Saturday, December 31, 2016

People of The Year: Syrian And Yemeni Children

People of The Year: Syrian And Yemeni Children

Why Are They Supporting Violence Against Humanity?  So, Long

مجیب خان



























     شام، یمن، عراق اور افغانستان کے لوگوں کے لئے 2016 بھی امن کا سال نہیں بن سکا ہے۔ اس سال جنگ زدہ ملکوں میں بچے سب سے متاثر ہوۓ ہیں۔ اور بڑی تعداد میں ان ملکوں میں بچے مارے گیے ہیں۔ زخمی ہوۓ ہیں یا یتیم ہو گیے ہیں۔ ایک ملین لوگ شام چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیے تھے۔ شام یمن اور عراق کے لوگوں پر بیرونی مداخلت نے جنگیں مسلط کی ہیں۔ ان کے ملک تباہ کیے ہیں۔ ان کی زندگیاں بر باد کی ہیں۔ ان کے بچوں کی دنیا تاریک کر دی ہے۔ حالانکہ یمن میں اقتدار اور قبائلی سیاست کی داخلی لڑائی تھی۔ اور اس میں غیر ملکیوں کو اپنی ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کی مداخلت نے داخلی محاذ آ رائی کو علاقائی جنگ میں بدل دیا تھا۔ یمن کے خلاف ان کی جا حا ریت کو تین سال ہو رہے ہیں۔ اور اس جنگ میں لوگوں کی زندگیاں تباہ کرنے اور ان کے بچوں کی دنیا تاریک کرنے سے زیادہ کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ شام میں 6 سال سے خانہ جنگی سے دنیا کو Entertain کرایا جا رہا تھا۔ لوگ مر رہے تھے۔ بچے مر رہے تھے۔ بچے بچیاں یتیم ہو گیے تھے۔ سمندوں میں بچوں کی لاشیں تیر رہی تھیں۔ بڑے ٹی وی اسکرین پر دنیا یہ مناظر دیکھ رہی تھی۔ لیکن اس کے ضمیر میں انسانیت مر گئی تھی۔ اگر ان کے ضمیر میں انسانیت زرہ بھی زندہ ہوتی۔ تو ان کے سامنے جنگ بند کرانے کے طریقہ بھی تھے۔ لیکن لوگ مر رہے تھے اور حکومتیں صرف باتیں کر رہی تھیں۔ سفارت کار کانفرنسیں کر رہے تھے۔
    بشر اسد ڈکٹیٹر ہے۔ انسانیت کے خون سے اس کے ہاتھ رنگے ہوۓ ہیں۔ لیکن جو ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے کی لڑائی لڑ رہے تھے۔ ان کا رویہ ڈکٹیٹر کے شہریوں کے ساتھ ڈکٹیٹروں کی طرح تھا۔ اور انہوں نے ہزاروں لوگوں کو صرف اس لئے قتل کیا تھا کہ وہ اسد حکومت کی حمایت کرتے تھے۔ اپوزیشن جس کی امریکہ اور مغربی ملک حمایت کر رہے تھے۔ انتہائی Violence ہوتی جا رہی تھی۔ حکومت کے خلاف اس نے ہتھیار اٹھا لیے تھے۔ شہریوں کو خوفزدہ کیا جا رہا تھا۔ سرکاری املاک تباہ کی جا رہی تھیں۔ اگر امریکہ میں، فرانس میں، برطانیہ میں ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں تو حکومت کیا کرے گی؟ اسرائیل میں حماس یا فلسطینی راکٹ پھینکتے ہیں۔ جس سے اسرائیلی لوگ مر جاتے ہیں۔ اسرائیلی املاک کو تباہ کرنے لگتے ہیں ایسی صورت میں اسرائیلی حکومت نے بھی ان عناصر کے خلاف انتہائی Ruthless  طاقت کا استعمال کیا ہے۔ اور ہزاروں فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ جن ملکوں نے اسرائیل کے اس اقدام کو اپنے شہریوں کا دفاع کرنے کا حق کہا تھا۔ لیکن وہ ہی ممالک شام کی حکومت کے اپنے شہریوں کا دفاع کرنے کے اقدام کو انسانیت کے خلاف کرائم قرار دیتے ہیں۔ جبکہ ہر حکومت کا اپنے شہریوں کی جان اور املاک کا دفاع کرنا فرض ہے۔ لیکن یہ شام میں حکومت کے خلاف  نام نہاد اپوزیشن کو اسلحہ اور تربیت دے رہے تھے۔ اور شام میں Violence کو فروغ دے رہے تھے۔ جبکہ دوسری طرف عالمی برادری دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ بھی کر رہی تھی۔ آخر Violence اورTerrorism میں فرق کیا تھا؟ کیا انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ Terrorism کی ابتدا Violence سے ہوتی ہے؟ دنیا کی انتہائی تعلیم یافتہ اور جمہوری قومیں قبائلیوں کے ساتھ مل کر یہ کیا کر رہی تھیں؟ عالمی قوانین اور انسانی قدروں کو انہوں نے کیسے فراموش کر دیا تھا؟ عراق شام یمن اور لیبیا کو تباہ کرنے کے یہ ذمہ دار ہیں۔ تاریخ میں یہ دور انسانیت کے خلاف سب سے زیادہ ہونے والے کرائم کا دور دیکھا جاۓ گا۔ اور پانچ سال تک کسی نے کچھ نہیں کیا تھا۔          

Wednesday, December 28, 2016

Israel’s Tantrum On The U.N Security Council’s Resolution

Israel’s Tantrum On The U.N. Security Council’s Resolution    

مجیب خان
U.S. abstains from voting on the U.N.'s Israel Resolution 
Security Council Resolution 2334 U.S. Ambassador to the U.N. Samantha Power, abstaining  

Israel's Prime Minister Benjamin Netanyahu

     مقبوضہ فلسطینی سر زمین پر نئی یہودی بستیاں آباد کرنے کی اسرائیلی پالیسی کے خلاف سلامتی کونسل کے 14 اراکین نے متفقہ طور پر قرار داد منظور کی ہے۔ امریکہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اور اسرائیل کے خلاف اس قرار داد کو ویٹو بھی نہیں کیا تھا۔ سلامتی کونسل کے جن 14 اراکین نے اس قرار داد کی حمایت میں ووٹ دئیے ہیں ان میں روس چین برطانیہ اور فرانس کونسل کے مستقل رکن تھے۔ جبکہ مصر ملیشیا نیوزی لینڈ  سینیگال ونزویلا جاپان یوکرین انگولا  اور اسپین کونسل کے غیر مستقل رکن تھے۔ سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور ہونے پر اسرائیل کا رد عمل کچھ ایسا تھا کہ جیسے اس مرتبہ فلسطینیوں نے اسرائیل کے خلاف دہشت گردی نہیں کی تھی بلکہ سلامتی کونسل کے 14 اراکین نے اسرائیل کے خلاف یہ دہشت گردی کی تھی۔ اور اوبامہ انتظامیہ کو اس کا علم تھا۔ لیکن اس نے اسے روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو اس پر خاصے برہم ہیں اور تلملا رہے ہیں لیکن امریکہ کے خلاف کچھ کر نہیں سکتے ہیں۔ حالانکہ وزیر اعظم نتھن یا ہو حکومت کو یہ معلوم تھا کہ عالمی برادری ان کی حکومت کی مقبوضہ علاقوں میں نئی یہودی بستیاں آباد کرنے کی پالیسی کے سخت خلاف تھی اور انہیں اس سے متنبہ کیا جا رہا تھا۔ لیکن وزیر اعظم نتھن یا ہو حکومت اسے نظر انداز کرتی رہی۔ اور نئی یہودی بستیاں آباد کرنے کی پالیسی پر عملدرامد جاری رکھا تھا۔ عالمی برادری یہ  بھی  خصوصی طور پر نوٹ کر رہی تھی کہ کئی برسوں سے اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ امن مذاکرات میں بھی کوئی پہل نہیں کی تھی۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد نتھن یا ہو حکومت کے بعض اعلی حکام نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد ایک آزاد فلسطینی ریاست کا تصور اب ختم ہو گیا ہے۔ اور اس پر اب کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔
    فلسطینیوں سے مذاکرات کرنے کے بجاۓ نتھن یا ہو حکومت پانچ چھ سال سے خلیج کی ریاستوں کے حکمرانوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لئے غیر اعلانیہ مذاکرات کر رہی تھی۔ اور مذاکرات کا ایجنڈہ صرف اس ایک نقطہ پر تھا کہ ایران خلیج کے حکمرانوں اور اسرائیل کا مشترکہ دشمن ہے۔ اور مشرق وسطی میں ایران کے اثر و رسوخ کو روکنے لئے تعاون انتہائی ضروری ہے۔ خلیجی حکمران عرب دنیا میں برپا ہونے والی تبدیلیوں میں جب ایران کو دیکھتے  ہیں تو زیادہ گھبرا جاتے ہیں۔ اور Confuse بھی ہو جاتے ہیں۔ لہذا ایسی صورت میں اسرائیل کے لئے خلیجی حکمرانوں سے ہم آہنگی آسان ہو گئی تھی۔ نتھن یا ہو حکومت اقوام متحدہ میں اب اسرائیل کے لئے ایک سرگرم رول اور سلامتی کونسل میں غیر مستقل نشست  کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ ملکوں کی حمایت پر کام کر رہی تھی۔ اس مقصد اور دوسرے اسٹریٹجک مفاد میں وزیر اعظم نتھن یا ہو نے اس سال موسم گرما میں افریقی ملکوں کا دورہ کیا تھا۔ اور اس دورے میں وزیر اعظم نتھن یا ہو نے افریقی ملکوں کے ساتھ قریبی اقتصادی تجارتی اور سیاسی تعلقات فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ افریقہ میں پانی کی قلت دور کرنے اور زراعت کو فروغ دینے میں نئی اسرائیلی ٹیکنالوجی دینے کی پیشکش کی تھی۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے افریقی ملکوں کی یونین میں شامل ہونے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔ افریقی یونین میں صدر کرنل قدافی کی خالی نشست پر شاید وزیر اعظم نتھن یا ہو کی نظر ہے۔ شام کی صورت حال پر وزیر اعظم نتھن یا ہو صدر پو تن سے ملاقات کرنے تقریباً 6 مرتبہ ماسکو گیے تھے۔ عراق میں صدام حسین کے خلاف فوجی حملہ کے سلسلے میں اسرائیلی رہنما وائٹ ہاؤس صدر بش سے ملنے آتے تھے۔ جبکہ عالمی برادری وزیر اعظم نتھن یا ہو سے مسلسل یہ مطالبہ کر رہی تھی کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کریں۔ لیکن وزیر اعظم نتھن یا ہو فلسطینیوں کے ساتھ تنازعہ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اسرائیلی حکومت کے خیال میں ہر طرف دنیا میں ممالک مسائل کے جال میں پھنسے ہوۓ ہیں۔ یورپ میں دہشت گردی اور مہاجرین کا سیلاب ایک بڑا سیاسی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ عرب دنیا دہشت گردی کی جنگ اور اندرونی خانہ جنگی میں دھنسی ہوئی ہے۔ امریکہ مسلسل اور طویل جنگوں میں کامیابی نہ ہونے سے تھک چکا ہے۔ لہذا اسرائیلی حکومت اپنے منصوبہ اور سیاسی نقشہ بنا رہی ہے۔
    اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل کی قرارداد منظور ہونے پر وزیر اعظم نتھن یا ہو نے اوبامہ انتظامیہ کے خلاف جو سخت موقف اختیار کیا ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ اسرائیل اب امریکہ سے Divorce چاہتا ہے۔ نتھن یا ہو حکومت پہلے ہی ایران کے ساتھ نیو کلیر کے  مسئلہ پر اسرائیل کی بھر پور مخالفت کے باوجود سمجھوتہ پر اوبامہ انتظامیہ سے خوش نہیں تھی۔ اور اسرائیل کے تحفظات کو امریکہ نے بالکل درگزر کر دیا تھا۔ اور اب سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرارداد کو ویٹو نہ کر کے  امریکہ نے اسرائیل کو جیسے Divorce کے چورا ہے  پر چھوڑ دیا ہے۔ اسرائیل کے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات اب سمجھ میں آ رہے ہیں۔ اسرائیل کی سیاسی اور سفارتی قانون شکنیوں کے خلاف عالمی اداروں میں مذمت اور اقدامات کے لئے قراردادوں کو ویٹو کرنا امریکہ کی ذمہ داری بن گئی تھی۔ اور اس طرح عالمی برادری کے ایکشن سے امریکہ اسرائیل کو بچا یا کرتا تھا۔ اسرائیل اقتصادی تجارتی اور اپنا فوجی دفاع کرنے میں Sovereign  ہے جبکہ عالمی اداروں میں اسرائیل کے سیاسی اور سفارتی فیصلوں کا دفاع کرنے کی Sovereignty امریکہ کی ہے۔ اس حد تک اسرائیل کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہت قریبی تھے۔
    اسرائیل اب مغربی ایشیا کی ایک بڑی فوجی طاقت بن گیا ہے۔ اسرائیل میں بھی امریکہ کے مقابلے پر ایک Military Industrial Complex آ گیا ہے۔ اسرائیل اب دنیا میں اسلحہ فروخت کر رہا ہے۔ مغربی ایشیا کے کسی ملک میں ایسی ور لڈ کلاس کمپنیاں نہیں ہیں کہ جیسی اسرائیل میں ہیں۔ اسرائیل جدید ٹیکنالوجی کی صنعت میں بھی بہت آگے ہے۔ اسرائیل انتہائی حساس ٹیکنالوجی دنیا کے بعض اہم ملکوں کو فروخت کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے اپنے حالیہ وسط ایشیا کے دورے میں آذربائجان کے ساتھ آئل اور گیس میں مشترکہ منصوبوں کے سمجھوتہ کیے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کی یہ سرگرمیاں ایک خود مختار ملک کی ہیں۔ لیکن جب عرب مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی جارحیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سوال ہوتا ہے۔ تو اس عالمی دباؤ کا سامنا کرنے کے لئے اسرائیل پھر امریکہ کو آ گے کر دیتا ہے۔ اسرائیل اپنی سلامتی کا دفاع  کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن اس میں اپنے غیرقانونی سیاسی ایکشن کا سفارتی دفاع کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔ اور اسرائیل کے لئے یہ سفارتی دفاع امریکہ کرتا ہے۔
    1979 میں مصر نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ اور اس کے ساتھ امن سمجھوتہ کیا تھا۔ دونوں ملکوں میں سفارتی تعلقات قائم ہو اورگۓ تھے۔ اور ان سفارتی تعلقات کو قائم رکھنے کے لئے امریکہ مصر کو 1.5 بلین ڈالر سالانہ امداد دیتا ہے۔ پھر 90 کی دہائی میں اردن نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔ اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے تھے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے پر امریکہ اردن کو 1 بلین ڈالر سالانہ امداد دیتا ہے۔ 90 کی دہائی میں PLO نے چیرمین یا سر عرفات کی قیادت میں اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔ اور اسرائیل کے ساتھ تاریخی اوسلو امن معاہدہ کیا تھا۔ جس کے بعد مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی محدود حکومت قائم ہونے کے بعد امریکہ فلسطینی اتھارٹی کو 5 بلین ڈالر سالانہ مالی امداد دیتا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ نے گزشتہ سال اس میں 80 ملین ڈالر کی کمی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان ملکوں کو یہ مالی امداد امریکہ صرف اسرائیل کے لئے دے رہا ہے۔ نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نیٹو ملکوں سے سیکورٹی کے سلسلے میں اپنا حصہ ادا کرنے کا اصرار کر رہے ہیں۔ اسرائیل نئی یہودی بستیوں کی تعمیر پر کھربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو اسرائیل کی سلامتی کے مفاد میں مصر اور اردن کے ساتھ امن معاہدوں کے نتیجہ میں ان ملکوں کو امریکہ کی مالی امداد میں اسے کچھ حصہ ادا کرنے کا کہنا چاہیے۔ اسرائیل کی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی تجارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اور اسرائیل یہ ادا کر سکتا ہے۔
    اسرائیلیوں اور فلسطینیوں میں براہ راست مذاکرات ناممکن ہیں۔ اور اگر یہ مذاکرات شروع ہوں گے تو کبھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے گے۔ دونوں پارٹیوں میں گزشتہ 26 برس کے مذاکرات کے نتائج دنیا کے سامنے ہیں۔ 1948 میں اگر یہودیوں سے فلسطینیوں کے ساتھ اپنی ایک آزاد ریاست کے قیام کے لئے براہ ریاست مذاکرات کرنے کا کہا جاتا تو یہ مذاکرات شاید ابھی تک ہو رہے ہوتے۔ جتنے بلند ٹرمپ ٹاور ہیں اسرائیلیوں کے پاس Excuses کی اتنی ہی لمبی فہرست ہے۔ اوسلو معاہدہ 1993 میں ہوا تھا۔ PLO نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا تھا۔ چیرمین عرفات نے یہودیوں کو اپنا کزن کہا تھا۔ لیکن اسرائیلی نظریاتی انتہا پسندوں نے کیا اس کا مثبت جواب دیا تھا۔ انہوں نے اپنے وزیر اعظم کو فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کے جرم میں قتل کر دیا تھا۔ وزیر اعظم Yitzhak Rabin کو حماس نے قتل نہیں کیا تھا۔ حزب اللہ نے قتل نہیں کیا تھا۔ Yitzhak Rabin کو یہودی سلا فسٹ نے قتل کیا تھا۔ اور یہ امن کا قتل تھا۔ اس کے بعد کسی اسرائیلی حکومت نے Yitzhak Rabin کی فلسطینیوں کے ساتھ امن کی Legacy کو مثال نہیں بنایا ہے۔ بلکہ جس نے وزیر اعظم Rabin کو قتل کیا تھا۔ اس کی امن کا قتل کرنے کی Legacy اسرائیلی حکومت کی پالیسی بن گئی ہے۔ اسرائیلی مذہبی نظریاتیوں سے فلسطینیوں کو امن دینے کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔                   

Saturday, December 24, 2016

The War On Terror Is Attracting The Young, As In The Sixties When Camel Cigarettes Attracted The Young

The War On Terror Is Attracting The Young, As In The Sixties When Camel Cigarettes Attracted The Young       
These young terrorists at the time of September 11th were young children and they grew up In the "War on Terror". The "War on Terror" is creating more young terrorists

مجیب خان


Oldest terrorist, prisoner in Guantanamo Bay, released in 2006 

Suspected terrorist responsible for Paris attacks

San Bernardino Terrorists

Suspected Terrorist responsible for playing a role in the Belgium and France terrorist attacks
A Turkish Police Officer assassinates the Russian Ambassador to Turkey
    
    انقرہ میں ترکی کے ایک 22 سالہ پولیس آفسر نے جو ڈیوٹی پر نہیں تھا۔ روس کے سفیر کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ اور پھر بلند آواز سے ' خدا عظیم ہے' 'حلب کو مت بھولو' شام کو مت بھولو' کہنے لگا۔ چند منٹ میں یہ بھی زمین پر پڑا تھا۔ ترکی کی سیکورٹی فورس کے اہل کاروں کی گولیوں سے یہ بھی مر گیا تھا۔ ان سر پھرے مذہبی جنونوں سے کوئی پوچھے کے اس 22 سال کے نوجوان کو کیا ملا۔ ایک بے گناہ انسان کا قتل کر کے خود بھی قتل ہو گیا۔ اگر یہ زندہ ہوتا تو ' خدا عظیم ہے' کرتا رہتا اور لوگوں کے ذہنوں میں حلب اور شام کو بھی زندہ رکھنے کی باتیں کرتا رہتا۔ تاہم یہ بڑی خصوصیت سے دیکھا جا رہا ہے کہ اب تک اس طرح کے واقعات میں زیادہ تر 22 سے 26 سال کی عمروں کے نوجوان ملوث پاۓ گیے ہیں۔ کیلیفورنیا، فلوریڈا، نیوجرسی/ نیویارک، پیرس، بلجیم اور بر لن میں دہشت گردی میں 24 ،25 اور26 سال کی عمروں کے ملوث تھے۔ امریکہ پر نائن الیون کے حملہ کے وقت یہ 8 اور 10 سال کے تھے۔ اور نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف بش اور چینی کی جنگوں نے اس نسل کو 16 سال میں Certified انتہا پسند بنا دیا ہے۔ 16 سال سے یہ نسل ایک ایسی دنیا دیکھ رہی ہے جس میں خونی جنگوں کی باتیں ہو رہی ہیں۔ دہشت گردی اور جوابی دہشت گردی ہو رہی ہے۔ ہر طرف انسانی خون بہہ رہا ہے۔ بچے خون میں لت پت پڑے ہیں۔ عورتوں بچوں اور مردوں کی لاشیں سمند دروں میں تیر رہی ہیں۔ یہ سب بےگناہ انسان تھے۔ جن کا نائن الیون کی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ نہ ہی امریکہ کے مفادات سے انہیں کوئی دلچسپی تھی۔ ان کی دنیا امریکہ کی دنیا سے بہت چھوٹی تھی۔ لیکن جس طرح ان کی دنیا میں حکومتیں تبدیل کرنے سے تباہی پھیلائی گئی ہے۔ ان کے معاشروں کو عدم استحکام کیا گیا ہے۔ ان کی معیشت تباہ کی گئی ہے۔ ان کے خاندان تباہ ہو گیے ہیں۔ ان Extreme پالیسیوں نے Extremism کو فروغ دیا ہے۔
     بش اور اوبامہ انتظامیہ میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف باتیں بہت کی گئی ہیں۔ بش انتظامیہ میں بن لادن اور القا عدہ کا چرچا ہوتا رہا۔ بن لادن کے و ڈیو بریکنگ نیوز بنتے تھے۔ بن لادن پر کتابیں لکھی گئی تھیں۔ القاعدہ پر مضامین لکھے جاتے تھے۔ سیاسی پنڈتوں نے امریکی میڈ یا میں تقریباً ہزاروں گھنٹے بن لادن القاعدہ اور انتہا پسندی پر باتیں کی تھیں۔ اور پھر بن لادن کو مار دیا تھا۔ القاعدہ تتربتر ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن پھر اوبامہ انتظامیہ میں داعش ISIS القاعدہ سے بھی بڑی دہشت گرد تنظیم بن کر سامنے آئی تھی۔ اس نام نہاد اسلامی ریاست کو کمیونسٹ ریاست کے مقابلے کی ریاست بنا دیا تھا۔ وہ ہی پنڈت جو امریکی میڈ یا میں بن لادن اور القاعدہ پر باتیں کرتے تھے۔ داعش کی انتہا پسندی اب ان کا موضوع بن گیا تھا۔ کبھی ایسا تاثر ملتا تھا کہ شام کو جیسے داعش کے مفاد میں عدم استحکام کیا جا رہا تھا۔ اس نا ختم ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے سیاسی تھیوری یہ ہے کہ جب لوگ بڑی تعداد میں مرتے ہیں تو دنیا میں پھر تبدیلیاں آتی ہیں۔ یورپ میں جب بادشاہتیں تھیں۔ یورپ میں جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ ان جنگوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مرتے تھے۔ جس کے نتیجہ میں یورپ میں پھر تبدیلیاں آئی تھیں۔ کچھ عرصہ بعد پھر جرمنی میں 6 ملین یہودی مارے گیے تھے۔ اور اس کے بعد پھر دنیا بدل گئی تھی۔ اور اب عراق، شام، لیبیا، یمن، افغانستان اور پاکستان میں تقریباً تین ملین مسلمان مارے گیے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ اور دنیا میں تبدیلیاں آنے کا آغاز امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ری پبلیکن اور ڈیمو کریٹک پارٹی کی شکست سے ہو گیا ہے۔
     دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کو ناکامیاں ہو رہی ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی مشرق وسطی سے، افغانستان سے، جنوبی ایشیا سے گزر کر یورپ میں پہنچ گئی ہے۔ اور یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکامی ہے۔ امریکہ کی Regime change پالیسی بھی ناکام ہو گئی ہے۔ عراق میں Regime change دنیا کے لئے Hell بن گیا ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ امریکی میڈیا میں ان ناکامیوں پر کوئی بات نہیں ہوتی ہے۔ صرف داعش دہشت گروپ کی بات ہوتی ہے حالانکہ داعش کو امریکہ کی ان ناکامیوں نے جنم دیا ہے۔ اس کے پریس ریلیز سناۓ جاتے ہیں۔ اور یہ گفتگو بھی امریکی میڈیا میں اس طرح ہوتی ہے کہ جیسے اس کی پبلسٹی کی جا رہی ہے۔ امریکی میڈیا میں کسی پنڈت نے یہ سوال نہیں کیے ہیں کہ داعش کو کس نےایجاد کیا ہے؟ کون اسے فنڈ فراہم کر رہا ہے؟ انہیں یہ معلوم ہے کہ داعش میں 30 ہزار تربیت یافتہ عسکری ہیں۔ لیکن انہیں اس کا علم نہیں ہے کہ یہ تربیت کس نے اور کہاں دی تھی؟ جب تک ان سوالوں کے جواب نہیں دئیے جائیں گے۔ اس وقت تک یہ ہی سمجھا جاۓ گا کہ دہشت گردی کو دنیا میں تبدیلیوں کے مقاصد میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور ایسی دہشت گرد تنظیموں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
     صدر بش کی انتظامیہ میں افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ پاکستان پہنچ گئی تھی۔ اس جنگ سے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو پاکستان میں فروغ ملا تھا۔ پاکستان ایک لبرل اور ماڈریٹ ملک تھا۔ اس پیمانے پر مذہبی انتہا پسندی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ صدر بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے تھی۔ یا یہ جنگ لبرل اور ماڈریٹ معاشروں کو تباہ کرنے کے لئے ڈیزائن کی گئی تھی۔ اور اب صدر اوبامہ کی انتظامیہ میں شام کی خانہ جنگی میں دہشت گردی ترکی پہنچ گئی ہے۔ ترکی میں بم پھٹ رہے ہیں۔ لاشیں سڑکوں پر بکھری ہوتی ہیں۔ شہریوں کا امن ختم ہو گیا ہے۔ شام میں Regime change دہشت گردی ترکی میں اسلامی انتہا پسندی بن گئی ہے۔ ترکی ایک سیکولر ملک تھا۔ لبرل جمہوریت ترکی کے سیاسی نظام کا دل تھا۔ اور یہ کمال اتاترک کا جدید ترکی تھا۔ اس نظام میں ترکی کو مستحکم ہونے میں تقریباً 80 برس لگے تھے۔ ترکی میں مذہبی انتہا پسندوں کی دہشت گردی دیکھ کر کمال اتاترک اپنی قبر میں تڑپ جاتے ہوں گے۔ اور انہیں بھی امریکہ کی عراق اور شام پالیسی پر غصہ آ رہا ہو گا۔ جو ترکی کے ہمسایہ ہیں۔  
     صدر اوبامہ کی شام میں Red Line کی خلاف ورزی ہونے پر کاروائی نہ کرنے کی پالیسی غلط نہیں تھی۔ بلکہ شام کے بارے میں ساری پالیسی غلط  تھی۔ آخر مصر میں اخوان المسلمون  کو اقتدار سے کیوں ہٹایا گیا تھا؟ اور پھر ان ہی لوگوں کو شام میں اسد حکومت کی ماڈریٹ اپوزیشن کا سارٹیفیکٹ دے کر ان کی دہشت گردی میں مدد کی جا رہی تھی۔ ان میں انتہائی خوفناک اور ظالم سلا فسٹ اور وہابی بھی شامل تھے۔ مصر میں یہ لوگ عیسائوں اور اخوان حکومت کے مخالفین پر تشدد کر رہے تھے۔ اور ان کی انتہا پسندی بڑھتی جا رہی تھی۔ مصر خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اور اس خوف سے مصر میں فوجی آمریت کی بحالی قبول کی تھی۔ لیکن پھر دوسری طرف شام میں ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے ایک خونی خانہ جنگی کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ دنیا کے لئے یہ پالیسی ہے جو انتہا پسندی پھیلا رہی ہے۔ اور اس نے داعش کو سنہری موقعہ فراہم کیے ہیں۔ یہ جنگیں نوجوانوں کو Attract  کر رہی ہیں۔ اور انہیں دہشت گرد بنا رہی ہیں۔              






Monday, December 19, 2016

How Will We See President Obama’s Legacy Without Dr. Martin Luther King Jr's Concept Of Non-Violence?

How Will We See President Obama’s Legacy Without Dr. Martin Luther King Jr's Concept Of Non-Violence?

مجیب خان

President Obama

African icon Nelson Mandela and Libya's Muammar Gaddafi

Members of The African Union
Children killed in violence in Syria 

        امریکہ کے 44 ویں صدر اوبامہ کا دور اقتدار اب تاریخ بننے جا رہا ہے۔ امریکہ کی دو سو چالیس سال کی تاریخ میں صدر اوبامہ پہلے بلیک  صدر تھے۔ اور اب دیکھا یہ جاۓ گا کہ صدر اوبامہ کی ایک بلیک صدر کی حیثیت سے Legacy امریکہ کے 43 صدروں سے کس طرح مختلف تھی؟ امریکی عوام کی ایک بھاری اکثریت نے صرف اس لئے دو مرتبہ صدر اوبامہ کو  منتخب کیا تھا کہ وہ صدر اوبامہ کی Legacy امریکہ کے دوسرے صدروں سے مختلف  دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن صدر اوبامہ کی صدارت کے آٹھ سال کے اختتام پر جو انتخابی نتائج سامنے آۓ ہیں۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی عوام صدر اوبامہ سے سخت مایوس ہوۓ ہیں۔ اور ان میں امریکہ کے بلیک بھی شامل ہیں۔ صدر اوبامہ نے یہ ثابت نہیں کیا ہے کہ وہ امریکہ کے پہلے بلیک صدر تھے۔ صدر اوبامہ نے Dr. Martin Luther King کو خراج تحسین پیش کرتے ہوۓ کہا تھا کہ" آج وہ جس مقام پر ہیں۔ ڈاکٹر مارٹن لو تھر کنگ کی وجہ سے انہیں یہ مقام حاصل ہوا ہے۔" ہر سال 15 جنوری کو Martin Luther King Day منایا جاتا ہے۔ انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ تقریریں ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر مارٹن لو تھر کنگ کے فلسفہ Non Violence اور Civil Right تحریک پر باتیں ہو تی ہیں۔ لیکن مایوسی اس پر ہے کہ صدر اوبامہ پہلے بلیک صدر تھے۔ لیکن صدر اوبامہ نے ڈاکٹر مارٹن لو تھر کنگ کے فلسفہ Non-violence کو ایک ایسی دنیا میں جہاں ہر طرف violence تھا، اپنی خارجہ پالیسی کی Doctrine نہیں بنایا تھا۔ صدر اوبامہ عرب دنیا کے سیاسی اسٹیج پر ڈاکٹر مارٹن لو تھر کنگ کی civil right تحریک کو متتعارف کرا سکتے تھے۔ اور پھر اس تحریک کے ذریعہ متعلق العنان حکومتوں سے ان کے عوام کے civil right تسلیم کرانے کے لئے دباؤ بڑھاتے۔
  
Dr. King believed that “the age-old tradition of hating one’s opponents was not only immoral, but bad strategy which perpetuated the cycles of revenge and retaliation only non-violence, had the power to break the cycle of retributive violence 
and create lasting peace through reconciliation.”

Dr. King said, “International disputes will be 
 resolved by peaceful conflict resolution and reconciliation of adversaries, instead of military power. Love and trust will triumph over fear and hatred. Peace with justice will prevail over war and military conflict.”

On Another occasion, Dr. King said, “Triple evils of Poverty, Racism and Militarism are forms of violence that exist in a vicious cycle, they are interrelated.”

     ڈاکٹر مارٹن لو تھر کنگ کے یہ ارشادات صدر اوبامہ کی خارجہ پالیسی کی Doctrine ہونا چاہیے تھے۔ اور مشرق وسطی میں violence کو ہر صورت میں discourage کیا جاتا۔ عرب دنیا میں civil right تحریکوں میں Non-violence کی ترغیب دی جاتی۔ شام میں civil right تحریک اگر non-violence ہوتی تو اسے کامیاب بنانے میں کبھی چھ سال نہیں لگتے۔ بلکہ انتہائی مختصر عرصہ میں سب ضرور کامیاب ہو کر اس تحریک سے نکل آتے۔ لیکن civil right تحریک کو خونی بنانے سے کسی کو کچھ نہیں ملا ہے۔ امریکہ کی جنگوں میں ناکامیوں میں یہ ایک نیا اضافہ  ہوا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ 7 سال سے terrorists کے خلاف جنگ لڑ رہی تھی۔ لیکن شام میں 6 سال سے حکومت کے خلاف انتہائی violent elements کی پشت پنا ہی کر رہی تھی۔ انہیں violence کے لئے جتنے بھی ہتھیا ر ہو سکتے تھے وہ سب دے دئیے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت کے خلاف تحریک انسانوں کے خون میں ڈوب گئی تھی۔  ڈاکٹر کنگ بہت دور اندیش اور ذہن تھے۔ اس لئے انہوں نے civil right تحریک کو non violence رکھا تھا۔
     امریکہ کا یہ کردار دنیا کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اسرائیل میں شہریوں کے خلاف فلسطینیوں کے violence کی امریکہ نے ہمیشہ مخالفت کی تھی۔ لیکن شام میں شہریوں کے خلاف violence کی امریکہ نے کیسے حمایت کی تھی؟ اس violence کے ذریعہ پانچ سال میں شام کو کھنڈرات بنا دیا ہے۔ لیکن violent elements کی حمایت ترک نہیں کی تھی۔ صدر اوبامہ نے بش انتظامیہ کی اس پالیسی پر شدید تنقید کی تھی کہ اسے افغان جنگ پر توجہ دینا چاہیے تھی۔ اور اسے عراق  کے خلاف جنگ کا نیا محاذ کبھی نہیں کھولنا چاہیے تھا۔ صدر اوبامہ کو بھی افغانستان اور عراق اور کو استحکام دینے پر توجہ دینا چاہیے تھا۔ لیکن صدر اوبامہ نے کیا سوچ کر شام اور لیبیا کو عدم استحکام کرنے کی پالیسی اختیار کی تھی۔ بلاشبہ صدر اوبامہ اچھے ارادوں کے ساتھ امریکہ کے صدر منتخب ہوۓ تھے۔ لیکن پھر صدر اوبامہ شاید یہ بھول گیے تھے کہ وہ امریکہ کے پہلے بلیک صدر ہیں۔ اور ان کی Legacy امریکہ کے 43 صدروں سے مختلف ہونا چاہیے تھی۔ اور اس مقصد میں صدر اوبامہ کو ڈاکٹر مارٹن لو تھر کنگ کے ارشادات سے رہنمائی لینا چاہیے تھی۔
     اسرائیل دراصل یورپی Race کے یہودیوں کی ریاست ہے۔ اور اس لئے امریکہ اور یورپ اسرائیل کی سلامتی اور دفاع کی 100 فیصد ضمانت دیتے ہیں۔ اسرائیلی حکومت پچاس سال سے جس طرح فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بید خل کر رہی ہے اور اس کی جگہ یورپ سے آنے والے یہودیوں کے لئے نئی بستیاں تعمیر کر رہی ہے۔ اگر صدر پو تن یوکرین میں مقامی لوگوں کو ان کے گھروں سے بید خل کر کے وہاں روسیوں کو آباد کرنے کے لئے نئی بستیاں تعمیر کرنا شروع کر دیں تو امریکہ اور یورپ میں جیسے قیامت آ جاۓ گی۔ صدر پو تن کی گردن میں ہر طرح کی بندشوں کے پھند ے پڑ جائیں گے۔ اسرائیل میں یورپ سے آنے والے یہودیوں کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ فرانس میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد جس میں یہودیوں کی عبادت گاہوں پر حملہ بھی تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو نے فرانس کے یہودیوں سے اسرائیل میں آباد ہونے کی اپیل کی تھی۔ لیکن اسرائیل کے کسی وزیر اعظم نے ایسی اپیل افریقہ میں آباد بلیک یہودیوں سے کبھی نہیں کی تھی۔ جہاں خوفناک خانہ جنگیاں ہو رہی تھیں۔ بعض مقامات پر قحط پڑ رہا تھا۔ افریقہ میں بلیک یہودی انتہائی غریب تھے۔ ایتھوپیا اور بعض دوسرے افریقی ملکوں سے جو بلیک یہودی اسرائیل آ گیے تھے۔ پہلے انہیں اسرائیل سے نکالنے کا کہا جا رہا تھا۔ یا پھر انہیں دوسرے درجہ کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل کی سیاسی جماعتوں میں افریقی یہودی نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ میں، حکومت کے اہم اداروں میں بھی افریقی یہودی نظر نہیں آتے ہیں۔ فلسطینیوں کے خلاف جو اسرائیلی فوجی کاروائیاں کرتے ہیں وہ بھی یورپی Race کے نظر آ تے ہیں۔ اسرائیلی فوج میں شاید افریقی یہودیوں کو بھرتی نہیں کیا جاتا ہے۔ صدر اوبامہ نے اسرائیل کے دورے کیے ہیں۔ لیکن صدر اوبامہ افریقی یہودیوں سے کبھی نہیں ملے تھے۔ یہودی ایران میں بھی رہتے ہیں۔ اور یہ ایرانی یہودی ہیں۔ یہودی جنوبی افریقہ میں بھی رہتے ہیں اور جنوبی افریقہ کے شہری ہیں۔ اسرائیل کے مقابلے میں جنوبی افریقہ زیادہ بڑا جمہوری ملک ہے۔ جہاں عیسائی، مسلمان اور یہودی ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اور یہ حکومت میں بھی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں بھی ہیں۔ پارلیمنٹ میں بھی ہیں۔ پھر یہودی مراکش میں بھی ہیں۔ تیونس میں بھی یہودی ہیں۔ اور دوسرے افریقی ملکوں میں بھی یہودی آباد ہیں۔ لیکن امریکہ اور یورپ میں صرف اسرائیل میں جو یہودی آباد ہیں اور جو ان کی نسل ہیں صرف ان کی فلاح اور بہبود کا خیال رکھا جاتا ہے۔
     لیبیا کے صدر معمر قدافی سے امریکہ اور یورپ کے لیڈروں کی نفرت اور حقارت سمجھ میں نہیں آ ئی تھی۔ انہیں ایک ایسے لیڈر سے نفرت تھی۔ جو افریقہ کے عیسائی ملکوں اور ان کے عوام کی ترقی خوشحالی تعلیم پر اپنے ملک کا پیٹرو ڈالر خرچ کرتا تھا۔ امریکہ اور یورپ کو ان اسلامسٹ سے بھی نفرت ہے جو بے گناہ لوگوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ آخر یہ دنیا کے لوگوں کی زندگیاں miserable کیوں بنا رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے صدرThabo Mbeki عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں اپنی حکومت کی انٹیلی جنس رپورٹ لے کر صدر بش کے پاس آۓ تھے۔ اور انہیں بتایا تھا کہ عراق میں مہلک ہتھیار نہیں تھے۔ صدام حسین نے انہیں بہت پہلے تباہ کر دیا تھا۔ جنوبی افریقہ کی انٹیلی جنس زیادہ credible  تھی۔ لیکن کیونکہ وہ ایک افریقی ملک کے رہنما تھے۔ بش انتظامیہ نے ان کی انٹیلی جنس رپورٹ کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ لیبیا میں صدر معمر قدافی کو اقتدار سے ہٹانے کے بارے میں صدر اوبامہ نے فرانس اور برطانیہ کے رہنماؤں سے صلاح و مشورے کیے تھے۔ نیٹو کے یورپی ملکوں نے اس کی منصوبہ بندی کی تھی۔ لیکن صدر اوبامہ نے افریقی ملکوں کے رہنماؤں سے صدر قدافی کو اقتدار سے ہٹانے کے بارے میں کوئی راۓ نہیں لی تھی۔ ان سے پوچھا تک نہیں تھا۔ انہیں کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ حالانکہ افریقی ملکوں کی بھی ایک تنظیم تھی۔ لیبیا بھی اس کا ایک سرگرم رکن تھا۔ صدر معمر قدافی ایک مسلم رہنما افریقہ کے غریب عیسائی ملکوں میں کھربوں ڈالر انویسٹ کر رہے تھے۔ افریقی ملکوں میں انفراسیٹکچر تعمیر کرنے میں صدر قدافی مدد کر رہے تھے۔ ہر سال تین چار افریقی نوجوانوں کو بیرون ملک اعلی تعلیم کے تمام اخراجات لیبیا کی حکومت دیتی تھی۔ لیبیا کے ہمساۓ میں چڈ، مالی اور دوسرے افریقی ملکوں کے ہزاروں غریب خاندانوں کو لیبیا کی آئل ریفائنری پال رہی تھی۔ ان ملکوں سے لوگ ان ریفائنری میں کام کرنے آتے تھے۔ امریکہ نے ایک شخص کو اقتدار سے ہٹا کر ہزاروں خاندانوں کو فاقہ کشی کی طرف دھکیل دیا تھا۔ صدر اوبامہ کو قدافی کے ماضی کو فراموش کر کے افریقہ کی ترقی میں قدافی کی حمایت کرنا چاہیے تھی۔ ان سے تعاون کرتے اور لیبیا کا پیٹرو ڈالر افریقہ میں انویسٹ کرنے میں مدد کرتے۔ لیکن پھر Goldman Sachs کا کیا ہوتا؟ جو لیبیا کے 60 بلین ڈالر ہضم کر چکی ہے۔ اور لیبیا کی نئی حکومت سے کہا ہے کہ خسارہ ہو گیا تھا۔                         


          

Wednesday, December 14, 2016

GCC Ruler’s Hijrat From Washington To London

GCC Ruler’s Hijrat From Washington To London
The Law of Humanity Is The Base Religion Of Islam, But The Problem Is There Is No Rule of Law

مجیب خان
GCC member states and the United Kingdom's Prime Minister Theresa May

President Obama and King Salman attended The Summit of GCC

Britain's Foreign Secretary Boris Johnson, Saudi Arabia puppeteering in proxy wars across The Middle East, and abusing Islam

      برطانیہ کے سیکرٹیری خارجہ بورس جانسن  نے مشرق وسطی کو جنگوں کے حالات میں دیکھ کر کہا ہے کہ "سعودی عرب نے مشرق وسطی میں پراکسی جنگوں کو کٹھ پتلیوں کا تماشہ بنا لیا ہے۔ اور یہ اسلام سے فائدے اٹھا رہا ہے۔ وہاں یہ سیاستدان ہیں جو مذہب کی کھینچا تانی کر رہے ہیں۔ اور اسے استعمال کر رہے۔ اور ایک ہی مذہب کے فرقوں میں اپنے سیاسی مقاصد میں محاذ رائی کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے تم کو سعودی، ایران مل گیے ہیں۔ ہر کوئی اس میں آ رہا ہے۔ اور کٹھ پتلیاں بن کر پراکسی جنگیں کر رہا ہے۔" سیکرٹیری خارجہ بورس جانسن نے یہ 60 ملین کی بات کی ہے۔ جو اسلامی ملکوں کے کسی وزیر خارجہ کو کرنا چاہیے تھی۔ لیکن اللہ نے  یہ باتیں شاید برطانیہ کے سیکرٹیری خارجہ بورس جانسن کے منہ سے کہلوائی ہیں۔ ہمارے خیال میں انہیں اسلامی ملکوں کی تنظیم کا سیکرٹیری جنرل ہونا چاہیے تھا۔ سیکرٹیری جانسن کے اس بیان پر سعودی حکومت نے برطانیہ سے احتجاج کیا ہے۔ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ " یہ بورس جانسن کی ذاتی راۓ ہے۔ اور حکومت برطانیہ اس سے اتفاق نہیں کرتی ہے۔ وزیر اعظم Theresa May  اس وقت ابو دہابی میں GCC - برطانیہ کانفرنس میں شرکت کرنے آئی تھیں۔ وزیر اعظم May نے جی سی سی ملکوں کے حکمرانوں سے کہا کہ "میں آپ کو یہ یقین دلانا چاہتی ہوں کہ میں واضح طور پر ایران سے خلیج کو اور مشرق وسطی میں جو خطرہ ہے انہیں دیکھ رہی ہوں۔" جی سی سی – برطانیہ کانفرنس  کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جی سی سی ممالک اور برطانیہ مل کر ایران کی عدم استحکام کرنے کی سرگرمیوں کا جواب دیں گے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جی سی سی ملکوں اور برطانیہ نے اسٹرٹیجک پارٹنر شپ پر اتفاق کیا ہے۔ جس کے تحت سیاسی، دفاعی، سلامتی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جاۓ گا۔ وزیر اعظم May نے جی سی سی ملکوں کے حکمرانوں سے کہا کہ جی سی سی ملکوں کی سلامتی برطانیہ کی سلامتی ہے۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ڈ یوڈ کمیرن نے پاکستان سے بھی ایسے ہی لفظوں میں کہا تھا کہ پاکستان پر حملہ برطانیہ پر حملہ سمجھا جاۓ گا۔ لیکن بھارت تقریباً چار ماہ سے پاکستان کی سرحدوں پر حملہ کر رہا ہے۔ جس میں سینکڑوں بے گناہ شہری اور پاکستانی فوجی شہید ہو گیے ہیں۔ لیکن برطانیہ نے ابھی تک پاکستان کی ‎سرحدوں پر بھارت کے ان حملوں کو برطانیہ پر حملہ نہیں سمجھا ہے۔
     مشرق وسطی میں ہر طرف عدم استحکام کی جنگوں کے شعلوں میں گھر جانے کے بعد خلیج کے حکمرانوں کو اب ہوش آیا ہے کہ ان کی سلامتی خطرے میں آ گئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جنہوں نے مشرق وسطی کو عدم استحکام کرنے کی جنگیں دی ہیں۔ وہ ہی خلیج کے حکمرانوں کو ان کی سلامتی کی یقین دہانیاں بھی کرا رہے ہیں۔ صدر جارج بش چلے گیے۔ صدر اوبامہ چند ہفتوں میں چلے جائیں گے۔ وزیر اعظم ٹونی بلیر چلے گیے ہیں۔ اور ڈ یوڈ کمیرن بھی چلے گیے ہیں۔ لیکن مشرق وسطی کے ملک کہیں نہیں گیے ہیں۔ عراق ابھی تک سعودی عرب اور کویت کے ہمساۓ میں موجود ہے۔ ایران بھی سنی عربوں کا ہمسایہ ہے۔ شام تباہ ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے کھنڈرات عراق لبنان اردن ترکی سعودی عرب کے ہمسایہ رہیں گے۔ یہ ہزاروں سال سے یہاں ہیں اور ہزاروں سال یہیں رہیں گے۔ خلیج کے سنی حکمرانوں کو اپنے آپ سوال کرنا چاہیے کہ اتنے سارے اسلامی ملکوں کے درمیان انہیں سلامتی اور عدم استحکام کے خطروں کا سامنا کیسے ہوا ہے؟ اور یہ حالات پیدا کرنے میں ان کا اپنا کیا کردار ہے؟
     صدر اوبامہ ہتھیاروں کی کمپنیوں کے مشرق وسطی کے لئے سیل مین تھے۔ اور وہ ہتھیار فروخت کرنے کے لئے جنگیں مارکیٹنگ کرتے تھے۔ اس لئے صدر اوبامہ کے اقتدار کا ایک بڑا حصہ مشرق وسطی میں جنگیں فروغ دینے میں گزرا ہے۔ امن کے لئے کوئی مثبت کام نہیں ہوۓ ہیں۔ لیکن خلیج کے حکمرانوں کا ہتھیاروں پر کھربوں ڈالر خرچ کرنے میں کیا مفاد تھا؟ اب نئی امریکی انتظامیہ کا شاید مشرق وسطی میں جنگوں میں مفاد ہے اور نہ ہی ہتھیار فروخت کرنے میں کوئی دلچسپی ہے۔ لہذا اب برطانیہ کی وزیر اعظم Theresa May جی سی سی ملکوں کے ساتھ برطانیہ کے لئے 10 بلین ڈالر کی تجارت کا منصوبہ لے کر ابو دہابی آئی تھیں۔ برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو رہا ہے۔ برطانیہ اپنی تجارت کے لئے نئی مارکیٹیں ڈھونڈ رہا ہے۔ وزیر اعظم May گزشتہ ماہ اس مقصد سے بھارت آئی تھیں۔ اور انہوں نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات فروغ دینے کے لئے کئی معاہدے کیے تھے۔ لیکن خلیج کے ملکوں کے ساتھ تمام تعلقات یکطرفہ مفاد میں ثابت ہو رہے ہیں۔ ان کے ساتھ تجارت بھی یکطرفہ مفاد میں ہوتی ہے۔ مشرق وسطی میں جنگیں بھی یکطرفہ مفاد ہوتی ہیں۔ ہتھیاروں کی فروخت بھی یکطرفہ مفاد میں ہوتی ہے۔ انہیں عدم استحکام بھی یکطرفہ مفاد میں کیا جاتا ہے۔
     برطانیہ کے سیکرٹیری خارجہ بورس جانسن نے یہ بالکل درست کہا ہے کہ "سعودی عرب پراکسی جنگوں کو کٹھ پتلیوں کا تماشہ بنا رہا ہے۔ اور اسلام سے فائدے اٹھا رہا ہے۔" اس وقت مشرق وسطی میں سعودی عرب ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا ہے۔ اور عرب دنیا کو عدم استحکام کی کھائیوں کی طرف لے جا رہا ہے۔ سعودی عرب کے واچ میں عرب ملک تباہ ہو رہے ہیں۔ قدیم اسلامی تاریخ کے عرب ملک کھنڈرات بن گیے ہیں۔ لاکھوں عربوں کے گھر اجڑ گیے ہیں۔ لاکھوں بے گناہ عرب ہلاک ہو گیے ہیں۔ عرب بچوں کا مستقبل تاریک ہو گیا ہے۔ عراق شام لیبیا یمن سے لاکھوں خاندان امن کی تلاش میں در بدر گھوم رہے ہیں۔ ایسے کتنے خاندان ہیں جنہوں نے صرف امن کے لئے اسلام ترک کر کے عیسائی مذہب قبول کر لیا ہے۔ اور یورپ میں پناہ لے لی ہے۔ اور یہ شیعہ ایران سے سنی عرب حکمرانوں کو خوفزدہ کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں شاید معلوم نہیں ہے کہ ان کے سنی عوام سنی حکمرانوں کے سخت خلاف ہیں۔ لیکن ان کی توجہ ایران پر ہے کہ اس خطہ میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔
     سعودی عرب ایران کے بارے میں صرف غلط فہیمی میں مبتلا ہے۔ ایران کو اگر مشرق وسطی میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا شوق ہوتا تو یہ بہت پہلے امریکہ سے ساز باز کر چکا ہوتا۔ اور شاہ کے دور میں ایران کا خلیج میں جو مقام تھا۔ وہ اسے مل  گیا ہوتا۔ نوے کی دہائی میں محمد خاتمی جب ایران کے صدر تھے۔ کلنٹن انتظامیہ نے ایران کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی بڑی کوشش کی تھی۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ میڈ یلین البرائٹ نے سی آئی اے کا محمد مصدق کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے پر ایرانیوں سے معافی بھی مانگی تھی۔ اور میڈ یلین البرائٹ تہران بھی گئی تھیں۔ لیکن ایران نے سیکرٹیری آف اسٹیٹ البرائٹ سے عرب سنی حکمرانوں کے خلاف کوئی ساز باز نہیں کی تھی۔ انہوں نے صدام حسین کو اقتدار سے ہٹا کر عراق میں شیعاؤں کی حکومت قائم کرنے کی سازش نہیں کی تھی۔ صدام حسین نے ایران سے نو سال جنگ لڑی تھی۔ ایک لاکھ ایرانی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ عرب سنی حکمرانوں نے اس جنگ میں صدام حسین کی مدد کی تھی۔ لیکن ان تمام حقائق کے باوجود ایران نے عرب سنی حکمرانوں سے انتقام لینے کی سیاست نہیں کی تھی۔ ایرانی ملاؤں کو امریکہ کی دشمنی پسند تھی۔ لیکن عرب سنی حکومتوں سے محاذ رائی قبول نہیں تھی۔ ایران کے خلاف انہوں نے اقتصادی بندشیں بھی برداشت کی تھیں۔ لیکن عرب سنی حکمرانوں کی سیاست کے خلاف امریکہ کے ساتھ مل کر سازش نہیں کی تھی۔ اگر ایران چاہتا تو یہ کر سکتا تھا۔ یہ ان کے مسائل کا ایک آسان حل تھا۔ امریکہ انہیں سب کچھ دینے کے لئے تیار تھا۔ قوموں کے کردار اور حقائق سے تاریخ بنتی ہے۔
     یہ GCC ملکوں کے عرب سنی حکمران ہیں۔ جن کی تاریخ عرب سنی حکمرانوں کے خلاف سازشوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ GCC ملکوں کے سنی حکمران ہیں جنہوں نے صدام حسین کی سنی حکومت ختم کرانے میں امریکہ اور برطانیہ کی مدد کی تھی۔ اور پھر عراق کو شیعاؤں کا عراق بنانے میں امریکہ اور برطانیہ سے اتفاق کیا تھا۔ اور اب ایران کو سنی عربوں کے معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام دیتے ہیں۔ یہ عرب سنی حکمرانوں کی عرب لیگ تھی۔ جس نے لیبیا میں سنی معمر قدافی کے خلاف قرارداد منظور کی تھی۔ اور امریکہ برطانیہ اور فرانس سے قدافی حکومت کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ عرب سنی حکمران تھے جنہوں نے اپنے بچوں کو جہادی بننے کے لئے افغانستان میں سی آئی اے کے تربیتی کیمپوں میں “Admit” کرایا تھا۔ اور انہیں دہشت گردی کی تعلیم دلائی تھی۔ اور جب ان سنی بچوں نے جہادی بننے کی ڈگریاں لے لیں۔ تو عرب سنی حکمران ان کے خلاف امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ میں اتحادی بن گیے تھے۔ ان سنی عرب حکمرانوں نے اپنے سنی بچوں کو یہ دنیا دی ہے۔ GCC ملکوں کے عرب سنی حکمرانوں کو شام کے خلاف ایک نامعقول جنگ میں کیا ملا ہے؟ انسانیت جب شام کی تباہی اور بے گناہ لوگوں کی بربادی دیکھتی ہے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ ان عرب سنی حکمرانوں نے کھربوں ڈالر امریکہ کے ساتھ مل کر صرف  لوگوں کی زندگیاں تباہ و برباد کرنے میں انویسٹ کیے ہیں۔