Saturday, February 27, 2016

Winner And Savior Of The Syrian People


Winner And Savior Of The Syrian People

Losers Of Libya



Losers Of Iraq  



Indispensable Leader Of The Free World


Allies In Human Destruction


مجیب خان

      
       بلا آخر ان ملکوں کو اب اس راستہ پر آنا پڑا ہے جو شام کے تنازعہ کو حل کرنے میں خانہ جنگی کو فروغ دے رہے تھے۔ جبکہ مہذب انسانیت ایک ہزار آٹھ سو پچیس دن سے یہ مطالبہ کر رہی تھی کہ شام کے تنازعہ کا حل فوجی ہتھیاروں کے استعمال میں نہیں ہے۔ یہ سیاسی تنازعہ ہے۔ اور اسے سیاسی طور پر حل کیا جاۓ۔ لیکن شام کو تباہ کرنے کے بعد، لاکھوں خاندانوں کو تباہ کرنے کے بعد، بچوں کا مستقبل تباہ کرنے کے بعد امریکہ اور اس کے عرب اتحادی اب شام کے مسئلہ کے سیاسی حل کے راستہ پر آ گیے ہیں۔ آخر انہوں نے حاصل کیا کیا ہے؟ کیا شام کی خانہ جنگی سے یہ دنیا کو Entertain کر رہے تھے؟ اس خانہ جنگی نے شام میں کئی نسلوں کو تباہ کر دیا ہے۔ پانچ سال ایک بہت بڑا عرصہ تھا۔ اگر یہ اپنے تمام تر وسائل کے باوجود پانچ سال تک شام میں تنازعہ کا کوئی حل دریافت نہیں کر سکے ہیں اور بری طرح ناکام ہو گیے ہیں۔ انہیں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا چاہیے۔ اور راستہ سے ہٹ جانا چاہیے۔ اور اب دوسروں کو شام کے تنازعہ کو حل کرنے کا موقعہ دیا جاۓ۔ یہ بڑے دکھ اور تکلیف کی بات ہے کہ پانچ سال میں شام میں ان کے واچ میں تین لاکھ لوگ ہلاک ہو گیے تھے۔ لیکن یہ اسلامی انتہا پسندوں کی پشت پنا ہی کرتے رہے انہیں ہتھیار اور تربیت دیتے رہے۔ لیکن اس انسانیت کو بچانے کے لئے انہوں نے کچھ نہیں کیا تھا۔
       سرد جنگ ختم ہونے کے صرف 25 برسوں میں دنیا کے مختلف حصوں میں ایسی خونی جنگی میں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گیے تھے۔ اور اس وقت بھی دنیا نے اس انسانیت کو بچانے کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر سلامتی کونسل میں کیمروں کے سامنے ان قوموں نے یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ انسانی بحران کی صورت میں فوری مداخلت کی جاۓ گی اور انسانیت کو بچایا جاۓ گا۔ لیکن پھر دیکھا یہ گیا تھا کہ جن قوموں نے سلامتی کونسل میں یہ عہد کیا تھا وہ شام میں انسانی ہلاکتوں کا تماشہ دیکھ رہی تھیں۔ تین لاکھ شامی ہلاک ہو گیے تھے۔ دو ملین شامی بے گھر ہو گیے ہیں۔ اور یہ Human destruction of the century ہے۔ صدر پو تن اگر شام میں یہ بر وقت مداخلت نہیں کرتے تو انسانیت نیست و نا بود ہو رہی تھی۔ شام پر امریکہ بمباری کر رہا تھا۔ شام پر برطانیہ اور فرانس بمباری کر رہے تھے۔ شام پر ترکی بمباری کر رہا تھا۔ شام کی حکومت کے مخالف باغیوں کے ہاتھوں میں مہلک ہتھیار تھے۔ پھر ان باغیوں کے اندر ان کے باغیوں کے پاس ہتھیار تھے۔ خانہ جنگی کے اندر خانہ جنگی ہو رہی تھی۔ پھر ان باغیوں کے خلاف داعش نے خانہ جنگی شروع کرد ی تھی جو شام میں خلافت قائم کرنا چاہتے تھے۔ پھر امریکہ نے داعش کے خلاف شام میں اپنی جنگ شروع کر دی تھی۔ اور اسد حکومت کے باغیوں سے پہلے داعش سے لڑنے کا کہا گیا تھا۔
       اسد حکومت کے خلاف باغیوں کے اتنے زیادہ گروپ بن گیے تھے۔ کہ کسی کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ کون کس کے خلاف لڑ رہا تھا۔ دہشت گروپ کون سے تھے؟ داعش کے خلاف کون سے گروپ تھے۔ اور داعش کے ساتھ کون سے گروپ لڑ رہے تھے۔ ان میں سے بعض گروپوں کی سعودی عرب پشت پنا ہی کر رہا تھا۔ کچھ گروپوں کو ترکی کی حمایت حاصل تھی۔ جس میں داعش بھی شامل تھا۔ جبکہ کچھ گروپوں کی امریکہ مدد کر رہا تھا۔ خانہ جنگی جتنی طویل ہوتی جا رہی تھی۔ اتنے ہی زیادہ نئے گروپ بنتے جا رہے تھے۔ شام میں لڑنے والے گروپوں میں شامل ہونے کے لئے دنیا بھر سے لوگ آ رہے تھے۔ شام میں خانہ جنگی نہیں تھی۔ خانہ جنگی کا ایک میلہ لگا ہوا تھا۔ امریکی میڈیا میں شور مچا ہوا تھا کہ داعش میں بھرتی ہونے والوں کی قطار لگی ہوئی ہے۔ لیکن امریکہ سے کوئی یہ سوال نہیں کر رہا تھا کہ شام میں خانہ جنگی کو ان حالات میں کیوں اتنا طول دیا گیا تھا کہ جب دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی جاری تھی۔ یورپ اور شمالی امریکہ سے شام کی خانہ جنگی میں حصہ لینے کے لئے جانے والوں کے خلاف جب حکومتوں نے سختی کرنا شروع کر دی تھی۔ تو پھر روس کی فوجیں شام میں حکومت کے باغیوں سے لڑنے آ گئی تھیں۔
        داخلی خانہ جنگی کو دراصل دہشت گردی کو فروغ دینے کے مقاصد میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس لئے شام کی خانہ جنگی کا پانچ سال سے کوئی سیاسی حل نہیں ڈھونڈا گیا تھا۔ اسلامی انتہا پسندوں کو ہتھیار دئیے جا رہے تھے۔ اور تربیت دی جا رہی تھی۔ اسی طرح لیبیا میں حکومت ختم کر کے تمام اداروں کو تباہ کر دیا تھا۔ اور لیبیا کو اسلامی انتہا پسندوں کے حوالے کر دیا تھا۔ پانچ سال سے لیبیا میں داخلی انتشار اور خانہ جنگی کے حالات دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔  اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ دہشت گردی زندہ ہے۔ دہشت گردی کی جنگ کو سرد جنگ کا Substitute بنایا گیا ہے۔ اور اسے پچاس سال تک اسی طرح جاری رکھا جاۓ گا۔ امریکہ کی مشرق وسطی پالیسی، شام پالیسی، عراق پالیسی، لیبیا پالیسی، افغان پالیسی میں اس کے واضح ثبوت نظر آ رہے ہیں۔
        اسلامی انتہا پسندی کا epic center کہاں تھا ؟ مشرق وسطی۔ نائن ایلون کی دہشت گردوں کا تعلق کہاں سے تھا ؟ مشرق وسطی۔ اسامہ بن لادن کا تعلق کہاں سے تھا ؟ مشرق وسطی۔ پھر یہاں امریکہ نے کیا کیا تھا ؟ امریکہ نے سب سے پہلے عراق پر حملہ کر کے ایک ایسی سیکولر حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا جو چالیس سے اسلامی انتہا پسندوں سے لڑ رہی تھی۔ اور اب امریکہ اور اس کے اتحادی چالیس سال تک عراق میں اسلامی انتہا پسندوں سے لڑیں گے۔ انہیں ان سے لڑتے 13 سال ہو گیے ہیں۔ اور ابھی 27 سال اور لڑنا ہے۔ کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔
       پھر لیبیا میں کیا کیا ہے ؟ وہاں بھی ایک سیکولر حکومت کا خاتمہ کر کے معمر قدافی کو بھوکے اسلامی انتہا پسندوں کے سامنے پھینک دیا تھا۔ اور اسلامی انتہا پسندوں کو اپنی دہشت گردی کو فروغ دینے کے لئے ایک نیا گھر دے دیا تھا۔ انہیں نیا گھر بنا کر دینے کے بعد پھر امریکہ اور اس کے اتحادی شام آ گیے تھے۔ شام کو انہوں نے اسلامی دہشت گردوں کی فیکٹری بنا دیا تھا۔ جہاں انہیں تربیت لینے کی مفت سہولتیں فراہم کی گئی تھیں۔ انہیں ہتھیار بھی مفت دئیے گیے تھے۔ شام کی اس فیکٹری کے تربیت یافتہ اب ساری دنیا میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ اور امریکی اور مغربی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ اور امریکہ نے اسی لیبیا پر جس پر بمباری کر کے  قدافی کو اقتدار سے ہٹایا تھا اب بمباری کر کے چالیس اسلامی دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ اور یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔ جو ختم کرنے کی نہیں جاری رکھنے کی جنگ ہے۔
       روس کا شام میں کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔ نہ ہی روس کا دہشت گردی کی جنگ جاری رکھنے میں کوئی مفاد ہے۔ انسانیت کی بقا کے مفاد میں روس نے شام میں مداخلت کی ہے۔ صدر بشر السد کا دل اپنے ملک کو کھنڈرات میں دیکھ کر روتا ہو گا۔ انہیں اپنے عوام کو تکلیفوں اور اذیتوں میں دیکھ کر بھی رونا آتا ہو گا۔ ان کے ملک اور عوام کے خلاف ان کے نام نہا د برادر عرب حکمرانوں نے یہ سازش کی ہے۔ جنہوں نے صدر اسد سے بھی زیادہ اپنے ظالم اور جابر ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے عراق کے خلاف سازشوں میں تعاون کیا تھا۔ انہوں نے لیبیا کے خلاف سازشوں میں حصہ لیا تھا۔ Genuine مسلم اس تاریخ کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ صدر اسد نے روس کے صدر ویلادیمر پوتن کو جنگ بندی معاہدے پر اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔ جنہوں نے شام کو کھنڈرات بنایا ہے ۔ امید ہے مہذب انسانیت ان کے اور ان کے اتحادیوں کے عزائم کبھی پورے نہیں ہونے دے گی۔  

       

Tuesday, February 23, 2016

Israel, As A Jewish State, Yes. Israel, As A Zionist State, Is Hard To Accept.

Muslim People Are Good Friends Of Jewish People  

Israel, As A Jewish State, Yes. Israel, As A Zionist State, Is Hard To Accept.
Will The World Accept Germany As A Nazi State?

مجیب خان    

Jews Inside The Auschwitz Concentration Camp In Poland
Palestinian Refugee Camp On September 20th, 1982 -- Sabra, Lebanon

        مسلم ملکوں کی لڑائی یہودیوں سے نہیں ہے۔ یہ Zionist ہیں جن کی لڑائی مسلم ملکوں سے ہے۔ مسلم ممالک جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں۔ ان کے سامنے سوال یہ ہے کہ اسرائیل ایک Jewish state ہے ؟ یا اسرائیل Zionist state ہے ؟ اسلامی جمہوریہ ایران میں اگر یہودی آباد ہیں۔ ان کی عبادت گاہیں ہیں۔ انہیں ان کے تہوار منانے کی آزادی ہے۔ ایران میں اقتصادی سرگرمیوں میں انہیں حصہ لینے کا حق ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ایران کی اسلامی حکومت کی یہودیوں سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔ اسلامی حکومت کی لڑائی Zionist  یہودیوں سے ہے۔ ایران کے سابق صدر احمدی نژاد Zionist state کی مخالفت میں اکثر بیان دیتے تھے۔ صدر کرنل قدافی بھی یہودیوں سے ملتے تھے۔ ان کی انویسمینٹ کمپنیوں میں اپنے تیل کے ڈالروں کو انویسٹ کرتے تھے۔ لیکن کرنل قدافی Zionism کے سخت خلاف تھے۔ حالانکہ قدافی نے افریقہ میں یہودیوں کی بڑی مدد بھی کی تھی۔ لیکن اسرائیلی Zionist امریکی میڈیا کے ذریعے کرنل قدافی کو یہودیوں کا دشمن ثابت کرتے تھے۔ اسی طرح شام کے صدر حافظ السد سے امریکہ کی بڑی کمپنیوں کے یہودی مالکان سے تعلقات تھے۔ اور یہ صدر حافظ السد سے ملاقات کرنے دمشق جایا کرتے تھے۔ لیکن حافظ السد بھی Zionism کے سخت خلاف تھے۔ عراق میں صدر صدام حسین بھی Zionist یہودیوں کے خلاف تھے۔ لیکن امریکہ اور یورپ کے یہودی ان کی حکومت سے کاروبار کرتے تھے۔ یورپ کی بعض یہودی کمپنیوں نے مہلک ہتھیار بنانے کی ٹیکنالوجی بھی فراہم کی تھی۔ اور پھر یہ Zionists تھے جنہوں نے صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی مہم چلائی تھی۔ اور امریکہ نے ان کے مشن کی تکمیل کی تھی۔
       اسرائیل اگر ایک Jewish state ہوتی تو فلسطینیوں کے ساتھ یہ سلوک کبھی نہیں ہوتا جو Nazi state میں یہودیوں کے ساتھ ہوا تھا۔ نازیوں کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کی طرح اسرائیل کبھی اپنی توسیع پسندی کی پالیسیوں کو فروغ نہیں دیتا۔ 69 سال سے فلسطین پر اسرائیل کا فوجی قبضہ فلسطینیوں کے لئے Holocaust ہے۔ صدام حسین کے بارے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ مڈل ایسٹ کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اب یہ دیکھا جا رہا ہے کہ یہ Zionists ہیں جو مڈل ایسٹ بلکہ دنیا کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔   امریکہ دنیا کی واحد طاقت میں Zionists زیادہ منظم اور مضبوط ہو گیے ہیں۔ 90 کے عشرے میں صدر بل کلنٹن انتظامیہ میں امریکہ کی خارجہ اور دفاعی پالیسی میں Zionists انفلوئنس خاصہ بڑھ گیا تھا۔ 3 اکتوبر2001 میں بی بی سی کے مطابق وزیر اعظم ایرئیل شیرون نے شمون پریس سے کہا تھا کہ
Arial Sharon


 “every time we do something you tell me America will do this and will do that ----I want to tell you something very clear: Don’t worry about American pressure on Israel . We, the Jewish people, control America, and the Americans know it.”

امریکی میڈیا میں ایرئیل شیرون کے اس بیان کو دبا دیا گیا تھا۔
        5 جولائی 2000 میں کیمپ ڈ یوڈ میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان صدر کلنٹن امن معاہدہ کرانے کی کوششوں میں اگر کامیاب ہو جاتے۔ تو بش انتظامیہ میں شاید نائین ایلون کو دہشت گردی کا واقعہ بھی نہیں ہوتا۔ اور عرب اسلامی دنیا میں اتنے وسیع پیمانے پر جو خوفناک تباہی ہو رہی ہے۔ یہ تباہی بھی نہیں ہوتی۔ اسرائیلی وزیر اعظم ایہود بارک  اور چیرمین یا سر عرفات کے درمیان امن مذاکرات ناکام ہو نے کے بعد اسرائیلی Zionists نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب فلسطینیوں سے کوئی مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔ اور انہوں نے اپنے پلان بی کا آغاز کر دیا تھا۔
        نائن ایلون کی دہشت گردی کے واقعہ کے بعد صدر بش نے اپنے پہلے بیان میں صلیبی جنگ کا آغاز ہونے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن پھر لفظ صلیبی واپس لے لیا گیا تھا۔ اور اس کی جگہ اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کہا گیا تھا۔ اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ساتھ عرب اسلامی ملکوں میں مطلق العنان حکومتیں تبدیل کرنے اور پھر ان ملکوں کی جمہوری تعمیر نو کرنے کے منصوبے بھی بناۓ جا رہے تھے۔ امریکہ کے خلاف نائن ایلون کی دہشت گردی میں 19 سعودی شہری شامل تھے۔ جس کے بعد بش انتظامیہ پر سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں پر مالی سختیاں کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ سعودی جس طرح اسلامی انتہا پسند تنظیموں کی مالی معاونت کر رہے تھے۔ اسے روکنے کے لئے سخت اقدامات کرنے کا کہا جا رہا تھا۔ ان کے تیل کی دولت پر امریکہ سے کنٹرول کرنے کا کہا جا رہا تھا۔ تاہم بش انتظامیہ نے خلیج کے بعض مالدار عربوں کے فنڈ منجمد کر دئیے تھے۔ اس وقت سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں کے خلاف مغربی میڈیا میں ایک منظم مہم چلائی جا رہی تھی۔ بش انتظامیہ کی فہرست میں سات اسلامی ملک تھے جنہیں تباہ کرنا تھا۔ اور اس کا آغاز عراق سے ہوا تھا۔
        ڈپٹی سیکریٹری دفاع پال ولفویز کی قریبی فیملی اسرائیل میں رہتی تھی۔ پال ولفویز عراق میں حکومت تبدیل کرنے کی مہم کے کپتان تھے۔ جنہیں واشنگٹن میں Neo Cons کہا جاتا تھا۔ لیکن اسرائیل میں انہیں Zionist سمجھا جاتا تھا۔ امریکہ دنیا کے لئے جتنا طاقتور تھا۔ صدام حسین کے خلاف مہم بھی اسی طاقت کے ساتھ چلائی گئی تھی۔ اور یہ مہم آف دی صدی تھی۔
        اور یہ برنارڈ ہنری لیوی فرانسیسی مصنف اور دانشور تھا۔ جس نے لیبیا میں حکومت تبدیل کرنے کی مہم چلائی تھی۔ برنارڈ پہلے قدافی حکومت کے بن غازی کے جلا وطن مخالفین سے ملا تھا۔ جو شاہ اد ریس کے حامی تھے۔ قدافی نے چالیس سال قبل شاہ اد ریس کا تختہ الٹا تھا اور لیبیا کی باگ دوڑ سنبھال لی تھی۔ برنارڈ لیوی نے پھر صدر قدافی کے بن غازی کے مخالفین کی صدر نکولس سرکو زی سے ملاقات کرائی تھی۔ جس کے بعد صدر سرکو زی نے صدر قدافی کو اقتدار سے ہٹانے اور بن غازی کی اپوزیشن کو اقتدار میں لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ صدر سرکو زی نے برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کمیرن کو فون کیا۔ اور لیبیا کے بارے میں انہیں اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ صدر اوبامہ نے بھی صدر سرکو زی کے فیصلے کی حمایت کی تھی۔ قدافی حکومت کے خلاف سلامتی کونسل میں فرانس کی قرار داد منظور ہو گئی تھی۔ سلامتی کونسل میں قرارداد منظور ہونے کے صرف چند گھنٹوں کے اندر برطانیہ اور فرانس نے تریپولی پر بمباری شروع کر دی تھی۔ بعد میں امریکہ بھی ان کے ساتھ بمباری میں شامل ہو گیا تھا۔ حالانکہ قدافی حکومت کے اعلی حکام چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ یہ القاعدہ  کے دہشت گرد ہیں جو لیبیا میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن برنارڈ لیوی اتنا زیادہ بااثر تھا کہ تین بڑی طاقتوں کے مفادات پر اس کے مفاد کو اہمیت دی گئی تھی۔ اور یہ Zionist Power تھی۔
        اسرائیلیوں کے ہمیشہ یہ دعوی ہوتے تھے کہ مشرق وسطی میں اسرائیل ایک واحد جمہوری ملک ہے۔ اور ان کے اطراف ہر طرف ڈکٹیٹر ہیں۔ اور ان ڈکٹیٹروں کے ساتھ امن مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ اسرائیل برطانیہ اور امریکہ کو عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے علم تھا۔ انہیں یہ معلوم تھا صدام حسین مشرق وسطی پر اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتے تھے۔ لیکن امریکہ اسرائیل اور برطانیہ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ عرب ملکوں میں جب بھی جمہوریت آۓ گی۔ تو یہ اسلامسٹ ہوں گے جو سب سے پہلے اقتدار میں آئیں گے۔ اور پھر اسلامسٹ اور ماڈریٹ کے درمیان رسہ کشی بھی ہو گی۔ لیکن جمہوریت جو راستہ اختیار کرے گی ۔ اس میں یہ فیصلہ ہو جاۓ گا کہ ماڈریٹ غالب آ جائیں گے۔ کیونکہ عوام اسلامی انتہا پسندوں کو ڈکٹیٹروں کا متبادل تسلیم نہیں کریں گے۔ اور جمہوریت انہیں شکست دے دے گی۔ لیکن یہ ترقی یافتہ قوموں کی نامعقول قیادتوں کے فیصلے ہیں کہ انہوں نے مصر میں اخوان المسلمون کے ماڈریٹ کی منتخب حکومت کی برطرفی تسلیم کر لی تھی۔ کہ یہ اسلامی انتہا پسند تھے۔ لیکن پھر شام میں یہ ایک سیکولر حکومت کے خلاف اخوان المسلمون کے انتہائی انتہا پسندوں کو ماڈریٹ کہتے ہیں اور ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ حالانکہ مصر میں اخوان المسمون نے شریعت کا نظام نافذ نہیں کیا تھا۔ لیکن شام میں یہ اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
        اسرائیل کا خلیج کے حکمرانوں سے سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ سعودی اور خلیج کے حکمران اسرائیل کو اسلامی دہشت گردوں حماس اورحزب اللہ سے بچائیں گے۔ اور مشرق وسطی میں ایران کے انفلوئینس کو Counter کرنے میں اسرائیل کی مدد کریں گے۔ ایرئیل شیرون نے امریکہ کے بارے میں جو کہا تھا۔ وہ انہوں نے سعود یوں کے کان میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ کو ہم کنٹرول کرتے ہیں۔ اور سعود یوں کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ مغربی مالیاتی نظام ان کی دولت پر کھڑا ہے۔ اور جس دن وہ ان کے مالیاتی نظام سے اپنی دولت نکال لیں گے۔ یہ گر جائیں گے۔ یہ سن کر سعود یوں کی زندگی میں جیسے نئی روح آ گئی تھی۔ انہوں نے یمن پر بم گرانے شروع کر دئیے ۔ اور وہ بھی Regime change کی باتیں کرنے لگے۔ شام میں روس سے لڑنے کی باتیں کرنے لگے۔
        سعودی عرب کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق پینل کا سربراہ بنا دیا ہے۔ اور امریکہ جس کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹوں میں تقریباً نصف صدی سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تنقید ہوتی تھی۔ اس امریکہ نے سعودی عرب کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے پینل کا سربراہ منتخب ہونے پر مبارک باد دی ہے۔ ادھر مغربی میڈیا میں یمن میں سعودی فوجی آپریشن کے نتیجے میں انسانی ہلاکتوں اور املاک کی تباہی کے بارے میں خبروں کو بلیک آوٹ کر دیا ہے۔ اور یہ Zionist power ہے۔ امریکہ اور یورپ میں اسے محسوس کیا جا رہا ہے۔  ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ اسرائیل کے معاملے میں غیرجانبدار رہے گی۔ اور لابیوں کو ان کی انتظامیہ کے  قریب نہیں آنے دے گی ۔     
  
       

                                                                                 

Saturday, February 20, 2016

Is Syria To Turkey As Afghanistan Is To Pakistan?

Is Syria To Turkey As Afghanistan Is To Pakistan?

 “I Told You [America] Many Times: Are You With Us Or With This Terrorist Organization”
-President Erdogan

مجیب حان

Mourning In Turkey Following A Terrorist Attack In Istanbul
         ترکی میں اس سال کے آغاز سے دہشت گردی کے واقعات میں تقریباً دوسو سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ دہشت گردوں کے حملوں میں بے گناہ لوگ جب بھی اور جہاں بھی ہلاک ہوتے ہیں۔ انسانیت کے لئے یہ بڑا صدمہ ہے۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ترکی کی اسلامی حکومت نے پاکستان کو دہشت گردی میں گھر جانے سے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا۔ پاکستان جن غلطیوں کے نتیجے میں دہشت گردی کا شکار بنا ہے۔ ترکی کی اسلامی حکومت نے بھی پاکستان کی ان غلطیوں کو دہرایا ہے۔ صدر طیب اردگان جب وزیر اعظم تھے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خوفناک واقعات میں لوگوں کی ہلاکتوں سے متاثر ہوۓ تھے۔ اور اس مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ ترکی کی یکجہتی کا اظہار کرنے اسلام آباد آۓ تھے۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان کی مد د کرنے کا اعادہ بھی کیا تھا۔ ان سے قبل عبداللہ گل جب ترکی کے صدر تھے۔ وہ بھی پاکستان آۓ تھے۔ اور انہوں نے پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں کو ترکی پر حملے کہا تھا۔ اور اب ترکی دہشت گردوں کے حملوں کا سامنا کر رہا ہے۔ دہشت گرد ایک اور اسلامی ملک کو تباہ کر رہے ہیں۔ ترکی ان حالات میں کیسے آیا ہے؟
      اسلامی قیادتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ واقعات اور ارد گرد کے حالات سے کبھی سیکھتے نہیں ہیں۔ اور اپنے عوام کے لئے مشکلات پیدا کر دیتے ہیں۔ اس وقت تمام سنی قیادتیں ایک ہی طرح کی غلطیاں کر رہی ہیں۔ اور اپنے عوام کو لے کر ان میں  دھنستی جا رہی ہیں۔ ترکی کی قیادت نے یہ دیکھا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں طالبان کی حمایت کر کے اپنی سلامتی اور استحکام کے لئے کس طرح خطرات پیدا کر لئے تھے۔ 20 سال ہو گیے ہیں اور پاکستان ابھی تک ان خطروں سے نجات حاصل نہیں کر سکا ہے۔ دنیا کے نئے خطرے بھی پاکستان کے ان خطروں میں شامل ہو گیے ہیں۔ اور اب ترکی بھی پاکستان کے ساتھ اسی صورت حال میں آگیا ہے۔ پاکستان کو بلوچستان میں بلوچ باغیوں کی انسرجنسی کا سامنا تھا۔ اور بیرونی ایکٹر بلوچ انسرجنسی کا اپنے سیاسی مقاصد میں استحصال کر رہے تھے۔ جیسے یہ ان کا سیاسی شغل تھا۔ اور ترکی کو کرد باغیوں کی انسرجنسی کا سامنا ہے۔
      واشنگٹن میں آزاد کرد ستان کی تحریک کے در پردہ طاقتور لابی کی حمایت ہے۔ آزاد کرد ستان کا منصوبہ امریکہ کے ایجنڈے میں ہے۔ پہلے عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ تھا۔ پھر شام کے ٹکڑے کرنے کا منصوبہ بھی تھا۔ جب عراق اور شام کے ٹکڑے ہو جاتے تو پھر عراقی کردوں کا شام کے کردوں کے ساتھ الحاق ہو جاتا۔ اور اس کے بعد ترکی کے کردوں کے مقدر کا فیصلہ ہوتا۔ یقیناً اس صورت حال سے ترکی کی حکومت ضرور آگاہ ہو گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اردگان حکومت سعود یوں اور امریکہ کے ساتھ شام میں اتنا زیادہ آگے کیسے چلی گئی تھی۔ سعود یوں اور امریکہ کا مذہب مختلف ہے لیکن ان کا سیاسی DNA ایک ہے۔ سعود یوں اور امریکہ نے صدام حسین کو ایران کے خلاف استعمال کیا تھا۔ عراق نے آٹھ سال تک ایران سے جنگ لڑی تھی۔ لیکن پھر یہ سعودی اور امریکہ تھے جو صدام حسین کے سب سے بڑے دشمن ہو گیے تھے۔ سعود یوں نے ایران سے دشمنی میں اب ترکی کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ ترکی میں اگر لبرل یا سیکولر حکومت ہوتی تو یہ حکومت سعود یوں کے کبھی اتنا قریب نہیں جاتی۔ اور شام کے سلسلے میں بھی اس کی پالیسی بہت مختلف ہو تی ۔ اوبامہ انتظامیہ اب شام میں داعش کے خلاف کردوں کی مدد کر رہی ہے۔ اور انہیں ہتھیار بھی فراہم کر رہی ہے۔ جبکہ اردگان حکومت انہیں دہشت گر د سمجھتی ہے۔ اور شام  کی سرحد کے قریب ترکی کی فوج ان کے خلاف کاروائی بھی کر رہی ہے۔ امریکہ نے بھی Pkk کو دہشت گرد قرار دیا ہے۔
      یہ حالات اردگان حکومت نے خود ترکی کے لئے پیدا کیے ہیں۔ ترکی کے اطراف حالات زیادہ خطرناک صورت اختیار کر رہے تھے۔ عراق میں استحکام کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ شیعہ سنی کشیدگی خانہ جنگی بن رہی تھی۔ عرب اسپرنگ سے عرب حکمران خوفزدہ ہو رہے تھے۔ شام میں خانہ جنگی خونی ہوتی جا رہی تھی۔ ترکی کے اطراف دہشت گردی کا طوفان سو نامی بن رہا تھا۔ اردگان حکومت کو اس طوفان سے ترکی کو بچانے کے اقدام کرنا چاہیے تھے۔ ترکی ایک مستحکم جمہوری ملک تھا۔ اس کی معیشت مضبوط تھی۔ یورپی یونین میں شامل ہونے کی ایک عرصہ سے کوشش کر رہا تھا۔ مغربی ایشیا میں ترکی استحکام کا جزیرہ تھا۔ مشرق اور مغرب کے درمیان ترکی ایک Bridge تھا۔ ایک سیکولر ترکی نے دنیا میں ترکی کو جو مقام دیا تھا۔ ترکی کی اسلامی حکومت نے اسے کھو دیا ہے۔ اور یہ مذہبی قیادتوں کا المیہ ہے۔ مذہب کی سیاست میں یہ قیادتیں بھٹک جاتی ہیں۔ اور دنیا کے حالات کو آخرت  بنانے کے پیغام میں دیکھنے لگتی ہیں۔ حالانکہ اللہ کا پہلا پیغام دنیا میں اچھا انسان بن کر انسانیت کے لئے اچھے کام کرنے کے بارے میں ہے۔ جس سے آخرت بنتی ہے۔ اردگان حکومت کے فیصلے غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ عراق، شام اور ایران ترکی کی سلامتی اور استحکام کی فرنٹ لائن تھے۔ اور یہ ملک اردگان حکومت کی پہلی توجہ ہونے چاہیے تھے۔ لیکن اردگان حکومت نے ان ملکوں کے خلاف سعودی سیاست سے اتفاق کیا تھا۔ جو اسلامی دنیا میں تمام غلطیوں کی ماں تھی۔
      ترکی کو شام کی داخلی خانہ جنگی میں کبھی باغیوں کے ساتھ پارٹی نہیں بننا چاہیے تھا۔ پاکستان طالبان کے ساتھ پارٹی بن گیا تھا۔ افغانستان کی خانہ جنگی ابل کر پاکستان آ گئی تھی۔ اور اس نے پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لئے خطرے پیدا کر دئیے تھے۔ اردگان حکومت نے پاکستان کی اس غلطی سے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا۔ شام اب ترکی کا افغانستان ہے۔ اور ترکی کی سرحد پر ایک بڑی mess ہے۔ اردگان حکومت شام میں آزاد شامی فوج کی حمایت کر رہی ہے۔ اور ترکی کے کردوں نے اپنی آزادی کی جنگ ترکی کے خلاف شروع کر دی ہے۔ امریکہ کردوں کی مدد اس لئے کر رہا ہے کہ یہ شام میں داعش سے لڑ رہے ہیں۔ لیکن روس کی حکومت نے شام میں داعش کے بارے میں جو حقائق دئیے ہیں۔ ان کے مطابق ترکی داعش کی مدد کر رہا تھا۔ داعش ترکی کے ذریعہ تیل کی تجارت کر رہی تھی۔ اور یہ داعش کی آمدنی کا ایک بڑا وسیلہ تھا۔ ترکی کے راستہ انہیں شام میں ہتھیار بھی پہنچاۓ جا رہے تھے۔ اور یہ سب امریکہ کے علم میں تھا۔ لیکن یہ ایسے ہی تھا کہ جیسے گیارہ سال تک امریکہ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اسامہ بن لادن کہاں ہے؟ حالانکہ سی آئی اے شام کے باغیوں کو تربیت دے رہی تھی۔ ان باغیوں میں داعش کے لوگ بھی تھے یا جنہیں تربیت دی جاتی تھی ۔ وہ پھر داعش میں شامل ہو جاتے تھے۔ اور یہ کھیل شام میں پانچ سال سے ہو رہا ہے۔
      روس نے شام میں فوجی مداخلت کر کے اس کھیل کو ختم کیا ہے۔ شام کے مسئلہ پر روس کے ساتھ امریکہ نے براہ راست کسی فوجی تصادم سے انکار کر دیا ہے۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے لیکن نیٹو ملک ترکی کے لئے روس سے جنگ نہیں کریں گے۔ ترکی میں اب بم پھٹ رہے ہیں۔ ترکی کی فوج کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ شام کی خانہ جنگی ابل کر اب ترکی میں آ رہی ہے۔ انقرہ میں خود کش دھماکوں کے بعد صدر اردگان غصہ سے واشنگٹن کو اس کا الزام دیتے ہیں کہ اس خون کے دریا کا ذمہ دار یہ ہے۔ خطہ میں داعش ہی خطرہ نہیں ہے۔ شامی کرد بھی دہشت گرد ہیں۔ اور ان کی فوجی پشت پنا ہی کی جا رہی ہے۔ صدر اردگان کہتے ہیں “I told you [America] many times: Are you with us or with this terrorist organization” حالانکہ 5 سال سے صدر بشر السد بھی اپنے ہمسائیوں سے یہ ہی کہہ رہے ہیں کہ دہشت گرد ان کے ملک کو تباہ کر رہے ہیں۔
      اردگان حکومت کو مشرق وسطی میں قیادت کا ایک سنہری موقعہ ملا تھا۔ ترکی عرب دنیا میں امن اور استحکام کے لئے ایک مثبت رول ادا کر سکتا تھا۔ عراق کے خلاف جنگ میں ترکی نے امریکہ کے ساتھ کولیشن میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ اور عراق کے خلاف ترکی نے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ عرب راۓ عامہ میں ترکی کے فیصلے کو سراہا یا گیا تھا۔ شام کے مسئلہ پر بھی ترکی کو یہ ہی پالیسی اختیار کرنا چاہیے تھی۔ ادھر اسرائیل جس طرح سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کو شیعہ اور سنی بلاک میں تقسیم کر رہا ہے۔ ترکی اس میں بھی ایک اہم مثبت رول ادا کر سکتا تھا۔ تاریخ کے ایک ایسے نازک موڑ پر کہ جب اسلامی دنیا کا اتحاد مسلمانوں کے بقا اور ان کے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے ۔ اسلامی دنیا انتشار کا شکار ہے اور ایک ذہین اور با صلاحیت قیادت سے محروم ہے۔     

Wednesday, February 17, 2016

Wars Are The Problem In The Middle East

Saudi Politics Is Dividing The Islamic World   

Wars Are The Problem In The Middle East

مجیب خان

Deceased Saudi King Abdullah And Syrian President Assad
        سعودی بریگیڈیر جنرل احمد اسیری نے الجزیرہ  سے انٹرویو میں کہا ہے کہ سعودی عرب داعش کے خلاف امریکہ کی قیادت میں کولیشن میں شامل ہونے اور اپنی فوجیں بھیجنے کے لئے تیار ہے۔ سعودی بریگیڈیر نے کہا ہمیں اب کیونکہ یمن میں اس کا تجربہ ہو گیا ہے۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ صرف فضا سے کاروائی کافی نہیں ہوتی ہے۔ زمینی فوجی آپریشن بھی ضروری ہے۔ زمین پر بہتر نتائج حاصل کرنے کے لئے ہمیں دونوں کا استعمال ایک ساتھ کرنا ہو گا۔ تاہم سعودی بریگیڈیر نے یہ نہیں بتایا کہ سعودی عرب کتنی فوجیں بھیجے گا۔ امریکی سیکرٹیری دفاع ایشٹن کارٹر نے سعودی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوۓ کہا ہے کہ ایسی خبروں کا خیر مقدم ضرور کیا جاۓ۔
       اور اب اس ہفتہ سعودی پریس ایجنسی نے یہ خبر دی ہے کہ تقریباً 20 ملکوں کی فوجوں نے شمالی سعودی عرب میں انتہائی اہم فوجی مشقیں کی ہیں۔ خطہ میں اس سے پہلے کبھی ایسی مشقیں نہیں ہوئی تھیں۔ سعودی حکام نے ان مشقوں کو "شمال کی گرج" Thunder of the North کا نام دیا ہے۔ جس میں زمینی، فضائی اور بحری فوجوں نے حصہ لیا تھا۔ اور ان فوجی مشقوں سے یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ ریاض اور اس کے اتحادی تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور خطہ میں استحکام اور امن کا تحفظ کرنے کے لئے متحد ہیں۔ ان فوجی مشقوں سے قبل سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے یہ بیان دیا تھا سعودی فوجیں شام میں جائیں گی۔ اور پھر یہ بھی کہا گیا تھا کہ سعودی اور ترکی کی فوجیں شام میں جائیں گی۔
        پھر سعودی شاہ سلمان کا یہ بیان بھی آیا ہے جس میں شاہ نے Kingdom کے داخلی امور میں دوسرے ملکوں کو مداخلت کرنے سے باز رہنے کا کہا ہے۔ شاہ سلمان نے کہا کہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت کے بغیر اپنا دفاع کرنا ہمارا حق ہے۔ ہم دوسروں سے بھی یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمارے معاملات میں مداخلت مت کریں۔" پھر شاہ سلمان فرماتے ہیں کہ ہم اپنے عرب اور مسلم بھائیوں کے ساتھ تمام شعبوں میں اپنی سرزمین کا دفاع کرنے اور ان کی آزادی کی بقا اور ان کے حکومتی نظام کے تحفظ میں جو ان کے عوام نے تسلیم کیا ہے۔ اس میں تعاون کریں گے۔ لیکن اسلام کے دو مقدس مقامات کے محافظ کے بیان اور کردار میں بڑا تضاد نظر آتا ہے۔ جن میں اسلامی درس کا فقدان ہے اور دنیا کی سیاست زیادہ نظر آتی ہے۔ اسلام کے دو مقدس مقامات سے چودہ سو سال قبل امن اور انسانیت کا جو پیغام دنیا میں پھیلانے کے لئے دیا گیا تھا۔ اس پیغام کو جیسے فراموش کر دیا ہے۔
        حالیہ چند سالوں سے سعودی عرب کے کردار میں نمایاں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ سعودی عرب اسلامی دنیا کی یکجہتی سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اور ان قوتوں کے ساتھ سعودی تعاون بڑھتا جا رہا ہے ۔ جو اسلامی ملکوں میں انتشار کو فروغ دے رہے ہیں۔ اسلامی ملکوں کو کھنڈرات بنا رہے ہیں۔ اقتصادی ترقی میں انہیں پیچھے لے جا رہے ہیں۔ اپنے ہتھیاروں کی تجارت کو فروغ دینے کے مفاد میں جنگوں سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں تباہ و برباد ہو گئی ہیں۔ لاکھوں بے گناہ بچوں کی دنیا تاریک ہو گئی ہے۔ یہ جنگیں مسلمانوں کی تباہی بن رہی ہیں۔ جو سرد جنگ میں سیٹو اور سینٹو فوجی اتحاد بناتے تھے اب سعودی عرب کو یہ فوجی اتحاد بنانے کا مشن دے دیا ہے۔ سعودی عرب کی قیادت اسلامی ملکوں کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ جنگیں اسلامی ملکوں کے مسائل کا حل نہیں ہیں۔
        سعودی حکمران ان کے معاملات میں دوسروں کی مداخلت کے خلاف ہیں۔ لیکن وہ خود یمن میں Lethal فوجی مداخلت کر رہے ہیں۔ اور اپنے ساتھ دوسرے ملکوں کو بھی مداخلت کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یمن نے سعودی عرب میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ یہ سعودی ہیں جو یمن میں اپنی پسند کی حکومت مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ شاہ سلمان نے خود اپنے بیان میں یہ کہا ہے کہ "حکومت کا نظام جو ان کے عوام نے تسلیم کیا ہے اس کا تحفظ کیا جاۓ۔" لیکن کیا سعودی عرب یمنی عوام کے حکومتی نظام کا احترام کر رہا ہے؟ ایک سال میں سعودی عرب نے ہزاروں بم یمن پر صرف ان کا نظام تباہ کرنے کے لئے گراۓ ہیں۔ چار ہزار بے گناہ یمنیوں کو انہوں نے ہلاک کیا ہے۔ ان کے گھر اور ان کے اقتصادی وسائل تباہ کر دئیے ہیں۔ چودہ سو سال قبل اسلام کے دو مقدس پر کیا یہ درس دیا گیا تھا؟ جس کے وہ خود کو محافظ کہتے ہیں۔
        حالانکہ یمن میں ایران کے ملوث ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ یہ صرف اسرائیلی صیہونی پراپگنڈہ ہے۔ جیسے امریکی میڈیا کے ذریعے پھیلایا گیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس اگر یمن کے خلاف سعودی جارحیت کی حمایت اپنے اقتصادی مفاد میں کرتے ہیں۔ تو دنیا میں بے شمار ملک مظلوم انسانیت کی حمایت کو اپنا ایک اخلاقی اور مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اور ایران ان ملکوں میں شامل ہے۔ یمنی مظلوم ہیں۔ ان کے ملک کے خلاف ننگی جا حا ریت ہو رہی ہے۔ شام میں سعودی کیوں مداخلت کر رہے ہیں؟ شام میں ایک قانونی حکومت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اپنے اندرونی معاملات میں کسی سیاسی مداخلت کے خلاف ہیں۔ شام میں حکومت کے خلاف دہشت گردوں کو اپوزیشن کا نام دے دیا ہے۔ لیکن شام کے ہمسایہ میں اسرائیلی حکومت کے خلاف فلسطینیوں کی اپوزیشن کو دہشت گردی کہا جاتا ہے۔ تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ جنہوں نے شام کو تباہ کرنے والوں کی مدد کی ہے۔ انہیں ہتھیار دئیے ہیں۔ تربیت دی ہے۔ شام کے خلاف نائن ایلون سے بڑی دہشت گردی ہوئی ہے جس میں3لاکھ افراد مارے گیے ہیں۔ اور سارا ملک تباہ ہو گیا ہے ۔ انسانیت کے خلاف یہ 21 ویں صدی کا کرائم ہے۔ شام میں ہزار سال کی اسلامی تاریخ کے انتہائی قیمتی اثاثے تھے۔ یہاں عیسا یوں کی تاریخی عبادات گاہیں تھیں۔ نام نہاد اپوزیشن دہشت گردوں نے انہیں بھی تباہ کر دیا ہے۔ لیکن امریکہ نے ان کی حمایت جاری رکھی ہے۔ سعود یوں کو تاریخ اور ثقافت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ نہ ہی انہیں مذہبی تاریخی یاد گاروں سے کوئی عقیدت ہے۔ سعودی عرب میں اس لئے میوزیم بھی نہیں ہیں۔ اور شام تباہ ہو جانے کی انہیں کوئی پروا نہیں ہے۔
        شام نے سعودی عرب میں کبھی مداخلت نہیں کی تھی۔ لیکن سعودی حکومت کو شام میں حکومت سے نفرت ہو گئی  ہے اور وہ اس حکومت کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ لیکن سعود یوں کو پھر وہ لوگ پسند نہیں ہیں جو سعودی حکومت کی اپوزیشن کی حمایت کرتے ہیں۔ اور یہ اسلام کے دو مقدس مقامات کے محافظ ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ جو چیز تمہیں پسند نہیں ہے۔ اسے دوسروں کے لئے بھی پسند مت کرو۔ لیکن سعودی شام میں مداخلت کر رہے ہیں۔ یمن میں مداخلت کر رہے ہیں۔ عراق اور لیبیا میں سعود یوں نے غیر ملکی طاقتوں کی حمایت کی تھی۔ مصر میں انہوں نے اسرائیلیوں کے ساتھ  مل کر ایک منتخب جمہوری حکومت کا خاتمہ کرنے میں مداخلت کی تھی۔ یہ سعودی حکومت کے فیصلے ہیں۔ جو اب انہیں ان کے ملک میں غیر ملکی مداخلت ہونے کا خوف پیدا کر رہے ہیں۔ جس طرح ایرانیوں کو معلوم ہے کہ ان کے اطراف میں ہر طرف سنی ہیں۔ اسی طرح سعود یوں کو بھی یہ جاننا چاہیے کہ شیعاؤں کی ایک بڑی آبادی سعودی شہری ہیں۔ اور بحرین اومان کویت  متحدہ عرب امارات میں شیعہ آباد ہیں۔ پھر اس خطہ سے باہر دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی شیعہ اچھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ سنی ملکوں سے محاذ آ رائی ایران کے مفاد میں نہیں ہے۔ سنی عرب ملکوں کو بھی اسی طرح دکھنا چاہیے۔ ایران کا عربوں پر تسلط قائم کرنے کے کوئی عزائم نہیں ہیں۔ یہ اسرائیل ہے جو عربوں پر اپنی فوجی اور اقتصادی اجارا داری قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس مقصد میں امریکی  طاقت کے ذریعے عربوں کو فوجی اور اقتصادی طور پر کمزور کرنے کا  کام لیا گیا ہے۔ ان کے درمیان انتشار کی سیاست فروغ دی جا رہی ہے۔ اسرائیل عرب دنیا کے حالات سے اتنا خوفزدہ نہیں ہے کہ جتنا خوش ہے۔
        عربوں کی عقلوں پر جیسے پرد ے پڑ گیے ہیں۔ اور وہ تباہی کے راستہ پر جا رہے ہیں۔ اس خطہ میں جتنی زیادہ فوجی مہم جوئیاں ہو رہی ہیں۔ ان کے حالات اتنے ہی زیادہ خراب سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنا زیادہ تعاون کیا ہے۔ دہشت گردی اب عرب دنیا میں ہر ملک کے دروازے پر پہنچ گئی ہے۔ سعودی عرب ان کے معاملات میں ایران کی مداخلت کے خلاف ہے۔ لیکن امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی ان کے معاملات میں مداخلت کا وہ خیر مقدم کرتے ہیں۔ ان عرب حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ان طاقتوں کی فوجی مہم جوئیاں انہیں عدم استحکام کر رہی ہیں۔ سعودی عرب اور خلیج کے عرب حکمرانوں کا امریکہ کی قیادت میں ایک فوجی اتحاد ہے۔ جو نام نہاد داعش کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں ایک فوجی اتحاد جس میں خلیج کی ریاستیں، سوڈان، اردن ،مراکش، صومالیہ، چڈ ،ملیشیا  اور بعض دوسرے ملک شامل ہیں۔ یمن کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اور امریکہ برطانیہ اور فرانس اس اتحاد کی پشت پر ہیں۔ اور اب سعودی عرب نے اپنی قیادت میں اسلامی ملکوں کا ایک فوجی اتحاد بنانے کا اعلان کیا ہے۔ جس میں سعود یوں کے مطابق 35 ملک شامل ہیں۔ اور مزید اسلامی ملک اس میں شامل ہوں گے۔ لیکن فوجی اتحاد بنانے کی یہ لائن انہیں کس نے دی ہے ۔ شام میں روس کی فوجوں کی آمد کے بعد واشنگٹن میں اسرائیلی صیہونی تھنک ٹینک کی طرف سے یہ تجویز آئی تھی۔ کہ اسلامی ملکوں کی فوجیں اب روس کو شام سے نکالنے کے لئے لڑیں۔ اور سعودی عرب نے اسلامی ملکوں سے کوئی صلاح مشورہ کیے بغیر آدھی رات کو اسلامی ملکوں کے ایک فوجی اتحاد کا اعلان کر دیا تھا۔ سعودی اپنے فیصلے دوسرے ملکوں پر مسلط کر رہے ہیں۔ لیکن پھر دوسروں سے کہتے ہیں کہ وہ ان کے معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ایٹمی طاقت ہے۔ اور اس کا اس اتحاد میں شامل ہونا پاکستان میں داعش کی موجودگی سے زیادہ خطرناک ہے۔ سعودی شاہی خاندان کی طرف سے ملیشیا کے وزیر اعظم حاجی عبدالرزاق کے پرسنل اکاؤنٹ میں 700 ملین ڈالر تحفہ کے طور پر جمع کر آۓ گیے  تھے ۔ اور ملیشیا کے وزیر اعظم نے اپنی فوجیں سعودی عرب یمن سے لڑنے کے لئے بھیج دی تھیں۔ ملیشیا میں اس اسکینڈل کا انکشاف ہونے کے بعد ملیشیا کے اٹارنی جنرل نے وزیر اعظم کے خلاف اس کی تحقیقات شروع کر دی ہے۔ وزیر اعظم حاجی عبدالرزاق نے 620 ملین ڈالر واپس کر دئیے ہیں۔ سعودی کیونکہ 70 سال سے امریکہ کے انتہائی قریبی اتحادی ہیں اور یہ انہوں نے شاید امریکہ سے سیکھا ہے۔ کہ کس طرح ملکوں کو فوجی اتحاد میں شامل کیا جاتا ہے اور پھر ان کے ذریعہ کس طرح جنگیں لڑی جاتی ہیں۔       



                                                                                                            

Sunday, February 14, 2016

Pakistan And Afghanistan: Victims Of The Cold War's Wounds

Political Brain-Drain In Pakistan’s Politics

Pakistan And Afghanistan: Victims Of The Cold War's Wounds

مجیب خان    

George H.W. Bush And Mikhail Gorbachev
      کیا 2016 میں افغانستان میں امن کی کوششوں میں پاکستان کو کامیابی ہو جاۓ گی؟ اور 2016 کیا پاکستان سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہونے کا سال ہو گا ؟ جیسا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں امن افغانستان میں استحکام سے وابستہ ہے۔ لیکن پھر اس کا مطلب ہے کہ جب تک افغانستان میں استحکام نہیں ہو گا پاکستان امن سے محروم رہے گا۔ اس سوال پر پاکستان کی قیادت کو غور کرنا چاہیے۔ لیکن قیادت کا مسئلہ یہ ہے کہ غور کرنے کی اس میں سیاسی صلاحیت نہیں ہے۔ ایک حکومت اپنے اقتدار کے پانچ سال جیسے تیسے پورے  کر کے چلی گئی۔ اور دوسری حکومت اپنے اقتدار کی نصف میعاد پوری کر چکی ہے۔ مجموعی طور پر سیاسی حکومتوں کے آٹھ سال ہو گیے ہیں۔ لیکن فوج کے بغیر سیاسی استحکام ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔ پہلی حکومت پاکستان کو AfPak بنا کر چلی گئی۔ دوسری حکومت  AfPak سے پاکستان کو ابھی تک علیحدہ نہیں کر سکی ہے۔ ذرا تصور کیا جاۓ کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اگر یہ حکومت میں ہوتے تو پاکستان کو اس بحران سے کیسے نکالتے۔ نوے ہزار فوجی بھارت کی تحویل میں تھے۔ خزانہ خالی تھا۔ لوگوں میں ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوسی اور غیر یقینی پھیلی ہوئی تھی۔ کیا آصف علی زر داری میں یہ صلاحیت تھی۔ یا میاں نواز شریف اتنے سیاسی ذہین ہیں۔ یہ اندرا گاندھی جیسی آہنی شخصیت سے کیسے ڈیل کرتے۔ آٹھ سال میں یہ پاکستان کو افغانستان کی دلدل سے نہیں نکال سکے ہیں۔ پچھلی حکومت میں دہشت گردی میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ ہوا تھا۔ موجودہ حکومت میں فوج کی کوششوں سے دہشت گردی میں کمی ہوئی ہے۔
      جنرل ضیا الحق کے بعد تقریباً ایک دہائی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے حکومت کی تھی۔ پیپلز پارٹی نے جنرل ضیا کی افغان پالیسی سے کبھی اتفاق نہیں کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جیل سے اپنے کئی بیانات میں جنرل ضیا افغان مسئلے کو جس طرح ہینڈل کر رہے تھے۔ اس پر شدید تنقید کی تھی۔ بیگم نصرت بھٹو نے پارٹی کی چیرومن  کی حیثیت سے جنرل ضیا کی افغان پالیسی کی مخالفت کی تھی۔ بے نظیر بھٹو خود اس پالیسی کے خلاف تھیں۔ جنرل ضیاالحق کے بعد پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی تھی۔ لیکن وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے افغان پالیسی کے Pioneer جنرلوں سے سمجھوتہ کر لیا تھا اور یعقوب علی خان کو اپنی حکومت میں وزیر خارجہ بنا لیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ان جنرلوں کو بلاتیں اورافغان پالیسی کے بارے میں اپنی حکومت کے تحفظات اور خدشات ان پر واضح کر دتیں ۔ تاکہ اس افغان پالیسی کے خلاف ان کی حکومت کا موقف تاریخ قلم بند کر لیتی۔ اور اس سے قبل کہ انہیں برطرف کیا جاتا وہ خود جنرلوں کی افغان پالیسی سے شدید اختلاف کو بنیاد بنا کر وزیر اعظم کے عہدے سے استعفا  دے دتیں۔ تاریخ ان کے فیصلہ کو آج درست ثابت کر رہی ہوتی۔
      بے نظیر بھٹو کے بعد نواز شریف اقتدار میں آۓ تھے۔ بے نظیر بھٹو کو اپوزیشن میں بیٹھ کر وزیر اعظم نوازشریف سے افغان پالیسی تبدیل کرانا چاہیے تھا۔ جس طرح انہوں نے جمہوریت کے لئے تحریک چلائی تھی۔ اسی طرح انہیں پاکستان کی افغان پالیسی تبدیل کرنے کی بھی تحریک چلانا چاہیے تھی۔ کیونکہ افغان پالیسی کو تبدیل کرنا پاکستان کے استحکام اور امن کے مفاد میں تھا۔ افغانستان پاکستان کی بقا کے لئے خطرہ بن رہا تھا۔ لیکن حیرت کی بات تھی کی کسی سیاستدان کو یہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف تو جنرل ضیا کی افغان پالیسی کو اتنا آگے لے گیے تھے کہ وہ طالبان کا نظام پاکستان میں رائج کرانے کے لئے اس کا مسودہ قومی اسمبلی سے منظور کرانا چاہتے تھے ۔ طالبان کا نظام افغانستان میں خانہ جنگی لے آیا  تھا۔ لیکن وزیر اعظم نواز شریف ان کا نظام پاکستان میں رائج کرنے جا رہے تھے۔ یہ ان کی سیاسی سوچ تھی۔ جو 25 ماہ سے آگے کا کبھی سوچتے نہیں تھے۔ حالانکہ سیاستدان ہمیشہ 25 سال بعد کے حالات کا سوچتے ہیں۔ ریگن بش انتظامیہ نے صدر جنرل ضیا الحق کو جو افغان پالیسی دی تھی۔ اس پالیسی کو پھر بش چینی انتظامیہ نے صدر جنرل پرویز مشرف سے تبدیل کرایا تھا۔ پاکستان کو طالبان کی حمایت ترک کرنا پڑی تھی۔
      آصف علی زرداری کوئی بہت بڑے سیاسی مفکر نہیں تھے۔ نہ ہی ان میں سیاستدان بننے کی قابلیت تھی۔ آصف علی زرداری صرف "ڈیل میکر" تھے۔ اور ڈیل کرنا جانتے تھے۔ بش چینی انتظامیہ سے انہوں نے ڈیل کر لی تھی کہ وہ صدر جنرل پرویز مشرف کی افغان پالیسی پر عملدرامد کرتے رہیں گے۔ افغان مسئلے کے سیاسی حل کی بات نہیں کریں گے۔ طالبان کا خاتمہ کرنے تک Do more کرتے رہیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں امریکہ کے اتحادی رہیں گے۔ جو پالیسیاں پاکستان کے لئے تباہی کا سبب بن رہی تھیں۔ سیاسی حکومتوں نے بھی ان پالیسیوں کو جاری رکھا تھا۔ سیاسی حکومتیں غیرملکی طاقتوں کے لئے کا م کرنے نہیں آتی ہیں۔ سیاستدان وہ ہوتے ہیں جو ہمیشہ دور کی سوچتے ہیں۔ انہیں اس کی پروا نہیں ہوتی ہے کہ وہ دور کی سیاسی سوچ رکھنے سے پھر کبھی اقتدار میں نہیں آئیں گے۔ اس لئے ذوالفقارعلی بھٹو ان سیاستدانوں سے مختلف تھے۔ وہ اپنی پالیسیوں کے بارے میں ہمیشہ دور کی سوچتے تھے۔ اور ان کی نیو کلیر پالیسی اس کا واضح ثبوت ہے۔
      جنرل ضیاالحق کو اپنی افغان پالیسی میں تبدیلی کے بارے میں اس وقت غور کرنا چاہیے تھا کہ جب برطانیہ کی وزیر اعظم ماگریٹ تھیچر نے سوویت رہنما میکائیل گارباچوف سے ملاقات کے بعد یہ کہا تھا کہ“We can do Business with him”  اسلام آباد کو اس وقت چوکنا ہو جانا چاہیے تھا۔ اور صدر ریگن اور صدر گارباچوف کے درمیان ملاقاتوں پر نظر رکھنا چاہیے تھی۔ ان رہنماؤں میں ملاقاتوں کے بعد دونوں ملکوں میں جو معاہدے ہو رہے تھے۔ اس کے بعد پاکستان کو بھی اپنی افغان پالیسی سے Retreat ہونے کے بارے میں غور کرنا چاہیے تھا۔ کیونکہ اب Game over ہو گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو 1971 میں صدر بننے کے بعد سب سے پہلے ماسکو گیے تھے۔ اور بھارت سے90 ہزار فوجیوں کی واپسی کے لئے انہوں نے ماسکو سے مدد مانگی تھی۔ صدر جنرل ضیا کو 1985 میں ما سکو جانا چاہیے تھا اور افغان جنگ ختم کرنے اور 2 ملین افغان مہاجرین کی واپسی کے لئے سمجھوتہ کرنا چاہیے تھا۔ سیاست میں تنگ نظری سب سے مہلک ہتھیار ہوتا ہے۔ جو صرف اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہوتا ہے۔ اور صدر جنرل ضیا نے اپنی نظریاتی تنگ نظری سے پاکستان پر کلہاڑیاں ماری تھیں۔ پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں پروکسی جنگ کی تھی۔ سوویت یونین کے کئی ہزار فوجی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ لیکن اس کے باوجود صدر گارباچوف کو اس خطہ جس کا پاکستان حصہ تھا، استحکام اور امن کے بارے میں تشویش تھی۔ کیونکہ افغانستان سے سوویت فوجوں کا انخلا شروع ہو رہا تھا۔ اور صدر گارباچوف کو ڈر تھا کہ افغانستان میں اگر خانہ جنگی شروع ہو گئی تو پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آ جاۓ گا۔ پاکستان کی 2 ہزار میل طویل سرحد افغانستان کے ساتھ ہے۔ 2 ملین افغان مہاجرین پاکستان میں بیٹھے ہیں۔ ہزاروں جہادی جنہوں نے افغان جنگ میں حصہ لیا تھا۔ افغانستان میں انتشار کی صورت میں ان کی کراس باڈر آزادانہ آمد و رفت شروع ہو جاۓ گی۔ اور یہ اس خطہ کے ملکوں کے لئے بڑا مسئلہ بن جاۓ گا۔
      ان خطرات کے پیش نظر صدر گارباچوف نے افغانستان سے سوویت فوجوں کے مکمل انخلا سے پہلے افغانستان میں ایک پائدار سیاسی حل کے لئے اپنی آخری کوشش کی تھی۔ اور اس مقصد سے انہوں نے اپنے وزیر خارجہ ایڈورڈ شیورد نازے کو پہلے چین اور پھر پاکستان بھیجا تھا۔ ان کی کوششوں کا احوال میں صدر گارباچوف اور وزیر خارجہ شیورد نازے کے مترجم Pavel Palazchenko کی کتاب "ایک سوویت مترجم کی یاد داشت" سے بیان کر رہا ہوں۔ Pavel صدر گاربا چوف  اور وزیر خارجہ شیورد نازے کے بیرونی دوروں میں ان کے مترجم ہوتے تھے۔ ان کی یہ کتاب 1997 میں شائع ہوئی تھی۔ اور پاکستان آج جس بحران میں ہے۔ اس کی جڑیں ابھی تک 90 کے عشرے کی سیاست میں ہیں۔
      "افغانستان اور ایک ملاقات پاکستان کی بھٹو کے ساتھ" عنوان سے Pavel لکھتے ہیں۔ افغانستان سے ایک دوسرے فوجی دستہ کی روانگی کی تیاری ہو رہی تھی۔ جو ہمارے لئے بہت اہم تھی۔ اور اس کے دور رس معنی تھے۔ اور چند دنوں میں یہ مرحلہ مکمل ہونے والا تھا۔ جیسا کہ ہم چین سے پاکستان کے لئے پرواز کر رہے تھے۔ اس وقت ماہرین اور جو ماہرین نہیں تھے ان سب کا یہ سوال تھا کہ فوجی انخلا کے بعد آیا نجیب اللہ کی حکومت رہے گی۔ عالمی پریس کابل پر مجاہدین کے آخری بھر پور حملہ کی پیشن گوئی کر رہا تھا۔ سوویت وزارت خارجہ میں بھی یہ ہی سوچ تھی۔ بالخصوص ان محکموں میں جن کا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ افغانستان ڈیسک کے ماہرین ذرا محتاط تھے۔ ان میں بعض نے موجودہ حالات کے برعکس پیشن گوئی کی تھی کہ نجیب اللہ حکومت رہے گی لیکن وہ اقلیت میں تھے۔
      شیورد نازے نے میری موجودگی میں ایسی کوئی پیشن گوئی نہیں کی تھی۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ نجیب اللہ حکومت کی وسعت کو underestimated نہیں کرنا چاہیے۔ میرے خیال میں یہ پیغام تھا جس کو لے کر وہ اسلام آباد جا رہے تھے۔ لیکن پاکستانیوں کو یہ سننا قبول نہیں تھا۔ وزارت خارجہ میں شیورد نازے کی ملاقاتوں سے یہ تاثر ملا تھا کہ وہاں سب نجیب اللہ کو جلد شکست ہونے کی توقع کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سوویت  یونین کے ساتھ تعلقات جلد بہتر ہو نے کی توقع کر رہے ہیں۔ اب افغان مسئلہ تقریباً ہمارے پیچھے چلا گیا ہے۔ موجودہ حکومت جب ختم ہو جاۓ گی تو ان کا مشورہ تھا پھر ایک سیاسی حل آسان ہو جاۓ گا۔ اور پھر وہ تعاون کرنے کے لئے تیار تھے۔ شیورد نازے نے وزیر خارجہ یعقوب خان کو اس پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ نجیب اللہ ایک قومی اور موثر قوت ہیں اور انہیں ایک سیاسی حل میں شامل کرنے سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن وہ صورت حال کو سمجھ نہیں سکے تھے۔
       وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ ایک ملاقات طے تھی۔ اور شیورد نازے کی یہ سیاسی حل کی سنجیدہ کوشش کا ایک آخری موقعہ تھا۔ ان کے پاس کابل کے کچھ  پیغام تھے جو وہ بے نظیر بھٹو کو دینے کے لئے لاۓ تھے۔ اور وہ اس ملاقات کا کچھ حصہ ان سے تنہائی میں ملنے کی توقع کر رہے تھے۔ جیسا کہ یہ ایسے اہم دوروں میں اکثر ہوتا ہے۔ لیکن ہم جب پارلیمنٹ بلڈنگ میں آۓ تھے جہاں وزیر اعظم کا اپنا آفس تھا۔ ابتدا ایک بالکل مختلف ماحول میں ہوئی تھی ۔ ہمیں ہال میں تقریباً دس منٹ انتظار کرایا گیا تھا۔ ابھی ہم انتظار کر رہے تھے کہ ایک دروازہ کھلا میں نے بھٹو کو کسی سے بات کرتے دیکھا۔ میں نہیں سن سکا کہ وہ کیا کہہ رہی تھیں۔ وہ کچھ فکر مند دکھائی دیتی تھیں۔ وہ اپنے مقامی لباس میں تھیں۔ ان کے سر پر دوپٹہ تھا۔ بلا آخر ہمیں بھٹو سے ملاقات کے لئے ان کے آفس میں لے جایا گیا۔ لیکن بھٹو کے ساتھ شیورد نازے کی نجی ملاقات بہت مختصر ر ہی۔ چند منٹ بعد آفس کا دروازہ کھلا arm chairs اندر لائی گئیں۔ یعقوب خان اور دو اور تین دوسرے حکام بھی ہمارے درمیان آ گیے تھے۔ بھٹو ذرا معذرانہ انداذ میں مسکرائیں۔ وہ ان لوگوں میں گھری نظر آئی تھیں جو با ظاہر مخالف نہیں تھے۔ اور ان کے تابعدار بھی نہیں تھے۔ ہم پہلے جو گفتگو کر چکے اس میں مزید پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔ عجیب و غریب احساس اور مایوسی تھی۔
       شیورد نازے کی درخواست پر میں نے بھٹو سے ملاقات کے لئے ایک آخری کوشش اور کی تھی۔ میں نے خارجہ امور کے بارے میں ان کے پرسنل اسٹیٹ سے درخواست کی تھی ۔ جیسے میں جب اقوام متحدہ میں تھا اس وقت سے جانتا تھا۔ لیکن وہ بھی بے بس نظر آتا تھا۔ اور آزادی سے کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔ دوسرے روز یعقوب خان جب شیورد نازے کو الوداع کرنے ایرپورٹ آۓ تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس سے باخبر تھے کہ ہم نے بھٹو کو نجی طور پر کیا پیغام دیا تھا۔ وہ اور فوج واضح طور پر انچارج تھے۔ اور افغانستان میں بہت بڑی جیت چاہتے تھے ۔  
       چند روز بعد افغانستان سے سوویت فوجوں کا انخلا مکمل ہو گیا تھا۔ کابل اور بعض دوسرے شہروں میں کچھ خوف کا سماں تھا۔ بہت سے نجیب اللہ کی حکومت ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔ درجنوں مغربی رپورٹر شہر میں موجود تھے۔ جو افغان ڈرامہ کی آخری سر گزشت قلم بند کرنا چاہتے تھے۔ لیکن یہاں کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ بھارت کے وزیر دفاع سے ایک ملاقات میں گارباچوف نے کہا کہ نجیب اللہ کے یقینی زوال کی تمام پیشن گوئیاں غلط ہو گئی ہیں۔ لیکن سیاسی حل کی صرف ایک کوشش متاثر ہوئی تھی۔ بھارتی خوش تھے کہ حکومت کا زوال نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس کا مطلب پھر پاکستان کے لئے یہ بڑی فتح ہوتی۔ جہاں تک اس کے ایک سیاسی حل کا سوال تھا۔ اس بارے میں کسی کی قابل عمل سوچ نہیں تھی۔ کہ اسے کیسے حاصل کیا جاۓ۔ اور مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان اور مجاہدین ابھی تک ایک واضح فتح کی امید کر رہے تھے۔ اور پھر فتوحات سے یہ تقسیم صرف اپنے درمیان رکھنا چاہتے تھے۔
       یہ مسئلہ کے حل کی نئی سوچ نہیں تھی۔ لیکن یہ زیادہ مناسب تھا کہ دونوں بڑی طاقتوں کی افغانستان میں دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔ اور یہ تاثر نظر آ رہا تھا۔ سیکریٹری اف اسٹیٹ جم بیکر سے اپنی پہلی ملاقات میں گارباچوف نے کہا افغان equation بری طرح بگڑ گئی ہے ۔ “so maybe we should let them stew in their own juices”  جم بیکر کا اس پر کوئی رد عمل نہیں تھا۔ لیکن بعد میں وہ اکثر ان لفظوں کا حوالہ دینے لگے تھے۔ گارباچوف اور بش اکثر ایک دوسرے سے یہ کہتے تھے کہ افغانستان میں اسلامی بنیاد پرستوں کی فتح امریکہ کے مفاد میں تھی اور نہ ہی یہ سوویت یونین کے مفاد میں تھی۔