will Be A Legitimate Leader Of North Korea

مجیب خان
North Korean leader Kim Jong Un and US President Donald Trump in the Metropole hotel in Hanoi, Vietnam, Feb 28, 2019 

President Xi Jinping and Nicolas Maduro, China backs Nicolas Maduro legitimate President of Venezuela 

President Vladimir Putin with President Hassan Rouhani, Russia support for 2015 nuclear accord



  شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے صدر ٹرمپ کی دوسری تاریخی ملاقات اچانک کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی۔ صدر ٹرمپ نے ویت نام روانہ ہونے سے پہلے بڑے اعتماد سے 'چیرمین کم جونگ ان سے ہنوئی ملاقات میں معاہدہ ہونے کا اظہار کیا تھا۔ شمالی کوریا نے ایک سال سے نئے میزائل تجربہ نہیں کیے ہیں۔ اور اپنا ایٹمی پروگرام بھی منجمد کر دیا ہے۔ جو اچھے اقدام ہیں۔' صدر ٹرمپ نے کہا 'انہیں نیوکلیر پروگرام فوری طور پر بالکل ختم کرنے کی جلدی نہیں ہے۔ اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ چیرمین کم جونگ ان نے میزائل تجربے بند کر دئیے ہیں۔' پھر یہ خبر بھی آئی تھی کہ صدر ٹرمپ شمالی کوریا کو اقتصادی بندشوں میں کچھ Relief دینے کا اعلان کریں گے۔ اور دونوں ملکوں میں ڈپلومیٹک مشن کھولنے کا فیصلہ بھی کیا جاۓ گا۔ لیکن ہنوئی میں ٹرمپ-کم ملاقات اچانک ختم ہو گئی۔ اور صرف 4 نکات پر ایک مختصر اعلامیہ جاری ہوا تھا جس میں دونوں ملکوں نے مل کر کام کرنے کا کہا تھا۔ دونوں ملکوں میں تعلقات بہتر بنانے، آ بناۓ کوریا میں ایک پائدار اور مستحکم امن فروغ دینے، اور Pyongyang کے ایٹمی ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ کرنے اور کوریا جنگ میں جو امریکی مارے گیے تھے ان کے جسم خاکی واپس کرنے کا کہا تھا۔ اس مختصر اعلامیہ کے بعد دونوں رہنما کسی الوداعی ملاقات کے بغیر واپس اپنے ملک چلے گیے۔ تاہم صدر ٹرمپ کا ویت نام دورہ اس لحاظ سے کامیاب تھا کہ انہوں نے ویت نام کے صدر Nyuyen Phu Trong سے صدارتی محل میں ملاقات کی تھی۔ اور پھر صدر Nyuyen کے ساتھ صدر ٹرمپ نے ویت نام کی دو نجی ائر لائن کے تقریباً 16بلین ڈالر کی مالیت کے 110 بوئنگ طیارے خریدنے کے سمجھوتہ کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ اور امریکی بوئنگ کمپنی سے  طیارے خریدنے پر ویت نام کی حکومت اور نجی ائرلائن کا شکر یہ ادا کیا تھا۔
  ہنوئی میں ٹرمپ-کم ملاقات کے بعد 4 نکاتی اعلامیہ میں شمالی کوریا سے آ بناۓ کوریا میں ایک پائدار امن کے لئے کام کرنے کا کہا گیا ہے۔ لیکن چیرمین کم جونگ ان نے صدر ٹرمپ سے 1953 سے آ بناۓ کوریا میں امریکہ نے جو اعلان جنگ برقرار رکھا ہے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن صدر ٹرمپ امن کے مفاد میں اسے ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہوۓ تھے۔ حالانکہ شمالی کوریا کا یہ بہت جائز مطالبہ تھا۔ 65 سال سے ان پر مسلط حالات جنگ میں ایک پائدار امن کیسے آ سکتا ہے۔ شمالی کوریا کے ساتھ یہ بڑی زیادتی ہو گی کہ امریکہ شمالی کوریا سے سب کچھ لینا چاہتا ہے۔ لیکن اسے کچھ دینے کے لئے بالکل تیار نہیں ہے۔ صدر صد ام حسین نے بھی امریکہ کو سب کچھ دے دیا تھا۔ اور پھر امریکی فوجیں عراق میں گھستی چلی گئی تھیں۔ ایسا ہی صدر معمر قد ا فی کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ اس پس منظر میں شمالی کوریا سے صرف مطالبہ اور شرائط کے بجاۓ اعتماد بحال کیا جاۓ۔ ہنوئی ملاقات مایوسی پر ختم ہونے سے یہ نظر آتا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا اور واشنگٹن میں کچھ قوتیں آ بناۓ کوریا میں Status کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ اس لئے ہنوئی ملاقات میں Process آ گے نہیں بڑھ سکا اور امریکہ اور شمالی کوریا میں بات چیت اچانک ختم ہو گئی تھی۔
  اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ شمالی کوریا کی قیادت ایٹمی ہتھیاروں کی سیاست سے Political Economy کی سیاست میں آنا چاہتی ہے۔ شمالی کوریا نے ایٹمی ہتھیاروں پر اخراجات ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کم جونگ ان نے شمالی کوریا کو اقتصادی پاور ہاؤس بنانے کا عزم کر لیا ہے۔ کم جونگ ان کو اب یہ یقین ہو گیا ہے کہ اس صدی کے اختتام تک وہ قومیں زندہ رہیں گی جو اقتصادی ترقی میں آ گے ہوں گی۔ صرف ہتھیاروں میں قوموں کی بقا کا تصور فرسودہ ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے باوجود ویت نام میں جنگ نہیں جیت سکا تھا۔ امریکہ طالبان سے جنگ ہار گیا ہے۔ جن کے پاس کوئی جدید ہتھیار نہیں تھے۔ عراق جنگ امریکہ کے لئے Disaster ثابت ہوئی ہے۔ مہلک ہتھیاروں پر بھاری اخراجات نے امریکہ کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایجادات کی اقتصادی ترقی میں پیچھے کر دیا ہے۔ اس صورت حال کا جائزہ لینے سے شمالی کوریا کی قیادت میں پرانی سوچ کی جگہ ایک نئی سوچ آئی ہے۔ کم جونگ ان پر اس لئے بھی اعتماد کیا جا سکتا ہے کہ شمالی کوریا کا کوئی Imperial Agenda نہیں ہے۔ امریکہ کے ساتھ معاملات طے کرنے میں چیرمین کم جونگ ان نے ایک بڑا Risk لیا ہے۔ ہنوئی سے کم جونگ ان خالی ہاتھ واپس Pyongyang گیے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی اور فوج اس پر زیادہ خوش نہیں ہو گی۔ اس ساری صورت حال کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہو گا۔ امریکہ کی قومی سلامتی امور کی ٹیم چیرمین کم جونگ ان کی سلامتی کے لئے خطرے پیدا کر رہی ہے۔ 65 سال پرانا حالات جنگ کا اعلانیہ ختم کرنے اور 2016 سے شمالی کوریا پر جو بندشیں لگائی گئی ہیں انہیں ختم کرنے میں کیا حرج تھا۔ اس سے Good Faith کا اظہار ہوتا۔ یہ چھوٹی باتیں بڑے مسائل پیدا کر دیتی ہیں۔ امریکہ دوسروں کی مشکلات کو نہیں سمجھتا ہے۔ ان سے ہر بات صرف اپنے مفاد میں چاہتا ہے۔


  صدر ٹرمپ نے ایران کے ایٹمی سمجھوتہ پر قائم رہنے سے انکار کر کے پہلے ہی شمالی کوریا کی فوج اور کمیونسٹ پارٹی کو ایک غلط تاثر دیا ہے۔ انہیں یقین نہیں ہو گا کہ امریکہ کا 46 پریذیڈنٹ شمالی کوریا میں Regime change کی بات نہیں کرے گا۔ ایران نے امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، چین، روس کے ساتھ مشترکہ مذاکرات کے بعد اپنے پروگرام پر سمجھوتہ کیا تھا۔ سلامتی کونسل نے اس کی توثیق کی تھی۔ صدر اوبامہ نے اس پر اپنی Presidential Stapes لگائی تھی۔ اور یہ سمجھوتہ ایک عالمی قانونی دستاویز بن گیا تھا۔ ایران اگر اس سمجھوتہ کی خلاف ورزی کرتا تو سلامتی کونسل اس کے خلاف کاروائی کرتی۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی اس سمجھوتہ کی خلاف ورزی دراصل عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ کون پوچھتا ہے۔ دنیا قانون کی خلاف ورزیاں کرنے والوں سے تعاون کر رہی ہے۔ اور اب ٹرمپ انتظامیہ سے ایران میں Regime change کرنے کا کام بھی لیا جاۓ گا۔ IAEA کا ادارہ ایران کے ایٹمی سمجھوتہ پر عملدرامد ہونے کی نگرانی کر رہا ہے۔ اور تین سال سے یہ ادارہ سمجھوتہ پر مکمل عملدرامد ہونے کی رپورٹیں دے رہا ہے۔ لیکن وائٹ ہاؤس میں نئی انتظامیہ نے سب سے پہلے اس سمجھوتہ کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ایران پر دوبارہ اقتصادی بندشیں لگا دی تھیں۔ اور ایران میں Regime change کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اب کیا Guarantee ہے کہ شمالی کوریا کے ساتھ ایسا نہیں ہو گا؟ صدر ٹرمپ نے جس طرح ونزویلا میں اپوزیشن لیڈر کو ونزویلا کا Legitimate President قرار دیا ہے۔ اسی طرح کل وائٹ ہاؤس میں نیا صدر ایک Dissident کو شمالی کوریا کا Legitimate Leader ہونے کا اعلان کر سکتا ہے۔ امریکہ کی اقتصادی دھمکیوں کے خوف سے بہت سے ممالک اس کی حمایت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ صدر ٹرمپ ایران میں حکومت تبدیل کرنے کے لئے شاید اسی راستے پر جا رہے ہیں۔ اور ایران کے داخلی سیاسی حالات میں اقتصادی بندشوں سے Chaos پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور پھر کسی مقام پر ایرانی حکومت کی اپوزیشن کو ایران کی Legitimate Government تسلیم کیا جاۓ گا۔ صدر پو تن نے یہ Politics Ukraine میں نہیں کی تھی۔ صدر پو تن نے Ukraine کے خلاف اپنی Politics عالمی قانون کی حدود میں ر کھی  تھی۔ شمالی کوریا کو جنوبی کوریا اور چین کی قیادت کے ذریعہ امریکہ سے معاملات طے کرنا چاہیے۔ امریکہ پر 100 فیصد بھرو سہ  نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آج دنیا میں امریکہ کا جو رول ہے اس میں امریکہ پر صرف1 فیصد بھرو سہ کیا جاۓ۔ 99 فیصد اپنے علاقائی ملکوں پر بھرو سہ کیا جاۓ۔