Monday, June 27, 2016

The Rise Of The People’s Power

The Rise Of The People’s Power
President Obama: “The People Of The United Kingdom Have Spoken, And We Respect Their Decision”    
But Egypt's People Had Spoken Too, And The World Had No Respect For Their Decision
Is This Discrimination Or Injustice?

مجیب خان
    


     یہ تو ہونا تھا۔ ابھی تو صرف برطانیہ یورپی یونین سے چلا گیا ہے۔ بعض دوسرے یورپی ملکوں میں بھی یورپی یونین چھوڑنے کی تحریک چل رہی ہے۔ پچھلے سال یونان اور اسپین یورپی یونین چھوڑنے کی باتیں کر رہے تھے۔ یہ ملک سنگین اقتصادی بحران میں آ گیے تھے۔ یونان دیوالیہ ہو چکا تھا۔ جرمنی جو یورپی یونین کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اور یورپ کی سب سے بڑی معیشت بھی ہے۔ ان ملکوں کو Bail out کیا تھا۔ جس کے بعد یونان اور اسپین نے یورپی یونین چھوڑنے کا فیصلہ ملتوی کر دیا تھا۔ اداروں یا الائنس چھوڑنے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ جب اداروں یا الائنس کو Abuse کیا جانے لگتا ہے۔ اور بعض ملک انہیں اپنے سیاسی مقاصد میں استعمال کرنے لگتے ہیں۔ جس کی وجہ سے دوسرے ملک یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اداروں یا الائنس میں شمولیت ان کے قومی مفاد میں نہیں ہے۔ یا پھر اداروں اور الائنس کے اندر Abuse ہونے لگتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ان کے اندر ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے۔ برطانیہ کو یورپی یونین میں اس صورت حال کا سامنا تھا۔ وزیر اعظم ڈیوڈ کمیرن نے جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے ساتھ  یورپی یونین میں اصلاحات کے لئے مذاکرات کیے تھے۔ لیکن یہ مذاکرات کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے تھے۔ جرمنی اور فرانس شاید یہ چاہتے تھے کہ برطانیہ یورپی یونین چھوڑ دے۔ ورنہ یورپی یونین میں اصلاحات کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ اگر برطانیہ کو انہیں یورپی یونین میں شامل رکھنا ہوتا تو وہ اصلاحات کے مسئلہ پر ضرور سمجھوتہ کر لیتے۔ اور برطانیہ کو یورپی یونین چھوڑ کر نہیں جانے دیتے۔
     امریکی میڈ یا میں برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کو برطانوی عوام کے اقتصادی حالات سے پریشانی کا سبب بتا جا رہا ہے۔ لیکن شاید یہ اتنی بڑی وجہ نہیں تھی۔ برطانیہ کے لوگوں نے پہلے بھی ایسی اقتصادی پریشانیوں کا سامنا کیا ہے۔ پھر وزیر اعظم ڈیوڈ کمیرن پہلی بار جب اقتدار میں آۓ تھے تو انہوں نے سخت اقتصادی اصلاحات نافذ کی تھیں۔ اور کم آمدنی والے برطانوی شہریوں کو حکومت کی طرف سے جو مراعات ملتی تھیں ان میں کٹوتی کر دی تھی یا انہیں ختم کر دیا تھا۔ کمیرن حکومت کی Austerity اصلاحات سے خاصے برطانوی شہری متاثر ہوۓ تھے۔ اور وزیر اعظم کمیرن سے خوش نہیں تھے۔ گزشتہ سال برطانیہ کے انتخابات میں ایسا نظر آ رہا تھا کہ کنزرویٹو یہ انتخابات ہار جائیں گے۔ لیکن کنزرویٹو یہ انتخابات بھاری اکثریت سے جیت گیے تھے۔ وزیر اعظم کمیرن نے پارٹی کے کنزر ویٹو اراکین کو جو ان سے یورپی یونین چھوڑنے کا اصرار کر رہے تھے یہ یقین دلایا تھا کہ انتخابات کے بعد وہ اس پر ریفرینڈم  کرائیں گے۔ اور اس ریفرینڈم کے نتائج اب سب کے سامنے ہیں۔ بہرحال یہ فیصلہ برطانیہ کے 52 فیصد لوگوں کا ہے۔ برطانوی عوام کا یہ فیصلہ بلاشبہ اس فیصلے سے بہت بہتر ہو گا جو 13 سال قبل وزیر اعظم ٹونی بلیر نے برطانوی عوام کی مخالفت کو نظر انداز کر کے عراق پر امریکہ کے ساتھ ایک غیر قانونی حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وزیر اعظم کمیرن کے دوسری مرتبہ حکومت میں آنے کے بعد امریکہ کے ساتھ برطانیہ کے سرد تعلقات محسوس کیے جا رہے تھے۔ برطانیہ پہلا ملک تھا جس نے BRICS بنک کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا اور اس میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ کو وزیر اعظم کمیرن کے اس فیصلے پر حیرت ہوئی تھی۔ اور کہا کہ ہمیں اس سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ اس کے جواب میں وزیر اعظم کمیرن نے کہا کہ ایشیا میں برطانیہ کے مفادات ہیں۔ اس الائنس پر پہلی چوٹ یہاں لگی تھی۔
     گزشتہ سال چین کے صدر شی جن پنگ برطانیہ کے دورے پر آۓ تھے۔ اور انہیں ملکہ برطانیہ کے محل میں ٹھہرایا گیا تھا۔ اس دورے میں چین نے برطانیہ کے ساتھ تقریباً 45 بلین ڈالر کے تجارتی اور سرمایہ کاری  کے معاہدے کیے تھے۔ برطانیہ نے چین کی کرنسی Renminbi کو لندن ٹریڈنگ میں شامل کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ تاہم چین کے یورپی یونین کے ساتھ  تجارتی اور اقتصادی معاہدے علیحدہ تھے۔ وزیر اعظم کمیرن با ظاہر برطانیہ کا ایک Independent   کردار دیکھ رہے تھے۔ دنیا کی اقتصادی سرگرمیوں میں لندن کا جو تاریخی رول تھا اسے دوبارہ بحال کرنا چاہتے تھے۔ جیسا کہ کنزرویٹو پارٹی کے بورس جانسن نے کہا ہے کہ ہم برطانیہ کو دوبارہ ورلڈ پاور بنائیں گے۔
      لندن کے شہریوں نے ایسے وقت ایک مسلمان کو اپنا میئر منتخب کیا ہے کہ جب یورپ اور امریکہ میں Islamophobia کا زور ہے۔ لندن دنیا کی مالیاتی اور تجارتی سرگرمیوں کا سینٹر ہے۔ عرب Kingdoms ہمیشہ اپنا سرمایہ British Kingdom میں منتقل کرنے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ ان کے لئے لندن جیسے ان کا دوسرا گھر ہے۔ پھر برطانیہ کی سابق کالونیوں کا ایک کامن ویلتھ  ہے جس کے تقریباً  50 سے زیادہ رکن ممالک ہیں۔ جن میں کینیڈا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی شامل ہیں۔ ان ملکوں کے ساتھ برطانیہ کی تجارت میں بہت وسعت اور استحکام ہے۔ لہذا یورپی یونین سے علیحدگی کا برطانیہ پر کوئی زیادہ اثر نہیں ہو گا۔  
     16 سال سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابیاں اب سامنے آ رہی ہیں۔ عالمی اداروں میں شگاف پڑ رہے ہیں۔ الائنس ٹوٹ رہے ہیں۔ قانون کی خلاف ورزیوں نے قانون کی بالا دستی کی جگہ لے لی ہے۔ Nation States کے قانون اور اصول Disregard ہو گیے ہیں۔ انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ انصاف مفاد پرستی کے زد میں ہے۔ مفاد ہو گا تو انصاف ہو گا۔ اگر مفاد نہیں ہو گا تو نا انصافیاں ہوں گی۔ جمہوری قدروں کی جگہ “Might is Right” کی قدروں نے لے لی ہیں۔ یورپ میں جو سیاسی بھونچال آیا ہے اس کے ذمہ دار ان کے رہنما ہیں۔ جنہوں نے فیصلے پہلے کیے تھے۔ اور سوچا بعد میں تھا۔ دہشت گردی کی جنگ انہیں کھائی کی طرف لے جا رہی تھی۔ لیکن دہشت گردی کی جنگ جاری رکھنے کا عزم تھا۔ یورپی یونین کے تین ملکوں فرانس برطانیہ اور اٹلی نے امریکہ کے ساتھ شامل ہو کر لیبیا پر دس ہزار بم گراۓ تھے۔ اور اسلامی انتہا پسندوں کو لیبیا پر قبضہ کرنے کا موقعہ دیا تھا۔ اور یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ تھی۔ فرانس اور بلجیم میں یہ دہشت گردی کبھی نہیں ہوتی اگر یورپ کے رہنما اپنا دماغ استعمال کرتے۔ عراق شام لیبیا یمن اور افغانستان میں جنگوں سے متاثرین کا سیلاب یورپ پہنچ گیا ہے۔ اور یورپی یونین نے اس کا یہ حل نکالا تھا کہ ان لوگوں کو پناہ دینے کے لئے یورپی یونین کے ہر ملک کے لئے ایک کوٹہ مقرر کر دیا تھا۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا یہ رول ہے جس نے یورپ میں با لخصوص برطانیہ کے لوگوں کو یورپی یونین کے خلاف بغاوت پر اکسایا ہے۔ اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں بھی یہ بغاوت ایک تحریک بن رہی ہے۔ دنیا میں یہ جنگیں لوگوں کو اب باغی بنا رہی ہیں۔
      صدر اوبامہ ساڑھے سات سال قبل اقتدار میں آنے کے بعد جب لندن آۓ تھے تو 10 ڈاؤننگ آ سٹریٹ پر ہزاروں لوگ صدر اوبامہ کو سننے کے لئے آ گیے تھے۔ انہیں صدر اوبامہ سے دنیا میں امن کے لئے بڑی امیدیں تھیں۔ پیرس اور برلن کے لوگوں نے بھی صدر اوبامہ کا ان ہی امیدوں کے ساتھ استقبال کیا تھا۔ لیکن ساڑھے سات سال بعد صدر اوبامہ اپریل میں لندن آۓ تھے۔ اور انہوں نے برطانیہ کے لوگوں سے یورپی یونین میں رہنے کی پر زور اپیل کی تھی۔ لیکن برطانیہ کے لوگوں نے ان کی اپیل کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ کیونکہ صدر اوبامہ سے انہیں جو امیدیں تھیں۔ صدر اوبامہ نے بھی ان کی امیدوں کے خلاف کام کیے ہیں۔ اور ساڑھے سات سال میں صرف جنگوں اور خون خرابہ کی سیاست کو فروغ دیا ہے۔                






Thursday, June 23, 2016

Orlando Terror + Syrian Terror = Terrorism

Orlando Terror + Syrian Terror = Terrorism

The Syrian Opposition Are "Certified" Rebels, But The Palestinians Are Not Allowed To Be Rebels

مجیب خان
Bullet holes outside the Orlando nightclub
Victims of the Orlando terrorist attack 
Syrian Man helping an injured Syrian Girl
Victims of the Syrian war
Damaged Buildings, Homs, Syria
       اورلینڈو فلوریڈا میں Pulse نائٹ کلب شہر کے اندر جیسے تفریح کا ایک ولیج تھا۔ کلب میں زیادہ تر روز کے آنے والے لوگ تھے۔ جو سارا دن کام کرنے کے بعد یہاں آیا کرتے تھے۔ لیکن ویک اینڈ پر یہاں بڑی تعداد میں لوگ آتے تھے۔ کلب صبح ڈھائی تین بجے بند ہوتا تھا۔ اس رات کلب میں تین سو کے قریب لوگ تھے۔ صبح کے دو بج چکے تھے اور آدھے گھنٹے میں کلب بند ہونے والا تھا۔ دو بج کر دس منٹ پر دہشت گرد کلب میں آگیا تھا۔ اور اس نے Happy Hour کو Mourning Hour میں بدل دیا تھا۔ کچھ دیر تک تو لوگ گولیوں کی آوازیں میوزک سمجھتے رہے تھے۔ اور جب ان کی سمجھ میں آیا تو اس وقت لوگ خون میں لت پت زمین پر پڑے تھے۔ کلب میں ہر طرف خوف کا سماع تھا۔ ہر کوئی اپنی جان بچانے کا راستہ ڈھونڈ رہا تھا۔ جو زخمی تھے وہ مدد مانگ رہے تھے۔ پولیس کے مسلح دستہ پہنچ چکے تھے اور کلب کے اندر داخل ہو نے کا راستہ دیکھ رہے تھے۔ اس وقت پولیس کے علم میں یہ نہیں تھا کہ کلب کے اندر کتنے دہشت گردوں کا انہیں سامنا ہو گا۔ پولیس نے کلب کی دیوار توڑ دی تھی۔ تاکہ اندر جو محصور ہیں وہ باہر آ جائیں اور انہیں بھی کلب کے اندر کی صورت حال کا اندازہ ہو جاۓ۔ جس کے بعد پولیس کلب میں داخل ہو گئی تھی۔ صرف چند لمحوں میں اس دہشت گرد نے کلب کے اندر 49 لوگ مار دئیے تھے۔ اور 53 لوگ زخمی ہو گیے تھے۔ 49 خاندانوں کے چراغ بجھ گیے تھے۔ ان کے محبوب ان کا ساتھ ہمیشہ کے لئے چھوڑ گیے تھے۔ 49 خاندانوں کا ہر فرد رو رہا تھا۔ Pulse نائٹ کلب اورلینڈو شہر میں لوگوں کی خوشیوں کا ایک ولیج تھا۔ ایک شخص دہشت گرد بن کر باہر سے آیا اور اس نے لوگوں کی خوشیاں چھین لیں اور کلب کی روشنیاں تاریکی میں بدل دی تھیں۔
     اورلینڈو نائٹ کلب کی طرح شام بھی ایک کلب کی طرح تھا۔ اس کلب کے لوگوں کی طرح شام کے لوگ بھی اپنے وطن کی رنگینیوں میں مگن رہتے تھے۔ ان کی زندگیوں میں امن تھا اور سکون بھی تھا۔ یہ امن اور سکون ان کے لئے آزادی اور جمہوریت تھی۔ شیعہ سنی اور عیسائی سب ایک قوم تھے۔ ایک دوسرے کے تہوار سب کا تہوار ہوتا تھا۔ ان کے لئے سب سے بڑی آزادی یہ تھی کہ ہر عقیدے کے لوگ اپنے مذہبی فرائض آزادی سے مناتے تھے۔ لوگ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کا احترام کرتے تھے۔ انسانیت ان کا مشترکہ  مذہب تھا۔ عرب دنیا میں جمہوریت اور آزادی کی تحریک عرب اسپرنگ کو امریکہ اور اس کے عرب اور اسرائیلی اتحادیوں نے مصر میں دفن کر دیا تھا۔ لیکن شام کو آزادی اور جمہوریت کے نام پر انہوں نے انسانیت کا قبرستان بنا دیا ہے۔ ریاست بالکل تباہ ہو چکی ہے۔ عرب مسلمانوں کا خون پی رہے ہیں۔ لیکن سور کھانے کو حرام سمجھتے ہیں۔ شام میں جس طرح باہر کے لوگ دہشت گردی کرنے آۓ ہیں اسی طرح اورلینڈو نائٹ کلب میں بھی باہر سے ایک شخص کلب کا کلچر تبدیل کرنے آیا تھا۔ نائٹ کلب کے اندر Carnage اور شام کے اندر Carnage ایک جیسا ہے۔ جس طرح نائٹ کلب میں ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ اور زخمیوں کو لوگ اٹھا کر لے جا رہے تھے۔ اسی طرح شام میں بھی ایسے ہی مناظر دیکھے جا رہے تھے۔ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں نے شام کے جن شہروں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور وہاں شہریوں کو یرغمالی بنا لیا تھا۔ حکومت کے فوجی دستہ ان شہروں میں اسی طرح داخل ہوۓ تھے۔ جس طرح نائٹ کلب میں پولیس داخل ہوئی تھی۔ اور کلب میں لوگوں کو ایک دہشت گرد سے آزاد کرایا تھا۔ جبکہ شام میں یہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ انہوں نے شام کے لوگوں کی دنیا Hell بنا دی ہے۔ لاکھوں خاندان ہمیشہ کے لئے اجڑ گیے ہیں۔ شامیوں کی لاشیں شام کے شہروں میں بحرہ روم کے پانیوں میں یورپ کی سرحدوں پر ہر طرف بکھری ہوئی ہیں۔ ڈکٹیٹر کے خلاف اس Goddamn  آزادی کی جنگ نے 2 ملین لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ 6 سال سے دنیا شام کی دہشت گردی میں خصوصی دلچسپی لے رہی ہے۔ امریکہ میں دہشت گردوں کو ہتھیار حاصل کرنے پر سخت قانون نافذ کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن شام میں دہشت گردوں کو ہتھیاروں کی ترسیل آسان بنائی جا رہی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں جب بھی دہشت گردی ہوتی ہے۔ نفرت کی تمام انگلیاں مسلمانوں کی طرف اٹھنے لگتی ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو دہشت گرد بنانے والے بھی یہ ہی لوگ ہیں۔ عرب دنیا میں سینکڑوں دہشت گروپ ہیں جن میں داعش اور القاعدہ بھی ہیں۔ لیکن یہ سارا اسلحہ بھی عرب دنیا میں پہنچا رہے ہیں۔ یہ جیسے چاہتے ہیں۔ دہشت گرد کوRebels بنا دیتے ہیں۔ اور Rebels کو دہشت گرد قرار دے دیتے ہیں۔
      عراق میں 13 سال سے انتشار، شام میں 6 سال سے خانہ جنگی، لیبیا میں 5 سال سے عدم استحکام،  16 سال سے افغانستان میں طالبان سے کوئی بات نہیں ہو گی اور طالبان کا خاتمہ ہونے تک جنگ جاری رہے گی پالیسی،  ان جنگوں کو دراصل مسلمان بچوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد بنانے کے لئے ختم نہیں کیا گیا تھا۔ اور اس لئے ان کے ہمسایہ ملکوں سے صرف  Do more کرتے رہنے کی پالیسی پر عمل کرنے کا کہا جاتا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل بان کی مون بتائیں کہ 16 سال سے کیا یہ دہشت گردی ختم کرنے کی جنگ ہے یا دہشت گردی پھیلانے کی پالیسی ہے؟ اس وقت Justice کے اوپر Injustice غالب ہے۔ جو دہشت گردوں کو آکسیجن فراہم کر رہا ہے۔ جس دنJustice  بحال ہو جاۓ گا دنیا میں 95 فیصد دہشت گردی اس دن ختم ہو جاۓ گی۔  شام کے ہمسایہ میں فلسطینی قوم 60 سال سے حقوق سے محروم ہے۔ ان کی اپنی مملکت ہے اور نہ ہی ان کے گھر ہیں۔ ان کی دنیا مہاجر کیمپوں میں ہے۔ دنیا نے ان کا اپنے آپ کو Rebels کہنے کا حق بھی تسلیم نہیں کیا ہے۔ لیکن ان کے ہمسایہ میں شام کی اپوزیشن کو Certified Rebels قرار دیا ہے۔
       اگر60 سال میں فلسطین کا تنازعہ اسرائیل اپنی Military Might سے حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ تو عرب دنیا کے دوسرے مسئلہ بھی کوئی طاقت Military Might سے حل نہیں کر سکتی ہے۔ سعودی نامعلوم کس دنیا میں ہیں جو شام میں مسلسل فوجی مداخلت کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے خود یمن میں فوجی مداخلت کے ذریعے  ان کا داخلی مسئلہ حل کرنے کا تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے جس میں انہیں کامیابی صرف پسپائی کی صورت میں ہو ئی ہے۔ پھر ان کے  سامنے عراق کی مثال بھی ہے۔ جہاں امریکہ نے اپنی  Military Might سے ایک مسئلہ حل کر کے 101 نئے مسئلے پیدا کر دئیے ہیں۔
       روس یورپی یونین ایران  امریکہ اور مصر بھی اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ حالات میں صدر بشرالسد کا جانا اس سارے خطہ کے لئے ایک بہت بڑی تباہی بن جاۓ گا۔ جبکہ ان کے سامنے عراق اور لیبیا کے نتائج بھی ہیں۔ اس وقت شام میں سیاسی استحکام سب کی ضرورت ہے۔ تاکہ جو لوگ شام سے چلے گیے ہیں۔ انہیں واپس لایا جاۓ۔ انہیں اپنے گھر آباد کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ شام میں حالات اور لوگوں کی زندگیاں معمول پر آنے میں دو سے تین سال لگ سکتے ہیں۔ اور پھر شام میں ایک سیاسی عمل کے ذریعے لوگوں کے ووٹوں سے حکومت تبدیل کرنے کی ابتدا کی جاۓ۔ جس طرح لبنان میں ایک طویل خانہ جنگی کے بعد ایک سیاسی عمل نے لبنان کو امن اور استحکام دیا تھا۔ افغان اور عراق صدر جارج بش کی جنگیں تھیں۔ جو صدر اوبامہ کو وراثت میں ملی تھیں۔ لیکن شام اور لیبیا صدر اوبامہ کی جنگیں ہیں۔ اور صدر اوبامہ یہ جنگیں نئے صدر کے لئے وراثت میں چھوڑ کر اپنی Legacy  کو صدر بش کی Legacy کے ساتھ دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔        

Saturday, June 18, 2016

Today, Congress Is Spitting And Throwing Trash On Pakistan, Pakistan Has Served American Interest, As American Soldiers Have Served America

President Ronald Reagan Has Always Said That "Radical Islam Or Islamic Terrorists Were Freedom Fighters”; We Were The First Victim Of Islamic Terrorists In Pakistan

Today, Congress Is Spitting And Throwing Trash On Pakistan, Pakistan Has Served American Interest, As American Soldiers Have Served America  

مجیب خان
Radical Islam In The White House

President Eisenhower And Pakistani President Ayub Khan Ride Through The Streets Of Karachi 1959

President Lyndon B Johnson Shakes Hands With Camel Cartman In Karachi 

Charlie Wilson, Congressman From Texas, He Used The Defense Appropriation Subcommittee To Secretly Steer Billions Of Dollars To Afghan Rebels Resisting Soviet Occupation  


        نائن الیون کے بعد صدر بش نے کہا تھا کہ “Take the fight to the enemy overseas before they can attack us again here at home” لیکن اس دشمن نے تو نائن الیون کے بعد امریکہ پر حملہ نہیں کیا ہے۔ تاہم امریکہ کے اندر یہ حملے Homegrown lone Terrorists نے کیے ہیں۔ اور صدر اوبامہ کے ساڑھے سات سال اقتدار میں تقریباً پندرہ ایسے حملہ ہو چکے ہیں۔ بلکہ یورپ میں بھی دہشت گرد ان کے اپنے شہری تھے۔ اور ان کے مغربی ماحول میں پلے بڑھے تھے۔ یہ مذہبی Rigid نظریاتی بھی نہیں تھے۔ اورلینڈو نائٹ کلب میں جس نے 49 لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ اس نے تو افغانستان کی سرزمین پر شاید کبھی قدم بھی نہیں رکھا ہو گا۔ پھر مذہبی انتہا پسندی کا یہ وائرس ان میں کیسے آ یا ہے؟ کیونکہ یہ مسلمان ہیں اس لئے یہ جلدی اسلامی انتہا پسند کے ریکارڈ پر آ جاتے ہیں۔ جبکہ امریکہ اور یورپ میں عیسائی نوجوانوں میں بھی دائیں بازو کی انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔ اور انتہا پسندی کے ساتھ ان میں مختلف قو میتوں سے  نفرت کے رجحان بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ جو اتنے ہی خطرناک ہیں جتنے داعش کے نظریات ہیں۔ 16 سال سے Non Stop Wars نوجوانوں کو Violent بنا رہی ہیں۔ یہ جنگیں جتنے دہشت گرد ہلاک کر رہی ہیں۔ اتنے ہی انتہا پسند پیدا کر رہی ہیں۔ پھر یہ کہ یہ جنگیں دنیا میں اقوام کے درمیان اتحاد ختم کر رہی ہیں۔ اور قوموں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا رہی ہیں۔ دنیا میں آج جتنی نفرتیں ہیں ایسی نفرتیں شاید پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھیں۔ حالانکہ دنیا آج بہت زیادہ Interconnected ہے۔ اور دنیا میں اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس سے سب اثر انداز ہوتے ہیں۔ صدر بش جب یہ جنگ ان کی ‎سرزمین پر لڑنے لے گیے تھے تو ان کے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ یہ دنیا Interconnected ہے۔ اور وہ دنیا میں جہاں بھی جنگیں لڑیں گے۔ جہاں بھی بم گرائیں گے اس کا خون امریکہ میں ضرور Splash ہو گا۔
      اپریل 1995 میں اوکلو ہو ما سٹی Bombing جس میں 168 لوگ ہلاک ہوۓ تھے۔ اورلینڈو نائٹ کلب میں امریکہ کی تاریخ کا دوسرا بڑا Homegrown Terrorism واقعہ ہوا ہے۔ جس میں 49 لوگ مارے گیے ہیں اور 53 زخمی ہوۓ ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ سال دسمبر میں San Bernardino کے واقعہ میں 14 لوگ مارے گیے تھے۔ اور 22 زخمی ہوۓ تھے۔ اوکلو ہو ما سٹی Bombing میں فیڈرل بلڈنگ کو بم سے اڑا دیا تھا۔ اور یہ امریکہ میں Homegrown Terrorism کا پہلا واقعہ تھا۔ Timothy McVeigh 25 سال کا تھا اور سابق فوجی تھا۔ پہلی عراق جنگ سے واپس آیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ عراقی بہت اچھے لوگ ہیں۔ اور ہم انہیں کیوں مار رہے تھے۔ انہوں نے ہمارے خلاف کیا تھا۔ پھر 1993 میں Waco Texas میں مذہبی فرقہ David Koresh بر انچ Davidians کے خلاف ایف بی آئي نے کاروائی کی تھی۔ اور چرچ کو آگ لگا دی تھی۔ ایف بی آئی کا کہنا تھا کہ یہ آگ چرچ کے اندر سے لگائی گئی تھی۔ جبکہ بعض کا کہنا تھا کہ یہ آگ ایف بی آئی نے لگائی تھی۔ اور چرچ میں 79 لوگ جل کر مر گیے تھے۔ جن میں عورتیں اور بچے بھی تھے۔ Timothy McVeigh نے یہ مناظر دیکھے تھے۔ عراق پہلے ہی اس کے ذہن میں تھا۔ اور وہ نفسیاتی Extreme ہو گیا تھا۔ اور اس نے وفاقی بلڈنگ کو بم سے اڑا دیا تھا۔ حکومت جب بھی طاقت کا بھر پور استعمال کرتی ہے۔ لوگ Extreme ہونے لگتے ہیں۔ حکومت طاقت میں اتنی زیادہ Intoxicate ہوتی ہے کہ اسے کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا ہے۔ 20 سال سے بم ٹینک ایف 16، B52 ہیپاچی ہیلی کاپٹر ڈرون حملے کروز میزائل مشین گنیں انسانی لاشیں انسانی خون لوگوں کو صرف Extreme بنا رہا ہے۔ یہ جنگ Zika Virus ہے۔ لندن میں لیبر پارٹی کی رکن پارلیمنٹ کا قتل بھی اسی Extremism  کا نتیجہ ہے۔ صدر اوبامہ کا کہنا ہے کہ داعش کو ختم کرنے میں 20 سال لگ جائیں گے۔ اس دوران کتنے اور ایسے گروپ پیدا ہوں گے۔ اس کا کسی کو علم نہیں ہے۔ کبھی ایسا بھی نظر آتا ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں تباہی پھیلانے اور بے شمار ملکوں کو تباہ کرنے کے بعد دنیا کو چین  کے حوالے کر دیا جاۓ گا۔ اور یہ سب اس منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے؟
      ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ اصرار ہے کہ آخر صدر اوبامہ اور ہلری کلنٹن Radical Islam اور Islamic Terrorism کے لفظ کیوں استعمال نہیں کرتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی معلومات کے لئے Radical Islam دراصل صدر رونا لڈ ریگن کا Radical Idea تھا۔ جو کمیونسٹ سوویت یونین سے خاصے Obsessed تھے۔ صدر کارٹر کے ساتھ صدارتی انتخابی مباحثوں میں بھی صدر ریگن نے افغانستان پر کمیونسٹ فوجی قبضہ کے خلاف سخت خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اور ایک Extremely Islamic Rigid ملک میں اپنے Radical Ideas سے کمیونسٹ فوجوں کو شکست دینے کا ان کا اپنا ایک منصوبہ تھا۔ اور اس مقصد میں Radical Islam ان کے ذہن میں تھا۔ سعودی عرب  اردن شام مصر کویت اپنی جیلوں کے گیٹ کھولنے اور نظر بندIslamic Radicals   افغانستان میں کمیونسٹ فوجوں کے خلاف جہاد کے لئے بھیجنے کے لئے تیار تھے۔ صدر ریگن کے Radical Ideas  برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کا Radical Conservatism پاکستان کے جنرل ضیا الحق کا Islamic Zealots اور Wahhabi Ideologue  سعودی شاہ فہد ان میں اس پر اتفاق ہو گیا تھا کہ افغانستان میں Radical Islam اور Islamic Terrorism کے ذریعے کمیونسٹ فوجوں کو شکست دینے کا یہ سنہری موقعہ تھا۔ صدر رونا لڈ ریگن اور وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے کبھی یہ اعتراف نہیں کیا تھا کہ افغانستان میں کمیونسٹ فوجوں کے خلاف Radical Islam اور Islamic Terrorism ہو رہا تھا۔ یہ اسے Freedom Fighters کہتے تھے۔
      امریکہ میں Radical Islam اور Islamic Terrorism کی باتیں 2016 میں ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں لوگ 1980 میں ان کا شکار بنے ہوۓ تھے۔ یہ AK 47 کا استعمال کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس وقت کر رہے تھے۔ 1980 میں ریگن بش انتظامیہ کے واچ میں پاکستان میں Islamic Terrorism کا فروغ ہو رہا تھا۔ لیکن صدر ریگن نے اس پر کبھی امریکہ کی تشویش کا اظہار نہیں کیا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ سے یہ سوال ہے کہ کمیونسٹ فوجیں 1956 میں جس طرح Hungary میں آئی تھیں۔ اسی طرح کمیونسٹ فوجیں 23 سال بعد افغانستان میں آئی تھیں۔ سوویت کمیونسٹ فوجوں کے خلاف Hungary کے لوگوں کو جنگ پر کیوں نہیں اکسایا گیا تھا؟ انہیں سوویت فوجوں کے خلاف دہشت گردی کرنا کیوں نہیں سکھایا گیا تھا؟ ایک اسلامی ملک کو  کمیونسٹ فوجوں کے خلاف Islamic Terrorism کے لئے کیوں استعمال کیا تھا؟ جبکہ پاکستان میں لوگ اور اس خطہ کے دوسرے ملک چیخ رہے تھے کہ امریکہ یہ کیا کر رہا تھا۔ Islamic Terrorism  کے دور رس نتائج انتہائی خطرناک ہوں گے۔ لیکن امریکہ میں یہ کوئی سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اور آج ڈونالڈ ٹرمپ کانگرس اور اوبامہ انتظامیہ سب پاکستان کو Malign  کر رہے ہیں۔ سرد جنگ میں جو بھی اسلامی ملک امریکہ کے اتحادی تھے وہ سب اس جنگ سے اسلامی دہشت گرد بن کر نکلے ہیں۔       


            

Tuesday, June 14, 2016

Presidential Election: Americans Are Divided Between Confusion And Convincement

Establishment Has Been Obsolete Political The

Presidential Election: Americans Are Divided Between Confusion And Convincement

مجیب خان



           صدر اوبامہ نے ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کے لئے ہلری کلنٹن کی حمایت کا با ضابطہ طور پر اعلان کیا ہے۔ اور ہلری کلنٹن اب ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہوں گی۔ جبکہ ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار اصولی طور پر ڈونالڈ ٹرمپ ہیں۔ لیکن پارٹی کے با اثر Bosses ڈونالڈ ٹرمپ کو صدارتی امیدوار قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ پارٹی اس وقت شدید چپقلش کا شکار ہے۔ پارٹی کے بعض کانگرس مین اور سینیٹر ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ پارٹی کے اندر ایک نئے صدارتی امیدوار کے لئے نام تجویز کرنے پر بھی بحث ہو رہی ہے۔ سابق خاتون اول Laura Bush نے کہا ہے کہ وہ ہلری کلنٹن کو وائٹ ہاؤس میں دیکھنا پسند کریں گی۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی سلامتی کے لئے جو خطرے تھے۔ وہ اب ری پبلیکن پارٹی کے اتحاد اور سلامتی کے لئے خطرہ بن گیے ہیں۔ حالانکہ ڈونالڈ ٹرمپ تقریباً 27 سے زیادہ ریاستوں میں پرائم ریز میں کامیاب ہوۓ ہیں۔ اور ری پبلیکن پارٹی کی تاریخ میں پرائم ریز میں ریکارڈ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ جو اس سے پہلے کسی صدارتی امیدوار نے پرائم ریز میں اتنے ووٹ حاصل نہیں کیے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو تقریباً 12 ملین ووٹ ملے تھے۔ ری پبلیکن پارٹی کے رہنما اب ڈونالڈ ٹرمپ ہیں۔ عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ پارٹی کے Bosses کو یہ یقین نہیں تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ جو کبھی سیاست میں نہیں تھے۔ پرائم ریز انتخابات میں پارٹی کے 17 امیدواروں میں سے ابھر کر پہلے نمبر پر آ جائیں گے۔
        حیرت کی بات ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی پارٹی کے اندر اور پارٹی سے باہر اتنی زیادہ مخالفت کیوں ہے؟ ڈونالڈ ٹرمپ کاسترو نہیں ہیں اور نہ ہی چہ گورا ہیں۔ امریکہ کے ایک بہت بڑے سرمایہ دار ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوۓ اور انتخابات کے ذریعے امریکہ کی پالیسیاں با لخصوص خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانے کے عزم کا اظہار کر رہے تھے۔ اور ان پالیسیوں پر اپنے اختلافات امریکی عوام کے سامنے ر کھے تھے۔ اور عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے ڈونالڈ ٹرمپ کے خیالات سے اتفاق کیا ہے۔ اور انہیں پرائم ریز میں ووٹ دے کر کامیاب کیا ہے۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں یہ بھی پہلی مرتبہ دیکھا جا رہا ہے کہ بعض غیرملکی حکومتوں کی طرف سے بھی ڈونالڈ ٹرمپ کی مخالفت میں بیانات آۓ ہیں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کمیرن نے ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف بیان دیا تھا۔ اور اب ائرلینڈ کے وزیر اعظم نے بھی ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف بیان دیا ہے۔ پرائم ریز انتخابی مہم کے دوران ڈونالڈ ٹرمپ نے بعض متضاد باتیں بھی کی ہیں۔ لیکن جو باتیں انہوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ کی ہیں۔ لوگ ان کو اہمیت دے رہے ہیں۔
       21 ویں صدی کا یہ پانچواں صدارتی انتخاب ہے۔ امریکی عوام نے 21 صدی کے آغاز پر ری پبلیکن پارٹی کو دو مرتبہ منتخب کیا تھا۔ اور پارٹی نے دونوں مرتبہ لوگوں کو سخت مایوس کیا تھا۔ امریکی عوام کے مصائب میں صرف اضافہ کیا تھا۔ امریکی عوام کی سیکورٹی کے نام پر ان کی اقتصادی سیکورٹی چلی گئی تھی۔ جنگوں میں لوگوں کی دلچسپی نہیں تھی۔ ان حالات میں امریکی عوام نے ڈیموکریٹک پارٹی کو منتخب کیا تھا۔ صدر اوبامہ کو بھی دو Chance دئیے تھے۔ 2012 کے صدارتی انتخابات سے قبل صدر اوبامہ نے اسامہ بن لادن کو دریافت کر لیا تھا۔ اور اسے مار دیا تھا۔ جس کے بعد امریکی عوام کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ صدر اوبامہ اب جنگیں ختم کر کے ان کے گرتے حالات پر توجہ دیں گے۔ صدر اوبامہ نے افغان جنگ ختم کر دی تھی۔ اور افغانستان سے تمام فوجیں واپس بلا لی تھیں۔ صرف دس ہزار فوجیں افغان سیکورٹی فورس کو تربیت دینے کے لئے افغانستان میں رکھی تھیں۔ اس سے قبل صدر اوبامہ نے عراق جنگ بھی ختم کر دی تھی۔ اور عراق سے تمام فوجیں واپس بلا لی تھیں۔ مشرق وسطی میں امریکہ نے فریڈم اور ڈیموکریسی پروجیکٹ پر جو لاکھوں ڈالر انویسٹ کیے تھے عرب اسپرنگ میں اس کے نتائج آنا شروع ہو گیے تھے۔ فریڈم اور ڈیموکریسی ہر طرف پھیل رہی تھی۔ عرب ڈکٹیٹر ایک ایک کر کے گرتے جا رہے تھے۔
        لیکن امریکہ پھر 50 اور 60 کی دہائیوں میں آ گیا تھا۔ سرد جنگ کو جاری رکھنے کے لئے تیسری دنیا کے ملکوں میں فوجی ڈکٹیٹروں سے کام لیا تھا۔ اگر تیسری دنیا کے ملکوں میں اس وقت جمہوریت کو فروغ دیا جاتا تو شاید سرد جنگ بھی زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہتی اور دم توڑ دیتی۔ اور اب دہشت گردی کی جنگ جاری رکھنے کے لئے عرب دنیا میں ڈکٹیٹروں کو اقتدار میں رکھنا ضروری ہو گیا تھا۔ صدر ائزن ہاور نے سی آئی اے کے ذریعے  1953 میں ایران میں ڈاکٹر محمد مصدق کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ اور پھر شاہ کی آمرانہ حکومت سے سرد جنگ لڑنے کا کام لیا تھا۔ صدر اوبامہ 60 کے عشر ے میں پیدا ہوۓ تھے۔ لیکن صدر اوبامہ نے 2011 میں مصر میں فوج کا ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے اقدام کو خاموشی سے قبول کر لیا تھا۔ مشرق وسطی کو فریڈم اور ڈیموکریسی میں منتقل کرنے کے پروجیکٹ پر جو لاکھوں ڈالر خرچ کیے گیے تھے۔ وہ امریکی عوام کے ٹیکس ڈالر تھے۔ اور ضائع ہو گیے تھے۔ مصر میں فوجی ڈکٹیٹر اب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قریبی اتحادی ہیں۔ انہوں نے  سیاسی مخالفین کو دہشت گرد قرار دے کر مصر کی جیلیں بھر دی ہیں۔ اور اخوان المسلمون کے نو سو کارکنوں کو پھانسی کی سزائیں سنائی ہیں۔ 50 اور 60 کی دہائیوں میں خارجہ اور دفاعی امور کے بارے میں جس طرح اسٹبلشمینٹ کام کرتا تھا۔ آج بھی یہ اسٹبلشمینٹ اسی دور میں ہے اور اسی ذہنیت کے مطابق کام کر رہا ہے۔  ڈونالڈ ٹرمپ نے اسٹبلشمینٹ کے اس Status quo کو ختم کرنے کی بات کی ہے۔
         ڈونالڈ ٹرمپ نے ہلری کلنٹن کے سیکرٹیری آف اسٹیٹ کی حیثیت سے لیبیا اور شام کے بارے میں ان کے Poor Judgements کی بات کی ہے کہ وہ لیبیا کے بارے میں غلط تھیں اور شام کے بارے میں بھی غلط تھیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ اتنا زیادہ طاقتور ہے کہ اسے فیصلہ کرنے میں Judgement کے غلط یا درست پلہوؤں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سپر پاور اپنے صرف Short term مفادات کو حاصل کرنے کے فیصلے کرتی ہیں۔ اور Long term میں ان کے مہلک نتائج کی صورت میں پھر طاقت کا بھر پور استعمال کرتی ہیں۔ صدر جارج بش نے دنیا کو بتایا تھا کہ صدام حسین عالمی امن کے لئے ایک بڑا خطرہ تھے۔ صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد دنیا ایک بڑے خطرے سے محفوظ ہو جاۓ گی۔ صدر بش اور ان کے سیکرٹیری دفاع رمز فیلڈ کا کہنا تھا کہ امریکی فوجیں عراق میں جائیں گی۔ سرجری کریں گی۔ اور واپس آ جائیں گی۔ عراق ان کے لئے Piece of cake تھا۔ اور یہ بش انتظامیہ کا عراق کے بارے میں Judgement تھا۔ Judgement کے سوال پر بش اور اوبامہ دونوں انتظامیہ بالکل Flunk ہیں۔ اس لئے اب طاقت کا بھر پور استعمال ہو رہا ہے۔ کامیاب لیڈر وہ ہوتے ہیں جو اپنے ملک اور عوام کو جنگوں سے ہمیشہ دور رکھتے ہیں۔ اور ان میں تنازعوں کو حل کرنے کی سیاسی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ اور Judgement میں دور رس نتائج پر ان کی نظر ہوتی ہے۔ لیکن بش انتظامیہ کو عراق اور اوبامہ انتظامیہ کو لیبیا اور شام کے سلسلے میں دور رس نتائج کی پروا نہیں تھی۔ کیونکہ یہ طاقت کے استعمال سے نتائج کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
        ہلری کلنٹن کا ای میل اتنا اہم اسکنڈل نہیں ہے۔ اس اسکنڈل کی خاصی تحقیقات ہو چکی  ہے۔ اور اس میں امریکہ کی سلامتی کی خلاف ورزیاں ہونے کے ثبوت نہیں ملے ہیں۔ اسے غیر ضروری طور پر ایک ڈرامائی اسکنڈل بنا دیا گیا ہے۔ جو اہم ایشو ہے اور جس پر پوچھ گچھ ہونا چاہیے تھی کہ عرب دنیا کو فریڈم اور ڈیموکریسی میں منتقل کرنے کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا پروجیکٹ کیسے ناکام ہوا ہے؟ اس پروجیکٹ پر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے لاکھوں ڈالر خرچ کیے تھے۔ جو عوام کے ٹیکس ڈالر تھے۔ صدر بش نے عرب دنیا میں فریڈم اور ڈیموکریسی پر زور دیا تھا۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ کانڈالیسزا رائس نے قاہرہ یونیورسٹی میں طالب علموں کو اس پر لیکچر دیا تھا۔ پھر اردن میں بھی انہوں نے اس موضوع پر لیکچر دیا تھا۔ پھر صدر اوبامہ نے بھی قاہرہ یونیورسٹی میں فریڈم اور ڈیموکریسی پر لیکچر دیا تھا۔ ان کوششوں کے نتائج پھر عرب اسپرنگ میں سامنے آۓ تھے۔ فریڈم اور ڈیموکریسی کی سونامی عرب دنیا کی سڑکوں پر دیکھی جا رہی تھی۔ لیکن پھر اچانک یہ کیا ہوا؟ مصر میں فوج نے اقتدار پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔ صدر اوبامہ اور سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہلری کلنٹن نے عرب دنیا کو فریڈم اور ڈیموکریسی میں منتقل کرنے کا پروجیکٹ dump کر دیا اور 80 ملین مصریوں کو فوجی ڈکٹیٹر کی قید میں دے کر چلے گیے تھے۔
        لیکن پھر حیرت کی بات یہ تھی کہ مصر میں فوجی ڈکٹیٹر کو اقتدار میں بیٹھا کر شام میں ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے کی تحریک میں خلیج کے ڈکٹیٹروں کے اتحاد میں شامل ہو گیے تھے۔ اوبامہ انتظامیہ نے اسد حکومت کے مخالفین کو جہاد کی تربیت دینے پر 500 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ جو امریکی عوام کے ٹیکس کے ڈالر تھے۔ جبکہ اس سے قبل امریکہ نے عرب دنیا میں فریڈم اور ڈیموکریسی پروجیکٹ پر بھی تقریباً  اتنے ہی ڈالر خرچ کیے تھے۔ لیکن عرب دنیا کو فریڈم اور ڈیموکریسی میں منتقل کرنے کا پروجیکٹ فیل ہو گیا تھا۔ بشارالسد کو اقتدار سے ہٹانے کا پروجیکٹ بھی فیل ہو گیا ہے۔ ترکی جو اسلامی دنیا میں جمہوریت کا ایک کامیاب ماڈل تھا۔ وہ بھی اب آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ افغانستان میں اوبامہ انتظامیہ  طالبان کے خلاف ایک نئی جنگ شروع کرنے جا رہی ہے۔
        یہ تمام Judgement کی ناکامیاں ہیں۔ اور ہلری کلنٹن کو انتخابی مہم کے دوران ان ناکامیوں کے بارے میں حساب دینا ہو گا۔ امریکی عوام ڈونالڈ ٹرمپ اور ہلری کلنٹن کے بارے میں اس وقت Confuse اورConvince میں تقسیم ہیں۔ صدارتی امیدواروں کو اب انتخاب جیتنے کے لئے جو Confuse ہیں انہیں Convince کرنا ہو گا۔ اور جو Convince ہیں انہیں Confuse کرنا ہو گا۔ اس میں جو کامیاب ہو جاۓ گا۔ وہ صدارتی انتخاب جیت جاۓ گا۔