Sunday, May 7, 2017

Middle East: No New War, No Divide And Rule, No Shiite-Sunni Sectarian Fighting

Middle East: No New War, No Divide And Rule, No Shiite-Sunni Sectarian Fighting

The New Alliance Between Zionism And Wahhabism Is As Dangerous As Iran’s Nuclear Program

مجیب خان
  
Saudi Arabia Deputy Crown Prince Mohammed bin Salman


Israel's Prime Minister Netanyahu 

President Hassan Rouhani and President Putin 
     ڈپٹی ولی عہد  شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی ٹی وی  سے انٹرویو میں کہا ہے "ایران کے ساتھ ڈائیلاگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کیونکہ تہران کے خطہ میں توسیع پسندانہ عزائم ہیں۔ اور ہمارے اور ایران کے درمیان کوئی کامن گراؤنڈ نہیں ہے۔" ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا "ہم نے یہ محسوس کیا ہے کہ وہ ڈائیلاگ کے بارے میں زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں۔ ماضی میں ایران میں جب قدرے اعتدال پسند قیادت تھی۔ سعودی عرب نے اس کے ساتھ ڈائیلاگ کیے تھے۔" لیکن ولی عہد سلمان کے کہنے کے مطابق وہ کوششیں پھر ایران میں سخت گیر قیادت آنے کے بعد ناکام ہو گئی تھیں۔ ولی عہد سلمان نے رسول صلعم کا ایک ارشاد بیان کیا کہ "ایک مسلم دو مرتبہ بیوقوف نہیں ہو سکتا ہے" ولی عہد شہزادہ  محمد بن سلمان نے سعودی ٹی وی سے انٹرویو میں ایران کے ساتھ اس معروضی نظریاتی مسئلہ کا حوالہ دیتے ہوۓ کہا جو اسے ایک اچھا ہمسایہ بننے سے روکتا ہے۔
   
“Iran believes that before Imam Mahdi reappears, it must prepare a fertile ground for him and that it must control the Muslim world. The Shiite belief that Imam Mahdi—the 12th and last Shiite Imam who disappeared in the 9th century – will one day appear to bring justice to earth.” “How can I come to an understanding with this?”, said the deputy crown prince. “How can you have a dialogue with them against this background?”, he asked. “Iran’s goal is to gain control of the two Holy Mosques.
  
    ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کے مستقبل کے شاہ ہوں گے۔ لیکن ایک جدید دنیا میں ان کے خیالات نویں صدی کے ہیں۔ ولی عہد سلمان نے سعودی عرب کو صنعت اور ٹیکنالوجی میں جدید بنانے کا 2030 منصوبہ دیا ہے۔ اس منصوبہ کی کامیابی کے لئے ان کے خیالات میں جدید فراغ دلی کا ہونا ضروری ہے۔ اس دنیا میں اتنی زیادہ نا انصافیاں ہو رہی ہیں لیکن کسی ایرانی رہنما نے یہ نہیں کہا ہے کہ امام مہدی 12 ویں شیعہ امام جو 9 ویں صدی میں غائب ہو گیے تھے۔ اکیسویں صدی میں کسی وقت نمودار ہوں گے۔ اور عراقیوں شامیوں ہوتیوں اور فلسطینیوں کے ساتھ انصاف کریں گے۔ سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں میں شیعاؤں کی ایک بڑی آبادی ہے۔ اور امام مہدی ان کے بھی امام ہیں۔ یہ فضول کی بحث ہے۔ اس کا اکیسویں صدی کے تقاضوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلامی دنیا اس وقت تباہیوں کے دور سے گزر رہی ہے۔ ولی عہد شہزادہ سلمان کو اس افسوسناک صورت حال پر کچھ کہنا چاہیے تھا کہ اسلامی دنیا کو کس طرح ان تباہیوں سے نکالا جاۓ۔ لیکن شہزادہ سلمان اسلامی دنیا کو تباہیوں میں رکھنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ایران ہزاروں سال سے یہاں ہے۔ اور ہزاروں سال یہاں ہی رہے گا۔ ولی عہد شہزادہ سلمان نے رسول صلعم کے ایک معروف ارشاد کا ذکر کیا ہے کہ "ایک مسلم دو مرتبہ بیوقوف نہیں ہو سکتا ہے۔" لیکن مسلمانوں کو تباہی کے حالات میں دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان بار بار بیوقوف بن  رہے ہیں۔ اسلامی دنیا نے سعودی قیادت پر اعتماد کیا تھا۔ حرمین شریفین اسلام کے دو مقدس مقامات کے محافظ ہیں۔ اس حوالے سے اسلامی ملکوں کی سلامتی بھی ان کی ایک اسلامی ذمہ داری تھی۔ عراق اسلام کا ایک اہم تاریخی  ملک تھا۔ یہاں اسلام کے اہم مقدس مقامات ہیں۔ لیکن مسلمان پھر بیوقوف بن گیے تھے۔ اور ان کے سامنے عراق کو تباہ کیا جا رہا تھا۔ اوراس مرتبہ شام کو تباہ کرنے کا کام ان سے لیا جا رہا تھا۔ سعودی عرب اور خلیج کی حکومتیں اس مشن میں امریکہ کی اتحادی تھیں۔  شام کی بھی ایک قدیم اسلامی تاریخ تھی۔ سعودی قیادت کو اسے روکنا چاہیے تھا۔ حرمین شریفین کی حثیت سے بھی یہ سعودی عرب کا ایک اسلامی فریضہ تھا۔ لیکن مسلمان پھر بیوقوف بن گیے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ عرب لیگ نے جس کا سعودی عرب بھی رکن ہے۔ اس نے لیبیا میں قدافی کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے امریکہ برطانیہ اور فرانس کو فوجی کاروائی کرنے کی اجازت دی تھی۔ صرف اکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں مسلمان ایک سے زیادہ مرتبہ بیوقوف بن چکے ہیں۔ اسلامی ملکوں کی تباہیوں میں خلیج کے حکمرانوں کا بڑا Dubious رول ہے۔ انہیں الزامات دینے سے پہلے اپنے کردار کی طرف دیکھنا چاہیے۔
   ایران کے بارے میں اسرائیلی حکومت کی سوچ جو ایک جمہوری حکومت ہے سعودی سوچ سے جو ایک بادشاہت ہے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اور ایران اسرائیلی حکومت کا ٹارگٹ بھی ہے۔

In a meeting in Moscow with President Putin, Netanyahu said
 “Persia had made an attempt to destroy the Jewish people that did not succeed some 2500 years ago”, an event commemorated through the Jewish holiday of Purim. “Today there is an attempt by Persia’s heir, Iran, to destroy the State of the Jews.” Netanyahu said. Putin noted that those events had taken place “in the fifth century BC, we now live in a different World, let us talk about the actual up-to-date problems in the region.”

وزیر اعظم نتھن یا ہو نے سخت لہجہ میں کہا "انتہا پسند شیعہ اسلام کا خطرہ ہمیں اتنا ہی خوفزدہ کرتا ہے کہ جتنا  یہ خطہ اور دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم کسی بھی قسم کے انتہا پسند اسلام کی فتح کو روکنے کے مقاصد میں پارٹنر ہیں۔" اسرائیلی وزیر اعظم نے ان خدشوں کا اظہار کیا کہ شام میں خانہ جنگی کے نتیجہ میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔" با ظاہر یہ نظر آ رہا کہ عرب دنیا میں جنگوں کی تباہیاں دیکھ کر سعودی اور اسرائیلی رہنما ذہنی توازن کھو رہے ہیں۔ انہیں جنگوں کے نتائج کے ان خدشوں کا اظہار جنگوں کی حمایت کرنے سے پہلے کرنا چاہیے تھا۔ ان خدشات کا اظہار وہ اب جنگوں کی تباہیوں کے اثرات دیکھنے کے بعد کر رہے ہیں۔ یہ سعودی عرب اور خلیج کی حکومتیں تھیں جو شام میں اوبامہ انتظامیہ کے ساتھ ایک خوفناک خانہ جنگی کو فروغ دے رہے تھے۔ کیا اسرائیلی حکومت کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک طویل خانہ جنگی کی صورت میں شام میں ایران اور حزب اللہ کا اثر و رسوخ بڑھے گا؟ ایک طرف ایک درجن ملک شام میں نام نہاد باغیوں اور اسلامی دہشت گردوں کو ہتھیار، تربیت اور فنڈ دے رہے تھے۔ اور یہ انسانیت کو تباہ کر رہے تھے۔ لیکن جو ملک اسے عالمی قانون کی خلاف ورزی سمجھتے تھے۔ اور خانہ جنگی کو انسانیت کے خلاف کرائم  سمجھتے تھے۔ اور یہ ملک صرف انسانیت کو بچانے کے لئے شام کی مدد کرنے آۓ تھے۔ اگر امریکہ سعودی عرب اور اسرائیل انسانیت کو اپنا مفاد سمجھتے تو یہ خانہ جنگی کبھی 7 سال تک جاری نہیں رہتی۔ اوبامہ انتظامیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے اعلامیہ جاری کرتی تھی۔ لیکن دوسری طرف شام میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کر رہی تھی۔ جبکہ ایران کا اس میں کوئی حصہ نہیں تھا۔
    سعودی عرب اور اسرائیل مڈل ایسٹ میں اب شیعاؤں کا غلبہ ہونے کی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن عراق میں صد ام حسین کی ایک سنی حکومت کا خاتمہ کرنے کی مہم میں یہ ممالک پیش پیش تھے۔ سعودی عرب اور خلیج کی حکومتوں نے امریکہ کے عراق میں حکومت تبدیل کرنے کے منصوبہ کے خلاف مزاحمت کیوں نہیں کی تھی۔ اسرائیل کا یہ دعوی بھی غلط ہے کہ ایران یہودیوں کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ ایران میں 2500 سال بعد آج بھی یہودی ہیں۔ اور ان کی عبادت گاہیں بھی محفوظ ہیں۔ مڈل ایسٹ میں جب تک بادشاہوں کا نظام رہے گا۔ یہاں اسی طرح سازشیں ہوتی رہیں گی۔ اور یہ 18 ویں اور 19 ویں صدی کا یورپ بنا رہے گا۔ اسرائیل کی جمہوریت نام نہاد ہے۔ اور یہ اس خطہ میں امن کو فروغ دینے میں فیل ہو گئی ہے۔ اسرائیل اس خطہ میں Imperial Power کی Subsidiary Imperial Power ہے۔ اور سعودی عرب کو اس خطہ کی Colonial Power بننے کی شہ دی جا رہی ہے۔ اسرائیل کے ڈپٹی وزیر براۓ ریجنل کو آپریشن Ayoob Kara نے ایک نئے مڈل ایسٹ Coalition کی تشکیل میں اپنے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ جس میں اسرائیل اور خطہ کی سنی حکومتوں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا جاۓ گا۔ اسرائیلی ڈپٹی وزیر براۓ ریجنل کو آپریشن Ayoob Kara نے ایک امریکی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا

“We have the chance now to make a coalition with Saudi Arabia, North African states, and Turkey, we need the U.S. with us, but—they first want the Palestinians to become partners with Israel. We could be waiting another 50 years. Why do we have to wait?” “I think we now have the chance to open a new relation with what is referred to as the Saudi [Sunni] coalition.”

اور یہ اسرائیلی سعودی coalition مڈل ایسٹ میں نئی جنگیں شروع کرنے کا آغاز ہے۔ اسرائیلی سعودی coalition مڈل ایسٹ میں “Divide and Rule” کی سیاست سے اپنا غلبہ قائم کرے گا۔ اور خطہ میں شیعہ سنی فرقہ پرستی کی لڑائی ایک “Permanent Institution” بن جاۓ گی۔         

     


                                                                                                                                                              

No comments:

Post a Comment