Wednesday, February 28, 2018

The Turmoil And Conflagration In The Middle East Are The Results of Two Previous Administrations Unwise And Ill-Advised Policies


The Turmoil And Conflagration In The Middle East Are The Results of Two Previous Administrations Unwise And Ill-Advised Policies

مجیب خان
Besieged Syrian rebel held Eastern Ghouta
Aleppo, Syria  
War always brings suffering for the people, Eastern Ghouta
     شام میں مشرقی غوطہ کی تشویشناک صورت حال پر سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں جنگ بندی کی قرارداد پر بحث کے دوران برطانیہ کے مندوب Stephen Hickey نے کہا "شام میں شہریوں کے تکلیف دہ حالات ہم سب کے لئے باعث شرم ہیں۔" مشرقی غوطہ میں حالات جیسے "زمین پر دوزخ" ہے۔ فرانس کے سفیر Francois Delattre نے کہا " شہریوں کی اموات ناقابل برداشت ہیں۔" انہوں نے متنبہ کیا کہ فوری کاروائی نہ ہونے کی صورت میں یہ اقوام متحدہ کی قبر بن سکتا ہے۔ امریکہ کی سفیر Nikki Haley نے مشرقی غوطہ کی صورت حال پر کہا " کتنی مائیں بمباری اور شیلنگ میں اپنے بچے کھو چکی ہیں۔ کتنی اور تصویریں ہم دیکھیں گے کہ باپ اپنے مر دہ بچوں کو ہاتھوں میں تھامے ہیں۔" برطانیہ، فرانس اور امریکہ کے یہ سفیر 2018 میں سلامتی کونسل میں شام کے درد ناک حالات اس طرح بیان کر رہے تھے کہ جیسے اس المناک صورت حال سے ان کے ملک کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اور وہ شام میں لوگوں کے درد ناک حالات دیکھ کر دہل گیے ہیں۔ شام میں صرف ایک مشرقی غوطہ نہیں ہے۔ بلکہ سارا ملک مشرقی غوطہ بنا ہوا ہے۔ شام میں بیرونی meddling کے نتیجہ میں خانہ جنگی کا آغاز 2011 میں ہوا تھا۔ اور اس خانہ جنگی کو امریکہ فرانس اور برطانیہ organize کر رہے تھے۔ 2015 تک شام کے متعدد شہر مشرقی غوطہ بن چکے تھے۔ ہزاروں مائیں اپنے معصوم بچے کھو چکی تھیں۔ سینکڑوں باپ اپنے مر دہ بچوں کو ہاتھوں میں تھامے ہوۓ تھے اور ان کی تصویریں دنیا بھر کے اخبارات میں ہر ماں اور ہر باپ نے دیکھیں تھیں۔ ایک ملین لوگ اس وقت تک مار دئیے گیے تھے۔ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ شام ہر طرف کھنڈرات کا ملبہ نظر آ رہا تھا۔ شام کے لوگ اس کھنڈرات میں دبے ہوۓ تھے۔ یا کھنڈرات تلے دبنے کے خوف سے شام چھوڑ کر چلے گیے تھے۔ پھر دنیا نے شام کی سرحدوں کے باہر بہت دور یہ درد ناک مناظر بھی دیکھے تھے کہ جو شامی اپنے ملک میں خانہ جنگی سے اپنی جانیں بچا کر بھاگے تھے۔ ان کی کشتیاں بحر روم میں الٹ گئی تھیں۔ ہر طرف ان کی لاشیں سمندر میں تیرتی دیکھی جا رہی تھیں۔ اس معصوم شامی بچے کی لاش جسے بحر روم کی موجیں ساحل تک لے آئی تھیں۔ اس کی تصویر دنیا بھر کے اخبارات اور میگزینوں کے سر ورق پر شائع ہوئی تھی۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس کے سفیر ان درد ناک مناظر کو شاید بھول گیے تھے۔ ان کی حکومتوں کو اس وقت فوری طور پر اس خانہ جنگی کی حمایت ترک کر دینا چاہیے تھا۔ یہ خانہ جنگی 100 فیصد دہشت گردی تھی۔ جس نے شام ایک قدیم تاریخی ملک کو ground zero بنا دیا تھا۔ جتنی ظالم یہ خانہ جنگی تھی۔ اس خانہ جنگی کی پشت پنا ہی کرنے والوں نے بھی خود کو اتنا ہی ظالم ثابت کیا تھا۔ ان نام نہا د باغیوں میں ایک بڑی تعداد القا عدہ  داعش  اور اسلامی انتہا پسندوں کی تھی۔ روس نے اس وقت تک شام کی سر زمین پر قدم نہیں ر کھے تھے۔ یہ خانہ جنگی کی تاریخ میں ایک انتہائی گھناؤنی خونی خانہ جنگی تھی۔ ان گروپوں میں کچھ کی امریکہ پشت پنا ہی کو رہا تھا اور وہ امریکہ  کے ساتھ لڑ رہے تھے۔ اور کچھ گروپوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا تھا۔ القا عدہ باغیوں کے ساتھ اسد حکومت کے خلاف لڑ رہی تھی۔ پھر مقامی باغیوں کے ساتھ عالمی باغی بھی شامل ہو گیے تھے۔ اسد حکومت کے خلاف باغیوں کو امریکہ نے Rebel Army تسلیم کیا تھا۔ لیکن شام کے ہمساۓ میں حزب اللہ جو لبنان کی ملیشیا تھی اور جس نے جنوبی لبنان کو اسرائیلی فوجی قبضہ سے آزاد کرانے کی جنگ لڑی تھی امریکہ نے اسے دہشت گرد قرار دیا تھا۔ فلسطینی جو اسرائیلی فوجی قبضہ کی بربریت کے خلاف لڑ رہے تھے اور اسد حکومت کی آمریت سے زیادہ بدتر تھی۔ فلسطینیوں کی Intifada تحریک کو دہشت گردی قرار دیا تھا۔ حالانکہ Intifada تحریک میں فلسطینی Christians بھی شامل تھے۔
   شام اور افغانستان کی خانہ جنگی میں امریکہ کی پالیسی میں کوئی Consistency نہیں ہے۔ افغانستان کی خانہ جنگی میں پاکستان کو یہ الزام دیا جاتا ہے کہ پاکستان طالبان کی حمایت کر رہا ہے۔ لیکن پھر شام میں امریکہ دمشق حکومت کے خلاف جن باغیوں کی حمایت کر رہا تھا۔ وہ طالبان سے زیادہ خوفناک تھے۔ انہوں نے 6 سالوں میں شام میں اتنی تباہی پھیلائی ہے اور بے گناہ لوگوں کو ہلاک کیا ہے کہ طالبان نے 20 سال میں افغانستان میں اتنے لوگ ہلاک کیے ہوں گے اور افغانستان میں تباہی کی ہو گی۔ افغانستان میں طالبان نے ہزاروں سال کے بتوں کے قدیم تاریخی مجسمہ تباہ کر دئیے تھے۔ جس پر دنیا چیخ اٹھی تھی۔ اور طالبان کے جاہل ہونے کی مذمت کی گئی تھی۔ لیکن شام میں باغیوں کی خانہ جنگی میں شام کی ہزاروں سال کی قدیم تاریخ تباہ کی جا رہی تھی۔ عیسائوں کے قدیم تاریخی چرچ تباہ کیے جا رہے تھے۔ عیسائوں کے اہم مقدس مذہبی مقامات تباہ کیے جا رہے تھے۔ ایسے عناصر کی خانہ جنگی کی حمایت کی جا رہی تھی۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ اوبامہ انتظامیہ کے واچ میں ہو رہا تھا۔ اور اسے صدر اوبامہ کی legacy کہا جاۓ گا۔ جو 6 سال سے انسانیت کی تباہی کی خانہ جنگی کی مسلسل پشت پنا ہی کر رہے ہیں۔ روس اور ایران کو disgrace کہنا دراصل نا انصافی ہے۔ روس اور ایران القا عدہ اور داعش کے خلاف تھے۔ ایران نے القا عدہ اور داعش کے خلاف عراق اور شام کی مدد کی ہے۔ ایران کے انقلابی گارڈ عراق اور شام میں ان کی فوج کے ساتھ ان سے لڑے ہیں۔ اور القا عدہ اور داعش سے عراق اور شام کے علاقہ آزاد کراۓ ہیں۔ روس نے بر وقت مداخلت کر کے اسد حکومت کو گرنے سے بچایا تھا۔ اگر اسد حکومت گر جاتی تو اس صورت میں القا عدہ اور داعش شام کے نئے حکمران ہوتے۔ لیکن شام میں دمشق حکومت کے خلاف اپوزیشن کے Intifada کی امریکہ برطانیہ اور فرانس بھر پور حمایت کرتے ہیں۔ اور انہیں اسلحہ دے رہے ہیں۔ اور یہ hypocrisy  اور double standard ہے۔ شام کی جنگ ایک hodgepodge تھی۔ ترکی شام میں اپوزیشن کی حمایت کر رہا تھا۔ امریکہ شام کی Rebel Army کی پشت پنا ہی کر رہا تھا۔ جبکہ شمالی شام میں کرد ملیشیا کی بھی امریکہ حمایت کر رہا تھا۔ اور انہیں ہتھیار فراہم کیے جا رہے تھے۔ ترکی کے کرد شام کے کرد و ں کے قریب ہو رہے تھے۔ اردگان حکومت ترکی میں اپنے کرد و ں سے لڑ رہی تھی۔ استنبول میں بموں کے دھماکہ ہونے لگے تھے۔ سینکڑوں لوگ ان دھماکوں میں مارے گیے تھے۔ صدر اردگان استنبول کو خون میں دیکھ کر امریکہ پر چیخ پڑے تھے کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کرد و ں کی تنظیم کو دہشت گرد تنظیم کی فہرست میں شامل کیا ہے اور اوبامہ انتظامیہ اب ان کی پشت پنا ہی کر رہی تھی۔ امریکہ کے فوجی حملہ نے عراق کو عدم استحکام کیا تھا۔ اور 6 سال سے شام کی حکومت باغیوں کے خلاف جنگ میں گھری ہوئی تھی۔ کرد و ں نے اسے اپنی آزادی کے لئے ایک سنہرا موقعہ دیکھا تھا۔ امریکہ کا بھی یہ منصوبہ تھا کہ عراق اور شام کے ٹکڑے کر دئیے جائیں۔ اور کرد و ں کی آزاد ریاست بن جاۓ۔ یہ امریکی پالیسی مڈل ایسٹ کو destabilize کر رہی تھی۔ جس کا الزام ٹرمپ انتظامیہ میں ایران اور روس کو دیا جا رہا ہے۔ حقائق کو distort کرنے کی یہ پرانی عادت ہے۔
   صدر اوبامہ سے کسی نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ ایک انتہائی خونی خانہ جنگی کے نتیجہ میں اسد حکومت کا زوال ہونے کے بعد شام کا سیاسی نقشہ کیا ہو گا اور خونی خانہ جنگی کیا اور زیادہ خونی ہو گی؟ جبکہ نصف درجن سے زیادہ گروپوں کے اپنے سیاسی ایجنڈے تھے۔ صدر اوبامہ نے بھی اسد کے بعد شام کے سیاسی نقشہ کے بارے میں شاید سوچا بھی نہیں ہو گا۔ صدر بش صد ام حسین کے بعد عراق کے بارے میں Hunky dory باتیں کرتے تھے۔ لیکن صدر اوبامہ نے عراق میں صد ام حسین کے بعد خطرناک نتائج سے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا۔ شام اسد حکومت کے بعد عراق سے زیادہ خوفناک ہو گا۔  سب سے پہلے Orthodox Christians کا شام سے صفایا ہو جاۓ گا۔ شام میں Orthodox Christianity کی ہزار سال کی ایک تاریخ ہے۔ قدیم تاریخی Church’s ہیں۔ عراق میں صد ام حسین کے بعد عراقی Orthodox Christians کی ایک بڑی تعداد نے شام میں پناہ لی تھی۔ اسد حکومت کے بعد شام میں Alawites  شیعہ زیادہ vulnerable ہوں گے۔ سنی یہاں اکثریت میں ہیں۔ شام کی خانہ جنگی کا دوسرا round مذاہب کے درمیان جنگ ہو گا۔ سعودی عرب نے پہلے ہی شیعاؤں کے خلاف 1400 سال پرانی جنگ  کو اختتام پر پہنچانے کا تہیہ کرلیا ہے۔ شام میں شیعہ اسلام کے بھی انتہائی مقدس مقامات ہیں۔ ان کے عقیدہ کی یہاں ایک تاریخ ہے۔ امریکیوں کو شام اور عراق میں مذاہب کی تاریخ کے بارے کوئی معلومات نہیں ہیں۔ ان کے لئے یہ کہنا سب سے آسان ہے کہ ایران اور روس شام میں مداخلت کر رہے ہیں۔ لیکن اس مداخلت کا مذہبی پس منظر کا انہیں کو ئی علم نہیں ہے۔ روس Orthodox Christian ملک ہے۔ ایران شیعہ ملک ہے۔ اور شام دونوں مذہبی عقیدہ کی بقا کا سوال ہے۔ اسد حکومت کے بعد یہ حالات کی ایک تصویر ہے۔ امریکہ نے شام میں meddling کی ہے۔ لیکن ترکی اسرائیل شام میں اپنی فوجیں بھیجنے کے لئے بالکل تیار کھڑے تھے۔ جبکہ روس اور ایران کے شام میں اہم مفادات ہیں۔ اسرائیل کی فوجیں گو لان کے راستہ شام میں داخل ہونے لئے تیار تھیں۔ ترکی کی فوجیں شام میں کرد و ں کے علاقہ پر قبضہ کرنے کے لئے تیار کھڑی ہیں۔ اس صورت میں صدر اوبامہ نے شام میں امریکی فوجیں نے  بھیجنے سے اختلاف کیا تھا۔ اور صرف یہ کہتے رہے کہ “Assad has to go” کیا واقعی یہ شام کے مسئلہ کا حل تھا؟
    شام کی خانہ جنگی کے بارے میں امریکی میڈیا کا کوریج صرف یکطرفہ ہے۔ تمام کوریج اسد حکومت کی فوج کے حملوں اور اپوزیشن کے حملوں کے گرد  ہے۔ 7 سال میں امریکی میڈیا نے شام میں عیسائوں، شیعاؤں اور قوم پرست عرب سنیوں کا موقف پیش نہیں کیا ہے کہ وہ امریکی meddling کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ اور خانہ جنگی کے بارے میں ان کے خیالات کیا ہیں؟ بلاشبہ ان لوگوں کی حمایت حاصل ہے جب ہی صدر اسد اقتدار میں ہیں۔ اور خانہ جنگی کا بڑی کامیابی سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ صدر اسد  نے شام  میں عیسائوں کو   Persecutions سے بچایا ہے۔ اور روس نے اسد حکومت کا زوال ہونے سے بچایا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں یہ روس کی بر وقت Meddling تھی جس نے ناز یوں کی شکست کو یقینی بنایا تھا۔                       

Friday, February 23, 2018

How The World Liberates America From Warmongering Cold War Mentality

How The World Liberates America From Warmongering Cold War Mentality

مجیب خان
"US Vice President Mike Pence warns North Korea "Sword Stands Ready

Vice President Mike Pence and President Moon Jae-in
North Korean leader Kim Jong Un's sister meets South Korean President at the 2018 Winter Olympics in South Korea

   جنوبی کوریا میں winter اولمپک گیم ز کی افتتاحی تقریب میں امریکی وفد کی قیادت نائب صدر Mike Pence نے کی تھی۔ نائب صدر نے اولمپک گیم ز کے موقعہ پر بھی شمالی کوریا کو جنگ کی دھمکیاں دینے اور جنگ کی باتیں کرنے سے گریز نہیں کیا تھا۔ شمالی کوریا نے اولمپک گیم ز میں شرکت کرنے کی درخواست کی تھی۔ اور اس مقصد سے شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کی حکومت سے اپنا ایک وفد Pyongyang بھیجنے کی دعوت دی تھی۔ اولمپک گیم ز کے موقعہ پر شمالی کوریا نے اپنے نیو کلیر تجربے بند کر دئیے تھے۔ صدر کم جونگ ان حکومت نے اولمپک گیم ز کامیاب بنانے میں جنوبی کوریا کی حکومت کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا۔ اس خیر سگالی کے جواب میں جنوبی کوریا کی حکومت نے شمالی کوریا کے کھلاڑیوں کو اولمپک کھیلوں میں حصہ لینے کے لئے جنوبی کوریا آنے کی اجازت دی تھی۔ اولمپک گیم ز کی افتتاحی تقریب میں صدر کم جونگ ان کی چھوٹی بہن Kim Yo-jong 22 رکنی وفد کے ساتھ Seoul آئی تھیں۔ جنوبی کوریا کے صدرMoon Jae-in شمالی کوریا کے وفد کا خیر مقدم کیا تھا۔ Winter اولمپک نے شمالی اور جنوبی کوریا میں سیاسی کشیدگی کی گرمی کا درجہ حرارت بھی سرد کر دیا تھا۔ لیکن Winter اولمپک میں نائب صدر Pence  کا رد عمل بالکل مختلف تھا۔ شمالی کوریا کے خلاف ان کی گرمی کا درجہ حرارت بہت اوپر تھا۔ Winter اولمپک شروع ہونے سے قبل نائب صدر Pence نے پہلے جاپان میں اور پھر جنوبی کوریا میں امریکی فوجیوں سے خطاب میں شمالی کوریا کو سخت لہجہ میں جنگ کی دھمکیاں دی تھیں۔ شاید اس سخت لہجہ کا مقصد صدر کم جونگ ان کو instigate  کرنا تھا تاکہ پھر وہ اس کے جواب میں کوئی action کرے۔ لیکن winter Olympic کی وجہ سے  شمالی کوریا کا رد عمل بھی سرد تھا۔ نائب صدر Pence نے ٹوکیو میں شمالی کوریا کے خلاف امریکہ کی نئی انتہائی سخت بندشیں لگانے کے منصوبہ کا اعلان کیا تھا۔ حالانکہ شمالی کوریا پر امریکہ اور اقوام متحدہ کی پہلے ہی اتنی زیادہ بندشیں لگی ہوئی ہیں کہ اب شاید صرف ہوا اور پانی ان بندشوں  سے مستثنی ہیں۔ جاپان کے وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے ہو کر نائب صدر Pence نے دنیا کو بتایا کہ "اس کرہ ارض پر شمالی کوریا کی حکومت انتہائی جابر اور ظالم حکومت ہے۔" حالانکہ دنیا یہ با خوبی جانتی تھی۔ جنوبی کوریا میں اولمپک گیم زکی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر دنیا کو یہ بتانا کیا ضروری تھا؟ جنوبی کوریا میں شمالی کوریا کی سرحد کے قریب امریکی فوجیوں سے خطاب میں نائب صدر Pence نے کہا "شمالی کوریا کی حکومت کو کسی غلط فہمی میں نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی ہر شرانگیزی کا جواب دینے کے لئے امریکی فوجیں تیار ہیں۔ اور بھر پور طاقت سے اس کا جواب دیا جاۓ گا۔" جنوبی کوریا میں نائب صدر Pence شمالی کوریا کے defectors سے ملے تھے- اور انہوں نے نائب صدر کو ان کے ساتھ حکومت نے جو سلوک کیا تھا اس کی داستان بتائی تھی۔
   جنوبی کوریا کی حکومت کو اولمپک گیم ز کی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر نائب صدر Mike Pence کے warmongering روئیے سے مایوسی ہوئی ہو گی۔ دنیا بھر سے کھلاڑی اور کھیلوں کے شائقین یہاں کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے اور انہیں دیکھنے  آۓ تھے۔ اور یہاں جنگوں کی باتوں نے انہیں ضرور Bore کیا ہو گا۔ اور یہ دنیا کے لئے بڑا المیہ ہے۔ سرد جنگ کو ختم ہوۓ 28 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن امریکہ ابھی تک خود کو سرد جنگ ذہنیت سے آزاد نہیں کر سکا ہے۔ اور یہ ابھی تک دنیا کو 20ویں صدی کی سرد جنگ کے ذہن سے دیکھتا ہے۔ اور یہ امریکہ کی پالیسی ہے۔ جو شمالی کوریا کو سرد جنگ سے نکلنے کا راستہ نہیں دے رہی ہے۔ اور اس خطہ میں ایک نئی جنگ کے لئے جاپان کو warmonger بننے کی ترغیب دے رہا ہے۔ امریکہ کم جونگ ان کو اسی سرد جنگ ذہنیت سے دیکھ رہا ہے جس طرح امریکہ نے 50 کی دہائی میں اس کے Grand Father Kim Il Sung سے محاذ آرا ئی کی تھی۔ شمالی کوریا کے خلاف امریکہ کی آج کی پالیسی 50 کی دہائی کی اس پالیسی سے مختلف نہیں ہے۔ Winter اولمپک کے موقعہ پر صدر کم جونگ ان نے جنوبی کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ اور جنوبی کوریا کے صدر Moon Jae-in  نے اس کا مثبت جواب دیا ہے۔ تو امریکہ کو بھی اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے تھا۔ اور اولمپک گیم ز کی افتتاحی تقریب کو شمالی کوریا کے خلاف فوجی دھمکیوں کے لئے پلیٹ فارم نہیں بنانا چاہیے تھا۔ نائب صدر Pence کے چہرے کے تاثر سے ایسا نظر آ رہا تھا کہ وہ یہ  دیکھ کر خوش نہیں تھے کہ شمالی اور جنوبی کوریا کے کھلاڑی افتتاحی تقریب میں ایک پرچم تلے مارچ کر رہے تھے۔ اور unification کے گیت گا رہے تھے۔ شمالی کوریا کے صدر کی چھوٹی بہن Kim Yo Jong جو اپنے ملک کے وفد کی قیادت کر رہی تھیں۔ نائب صدر Pence اگر اس سے ہاتھ ملاتے اور صرف Hello کہتے تو یہ جنوبی اور شمالی کوریا کے لوگوں کے لئے ایک بڑی خبر ہوتی۔ اور اس خطہ میں اسے ایک Diplomatic move دیکھا جاتا۔ Kim Yo Jong 25 یا 26 سال کی ہو گی۔ اس کے لئے یہ ایک تاریخی یاد گار ہوتا اور وہ اسے ساری زندگی یاد رکھتی۔ صرف Hello کرنے سے بھی دشمن کا رویہ soft ہو جاتا ہے۔ یہ صورت حال کو پرامن بنانے کی ڈپلومیسی ہے۔ لیکن یہ افسوس کی بات ہے کہ نائب صدر Mike Pence نے اولمپک گیم ز کے موقعہ پر بھی شمالی کوریا کے خلاف امریکہ کے سخت موقف کا مظاہرہ کیا تھا۔
   جنوبی کوریا کے صدر Moon Jae-in نے “Neighbor First” کی پالیسی کو اہمیت دی ہے۔ اور شمالی کوریا کو اولمپک گیم ز میں شرکت کی دعوت دینے کے لئے خصوصی وفد پیانگ یونگ بھیجا تھا۔ یہ صدر Moon کا ایک اچھا فیصلہ تھا۔ دونوں کے ملکوں کے درمیان تعلقات کا سلسلہ بحال ہونا چاہیے۔ اور People to People رابطوں کو تعلقات بہتر بنانے کے مقصد میں فروغ دیا جاۓ۔ جب دونوں ملکوں کے تعلقات میں اعتماد آۓ گا۔ تو شمالی کوریا کے نیو کلیر ہتھیاروں کے تجربے کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہو جاۓ گا۔ اور جنوبی کوریا کا امریکہ اور جاپان کے ساتھ فوجی مشقیں کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہو گا۔ اس خطہ پر 60 سال سے فوجی مشقوں اور نیوکلیر ہتھیاروں کا جنون سوار ہے۔ اس خطہ کو 20ویں صدی کی تباہیاں پھیلانے والی جنگوں سے نکلنا چاہیے۔ اور 21صدی کی اقتصادی، معاشی اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں انسانی خوشحالی کو فروغ دینے کے کام کرنا چاہیے۔ جن طاقتوں نے 20ویں صدی میں جنوب مشرقی ایشیا میں انسانی تباہی پھیلائی تھی۔ وہ ہی طاقتیں 21ویں صدی میں مغربی ایشیا میں انسانی تباہیاں پھیلانے میں مصروف ہیں۔ 2 ملین سے زیادہ لوگ اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ انسانی تباہیاں غیر ملکی مداخلت کا سبب ہے۔ 20ویں کی آخری دہائیوں میں یہاں جن ملکوں نے انسانی فلاح و بہبود کے جن شعبوں میں ترقی کی تھی۔ وہ سب اب 50 سے 70 سال پیچھے چلے گیے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند ہیں۔ اور ہر طرف بچوں کو ہتھیاروں کو استعمال کرنے اور جنگیں کرنے کے تربیتی کیمپ قائم ہیں۔  کوریا اور ویت نام کے لوگ جنگ کی تباہیوں سے پیچھے جانا نہیں چاہیں گے۔ ان کے بڑوں نے اپنے بچوں کا مستقبل بنانے کے لئے قربانیاں دیں تھیں۔ اور اب وہ اپنے ملک اور اپنے خطہ کو غلیظ جنگوں سے دور ر کھے گے۔
   سرد جنگ ایشیا افریقہ اور لا طین امریکہ کی سر زمین پر تقریباً 50 برس لڑی گئی تھی۔ اور پھر یہ جنگ افغانستان پہنچ کر ختم ہوئی تھی۔ لیکن چین نے صرف 40 سال میں حیرت انگیز اقتصادی ترقی ہے۔ لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکال کر مڈل کلاس بنایا ہے۔ اور پھر انہیں مڈل کلاس سے دولت مند طبقہ بنایا ہے۔ چین اب 21ویں صدی کی اقتصادی طاقت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اور اپنی اقتصادی ترقی کے ساتھ چین دنیا میں Economization کو فروغ دے رہا ہے۔ چین 21ویں صدی کی اقتصادی  کامیابی دنیا میں مضبوط اقتصادی سرگرمیوں میں دیکھ رہا ہے۔ جبکہ امریکہ نے 20ویں صدی کی فوجی طاقت کی کامیابی دنیا کو Militarize کرنے کی سرگرمیاں فروغ دینے میں دیکھی تھیں۔ اور 21ویں صدی میں بھی امریکہ نے  اپنی فوجی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہے۔ دنیا کو Militarize کرنے میں یورپی ملکوں کا فوجی اتحاد نیٹو یورپ سے نکل کر دنیا کے مختلف خطوں اور ملکوں کی طرف مارچ کر رہا ہے۔ حالانکہ یورپ سے باہر نیٹو کی فوجی سرگرمیوں کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ یہ فوجی الائنس صرف مغربی یورپ کے دفاع کے لئے وجود میں آیا تھا۔ اور مغربی یورپ سے باہر اس کا کوئی قانونی رول نہیں تھا۔  نیٹو اب مڈل ایسٹ میں قدم جمانے کی کوشش میں ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے 70 ملکوں میں امریکہ  کی فوجی کاروائیاں جاری ہیں۔ جبکہ دنیا کے مختلف خطوں میں امریکہ کے 800 فوجی اڈے ہیں۔ چین اور روس امریکہ کے ساتھ فوجی اڈوں کی دوڑ میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ یہ 20ویں صدی کی دنیا میں دوبارہ جانا نہیں چاہتے ہیں۔ چین کا One Belt     One Road منصوبہ ملکوں کے درمیان اقتصادی فاصلے ختم کر رہا ہے۔ جیسے جیسے یہ منصوبہ مکمل ہوتا جاۓ دنیا کے ملک اقتصادی ترقی میں ایک ساتھ قدم آ گے بڑھانے کے قابل ہوتے جائیں گے ۔ 20ویں صدی کی طاقتوں پران کا انحصار ختم ہوتا جاۓ گا۔ اور وہ 19ویں صدی کی نوآبادیاتی اور 20ویں صدی کی استحصالی طاقتوں سے بھی مکمل  طور پر آزاد ہو جائیں گے۔
   اقتصادی ترقی کو مستحکم بنانے اور One Belt One Road اقتصادی منصوبہ کا حصہ بننے والے ملکوں کی سلامتی میں نئے عالمی اداروں کا قیام اب ضروری ہو گیا ہے۔ 20ویں صدی کے عالمی ادارے 21ویں صدی کی ایک بالکل مختلف دنیا میں obsolete نظر آ رہے ہیں۔ یہ عالمی ادارے دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور مغربی طاقتوں نے صرف اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات میں بناۓ تھے۔ اس وقت دنیا بہت چھوٹی تھی۔ آج دنیا میں 194 ملک ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو ملک وجود میں آۓ تھے۔ آج وہ 70 برس کے ہو گیے ہیں۔ جو ملک 50 اور 60 کی دہائیوں میں وجود میں آۓ تھے۔ وہ بھی اب 50 اور 60 برس کے ہو گیے ہیں۔ اور یہ عالمی ادارے ان ملکوں کی سلامتی اور مفاد میں کام نہیں کرتے ہیں۔ ان اداروں کے ذریعے انہیں دھونس دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ انہیں Bully کیا جاتا ہے۔ مالیاتی ادارے انہیں قرضے دیتے ہیں۔ اور یہ ادارے انہیں  مقروض رکھنے کا کام کرتے  ہیں۔ یہ عالمی ادارے دنیا میں ایک منصفانہ نظام فروغ دینے میں ناکام ہوۓ ہیں۔ بلکہ مغربی طاقتوں نے ان اداروں کو اپنا لوٹ کھسوٹ کا نظام قائم کرنے میں استعمال کیا ہے۔ ان اداروں کے ناکام ہونے کے ثبوت یہ ہیں کہ امریکہ برطانیہ فرانس اور اٹلی کے طیارے لیبیا کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ لیبیا پر ہزاروں بم گراۓ۔ حکومت کو dislodge کر دیا۔ ملک تباہ کر دیا۔ خاندان برباد کر دئیے۔ بچوں کی دنیا تاریک کر دی۔ عالمی ادارے ان کی پشت پر کھڑے یہ نظارہ کرتے رہے۔ دنیا کے طاقتور آۓ بم گراۓ تباہی پھیلائی اور چلے گیے۔ جس کے پاس طاقت اور دولت ہے یہ عالمی ادارے بھی ان کے ہیں۔ یہ عالمی ادارے کیا لیبیا، عراق، شام، یمن، فلسطین کے مفاد میں ہیں؟ لیبیا کے لوگوں نے 40 سال کی انتھک محنت سے اپنا ملک تعمیر کیا تھا۔ 4 ملکوں کے طیاروں نے 4 گھنٹے میں ان کے ملک کو کھنڈرات میں بدل دیا۔ اور ان کے تیل کی دولت میں حصہ لے لیا۔ ان عالمی اداروں میں دنیا کے 180 ملکوں کے کوئی قانونی اختیارات نہیں ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جن ملکوں نے یہ عالمی ادارے بناۓ تھے۔ 70 سال سے یہ ان کے مفاد میں کام کر رہے ہیں۔ جو ادارے 70 سال سے فلسطینیوں کو انصاف دینے میں ناکام  ہیں۔ وہ ناکام ادارے ہیں۔  دنیا میں اب نئے عالمی اداروں کی اشد ضرورت ہے۔ Obsolete عالمی ادارے دنیا میں امن اور استحکام نہیں رکھ سکتے ہیں۔   
  


           

Tuesday, February 13, 2018

If You Can’t Convince The People, Confused Them: And Now Americans Are Confused That Trump Is President By Russian Meddling, Not By Their Votes?

If You Can’t Convince The People, Confused Them. And Now Americans Are Confused That Trump Is President By Russian Meddling, Not By Their Votes?

In Iraq’s Neighbor, Former President George Bush Has Said In Abu Dhabi ‘There’s Clear Evidence Russians Meddled In Election’

مجیب خان
George Bush says "Clear evidence Russians meddle in Election", Abu Dhabi, UAE

Election 2016: Voters wait in a queue to cast their ballots in the presidential election, New Hampshire

Americans vote during elections 
   عراق کے ہمسایہ  متحدہ عرب امارت کے دارالحکومت ابو دہا بی میں سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے کہا ہے کہ "یہ ثبوت بہت واضح ہیں کہ روس نے امریکہ میں 2016 کے انتخاب میں مداخلت کی تھی۔ آیا وہ اس کے نتیجہ پر اثر انداز ہوۓ تھے۔ یہ ایک علیحدہ سوال ہے۔" صدر بش نے کہا "یہ ایک مسئلہ ہے کہ ایک فارن ملک  ہمارے انتخابی نظام میں ملوث ہوا ہے۔ ہماری جمہوریت صرف اس لئے اچھی ہے کہ لوگ اس کے نتائج پر اعتماد کرتے ہیں۔" امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اب یہ تاثر دے رہی ہیں کہ روس نے 2016 کے انتخاب میں مداخلت ٹرمپ کو کامیاب کرانے کے مقصد سے کی تھی۔ اس سلسلے میں کئی تحقیقات صرف یہ تعین کرنے کے لئے ہو رہی ہیں کہ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں کریملن نے کس طرح معاونت کی تھی؟ یہ وہ ہی  انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں جنہوں نے عراق کے بارے میں یہ تحقیقاتی رپورٹیں صدر بش کو دی تھیں کہ صد ام حسین نیو کلیر ہتھیار بنا رہے تھے۔ اور عراق میں مہلک ہتھیاروں کے ڈھیر تھے۔ صدر بش نے انٹیلی جنس کی ان رپورٹوں پر عراق کے خلاف preemptive فوجی کاروائی کی تھی۔ لیکن جب عراق میں مہلک ہتھیاروں کے ڈھیر نہیں ملے تھے۔ اور نہ ہی نیو کلیر ہتھیار بنانے کی لیباٹریاں ملی تھیں تو صدر بش یہ کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے بری ہر گیے تھے کہ عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں انہیں تمام رپورٹیں انٹیلی جنس نے دی تھیں۔ اور اب عراق کے ہمسایہ متحدہ عرب امارت میں صدر بش نے کہا ہے کہ "اس کے بہت واضح ثبوت ہیں کہ روس نے امریکہ کے انتخاب میں مداخلت کی ہے۔"
   صدر بش نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے دعووں پر اب بڑے وثوق سے یہ کہا ہے کہ امریکہ کے انتخاب میں روس کی مداخلت کے واضح ثبوت ہیں۔ 2016 کے انتخاب کو اب 15 ماہ ہو گیے ہیں۔ لیکن روس کی مداخلت کے ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آۓ ہیں۔ اس سلسلے میں کانگرس نے ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر اور سابق پراسیکیوٹرRobert Mueller  کو اسپیشل کونسل نامزد کیا ہے۔ جو ٹرمپ انتخابی مہم اور روس کے درمیان collusion کے بارے میں ایف بی آئی کی تحقیقات کی نگرانی کریں گے۔ اور روس کی انتخاب میں مداخلت کی تفتیش کریں گے۔ اسپیشل کونسل کی تحقیقات کے جو ابتدائی نتائج سامنے آۓ ہیں۔ ان میں ٹرمپ انتخابی مہم کے بعض اراکین نے جس جرم کا اعتراف کیا ہے۔ وہ نجی نوعیت کے ہیں۔ انہوں نے اپنے کاروبار میں کچھ خرد برد کیا تھا۔ Off shore بنکوں میں لاکھوں ڈالر جمع کراۓ تھے۔ اور اسے ریونیو ڈیپارٹمنٹ سے چھپایا تھا۔ ٹرمپ انتخابی مہم کے چیرمین Paul Manafort یوکرین کی سابق حکومت میں صدر Viktor Yanukovych کے لئے لابی کرتے تھے۔ اور اس سے انہوں نے لاکھوں ڈالر بناۓ تھے۔ ان کی یہ سرگرمیاں 2014 میں تھیں۔ اس کے علاوہ ان کے روسی Oligarchs سے بھی تعلقات تھے۔ اس سلسلے میں ان کا روس آنا جانا رہتا تھا۔ اسی طرح جن دوسرے لوگوں کے نام آ رہے ہیں۔ روسیوں کے ساتھ ان کے تعلقات بھی بزنس نوعیت کے تھے۔ یہ روسی امریکہ میں بھی بزنس کرتے تھے۔ لیکن پو تن حکومت کے اعلی حکام کے ساتھ ٹرمپ انتخابی مہم کے collusion کا کیس ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے۔ بلکہ اس تحقیقات کے نتیجہ میں بعض نئے انکشاف ہوۓ ہیں۔ 2016 کے انتخاب میں برطانویMI6   کے ایک سابق ایجنٹ Christopher Steele کا کردار تحقیقات کے ریڈار پر آیا ہے۔ جسے ڈیمو کریٹک پارٹی نے ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف Dossier لکھنے کے لئے Hire کیا تھا۔ اور ہلری کلنٹن کی انتخابی مہم کے فنڈ سے اسے تقریباً  ڈھائی لاکھ ڈالر دئیے گیے تھے۔ اس Dossier میں 17Memos تھے۔ جو 2016 میں جون سے دسمبر کے دوران لکھے گیے تھے۔ جس میں 2016 کے انتخاب سے قبل اور انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ انتخابی مہم اور روسی حکومت کے درمیان رابطوں کی تفصیل بتائی گئی تھی۔ اور ایف بی آئی نے اس Dossier کی بنیاد پر ٹرمپ انتخابی مہم کے ایک رکن کی surveillance کے لئے خصوصی کورٹ سے اجازت مانگی تھی۔ یہ سکینڈل کے اندر ایک نیا سکینڈل سامنے آیا ہے۔ جس میں ایف بی آئی نے MI6 کے ایک ایجنٹ کے Dossier کو جو ڈیمو کریٹک پارٹی کی درخواست پر لکھا گیا تھا۔ اسے پھر ٹرمپ انتخابی کمیٹی کے ایک رکن کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔
   انتخاب میں روس کی مداخلت کی تحقیقات میں اب یہ نئے سوال سامنے آۓ ہیں جن کے جواب مانگے جا رہے ہیں۔ ان سوالوں نے اس تحقیقات کو اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ایف بی آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر Andrew McCabe جو 23 سال سے اس ادارے سے وابستہ تھے۔ انہوں نے گزشتہ ماہ استعفا دے دیا ہے۔ جبکہ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر James Comey کو گزشتہ سال جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی درخواست پر صدر ٹرمپ نے برطرف کیا تھا۔ ڈائریکٹر ایف بی آئی کی برطرفی اور اب ڈپٹی ڈائریکٹر ایف بی آئی کے استعفا سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ 2016 کے انتخاب میں ایف بی آئی کا کیا سیاسی رول تھا؟ ایف بی آئی میں اعلی عہدوں پر بعض ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن اور ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان تقسیم تھی۔ ڈپٹی ڈائریکٹر Andrew McCabe کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی affiliation ہلری کلنٹن سے تھی۔ جبکہ ڈائریکٹر ایف بی آئی James Comey ری پبلیکن پارٹی کے قریب تھے۔ ایف بی آئی ایک انتہائی قدامت پسند ادارہ ہے۔ اس کے زیادہ تر ڈائریکٹر ری پلیکن انتظامیہ میں نامزد کیے گیے ہیں۔ اور یہ دس سال کے لئے نامزد ہوتے ہیں۔ ری پبلیکن پارٹی کے اعلی قائدین  انتخاب سے صرف چند ماہ قبل یہ بیان دے رہے تھے کہ ہلری کلنٹن کو صدر نہیں بننے دیا جاۓ گا۔ اور اگر وہ صدر منتخب ہو جاتی ہیں تو ان کو impeachment کا سامنا کرنا ہو گا۔ ان لیڈروں میں اسپیکر Paul Ryan، سینٹ میں ری پبلیکن پارٹی کے اکثریتی لیڈر Mitch McConnell سابق صدارتی امیدوار Mitt Romney اور بعض سینیٹر ز نمایاں تھے۔ اس وقت ہلری کلنٹن کو ڈونالڈ ٹرمپ پر 8 اور 9 پوائنٹ کی برتری حاصل تھی۔ اور صدارتی انتخاب میں ہلری کلنٹن کی کامیابی یقینی نظر آ رہی تھی۔ اس یقینی کامیابی کو محسوس کرتے ہوۓ انتخاب سے صرف چند روز قبل ڈائریکٹر ایف بی آئی James Comey نے یہ اعلان کر کے دھماکہ کر دیا کہ انہیں ہلری کلنٹن کی E-Mail دریافت ہوئی ہیں۔ اور ایف بی آئی ان کا جائزہ لے رہی ہے۔ ہلری کلنٹن نے سیکرٹیری آف سٹیٹ کی حیثیت سے classified امور کے بارے میں اپنے نجی E-Mail server کا استعمال کیا تھا۔ اور اس کی تحقیقات بن غازی میں امریکی کونسل خانے میں دہشتگردوں کے حملہ میں امریکی سفیر اور چار دوسرے امریکیوں کے ہلاک ہونے میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی غفلت اور امریکی سفیر کو مناسب سیکورٹی فراہم نہ کرنے کے بارے میں تھی۔ بہرحال ڈائریکٹر ایف بی آئی کے اس دھماکہ خیز بیان نے انتخاب کا نقشہ پلٹ دیا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو ہلری کلنٹن پر 3 اور 4 پوائنٹ کی برتری حاصل ہو گئی تھی۔ اس وقت ڈیمو کریٹک پارٹی نے اسے ڈائریکٹر ایف بی آئی کی انتخاب میں مداخلت قرار دیا تھا۔ اور صدر اوبامہ سے ڈائریکٹر ایف بی آئی کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اب اگر روس انتخاب میں مداخلت کر رہا تھا۔ تو ڈائریکٹر ایف بی آئی نے یہ مداخلت کر کے کیا روس کی معاونت کی تھی؟
   2016 کے انتخاب میں ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کا اہم سبب یہ تھا، جس کا ریپبلیکن اور ڈیمو کریٹک پارٹی اعتراف کرنے سے کترا رہی ہیں۔ کہ امریکی عوام صدر جارج بش اور صدر اوبامہ کے 8 سال دور اقتدار سے سخت مایوس ہوۓ تھے۔ 16 سال کی جنگوں سے سخت پریشان تھے۔ 2008 کے انتخاب میں لوگوں نے صدر اوبامہ کو جنگیں ختم کرنے کے وعدہ پر ووٹ دئیے تھے۔ عالمی برادری نے صدر اوبامہ کو امن کا نوبل ایوارڈ بھی تھا۔ لیکن صدر اوبامہ سابق صدر جارج بش کے 60 ملکوں میں جنگیں کرنے کے منصوبہ پر عمل درآمد کرنے لگے تھے۔ ہلری کلنٹن کے بارے میں امریکی عوام کی یہ سوچ تھی کہ انہوں نے صدر بش کی عراق کے خلاف preemptive جنگ کی حمایت کی تھی۔ اور پھر سیکرٹیری آف اسٹیٹ کی حیثیت سے ہلری کلنٹن نے صدر اوبامہ کی لیبیا اور شام میں جنگوں کی حمایت کی تھی۔ امریکی عوام اس مرتبہ hawkish کو وائٹ ہاؤس میں دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے صدارتی امیدوار ہونے کے اعلان کے پہلے روز سے جنگوں کی مخالفت کی تھی۔ اور صدر بش کی عراق جنگ اور صدر اوبامہ کی لیبیا اور شام کی جنگوں کی سخت مذمت کی تھی۔ ٹرمپ جتنا زیادہ جنگوں کے خلاف بات کرتے تھے۔ اتنے ہی زیادہ لوگ ٹرمپ کو ووٹ دینے کے لئے سوچنے لگتے تھے۔ امریکی عوام کی راۓ یہ تھی کہ ٹرمپ کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ٹرمپ پیشہ ور سیاستدان نہیں ہیں۔ واشنگٹن insider نہیں ہیں۔ امریکی عوام کا کہنا تھا کہ ٹرمپ واشنگٹن کو لابیوں کے سیاسی شکنجہ سے نجات دلائیں گے۔ اور امریکہ کے Broken system کو Fix کریں گے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کامیاب بزنس مین ہیں۔ اور وہ امریکہ کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ انتخاب کے آخری ہفتہ میں امریکی عوام کا ٹرمپ کے بارے میں ذہن بن گیا تھا۔ انتخابی نتائج دیکھ کر سیاسی پنڈت سکتہ میں آ گیے تھے۔ امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سارے Polls الٹے ہو گیے تھے۔ جمہوری نظام کی یہ خوبصورتی ہے کہ عوام طاقت کا سر چشمہ  ہوتے ہیں۔ اب امریکی عوام کے اس فیصلہ میں روس کی مداخلت کہاں Fit ہوتی ہے۔
   روس اگر ڈونالڈ ٹرمپ کو صدر بنانے کے لئے مداخلت کرتا تو اس کی ابتدا پھر 2016 میں ری پبلیکن پارٹی کی پرائم ریز سے ہوتی۔ ری پبلیکن پارٹی کے 17 صدارتی امیدوار پرائم ریز میں حصہ لے رہے تھے۔ اور ٹرمپ سواۓ چند ریاستوں کے تقریباً  ہر ریاست میں بھاری اکثریت سے 16 امیدواروں پر برتری حاصل کرتے جا رہے تھے۔ ری پبلیکن پارٹی کی تاریخ میں پرائم ریز میں ٹرمپ نے سب سے زیادہ ووٹ لئے تھے۔ اس وقت روس کی مداخلت کا کوئی سوال نہیں تھا۔ یہ باتیں کہ روس نے انتخاب میں مداخلت کر کے امریکہ کے جمہوری نظام کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اور ا سا مہ بن لادن امریکہ کی اقتصادی خوشحالی کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔ اور ISIS امریکہ میں Caliphate قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب Nonsense ہے۔