Saturday, November 28, 2015

“BUNCH OF KILLERS”: From Al Qaeda To Daesh

 Political Blunders And Military Adventurism  

“BUNCH OF KILLERS":
From Al Qaeda To Daesh

مجیب خان
   
"I looked the man in the eye. I found him to be very straight forward and trustworthy and we had a very good dialogue. I was able to get a sense of his soul. He's a man deeply committed to his country and the best interests of his country and I appreciate very much the frank dialogue and that's the beginning of a very constructive relationship." 

-George W. Bush on Russian President Vladimir Putin


          صدر جارج بش نے نائن ایلو ن کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں القا عدہ کو Bunch of Killer  کہا تھا۔ چودہ سال بعد اب صدر اوبامہ نے داعش کو Bunch of killer کہا ہے۔ جو دہشت گردی کے خلاف اسی جنگ کا سلسلہ ہے۔ لیکن داعش اس جنگ میں ایک نیا کردار ہے۔ اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ دنیا کے حالات جوں کے توں ہیں۔ اور چودہ سال میں کوئی تعمیراتی سیاسی کام نہیں ہوا ہے۔ صرف انسانی تباہی بہت ہوئی ہے۔ دنیا القا عدہ کے بعد داعش کے Bunch of Killer میں پھنس گی ہے۔ 13 نومبر کے پیرس میں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد داعش کو Bunch of Killer  کہا گیا ہے۔ جس میں 129 لوگ ہلاک ہوۓ تھے۔ اس سے پہلے بیرو ت میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا تھا بڑی تعداد میں یہاں بھی لوگ ہلاک ہوۓ تھے ۔داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی ۔ اس کے بعد سینا ئی میں روس کا مسافر طیارہ تباہ ہوا تھا ۔ جس میں دو سو لوگ ہلاک ہوۓ تھے۔ امریکہ نے سب سے پہلے اسے داعش کی دہشت گردی بتایا تھا۔ بعد میں داعش نے یہ اعتراف کیا تھا۔ لیکن اس وقت بھی داعش کے بارے میں Bunch of Killer امریکہ کے ریڈار پر نہیں آیا تھا۔
       لیکن 13 نومبر کو پیرس میں دہشت گردی نے یورپ کو جیسے ہلا دیا تھا۔ جس پر حکومتوں اور عوام کی سطح پر شدید رد عمل ہوا تھا۔ ان کے غم و غصہ کی تمام انگلیاں واشنگٹن کی طرف اٹھ رہی تھیں ۔ مشرق وسطی کے حالات خراب کرنے کا الزام امریکہ کی قیادت کو دیا جا رہا تھا۔ امریکہ کی عالمی قیادت میں دنیا کے اتنے مسائل حل نہیں ہوۓ ہیں کہ جتنے دنیا کے لئے نئے مسائل ہو گیے ہیں۔ شام عراق لیبیا افغانستان جنگ زدہ ملکوں سے لوگوں کا سیلاب یورپ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یورپ میں لوگ پہلے ہی چین اور بھارت کی سستی لیبر کی وجہ سے شدید اقتصادی مسائل کا سامنا کر رہے تھے۔ اور اب پناہ گزینوں کی صورت میں سستی لیبر ان کے دروازوں پر کھڑی ہے۔ مشرق وسطی کا سیاسی عدم استحکام یورپ کے لئے اب سو نامی بن رہا ہے۔ یورپ کی طرف اس سو نامی کو بڑھتا دیکھ کر حکومتیں خاصی خوفزدہ ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر فرانس کے صدر Francois Hollande امریکہ آۓ تھے۔ اور اب  یورپ کے ملکوں کو داعش کے خلاف ا رو شام کے سیاسی حل کے لئے ایک نئے اتحاد میں سرگرمی سے شامل ہونے  کے لئے صدر Francois  کوششیں کر رہے ہیں۔
David Cameron, Barack Obama, and Francois Hollande
       پیرس دہشت گردی کے واقعہ کے بعد یورپ کا موڈ دیکھ کر صدر اوبامہ نے داعش کے لئے Bunch of Killers کے لفظ استعمال کیے ہیں۔ داعش کو Bunch of Killers اس وقت کہنا چاہیے تھا کہ جب یہ عراق اور شام میں لوگوں کے گلے کاٹ رہے تھے۔ جس میں امریکی شہری بھی شامل تھے۔ اور امریکہ کو شام کے بارے میں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا چاہیے تھی۔ خلیج کے مالدار اتحادیوں کو شام کے سیاسی حل کے لئے آمادہ کرنا چاہیے تھا۔ شام میں نام نہا د باغیوں کو تربیت دینے، اسلحہ فراہم کرنے اور فنڈ ز فراہم کرنے پر پابندی لگانا چاہیے تھی۔ لیکن شام کا محاذ بند ہونے کے بجاۓ ۔ یمن میں خلیج کے مالدار حکمرانوں نے نیا محاذ کھول دیا تھا ۔ اس محاذ پر امریکہ نے مالدار حکمرانوں کی حمایت کر نے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور یہ Bunch of Killers یمن کے محاذ پر ہوتیوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔ ان میں ایک بڑی تعداد القا عدہ کی تھی جنہیں صدر بش نے Bunch of Killers کہا تھا۔ امریکہ نے اس سال شام میں ایک ہزار سے زیادہ داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے ہیں۔ لیکن نتائج Bunch of Killers  ہی کی صورت میں سامنے آۓ ہیں۔
       شام میں روس کی مداخلت کے بعد اوبامہ انتظامیہ اب شام میں ایک سیاسی حل کی طرف آئی ہے۔ اور یورپ کے  بھر پور دباؤ میں امریکی فضائی طیاروں نے داعش کے 130 آئل ٹینکروں کو تباہ کرنے کا دعوی کیا ہے۔ شام کے جن علاقوں پر داعش نے قبضہ کیا ہے۔ وہاں سے یہ ٹینکرز تیل لے جاتے تھے۔ اور اسے فروخت کر تے تھے اور یہ ان کی آمدنی کا وسیلہ تھا۔  لیکن اس سال 13 نومبر تک اور شام میں روس کے سرگرم ہونے تک داعش کے تیل کا کاروبار بند کرنے کے سلسلے میں کچھ نہیں کیا گیا تھا۔ صدر اوبامہ نے وائٹ ہاؤس میں صدر Francois کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ داعش کے خلاف اتحاد میں 65 ممالک شامل ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ا سا مہ بن لادن کی رہائش گاہ امریکہ کے ریڈار پر آ گی تھی ۔ لیکن داعش کے آئل ٹینکروں کی نقل و حرکت 65 ملکوں کے ریڈار پر نہیں آئی تھی۔ ان میں بعض شام کے قریبی ہمسایہ تھے۔ 65 ملکوں کے اتحاد کے واچ میں داعش کی سرگرمیاں یورپ اور وسط ایشیا میں پھیلنے کی خبریں دی جا رہی تھیں۔ صدر پو تن نے اب یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ 40 ممالک داعش کو فنڈ زفراہم کر رہے تھے۔ داعش کو اسلحہ دے رہے تھے۔ صدر پو تن کے اس انکشاف پر امریکہ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ضرور امریکہ کے علم میں ہو گا۔ دنیا کے 192 ملکوں میں سے 65 ملک داعش کے خلاف لڑ رہے تھے ۔ 40 ملک داعش کو فنڈ ز دے رہے تھے۔ 87 ملکوں میں سے کچھ داعش کی دہشت گردی سے بچے ہوۓ تھے اور کچھ اس کی دہشت گردی کی زد میں تھے۔
       لیکن یہاں Greed اور مفادات ایک ہو گیے ہیں۔ سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں نے امریکہ برطانیہ اور فرانس کو رشوتیں دینے کے بجاۓ ان کی اسلحہ ساز کمپنیوں سے کھربوں ڈالر کا اسلحہ خریدنے کا معاہدہ کیا ہے ۔ اور ان معاہدوں کے عوض ان سے شام میں حکومت تبدیل کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔ صدر اوبامہ نے 2011 میں سب سے پہلے یہ فرمان جاری کیا تھا کہ بشرالسد کو جانا ہے۔ اسد حکومت کے دن تھوڑے ہیں۔ اس کے بعد فرانس کے صدر اور برطانیہ کے وزیر اعظم نے بھی ایسا ہی مطالبہ کیا تھا۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس کی شام پالیسی کے پیچھے اسلحہ ساز کمپنیوں کی لابی تھی۔ لیکن چار سال میں اسد حکومت کے خلاف جنگ کا محاذ بدل گیا ہے۔ عالمی رائے عامہ تبدیل ہو گی ہے۔ عراق اور لیبیا میں صدام حسین اور معمر قدافی کو اقتدار سے ہٹانے کے چار اور سات سال بعد عالمی رائے اب تبدیل ہو گی  ہے۔ اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے فیصلے کو اب غلط فیصلہ کہا  جا رہا ہے۔
      پیرس میں دہشت گردی کا واقعہ ہونے کے بعد یورپ میں رائے عامہ تیزی سے بدل گی ہے۔ بالخصوص فرانس میں حکومت پر اتنا زیادہ دباؤ پڑا ہے کہ فرانس کے صدر کو شام کے تنازعہ پر صدر پوتن  کے موقف سے سمجھوتہ کرنا پڑا ہے۔ صدر اوبامہ اب ایک مشکل صورت میں آ گیے ہیں۔ ایک طرف  ان کے روایتی یورپی اتحادی ہیں اور دوسری طرف خلیج کے عرب اتحادی ہیں۔ جنہوں نے کھربوں ڈالر امریکہ کی معیشت میں انویسٹ  کیے ہیں۔" بشراسد کو جانا ہے" یہ تسلیم کرانا بھی ضروری ہے۔  اس مقصد میں اسلحہ ساز کمپنیوں کا دباؤ بھی ان کی حکومتوں پر ہے۔ پھر امیروں کی دنیا میں غریب ملک  کے ہاتھوں شکست بھی امیروں کو قبول نہیں ہے۔ لہذا صدر پوتن پر بھی یہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ صدر اسد کو ہٹائیں ۔ لیکن فی الحال یہ ممکن نظر نہیں آ رہا  ہے۔ یورپ میں اب پہلے داعش کو ختم کرنے اور شام میں سیاسی استحکام پر زور دیا جا رہا ہے۔ ادھر امریکی کانگرس میں بھی یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ کانگرس شام میں اسد حکومت کو تبدیل کرنے کے فیصلے کی حمایت نہیں کرے گی۔ صدر اوبامہ کی شام پالیسی صدر کارٹر کی تہران  میں امریکی یرغمالیوں کو رہا کرانے کے لئے ملڑی  ہیلی کا پڑ ایران کے قریب ریگستان میں گر جانے کی طرح Debacle  ثابت ہو رہی ہے۔
      فوجی مہم جوئیاں اب بہت ہو گی  ہیں اور یہ صرف Bunch of Killers پیدا کر رہی ہیں۔ عرب اسپرنگ ان کا خاتمہ کرنے کا واحد راستہ تھا۔ اسلامسٹ کو سیاسی عمل میں لا کر کمزور کیا جا سکتا تھا۔ اور انہیں شکست بھی دی جا سکتی تھی۔ مصر میں اخوان المسلمون اقتدار میں آۓ تھے۔ اور انہوں نے دنیا سے اپنے ماڈریٹ ہونے کا یقین دلایا تھا۔ اخوان المسلمون میں ماڈریٹ عناصر اوپر آ رہے تھے ۔ اسلامسٹ نظریاتی انتہا پسندوں سے 65 ملکوں کا اتحاد بنا کر فوجی مہم جوئیاں کرنے کے بجاۓ۔ اخوان المسلمون کے ماڈریٹ خود ان سے نمٹ لیتے۔ ایک سیاسی اور جمہوری عمل میں یہ جلدی کمزور ہو جاتے۔ اور عوام ان کی سیاست مسترد کر دیتے۔ لبرل اور اعتدال پسندوں کو اقتدار میں آنے کا موقعہ ملتا۔ جس طرح ارجنٹائن میں ایک سیاسی اور جمہوری عمل کے ذریعے مغرب نواز اب اقتدار میں آ گیے ہیں۔

      لیکن اوبامہ انتظامیہ نے امریکہ کی جمہوری حکومتوں کے تختے الٹنے کی ثقافت ذ ندہ رکھتے ہوۓ مصر میں فوجی حکومت قبول کر لی تھی۔ اور جو اسلامسٹ جمہوری اور سیاسی عمل میں آنا چاہتے تھے ۔ ان کے سیاسی عمل میں آنے کے دروازے بند کر دئیے تھے۔ اور انہیں Bunch of Killers کی سیاست میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا۔ عرب قبائلی حکمرانوں کی طرح امریکہ کو بھی لڑائیوں سے عشق ہے۔ اس لئے امریکہ ان کے ساتھ اتحاد میں شامل ہو گیا ہے۔ جنگیں اور طاقت کا بھر پور استعمال  دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہیں اور Bunch of Killers پیدا کر رہی ہیں۔

Tuesday, November 24, 2015

The Dilemma of Liberty, Freedom And Democracy, Death of American Moral Values, And Mourning In Paris

The Politics of Bombs And Boots
  
   
The Dilemma of Liberty, Freedom And Democracy,
Death of American Moral Values,
And Mourning In Paris

مجیب خان

U.S. Secretary of State walking through Tahrir Square during the Arab Spring
 
U.S. Senators John McCain & Joseph Lieberman in Tahrir Square (Cairo, Egypt) during the Arab Spring 
Egyptians casting their vote during the Arab Spring
 Hillary Clinton meets with Egyptian President Mohamed Morsi
Egyptian President Morsi held in jail in Cairo, Egypt 
Muslim Brotherhood supports held in an Egyptian jail 
Current U.S. Secretary of State, John Kerry, meets with Egyptian President el-Sisi
Saudi soldiers entering Bahrain
ISIS fighters in Iraq and Syria 

Syrian refugees and refugees from other nations under extreme conflict 

      اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی ہے ۔ جس میں تمام ملکوں سے داعش کے خلاف ضروری اقدام کرنے کا کہا گیا ہے۔ قرارداد میں اقوام متحدہ کے چارٹر میں Chapter 7 کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ جس میں طاقت کے استعمال کا اختیار دیا گیا ہے۔ لیکن سلامتی کونسل کی ایسی قراردادیں پہلے سے موجود ہیں جن میں القا عدہ اور دوسرے دہشت گروپوں کے خلاف لڑائی میں یہ اختیار دیا گیا ہے۔ اور ان قرار دادوں کا یہاں اطلاق ہوتا ہے۔ سلامتی کونسل میں یہ قرارداد فرانس نے پیش کی تھی ۔13 نومبر کو پیرس میں دہشت گردوں کے حملے میں 129 فرانسیسی مارے گۓ تھے۔
      سلامتی کونسل میں دہشت گردوں سے لڑنے کے سلسلے میں یہ نہ تو پہلی قرارداد ہے اور نہ ہی یہ آخری قرارداد ہو گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جو جتنا زیادہ شور مچا رہے ہیں۔ وہ ہی دہشت گردی کو فروغ بھی دے رہے ہیں۔ ان کا دہشت گردی جاری رکھنے میں مفاد ہے۔ جبکہ باقی دنیا کا دہشت گردی ختم کرنے میں مفاد ہے۔ جن ملکوں کا دہشت گردی جاری رکھنے میں مفاد ہے وہ طاقتور اور دولت مند ملک ہیں۔ اور ان ملکوں نے عراق اور لیبیا کا ریاستی ڈھانچہ تباہ کر کے اس کی جگہ دہشت گردوں کے مدرسے بنا دئیے ہیں۔ اور یہاں سے دہشت گردوں کو پھر شام میں حکومت تبدیل کرنے کی خانہ جنگی میں حصہ لینے بھیجا جاتا ہے۔ جبکہ بعض دہشت گرد یمن میں سعودی عرب کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ اور ان کا تعلق القا عدہ سے ہے۔
     اب چھوٹے اور غریب ملک دہشت گردوں سے نجات حاصل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ اور وہ اس جنگ میں اپنا رول دیانت داری سے ادا کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی پشت کے پیچھے طاقتور اور مالدار ملک نئے دہشت گرد پیدا کر رہے ہیں۔ پندرہ سال ہو گیے ہیں۔ یہ جنگ ختم نہیں ہو رہی ہے ۔ بلکہ دہشت گردی پھیلتی جا رہی ہے۔ بش انتظامیہ میں آٹھ سال تک صرف دہشت گردی ، القا عدہ ، ا سا مہ بن لادن اور بن لادن کے و ڈیو بریکنگ نیوز ہوتے رہے۔ طالبا ن  بھی اس جنگ کا حصہ قرار دئیے گۓ تھے۔ لیکن دہشت گردی ختم ہوئی تھی اور نہ ہی دہشت گردی میں کمی ہوئی تھی۔ اب اوبامہ انتظامیہ میں بھی سات سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا شور بہت ہے۔ اس جنگ میں صرف یہ بڑی کامیابی ہوئی تھی کہ ا سا مہ بن لا دن کو قتل کر دیا تھا۔ لیکن دہشت گردی زندہ تھی۔ اور نئے دہشت گردوں نے بن لادن کی جگہ لے لی ہے۔ داعش جس میں ا ب سر فہرس ہے۔ جسے القا عدہ  سے زیادہ خطرناک  بتایا جا رہا ہے۔ ان کے علاوہ ایک درجن دوسرے دہشت گروپ بھی ہیں جو عراق سے شمالی افریقہ تک Dandelion کی طرح پھیلے ہو ۓ ہیں۔ یہ گروپ کس کی مدد سے وجود میں آۓ ہیں؟ ان گروپوں کے پیچھے کونسے پوشیدہ ہاتھ ہیں؟ اور ان گروپوں کی دہشت گردی سے یورپ اور امریکہ میں لوگوں کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔ اس دہشت گردی کی آ ڑ میں ان کی جمہوری آزادیاں چھنیے کی کوشش کی جا رہی  ہے۔ نائن الیون کے بعد سے یہ کوششیں کی جاری ہیں ۔ حالانکہ امریکہ اسی القاعدہ کے ساتھ شام میں داعش کے خلاف لڑ رہا ہے۔ دنیا کے اسٹیج پر دہشت گردی کے ڈرامہ کے بارے یہاں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ کیا امیر اور غریب میں بڑھتے ہوۓ فرق سے غریبوں کی توجہ ہٹانے کے لئے اسلامی دہشت گردی کو استعمال کیا جا رہا ہے؟ اور اسلامی دہشت گردی کو کارپوریشنوں اور کمپنیوں کے مفاد دنیا میں چین کا نظام رائج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ آخر اس لڑائی کو اتنا طول دینے کا مقصد کیا ہے ؟
      دنیا میں اکثریت ان ملکوں کی ہے جو طاقتور نہیں ہیں اور غریب  ملک ہیں۔ دہشت گردی ان کے لئے نئی نہیں ہے۔ سرد جنگ میں عیسائی اور مسلمان ملکوں میں دائیں اور بائیں بازو اور فوجی آمروں کی دہشت گردی کو فروغ دیا گیا تھا۔  بلاشبہ ان کی دہشت گردی بھی انسانیت کے لئے داعش اور القاعدہ کی دہشت گردی سے کم خطرناک نہیں تھی۔ چلی اور انڈونشیا کے لوگ اس کی گواہی دیں گے۔ عرب حکمران اس جنگ میں اپنی بقا دیکھ رہے ہیں۔ اور طاقتور اور مالدار ملک اپنے مقاصد حاصل کر رہے ہیں۔
      سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتوں نے دنیا کے ایک ایسے انتہائی حساس خطہ کو عدم استحکام کیا ہے کہ جہاں عیسائی مسلمان اور یہودی تین بڑے مذہبی عقیدے کے لوگ آباد ہیں۔ اور عیسائی اور مسلمانوں کے اندر مختلف فرقہ بھی یہاں ہیں۔ شیطانوں نے یہاں عیسا ئیوں کو نظر انداز کر دیا تھا اور شیعاؤں کو سنیوں سے لڑا دیا۔ شیطانوں کی اس سیاست میں صدام حسین اور کرنل قدافی اب فرشتہ نظر آتے ہیں۔ جنہوں نے عیسا ئیوں سنیوں اور شیعاؤں  کو آپس میں لڑاؤ اور حکو مت کرو کی سیاست نہیں کی تھی۔ انہوں نے بلا کسی امتیاز سب کو حکومت میں شامل کیا تھا۔ ان شیطانوں نے دوسرے اسلامی ملکوں کے لئے بھی مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔ جو مذہب کو سیاست سے علیحدہ  کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن یہ عراق میں مذہبی فرقہ پرستی کی آگ لگا کر چلے گۓ تھے۔ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر نے یہ اعتراف کیا ہے کہ داعش کے قیام کا براہ راست عراق پر حملے سے تعلق ہے۔ جنہوں نے عراق میں لبرل اور سیکولر نظام تباہ کر کے مذہبی فرقہ پرستی کا نظام دیا تھا۔ شیعاؤں کو انہوں عراق دے دیا تھا اور سنی داعش اب اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اور وہابی سنی اب شام مانگ رہے ہیں۔ جہاں سنی اکثریت میں ہیں۔
     یہ سیاسی تنازعہ ہے۔ جسے بموں سے حل کیا جا رہا ہے۔ جبکہ یہ حالات بموں ، مشین گنوں، ٹینکوں اور فوجی جوتوں نے پیدا کیے ہیں۔ سیاسی تنازعہ بموں اور فوجی جوتوں کی موجودگی میں کبھی حل نہیں ہوتے ہیں۔ انہیں سیاسی طریقوں سے حل کیا جاۓ۔ اس کے لئے ایک سیاسی ماحول بنایا جاۓ۔ اور سیاسی استحکام اس کا پہلا قدم ہے۔ عراق شام اور لیبیا میں استحکام  سے حالات کو بہتر بنانے  میں مدد ملے گی۔ پھر تمام فرقوں میں ایک قوم ہونے کا احساس بحال کیا جاۓ ۔ بیرونی مداخلت بند کی جاۓ۔ جس طرح اسرائیل کے خلاف گروپوں کو اسلحہ فراہم کر نے پر پابندی ہے۔ اسی طرح عراق شام اور لیبیا میں گروپوں کو اسلحہ فراہم کرنے پر پابندی لگائی جاۓ۔ بش انتظامیہ نے عراق کو اپنی پسند کا نظام دیا تھا ۔ جس کے یہ نتائج ہیں۔ لہذا اب شام لیبیا اور عراق کے لوگوں کو اپنے نظام کا خود فیصلہ کرنے کا موقعہ دیا جاۓ۔ بیرونی ملکوں کو اسے ویٹو کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔

     پانچ سال قبل عرب اسپرنگ میں عرب عوام کا جوش و جذبہ دیکھ کر امریکہ نے عرب حکمرانوں سے رشتہ توڑ کر عرب عوام سے نیا رشتہ بنا لیا تھا۔ عرب اسپرنگ میں عوام لبرٹی ، فریڈم اور ڈیموکریسی کے لئے قربانیاں دے رہے تھے۔ یہ دیکھ کر امریکہ نے بھی اپنے ایک قدیم اور وفا دار اتحادی صدر حسینی مبارک کی قربانی دے دی تھی۔ عرب اسپرنگ کامیابی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ اور یہ عرب دنیا کا نقشہ بدل رہا تھا۔ عرب حکمران اور اسرائیل اس وقت عرب اسپرنگ کو اپنے لئے ایران سے زیادہ بڑا دشمن سمجھتے تھے۔ عرب حکمرانوں نے یہ دیکھ کر اسرائیل کے ذریعے امریکہ کا Behavior تبدیل کرنے کے لئے واشنگٹن میں ایک طاقتور لابی Hire کر لی ۔ تقریباً ساٹھ ملین ڈالر خرچ کیے ۔ امریکہ کا Behavior ٹھیک ہو گیا ۔ عرب عوام کوDump کر دیا اور مکہ جا کر عرب اسپرنگ سے امریکہ نے توبہ کر لی۔ اور مطلق العنان عرب حکمرانوں سے رشتہ پھر جوڑ لیا۔ لبرٹی ، فریڈم اور ڈیموکریسی کے پیاسے عرب عوام امریکہ کے اس Behavior سے سخت مایوس ہوۓ تھے۔ اور یہ مایوس عرب اب داعش کے ساتھ ہیں۔ اور مہذب دنیا کے بموں کا سامنا کر رہے ہیں۔ امریکہ کے اس Behavior کی وجہ سے شام Cross Fire میں آگیا ہے۔ اور یہ المیہ ہے جو دہشت گردی بن گیا ہے۔                                                                               

Thursday, November 19, 2015

The People Are Suffering, Not The “DECIDER”

Globalization of Terror

The People Are Suffering,
Not The “DECIDER”

مجیب خان




U.S. Senator John McCain (R-AZ) meets with Libyan rebels who were supportive to the Islamic State

U.S. Senators John McCain (R-AZ) & Lindsey Graham (R-SC) meeting with ISIS Commander in Libya

Famous French Philosopher Bernard Henri Levy posing with disguised Libyan rebels during the Libyan Civil War

Bernard Henri Levy posing with more Libyan rebels 

Qaddafi's hired militia men came from different nations across northern Africa 

Paris, France  mourning the loss of the innocent people killed by ISIS terrorists - November, 2015

      جنوری میں دہشت گردوں نے پیرس میں  حملہ کیا تھا۔ جس میں 17 بے گناہ لوگ مارے گیے تھے ۔ اس دہشت گردی کی دنیا نے شدید مذ مت کی تھی۔ اور دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا عزم کیا تھا۔ عالمی برادری نے فرانس کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔ پیرس میں دہشت گردی کے خلاف مارچ ہوا تھا۔ جس میں فرانس کے صدر جرمنی کی چانسلر، افریقہ کے سربراہوں، فلسطینی رہنما محمود عباس، اسرائیل کے وزیر اعظم نے شرکت کی تھی۔ اب دس ماہ بعد پیرس میں دہشت گردوں کا پہلے سے زیادہ بڑا حملہ ہوا ہے ۔ جس میں129 لوگ مارے گیے ہیں۔ اور اس مرتبہ دہشت گردوں نے پیرس میں چھ مختلف مقام پر حملہ کیا ہے - سوال یہ نہیں ہے کہ حملہ کیسے ہوا ہے۔ سوال اب یہ ہے کہ دس ماہ میں فرانس کی حکومت نے کیا کیا ہے۔ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی انتظامیہ دنیا میں کیا کر رہی ہے؟
      ان دس ماہ میں فرانس نے سعودی عرب کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ فرانس یمن کے ساتھ سعودی عرب کی جنگ میں اس کی مدد کر رہا۔  شام کے بحران پر فرانس سعودی عرب کے موقف کی حمایت کر رہا تھا۔ د مشق حکومت کے خلاف لڑنے والوں کے بیک گراؤنڈ کا فرانس کی حکومت کو علم تھا ۔  یہ کہنا مبالغہ آ رائی ہے کہ شام کی خانہ جنگی میں صرف اسد حکومت نے ڈھائی لاکھ شامیوں کو ہلاک کیا تھا۔ بلکہ داعش، القاعدہ اور نام نہاد باغیوں نے بھی انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کیے ہیں ۔ شام کی حکومت کو ریاست کا دفاع کرنے کا اتنا ہی حق ہے کہ جتنا امریکہ کو ہے ۔ فرانس کو ہے اور برطانیہ کو ہے۔ دہشت گردوں نے پیرس میں حملہ کر کے 129 بے گناہ شہریوں کو ہلاک کیا تھا۔ فرانس کی حکومت اب بھر پور طاقت سے ان دہشت گردوں کا تعاقب کر رہی ہے۔ امریکہ پر نائن ا لیو ن کا حملہ ہوا تھا۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ حالانکہ افغانوں کا اس دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اور پھر عراق پر حملہ کیا تھا۔ ا بو غریب جیل، گوتانوموبے کیمپ، بگرام جیل میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تھا۔ اور اب امریکہ برطانیہ اور فرانس شام کی حکومت سے دہشت گردوں سے محبت سے پیش آنے کی توقع کرتے ہیں۔ جبکہ شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والوں میں ایک بڑی تعداد غیر ملکی جہادیوں کی ہے۔ انہیں ہتھیار اور فنڈ ز بھی غیر ملکی فراہم کر رہے ہیں۔ اگر شام کی جگہ سعودی عرب ہوتا تو سعودی حکومت ان کے ساتھ کس طرح پیش اتی ؟ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اپنے مفادات کے مطابق اصولوں کا تعین کرتے ہیں۔ اور اصول جب مفادات میں Fit نہیں ہوتے ہیں تو یہ قانون اور اخلاقی قدروں کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔
      جنوری میں پیرس میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد دس ماہ میں امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف مہم میں کتنی کامیابی ہوئی ہے ؟ دہشت گردی ختم کرنے میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ صرف باتیں اور شور بہت زیادہ ہے۔ دس ماہ میں یورپ بھر سے مسلم نوجوان داعش میں بھر تی ہو رہے تھے۔ اور شام میں لڑنے جا رہے  تھے۔ امریکی میڈ یا میں اس کی خبریں جیسے داعش میں بھرتی کا Ad  ہوتی تھیں۔ ان دس ماہ میں امریکہ نے بھی سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا ہے۔ یمن میں جنگ کا ایک نیا محاذ کھولنے پر امریکہ نے سعودی عرب کی پشت پنا ہی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اور اس جنگ میں امریکہ اور فرانس سعودی عرب کو کھربوں ڈالر کا نیا اسلحہ فروخت کر رہے ہیں ۔ اس جنگ کو 9 ماہ ہو گۓ ہیں۔ لیکن امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی طرح یمن میں سعود یوں کی جنگ بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہی ہے۔ غریبوں کے ساتھ جنگ میں دولت مند Loser نظر آ رہے ہیں۔ اور دس ماہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف یہ پرو گریس ہوئی ہے۔
      دہشت گردی کے خلاف مہم اور شام کی خانہ جنگی میں امریکہ کا رول بڑا Dubious ہے۔ 80 کے عشر ے میں جس طرح افغان مجاہدین کو تربیت دی گی تھی ۔ بالکل اسی طرح شام میں حکومت کے خلاف باغیوں کو ارد ن میں سی آئی اے کے کیمپوں میں تربیت دی جا رہی تھی۔ انہیں اسلحہ فراہم کیا جا رہا تھا۔ سعودی عرب اور خلیج کی حکومتیں انہیں فنڈ ز دے رہی تھیں۔ یورپ بھر سے جو جہادی یہاں داعش کے ساتھ  اسد حکومت کے خلاف لڑنے آۓ تھے۔ ان میں کتنے پہلے ا رد ن میں سی آئی اے کے کیمپوں میں تربیت لینے گۓ تھے۔ پیرس میں جن دہشت گردوں نے چھ مقا م پر حملے کیے ہیں ۔کیا انہوں نے بھی ارد ن میں ان کیمپوں میں تربیت لی تھی۔ جب بھی یہ سوال ہوتا تھا کہ امریکہ اسلامی جہادیوں کو تربیت دے رہا ہے۔ تو کہا جاتا تھا کہ یہ ماڈریٹ ہیں۔ لیکن یہ ماڈریٹ پھر داعش میں شامل ہو جاتے تھے۔ اور اب داعش میں جہادیوں کی تعداد 80 ہزار سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔
      فرانس میں دہشت گردی کے واقع کی سابق صدر نکو لاس سر کو زی بھی ذمہ دار ہے۔ جس نے برنا رڈ ہنری لیو ی کے مشورے پر لیبیا میں صدر قدا فی کو اقتدار سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔ فرانس کے لوگوں نے برنارڈ ہنری لیوی کو منتخب نہیں کیا تھا ۔اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ کا رکن تھا۔ پھر وہ کس حیثیت سے سرکوزی حکومت سے اپنے ذاتی مفاد کے فیصلے کروا رہا تھا۔ لیبیا میں حکومت تبدیل کروانے میں برنارڈ لیو ی کا کیا مفاد تھا۔ برنارڈ لیو ی لیبیا میں قدافی حکومت کے جن باغیوں کے ساتھ کھڑا تھا ۔ وہ لیبیا میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔ صدر قدافی کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے جس میں صدر قدافی نے امریکہ فرانس اور برطانیہ کو متنبہہ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے مخالفین کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ اور یہ لیبیا میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ برطانیہ اسلامی دہشت گردی کے خلاف دنیا کو لیکچر دیتے تھے ۔ لیکن ان پر حکومتیں تبدیل کرنے کا اس قدر نشہ طاری تھا کہ انہوں نے قدافی کو اقتدار سے ہٹا کر لیبیا القاعدہ کو دے دیا تھا۔ غیر قانونی فیصلے اس طرح کر رہے تھے کہ جیسے وہ دنیا کے خدا تھے۔ دہشت گردی بھی جاری تھی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی جاری تھی۔ نکولاس سرکوزی اب اقتدار میں نہیں ہیں۔ جارج بش بھی اقتدار میں نہیں ہیں ۔ ٹونی بلیر بھی اقتدار میں نہیں ہیں ۔ لیکن ان کے فیصلے  ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو ابھی تک بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔  صدر اوبامہ بھی اب ان رہنماؤں  میں شامل ہو گۓ ہیں ۔ پندرہ سال ہو گۓ ہیں لیکن دہشت گردی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ کینسر کا علاج ڈاکٹر جب ایسی دواؤں سے کرنے لگتا ہے ۔ جن سے کینسر پھیلنے لگتا ہے ۔ ڈاکٹر دوا بدل دیتا ہے یا مریض ڈاکٹر بدل دیتا ہے۔ لیکن دہشت گردی میں مبتلا مریض ڈاکٹر بدلنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر علاج کے طریقے بدلنا چاہتے ہیں۔

  

Monday, November 16, 2015

Warmonger: The Politics of Violence and Counter-Violence

           
No Justice, No Peace

Warmonger:
The Politics of Violence and Counter-Violence

مجیب خان


Invasion of Iraq (2003)

        اسرائیلی وزیر اعظم نتھنا یا ہو ایسے وقت امریکہ آۓ تھے کہ انہیں تالیوں اور خوبصورت خیر مقدمی لفظوں سے زیادہ  دینے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ وزیر اعظم نتھنا یا ہو ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ سبوتاژ کرنے میں ناکام  ہو گیے تھے۔ اور اوبامہ انتظامیہ کے شام میں تمام منصوبے اور مقاصد ناکام ہو گۓ تھے۔ روس کی فوجیں شام میں آ گی تھیں۔ اور امریکہ کے پسندیدہ باغیوں کے خلاف مورچے سنبھال لئے تھے جو اسد حکومت سے لڑ رہے تھے ۔ ادھر مشرق وسطی کا ہر ملک انتشا ر اور عدم استحکام کی آگ میں تھا۔ اور اسرائیل میں اس کی تپش محسوس کی جا رہی تھی۔ حما س اور حزب اللہ بھی اس سے استثناء نہیں تھے۔ اسرائیل خواہ کتنا ہی طاقتور ہے۔ ہر طرح کے مہلک ہتھیار اسرائیل کے پاس ہیں ۔ لیکن ہمسایہ میں جب ہر طرف آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں طاقت اور ہتھیار بھی کام نہیں کرتے ہیں۔ مہا تما گاندھی جیسے سیاسی مفکروں نے امن کو اپنی تحریکوں کی طاقت  قرار دیا تھا۔ اور تشدد کی سیاست کی ہمیشہ مخالفت کی تھی۔ پرامن طریقوں سے جب مقاصد میں کامیابی ہوتی ہے۔ تو یہ پائدار کامیابی ہوتی ہے۔ اور امن کامیابیوں پر غالب رہتا ہے۔ اسرائیل اب Dead End پر کھڑا ہے۔ اسرائیل کے اطراف میں تشدد انتشار اور عدم استحکام کی آگ کے شعلے ہیں۔ اور اسرائیل کے لئے اس سے نکلنے کا راستہ نہیں ہے۔ امریکہ تشدد کے ذریعے عراق میں تبدیلیاں لایا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تبدیلیاں ابھی تک پائدار ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ عراق اپنی تاریخ کے بدترین انتشار میں گھرا ہوا ہے۔ اسی طرح تشدد کے ذریعے لیبیا میں تبدیلیاں آئی تھیں ۔ نتیجہ یہ ہے لیبیا دہشت تشدد اور انتشار میں پھنسا ہوا ہے۔ مشرق وسطی میں جہاں بھی تشدد پسندوں کی حمایت میں حکومتیں تبدیل کی گی ہیں۔ وہاں دہشت گردوں کا نظام آگیا ہے۔ ان کا نظام ڈکٹیٹروں کے نظام سے زیادہ خوفناک ہے۔ اور دنیا سے کہا جا رہا ہے کہ ہمیں اب ان سے لڑنا ہو گا۔ اسرائیل یہ نہیں چاہے گا کہ شام میں اسلامی انتہا پسند آ جائیں ۔ لیکن اسرائیل یہ بھی نہیں چاہتا ہے کہ بشا ر السد اقتدار میں رہیں اور یہاں ایران کا اثر بڑھ جاۓ ۔اور ایران پھر حزب اللہ کے ذریعے حما س کو ہتھیار فراہم کرے گا۔ اور ایران یہ نہیں چاہے گا کہ شام میں داعش یا وہابی آ جائیں اور پھر لبنا ن پر قبضہ کرنے کے لئے وہاں ایک نئی خانہ جنگی شروع ہو جاۓ۔ بہرحال اسرائیل کو ہر صورت میں مشکل خطروں کا سامنا ہے ۔ تاہم یہ خطرے ایران حزب اللہ اور حما س نے اسرائیل کے لئے پیدا نہیں کیے ہیں۔ یہ خطر ے Neo Cons نے اسرائیل کے لئے پیدا کیے ہیں۔ جن پر عرب دنیا میں Regime Change  کرنے  کا نشہ طاری تھا۔ جو 90 کے عشر ے سے اس کے منصوبے بنا رہے تھے۔ عرب دنیا کے حالات اب  Neo Cons  کے عزائم  کے مطابق سامنے آ رہے ہیں۔ جن کا اسرائیل بھی سامنا کر رہا ہے۔
      امریکہ کے تھینک تھینکس ، ٹی وی ٹاک شو پنڈت ، اسرائیل سب عراق میںRegime Change   سے کم  کوئی دوسری بات کرنے اور سننے  کے لئے تیار نہیں تھے۔ یہ 1930 کی  Appeasement  پالیسی کی دلیلیں دے کر صدام حسین سے سمجھوتہ کرنے کی سخت  مخالفت کرتے تھے۔ صدام حسین نے عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں جو Dossier  دیا تھا۔ اسے جھوٹ کا پلندا کہہ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا۔ یہ لوگ تھے جنہوں نے یہاں اسلامی ریاست کے لئے بنیاد رکھی تھی۔ داعش اب ان کی بنیادوں پر کھڑی ہے۔ اصل مجرم تو وہ ہیں جنہوں نے عراق میں حکومت تبدیل کی تھی اور اسلامی ریاست کے لئے بنیاد رکھی تھی ۔  داعش تو ثانوی مجرم ہے۔
       صدام حسین بدترین ڈکٹیٹر تھے۔ لیکن عراق جس خطہ میں تھا اس میں ان کا رول بڑا اسٹرٹیجک  نوعیت کا تھا۔ انہوں نے سعودی عرب کو توازن میں رکھا تھا۔ اور ایران کو Defensive رکھا تھا۔ اسلامی انتہا پسندوں کو قابو میں رکھا تھا۔ یہ ہی وجہ  تھی کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد عرب دنیا میں ا سلا مسٹ کا عروج نہیں ہو سکا تھا۔ حالانکہ اس وقت یہ کہا جا رہا تھا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے عرب دنیا کی سیاست پر گہرے اثرات ہوں گے۔ اور عرب ملکوں میں اسلامی تحریکوں کو ایران کے اسلامی انقلاب سے  نیا حوصلہ ملے گا۔ لیکن اسلامی انقلاب ایران کی سرحدوں میں رہا تھا۔ جبکہ حما س  اور حزب اللہ ایران کے اسلامی انقلاب کی پیداوار نہیں تھے۔ یہ تنظیمیں  لبنا ن اور فلسطین پر اسرائیلی فوجی قبضہ کے نتیجے میں وجود میں آئی تھیں ۔ جس طرح  ایران پی ایل او کی حمایت کرتا تھا اسی طرح ایران نے حما س اور حزب اللہ کی مدد کی تھی۔ لیکن عرب دنیا میں حالات کبھی اتنے خراب نہیں تھے کہ جتنے اس وقت خراب ہیں۔۔
      عرب دنیا میں حکومتوں کا سیاسی Set Up  ایسا برا نہیں تھا۔ اسے پرامن طریقوں سے بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ عراق، شام اور لیبیا سیکو لر تھے۔ عراق اور شام کے لئے سیکو لر ہونا ضروری تھا۔ کیونکہ شیعہ سنی عیسائی اور دوسرے چھوٹے فرقہ یہاں صدیوں سے آباد تھے اور ان سب کی بقا صرف سیکو لر نظام میں تھی ۔ اسی طرح لیبیا میں سنی اکثریت تھی لیکن شیعہ اور عیسائی بھی تھے۔ لیبیا ایک سیکو لر سوشلسٹ  جمہوریہ تھا۔ ایک قبائلی معاشرے میں سیکو لر سوشلسٹ جمہوریہ خاصا کامیاب تجربہ تھا ۔ چالیس سال اس نظام نے لیبیا کو استحکام دیا تھا۔ اور لیبیا نے اس نظام میں اقتصادی اور معاشی ترقی بھی کی تھی۔ جمال عبدالنا صر کے دور میں مصر بھی سیکو لر سوشلسٹ جمہوریہ تھا۔ لیکن حسینی مبارک کے دور میں مصر مغربی ماڈریٹ ہو گیا تھا۔ ارد ن بھی ماڈریٹ تھا۔ جبکہ سعودی عرب اور خلیج کی ریاستیں نظریاتی اور مذہبی قدامت پسند تھیں ۔ ترکی ایک ماڈریٹ جمہوری ملک تھا۔ سیکو لر عراق اور شام کے ساتھ اس کی سرحدیں ملتی تھیں۔ لبنا ن میں شیعہ سنی اور عیسائی تھے ۔ لبنا ن انتہائی پرامن اور ماڈریٹ ملک تھا۔ بیرو ت کو مشرق وسطی کا پیرس کہا جاتا تھا۔ لیکن فلسطینی مہاجرین کی یہاں بڑی تعداد میں آمد اور اسرائیل کی مداخلت کے نتیجے میں لبنا ن میں خانہ جنگی شروع ہو گی تھی۔ اور لبنا ن عراق بن گیا تھا۔ یہ خانہ جنگی تقریباً  دس سال رہی تھی۔ دو لاکھ  لبنا نی اس خانہ جنگی میں مارے گیے تھے۔  لبنا ن کے با رے میں بھی یہ کہا جا رہا تھا کہ لبنا ن مذہبی بنیاد پر تقسیم ہو جاۓ گا۔ عراق اور شام بھی بیرونی مداخلت کے نتیجے میں اب خوفناک خانہ جنگی کا سامنا کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں کے کھربوں ڈالر شام کی خانہ جنگی میں لگے ہوۓ ہیں۔ جبکہ امریکہ کے ہتھیاروں کی صنعت کے لئے یہ خانہ جنگی ایک بڑی مارکیٹ ہے۔
      سرد جنگ ختم ہونے کے بعد مشرقی یورپ کے ملکوں میں جس طرح سیاسی تبدیلیاں آئی تھیں ۔ ان ملکوں میں امریکہ برطانیہ اور فرانس اگر اس طرح مداخلت کرنے لگتے تو شاید یہاں بھی صورت حال عراق  شام اور لیبیا کے حالات سے مختلف نہیں ہوتی۔ اندرونی سیاسی تنازعہ میں بیرونی مداخلت جہادیوں کی ہوتی ہے یا سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتیں مداخلت کرتی ہیں۔ ان کی مداخلت انسانیت کے لئے  صرف تباہی ثابت ہوئی ہے۔ اس سے جہادیوں نے کچھ حاصل کیا ہے۔ اور نہ ہی سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتوں نے کچھ حاصل کیا ہے۔ دنیا کے لئے مسائل میں صرف اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں جہادیوں نے مداخلت کی تھی ۔ سامراجی اور نوآبادیاتی ملکوں نے مداخلت کی تھی۔ لیکن 35 سال ہو گیے ہیں دنیا ابھی تک ان کی اس مداخلت کے نتائج بھگت رہی ہے۔

      عراق میں اینگلو امریکہ نے فوجی مداخلت کی تھی۔ ان کے حملے سے ہزاروں اور لاکھوں عراقیوں کی زندگیاں برباد ہو گی ہیں۔ ان کے خاندان تباہ ہو گیے ہیں۔ ان کے بچوں کا مستقبل تاریک ہو گیا ہے۔ شام میں وہابی مداخلت کر رہے ہیں۔ سلا فسٹ مداخلت کر رہے ہیں۔ مغربی Civilized  مداخلت کر رہے ہیں۔ ان سب کی مداخلت نے شام میں انسانیت کو تہس نہس کر دیا ہے۔ بے گناہ شا میوں کے ملک کو کھنڈرات بنا دیا ہے۔ اسی طرح لیبیا میں Civilized West  نے فوجی مداخلت کر کے قد ا فی کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ عراق لیبیا اور شام کے لوگوں کے لئے اب انصاف بھی نہیں ہے۔ امن بھی نہیں ہے۔ ملک بھی نہیں ہے۔ یہ دہشت گرد ہیں اور Civilized West  پر حملے کر رہے ہیں ؟ یا  Civilized World  ان پر حملے کر رہی ہے؟

Tuesday, November 10, 2015

In The Court of History, The People Are The Jury



  
World In Turmoil

In The Court of History, The People Are The Jury 


مجیب خان

  
Time Magazine - April 1979

        جیسا کہ 80 کی دہائی کے ٹائمز میگزین ، نیوز ویک اور دوسرے بہت سے جریدوں کے سر ورق اکثر دہشت گردی پر ہوتے تھے۔ انہیں دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمی سیاست میں 70 کی دہائی کے آخری عشر ے سے دہشت گردی کا فروغ ہورہا تھا۔ اس وقت دہشت گردی کو روکنے پر اتنی توجہ بھی نہیں دی گی تھی۔ اور اسے اسلامی دہشت گردی بھی نہیں کہا جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیا دو بلاک میں تقسیم تھی۔ اور دہشت گردی کو مغرب اور مشرق کے درمیان سرد جنگ کی محاذ آ رائی کی سیاست میں دیکھا جاتا تھا۔ اس لئے دہشت گردی کو عالمی امن اور سلامتی کے لئے اتنا بڑا خطرہ بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ کہ جس طرح نائین الیون  کے بعد دہشت گردی کو دنیا کے لئے ایک بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جنہوں نے دہشت گردی کو دنیا کے لئے خطرہ قرار دیا ہے ۔ دنیا میں 80 فیصد دہشت گردی فروغ دینے کے ذمہ دار وہ خود تھے۔ ان کی غلطی نہیں بلکہ تاریخی گناہ یہ تھا کہ افغانستان کو جہاں لوگ انتہائی مذہبی Rigid تھے۔ وہاں سوویت یونین کے خلافMilitant   اسلام کو استعمال کیا تھا۔ افغانستان میںMilitant  اسلام کا سیاسی مقاصد میں استعمال ایسا تھا کہ جیسے امریکہ کو پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اسلامی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں پہنچ جانے کا خوف ہے۔  Militant  اسلام افغانستان کی بنیادوں میں اتر گیا ہے۔ نیٹو کے 27 ملک چودہ سال تک   Militant   اسلام کو افغانستان کی بنیادوں سے نکالنے کی کوششوں میں ناکام ہو کر واپس چلے گۓ ۔
       سوویت وزارت خارجہ نے 1980  میں افغانستان کے بارے میں دستاویز حقائق اور عنیی شاہد رپورٹوں پر مشتمل 157 صفحات کا ایک کتابچہ شائع کیا تھا۔ جس میں پاکستان میں دہشت گردوں کے تر بیتی کیمپوں کے مقا مات بتاۓ گۓ تھے۔ جہاں سی آئی اے غیر ملکی جہادیوں کو تربیت دیتی تھی۔ سعودی عرب فنڈ ز فراہم کرتا تھا۔ امریکہ انہیں ہتھیار فراہم کرتا تھا۔ لیکن حسب عادت ان حقائق کو مستر د کر دیا جاتا تھا۔ لیکن دنیا افغانستان میں ان حقائق کو مستر د کرنے کے نتائج آج دہشت گردی کی صورت میں بھگت رہی ہے۔  افغانستان میں اپنی ذمہ دار یاں قبول کرنے کے بجاۓ انہیں یہ کہہ کر پاکستان کے سر تھوپ دیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں  طا لبان کی پشت پنا ہی کر رہا ہے۔ اور پاکستان میں طا لبان کی پناہ گاہیں ہیں۔ 34  سال قبل سوویت وزارت خارجہ نے افغانستان کے بارے جو دستاویز جاری کی تھی اس میں بھی یہ ہی کہا گیا تھا ۔ لیکن امریکہ کا مفاد اس وقت دوسرا تھا۔  یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مفادات بدل جاتے ہیں۔ لیکن مفادات بدلنے سے ان کا بوجھ لوگوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اور طاقتور ملک چھوٹے ملکوں کو Bully  کرتے ہیں۔            

U.S. President Ronald Reagan meeting with eventual Afghan President Burhanuddin Rabbani 
U.S. President Ronald Reagan and the leader of The Haqqani Network Jalaluddin Haqqani
U.S. President Ronald Reagan meets with Pakistani General Muhammad Zia-ul-Haq at the White House






"Bin Laden was, though, a product of a monumental miscalculation by western security agencies. Throughout the 80s he was armed by the CIA and funded by the Saudis to wage jihad against the Russian occupation of Afghanistan. Al-Qaeda, literally "the database", was originally the computer file of the thousands of mujahideen who were recruited and trained with help from the CIA to defeat the Russians. Inexplicably, and with disastrous consequences, it never appears to have occurred to Washington that once Russia was out of the way, Bin Laden's organisation would turn its attention to the west. The danger now is that the west's current response to the terrorist threat compounds that original error. So long as the struggle against terrorism is conceived as a war that can be won by military means, it is doomed to fail. The more the west emphasises confrontation, the more it silences moderate voices in the Muslim world who want to speak up for cooperation. Success will only come from isolating the terrorists and denying them support, funds and recruits, which means focusing more on our common ground with the Muslim world than on what divides us." 

                               
                   Robin Cook - British Foreign Secretary 2001-2003                                   


Shortly before his untimely death, former British Foreign Secretary Robin Cook told the House of Commons that "Al Qaeda" is not really a terrorist group but a database of international mujaheddin and arms smugglers used by the CIA and Saudis to funnel guerrillas, arms, and money into Soviet-occupied Afghanistan.