Tuesday, March 29, 2016

Now The War Against Terror Has Become A Global War

Terror And The War Of Destruction

Now The War Against Terror Has Become A Global War

مجیب خان

Palestinian Liberation Organization And The IRA Struggle For Independence
Terror In Paris
War In Yemen
          اس بحث کا آغاز 16 سال قبل امریکہ کے 43 ویں صدر جارج بش کے دور میں نائین ایلون کے نتیجے میں ہوا تھا۔ کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کیسے لڑی جاۓ۔ اور اسی بحث میں امریکہ کے 44 ویں صدر براک اوبامہ کا دور اقتدار بھی اب اختتام پر پہنچ رہا ہے۔ اور امریکہ کے 45 ویں صدر کے اقتدار میں بھی یہ بحث جاری رہے گی۔ ری پبلیکن پارٹی جس کے دور میں دہشت گردی کی جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ یہ بحث ایک بار پھر صدارتی انتخاب میں ری پبلیکن پارٹی کے امیدواروں کا موضوع بن گیا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے داعش سے لڑنے کی اپنی حکمت عملی بیان کرتے ہوۓ کہا ہے کہ وہ اسے فضائی حملے کر کے بھون دیں گے۔ لیکن زمینی اقدام اس خطہ میں امریکہ کے اتحادیوں کو کرنا ہوں گے۔ اس کے ساتھ ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگانے کا کہا ہے۔ لیکن انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی ہے کہ اس خطہ میں امریکہ کے جو اتحادی داعش کے حلاف زمینی کاروائیوں میں حصہ لیں گے۔ کیا ان کے شہریوں پر بھی امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی ہو گی۔ ری پبلیکن پارٹی کے دوسرے صدارتی امیدوار Ted Cruz نے اپنی حکمت عملی بیان کرتے ہوۓ کہا کہ وہ اسلامی دہشت گردوں کو چن چن کر مار دیں گے۔ ان کے خلاف Carpet bombing کرنے کا حکم دیں گے۔ اور امریکہ میں مسلم آبادی کے محلوں کی نگرانی اور گشت کرنے کے لئے وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خصوصی اختیارات دیں گے۔ بلجیم میں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد امریکی میڈیا میں پنڈتوں کی بحث بھی اسی موضوع پر ہو رہی تھی کہ دہشت گردوں سے جنگ کس طرح لڑی جاۓ۔ اور انہیں کیسے شکست دی جاۓ؟ دہشت گردی شاید دنیا کے لئے اتنا بڑا مسئلہ نہیں بنتا کہ جتنا بڑا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایجنڈا دنیا کے لئے ایک مسئلہ بن گیا ہے۔
        لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ امریکی میڈیا میں پنڈت، صدارتی امیدوار، کانگرس میں عوام کے نمائندے سب دہشت گردوں سے جنگ اور انہیں شکست دینے کی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن کوئی یہ سوال نہیں کر رہا ہے کہ 16 سال ہو گیے ہیں اور دہشت گردوں کو ابھی تک شکست کیوں نہیں ہو رہی ہے؟ کیا حکومت کی پالیسیاں دہشت گردوں کو ختم نہیں پیدا کر رہی ہیں؟ نائن ایلون کے بعد بش انتظامیہ نے افغانستان میں القاعدہ کے دہشت گردوں کی جنت ختم کرنے کے لئے اس پر حملہ کیا تھا۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ نے شام میں حکومت تبدیل کرنے کی خانہ جنگی کو دہشت گردوں کے لئے جنت بنا دیا ہے۔ اس وقت افغان جنگ کے دوران دنیا بھر میں جتنے دہشت گرد پکڑے گیے تھے۔ شام کی جنگ کے دوران اس سے تین گنا زیادہ دہشت گردوں کو دنیا میں پھیلنے کا موقعہ فراہم کیا گیا ہے۔ افغانستان میں دہشت گردوں کی جنت تباہ کرنے میں ہزاروں افغانوں کو جو طالبان تھے۔ مار دیا تھا۔ القاعدہ کے سینکڑوں لوگ مار دئیے تھے۔ اس مہم میں امریکہ کے تقریباً پانچ ہزار فوجی مارے گیے تھے۔ ایک ہزار کے قریب نیٹو ملکوں کے فوجی مارے گیے تھے۔ جو زخمی ہوۓ ان کی تعداد علیحدہ ہزاروں میں تھی۔ پھر بش انتظامیہ نے عراق پر حملہ کیا تھا کہ صدام حسین دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کر رہے تھے۔ امریکہ کے اس حملے میں تقریباً ایک لاکھ  عراقی شہری مارے گیے تھے۔ دو لاکھ عراقی بے گھر ہو گیے تھے۔ آٹھ ہزار امریکی فوجی عراق میں مارے گیے تھے۔ 30 ہزار امریکی فوجی ساری زندگی کے لئے زخمی ہو گیے ہیں۔ جبکہ برطانیہ کے تقریباً  ایک ہزار فوجی عراق میں مارے گیے تھے۔ عراق جنگ کے دوران بش انتظامیہ نے صومالیہ اور یمن میں بھی القاعدہ کے خلاف فوجی محاذ کھول دئیے تھے۔ یہاں بھی کئی ہزار القاعدہ کے لوگوں کو مار دیا تھا۔
        بش انتظامیہ میں دہشت گردی پھر ان ملکوں میں پہنچ گئی تھی۔ جو اس جنگ میں امریکہ کے قریبی اتحادی تھے۔ پاکستان ان ملکوں میں سر فہرست تھا۔ انڈونیشیا اور ملائشیا میں دہشت گردوں کے خود کش حملوں میں سینکڑوں لوگ مارے گیے تھے۔ اردن مصر مراکش اور ایران میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوۓ تھے جس میں بے شمار لوگ مارے گیے تھے۔ صدر بش نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو ایک عالمی جنگ میں تبدیل کر دیا تھا۔ اور اس جنگ کی کمانڈ صدر اوبامہ کے سپرد کر کے چلے گۓ تھے۔  صدر اوبامہ یہ جنگ آ گے لے گیے تھے۔ افغانستان اور عراق میں پہلے فوجوں میں کمی کر کے اور پھر اضافہ کر کے بھی کوئی کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ تھک ہار کر صدر اوبامہ نے عراق جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور عراق سے تمام فوجیں واپس بلا لی تھیں۔ عراق میں دہشت گردی کو عراقی حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔ اسی طرح اوبامہ انتظامیہ نے افغانستان میں بھی جنگ ختم کر دی تھی۔ اور تمام فوجیں یہاں سے بھی واپس بلا لی تھیں۔ صرف دس ہزار فوجیں افغان فوج کو تربیت دینے لئے افغانستان میں رکھی تھیں۔ افغانستان میں طالبان کی دہشت گردی کا مسئلہ افغان اور پاکستان کے درمیان یہ کہہ کر چھوڑ دیا تھا کہ دونوں حکومتیں اسے حل کرنے میں تعاون کريں۔
        امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور تھا۔ اور اس کی ذمہ دار یاں بھی انتہائی سپر تھیں۔ لیکن جنگوں کے فیصلے کرنے میں امریکہ نے سب سے زیادہ غیر ذمہ دار ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں دہشت گردی ختم ہونے کے بجاۓ اور زیادہ پھیل گئی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے خلاف اور عراق میں صدام حسین کے خلاف فوجی کاروائیوں کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے خطرہ تھے۔ لیکن آج امریکہ کے یہ فیصلے ہیں جو اس کے اتحادیوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی جنوبی ایشیا، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ سے سفر کرتی اب یورپ میں نیٹو ملکوں میں پہنچ گئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اصل ایجنڈا کیا تھا؟
        امریکہ کو یہ با خوبی علم تھا کہ عرب دنیا وہابیوں سلا فسٹ القاعدہ النصرہ اور ایسی سینکڑوں تنظیموں اور اسلامی انتہا پسندوں سے بھری ہوئی تھی۔ ان حالات میں شام کی خانہ جنگی میں امریکہ کو ملوث ہونے کا مشورہ کس سیاسی مفکر نے دیا تھا۔ امریکہ نے افغانستان میں جہادیوں کو تربیت دینے کی اپنی  غلطی کا اعتراف بھی کیا تھا۔ لیکن پھر شام میں بھی امریکہ نے وہ ہی غلطی کی تھی جو افغانستان میں کی تھی۔ شام میں بھی جہادیوں کو تربیت دی جا رہی تھی اور انہیں اسلحہ بھی دیا جا رہا تھا۔ جب کوئی پہلی غلطی کے بعد دوسری مرتبہ پھر وہ ہی غلطی کرتا ہے تو اسے Idiot کہا جاتا ہے۔ لیکن امریکہ Idiot سپر پاور نہیں ہے۔ تاہم یہ کس ایجنڈے کے مطابق ہو رہا تھا؟ 16 سال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پہلا حصہ مکمل ہو گیا ہے۔ اور یہ اب ایک عالمی جنگ بن گئی ہے۔ ایشیا، افریقہ اور یورپ اس جنگ کے بڑے محاذ بن گیے ہیں۔ اور جب جنگ ہوتی ہے تو پھر لوگ بھی مرتے ہیں۔ جیسا کہ صدر جارج بش نے عراق میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر کہا تھا کہ "یہ جنگ ہے اور لوگ بھی جنگ میں مرتے ہیں۔"
        اس دہشت گردی کے پہلی اور دوسری عالمی جنگ کی طرح کے اسباب قطعی نہیں تھے۔ اس کے صرف سیاسی اسباب تھے۔ دہشت گردی کے خلاف مہم کو ایک نئی عالمی جنگ کا رنگ دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسے سیاسی لڑائی کی حدود میں رکھا جاتا۔ اور اس کے ساتھ ان سیاسی اسباب کا سد باب بھی کیا جاتا جو دہشت گردی کو مسلسل شہ دے رہے تھے۔ اس صورت میں دہشت گردی کو پھیلنے سے کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ اور جن میں دہشت گردی کے رجحان پیدا ہو رہے تھے۔ انہیں بھی Neutralize کرنے میں مدد ملتی۔ لیکن 16 سال سے امریکہ کی پالیسیاں دہشت گردی پھیلانے کے رجحانات کو فروغ دے رہی تھیں۔ اور یہ اس کا نتیجہ ہے جو مسلم نوجوان یورپ جیسے معاشرے میں پیدا ہوۓ تھے۔ اور اس معاشرے میں پلے بڑھے تھے۔ انہیں امریکہ کی ان پالیسیوں نے De-Neutralize  کر دیا ہے۔


  ?Why did Britain never declare war against the IRA 


        برطانیہ کو 70 اور 80 کے عرشوں میںIRA   {آئیریش ری پبلیکن آرمی} کی دہشت گردی کا سامنا تھا۔ IRA برطانیہ کے لئے ISIS تھی۔ IRA اپنی ریاست چاہتی تھی۔ لندن میں IRA کی دہشت گردی فرانس اور بلجیم میں ہونے والی دہشت گردی  سے زیادہ خوفناک ہوتی تھی۔ جولائی 1972 میں لندن میں Good Friday کا دہشت گردی کا واقعہ برطانیہ شاید کبھی نہیں بھولے گا۔ لندن IRA کے دہشت گردوں کے بموں سے ہل گیا تھا۔ 9 افراد ہلاک ہوۓ تھے۔ اور 130 سے زیادہ لوگ زخمی ہوۓ۔ جن میں ایک بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی۔ IRA نے وزیر اعظم ماگریٹ تھیچر کی رہائش گاہ پر بھی حملہ  کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن برطانیہ نے IRA کی دہشت گردی کو یہ نہیں کہا تھا کہ برطانیہ حالت جنگ میں تھا۔ برطانیہ نے IRA کی دہشت گردی کو جنگ نہیں بنایا تھا۔ IRA کے تربیتی کیمپوں پر برطانیہ نے بمباری نہیں کی تھی۔ برطانیہ نے پولیس اور انٹیلی جنس  کاروائیوں کے ذریعے IRA کی سرگرمیوں کو قابو کیا تھا۔ نوے کے عشرے میں صدر کلنٹن نے برطانوی حکومت اور IRA کے سیاسی ونگ کے درمیان مذاکرات کے لئے سینیٹر جارج میچل کو خصوصی نمائندہ نامزد کیا تھا۔ اور آخر میں سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کر لیا تھا۔  
        افغانستان، عراق، لیبیا، شام، یمن اور دوسرے تمام تنازعوں میں سیاسی ڈائیلاگ ہو سکتے تھے۔ اور سیاسی حل بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن سوال یہ تھا کہ عالمی جنگ پھر کس سے ہوتی؟ امریکہ کو ایک عالمی جنگ کی ضرورت تھی۔ اور دہشت گردی اب عالمی جنگ بن گئی ہے۔             

Saturday, March 26, 2016

President Obama’s Cuba Visit: The Success Of The Great Cuban Leader Fidel Castro

President Obama’s Cuba Visit: The Success Of The Great Cuban Leader Fidel Castro    


مجیب خان

Cuban Revolutionary Leader, Fidel Castro
Cuban President Raul Castro Welcomes President Obama

        یہ صرف 13 سال پہلے کی بات ہے کہ فیدل کا سترو شدید علیل ہو گیے تھے۔ جارج ڈبلیو بش امریکہ کے صدر تھے۔ فیدل کاسترو کی علالت کے بارے میں صدر بش کو جب بتایا گیا تو ان کا فوری رد عمل یہ تھا کہ خدا کاسترو کو جلد بلا لے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ہر مذہب میں ایسے نظریاتی مذہبی لوگ ہیں جو اپنے مخالفین کے بارے میں ہمیشہ برا سوچتے ہیں۔ اس پر میں نے یہ لکھا تھا کہ خدا کاسترو کو صحت یاب کرے اور کاسترو کو اتنی زندگی ابھی اور دے کہ وہ امریکہ کے پانچ چھ صدارتی انتخاب دیکھیں۔ صدر کاسترو صحت یاب ہو گیے تھے۔ اور اس کے بعد کاسترو نے تین صدارتی دیکھ لئے ہیں۔ اور اب چوتھا صدارتی انتخاب بھی دیکھ رہے ہیں۔ لیکن کاسترو کی زندگی میں یہ بڑا تاریخی واقعہ ہے۔ جو خدا نے انہیں دیکھنا نصیب کیا ہے کہ امریکہ کے 44 صدر براک اوبامہ کیوبا کا دورہ کر رہے ہیں۔ خدا نے یہ دن دیکھا نے کے لئے بھی کاسترو کو زندہ رکھا ہے۔ حالانکہ کاسترو کی زندگی کے خلاف سی آئی اے نے متعدد بار سازشیں کی تھیں۔ لیکن خدا نے سی آئی اے کی سازشوں سے بھی کاستروکو بچایا تھا۔ کیوبا تیسری دنیا کا پہلا کمیونسٹ ملک ہے۔ جہاں امریکہ کے صدر تین روزہ دورے پر آۓ ہیں۔ کیوبا میں فیدل کاسترو کی قیادت میں کمیونسٹ انقلاب کو تقریباً 57 برس ہو گیے ہیں۔ اور ہوانا میں ابھی تک کمیونسٹ حکومت ہے۔ امریکہ کے صدر اوبامہ کی ہوانا آمد کمیونسٹ انقلاب کی ایک عظیم فتح ہے۔ جس سے فیدل کاسترو کی شخصیت اور عظیم ہو گئی ہے۔
        عالمی سیاست میں بار ہا یہ ثابت ہو چکا ہے کہ تعلقات میں دوستی اور دشمنی ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتی ہے۔ اور مفادات بدلنے کے ساتھ دشمن اور دوست بھی بدل جاتے ہیں۔ صرف 13 سال پہلے امریکہ کے 43 صدر جارج بش فیدل کاسترو کے مرنے کی دعا کر رہے تھے۔ فیدل کاسترو کے کیوبا سے تعلقات کس طرح بحال کیے جائیں؟ ہر امریکی انتظامیہ کے سامنے یہ سوال ہوتا تھا۔ اور پھر یہ انتظار تھا کہ خدا فیدل کاسترو کو کب بلاتا ہے۔ لیکن خدا شاید اس انتظار میں تھا کہ امریکی صدر کیوبا کب جاتے ہیں۔ صدر اوبامہ 7 سال تک یہ انتظار کرتے رہے۔ انہیں اپنی Legacy میں کچھ اچھے عالمی کارنامہ بھی دکھانے تھے۔ صدر جارج بش کی طرح صدر اوبامہ کا بھی اقتدار میں سارا وقت دہشت گردوں سے لڑنے اور Regime change کی سیاست میں گزر گیا تھا۔ لہذا ایران کے ساتھ نیو کلیر پروگرام پر سمجھوتہ اور 88 برس میں کسی امریکی صدر کا کیوبا کا دورہ صدر اوبامہ کی Legacy میں کچھ روشنی لاۓ گا۔ افغانستان، عراق، القاعدہ صدر جارج بش کی Legacy تھے۔ جو صدر اوبامہ کو ورثہ میں ملے تھے۔ لیکن لیبیا، شام، مصر میں جمہوریت کی ناکامی، داعش کا عروج، دنیا میں دہشت گردی کا فروغ اب صدر اوبامہ کی Legacy ہوں گے۔
        امریکہ کے کیوبا کے ساتھ تعلقات کے تالے کھولتے ہوۓ صدر اوبامہ نے کیوبا کے لوگوں کو یہ یقین دلایا ہے کہ امریکہ کیوبا اور کسی دوسرے ملک کے مقدر کا فیصلہ نہیں کرے گا۔ صدر اوبامہ نے کہا "کیوبا ایک خود مختار ملک ہے۔ اور اس کا ایک عظیم وقار ہے۔ اور کیوبا کے مستقبل کا فیصلہ کوئی اور نہیں صرف کیوبا کے لوگ کریں گے۔ صدر اوبامہ نے کہا میں یہ واضح کر دیتا ہوں کہ امریکہ کے پاس نہ تو اتنی وسعت ہے نہ ہی کیوبا پر تبدیلی مسلط کرنے کا ارادہ ہے۔ کیا تبدیلیاں آئیں گی اس کا انحصار کیوبا کے لوگوں پر ہے۔ ہم اپنا سیاسی اور اقتصادی نظام آپ پر مسلط نہیں کریں گے۔ ہم یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہر ملک اور اس کے لوگوں کو خود اپنے نظام اور اپنی حکومت کا ماڈل خود وضع کرنا چاہیے۔"
        امریکہ کے صدر کو کیوبا کے لوگوں کو یہ پیغام دینے میں 88 سال لگے ہیں۔ حالانکہ فیدل کاسترو کی ساری جدوجہد اور لڑائی لاطینی ملکوں میں امریکی امپریل ازم کی مداخلت فیصلوں اور حکمرانوں کو مسلط کرنے کے خلاف تھی۔ لیکن کیوبا میں اس حکومت کو امریکہ نے سوویت یونین میں کمیونسٹ حکومت سے کچھ زیادہ سزا دی ہے۔ جبکہ امریکہ کے صدر اور اعلی امریکی حکام ماسکو جاتے تھے اور کمیونسٹ حکام سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ ان کے ساتھ ضیافتیں بھی کھاتے تھے۔ انہیں واشنگٹن میں خیر مقدم کرتے تھے۔ دونوں ملکوں کے شہری بھی ایک دوسرے کے ملکوں کے دورے کرتے تھے۔ لیکن کیوبا کو امریکہ نے جیسے 60 سال گوتانوموبے میں نظر بند رکھا تھا۔
        کیوبا کو گوتانوموبے سے نکالنے میں لاطینی ملکوں کی مشترکہ کوششیں ہیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد لاطینی ملکوں میں جو سیاسی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان تبدیلیوں سے یہ کیوبا کو تنہا نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ امریکہ کی تمام تر مخالفت اور دباؤ کے باوجود لاطینی ملکوں کے اتحاد نے کیوبا کو اپنے درمیان رکھا تھا۔ اس کے ساتھ تجارتی اور سماجی تعلقات بحال رکھے تھے۔ اور کیوبا کے مسئلہ پر انہوں نے امریکہ کو سائڈ لائن پر رکھا تھا۔ لاطینی ملکوں کی تنظیم کے اجلاس میں امریکہ پر کیوبا سے پا بندیاں ہٹانے اور اس کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا اصرار کرتے تھے۔ پوپ نے بھی صدر اوبامہ سے اپنی ملاقات میں کیوبا پر سے پابندیاں ختم کرنے اور اس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا کہا تھا۔ امریکہ کے سوا دنیا میں کوئی بھی کیوبا کو امریکہ  کی سلامتی کے لئے دشمن نہیں سمجھتا تھا۔ لہذا امریکہ کے لئے کیوبا کو گوتانوموبے میں رکھنے کا کوئی مقصد نہیں تھا۔
        ادھر چین کے ساتھ لاطینی ملکوں کے تعلقات قریبی ہوتے جا رہے ہیں۔ چین کا تجارت اور اقتصادی ترقی کے ذریعے لاطینی ملکوں میں اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ روس کیوبا کے ساتھ  پرانے تعلقات دوبارہ اس مقام پر لے جانے میں دلچسپی لے رہا تھا۔ جو سرد جنگ کے دور میں تھے۔ کیونکہ کے نیٹو روس کی سرحدوں کے قریب آ گیا تھا۔ امریکہ کی یوکرین میں مداخلت سے روس کی سلامتی کے لئے نئے خطرے پیدا ہو رہے تھے۔ ادھر ایسٹ ایشیا میں South China Sea کے مسئلے پر امریکہ کی چین کے گرد فوجی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس صورت حال میں امریکہ کے لئے اس کے بیک یارڈ میں استحکام اور امن اس کی سلامتی کے مفاد میں ضروری ہے۔ امریکہ اپنے بیک یارڈ میں لاطینی ملکوں کو اس کے خلاف استعمال ہو نے کا کوئی موقعہ دینا نہیں چاہتا ہے۔ لہذا صدر اوبامہ نے لاطینی ملکوں کی تنظیم کے گزشتہ اجلاس میں یہ اعلان کیا کہ امریکہ اب ان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔ اور اس کے جواب میں امریکہ بھی لاطینی ملکوں سے یہ چاہے گا کہ وہ بھی اس کے مفادات اور سلامتی کے خلاف کوئی فیصلے نہیں کریں گے۔ اور صدر اوبامہ کا کیوبا کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی پالیسی بھی اس مقصد میں ہے۔

            

Tuesday, March 22, 2016

The GCC Is Helping Syrian Rebels And The EU Is Helping Migrants, While America Is Simultaneously Helping The GCC And The EU

 The GCC Is Helping Syrian Rebels And The EU Is Helping Migrants, While America Is Simultaneously Helping The GCC And The EU

مجیب خان

German Chancellor Angela Merkel
Destruction In Syria
       22 ملین کی آبادی کا شام جتنا چھوٹا ملک ہے۔ شام کی خانہ جنگی دنیا کے لئے اتنا ہی بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ شام کی خانہ جنگی کے اثرات سے یورپ میں امن اور استحکام کے عصاب بھی شدید دباؤ میں ہیں۔ جہاں تقریباً  دو ملین شامی مہاجرین یورپی یونین کے 28 ملکوں کی دہلیز پر پناہ لینے کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ یورپ میں عوامی راۓ عامہ ان مہاجرین کو پناہ دینے کے سخت خلاف ہے۔ یورپ بھر میں اس کے خلاف شدید مظاہرے ہو رہے ہیں۔ دائیں بازو کی جماعتیں اور قوم پرست عوامی راۓ کی حمایت کر رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان کی مقبولیت آسمان پر پہنچ گئی ہے۔ جرمنی میں حالیہ علاقائی انتخابات میں دائیں بازو کی جماعتیں اور قوم پرست بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی ہیں۔ اور چانسلر انجلا مرکل کی پارٹی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عوامی راۓ عامہ کے دباؤ میں یورپی حکومتیں ان مہاجرین کو پناہ دینے میں خاصا محتاط موقف اختیار کر رہی ہیں۔ کئی ماہ تک جرمن چانسلر انجلا مرکل اور یورپی رہنماؤں میں ان مہاجرین کو قبول کرنے کے لئے کوٹہ کے تعین پر مذاکرات ہوتے رہے۔ جو کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے۔ اور یورپی یونین کے پیشتر ملکوں نے ان مہاجرین کو لینے سے انکار کر دیا تھا۔ بالآخر گزشتہ ہفتہ بریسلز میں یورپی یونین اور ترکی میں مہاجرین کے بحران پر سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ جو مہاجرین ترکی سے یونان آۓ تھے۔ انہیں واپس بھیجا جاۓ گا۔ سمجھوتہ کے تحت ترکی کو 6.6 بلین ڈالر امداد ترکی میں مہاجرین کی دیکھ بھال کرنے والی تنظیموں کی مدد کرنے کے لئے دی جاۓ گی۔ اس کے علاوہ ترکی اگر بعض شرائط کو پورا کرتا ہے۔ تو اس موسم گرما میں اس کے شہریوں کو یورپ کے پیشتر ملکوں میں سفر کی ویزا فری سہولتیں دی جائیں گی۔ اور پھر یورپی یونین میں ترکی کو رکنیت دینے پر مذاکرات شروع کیے جائیں گے۔ ترکی کے وزیر اعظم اور یورپی یونین کے 28 ملکوں نے اس سمجھوتہ کی توثیق کی ہے۔ ان اقدامات کے علاوہ جرمن حکومت نے مہاجرین کو واپس جانے کے لئے ہوائی جہاز کا ٹکٹ اور تقریباً ساڑھے چھ ہزار ڈالر دینے کی پیشکش کی ہے۔ تاکہ یہ واپس اپنے آبائی ملک جائیں اور اپنے لئے روز گار کا بندوبست کریں یا کوئی کاروبار شروع کریں۔ جرمنی کے دوسرے ہمسایہ بھی ایسے ہی اقدامات کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
       مشرق وسطی کا خطرناک عدم استحکام اور شام کی خانہ جنگی نے ایک سنگین انسانی بحران پیدا کر دیا ہے۔ جس سے یورپ کے لئے بھی ایک بحران پیدا ہو گیا ہے۔ یورپی یونین ترکی کو 6.6 بلین ڈالر شام کے مہاجرین کو صرف ترکی میں رکھنے کے لئے ادا کرے گی۔ اس کے علاوہ جرمنی اور دوسرے یورپی ملک مہاجرین کو واپس بھیجنے کے لئے مالی پیشکش بھی کر رہے ہیں۔ اور یہ یورپی ملکوں کو شام کی خانہ جنگی کے نتائج میں انویسٹ کرنا پڑ رہا ہے۔ جبکہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں نے کھربوں ڈالر شام کی خانہ جنگی میں انویسٹ کیے ہیں۔ جبکہ امریکہ نے شام کی خانہ جنگی میں د مشق حکومت کے باغیوں کو لاکھوں ڈالر کا اسلحہ اور انہیں تربیت دینے میں انویسٹ کیے ہیں۔ دنیا کے کچھ ممالک انسانی بحران پیدا کرنے میں انویسٹ کر رہے ہیں۔ اور کچھ ممالک اس انسانی بحران کے حل میں انویسٹ کر رہے ہیں۔ نیو ور لڈ آ ڈر میں Human destruction پر جس قدر انویسٹ کیا جا رہا ہے۔ اتنا Human development پر انویسٹ نہیں کیا گیا ہے۔
       اتنے بڑے پیمانے پر یہ انسانی تباہی صرف چند شخصیات سے نفرت اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے نتیجے میں پھیلائی گئی ہے۔ انہیں عراق میں صدام حسین سے تھی۔ انہیں لیبیا میں کرنل قدافی سے نفرت تھی۔ انہیں شام میں بشارالاسد سے نفرت ہوگئی ہے۔ یہ نفرت مدرسوں کے تعلیم یافتہ لوگوں کو ان شخصیتوں سے نہیں ہوئی تھی۔ یہ مغرب کے اعلی تعلیمی اداروں کے تعلیم یافتہ اور انتہائی ترقی یافتہ اور مہذب قوموں کی قیادتوں کی ان سے نفرت تھی۔ امریکہ نے عراق میں صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے میں آٹھ سال میں ایک ٹیریلین  ڈالر خرچ کیے تھے۔ لیکن ایک ٹیریلین ڈالر امریکہ نے افریقہ میں تعلیم اور صحت پر کبھی آٹھ سال میں خرچ نہیں کیے تھے۔ شام میں امریکہ نے حکومت کے خلاف باغیوں کو تربیت دینے اور انہیں اسلحہ فراہم کرنے پر پانچ سال میں لاکھوں ڈالر خرچ کر دئیے ہیں۔ لیکن امریکہ نے مصر میں ایک جمہوری حکومت کو استحکام دینے میں لاکھوں ڈالر خرچ کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ اور نہ ہی جمہوری حکومت کے لوگوں کے ساتھ کام کرنا پسند تھا۔ اور نہ ہی انہیں جمہوری نظام میں کام کرنے کی تربیت دینا ضروری سمجھا تھا۔ دنیا میں بے شمار ذہین اور عقلمند لوگ ہیں۔ وہ ذرا بتائیں کہ امریکہ نے پانچ سال شام میں باغیوں کی حکومت کے خلاف دہشت گردی کی حمایت کی ہے۔ اس کے نتائج ان کے سامنے ہیں۔ لیکن پانچ سال امریکہ اگر مصر میں صبر و تحمل سے جمہوری حکومت کی حمایت جاری رکھتا تو آج اس کے نتائج کیا شام سے زیادہ بہتر نہیں ہوتے؟ امریکہ نے اسلامی دنیا کو شام میں حکومت تبدیل کرنے کا ایک ماڈل دیا ہے۔ لیکن اسلامی دنیا کے لئے مصر ایک جمہوری ماڈل نہیں بنایا ہے۔
       شام کو تباہ کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ صدام حسین کی فوجیں کویت میں گئی تھیں۔ لیکن صدام حسین کی فوجوں نے کویت اس طرح تباہ نہیں کیا تھا کہ جس طرح شام کو تباہ کیا گیا ہے۔ بلاشبہ صدام حسین میں کچھ انسانی قدریں تھیں۔ ان کی ثقافت میں بھی مہذب قدریں تھیں۔ صدام حسین نے اپنی فوجوں کو کویت میں سرکاری املاک اور لوگوں کی رہائش گاہیں کھنڈرات بنانے کی تربیت نہیں دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود صدام حسین سے کویت کو100 بلین ڈالر تاوان ادا کرنے کا کہا گیا تھا۔ کویت کو تیل کی آمدنی کا جو نقصان ہوا تھا۔ وہ بھی صدام حسین نے ادا کیا تھا۔ کویت کے علاوہ صدام حسین سے سعودی عرب کو بھی تقریباً 90 بلین ڈالر ادا کیے تھے۔ جو سعودی عرب نے اتحادی فوجوں کے آپریشن پر خرچ کیے تھے۔
      اقوام متحدہ کے ذریعے جن ملکوں نے صدام حسین سے یہ تاوان ادا کرنے کا کہا تھا۔ اب انصاف اور قانون کا تقاضہ ہے کہ یہ ملک  شام کو تباہ کرنے میں جو قومیں شامل ہیں ان سے اقوام متحدہ کے ذریعے شام کو تاوان ادا کرنے کی درخواست کریں ۔ جنہوں نے نام نہاد باغیوں کی پشت پنا ہی کی تھی۔ انہیں تربیت دی تھی۔ اور اسلحہ فراہم کیا تھا۔ شام کی حکومت کو جنیوا میں امن مذاکرات میں اس مطالبہ کو سمجھوتہ سے مشروط کرنا چاہیے۔ یہ ملک ایک ٹیریلین ڈالر شام کو تاوان ادا کریں۔
       1988 میں صدر قدافی کے دور میں Pan Am Flight 103 جو لاکر بی اسکاٹ لینڈ  کی فضا میں دھماکہ سے تباہ ہوگیا تھا۔ جس میں 259 افراد ہلاک ہو ۓ تھے۔ طیارہ نیو یارک آ رہا تھا۔ امریکہ اور برطانیہ نے تحقیقات کے بعد لیبیا کے دو شہریوں کو اس واقعہ میں ملوث پا یا تھا۔ جس کے بعد سلامتی کونسل نے لیبیا پر فضائی سفر اور ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی لگا دی تھی۔ ایک طویل عدالتی کاروائی کے بعد 2008 میں قدافی حکومت نے طیارے میں ہونے والے افراد کے ہر خاندان کو 10 ملین ڈالر معاوضہ ادا کیا تھا۔ اور اب شامی خاندانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی انصاف ہونا چاہیے ۔  






       

Saturday, March 19, 2016

Russia In Syria

Russia In Syria

“Objectives Had Been Achieved And It Was Now Time To Support Peace Talks In Geneva”
-President Putin

مجیب خان



   
      پانچ ماہ قبل روسی فوجیں جب مشرق وسطی کے ایک عرب ملک شام میں داخل ہوئی تھیں تو امریکہ کے سیاسی حلقوں میں جیسے ایک اور نائن ایلون ہو گیا تھا۔ امریکہ کی فوجی اور خارجہ پالیسی اسٹبلیشمنٹ کو اس سے زبردست دھچکا پہنچا تھا۔ کسی کو یقین نہیں تھا کہ روس صرف 25 برس میں مشرق وسطی میں ایک طاقتور سیاسی مقام حاصل کر لے گا۔ امریکہ کی سرد جنگ ذہنیت بھی شاید یہ دن دیکھنے کے لئے نہیں بدلی تھی۔ روس کی شام میں فوجی مداخلت کو سرد جنگ ذہنیت کی سیاست میں دیکھا جانے لگا۔ امریکی میڈ یا میں ایک نئی سرد جنگ شروع ہونے کی سرخیاں لگ رہی تھیں۔ صدر پوتن کو اسٹالن ثابت کیا جا رہا تھا۔ روس کے خلاف نئی اقتصادی بندشیں لگانے کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ امریکہ کے عرب اتحادی بادشاہتیں شام میں روس کی فوجی مداخلت کی مذمت کر رہی تھیں۔ صدر اوبامہ انہیں یہ تسلیاں دیتے تھے کہ شام روس کے لئے Quagmire ہو گا۔ روس شام میں Bog down ہ جاۓ گا۔ شام روس کے لئے افغانستان ثابت ہو گا۔ وغیرہ وغیرہ۔            
      سعودی عرب اور ترکی شام پر فوجی حملے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ سعودی عرب کے ساتھ شامل ہو کر ترکی نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات بھی خراب کر لئے ہیں۔ ترک کرد بغاوت کر رہے ہیں۔ دہشت گردی اب ترکی کے شہروں میں پہنچ گئی ہے۔ ترکی کو شام میں مداخلت سے حاصل کیا ہوا ہے؟ ترکی اگر شام کے مسئلے پر روس اور ایران کے ساتھ مل کر صورت حال کو استحکام دینے میں تعاون کرتا جو ترکی کے مفاد میں تھا۔ اور یہ شام کے عوام کی بھلائی میں بھی ہوتا۔ روس اور چین نے پانچ سال قبل سلامتی کونسل میں شام کے بارے میں امریکہ کی دو قراردادوں کو جب ویٹو کیا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ نے اس کی سخت مذمت کی تھی۔ پھر روس کی فوجیں جب شام میں آئی تھیں تب بھی اوبامہ انتظامیہ نے صدر پوتن کے فیصلے کی مذمت کی تھی۔ لیکن پانچ سال اور پانچ ماہ بعد اب سب شام میں صورت حال کو بہتر بنانے کی کوششوں میں صدر پوتن کے اقدامات کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ شام کے مسئلہ پر ترکی سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے بجاۓ اب روس کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ اور سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں کو شام کی صورت حال سے صرف آگاہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے۔
      امریکہ میں کسی کو یہ یقین نہیں تھا کہ روس اتنی جلدی اپنی فوجیں شام سے واپس بلا لے گا۔ امریکہ میں جن کی ابھی تک سرد جنگ ذہنیت ہے۔ انہیں صدر پوتن کے اس فیصلے میں بھی کوئی چال نظر آ رہی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ شام میں روس کی فوجیں ایک طویل عرصہ تک رہیں گی۔ صدر پوتن نے شام سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کرتے ہوۓ کہا کہ " روس کے فوجی مقاصد حاصل ہو گیے ہیں۔ اور اب جنیوا میں امن مذاکرات میں مدد کرنے کا وقت ہے۔" یہ مذاکرات بھی اسی روز شروع ہو رہے تھے جس دن صدر پوتن نے شام سے فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ صدر پوتن نے پانچ ماہ بعد شام میں “Objectives had been achieved” کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ صدر جارج بش نے عراق میں فوجی آپریشن کے آٹھ ہفتہ بعد “Mission accomplished” ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اور اس کے ساتھ عراق میں اہم Combat آپریشن ختم ہونے کا اعلان بھی کیا تھا۔ یہ اعلان صدر جارج بش نے یکم مئ 2003 کو یو ایس ایس ابراہیم لنکن نیول جہاز پر بحریہ کے افسروں سے خطاب میں کیاتھا۔ صدر جارج بش نے کہا کہ "آپ کی وجہ سے ہمارا ملک محفوظ ہے۔ آپ کی وجہ سے ایک آمر کا خاتمہ ہوا ہے۔ اور عراق آزاد ہے۔" صدر جارج بش کے صرف آٹھ ہفتہ بعد عراق میں  “Mission accomplished” اعلان سے دنیا کو زیادہ حیرت نہیں ہوئی تھی۔ اور دنیا کو یقین تھا کہ امریکی فوجیں عراق سے اب چلی جائیں گی۔ کیونکہ سیکریٹری ڈیفنس رمز فیلڈ نے بھی عراق آپریشن سے پہلے یہ کہا تھا کہ امریکی فوجیں عراق میں سرجری کرنے صرف in and out ہوں گی۔ لیکن پھر بش انتظامیہ نے عراقیوں کو دیوار سے لگا دیا تھا۔ ان کی حکومت کے تمام اداروں کو ختم کر کے بغداد میں امریکیوں کی حکومت قائم کر دی تھی۔ آمر کا اقتدار ختم کر کے عراقیوں کی ملکیت میں صنعتوں اور بنکوں کو نجی شعبہ میں دینا شروع کر دیا تھا۔ عراقی تیل میں امریکی کمپنیوں کے حصہ کا تعین کیا تھا۔ یہ عراقیوں کے لئے ایک نئی قسم کی آمریت تھی۔ جس میں ایک غیرملکی طاقت عراقیوں پر اپنے فیصلے مسلط کر رہی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ 13 سال ہو گیے ہیں۔ امریکی فوجوں ک مشن مکمل ہونے کے بعد انہیں پھر عراق میں بھیجنا پڑا ہے۔ صدر اوبامہ نے گزشتہ سال پندرہ سو امریکی فوجی عراق بھیجے تھے۔ پھر پندرہ سو فوجی مزید بھیجے ہیں۔ صدر بش کا  Mission accomplished بھی عراق میں مہلک کی ہتھیاروں کی طرح تھا۔ عراق میں ہتھیار بھی نہیں ملے تھے اور مشن بھی نا مکمل ہے۔
      امریکہ کے “Mission accomplished” اور روس کے “Objectives had been achieved”  میں  بڑا فرق ہے۔ روسی فوجیں شام میں گئی تھیں۔ د مشق حکومت کو انہوں نے آکسیجن فراہم کی ہے۔ حکومت کے باغیوں نے شام کے جن علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ وہ علاقے ان سے خالی کرا لئے ہیں اور اب وہ دمشق حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ ان علاقوں میں لوگوں کی زندگیاں بحال ہو گئی ہیں۔ حکومت کے مخالفین کو سیاسی مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اور دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کرنے والوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ اور شام میں ان کا گیم کیا ہو رہا تھا ۔ دنیا کو اس سے بھی آگاہ کیا ہے۔ پانچ ماہ کے اس مختصر عرصہ میں اتنے مقاصد حاصل کر لئے تھے۔ شام میں روس کی فوجی موجودگی میں شیعہ سنی تقسیم کی سیاست کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ تمام تر فوکس شام کو ایک متحد ملک رکھنے پر تھا۔ جب مقاصد نیک ہوتے ہیں۔ پھر کامیابی ناکامیوں پر غالب آ جاتی ہے۔ امریکہ کے یورپی اتحادی شام میں روس کی اس فوجی مداخلت سے مطمئن ہیں۔
      امریکہ کے افغان عراق لیبیا شام ،دہشت گردی کے خلاف جنگ، عرب دنیا کو ڈیموکریسی اور آزادی میں ٹرانسفارم کرنے کے تمام مشن بری طرح ناکام ہوۓ ہیں۔ کیونکہ مشن وہ نہیں تھا جو مقاصد تھے۔ اور مقاصد وہ نہیں تھے جو مشن تھا۔ امریکہ اور نیٹو ممالک افغانستان میں 14 سال تک مختلف ثقافتوں کو متحد کرنے کے بجاۓ انہیں تقسیم کرنے اور لڑانے کی سیاست کرتے رہے۔ طالبان ایک بہت بڑی پشتون آبادی کا حصہ تھے۔ لیکن امریکہ اور نیٹو افغانستان سے طالبان کے مکمل خاتمہ تک صرف جنگ کو فروغ دیتے رہے۔ انہوں نے طالبان کو جیسے افغان معاشرے کا حصہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے افغانستان میں اپنی شکست تسلیم کر لی۔ لیکن افغانستان میں ایک سیاسی حل کو اہمیت نہیں دی تھی۔
      عراق کو امریکہ اور برطانیہ نے شیعہ سنی فرقہ پرستی کی سیاست میں تقسیم کر دیا ہے۔ ان کے اس مشن سے عراقی عیسائی سب سے زیادہ متاثر ہوۓ ہیں۔ عراق کو ایک فیل ریاست بنا کر چلے گیے۔ اور اب ہزاروں میل دور سے عراق کے حالات کا کبھی القاعدہ کو الزام دیتے ہیں۔ کبھی داعش کو الزام دیتے ہیں۔ کبھی شیعاؤں کا سنیوں کے ساتھ  بر تاؤ کو عراق کے حالات کا ذمہ دار بتاتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے لیبیا کو بن غازی اور تریپولی میں تقسیم کر دیا ہے۔ لیبیا ایک اچھا خاصا مضبوط اقتصادی اور سماجی معاشرہ تھا۔ اسے بھی انہوں نے ایک فیل ریاست بنا دیا ہے۔ اور پانچ سال قبل کرنل قدافی  اور ان کی حکومت کے حکام امریکہ کو یہ بتا رہے تھے کہ القاعدہ لیبیا میں اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتی ہے۔ اور اب اوبامہ انتظامیہ یہ دنیا کو بتا رہی ہے کہ داعش لیبیا میں اسلامی خلافت قائم کر رہی ہے۔
      اسی طرح دہشت گردی ختم کرنا کبھی مشن نہیں تھا۔ اگر یہ واقعی مشن تھا تو دنیا کو آج اس مشن میں ضرور کہیں کامیابی نظر آتی 16 سال میں 16 ہزار دہشت گردوں کے نئے گروپ وجود میں آ گیے ہیں۔ اور یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہو گی۔ داعش اتنی بڑی دہشت گرد تنظیم نے ایک مملکت کی صورت اختیار کر لی لیکن امریکہ کی 36 خفیہ ایجنسیوں میں سے کسی کو اس کے بارے میں معلوم نہیں تھا؟ نہ صرف یہ شام کے ایک بڑے حصہ میں داعش نے اپنی خلافت قائم کر لی تھی ۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ نے شام  میں اپنا مشن تبدیل نہیں کیا تھا۔ بلکہ نام نہاد شامی مجاہدین کو تربیت اور اسلحہ کی فراہمی جاری رکھی تھی۔ شام میں روس کی فوجیں آ نے کے بعد صورت حال تبدیل ہو گئی ہے۔ اور اس کا کریڈٹ صدر ویلا دیمیر پوتن کو دیا جاۓ گا۔               







Tuesday, March 15, 2016

Election In America: This Is A Very Unique Election Campaign That The World Has Never Seen Before

The American Awakening

Election In America: This Is A Very Unique Election Campaign That The World Has Never Seen Before

مجیب خان
   

           پچھلے جمعہ کو شکاگو میں صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کی ایک بہت بڑی انتخابی ریلی تھی۔ جس سے ڈونالڈ ٹرمپ خطاب کرنے آ رہے تھے۔ تقریباً 30 ہزار کا مجمع تھا۔ شام کو آٹھ بجے ڈونالڈ ٹرمپ کے ریلی سے خطاب سے قبل ڈونالڈ ٹرمپ کے مخالفین بھی یہاں جمع ہو گئے تھے۔ انہوں نے پہلے نعرے بازی شروع کر دی تھی۔ اس کے جواب میں ڈونالڈ ٹرمپ کے حامی بھی نعرے لگانے لگے۔ پھر مجمع میں ہلڑ بازی ہونے لگی۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے حامیوں اور مخالفین میں ہا تھا پائی ہونے لگی۔ بالاآخر سیکورٹی کی صورت حال کے پیش نظر منتظمین کو ٹرمپ کا ریلی سے خطاب ملتوی کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ انتخابی ریلی میں یہ مناظر دیکھ کر مجھے ایسا لگا کہ جیسے یہ عمران خان کی ریلی تھی۔ اور رانا ثنا اللہ کے لوگ نعرے بازی ہلڑ بازی اور ہا تھا پائی کر رہے تھے۔ لیکن ایک بڑا فرق یہ تھا کہ یہاں پولیس کے ادارے پر کسی کا کوئی سیاسی اثر و رسوخ نہیں تھا۔ اور پولیس اپنے فرائض عوام کی سلامتی کے مفاد میں انجام دے رہی تھی۔ اس لئے یہاں کوئی نا سازگار واقعہ نہیں ہوا تھا۔ کوئی زخمی نہیں ہوا تھا۔ کسی کا سر نہیں پھٹا تھا۔ کسی کا خون نہیں گرا تھا۔ جو قابو سے کچھ زیادہ باہر ہو گیے تھے۔ پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا تھا۔ Tension بہت زیادہ تھی۔ اس لئے ڈونالڈ ٹرمپ کو انتخابی ریلی سے خطاب ملتوی کرنا پڑا تھا۔
       امریکہ کی تاریخ میں ایسی صدارتی انتخابی مہم کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ دنیا نے دو ہزار کے صدارتی انتخابات میں دھاندلیاں دیکھی تھیں۔ لیکن یہ صدارتی انتخابی مہم ایک نئی منفرد تاریخ بنا رہی ہے۔ حالانکہ ابھی صرف پارٹیوں میں صدارتی امیدواروں کے درمیان پرائم ریز ہو رہی ہیں۔ جس کے بعد اس کا تعین ہو گا کہ کون ری پبلیکن پارٹی کا اور کون ڈیموکریٹک پارٹی کا صدارتی امیدوار ہو گا۔ اور یہ مرحلہ اپریل کے وسط تک مکمل ہو جاۓ گا۔ جس کے بعد واضح تصویر سامنے آ جاۓ گی۔ تاہم اس وقت تک کی پرائم ریز کے نتائج سے یہ ںظر آ رہا ہے کہ صدارتی مقابلہ ہلری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان ہو گا۔ لیکن امریکیوں میں ڈونالڈ ٹرمپ کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ری پبلیکن پارٹی کے اندر ڈونالڈ ٹرمپ کو صدارت کے لئے نامزد کرنے کی مخالفت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اور جولائی میں پارٹی کنونشن میں بعض ری پبلیکن ڈونالڈ ٹرمپ کی نامزدگی کو بلاک کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے لئے شاید یہ ممکن نہیں ہو گا۔ کیونکہ ڈونالڈ ٹرمپ پرائم ریز میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو رہے ہیں۔ اور ری پبلیکن پارٹی اگر انہیں نامزد نہیں کرے گی تو اس صورت میں وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے صدارت کا انتخاب لڑیں گے۔ اور ری پبلیکن پارٹی تقسیم ہو جاۓ گی۔
       انتخابات میں امیدوار کا ایک پختہ Stand ہوتا ہے۔ اور دوسرا اس کا پیغام ہوتا ہے۔ جس سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ امیدوار کا Stand لوگوں میں اس کے پیغام میں اس کے مخلص ہونے کا اعتماد پیدا کرتا ہے۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ کے اچانک اتنا زیادہ مقبول ہو جانے کی یہ ایک بڑی وجہ ہے۔ دوسرا یہ کہ ڈونالڈ ٹرمپ پیشہ ور سیاستدان بھی نہیں ہیں۔ سیاست میں انہوں نے کبھی حصہ نہیں لیا تھا۔ ان کا کاروبار Real estate developerہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ واشنگٹن کے Insider بھی نہیں ہیں۔ واشنگٹن اسٹبلشمینٹ سے بھی ان کا تعلق نہیں ہے۔ اس وقت پرائم ریز میں ان کے مقابلے میں تین دوسرے امیدوار ہیں۔ جن میں دو سینیٹر ہیں اور ایک ریاستOhio  کے گورنر ہیں۔ اور اس سے قبل کانگرس مین تھے۔ لہذا انتخابات میں ان کا Stand اور پیغام لوگوں کو زیادہ متاثر نہیں کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ ڈونالڈ ٹرمپ سے زیادہ قدامت پسند ہیں۔ لیکن یہ جنوبی ریاستوں میں پرائم ريز انتخاب ہار گیے ہیں۔ جہاں لوگوں کی اکثریت انتہائی مذہبی قدامت پسند ہے۔ اور اسے Church belt بھی کہا جاتا ہے۔
       ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدواروں کے درمیان پہلی تین Debates میں دونالڈ ٹرمپ نے اپناStand  اسٹیج پر سیٹ کر دیا تھا۔ ابتدائی تین Debates میں ایک تہائ سے زیادہ وقت دہشت گردی اور داعش کے خلاف جنگ کے بارے میں سوالوں پر تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے مقابلے پر تمام امیدواروں نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خود کو کمانڈر انچیف ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ کسی نے کہا داعش کے خلاف عراق اور شام پر Carpet bombing کی جاۓ۔ Jeb Bush یوکرین کے مسئلے پر یورپ میں فوجیں بھیجنا چاہتے تھے۔ جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے عراق جنگ کو ایک غلط جنگ قرار دیا تھا۔ اور لیبیا میں قدافی کو اقتدار سے ہٹانے کے فیصلے کی شدید مذمت کی تھی۔ شام میں صدر پوتن کے اقدام کی حمایت کی تھی۔ ان Debates میں ڈونالڈ ٹرمپ کا تمام تر زور امریکہ کی تعمیر نو کرنے پر تھا۔ اور لوگوں کے حالات بہتر بنانے پر تھا۔ ان کے پیغام میں امریکی نیشنلزم کی تخلیق نظر آ رہی تھی۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے غیرجانبدار رہنے کا کہا ہے۔ ان کے Stand سے لوگ متاثر ہونے لگے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے مقابلے پر دوسرے صدارتی امیدوار جتنا زیادہ جنگوں اور فوجی آپریشن کی باتیں کرتے تھے۔ اتنے ہی زیادہ ووٹوں سے یہ سب ہارتے تھے۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ ان سے آگے آتے گیے۔
       صدر اوبامہ کے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں وال اسٹریٹ کے خلاف ایک مہم چلی تھی۔ امریکہ بھر سے بڑی تعداد میں لوگ وال اسٹریٹ کے خلاف احتجاج کرنے نیویارک آۓ تھے۔ نیویارک میں کئی ہفتوں تک انہوں نے دھرنا دیا تھا۔ انہوں نے  ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاس کے موقعہ پر بھی مظاہرے کیے تھے۔ ان کا دھرنا نیویارک کی انتظامیہ نے ختم کرنے کی متعدد بار کوشش کی تھی۔ لیکن یہ لوگ دھرنا ختم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ بالااخر وفاقی ایجنسیوں کی مدد سے ان کا دھرنا ختم کرایا گیا تھا۔ انہیں خاصا ڈرایا دھمکایا گیا تھا۔ بعض کے خلاف قانونی کاروائیاں بھی ہوئی تھیں۔ انہیں انارکسٹ بھی کہا گیا تھا۔ اور اب یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کر رہے ہیں۔ اور ان میں کچھ برنی سینڈر کی انتخابی مہم میں شامل ہو گیے ہیں۔ جو ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار ہیں۔
       اس مرتبہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے زیادہ امیدوار میدان میں نہیں آۓ ہیں۔ جس کی وجہ سے ہلری کلنٹن مضبوط امیدوار نظر آ رہی ہیں۔ ہلری کلنٹن کا پرائم ریز انتخابات میں صرف برنی سینڈر سے مقابلہ ہے۔ برنی سینڈر سینیٹر ہیں۔ اس سے پہلے کانگرس مین تھے۔ برنی سینڈر جنگ کے خلاف ہیں۔ اور سینٹ میں انہوں نے عراق پر حملے کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ جبکہ ہلری کلنٹن نے سینٹ میں عراق پر حملہ کرنے کی قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ اور ہلری کلنٹن جب سیکریٹری اف اسٹیٹ تھیں۔ انہوں نے صدر قدافی کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت کی تھی۔ شام کے سلسلے میں بھی ہلری کلنٹن نے محتاط پالیسی اختیار نہیں کی تھی۔ بشارالاسد کو جانا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ کی پالیسی بن گئی تھی۔ جس کی وجہ سے یورپ کے لئے Immigrants کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔ اور مشرق وسطی  عدم استحکام ہو گیا ہے۔ لیکن پھر ری پبلیکن پارٹی کے امیدواروں کی Debates دیکھنے اور ڈونلڈ ٹرمپ کا جنگوں کے خلاف موقف کے نتیجے میں مقبولیت دیکھ کر ہلری کلنٹن بھی جنگوں کے موضوع سے پیچھے ہٹ گئی ہیں۔ اور امریکی عوام کے اقتصادی اور سماجی مسائل کو زیادہ فوکس کر رہی ہیں۔
       یہ امریکہ کی تاریخ کے بالکل منفرد انتخابات ہیں۔ جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گیے تھے۔ ری پبلیکن پارٹی کی ایک  خاصی تعداد ڈونالڈ ٹرمپ کو پسند نہیں کرتی ہے۔ ری پبلیکن پارٹی کے 2012 میں صدارتی امیدوار مٹ رامنی نے گزشتہ دنوں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بڑے سخت لفظوں میں تقریر کی تھی۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر منتخب ہونے کو امریکہ کے لئے ایک بڑی تباہی بتایا تھا۔ مٹ رامنی نے ری پبلیکن پارٹی سے اپیل کی تھی کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر کے لئے نامزد مت کرے۔ اور سینیٹر جان مکین نے مٹ رامنی سے اتفاق کیا تھا۔ ادھر ڈیمو کریٹک  پارٹی میں بھی ایسے لوگ ہیں۔ جنہیں ہلری کلنٹن پسند نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں یہ ہو گا کہ ری پبلیکن پارٹی میں جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ پسند نہیں ہیں وہ ہلری کلنٹن کو ووٹ دیں گے۔ اور ڈیمو کریٹک پارٹی میں جنہیں ہلری کلنٹن پسند نہیں ہیں وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کس پارٹی میں کون کتنی بڑی تعداد میں پسند نہیں ہے؟
       یہ اس صدی کے پانچویں انتخابات ہیں۔ گزشتہ چار انتخابات کے موضوع اسامہ بن لادن، القاعدہ، صدام حسین، طالبان، دہشت گردی کے خلاف جنگ، وہ ہماری ترقی سے نفرت کرتے ہیں، وہ ہمیں تباہ کرنا چاہتے ہیں، امریکہ کی سلامتی کو خطروں کا سامنا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور اب پانچویں صدارتی انتخاب میں امریکہ بیدار ہو گیا ہے۔ امریکہ ابھی تک حالت جنگ میں ہے۔ دہشت گردی اور بڑھ گئی ہے۔ امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف ناکامی ہو رہی ہے۔ امریکہ کی سلامتی سے زیادہ لوگوں کو اپنی معاشی سلامتی خطرے میں نظر آ رہی ہے۔ لوگوں کی توجہ دہشت گردی کی جنگوں پر لگا کر امیر امیرتر ہو گیے ہیں۔ درمیانہ طبقہ ختم ہو گیا ہے۔ 40 ملین امریکی صرف حکومت کی امداد پر زندہ ہیں۔ امریکہ 19 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے۔ اور اس میں رجحان اضافہ کی طرف ہے۔ امریکہ کا تجارتی خسارہ 500 بلین ڈالر پر پہنچ گیا ہے۔ لوگوں کے سامنے یہ گزشتہ چار انتخابات کے نتائج ہیں۔ اور پانچویں صدارتی انتخابات میں لوگوں میں اب بغاوت نظر آ رہی ہے۔ اور یہ جمہوری بغاوت امریکہ میں اسپرنگ ہے۔           

Saturday, March 12, 2016

Islamic Leaders: Yes, Our World Is In Crisis But Palestine Must Remain ‘The Central Issue’

Organization Of Islamic Cooperation - Jakarta Conference

Islamic Leaders: Yes, Our World Is In Crisis But Palestine Must Remain ‘The Central Issue’

مجیب خان 

Organization Of Islamic Cooperation - Jakarta Conference
Islamic Nations Participate In "Thunder Of The North" Military Exercise
Israeli Soldier Assaults A Young Palestinian Child
       انڈونیشیا میں 7 مارچ کو اسلامی ملکوں کی کانفرنس ہوئی تھی۔ جس میں 57 اسلامی ملکوں کے رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔ اس دوران 34 اسلامی ملکوں کی اسلامی فوج کی مشقیں سعودی عرب میں ہو رہی تھیں۔ اسلامی ملکوں کے رہنما شاہ سلمان کی خصوصی دعوت پر اسلامی فوج کی مشقیں دیکھنے سعودی عرب گۓ تھے۔ اسلامی فوج کا قیام سعودی عرب کی قیادت میں آیا ہے۔ ترکی جس کی فوجوں کے ساتھ سعودی فوجیں شام پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہی تھیں۔ لیکن اسلامی فوج میں ترکی شامل نہیں ہے۔ ایران اور لبنان کو بھی اسلامی فوج میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم ان اسلامی ملکوں نے انڈونیشیا میں اسلامی تعاون کی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ جبکہ 57 ملکوں کی اسلامی تنظیم کے لئے اوبامہ انتظامیہ کے خصوصی قائم مقام نمائندے ارسلان سلمان نے اس کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ سعودی عرب میں 34 اسلامی ملکوں کی اسلامی فوج کی مشقوں کی تقریب سے امریکہ غائب تھا۔ حالانکہ یہ مشقیں جس میں سعودی فوجیں بھی حصہ لے رہی تھیں۔ امریکہ سے خریدے گۓ ہتھیاروں کا مظاہرہ تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں امریکہ کے قریبی اتحادی ہیں۔ اور داعش کے خلاف لڑائی میں بھی خلیجی ریاستیں امریکہ کے ساتھ فوجی اتحاد میں شامل ہیں۔ اس سال جنوری میں صدر اوبامہ نے واشنگٹن میں خلیجی ریاستوں کے کمانڈروں کا اجلا س بلایا تھا۔ جس میں داعش سے لڑنے کی حکمت عملی تیار کی گئی تھی۔
        پھر خلیج میں امریکہ کا سب سے بڑا بحری اڈہ ہے۔ جہاں طیارہ بردار بحری بیڑے کھڑے ہیں۔ بحرین اور کویت میں امریکہ کے فوجی اڈے ہیں۔ امریکہ کے علاوہ برطانیہ اور فرانس کے بحری بیڑے بھی خلیج میں ہیں۔ لیکن ان ملکوں کے فوجی کمانڈروں کو بھی اسلامی فوج کی مشقیں دیکھنے کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ سعود یوں کے مطابق ان فوجی مشقوں میں ساڑھے تین لاکھ فوجوں نے حصہ لیا تھا۔ جبکہ 20 ہزار ٹینکوں اور 2500 طیاروں نے مظاہرہ کیا تھا۔ سعود یوں کا کہنا تھا کہ ان فوجی مشقوں کا مقصد اتحادی فوجوں کو خطہ میں ان طاقتوں کے خلاف تیار کرنا ہے جو اس خطہ کو عدم استحکام کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اسلامی فوج جن طاقتوں کے خلاف تیار کی جا رہی ہے۔ اول وہ طاقتیں خلیجی ریاستوں کی قریبی اتحادی ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ یہ خطہ پہلے ہی خطرناک حد تک عدم استحکام ہو چکا ہے۔ اور اب اس خطہ کو استحکام دینے کی ضرورت ہے۔ اور فوجی طریقوں یا فوجی مشقوں کے ذریعے اس خطہ میں استحکام لانے میں انہیں کامیابی نہیں ہو گی۔ امریکہ کی بھاری فوجی موجودگی کا مقصد بھی اس خطہ میں استحکام اور سلامتی کو برقرار رکھنا تھا۔ لیکن شواہد اس کے برخلاف دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ فوجی سرگرمیاں ہیں جو اس خطہ میں انتہا پسندی پھیلانے کا سبب ثابت ہو رہی ہیں۔ اگر سعودی اور خلیجی ریاستیں اس خطہ کی سلامتی اور استحکام میں واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں اس خطہ میں اقتصادی سرگرمیوں اور ایک پر امن سیاسی عمل کو فروغ دینے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔
        جو طاقتیں اس خطہ کو عدم استحکام کر رہی ہیں۔ سعودی عرب اور خلیج کی ریاستیں ان طاقتوں کے ساتھ شامل ہیں۔ اور اس میں یہ ان کی معاونت بھی کر رہی ہیں۔ آخر انہوں نے غیر ملکی طاقتوں کو عراق میں حکومت تبدیل کر نے کی اجازت کیسے دی تھی۔ پھر انہوں نے عراق میں شیعہ سنی کی تقسیم کو کیوں قبول کیا تھا؟ عراق میں عدم استحکام تھا۔ فلسطینی اسرائیل تنازعہ روزانہ کا تنازعہ تھا۔ اسرائیلی فوجی روزانہ فلسطینیوں کو مار دیتے تھے۔ اور فلسطینی روزانہ اسرائیلیوں پر حملے کرتے تھے۔ ان حالات میں شام میں ایک خونی خانہ جنگی کو کون ہوا دے رہا تھا۔ شام کو عدم استحکام کرنے کا مطلب اس سارے خطہ کو عدم استحکام کرنا تھا۔ لیکن انہوں نے کبھی یہ سوچا نہیں تھا۔ کہ جب خطہ کے ملک اس طرح عدم استحکام ہوتے جائیں گے۔ تو پھر وہ کیسے محفوظ رہیں گے۔
        اسلامی ملکوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ سوچتے بعد میں ہیں۔ فیصلے پہلے کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کا سیاسی کھیل کھیلنے لگتے ہیں جو بعد میں تباہی کی صورت میں اس کے نتائج کا انہیں ذمہ دار ٹھہرانے لگتے ہیں۔ اسلامی دنیا کو سعود یوں پر بہت اعتماد تھا۔ کیونکہ وہ حرمین شریفین تھے۔ اور مسلمانوں کی نگاہ میں اسلام کے دو مقدس مقامات کے محافظ اسلام کے بھی محافظ تھے۔ اسلامی دنیا کی یکجہتی اور سلامتی بھی ان کے دو مقدس فرائض تھے۔ جتنی دولت جتنے ہتھیار جتنی توانائی انہوں نے امریکہ کے ساتھ مل کر شام میں ایک حکومت کا خاتمہ کرنے میں لگائی تھی۔ اتنی ہی دولت اور توانائی وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی فوجی قبضہ کی لعنت ختم کرنے میں لگا سکتے تھے۔ جو کام حرمین شریفین کا خطاب حاصل کر کے انہیں کرنا چاہیے تھے وہ انہوں نے نہیں کیے ہیں۔ اور اسلام کے دو مقدس مقامات کے محافظ کی حیثیت سے جو کام انہیں نہیں کرنا چاہیے تھے وہ انہوں نے کیے ہیں۔ اور اس وقت بھی وہ کس کے مفاد میں لبنان میں حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم تسلیم کروا رہے ہیں۔ اور اس کے ذریعے حماس کو بھی کیا پیغام دے رہے ہیں۔ سعودی عرب نے عرب دنیا کا لیڈر بننے کی ابتدا ہی غلط کی ہے۔ ایک تو انہوں نے یمن کے خلاف جا حا ریت کی ہے۔ دوسرے انہوں نے 34 ملکوں کی ایک اسلامی فوج بنا لی ہے۔ جو کس کے مفاد میں بنائی ہے؟ اور شام کے بعد اب لبنان میں انہوں نے محاذ آ رائی کی سیاست شروع کر دی ہے۔ سرد جنگ میں پچاس سال تک سعودی اسلامی دنیا کو امریکہ کا کھیل کھلاتے رہے۔ اور اب اسرائیل کا کھیل شروع کرنا چاہتے ہیں۔
       اکیسویں صدی کو اسلامی دنیا کے لئے فساد اور انتشار پھیلانے کی صدی بنانے کا کام بیسویں صدی کی آخری دہائی سے شروع ہو گیا تھا۔ اور اس کی ابتدا عراق سے ہوئی تھی۔  90 کے عشرے میں سب سے زیادہ اقتصادی بندشیں اسلامی ملکوں پر لگائی گئی تھیں۔ اور یہ اقتصادی بندشیں ان کے پاؤں میں جیسے بیڑیاں تھیں۔ اسلامی ملکوں میں اتحاد اور یکجہتی کی کوششوں کو ناکام کر دیا جاتا تھا۔ اور اس کے لئے اسلامی ملکوں کے آپس کے اختلافات کو Exploit کیا جاتا تھا۔ دسمبر1997 میں تہران میں اسلامی سربراہ کانفرنس میں ایران نے اسلامی اتحاد اور یکجہتی کے لئے ایک سنجیدہ کوشش بھی کی تھی۔ اور عراق کو بھی اسلامی سربراہ کانفرنس میں مدعو کیا تھا۔ اور اس طرح عراق کو اسلامی برادری میں واپس لانے کا دروازہ کھولا تھا۔ عراق پر انسانی تاریخ کی بدترین اقتصادی بندشیں لگی ہوئی تھیں۔ عراق جنگ ختم ہونے کے نو سال بعد ایران نے عراق کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی ابتدا تہران میں اسلامی سربراہ کانفرنس میں عراق کو مدعو کر کے کی تھی۔ امریکہ کو تہران میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد پر شدید تشویش ہو رہی تھی۔
        صدر کلنٹن کے قومی سلامتی امور کے مشیر سینڈی برگر تہران میں اسلامی سربراہوں کا اجتماع دیکھ کر خاصے پریشان ہو رہے تھے۔ کہ صدام حسین کو بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔ لیکن صدام حسین نے ایک اعلی وفد تہران بھیجا تھا۔ سینڈی برگر نے وائٹ ہاؤس میں ایک پریس بریفینگ کے دوران تہران میں اسلامی سربراہ کانفرنس میں عراق کی شرکت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ وہ تہران میں اسلامی سربراہوں کے اجتماع کو خصوصی طور پر واچ کر رہے تھے۔ وہ کیوں اتنے پریشان ہو رہے تھے؟ اور کیا واچ کر رہے تھے؟ وہ یہ واچ کر رہے تھے کہ اسلامی سربراہ عراق کے بارے میں کیا فیصلہ کرنے جا رہے تھے؟ لیکن یہ امریکہ کی خوش قسمتی اور اسلامی ملکوں کی بد قسمتی تھی کہ ان میں اتحاد نہیں ہو سکا تھا۔
        جکارتہ انڈونیشیا میں اسلامی تعاون کی تنظیم نے فلسطین کے مسئلہ پر ایک غیر معمولی کانفرنس میں قرارداد منظور کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ اسلامی رہنما اسلامی دنیا میں المناک بحرانوں کے پھیلنے سے باخبر ہیں۔ جن میں مسلح تنازعہ اور دہشت گردی بھی شامل ہے۔ تاہم قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اس صورت حال میں بھی فلسطین کے کاز اور القدس الشرف سے عالمی توجہ نہیں ہٹنا چاہیے۔ اور یہ اسلامی دنیا کے بدستور مرکزی اشیو رہیں گے۔ لاکھوں لوگ جن کی اکثریت مسلم ہے۔ شام عراق یمن لیبیا افغانستان اور دوسرے مقامات پر مارے گیے ہیں۔ اپاہج ہو گیے ہیں۔ انہیں خوفزدہ کیا گیا ہے۔ اور بے گھر ہو گیے ہیں۔ انڈونیشیا کے صدرJoko Widodo نے اسلامی کانفرنس کے اختتام پر کہا کہ اگر اسلامی تعاون کی تنظیم فلسطینی مسئلہ کے حل کا حصہ نہیں ہے تو 47 سال کا یہ اسلامی بلاک irrelevant ہو جاۓ گا۔