Monday, September 28, 2015

Same Mistakes

عالمی امور

 Same Mistakes

مجیب خان






      پہلی بار جب غلطی کی جاتی ہے تویہ کہہ کر د رگزر کرد یا جاتا ہے کہ آیندہ یہ غلطی پھر نہیں کرنا۔ لیکن دوسری مرتبہ جب وہ ہی غلطی پھر کی جاتی تویہ کہا جاتا ہے بڑے احمق  Idiot ہو۔ پھر وہ ہی غلطی کردی ہے۔ اب تیسری مرتبہ یہ غلطی مت کرنا۔ لیکن پھر تیسری مرتبہ بھی جب وہ ہی غلطی کی جاتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے بڑے Bastard ہو تیسری مرتبہ پھر وہ ہی غلطی کی ہے۔ اب عالمی طاقتوں نے Rwanda میں خانہ جنگی کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا تھا۔ Rwanda میں چار سال تک خانہ جنگی کے دوران تقریبا ایک ملین لوگ مارے گئے تھے۔جس کے بعد عالمی طاقتوں نے یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ ایسی صورت حال پیدا ہونے پر فوری مداخلت کی جائےگی۔ اور انتظار نہیں کیا جائے گا۔ پھر باسنیا میں سربیہ کی مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کی مہم میں جو تین سال تک جاری رہی تھی۔ایک لاکھ سے زیادہ باسنین Bosnian ہلاک ہوئے تھے۔ جس کے بعد عالمی طاقتوں نے سربیہ کے خلاف فوجی کاروائ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور یہ عہد ایک بار پھر کیا گیا تھا کہ آئندہ انسانیت کے خلاف کرائم کو روکنے کے لیے فوری مداخلت کی جاۓ گی۔ کانگو   Congoکی خانہ جنگی کو دنیا کی ایک بڑی خونی خانہ جنگی کہا گیا تھا۔ جس میں پانچ ملین Congolese مارے گۓ تھے۔ يہاں انسانیت کو بچانے کا کام اقوام متحدہ کی امن فوج کو دے د یا تھا۔
       نائین الیون کے بعد امریکا نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ افغانستان میں اس نے جو غلطی کی تھی اب وہ غلطی نہیں کی جاۓگی۔پھرعراق میں امریکا نے جو غلطی کی تھی ۔اس کے بعد کہا گیا تھا یہ غلطی پھر نہیں کی جاۓ گی۔ لیکن پھر ان غلطیوں کے سنگین نتائج دیکھنے کے باوجود تیسری مرتبہ وہ ہی غلطی لیبیا میں کی تھی۔ حالانکہ لیبیا میں اس وقت انسانی بحران پیدا نہیں ہوا تھا۔ لیکن یہ کہہ کرمداخلت کی گی تھی کہ قدافی کی فوجیں بن غازی میں اپنے مخالفین کی نسل کشی کرنے جارہی تھیں۔ اور اسے روکنے کے لۓ امریکا،برطانیہ اور فرانس نے فوجی کاروائ کی تھی۔لیکن یہاں ان کی قبل از وقت فوجی مداخلت نے لیبیا کو خوفناک خونی خانہ جنگی میں دھکیل د یا ہے۔اور افغانستان میں جو غلطی کی گئ تھی اسے لیبیا میں دہرایا گیا ہے۔ چار سال ہورہے ہیں اور لیبیا ابھی تک اس خانہ جنگی سے نکل نہیں سکا ہے۔ لیبیا ایک نیا باسنیا بن گیا ہے۔ریاست کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ لیبیا نے چالیس سال میں جتنی ترقی کی تھی ۔وہ کھنڈرات بن گئ ہے۔ ہزاروں لوگ خانہ جنگی میں مارے جاچکے ہیں۔ لاکھوں لوگ لیبیا چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ لیکن امریکا،برطانیہ اور فرانس نے بن غازی میں صرف نسل کشی کے خوف سے قدافی حکومت کے خلاف فوجی مداخلت کرکے لیبیا کو تاریک قوتوں کے حوالے کردیا ہے۔
      اور شام میں حکومت کے خلاف ان قوتوں کی پشت پناہی کی جارہی ہے۔ جنہوں نے انسانیت کے خلاف کرائم میں ملاسوئچ کی فوجوں کے ریکارڈ توڑ د ئیے ہیں۔ شام میں اس وقت تک ڈھائ لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔ اور لوگوں کی ہلاکتوں کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔جبکہ لاکھوں لوگ شام چھوڑ کر چلے گۓ ہیں۔ اور ہمسایہ ملکوں میں مہاجر کیمپوں میں چار سال سے انتہائ اذ یت ناک حالات میں ہیں۔ شام بھی کھنڈرات بن گیا ہے۔ مسلمان پہلے ہی ترقی میں پیچھے ہیں۔ اور جن ملکوں نے کچھ ترقی کرلی تھی ۔ ان کی ترقی دہشت گردوں کی پشت پناہی کرکے چھین لی گئ ہے۔                                                                                               
       لیکن نام نہاد مہذب دنیا نے شام کے لوگوں سے کیا یہ پوچھا تھا کہ وہ شام میں کس طرح کی تبدیلی چاہتے ہیں؟کیا وہ شام میں سیاسی تبدیلیاں سیاسی طریقوں سے چاہتے ہیں؟ یاخونریزی کے ذریعے حکومت کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں۔کیا شام کے عوام کی اکثریت حکومت کے ساتھ ہے یا خلاف ہے؟اگر د نیا کی قدریں مہذب ہوتی تو باغیوں کو ہتھیار اور تربیت دینے سے پہلے شام کے عوام کی راۓ ضرور لی جاتی۔ لیکن مہذب دنیا نے سعود یوں اور خلیج کے مطلق العنان حکمرانوں سے مشورہ کرکے شام کی گرد ن پرچھری رکھ دی تھی۔ شام میں صرف Rebels کو ہتھیار اور تربیت دی جارہی ہے۔ لیکن اس کی ضمانت نہیں ہے کہ دمشق میں حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد یہ دہشت گرد ہوں گے؟لیبیا میں مہذب دنیا نےRebels کی اخلاقی مدد کی تھی لیکن بعد میں وہ دہشت گرد نکلے تھے۔لیکن یہ مہذب دنیا کا مسلہ نہیں ہے۔ دہشت گردی دنیا کا مسلہ ہے۔اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں دنیا کو امریکا سے تعاون کرنا ہوگا۔؟ آخر دنیا کب تک تعاون کرتی رہے گی۔جبکہ شام میں عراق میں لیبیا میں یمن میں دہشت گردوں کے حوصلے بلند رکھنے کے لۓ جنگیں جارہی ہیں۔
       ڈھائ لاکھ شامی مارے جانے کے بعد امریکا کی یہ اخلاقی ذمہ داری تھی کہ باغیوں کی حمایت ختم کرکے ایک سیاسی عمل کا راستہ اختیار کیا جاتا اور دمشق حکومت کے مخالفین کو اس عمل میں داخل ہونے پر مجبور کیا جاتا۔ لیکن سب جیسے شامیوں کی ہلاکتوں اور ریاست کی بربادی میں اپنا رول ادا کررہے ہیں۔ امریکا برطانیہ اور فرانس نے سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا کیونکہ سمجھوتہ کیا ہے۔اور اس کےعوض سعودیوں اور خلیج کے حکمرانوں نے امریکا برطانیہ اور فرانس سے شام میں حکومت کے خلاف باغیوں کی خونی جنگ کی حمایت جاری رکھنے کی ضمانت لی ہے۔اور اس کی ضمانت بھی لی ہے کہ بشرالسد حکومت کے خاتمہ سے کم کوئ بات نہیں ہوگی۔ کھربوں ڈالرکے ہتھیاروں کی تجارت پر انسانیت کا سودا ہوگیا ہے؟ اب اگر نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ملبے کی تصویریں ایک طرف رکھی جائيں اور دوسری طرف شام میں لوگوں کے گھروں اورعمارتوں کےملبے کی تصویریں رکھی جائیں اور پھر سوال کیا جاۓ کہ یہ دہشت گردی کیوں نہیں ہے؟
       استحصالی طاقتیں ہر صورت حال کا استحصال کرنے کا ہنر رکھتی ہیں۔ شام میں خانہ جنگی کو طول دے کر شامیوں کو ملک چھوڑنے  پر مجبور کیا گیا ہے۔ایک ملین سے زیادہ شامی ترکی ارد ن اور لبنان میں مہاجر کیمپوں میں انتہائ بدترین حالت میں ہیں۔اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ چار سال ہوگۓ ہیں لیکن ان کا کوئ پرساں حال نہیں ہے۔ میزبان ملکوں کی معشیت کے لۓ بھی یہ ایک بوجھ بن رہے ہیں۔ اس صورت حال کا حل ہیومن ٹریفکنگ میں نکالا گیا ہے۔ لیکن یہ ہیومن ٹریفکرز کون ہیں؟ اور کس کے ایما پر کام کررہے ہیں؟ جو شامی مہاجرین کو یورپ لے جارہے ہیں۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں Human Trafficking کوSlave Trade کہا جاتا تھا۔ لیکن اکیسویں صدی میں اسے  ہیومن ٹریفکنگ کہا جاتا ہے۔
       یوروپی یونین کے ملکوں نے ایک کوٹہ سسٹم کے تحت لاکھوں شامیوں کو اپنے انڈسٹریل نظام میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جرمنی یوروپ کی سب سے بڑی معشیت ہے ۔ لہذا جرمن حکومت نے اپنی کمپنیوں اور کارپوریشنوں کی ضروت کے مطابق آٹھ لاکھ شامیوں کو لینے کا اعلان کیا ہے۔ فرانس نے تیس ہزار اور برطانیہ نے بیس ہزارشامیوں کولینے کا اعلان کیا ہے۔جبکہ امریکا نے ایک لاکھ شامیوں کو لینے کا اعلان کیا ہے۔ اور دوہزارسترہ تک مزید شامیوں کو لینے کا کہا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دوہزار سترہ تک شام میں امن کی کوئ توقع نہیں رکھی جاۓ ۔ حالات شاید اسی طرح رہیں گے۔اور جس طرح دوہزار نو میں امریکا کا نیا صدر بننے کے بعد افغان جنگ صدر اوبامہ کی جنگ بن گئ تھی ۔ اسی طرح دوہزارسترہ میں شام کی خانہ جنگی امریکا کے نۓ صدر کی جنگ ہوگی؟        
                   
                                                                                                                             
                                                          

                        

Wednesday, September 23, 2015

کشمیر ہی نہیں بھارت کے عزائم بھی مسلہ ہے


علاقائ امور

کشمیر ہی نہیں بھارت کے عزائم بھی مسلہ ہے

مجیب خان




وزیراعظم نوازشریف نے وزیراعظم نریندر مودی کے لئے پہلے آموں کی پٹیاں بھیجی تھیں۔ پھرروس میں کانفرس  کے دوران سائیڈ لائن پر وزیر اعظم مودی کےآگے سرجھکا کر اور آنکھیں بند کرکے کھڑے ہوگئے تھے۔ پھر پاکستان کے کمانڈروں نے تین روزتک دہلی میں بھارتی کمانڈروں کےساتھ سرحدی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لئے مذاکرات کئے تھے۔ جس کے بعد دونوں ملکوں کے کمانڈروں میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ آئندہ ایک دوسرے پر گولہ باری اور فائرنگ کے واقعات سے گریز کیا جا‏ئے گا۔ارو دونوں ملک اس معاہدے پر عملد رامد کریں گے۔
لیکن پاکستان کے آموں کی مٹھاس وزیراعظم مودی کے روئیے میں مٹھاس لاسکی۔اور نہ ہی وزیراعظم نوازشریف کا وزیراعظم کے آگے سرجھکا کر اور آنکھیں بند کرکے مودبانہ کھڑاہونا ان کے سیاسی برتاو میں لچک پیدا کرسکا تھا۔ادھر پاکستان کےکمانڈ ر دہلی میں بھارتی کمانڈروں کے ساتھ فائربندی کا معاہدہ کرنےکے بعد ابھی اسلام آباد ائیرپورٹ پرطیارےسےباہر آئےتھے کہ بھارتی فوجوں نے پاکستان کی سرحدوں کے اندر فائيرنگ شروع کردی تھی۔ بھارت کی یہ کیا پالیسی ہے؟ بھارت جنگ چاہتا ہے؟امن چاہتا ہے؟يا برصغیر کو جنگ اور امن کے ماحول میں رکدنا چاہتا ہے؟جبکہ پاکستان پہلے ہی ایک جنگ لڑرہاہے اور دوسری جنگ اس کے لئے مشکل نہیں ہوگی۔ اور بھارت کو پتہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ جنگ اس کے لئے اقتصادی خود کشی ہوگی۔ بھارت نے بیس پچیس سالوں میں جو ترقی کی ہے وہ پاکستان کے ساتھ صرف بیس پچیس روزکی جنگ میں پچیس تیس سال پیچھےہو جائے گی  اور بھارت یہ جانتاہے۔
            پاکستان کے سیاستدانوں کی کمزوریوں سے بھارت دراصل فائدہ اٹھا رہا ہے۔سیاسی حکومت بھی کمزور ہے۔ اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی سیاست بھی کمزور ہے۔سابقہ سیاسی حکومت بھی موجودہ حکومت سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔ پانچ سال تک سابق حکومت وزیراعظم من موہن سنگھ سے پاکستان آنے کےلئے خوشامدیں کرتی رہی تھی ۔ اور اب وزیراعظم نوازشریف وزیر اعظم مودی کے آگے سرجھکا کر اور آنکھیں بندکرکے دلہن بن جاتے ہیں۔ بھارتی اس لئے اکڑ رہے ہیں۔ اور پاکستان کےسرپرچڑھے جارہے ہیں۔ ادھر امریکا کا لاڈ اور پیار بھی انھیں بگاڑ رہا ہے۔ بھارت پاکستان کی سرحدوں کے اندر بمباری اور فائرنگ سے فوج کو جیسے ادارے کے اندررکھنے میں کمزور سیاستدانوں کی مد د کررہا ہے؟
        بھارتی رہنماوں سے صرف ذوالفقارعلی بھٹو جیسا لیڈر ہی بات کرسکتا تھا۔ جو د ہلی سینہ تان کر گئےتھے۔ پاکستان کی نوے ہزار فوج بھارت کی تحویل میں تھی۔ اور اندرا گاندھی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھٹونے اپنے فوجیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔اور بھٹو نے اند راگاندھی کو فوجیوں پر جنگی جرائم میں مقدمہ چلانے سے بھی متنبہہ کیا تھا۔ بھٹو کے دبدبے کو دیکھ کر اندراگاندھی سوچنے لگی تھیں کہ کیا واقعی جنگ بھارت نے جیتی ہے۔ بھٹو کی شخصیت میں ایک مضبوط قیادت کا رویہ دیکھ کر اند راگاندھی ڈھیلی پڑگئ تھیں۔اند راگاندھی نے میدان جنگ میں جوکامیابی حاصل کی تھی بھٹو نے سیاست کے محاذ پر اسے بھارت کی ناکامی میں بدل دیا تھا۔
      پاکستان میں ایسے لیڈروں کا فقدان ہونے کی وجہ سے بھارت پاکستان کی کامیابیوں کےسامنے رکاوٹیں بنا ہوا ہے۔اور پاکستان نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں انھیں ناکام بنا رہا ہے۔لیکن بھارت پاکستان کی مارکیٹ چاہتا ہے۔اورپاکستان کے ساتھ تجارت کا فروغ بھی چاہتا ہے۔اور پاکستان سے بھارت کو ایک پسندیدہ ملک تسلیم کروانا چاہتا۔لیکن پاکستان کی کامیابیوں کواستحکام دینے میں بھارت کو کوئ دلچپسی نہیں ہے۔کراچی میں رینجرزکے آپریشن کے دوران یہ ثبوت ملے ہیں کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث تھی۔کراچی میں ایک اعلی پولیس افسرنے بھی اپنی تحقیقات کےبعد یہ رپورٹ دی تھی کہ کراچی میں دہشت گردوں کو بھارت میں تربیت دی گئ تھی۔ یہ دہشت گرد تربیت لینے بھارت جاتے تھے۔ یہ شواہد بڑی تفصیل سے بیان کئے گئے تھے۔جبکہ برطانیہ کی MI6 بھی اس میں ملوث تھی اور اس کے بھی ثبوت دئے گئےتھے۔برطانیہ نے اپنی صفائ میں ایک رپورٹ تیار کی اور پھراسے بی بی سی پر دیکھایا کہ بھارت کس طرح پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث تھا۔ بی بی سی نے یہ رپورٹ دیکھانے سے پہلے بھارتی حکومت کو اعتماد میں لیا ہوگا۔ اس لئے بھارتی حکومت نے بی بی سی کی اس رپورٹ پرخاموشی اختیار کی تھی۔پاکستان میں بی بی سی کی رپورٹ پرمیڈیا کی حد تک کئ روزشور رہا۔حکومت کے بعض وزرا نے بھارت کی مذمت میں بیان دئیے تھے۔حکومت نے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی سرگرمیوں میں بھارتی را کےملوث ہونےکے ثبوت اقوام متحدہ میں پیش کرنے کا اعلان کیا   تھا۔اور یہ معاملہ بظاہر ٹھنڈا پڑگیا ۔وزیراعظم نوازشریف کی حکومت یہ کہہ تو رہی ہے کہ وہ دہشت گردی کے واقعات میں بھارتی را کے ملوث ہونے کے مسلے کو اقوام متحدہ میں اٹھائےگی۔لیکن اس وقت اسلامی ملکوں میں غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں شکایتوں سے اقوام متحدہ کی تھالی بھری ہوئ ہے۔     
          ایسے اہم اور احساس امور کو صرف بیانات کی حد تک نہیں رکھا جاتا ہے بلکہ کچھ ٹھوس کام کئے جاتے ہیں۔وزیراعظم نواز شریف پارلمینٹ کا ایک مشترکہ اجلاس بلاتے اور غیرملکی سفیروں بلخصوص نیٹوملکوں کے سفیروں کوپارلمینٹ کی گیلری میں بیٹھاتے۔اور پھر ایک زور دار تقریرمیں ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنا کیس ان کے سامنےپیش کرتے کہ افغانستان میں بھارت کی پاکستان کے خلاف مسلسل سرگرمیوں کی وجہ سےہم سب کوکس طرح شکست ہوئ ہے ؟ امریکا نے ہمیں جب AFPAK کہا تھا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمارا امن افغانستان کے استحکا م سے منسلک تھا۔
        لیکن بھارت جو پاکستان کے امن کو تہس نہس کرنے کی سرگرمیوں میں مصروف تھا۔ اس صورت میں افغانستان میں استحکام کیسے آسکتا تھا۔ بھارتی را کے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کےثبوت حکومت نے امریکا اور نیٹو ملکوں کے سول اور فوجی حکام کوفراہم کئے تھے۔ پاکستان نے یہ ثبوت سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کو بھی دیئے تھے۔ لیکن آخر میں ہمیں جیسے یہ تاثر ملا تھا کہ افغانستان کو استحکام دینے سے زیادہ انھیں پاکستان کا امن تباہ  کرنے میں دلچپسی تھی۔
        افغان جنگ کےچودہ سال بعد ہمیں افغانستان میں کیا نظر آرہا ہے۔ہم سب نے ایک دوسرے کو ناکام کیا ہے۔ازبک اور تاجک جو بھارت کے زیادہ قریب تھے بھارت نے انھیں ناکام کیا ہے۔ ازبک اور تاجک نے پختونوں کو ناکام کیا ہے۔پختونوں نے اپنی پختون حکومت کو ناکام کیا ہے۔افغان وارلارڈ نے اپنے عوام کو ناکام کیا ہے۔ امریکا نے پاکستان کو ناکام کیاہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے عوام کو مایوس کیا ہے۔ نیٹو نے امریکا کو ناکام کیا ہے۔اور طالبان نے اسلام کو ناکام کیا ہے۔ اور یہ افغان جنگ کی ناکامی کے حقائق ہیں۔
        وزیراعظم پھر امریکا سے مخاطب ہوکر کہتے کہ پاکستان نے بش انتیظامیہ کی ان یقین دہانیوں کے بعد بھارت کے ساتھ اپنی سرحدوں سے ستر ہزار فوج ہٹا کر افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر لگائ تھی۔بش انتیظامیہ نے پاکستان کو یہ ضمانت بھی دی تھی کہ پاکستانی فوجوں کی  شمال مغربی سرحدوں پر طالبان اور القاعدہ کے خلاف کاروائیوں کے دوران بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔لیکن بھارت تین ماہ سے ہماری مشرقی سرحد پر مسلسل شیلنگ کررہا ہے۔ہمارے متعد د شہری اس بھارتی جارحیت کے نتیجے میں شہید ہو گئے ہیں۔ ہماری فوجیں اس وقت شمال مغربی سرحدوں پر د ہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب مشن میں مصروف ہیں اورہماری مشرقی سرحد پر بھارت کی شرانگیزیاں دہشت گردی ہے۔لیکن پاکستان کو بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہےکہ امریکا نے ہم سے جو عہد کیا تھا اسے پورا نہیں کیا ہے۔حالانکہ اوبامہ انتظامیہ نےافغان جنگ کو اپنی جنگ بنالیا ہے۔ لیکن بش انتظامیہ نے اس جنگ میں پاکستان سےجوعہد کیا تھا۔ اسے پورا نہیں کیا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ کوپاکستان کی سرحدوں پربھارت کی مسلسل شرانگیزیوں کو روکنا چاہیے تھا۔
     ہم جانتے ہیں کہ بھارت ہمیں اقتصادی ترقی میں آگے آنے نہیں دینا چاہتا ہے۔ہم بھارت کے مقابلے میں ذیادہ تیزی سے ترقی کرسکتے ہیں۔کیونکہ ہماری آبادی بھارت کے مقابلے میں بہت کم ہےاقتصادی ترقی کا ایک ڈھانچہ ہمارے ملک میں موجود ہے۔ جبکہ بھارت کو اقتصادی ترقی کے لئے ایک ڈھانچہ تشکیل دینے کےلئے اقتصادی کرنا پڑرہی ہیں ۔دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر ہی ایک تنازعہ نہیں ہے۔ بھارت کے عزائم بھی ہمارے لئےتنازعہ بنے ہوئے ہیں؟
           


Friday, September 18, 2015

Persona Non-Grata

عالمی امور

Persona Non-Grata

مجیب خان




      سوا ل یہ نیہں ہے کہ یورپ کو د رپیش امیگرینٹ کا مسلہ امریکا اور یوروپ کو مل کر حل کرنا ہوگا؟ سوال یہ ہے کہ یہ مسلہ پیدا کیسے ہوا ہے؟اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس ڈرامہ کی اسکرپٹ کس نے لکھی ہے؟ تقریبا سترہ سال قبل کوسوو میں دنیا کو ایک ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہوا تھا۔ جب ایک بہت بڑی تعداد میں کوسوو کے شہریوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا تھا۔اوردنیا نے سربیہ کو اس انسانی بحران کا ذمہ دار ٹھرایا تھا۔اورسرب رہنما ملاسویچ کے خلاف فوجی کاروائ کی گئ تھی۔اور اس وقت یہ عہد بھی کیا گیا تھا کہ انسانیت کے خلاف کرائم آیندہ برداشت نہیں کئے جائیں گے۔اور دنیا اس کےخلاف کاروائ کرے گی۔
     امریکاان کے ساتھ کھڑا ہے جنہوں نے مصر میں ان کی جمہوریت چھین لی ہے۔جو آمریت میں بھی انھیں زندہ نہیں رہنے دے رہے ہیں۔ان کی زندگیاں تہس نہس کردی ہیں۔یہ ان کا نائین الیون ہے۔ان میں ہر خاندان اور ہر فرد کی ایک د ردناک داستان ہے۔ ان میں بہت سے سمندر میں ڈوب گئے ہیں۔ بعض نے ریلوے ٹریک کے ساتھ چلتے چلتے دم توڑدیا تھا۔ بعض نے بھوک اور پیاس سے دم توڑدیا تھا ۔ آخر ان سب کا قصور کیا تھا جس کی انہیں یہ سزا دی گئ ہے؟ یہ بےگناہ لوگ ہیں۔جو صرف نفرتوں اور انتقام کی سیاست کا شکار بن گئے ہیں۔یہ آمریت میں بھی زندہ تھے اور جمہوریت میں بھی زندہ رہے سکتے تھے۔لیکن حکومتیں تبدیل کرنے کی فوجی مہم جوئیوں اور دہشت گردوں کی مہم جوئیوں میں ان کے لئے زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہاں تئیسس سال سے لوگوں پر صرف بمباری کی جارہی ہے۔ یہ سلسلہ عراق سے شروع ہوا تھا اور ابھی تک جاری ہے۔
     عراق پر فوجی حملے کی تیاری کے دوران جنرل ٹامی فرینک نے جو عراق آپریشن کے کمانڈر تھے۔ایک ٹی وی انڑویو میں انھوں نے کہا تھا کہ عراق ایک مالدار ملک ہے۔ عراق میں ایک درمیانہ طبقہ ہے۔ لوگ بھی پڑھے لکھے ہیں۔صدام حسین کا اقتدار ختم ہونےکےبعد عراق بڑی تیزی سے ترقی کرے گا۔یہ ایک جمہوری معاشرہ بن جائے گا۔اور دوسرے عرب ملکوں کے لۓیہ ایک مثالی ملک ہوگا۔جس کے عرب دنیا پر گہرے اثرات ہوں گے۔اورصدر جارج بش نے دنیا سے یہ کہا تھا کہ عراق میں صدام حسین کو اقتدارسے ہٹانے کے بعد دنیا سے ایک بڑے خطرے کا خاتمہ ہوجاۓگا۔اور صدام حسین کے بعد دنیا بہت پرامن  ہوجاۓ گی۔اور عرب اسلامی دنیا سے صدر بش نے یہ کہا تھا کہ عراق کا مسلہ حل کرنے کےبعد ان کی انتیظامیہ فلسطین اسرائیل تنازعہ حل کرے گی۔ لیکن عراق میں اس امریکی مہم جوئ کے جو نتائج سامنے آۓ ہیں ۔ وہ صدام حسین سے دنیا کو خطروں سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔عراق،شام بلکہ یہ سارا خطہ دہشت گردی جوابی دہشت گردی،جنگوں، ڈرون حملوں، بموں، راکٹوں،میزائیلوں، ایف16 طیاروں، ہیپاچی ہیلی کاپڑروں کے استعمال اور حملوں کا ایک مثالی معاشرہ بن گیا ہے۔
      دنیا جب ایک گلوبل ولیج بن گئ ہے اور امریکا کو اس گلوبل ولیج کی ایک واحد سپر پاور تسلیم کیا گیا تھا۔پھر گلوبل ولیج میں امن، استحکام،انسانیت کی سلامتی اور بقا جیسے مسلے امریکا کی بھاری ذمہ داری بن گئے تھے۔لیکن امریکا میں واحد سپرپاور ہونے کا اتنا زیادہ گھمنڈ اور تکبر آگیا تھا کہ امریکا اپنی اخلاقی اورقانونی قدریں بھول گیا تھا۔جمہوریت کے افہام وتہفیم اور انکساری کے اصولوں پر پاور کا تکبر غالب آگیا تھا۔ اور گلوبل ولیج میں امریکی پاور تیسری دنیا کے ایک فوجی ڈکٹیٹرکی طرح رول ادا کرنے لگی تھی۔ صدرجارج بش عوام کے صدر سے زیادہ فوج کے کمانڈرانچیف بن گئے تھے۔تیسری دنیا کے فوجی کمانڈر انچیف جس طرح بائیں بازو کے خلاف بھرپور طاقت کا استعمال کرتے تھے۔ انہیں اذیتں دینے کا انھوں نے ایک نظام کیا تھا۔بالکل اسی طرح نائین الیون کے بعد گلوبل ولیج میں اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف بھرپورطاقت کا استعمال کیا گیا تھا۔خفیہ جیلیں بنائ گئ تھیں۔اذیتں دینے کا نظام قائم کیا گیا تھا۔چلی میں پنوشے کی فوجی حکومت جس طرح لوگوں کو خوفزدہ کرتی تھی کہ کمیونسٹ آجائیں گےاور ان کے اثاثے، دولت،کاروبار اور جائيداد سب قومی ملکیت میں لےلیں گے۔اسی طرح پہلے صدام حسین کے ایٹمی ہتھیاروں سے لوگوں کو خوفزدہ کیا گیا تھا کہ چھ منٹ میں صدام حسین اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو یکجا کرسکتے ہیں اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کو تباہ کرسکتے ہیں۔پھر بن لادن سے لوگوں کو خوفزدہ کیا گیا تھا۔اور اب داعش سےلوگوں کو خوفزدہ کیا جارہا ہے کہ یہ امریکا میں Caliphate قائم کرنا چاہتے ہیں۔حالانکہ عرب عوام ان کے ہاتھوں میں امریکا کے ہتھیاروں سے خوفزدہ ہوکر بھاگ رہے ہیں۔                                             
     صدام حسین، کرنل قدافی اور بشرالسد ڈکٹیٹر تھے۔ لیکن بادشاہ اورخلیفہ نہیں تھے۔اور مذہبی قدامت پسند بھی نہیں تھے۔موڈریٹ نظریات کے حامی تھے۔یہ اسلامی ریاست قائم کرنے والوں سے اس وقت سے لڑرہے تھے کہ جب یہ مذہبی انتہاپسند سردجنگ میں امریکا کے انتہائ قریبی اتحادی تھے۔صدام حسین،قدافی اور بشرالسد نے عوام کو جمہوری حقوق سے محروم رکھا تھا۔ لیکن انھوں نے عوام کو اقتصادی خوشحالی دی تھی۔ انھیں تعلیم کی سہولتیں فراہم کی تھیں۔اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں دی تھیں۔تعمیراتی کام کئے تھے۔ سڑکیں اور پل بناۓ تھے۔عورتوں کو آزادی دی تھی۔عیسائ اور شیعہ حکومت میں برابر کے شامل تھے۔عیسائیوں کی عبادات گاہوں کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا گیا تھا۔کرنل معمر قدافی نے اپنے پیٹرو ڈالر سے عیسائ افریقہ میں اقتصادی ترقی کے منصوبے شروع کئے تھے۔قدافی حکومت ہر سال افریقہ کے نوجوانوں کو اپنے خرچے پر اعلی تعلیم کے لئے بیرون بھیجا کرتی تھی۔جبکہ مغربی طاقتوں نے افریقہ کے وسائل کا صرف استحصال کیا تھا۔اور قدافی اپنے وسائل سے افریقہ کو اقتصادی ترقی دے رہے تھے۔یہ ایسے رہنما تھے جن سے سیاسی اصلاحات بھی کرائ جاسکتی تھیں۔بشرالسد کےوالد صدر حافظ السد بھی ایک ایسے ہی ڈکٹیٹر تھے جیسے صدام حسین اور کرنل قدافی تھے۔ لیکن صدر حافظ السد کی وفات پر صدر کلنٹن نے تعزیت کی تھی۔ اور سیکرٹری آف اسٹیٹ میڈیلین البرائیٹ کی قیادت میں ایک وفد نے دمشق میں حافظ السدکے جنازے کی رسومات میں امریکا کی نمائندگی کی تھی ۔آمریکا کے تمام نشریاتی اداروں نے ان کے جنازے کی رسومات براہ راست دیکھائ تھیں۔
         صدر بشرالسد ایک نوجوان رہنما ہیں۔برطانیہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔اور وہ اتنے بڑے ڈکٹیٹربھی نہیں ہیں کہ جتنے بڑے ان کے والد حا فظ السد تھے۔لیکن امریکا نے اسد حکومت کےساتھ مل کر شام میں سیاسی اصلاحات کے لۓکام کرنے کے بجاۓ دہشت گردوں کے ساتھ مل کر انھیں اقتدار سے ہٹانے کا راستہ اختیار کیا ہے۔صدربشرالسد کا اقتدار ختم ہوجاتا۔شام میں پھر کیا ہوگا؟ افغانستان سے سوویت فوجیں جانے کے بعد کیا ہوا تھا؟امریکا ان سے لڑرہا ہے جنہوں نے سوویت فوجوں کو افغانستان سے نکالا تھا۔شام میں صدر بشرالسد کے بعد پھر کیا ان سے لڑا  جاۓ گا۔جنہوں نے اسد حکومت کا خاتمہ کیا تھا؟
    دہشت گردی کی جنگ کی مضحکہ خیزی  ہ کہ جن ملکوں کو آنتہا پسندی پھیلانے کا تجربہ ہے۔وہ اس جنگمیں امریکا کے قریبی اتحادی ہیں۔ اور جن ملکوں ک انتہاپسندی ختم کرنے کا تجربہ تھا ان کے ر ہنماوں  کوقبروں میں پہنچا دیا ہے.                                                                                                                                                               

Monday, September 14, 2015

WAR OF "DO MORE"

       عالمی امور
      
       WAR OF "DO MORE"

        مجیب خان



          سیکرٹری دفاع آش (ash) کارٹر نے ترکی سے کہا ہے کہ وہ داعیش کے خلاف عالمی جنگ میں ڈو مور میں تیزی دیکھائے۔ سیکرٹری دفاع نے پینٹاگون میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ امریکا کو ترکی کے ائیر بیس سے فوجی آ پریشن کرنے کی اجازت دے دی گئ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ترکی کی حکومت کو ڈو مورکرنے کی ضرورت ہے۔آش کارٹر نے کہا شام اور عراق جنگ زدہ جیسے ملکوں کا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے ترکی کو اپنی سرحدیں کنٹرول کرنا چاہیے۔داعیش ان سرحدی علاقوں کو رسد اور جنگجوؤں کو محاز پر لے جانے کے لئے استعمال کرے گی۔اور ترکی انھیں کنٹرول کرنے کے لئے ڈو مور do more تیز کرے۔
         سیکرٹری دفاع کارٹر نے اپنے بیان میں جو لفظ استعمال کئے ہیں ۔پاکستانی ان سےاچھی طرح واقف ہیں۔صدر بش کے سیکرٹری دفاع، سیکرٹری  خارجہ اور قومی سلامتی امور کے مشیر بالکل اسی طرح پاکستان سے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدیں کنٹرول کرنے کے لئے بھی  do more کاکہتے تھے۔  پاکستان میں اس do more کا جواب بھی دہشت گرد پھر do more سے دیتے تھے۔
          دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ اکیسویں صدی کی تاریخ میں ایک مذاق دیکھا جائے گا۔دنیا کےلئے دہشت گردی کی جنگ بھی Ebola کی بیماری بن گئ ہے۔لوگ اس جنگ سے تنگ آکر اپنے ملکوں اور گھروں سے ان ملکوں میں پناہ لینے بھاگ رہے ہیں۔ جنہوں نے ان پر یہ جنگ مسلط کی ہے۔ ڈو مور کیا دہشت گردی ختم کرنے کی حکمت عملی ہے؟ یا ڈو مور ہتھیاروں کی صنعت کے   لئےمنافع  کمانے کی حکمت عملی ہے؟
          چودہ سال میں ایسے اسلامی ملکوں کو جن کا نائین الیون کو امریکا کے خلاف دہشت گردی سے کوئ تعلق نہیں تھا۔ انھیں کس طرح پھر ڈو مور میں بھرتی  کیا گیا تھا؟ پاکستان ان ملکوں میں پہلا ملک تھا جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔لیکن پھر دہشت گردی کی یہ جنگ امریکا نے اپنے گلے سے اتار کر پاکستان کے گلےمیں ڈال دی۔اور دہشت گردی کی یہ جنگ پاکستان کی جنگ بن گئ تھی۔ عراق میں صدام حسین کو اقتدار سے ہٹا کر وہاں دہشت گردی کو عربوں کی جنگ بنا دیا۔ پھر لیبیا میں کرنل قدافی کا اقتدار ختم کرکے وہاں دہشت گردی کو آفریقی ملکوں کی جنگ بنا دیا۔لیکن مصر میں ایک جمہوری حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد وہاں دہشت گردی کو اسرائیل کی جنگ بنانے سے روکا گیا ہے۔ اور اب شام میں ایک شخص کو دہشت گردی کے زریعے اقتدار سے ہٹانے کی جنگ اب جنگ عظیم بننے کے دہانے پر پہنچ گئ ہے۔
           اور اب ترکی بھی ایک دوسرا پاکستان بن رہا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ اب ترکی کی جنگ بن گئ ہے۔صدر طیب اردگان نے صدر جنرل پرویز مشرف کی جگہ لے لی ہے۔ صدر جارج بش کے ساتھ کھڑے ہونے سے قبل  صدر جنرل مشرف کی مقبولیت عوام میں ستر فیصد تھی۔پھر ان کی مقبولیت گر کر پینتیس فیصد رہے گئ تھی۔انتخابات میں انہیں بری طرح ناکامی ہوئ تھی۔اور آخر میں صدر مشرف  کو صدارت چھوڑنا پڑی تھی۔ صدر طیب اردگان اس وقت کچھ ایسے ہی حالات میں ہیں۔پارلیمانی انتخابات میں ان کی پارٹی کو بری طرح شکست ہوئ ہے۔عوام میں ان کی مقبولیت میں بڑی تیزی سے کمی آئ ہے۔ شام میں حکومت کے خلاف  دہشت گردی کی تحریک میں انہوں نے سعودی عرب، امریکا اور خلیج کی ریاستوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ایران کے سا تھ تعلقات خراب کر نے میں  انہوں نے اسرائیل کا موقف اختیار کیا ہے۔ لیکن اب ترکی بھی دہشت گردوں کا ٹارگٹ بن گیا ہے۔ اس سال ترکی میں دہشت گردی کے واقعات میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔جس میں سینکڑوں لوگ مارے گئے ہیں۔یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ امریکا پاکستان سے دہشت گردوں کے اڈے ختم کرنےپر زور دے دیتا ہے لیکن دوسری طرف شام میں حکومت کے خلاف دہشت گردوں کے اڈے اردن میں قائم ہیں ۔جہاں انھیں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔
           مشرف حکومت نے نائین الیون کے بعد امریکا کے ساتھ نئے تعلقات کی یقین دہانیوں کے بعد 180 ڈگری سے یو ٹرن لیا تھا۔لیکن صد اردگان نے دو ہزار بارہ میں سعودی عرب کے ساتھ نئے قریبی تعلقات کی یقین دہانی کے بعد 180 ڈگری سے یو ٹرن لیا تھا۔اس وقت شاہ عبداللہ سعودی عرب کے حکمراں تھے۔اور طیب اردگان وزیراعظم تھے۔ اس یوٹرن سے قبل ترکی صراط المستقیم کے راستہ پر تھا۔ ترکی نے ایران اور شام کے ساتھ اتحاد اور تعاون کا معاہدہ کیا تھا۔ جس میں تینوں ملکوں نے علاقائ امن اور استحکام کے لئے مل کر کام کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔ایران،ترکی اور شام کے ھماس اور حزب اللہ سے بھی قریبی رابطہ تھے۔ مصر میں ایک منتخب جمہوری حکومت آنے کے بعد ترکی اور ایران نے اس کاخیرمقدم کیا تھا۔ صدر محمد مرسی کے ساتھ ترکی اور ایران قریبی رابطہ رکھنے کو اہمیت دے رہے تھے۔اور یہ بہت ممکن تھا۔ایران ترکی اور صدر مرسی شام کی صورت حال کا کوئ سیاسی حل نکالنے میں کامیاب ہوجاتے۔لیکن سعودی  شاہ عبداللہ مرحوم نے صدر طیب اردگان کو ایسے کیا ہرے باغ دیکھائےکہ صدر اردگان بھی شام میں بشرالسددحکومت کے خاتمہ کےلئے سعودیوں کے ساتھ مطالبہ کرنے لگے ۔ ایران کے ساتھ بھی ترکی کے تعلقات خراب ہوگئے۔ شاہ عبداللہ اب دنیا سے چلے گئے۔مغربی طاقتوں نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کر لئے ہیں۔اسرائیل کی شہ پر سعودی عرب نے ایران کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت میں جو سخت موقف اختیار کیا تھا۔ وہ سعودی شاہ سلمان کے وائٹ ہاؤس میں صدر اوبامہ سے ملاقات کے بعد تبدیل ہوگیا ہے اور سعودی عرب نے ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے کی حمایت کر دی ہے۔ لیکن اردگان حکومت درست فیصلے ترک کرکے غلط مشوروں پر عمل پیرا ہونے کی اب ایک بھاری قیمت ادا کررہی ہے۔ صدر اردگان اب اپنی حکومت بچانے کی لڑائ لڑ رہے ہیں ۔ دوسری طرف ترکی کی سلامتی اور استحکام کی جنگ لڑرہےہیں۔تیسری طرف کردوں کی سرکشی سے لڑ رہے ہیں۔ترکی بھی ایک دوسرا پاکستان بن رہا ہے؟

Tuesday, September 8, 2015

کیا یہ مسلمانوں کی صدی ہے؟

         عالمی آفئر

         کیا یہ مسلمانوں کی صدی ہے؟
  
         مجیب خان


          1990 میں صدام حسین کی فوجوں نے کویت پر قبضہ کر لیا تھا۔ کویت شہر تقریباً خالی ہوگیا تھا۔ہزاروں کی تعداد میں کوتیوں نے ہمسایہ ملکوں میں پناہ لے لی تھی۔ان میں شاہی خاندان کے افراد بھی شامل تھے۔مغربی میڈیا میں کویت میں صدام حسین کی فوجوں کے ظلم و بربریت کی داستانیں سرخیاں بن رہی تھیں۔عراقی فوجوں کی بربریت کا ایک واقعہ صدر جارج ایچ بش نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ صدام کی فوجیں کویت شہر کے ایک ہسپتال میں Incubators سے معصوم بچوں کو نکال کر کس طرح پھینک رہی تھیں۔صدر بش نے اسے اتنے درد انگیز لہجے میں بیان کیا تھا کہ کانگریس یہ سن کر بڑی متاثر ہوئ تھی۔ اور کانگریس نے صدر بش کو فورآ عراق کے خلاف فوجی کاروائ کرنے کا اختیار دے دیا تھا۔ حالانکہ کویت شہر میں ایسا کوئ واقعہ نہیں ہوا تھا۔ واشگٹن میں کویت کے سفیر کی صاحبزادی کو سی آئ اے نے یہ بریفنگ دے کر سینٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی کے سامنے تصدیق کرنے بھیجا تھا۔
          اب ایک معصوم شامی بچہ اپنے باپ ماں اور پانچ سالہ بھائ کے ساتھ  جو شام میں مذہبی انتہا پسندوں  کی بربریت سے تنگ آکر شام سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔اور ہزاروں دوسرے شامی باشندوں کے ساتھ یوروپ میں پناہ لینے کیےلئے ایک کشتی میں سوار ہوئےتھے بدقسمتی سے یہ کشتی یوروپ کے قریب سمندر میں غرق ہوگئ ۔ اور یہ بچہ اس کا پانچ سالہ بھائ اور اس کی ماں سمندر میں  ڈوب گئے تھے۔ اور اس تین سالہ بچہ کو سمندر کی موجیں ساحل پر لے آئ تھیں۔یہ شامی بچہ یوروپ کی ساحل پر جس طرح مردہ پایا گیا تھا۔ اسے دیکھ کر ذہین میں یہ آرہا تھا کہ اس ننے مننے کو انسانیت کے دشمنوں نے جیسے Incubator سے نکال کر یہاں پھینک دیا تھا۔ اس مردہ بچے کی یہ تصویر یوروپ کے اخبارات میں ہرجگہ صفحہ اول پر شائع ہوئ تھی ۔سوشل میڈیا میں بھی یہ تصویر کئ روز تک دیکھی گئ تھی۔
           لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس المیہ پر امریک کا ردعمل مایوس کن تھا۔ انتظامیہ نے اس پر خاموشی اختیار کی تھی۔اور کانگریس نے اس پر جیسے منہ موڑ لیا تھا۔ اگر صدام حسین یا معمر قدافی اس صورت حال کے زمہ دار ہوتے تو ردعمل بڑا شدید ہوتا۔ شام،عراق اور لیبیا میں نام نہاد باغی دہشت گردوں کو ہتھیاروں کی ترسیل پر فورآ پابندی لگا دی جاتی۔اور انھیں  سیاسی مذاکرات سے تنازعہ کو حل کرنے کا کہا جاتا۔جیسے اسرائیل کے ساتھ تنازعہ میں ھماس سےکہا جاتا ہے۔
           اسلامی دنیا میں انسانیت کیے ساتھ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ اور کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے اکسیویں صدی مسلمانوں کی صدی نہیں ہے؟ عراق،شام ،لیبیا،یمن افغانستان بیس سے تیس سال پیچھےچلے گئے ہیں۔جبکہ بعض دوسرے اسلامی ملک اس لائن میں لگے ہوئے ہیں؟ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں  کہا گیا ہے کہ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں تیرہ ملین بچیے جنہیں برباد نسل بتایا گیا ہے اسکول سے محروم ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان میں بعض ممالک بالخصوص شام میں جہاں خواندگی کی شرح دنیا میں سب سےزیادہ تھی۔جن بچوں کو اس وقت تیسرے اور چوتھے گریڈ میں ہونا چاہیے تھا۔اب شاید ہی وہ کلاس روم میں جائیں گے۔ شام،عراق ،یمن اور لیبیا میں نو ہزار اسکول تباہ  ہوگئے ہیں۔ان بچوں کو باغی بنا کر ہتھیار ان کے ہاتھوں میں دے دئے گئے ہیں۔
           حالانکہ نائین الیون کے بعد صدر جارج بش نے یہ اعلان  کیا تھا کی جو ملک بھی دہشت گردوں کو پناہ دے گا۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت  کرے گا۔ دہشت گردوں کو ہتھیار اور تربیت دے گا آسے دہشت گرد ریاست قرار دیا جائے گا۔لیکن شام، لیبیا اور عراق میں پسندیدہ دہشت گردوں پر باغیوں کا لیبل لگا کر ان کی حمایت کی جارہی ہے۔ جو بے گناہ انسانیت کا قتل کررہے ہیں۔ وہ دہشت گرد ہیں۔لیکن اب نظر یہ آرہا کہ مظلوم انسانیت کے خلاف ضالم اور ظلم اتحادی بن گئے ہیں۔
          ابھی کچھ عرصہ تک یوروپ کو ڈرایا جارہا تھا کہ اسلام ویانا کے گیٹ پر پہنچ رہا ہے۔جس پر یوروپ کے دارلحکومتوں میں یہ کہا گیا تھا کہ یوروپ میں اسلامی خلافت قائم نہیں ہونے دی جائے گی۔یوروپ کا امریکا کے ساتھ اسلامی دہشت گردی کے خلاف ایک محاذ بن گیا تھا۔پھر ایک عرصہ سے عالمی میڈیا میں بالخصوص امریکا کے کارپوریٹ میڈیا میں یہ دیکھایا جارہا تھاکہ کس طرح یوروپ اور شمالی امریکا میں مسلم نوجوانوں کو بھرتی کیا جارہا تھا۔جو ان کے شہری تھے۔برطانیہ،فرانس، امریکا اور یوروپ کے دوسرے ملکوں میں  ایسے    مسلم نوجوانوں کے خلاف جو شام میں داعیش کے ساتھ اسلامی ریاست کے قیام کے لئے لڑنے گئے تھے،قانونی کاروائ کرنے کا کہا جارہا تھا۔ابھی یہ بحث جاری تھی کہ اسی اثنا میں ٹی وی کے اسکرین اور اخبارات کے صفحات پر عرب دنیا سے جوق در جوق لوگوں کے قافلے اپنے خطہ اور ملک کے حالات سے تنگ آکر اپنے خاندان کے ساتھ یوروپ کی طرف ہجرت کررہے ہیں۔ان میں بہت بڑی تعداد عرب نوجوانوں کی ہے۔لیکن ان میں کسی کو القاعدہ نظر آرہی ہے۔نہ ہی داعیش دیکھائ دے رہا ہے۔نہ ہی اسلامی انتہا پسندی نظر آرہی ہے۔یہ سب یوروپ کے شہریوں کی طرح ہیں۔ اور امن اور خوشحالی کی تلاش میں یہاں پہنچے ہیں۔ان لوگوں پر جنگیں اور انتشار مسلط کیا گیا ہے۔اور یہ حالات سے تنگ آکر اب   بھاگ رہے ہیں۔
          دہشت گردی کی یہ جنگ اب ایک معمہ بن گئ ہے۔سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ آخر کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے؟ عراق میں پہلے شیعہ ملیشیا کی القاعدہ کے خلاف  جنگ بتائ گئ تھی۔پھر اسے  سنی ملیشیا کی القاعدہ کے خلاف  لڑائ بتائ گئ تھی۔پھر اس لڑائ کو شیعہ سنی کی لڑائ بتایا جانے لگا۔ پھر اس لڑائ میں داعیش ایک نیا کردار بن کر داخل ہوگیا۔ ابتدا میں یہ بتایا گیا کہ داعیش القاعدہ کے خلاف لڑ رہی ہے۔ پھر یہ بتایا گیا کہ القاعدہ داعیش کے خلاف لڑرہی ہے۔پھر شام میں حکومت کے خلاف باغیوں سے کہا گیا کہ وہ القاعدہ کےساتھ مل کر پہلے داعیش کا خاتمہ کریں۔پھر یہ خبر آئ کہ داعیش اور القاعدہ مل کر شام کی حکومت کے خلاف باغیوں  سے جنہیں امریکا کی پشت پناہی حاصل ہےلڑرہی ہے۔اور اب امریکا نے اپنی ایک نئ حکمت عملی کا اعلان کیا ہے ۔جس میں شامی حکومت کے خلاف  اچھے باغیوں سے داعیش کے خلاف لڑنے کا کہا جائے گا۔ہاں،عراق میں شیعہ سنی اور ایران امریکا بھی داعیش سے لڑرہےتھے۔
         جتنے وسیع پیمانے پر مشرق وسطی سے نقل مکانی ہورہی ہے۔ اسے دیکھ کر یہ سوال اٹھتا ہیے کہ کیا ان دہشت گردوں کے زریعے مشرق وسطی کو اب  لوگوں سے خالی کرایا جا رہا ہے؟ آخر اس مہم کے در پردہ عزائم کیا ہیں؟  

Thursday, September 3, 2015

آصف علی زرداری جواب دیں

                  


         پاکستان کی داخلی سیاست
        
         آصف علی زرداری جواب دیں

         مجیب خان

 

        پاکستان میں تھرڈ کلاس اقتدار کرنے کی مثال قائم کرنے کے بعد
 سابق صدر آصف علی زرداری نے لندن سے یہ بیان جاری کیا ہے کہ نواز شریف نے ماضی سے کچھ سبق نہیں سیکھا۔انہوں نے 1990 کی دہائ کی سیاست کا پھر آغاز کردیا ہے۔انہوں نے ایک آنکھ سے واشنگٹن کی جانب اور دوسری آنکھ سے10ڈاؤننگ آسڑیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ نواز شریف طالبان کے قدرتی ساتھی ہیں۔ اور انہیں بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔سابق صدر زرداری نےکہا کہ نواز شریف  حقیقی دشمن  کو چیلنج کرنے کے بجائے پیپلزپارٹی اور دیگر سیاسی مخالفین کو نشانہ بنارہے ہیں۔ پھر انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے والےلہجے میں نواز شریف کو دھمکی دی کہ اگر انتقامی  سیاست کا یہ سلسلہ جاری رہا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔صدر زرداری نے تاہم یہ نہیں کہا کہ انھیں ایک دن جانا ہے۔ لیکن ہمیں یہاں رہنا ہے۔ نواز شریف کہیں نہیں جائیں گے بلکہ انکے ساتھ ہی رہیں گے۔اور جہاں تک سنگین نتائج کی زمہ داری کا سوال ہے۔تو 1990سے اس کے دونوں زمہ دار ہیں؟ 
        نظر یہ آرہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری زہنی طور پر عدم توازن کا شکار ہیں۔اوپر سے کرپشن کا خوف انھیں پریشان کئے ہوئے ہے۔ان کے سیاسی اسٹاک مسلسل گرتے جارہے ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی اب جماعت اسلامی کے مقام پر آگئ ہے۔عمران خان کی پارٹی کے سیاسی اسٹاک اوپر جارہے ہیں۔پاکستان کی سیاست پر اس وقت  پی ٹی آئ اور مسلم لیگ ن  غالب جماعتیں نظر آرہی ہیں۔ زرداری نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ماضی میں ہر حکو مت میں  پیپلزپارٹی کو ختم کر نے کی کوشش کی گئ تھی۔لیکن یہ زرداری حکومت تھی جس میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی کو ختم کیا گیا ہے۔اور پیپلزپارٹی کو زرداری کی پارٹی بنادیا ہے۔
        جنرل ضیاالحق کا فوجی اقتدار ختم ہونے کے بعد نوے کے عشرے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن حکومت میں آتی اور جاتی تھیں۔ان دونوں پارٹیوں نے جنرل ضیا حکومت کی افغان پالیسی تبدیل کی تھی اور نہ ہی مسجدوں اور مدرسوں کی انتہاپسندی کا نظام تبدیل کیا تھا۔ یہ بیسویں صدی کا آخری عشرہ تھا۔ لیکن دونوں سیاسی جماعتوں کے پاس پاکستان کو اکیسویں صدی میں لے جانے کا کوئ پروگرام تھا اور نہ ہی انھوں نے اس بارے میں کبھی سوچا تھا۔ پاکستان آج جن مسائل کا سامنا کررہا ہے۔ ان میں سے پیشتر مسائل نوے میں حل ہونا چاہئے تھے۔ لیکن اقتدار میں دونوں پارٹیاں صرف لوٹ کھسوٹ کے منصوبوں پر کام کرتی تھیں۔جس طرح وہ حکومت کرتی تھیں۔ نتائج بھی اسی طرح سامنے آتے تھے۔
         گیارہ سال بعد تیسری مرتبہ پیپلزپارٹی جب پھر اقتدار میں آئ تھی تو اس کے قائدین نے یہ سمجھا تھا کہ جیسے 1990 دوبارہ آگیا ہے۔ کرپشن میں کوئ فرق نہیں آیا تھا۔حکو مت کی کارکردگی میں بھی کو ئ فرق نہیں تھا۔ عوام تیسری بار پھر بیوقف نظر آرہے تھے۔ آصف علی زرداری نے پاکستان کا صدر  بن کر ملک کو کیا دیا ہے؟ اور عوام کو کیا دیا ہے؟ 
         پیپلزپارٹی کونسے اداروں کی بات کرتی ہے؟عدلیہ، پارلیمنٹ،فوج ہی صرف ملک کے ادارے نہیں ہیں بلکہ ملک بھی ایک ادارہ ہے۔ ملک کے اندر عوام کی فلاح و بہبود سے متعلق  ادارے ہیں۔ ملک کا نظم و ضبط بھی ایک ادارہ ہے۔ عوام کے جان و مال کا تحفظ بھی ایک ادارہ ہے۔ ان اداروں کو سب سے پہلے مستحکم بنانا چاہئے تھا۔لیکن حکومت نے ان اداروں کو استحکام دینے سے غفلت برتی تھی۔ اور حکو مت کا صرف اداروں کو اپنی حدود میں رہے کر کام کرنے کا اصرار ایسا ہی تھا کہ جیسے امریکا کا دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں پاکستان سے ڈو مور (do more) کا اصرار ہوتا تھا۔
        پانچ سال دور اقتدار میں پیپلزپارٹی نے پی آئ اے، اسٹیل مل، ریلوے، واپڈا، ایجوکیشن،صحت عامہ، پولیس جیسے اداروں میں سے کسی ایک ادارہ کو بھی نہیں بنایا تھا۔پا نچ سال تک صدر، وزیراعظم اور ان کے وزرا دعوتیں کھاتے رہے۔سیر و تفریح کرتے رہے۔اور ان اداروں کو تباہ حال چھوڑ کر گئے تھے۔ اگر پیپلزپارٹی کی حکومت ان اداروں کو ختم ہونے کے دہانے چھوڑ کر نہیں جاتی تو زرداری کو آج یہ نظر نہیں آتا کہ پیپلزپارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ سیاسی پارٹیاں بھی ان اداروں کی طرح ہوتی ہیں۔
        پارٹی کے پانچ سالہ دور میں زرداری صاحب اپنی حکومت کے صرف وہ فیصلے بتائیں جو عوام کی بہبود میں کئےتھے؟ جو عوام کی ترقی اور خوشحالی میں کئے گئے تھے؟ جو عوام کی حفاظت اور سلامتی میں کئے گئے تھے؟زرداری حکومت کا یہ کہنا ہے کہ ان کی حکومت میں سیاسی مخالفین کو نظربند نہیں کیا گیا تھا۔ کوئ سیاسی قتل نہیں ہوا تھا۔لیکن دہشت گرد جب لوگوں کو اغوا کررہے تھے ۔جب دہشت گرد سیاسی اور مذہبی بنیاد پر لوگوں کو قتل کررہے تھےتو حکومت کو یہ کام کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ حکومت نے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پاکستان کی جنگ بنادیا تھا۔دہشت گردوں کے لئے ملک کی سرحدیں کھول دی تھیں۔
        ایک جمہوری حکومت کے دور میں دہشت گردوں کی انار کی تھی۔ جس طرح آرمی، آئ ایس آئ، نیوی، ائیر فورس کو ٹارگٹ بنایا جارہا تھا۔ اس نے ملک کی بنیادیں ہلا دی تھیں۔ جیسے پاکستان کو عراق، شام اور لیبیا بنایا جارہا تھا۔کراچی سندھ، بلوچستان،اور پختون خواہ کے حالات اسی رخ میں جارہے تھے۔پاکستان کے خلاف اندرونی اور بیرونی سازشوں کو صرف پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں نے ناممکن بنایا ہے۔اگر پاکستان کے پاس یہ ایٹمی ہتھیار نہیں ہوتے تو پاکستان آج عراق، شام اور لیبیا بنا ہوا ہوتا؟
        اور آج یہ فوج ہے جس نے سیاسی قائدین کو حب الوطنی کے راستے پر رکھا ہوا ہے۔ فوج کی یہ اسٹرٹیجی بہت کامیاب ہے۔ یہ اسٹرٹیجی جمہوریت کا عمل جاری رکھنے میں مدد کررہی ہے ۔ فوج کی اس اسٹرٹیجی کی وجہ سے پاکستان 1990 کے دور میں کبھی نہیں جائے گا۔