Wednesday, January 29, 2020

75th Anniversary of The Liberation of The Auschwitz Camp, And 70 Years of Israel’s Military Occupation on Palestine. Holocaust Everywhere in the Middle East, What Lessons Have Israel’s Leaders Learned from Auschwitz And Holocaust?


  75th Anniversary of The Liberation of The Auschwitz Camp, And 70 Years of Israel’s Military Occupation on Palestine. Holocaust Everywhere in the Middle East, What Lessons Have Israel’s Leaders Learned from Auschwitz And Holocaust? 

President Vladimir Putin “Not to miss when the first sprouts of hatred, of chauvinism, of xenophobia and anti-Semitism start to rear their ugly head, the memory of the Holocaust will continue being a lesson and a warning only if the true story is told, without omitting the facts”

Prince Charles said, “still tell new lies, still, adopt 
new disguises and still seek new victims.”

Vice President Mike Pence urged world leaders to “stand strong against Iran the government in the world that denies the Holocaust as a matter of policy and threatens to wipe Israel off the map.”

Prime Minister Benjamin Netanyahu said, “The tyrants of Tehran that subjugate their own people and threaten the peace and security of the entire world, they threaten the peace and security of everyone in the Middle East and everyone beyond.”  

 Prince Charles “I know that Iran has been such an important part of the world for so many centuries and has contributed so much to human knowledge, culture, poetry, art. I mean, really remarkable people.”

مجیب خان

 
Prince Charles met Palestinian President Mahmoud Abbas in Bethlehem, " It breaks my heart.... that we should continue to see so much suffering and division. No one arriving in Bethlehem today could miss the signs of continued hardship and the situation you face, that Bethlehem embodied the vital co-existence between Christians and Muslims"


Prince Charles "it would be the greatest tragedy if the ancient Palestinian Christian communities were to disappear from Holy Land," an apparent reference to the departure of many Arab Christians from the Middle East.

An Israeli airstrike on Gaza, Holocaust in Palestine

 Holocaust in Syria

Saudi bomb on Yemen, the Holocaust in Yemen




  اسرائیل میں Holocaust کی 75سال یاد گار تقریب سے خطاب میں Prince Charles نے کہا " Holocaust ہر فرد کی روداد ہے۔ ناقابل فہم انسانیت سے عاری ایک روداد ہے۔ جس سے ساری انسانیت سبق سیکھ سکتی ہے۔ اور یہ سبق ضرور سیکھنا چاہیے۔" Auschwitz نظر بندی کیمپ کو آزادی دلانے کی 75سال یاد گار تقریب کا انعقاد اسرائیل میں World Holocaust Forum کے تحت ہوا تھا۔ جس میں برطانیہ کے Prince Charles فرانس کے صدر Macron جرمن چانسلر Merkel روس کے صدر Putin امریکہ کے نائب صدر Mike Pence اور 50 سے زیادہ عالمی شخصیتوں نے شرکت کی تھی۔ اسلامی ملکوں کے ممتاز عالم دین کا وفد خصوصی طور پر Auschwitz گیا تھا۔ اور وفد کو Auschwitz concentration camp دکھایا گیا تھا۔ جہاں انسانیت کے ساتھ انتہائی ہولناک بر تاؤ ہوا تھا۔ جسے دنیا کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ وفد نے یہاں نماز پڑھی تھی۔ اسلامی رہنماؤں کی یہ Holocaust survival کے ساتھ یکجہتی تھی۔
  Holocaust اسرائیل میں نہیں ہوا تھا۔ یہ Auschwitz concentration camp میں ہوا تھا۔ اور Auschwitz camp کو آزادی دلانے کی 75 سال یاد گار بہتر ہوتا Auschwitz میں منائی جاتی۔ عالمی رہنما یہاں جمع ہوتے۔ اسرائیلی لیڈر بھی یہاں آتے۔ یہاں ان میں یہ احساس زندہ ہوتا کہ concentration camp میں انسانیت کو رکھنے کا مقصد Holocaust ہوتا ہے۔ اور دنیا میں جن کی Genuine human values ہوتی ہیں۔ وہ concentration camp سے انسانیت کو آزادی دلانے کے لیے لڑتے ہیں۔ اس وقت اسرائیل کے اطراف میں concentration camp ہیں اور Holocaust کے مناظر ہیں۔ جنہیں دیکھ کر یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیلی لیڈروں نے 75 سال قبل Holocaust سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ اسرائیلی لیڈر Holocaust کو صرف اپنے ایجنڈے کے مقاصد میں استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ Zionism ہے۔ 75 سال Auschwitz کی آزادی دلانے کی یاد گار اور 70سال اسرائیلی فوج کے فلسطینی علاقوں پر قبضہ رکھنے کی یاد گار میں، دنیا اسے کیسے دیکھ رہی ہے؟ انسانی تاریخ میں اتنی بڑی آبادی کو کبھی 70سال امن سے محروم نہیں رکھا گیا ہو گا۔ اسرائیل- فلسطین تنازعہ کی تاریخ میں وزیر اعظم Yitzhak Rabin پہلے اور آخری لیڈر تھے جنہوں نے شاید Holocaust سے سبق سیکھا تھا۔ اور فلسطینیوں کی طرف امن کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ ان کی آزادی اور حقوق کو تسلیم کیا تھا۔ وزیر اعظم Yitzhak Rabin  اگر فلسطینیوں کے ساتھ اپنے امن مشن میں کامیاب ہو جاتے تو آج عرب دنیا بہت مختلف ہوتی۔ عرب دنیا میں Holocaust کے مناظر نہیں دیکھے جا رہے ہوتے۔ یہ Holocaust نازی جرمنی میں Holocaust سے کہیں زیادہ Brutal اور Vicious ہے۔ لیکن اسرائیلی لیڈر جو آج Auschwitz  کو آزادی دلانے کی 75 سال یاد گار منا رہے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم  Yitzhak Rabin کا فلسطینیوں کے ساتھ امن منصوبہ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اور پھر انہیں قتل کر دیا۔ یہ انسانیت کے حامیوں کا قتل تھا۔ یہ امن کا قتل تھا۔ Likud Party نے فلسطینیوں کے ساتھ  امن کی باتیں کرنا بند کر دیں۔ اور ان سے ہتھیاروں کی زبان بولنا شروع کر دی۔ فلسطینیوں کے گنجان آبادی کے علاقوں کو [Auschwitz] concentration camp بنا دئیے۔ کہیں ان کے گھروں کو بلڈ و زر سے تباہ کر دئیے تھے۔ اور وہاں یورپ سے آنے والے یہودیوں کے لیے نئی بستیاں تعمیر کی جا  رہی تھیں۔ لبنا ن میں فلسطینیوں کے صابرہ اور شتیلا  مہاجر کیمپوں پر جنرل ایریل شرون کی قیادت میں اسرائیلی فوج نے ٹینک، بلڈوزر اور آر مر ڈ ٹرک چڑھا دئیے تھے۔ کئی ہفتوں تک ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ انتہائی خوفناک مناظر تھے۔ جو Auschwitz کے مناظر سے مختلف نہیں تھے۔
   اسرائیلی لیڈروں نے Holocaust  اسرائیلی ریاست کو پھیلانے میں استعمال کیا ہے۔ اور Anti-Semitism سے دنیا کی ہمدردیاں حاصل کی ہیں۔ اسرائیلی لیڈروں نے Holocaust never again’ کو اہمیت دی تھی اور نہ ہی اسے اپنی پالیسی بنایا تھا۔ 70سال سے فلسطینیوں کی آزادی پر اسرائیلی فوج قابض ہے۔ جو اب ایک صدی کے قریب ہونے والا ہے۔ ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں ان کی آزادی پر ان کی اپنی فوج کے قبضہ سے لوگ چند سالوں میں تنگ آ جاتے تھے اور حکومت پر فوجی قبضہ کے خلاف سڑکوں پر آ جاتے تھے۔ لیکن اسرائیلی فوج فلسطینیوں پر تشدد کرنے لگتی ہیں۔ ان سے انتہائی بربریت کا سلوک کرتی ہے۔ ان کے گھروں کو گرا دیتی ہے۔ دنیا کو ناز یوں کی تاریخ پڑھنے کی بجاۓ۔ یہ تاریخ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی روئیے میں نظر آ جاۓ گی۔ امن میں اسرائیلی لیڈروں کو جیسے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی لیڈروں نے تقریباً 75 سے زیادہ امن سمجھوتے کیے تھے۔ اور پھر ان سمجھوتوں کو ختم کر دیا تھا۔ امریکہ اور یورپی ملکوں نے بھی اسرائیل سے فلسطینیوں کے ساتھ امن سمجھوتوں پر اس طرح عملدرامد نہیں کرایا تھا کہ جس طرح یہ ایران سے ایٹمی سمجھوتہ پر دھونس اور دھمکی سے عملدرامد کر وا رہے ہیں۔ اسرائیل نے مصر کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر ابھی تک مکمل عملدرامد نہیں کیا ہے۔ اس معاہدے کے صرف اس حصے پر عملدرامد کیا ہے جو صرف اسرائیل کے مفاد میں تھا۔
  70سال میں اسرائیل نے عربوں کے ساتھ تین جنگیں [1948, 1967, 1973]  کی ہیں۔ ان جنگوں میں عربوں کے علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ 50سال ہو گیے ہیں اور یہ علاقے ابھی تک اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ عالمی قانون نے انہیں عربوں کے علاقے قرار دیا ہے۔ اور اسرائیل کو یہ واپس عربوں کو دینا پڑیں گے۔ جرمن یہودی واپس جرمنی میں اپنے گھروں میں آ گیے ہیں۔ انہیں تمام مساوی حقوق حاصل ہیں۔ انہیں مکمل آزادی ہے۔ جرمن یہودی حکومت میں ہیں۔ کابینہ میں ہیں۔ وزارتوں میں ہیں۔ پارلیمنٹ میں ہیں۔ خوش ہیں اور امن سے ہیں۔ تین مرتبہ اسرائیل نے غازہ میں حما س سے جنگ کی تھی۔ غازہ پر کار پٹ بمباری کی تھی۔ یہاں گھر، ہسپتال اور اسکول تباہ کر دئیے تھے۔   غازہ کا infrastructure بھی تباہ کر دیا تھا۔ اس اسرائیلی حملے میں 2ہزار سے زیادہ فلسطینی عورتیں، بچے اور مرد ہلاک ہوۓ تھے۔ اسرائیل نے مغربی کنارے میں PLO کے خلاف فوجی کاروائی کی تھی۔ یہاں گلی گلی اور محلہ محلہ اسرائیلی فوج سے جنگ ہوئی تھی۔ اسرائیل نے مغربی کنارے میں ایرپورٹ تباہ کر دیا تھا۔ جو یورپی یونین کی مدد سے تعمیر ہوا تھا۔ مغربی کنارے کی بندر گاہ بھی اسرائیل نے تباہ کر دی تھی۔ اسرائیل نے بمباری کر کے فلسطینیوں کے تمام معاشی وسائل تباہ کر دئیے تھے۔ ان 70سالوں میں اسرائیل نے لبنا ن پر حملہ کیا تھا۔ اور جنوبی لبنا ن پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسرائیل نے عراق پر بمباری کی تھی اور اس کے ایٹمی پاور پلانٹ تباہ کر دئیے تھے۔ مغربی ملکوں کی یہ چال تھی کہ ان کی کمپنیاں عرب ملکوں کو ایٹمی پاور پلانٹ فروخت کر تی تھیں۔ اس فروخت سے وہ کھربوں ڈالر بناتی تھیں۔ اور پھر اسرائیل کو ایٹمی پاور پلانٹ تباہ کرنے کا اشارہ کر دیا جاتا تھا۔ عراق لیبیا اور شام تباہ کرنے کے بعد ایران کو تباہ کرنے کی جنگ پر زور دیا جا رہا ہے۔ ایران میں Holocaust کی تاریخ بنائی جا رہی ہے۔ جو یہ کہتے تھے کہ Holocaust never again’ انہوں نے شام میں Holocaust کی تاریخ دوہرائی ہے۔ اسرائیل نے اپنے ہمسایہ میں Holocaust کو نہیں روکا تھا۔ جس میں ایک ملین بے گناہ لوگ مار دئیے تھے۔ بلکہ اسرائیل Holocaust کرنے والوں کی مدد کر رہا تھا۔ یمن میں 10ہزار بے گناہ لوگ جن میں بچے، عورتیں اور مرد شامل تھے۔ سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد یوں کی بمباری میں مر گیے تھے۔ امریکہ برطانیہ فرانس جرمنی سعودی عرب کو کھربوں ڈالر کے ہتھیا ر فروخت کر رہے تھے۔ اور یہ ہتھیار یمن کے لوگوں کے لیے Holocaust کی ایک نئی تاریخ بنا رہے تھے۔ اس جنگ میں اسرائیل خلیجی ملکوں کے اتحاد کی پشت پنا ہی  کر رہا تھا۔ اسرائیل نے مڈل ایسٹ میں Holocaust کو روکا نہیں ہے۔ بلکہ Holocaust کو Cash کیا ہے۔      
                   
   
   

Thursday, January 23, 2020

Conflicts in The Middle East: America can solve if there is a will, there is a way, as America has Political dialogue with the IRA, the world’s most dangerous terrorist army, today where is the IRA? Only political dialogue can change extreme views of Hezbollah, Hamas, and Iran. Half bread in the stomach and half-buried in under sanction is not the solution


  Conflicts in The Middle East: America can solve if there is a will, there is a way 

As America has
Political dialogue with the IRA, the world’s most dangerous terrorist army. Today where is the IRA? Only political dialogue can change extreme views of Hezbollah, Hamas, and Iran.

مجیب خان

      Hassan Nasrallah was raised in the impoverished East Beruit, where his father ran a small grocery store. In September 1997, his eldest son Muhammad Hadi was killed in battle with Israeli soldiers, after a Navy Commando operation 
in which 13 Israeli soldiers were killed in Jabal al-Rafei in the South of Lebanon

In November 2009, Hassan Nasrallah declared 'our problem with [Israelis] is not that they are Jews, but that they are occupiers who are raping our land and holy places 

On April 17, 2012, Hassan Nasrallah said 'that Israel was established based on occupying the lands of others,' he added, 'if I occupy your house by forcing it doesn't become mine in 50 or 100 years,' while Hezbollah doesn't want to kill anyone, the solution to the Israel-Palestinian conflict, he argued, was to establish  a democratic state on Palestinian land where Muslims, Jews, and Christians live in Peace but, that the US won't let people listen to Hezbollah  

    Sheik Ahmed Yassin was a founder member of Hamas, he was nearly blind, had used a wheelchair, he was assassinated by an Israeli helicopter fired Hellfire missiles, when he was being wheeled out of early morning prayer. Sheik Yassin had four brothers and two sisters. He and his family fled to Gaza, from a small village al- Jura, after his village was captured by Israel's Defence forces during the 1948 Arab-Israel war. Yassin came to Gaza as a refugee when he was 12 years old. After his assassination, now Sheik Yassin's children and grandchildren hate Israel and taking revenge of Sheik Yassin's assassination     

 
The Israeli destruction of Palestinian homes in West Bank

  مڈل ایسٹ میں امریکہ کے امن اور جنگ میں ناکام ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ امریکہ کی امن کوششیں Biased تھیں؟ جنگیں غلط ہیں؟ امریکہ کی مڈل ایسٹ کے بارے میں پالیسیاں غلط ہیں؟ فیصلے غلط ہیں؟ ترجیحات غلط ہیں؟ مڈل ایسٹ کے بارے میں امریکہ کی Understanding میں Defects ہیں؟ اصول غلط ہیں؟ قانون کی حکمرانی سے انحراف غلط ہے؟ مڈل ایسٹ کے 300 ملین لوگوں کے بنیادی حقوق کو Ignore کرنے کی پالیسی غلط ہے؟ Suppressed اور Deprived لوگوں کی آزادی کی جد و جہد کو Terrorism قرار دینے کی پالیسی غلط ہے؟ مڈل ایسٹ کے 300ملین لوگ بھی اسرائیل کے لوگوں کی طرح ہیں۔ جو اپنے بچوں اور خاندانوں کے لیے امن اور خوشحالی چاہتے ہیں۔ دنیا میں کون برسوں اور ہمیشہ جنگوں کے سیاہ ماحول میں رہنا پسند کرے گا۔ کبھی امریکہ کے کسی پریذیڈنٹ نے یہ سوچا ہے کہ مڈل ایسٹ میں اس گھٹن میں لوگ کس طرح رہتے ہوں گے۔ کس طرح سانس لیتے ہوں گے۔ ان پر ان کے اپنے ظالم حکمران اور ڈکٹیٹر مسلط ہیں۔ پھر ان پر اسرائیلی جارحیت اور اس کی فوج کی بربریت مسلط ہے۔ پھر ان کے دروازوں پر امریکہ کے طیارہ بردار بحری بیڑے ہتھیاروں سے مسلح کھڑے ہیں۔ ان کے سروں پر خوفناک ڈر ون منڈ لا رہے ہیں۔ ان کے حکمران انہیں مار رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج انہیں مار رہی ہے۔ امریکہ انہیں مار رہا ہے۔ دہشت گرد بھی انہیں مار رہے ہیں۔ ایسے حالات میں امریکہ برطانیہ فرانس جرمنی اور یورپ کے لوگ کیا کریں گے؟ جس طرح امریکہ میں لوگ Gun violence سے تنگ ہیں۔ اسی طرح مڈل ایسٹ میں لوگ ظالم حکم رانوں، ڈکٹیٹروں، اسرائیلی فاشزم اور ان کی سرزمین پر امریکہ کی Military Might سے سخت بیزار ہیں۔ 70 سال سے اسرائیل کی جنگی پالیسیوں کے وہ قیدی بنے ہوۓ ہیں۔ 10سال سے نتھن یا ہو حکومت Nonstop فلسطینیوں کو مار رہی ہے۔ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ لبنا ن میں حزب اللہ پر بھی میزائلوں کے حملے ہو رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق سعودی حکومت نے 2019 میں 189  لوگوں کے گلے کاٹے تھے۔ 37 لوگوں کے گلے صرف ایک روز میں کاٹے تھے۔ جسے سعودی حکومت موت کی سزائیں کہتی ہے۔ مصر میں آزادی اور جمہوریت کے مطالبے کرنے والوں سے جیلیں بھر گئی ہیں۔ جیلوں میں انہیں اذیتیں دی جاتی ہیں۔ فوجی حکومت نے 900 مصریوں کو موت کی سزائیں سنائی ہیں۔ مصری عوام کے پہلے منتخب جمہوری صدر محمد مر سی نظری بندی کے دوران مر گیے۔ امریکی کانگرس نے مصر کی فوجی حکومت کو 2بلین ڈالر امداد دینے کا بل منظور کیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف امریکی کانگرس نے ہانگ کانگ  میں جمہوریت اور آزادی کے لیے مظاہرے کرنے والوں کی حمایت میں قرار داد منظور کی ہے۔ اور مظاہرین کے خلاف طاقت استعمال کرنے پر ٹرمپ انتظامیہ سے چین پر بندشیں لگانے کا کہا ہے۔ ایران میں حکومت کے خلاف مظاہروں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ اسرائیل میں حکومت کے خلاف فلسطینیوں کے مظاہروں کو بالکل Blackout کر دیا جاتا ہے۔
  عراق میں صد ام حسین  سنی صدر تھے۔ ان کے نائب صدر اور وزیر خارجہ Christian طارق عزیز تھے۔ صد ام حسین کی فوج میں جنرل شیعہ تھے۔ ان کی کابینہ میں اور حکومت کے محکموں میں Sunni, Christian, Shi’ite  تھے۔ لیکن امریکہ کو عراق میں یہ پسند نہیں تھا کہ سنی، شیعہ اور عیسائی کیوں متحد تھے۔ صدر بش نے صد ام حسین کی حکومت ختم کر دی۔ اور اس کی جگہ بغداد میں اپنا ایک ایسا نظام رائج کر دیا جس میں مذاہب آپس میں لڑتے رہیں۔ امریکی فوجیں  بغداد میں بیٹھی رہیں۔ اور ان کے درمیان لڑائی Out of control ہونے پر مداخلت کرتی رہیں۔
  امریکہ کو شام میں جہاں سنیوں کی اکثریت ہے۔ اور ایک شیعہ بشر السد صدر ہے۔ اس کی حکومت میں Sunni اور Christians بھی تھے۔ یہ فوج میں بھی تھے۔ اور یہ سب بڑی بہادری سے لڑے ہیں۔ انہوں نے اپنی حکومت بچائی ہے۔ اپنا ملک بچایا ہے۔ اور دہشت گردوں کو شکست دی ہے۔ جن کی پشت پر امریکہ، یورپی ملک، سعودی عرب اور خلیج کے دولت حکمران تھے۔ ان کا مشن شام میں سنیوں کی حکومت قائم کرنا تھا۔ کیونکہ امریکہ نے عراق میں شیعاؤں کو حکومت دی تھی۔ جو وہاں اکثریت میں تھے۔ دنیا کے امن اور استحکام کی ذمہ دار یاں امریکہ کے حوالے کر کے عالمی برادری نے ایک بڑی حماقت کی ہے۔ مصر میں سعودی عرب، خلیج کے حکمرانوں اور اسرائیل نے ایک منتخب جمہوری حکومت ختم کی تھی۔ اور وہاں فوجی آمریت بحال کی تھی۔ اب یہ ملک شام میں صدر اسد کی آمرانہ حکومت ختم کرنے میں باغیوں کی مدد کر رہے تھے۔ اور ان کے کمانڈ انچیف صدر برا ک ا و با مہ تھے۔ یہ اتحاد اسد حکومت کو نہیں ہلا سکا تھا۔ لیکن اس اتحاد نے شام کے لاکھوں خاندان تباہ کر دئیے تھے۔ شام Ground Zero کر دیا تھا۔ اسرائیل کے ہمسایہ میں یہ بھی ایک Holocaust تھا۔ ایک لاکھ بے گناہ شامی شام کو سنی ریاست بنانے کی جنگ میں مارے گیے تھے۔ صدر جارج بش کے آٹھ سال دور میں مڈل ایسٹ میں پرانے تنازعہ میں نئے تنازعوں کا اضافہ کرنے کی پالیسی فروغ دی گئی تھی۔ صدر ا وبا مہ نے اس پالیسی کو تبدیل نہیں کیا تھا۔ دنیا کے لیے لیبیا  شام اور یمن نئے تنازعہ بنا دئیے تھے۔
  سعودی عرب نے حما س، حزب اللہ، اور Brother hood کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیا ہے۔ امریکہ نے بھی ان تنظیموں کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ اسرائیل بہت عرصہ سے ان تنظیموں کو دہشت گرد کہہ رہا تھا۔ لبنا ن میں 15سال (1975-1990) خانہ جنگی کے بعد جس میں ڈیڑھ لاکھ لبنانی مارے گیے تھے۔ لبنا ن میں Christians اکثریت میں ہیں۔ Sunni دوسری بڑی تعداد میں ہیں۔ ان کے بعد Shia ہیں۔ ان فرقوں میں سیاسی سمجھوتہ کے مطابق پریذیڈنٹ Christian ہو گا۔ وزیر اعظم Sunni اور اسپیکر پارلیمنٹ Shia ہو گا۔ اور ان سب نے لبنا ن کی سلامتی اور بقا کے لیے متحد ہو کر کام کرنے کا عہد کیا تھا۔ لبنا ن میں آزادی ہے۔ جمہوریت ہے۔ انتخابات ہوتے ہیں۔ عوام ووٹ دیتے ہیں۔ عوام کے نمائندے منتخب ہوتے ہیں اور پھر حکومت بناتے ہیں۔ حزب اللہ اس جمہوری سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ اسرائیل سے زیادہ جمہوریت لبنا ن میں ہیں۔ جہاں ریاست کے تمام مذہبی فرقہ سیاسی عمل میں برابر کے شریک ہیں۔ اسرائیل میں آزادی اور جمہوریت صرف یہودیوں کے لیے ہے۔ Christian اور Muslim فلسطینی جو اسرائیل کے شہری ہیں انہیں اسرائیل کے سیاسی عمل سے دور رکھا جاتا ہے۔ شیعہ زیادہ تر لبنا ن کے جنوب میں ہیں۔ عرب دنیا میں حزب اللہ واحد پارٹی ہے جس نے اسرائیل کو شکست دی ہے۔ اور اس کے قبضہ سے جنوبی لبنا ن اور وادی بکا آزاد کر آۓ تھے۔ اور صرف اس لیے حزب اللہ لبنا ن کے عوام کی مقبول جماعت ہے۔ گزشتہ انتخاب میں 60فیصد لبنا نیو ں نے حزب اللہ کو ووٹ دئیے تھے۔ پارلیمنٹ میں حزب اللہ ان کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ لبنا ن کا جمہوری سیاسی نظام ہے جس کی وجہ سے لبنا ن میں سیاسی استحکام تھا۔ لیکن اسرائیل کو لبنا ن کے سیاسی استحکام میں حزب اللہ کا رول پسند نہیں ہے۔ حزب اللہ نے اسرائیل سے جنگ لڑی تھی اور لبنا ن کے علاقہ آزاد کراۓ تھے۔ اس لیے اسرائیل حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم کہتا ہے۔ لبنا ن میں حزب اللہ کے بارے میں امریکہ کا Independent موقف ہونے کے بجاۓ۔ امریکہ نے اسرائیل کا موقف اختیار کیا ہے۔ اور حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لبنا ن سیاسی عدم استحکام میں آ گیا۔ بیر و ت کی سڑکوں پر فسادات 1970s کے مناظر Refresh کرنے لگے۔ امریکہ اگر اسرائیل اور سعودی عرب کی پالیسیوں پر made in America’ کے لیبل لگا کر مڈل ایسٹ میں امن لانے کی کوشش کرے گا۔ تو نتائج جنگیں ہوں گی۔
  مڈل ایسٹ میں انتہا پسندی اور دہشت گرد گروپوں کی سیاست ختم ہو سکتی ہے۔ اگر امریکہ کا “There is a will, there is a  way” میں یقین ہے۔ Irish Republican Army حزب اللہ اور حما س سے زیادہ خوفناک دہشت گرد تنظیم تھی۔ برطانیہ کے لوگ لندن میں IRA کے Good Friday massacre کو شاید کبھی نہیں بھولیں گے۔ لیکن آج IRA کہاں ہے؟ امریکہ نے IRA  سے سیاسی مذاکرات کیے تھے۔ شمالی آئر لینڈ، برطانیہ اور IRA میں جنگ بندی کرائی تھی۔ آخر کار تنازعہ میں ملوث پارٹیوں میں سمجھوتہ ہو گیا۔ IRA کو Political Process میں شامل کیا گیا۔ IRA کے سخت گیر عناصر آج بھی آئر لینڈ میں ہیں۔ لیکن اب ان کی سوچ سخت گیر نہیں ہے۔ سیاسی عمل نے ان کی سوچ بدل دی ہے۔ آئر لینڈ آج پرامن ہے۔ اقتصادی ترقی میں آئرلینڈ آج برطانیہ سے آ گے ہے۔ مڈل ایسٹ میں بھی اس Model کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔  war, murders, killing, assassination, Drone, sanctions تنازعوں کے حل نہیں ہیں۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ اپنے Civilize ہونے کی پٹری سے اتر گیا ہے۔ اور طالبان کے معیار کی Civilize پر آ گیا ہے۔ مڈل ایسٹ میں Justice کہیں نظر نہیں آتا ہے۔ یہ امریکہ اور مغربی ملکوں کی مڈل ایسٹ کے بارے میں پالیسیوں میں بھی نہیں ہے۔ ہر طرف Injustice dominate کر رہا ہے۔ اور جب Injustice بہت بڑھ جاتا ہے تو جنگیں ہوتی ہیں۔ عالمی اقوام کے لیے یہ بڑا مسئلہ ہے۔              


Friday, January 17, 2020

The World’s Most Dangerous The region, Revivalism of the Oldest Rivalry:


   
The World’s Most Dangerous  region, Revivalism of the Oldest Rivalry:

Saudi Arabia has a fourteen hundred years old Sunni-Shia rivalry with Iran, Israel has a Five thousand years old rivalry, when Iran was The Persian Kingdom and Israel was a Kingdom. Now in the Middle East, Israel is the only powerful country and the regime of Netanyahu is looking for a great opportunity to make Israel as strong as it was five thousand years ago, and America’s role is to make an old rivalry a new realty

In [the] Cold War Islamic Leaders, we’re the wrong side of history. The end of the Cold War brings to Islamic World the wars, destructions, deaths, and misery

مجیب خان









   صدر ٹرمپ بلا آخر اسی راستے پر آ گیے ہیں۔ جس پر دو سابق صدر بش اور ا وبا مہ امریکہ کو لے گیے تھے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران  امریکی عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ جنگ کے خلاف ہیں۔ اور وہ نئی جنگ شروع نہیں کریں گے۔ مڈل ایسٹ اور افغانستان میں جنگیں ختم کریں گے۔ امریکہ کے تمام فوجی واپس امریکہ لائیں گے۔ Regime change  wars نے عراق اور لیبیا کو عدم استحکام کیا ہے۔ شام میں داعش کو ابھرنے کا موقع ملا ہے۔ امریکہ نے مڈل ایسٹ میں 7ٹریلین خرچ کیے ہیں۔ 7ٹریلین سے امریکہ دو مرتبہ تعمیر ہو سکتا تھا۔ امریکہ کو ہر کوئی استعمال کرتا ہے۔ اور جب وہ صدر ہوں گے تو امریکہ کسی کے لیے استعمال نہیں ہو گا۔ لیکن امریکہ کو ایران کے خلاف کون استعمال کر رہا ہے؟ صدر ٹرمپ نے ایران میں Regime change war کی ابتدا کی ہے۔ عراق میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی ملیشیا کمانڈر ابو مہدی ا ل مہوندس کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ جنرل سلیمانی عراقی وزیر اعظم کی دعوت پر بغداد آۓ تھے۔ اور دوسرے دن صبح ساڑھے آٹھ بجے جنرل سلیمانی وزیر اعظم سے ملاقات کرتے۔ لیکن امریکہ کے ڈر ون میزائل نے بغداد میں جنرل سلیمانی اور عراقی کمانڈر ابو مہدی دونوں کو مار دیا۔ سازش یہ تھی کہ اس کے جواب میں ایران جو بھی کاروائی کرے گا۔ اس کے نتیجے میں Regime change war شروع ہو جاۓ گی۔ ایران پر بمباری کر کے اسے بھی شام بنا دیا  جاۓ گا۔ مڈل ایسٹ میں بعض Evils کی یہ ایران کو ‘we got you’ سازش تھی۔ لیکن ان کے تمام عزائم عراق اور ایران کے ریگستان میں خاک ہو گیے ہیں۔ اور انہیں بڑی بری ذلت ہوئی ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس انتہائی غیر ذمہ دارا نہ فیصلہ انسانیت کے لیے کتنے بڑے سانحہ کا سبب بنا ہے کہ Ukraine کا طیارہ گر گیا طیارے کے 170 لوگ اس سانحہ میں مر گیے۔ اگر بغداد میں امریکہ ڈر ون نہیں گراتا تو طیارہ بھی نہیں گرتا۔ آج 170 لو گ ہمارے درمیان ہوتے۔ ایران کے بارے میں صدر ٹرمپ کا پہلا فیصلہ ایران ایٹمی معاہدہ سے علیحدہ ہونے کا غلط تھا۔ اس کے بعد دوسرا اور پھر تمام فیصلے غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ عالمی برادری میں ذرا بھی انسانیت اور غیرت ہے وہ یہ دیکھے کہ صد ام حسین مہلک ہتھیاروں کے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں پر جب عملدرامد نہیں کر رہے تھے تو امریکہ عراق پر بمباری کرتا تھا۔ اور بے گناہ عراقی اس بمباری سے مرتے تھے۔ لیکن ایران جو ایٹمی سمجھوتے پر مکمل لفظ بہ لفظ عمل کر رہا ہے تو امریکہ ایران پر بھی بمباری کر رہا ہے۔ ایران کی معیشت تباہ کر کے ایرانیوں کو Economic torture دے رہا ہے۔ تاکہ ایرانی ریاست گر جاۓ۔ اور امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکال کر ایران میں فوجی اڈے قائم کر لے۔ 14 سال ہو گیے ہیں عراق ابھی تک 2003 سے پہلے کے جو حالات تھے۔ اس میں نہیں آ سکا ہے۔ معیشت ابھی تک تباہ حال ہے۔ امریکہ کے فوجی حملے نے عراق میں جہالت پھیلائی ہے۔ لوگوں کو جنگجو بنایا ہے۔ یہ ہی حال ایران کا بھی ہو گا۔
  جنرل سلیمانی اور عراقی ملیشیا کمانڈر کو اس لیے قتل کیا گیا ہے کہ انہوں نے عراق اور شام کے علاقوں پر ISIS کا قبضہ ختم کرنے کی جنگ لڑی تھی۔ اس لڑائی میں عراقی اور ایرانی بھی مارے گیے تھے۔ شیعاؤں نے سنی ISIS کا خاتمہ کیا تھا۔ ISIS نے صدر ا و با مہ کے واچ میں مغربی عراق سے شمالی شام تک اپنی اسلامی ریاست بنا لی تھی۔ سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات، اسرائیل امریکہ کے ساتھ اتحاد میں شامل تھے۔ ISIS کے زخمیوں کا اسرائیل میں علاج ہوتا تھا۔ ان کا منصوبہ امریکی فوج اور ISIS کو کئی برس یہاں رکھنے کا تھا۔ امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کو جنرل قاسم سلیمانی کے منصوبہ کا پتہ چل گیا تھا۔ لیکن امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کو ابھی تک یہ پتہ نہیں ہے کہ 30ہزار ISIS کے لشکر کو کس ملک نے منظم کیا تھا۔ کس نے اسے فنڈ ز دئیے تھے۔ جنرل سلیمانی اور عراقی ملیشیا کمانڈر ابو مہدی کو قتل کر کے عراق اور شام سے ISIS کا خاتمہ کرنے کا بدلہ لیا گیا ہے۔ اسرائیل نے اس میں مدد کی تھی۔ وزیر اعظم بنجیمن  نتھن یا ہو نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل پر مسرت کا اظہار کیا تھا۔ کہ "قاسم سلیمانی نے بہت سے بے گناہ لوگوں اور امریکی شہریوں کو مارا تھا۔ قاسم سلیمانی سارے مڈل ایسٹ میں دہشت گردی کے حملوں کے منصوبے بناتا اور دہشت گردی کراتا تھا۔" وزیر اعظم نتھن یا ہو قاسم سلیمانی کو ISIS سے بھی زیادہ خطرناک ثابت کر رہے تھے۔ یہ وزیر اعظم نتھن یا ہو کہہ رہے تھے جو خود دس سال سے بے گناہ فلسطینی بچوں عورتوں اور مردوں کو مار رہے تھے۔ اسرائیل کی مو ساد نے دنیا بھر میں فلسطینیوں کے خلاف Death Squads استعمال کیے تھے۔  جنرل سلیمانی نے عراق پر Preemptive حملہ نہیں کیا تھا۔ اور صد ام حسین کو اقتدار سے نہیں ہٹایا تھا۔ ایران نے شام میں دہشت گردوں کو جمع نہیں کیا تھا۔ انہیں ہتھیار اور تربیت نہیں دی تھی۔ اسرائیل کی سرحد پر صدر ا و با مہ  سعودی عرب اور خلیج کے حکمران اور وزیر اعظم نتھن یا ہو شام کو تباہ کرنے کا یہ تما شہ دیکھ رہے تھے۔ بلکہ اسرائیل انہیں ہتھیار بھی دے رہا تھا۔ اس وقت امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ شام میں کیا کر رہے تھے۔ اور اس کے خطرناک نتائج کیا ہوں گے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہ دنیا کے مالک ہیں۔ دنیا کے میڈیا پر ان کا کنٹرول ہے۔ اور وہ جو کہیں گے دنیا بھی وہ ہی کہنے لگے گی۔ اور یقین کرے گی۔ دنیا میں ان کا قانون ہے۔ نتھن یا ہو Assassination کو Justified کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ طالبان افغانستان میں جو کر رہے ہیں وہ Justified ہوتا ہے؟
   امریکہ میں ایک خاصی بڑی اکثریت صدر ٹرمپ کے جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرنے اور ایران کے ساتھ ایک نئی جنگ شروع  کرنے کے  فیصلے سے بالکل خوش نہیں تھی۔ مجھے بہت سے امریکیوں نے جن میں عورتیں بھی تھیں۔ مجھ سے کہا کہ 'ہم نے ٹرمپ کو صرف اس لیے ووٹ دیا تھا کہ ٹرمپ جنگ کے سخت خلاف تھے۔ اور ٹرمپ نے ہم سے جنگیں ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مڈل ایسٹ اور افغانستان سے فوجیں نکالنے کا کہا تھا۔ امریکیوں کو صدر ٹرمپ میں جارج بش کا جنگجو ا زم  دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی ہے۔ میرے خیال میں نومبر میں عوام کی بڑی تعداد کسی کو ووٹ نہیں  دے گی۔ ووٹ دینا وقت برباد کرنا ہے۔ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے کرنا وہ ہی ہوتا ہے جو ان سے کہا اور کروایا جاتا ہے۔ عراق کے بارے میں جھوٹ بولا گیا تھا۔ انتظامیہ جھوٹ بولتی ہے۔ اور اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے سب جھوٹ بولنے لگتے ہیں۔ اعلی غیر ملکی حکام کو Assassination  غیر قانونی ہے۔ اگر جنرل قاسم سلیمانی نے عراق میں امریکی فوجیوں کو مارا تھا۔ تو اس کے لیے جنگی جرائم کی عدالت تھی۔ قانون تھا۔ اس پر عالمی عدالت میں امریکی فوجیوں کو مارنے کے الزام میں مقدمہ دائر ہو سکتا تھا۔ اگر صدر پو تن کے حکم پر Ukraine کے جنرل کو کسی تیسرے ملک میں اس لیے قتل کر دیا جاۓ کہ اس نے Ukraine میں بہت بڑی تعداد میں Russian مارے تھے۔ تو اس پر امریکہ اور کانگریس کا کیا رد عمل ہو گا؟ روس کی وزارت خارجہ اور وزارت دفاع اپنے فیصلے  کی حمایت میں Word by word امریکہ کے سیکرٹیری آف ڈیفنس اور سیکرٹیری آف اسٹیٹ کے بیانات سامنے رکھ دے تو امریکہ میں پھر کیا کہا جاۓ گا؟ صدر بش نے کہا تھا کہ" یہ جنگ ہے اور جنگ میں لوگ بھی مرتے ہیں۔"
 امریکہ کی مڈل ایسٹ کے بارے میں کوئی ایجوکیشن نہیں ہے۔ اگر ایجوکیشن ہوتی تو آج مڈل کے حالات بہت مختلف ہوتے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کی ایران کے ساتھ بہت قدیم لڑائیاں ہیں۔ سعودی عرب کی شیعاؤں سے 1400سال پرانی لڑائی ہے۔ اور سعودی شہزادہ ولی عہد محمد بن سلما ن اس لڑائی کا اب انجام  دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسرائیل کی ایران سے 5ہزار سال پرانی لڑائی ہے۔ جب ایران Persia    Kingdom ofتھا۔ اور اسرائیل Kingdom of Israel تھا۔ King David کی اس وقت یہ پالیسی تھی کہ اس کے مقابلے پر جو بھی طاقتور بننے کی کوشش کرتا تھا۔ King David اسے مار دیتا تھا۔ اس کے دور میں Powerful رہنے کی لڑائیاں ہوتی تھیں۔ King Netanyahu without Kingdom آج King David کی پالیسیوں پر عمل کر رہے ہیں۔ جو طاقتور ملک اور لیڈر تھے۔ انہیں تباہ کرنے اور قتل کرنے کا کام امریکہ سے لیا ہے۔ اور اب انہیں تباہ حال اور کمزور رکھنے کا کام King Netanyahu خود کر رہے ہیں۔ شام پر اسرائیل روزانہ بمباری کرتا ہے۔ عراق پر اسرائیل نے گزشتہ نومبر میں بمباری کی تھی۔ اور درجنوں ایرانی مار دئیے تھے۔ Secretary of State Pompeo said “Iran must respect the sovereignty of its neighbors” امریکہ کے لیڈروں میں Commonsense ہے اور نہ ہی وہ Responsible Leader ہیں۔ مڈل ایسٹ کو وہ Kingdom of Israel کی تاریخ میں دیکھتے ہیں۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے صدر پو تن سے کہا " یروشلم 3ہزار سال سے اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔" صدر پو تن نے ایک Responsible Leader کی طرح وزیر اعظم سے کہا " 3ہزار سال پہلے کیا تھا اسے بھول جائیں۔ آج کی بات کریں۔" دنیا کی واحد طاقت کے لیڈر ا و با مہ کیا کر رہے تھے۔ وہ شام لوگوں سے خالی کرا رہے تھے کہ یہاں Kingdom of Israel بنے گی۔ امریکہ ایک لاکھ شامی لے لے گا۔ جرمنی 50ہزار شامی لے گا۔ 30ہزار شامی فرانس لے گا۔ یورپی یونین اور نیٹو کے دوسرے ملک بھی شام کے شہری اپنے ملکوں میں آباد کر لیں گے۔ 2ملین شامی ترکی میں رہیں گے۔ جو شامی سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں میں آباد ہو گیے ہیں وہ فلسطینیوں کی طرح وہیں رہیں گے۔ امریکہ  کے ہر صدر نے Kingdom of Israel کی بحالی کے راستے سے رکاوٹیں دور کی ہیں۔ اب آخری رکاوٹ ایران ہے۔ اور یہ کام صدر ٹرمپ کریں گے؟
 دنیا میں امریکی میڈیا نے جو یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ شمالی کوریا اور Korean Peninsula دنیا کا سب سے خطرناک خطہ ہے۔ یہاں لیڈروں نے اس تاثر کو غلط ثابت کیا ہے۔ مڈل ایسٹ دنیا کا سب سے زیادہ خطرناک خطہ ثابت ہوا ہے۔ 3جنوری کو مڈل ایسٹ میں تیسری عالمی جنگ شروع ہو رہی تھی۔ اسرائیل میں کابینہ کا 7گھنٹے اجلاس ہوا تھا۔ کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم نتھن یا ہو کے منہ سے یہ نکل گیا کہ اسرائیل مڈل ایسٹ میں واحد نیو کلیر پاور ہے۔ لیکن پھر انہوں نے لفظ بدل دئیے کہ '  نیو کلیر ا نر جی ہے' شاید اسرائیلی کابینہ میں تیسری عالمی جنگ شروع ہونے کی صورت میں ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی Strategy پر غور کیا جا رہا تھا۔