Friday, November 30, 2018

Elections In Taiwan: Landslide Victory Of Pro China Party Is The Result Of China’s Best Policy Of Dialogue And Diplomacy


Elections In Taiwan: Landslide Victory Of Pro China Party Is The Result Of China’s Best Policy Of Dialogue And Diplomacy

America’s Diplomacy Backed By Arms Sales Is Creating The Chaos

مجیب خان
Supporters of the opposition Nationalist Pro China Party cheer in Kaohsiung, Taiwan. Taiwan's ruling party suffered a major defeat in local elections

Nationalist party's supporters celebrate a series of gains in Elections 

Pro-Independence Democratic Progressive Party's crushing defeat in Taiwan's local elections, President Tsai Ing-wen 


  تائیوان کی برسراقتدار ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کو 24 نومبر 2018 کے درمیانی مدت کے لوکل انتخابات میں بری طرح شکست ہوئی ہے۔ ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کی روایتی سیاست کا جھکاؤ تائیوان کی آزادی کی طرف ہے۔ پارٹی آزادی کے مسئلہ پر ریفرینڈم کرانا  چاہتی ہے۔ لیکن چین کے بھر پور دباؤ میں اس سے گریز کرنے لگتی ہے۔ یہ پارٹی جب بھی اقتدار میں آتی ہے اس نے تائیوان کی آزادی کو ایشو بنایا ہے۔ اور چین نے اس پارٹی کی حکومت پر اپنا دباؤ بڑھایا ہے۔ صدر Tsai Ing-wen  تائیوان کی آزادی کی حامی ہیں۔ حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے  تائیوان کی آزادی کو اپنی حکومت کا ایجنڈہ امریکہ اور چین میں ٹریڈ جنگ اور South China Sea میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے پس منظر میں فوقیت دی تھی۔ امریکہ نے Tsai Ing-wen حکومت کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔  چین نے صدر Tsai Ing-wen کی اس پالیسی کی مخالفت کی تھی۔ اس سال موسم گرما میں صدر Tsai کو امریکہ کے دورے کی اجازت دینے کی پر ٹرمپ انتظامیہ سے شدید احتجاج کیا تھا۔ اور ٹرمپ انتظامیہ کو 45 سال قبل چین امریکہ تعلقات بحال ہونے پر اعلامیہ یاد دلایا تھا جس میں امریکہ نے “One China Policy” تسلیم کی تھی۔ ان 45 سالوں میں چین نے تائیوان کو Isolate کرنے کی پالیسی اختیار نہیں کی تھی۔ بلکہ چین کی اقتصادی ترقی میں تائیوان کو ضم کرنے کی حکمت عملی بنائی تھی۔ تائیوان کے صنعت کاروں کو چین میں سرمایہ کاری کے خصوصی موقع فراہم کیے تھے۔ اور چین کے تاجروں کو تائیوان سے تجارت بڑھانے کے موقع دئیے تھے۔ چین کی اقتصادی ترقی سے تائیوان کے عوام بھی خوشحال ہو رہے ہیں۔ تائیوان سے لوگ چین آتے ہیں۔ اور چین کی حیرت انگیز ترقی دیکھ کر بہت متاثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح چین سے لوگ تائیوان جاتے ہیں۔ اور یہ Dialogue, Diplomacy اور People to People relations کی کامیابی ہے کہ دو سال بعد ڈیموکریٹک  پروگریسو پارٹی درمیانی مدت کے انتخابات ہار گئی۔ برسراقتدار پارٹی کی انتخابات میں بری طرح شکست کے بعد صدر Tsai Ing-wen نے پارٹی کی صدارت سے استعفا دے دیا ہے۔ تاہم وہ صدر کے فرائض بدستور انجام دیتی رہیں گی۔ پارٹی کی صدارت سے استعفا دینے پر صدر Tsai نے کہا "آج ڈیموکریسی نے ہمیں ایک سبق سکھایا ہے۔ ہمیں اس پر توجہ دینا چاہیے اور ہمیں عوام کی اعلی توقعات قبول کرنا چاہیے۔"
  برسراقتدار ڈیموکریٹک پارٹی کے مقابلے پر قوم پرست KMT پارٹی تھی جس نے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات فروغ دینے کی پالیسی اختیار کرنے پر انتخابی مہم چلائی تھی۔ اقتصادی پیداوار، روز گار، پینشن اصلاحات انتخابات کے اہم ایشو ز تھے۔ تائیوان کے عوام کی صرف ان ایشو ز میں گہری دلچسپی کے نتیجہ میں 19ملین لوگ ووٹ ڈالنے آۓ تھے۔ نیشلسٹ پارٹی کے چیرمین Wu-Den-Yih نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ "ان کی پارٹی چین سے سفارتی ٹکراؤ سے گریز کرنے کی کوشش کرے  گی۔ اور دو طرفہ تجارت میں شائستگی کو یقینی بنائے گی۔ ہمیں امید ہے دونوں تعلقات میں جلد امن اور استحکام کو فروغ دینے  کی طرف واپس آئیں گے۔" یہ Chiang Kai Shek کے نیشلسٹ ہیں۔ اور اب یہ چیرمین ماؤ زے تنگ کے چین کی تیز تر اقتصادی ترقی سے خاصے متاثر ہیں۔ چین نے تائیوان میں 2016 کے انتخابات میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ اور ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی بھاری اکثریت سے منتخب ہوئی تھی۔ جس کی سربراہ Tsai Ing-wen pro independent تھیں۔ دو سال بعد اب تائیوان میں درمیانی مدت کے انتخابات میں بھی چین نے کوئی مداخلت نہیں کی ہے۔ تائیوان کے عوام نے صدر Tsai کی پالیسی مستر د کر دی ہے۔ صدر Tsai کے لئے 2020میں دوبارہ صدر منتخب ہونے کے امکان بھی کم ہو گیے ہیں۔ یہ چین کی Dialogue اور Diplomacy پالیسی کے مثبت نتائج ہیں۔ چین کا One country two system ہانگ کانگ میں کامیاب ہے۔ اور تائیوان کے لئے بھی اس نظام میں ایک بڑا مقام ہے۔
  شمالی کوریا کی قیادت نے بھی تنازعوں کا حل Dialogue اور Diplomacy میں دیکھا ہے۔ اور جنوبی کوریا اور امریکہ سے تنازعوں کے حل کے لئے Dialogue اور Diplomacy کا راستہ اختیار کیا ہے۔ شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong-Un اس میں زیادہ کامیاب ہیں۔ Dialogue اور Diplomacy نے امریکہ کی گرمی کاTemperature  گرا دیا ہے۔ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کو حل کرنے میں امریکہ کا Dialogue back by force اور Diplomacy back by military force  تصور تھا۔ جس میں 60سال سے امریکہ کو کوئی کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ امریکہ آ بناۓ کوریا میں اپنی فوجی سرگرمیوں میں اضافہ کر رہا تھا۔ اور شمالی کوریا ایٹمی ہتھیاروں کی پروڈکشن بڑھا تا جا رہا تھا۔ آ بناۓ کوریا میں بھی اب One country two system کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔
  مڈل ایسٹ میں اسرائیل کا Peace process back by military occupation اور امریکہ کا Peace process back by Arms sale جنگیں اور انتشار پھیلانے میں کامیاب  ہے۔ لیکن مڈل ایسٹ کو امن اور استحکام دینے میں بری طرح ناکام ہے۔ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں Dialogue اور Diplomacy کا فقدان ہے۔ امریکہ نے مڈل ایسٹ میں عوام کو کبھی  اہمیت نہیں دی ہے۔ ان کے حقوق اور سلامتی کا امریکہ نے کبھی تحفظ نہیں کیا ہے۔ امریکہ نے عرب عوام کو کبھی اپنا اتحادی نہیں کہا ہے۔ امریکہ کی مڈل ایسٹ پالیسی میں ہمیشہ عرب بادشاہوں، حکم رانوں اور ڈکٹیٹروں کو اہمیت دی گئی ہے۔ ان کی سلامتی کو امریکہ کی سلامتی کا مفاد قرار دیا ہے۔ سعودی شہری جمال کشوگی کے بہیمانہ قتل پر جس میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کے بہت واضح ثبوت ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کشوگی کے ورثہ سے  اظہار ہمدردی کرنے کے بجاۓ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ہمدردی کی ہے۔ اور کہا ہے کہ ولی عہد کا کشوگی کے قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عراق میں جتنے بھی قتل ہوۓ تھے ان کا ذمہ دار صد ام حسین کو ٹھہرایا تھا۔ شام میں زہریلی گیس کس نے استعمال کی تھی؟ اس کی تحقیقات ہونے سے پہلے ہی امریکہ نے صد بشر السد  کو اس کا الزام دے دیا تھا۔ اور شام پر 59 میزائلوں سے حملہ کر کے بشر السد کو اس کی سزا دی تھی۔ امریکہ کے قانون انصاف میں بھی اب نفع اور نقصان کو دیکھا جا رہا ہے۔          

Monday, November 26, 2018

Pakistan’s Biggest Help To America Was They Didn’t Tell The World At Large That President Bush Knew Bin Laden Was In Pakistan


Pakistan’s Biggest Help To America Was They Didn’t Tell The World At Large That President Bush Knew Bin Laden Was In Pakistan

مجیب خان

President George W. Bush during a press conference at the White House on Dece. 20,2007

President George W. Bush with Pakistan's President Pervez Musharraf for a press conference in the White House Sept. 22, 2006

President George W. Bush during the final news conference of his administration on January 12, 2009
  

   صدر ٹرمپ نے کہا ہے کر کہ 'پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی مدد نہیں کی تھی۔ اس لئے پاکستان کی 1.3بلین ڈالر امداد انہوں نے بند کر دی ہے۔' صدر ٹرمپ نے پاکستان کی دہشت گردی کا خاتمہ  کرنے کی جنگ میں تمام قربانیوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اگر پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں کبھی شامل نہیں ہوتا تو آج پاکستان کو یہ distorted باتیں نہیں سننا پڑتی۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ا سا مہ بن لادن پاکستان میں تھا۔ لیکن پاکستان نے  اسے امریکہ سے چھپا یا تھا۔ 9/11 حملہ میں 15 سعود یوں کا اتنا ذکر نہیں ہوتا ہے کہ جتنا پاکستان کو بن لادن کی ابیٹ آباد میں موجودگی پر مجرم سمجھا جاتا ہے۔ حقائق Distort کرنے کی بھی ایک تاریخ ہے۔ اب ٹرمپ انتظامیہ میں مڈل ایسٹ میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں دنیا کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ ایران ہے جو مڈل کو عدم استحکام کر رہا ہے۔ شام ایران کی مداخلت کی وجہ سے کھنڈرات بنا ہے۔ یہ ایران ہے جو یمن میں ہوتیوں کے ذریعہ سعودی عرب سے Proxy جنگ کر رہا ہے۔ بش انتظامیہ نے 9/11 حملہ میں عراق کے صدر صد ام حسین کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اور عراق کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بہرحال واقعات کو Distort کر کے حالات سے فائدہ اٹھانا قومی سلامتی کا مفاد کہا جاتا ہے۔ امریکی عوام Hangover رہتے ہیں اور عرب حکمران دولت کے نشہ میں رہتے ہیں۔ اس لئے وہ سوال نہیں کرتے ہیں کہ خلیج میں امریکہ کے طیارہ بردار بحری بیڑے کس لئے کھڑے ہیں؟ انہوں نے خلیج میں امریکہ کو سب سے بڑا بحری اڈہ بنا کر دیا ہے۔ کویت اور متحدہ عرب امارت میں امریکہ کے ائیر فورس اور ملڑی بیس ہے۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ کی اتنے بڑے پیمانے پر فوجی موجودگی میں پھر ایران مڈل کو کیسے عدم استحکام کر رہا ہے؟ امریکہ کی فوجی طاقت کی موجودگی میں عرب بادشاہ اور شہزادے ایران سے کیوں اتنے خوفزدہ ہیں؟ اگر عرب حکم رانوں کو نظر نہیں آ رہا ہے۔ لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ مڈل ایسٹ کو کون عدم استحکام کر رہا ہے؟
   پاکستان نے امریکہ کے لئے جتنا کچھ کیا ہے۔ اسرائیل نے بھی امریکہ کے لئے اتنا کچھ نہیں کیا ہے۔ امریکہ میں 9/11 کی دہشت گردی میں صرف 3ہزار لوگ مرے تھے۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردی میں 75ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ امریکہ کے اتنی بڑی تعداد میں فوجی افغانستان میں اور نہ ہی عراق میں مارے گیے تھے۔ صدر ٹرمپ کے یہ کہنے سے کہ پاکستان نے امریکہ کے لئے کچھ نہیں کیا تھا، حقائق Distort کیے جا سکتے ہیں لیکن حقائق تبدیل نہیں کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ کو  ا سا مہ بن لادن کو پکڑنے کے بہت سے موقعہ ملے تھے۔ لیکن امریکہ نے اسے کیوں نہیں پکڑا تھا؟ بن لادن کو پکڑنے سے گریز کیوں کیا تھا؟ ا سا مہ بن لادن کو اگر 1996 میں پکڑ لیا جاتا تو 9/11 کبھی نہیں ہوتا۔ سعودی عرب میں امریکہ کے فوجی بیس پر بموں کے دھماکہ 1996 میں ہو ۓ تھے جس میں 20 سے زیادہ فوجی ہلاک ہوۓ تھے۔ کلنٹن انتظامیہ نے اسے دہشت گردی کہا تھا اور بن لادن کو اس کا الزام دیا تھا۔ سعودی حکومت نے بن لادن کو سعودی عرب سے نکال دیا تھا۔ ا سا مہ بن لادن پھر سوڈان آ گیا تھا۔ سوڈان کی حکومت نے کلنٹن انتظامیہ کو اطلاع دی تھی کہ بن لادن سوڈان میں ہے۔ اور اسے یہاں سے لے جاؤ۔ کلنٹن انتظامیہ نے سوڈان کی حکومت سے کہا کہ وہ بن لادن کو سوڈان سے نکال دے۔ بن لادن اب سوڈان سے افغانستان جا رہا تھا۔ امریکہ کی خفیہ ایجنسیاں اسے واچ کر رہی تھیں۔ لیکن اسے پکڑنے کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔ حالانکہ اس اثنا میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکہ کے سفارت خانہ پر حملے ہوۓ تھے۔ دہشت گردی کے ان حملوں میں 250 سے زیادہ  سفارت خانہ کے لوگ مارے گیے تھے۔ صدر کلنٹن کی قومی سلامتی کی ٹیم بن لادن کے خلاف کاروائی کے لئے جیسے 9/11 کا انتظار کر رہی تھی۔ قومی سلامتی امور کے مشیر سنڈی بر گر تھے۔ جو 9/11 کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے پہلے اپنی یا داشت Refresh کرنے Classified دستاویز دیکھنے Archives لائبریری گیے تھے۔ اور وہاں چند اہم Classified اپنے موزے میں رکھ لئے تھے۔ Archives لائبریری سے خفیہ دستاویز چوری کرنے پر ان کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اور انہیں سزا ہوئی تھی۔ تاہم وہ جیل نہیں گیے تھے۔
   امریکہ کی اسپیشل فورسز ز نے 13 سال بعد ابیٹ آباد پاکستان میں ا سا مہ بن لادن کو پکڑنے کے لئے آپریشن کیا تھا۔ یہ آپریشن 13 سال قبل 1998 میں افغانستان میں کیا جاتا۔ افغانستان میں ہر طرف لاقانونیت تھی۔ سرحدیں کھلی ہوئی تھیں۔ ا سا مہ بن لادن اور اس کے ساتھ القا عدہ کی پوری قیادت کو پکڑا جا سکتا تھا۔ امریکہ کے ایک درست فیصلے کے نتیجہ میں لاکھوں لوگوں کی جانیں بچ جاتیں۔ دنیا کے 18 سال اس جنگ میں برباد نہیں ہوتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ نے کب درست فیصلے کیے ہیں؟ بن لادن کے خلاف کچھ نہ کرنے کے در پردہ منصوبہ دنیا میں ایک War empire قائم کرنا تھا۔ اور اس مقصد میں ا سا مہ بن لادن اور القا عدہ کو استعمال کرنا تھا۔ 2001 میں طالبان حکومت کے خلاف امریکہ کے فوجی حملہ کے دوران بھی بن لادن کو پکڑنے کے کئی موقع آۓ تھے۔ بن لادن اور ایمن الظواھري  طورہ بورہ میں دیکھے گیے تھے۔ لیکن بعض اطلاعات کے مطابق سیکرٹیری ڈیفنس ڈونالڈ رمز فیلڈ نے انہیں پکڑنے کے لئے  فوجی کاروائی کرنے سے روک دیا تھا۔ اسپیشل فورسز ز کے کمانڈو نے اس کی تصدیق کی تھی کہ انہیں طورہ بورہ میں بن لادن کو پکڑنے سے روک دیا تھا۔ طورہ بورہ سے ا سا مہ بن لادن کہاں گیا تھا صدر بش کو بلا شبہ یہ علم تھا۔
 پاکستان میں فوجی حکومت تھی۔ انتہا پسندوں کے خلاف امریکہ کے ساتھ اتحاد کے نتیجہ میں فوجی حکومت اور آئی ایس آئی دونوں طرف سے شدید دباؤ میں تھے۔ ایک طرف انہیں انتہا پسندوں کی پشت پنا ہی کرنے کا الزام دیا جا رہا تھا۔ اور دوسری طرف انتہا پسند انہیں ٹارگٹ کر رہے تھے۔ کیونکہ فوج اور آئی ایس آئی امریکہ کے ساتھ ان کے خلاف کاروائی کر رہے تھے۔ ایسی صورت میں فوج اور آئی ایس آئی یہ غیر ذمہ دارا نہ  حرکت نہیں کر سکتے تھے کہ وہ ا سا مہ بن لادن کو پناہ دیتے اور اسے خفیہ رکھتے۔ جبکہ پاکستان میں ا سا مہ بن لادن کی تلاش میں ہر جگہ پوسٹر چسپاں تھے۔ امریکہ نے بن لادن کو تلاش کرنے والے کو 50ملین ڈالر دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔ پھر یہ کہ صدر بش نے 11/9 کے بعد یہ کہا تھا 'جو دہشت گردوں کو پناہ دے گا اسے بھی دہشت گرد قرار دیا جاۓ گا۔' لہذا اس صورت میں پاکستان کبھی بھی ا سا مہ بن لادن کی Babysitting  نہیں کر سکتا تھا۔ فوجی اپنے فرائض بڑی ذمہ داری سے ادا کرتے ہیں۔ صدر جنرل پرویز مشرف فوجی تھے۔ بلاشبہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں صدر مشرف نے صدر بش کو ضرور بتایا ہو گا۔ اور یہ بش انتظامیہ تھی جس نے بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کی خبر کو دنیا سے خفیہ رکھا تھا۔
   دہشت گردی کے خلاف جنگ کو 50 سال کی جنگ بنانے کے لئے بن لادن کو زندہ رکھا گیا تھا۔ جیسا کہ نائب صدر ڈک چینی نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ 50 سال تک جاری رہے گی۔ صدر بش نے 11/9 کے بعد کہا تھا کہ "جو دہشت گردوں کو پناہ دے گا۔ اور دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کر ے گا۔ وہ بھی دہشت گرد ہو گا۔" لیکن امریکی میڈیا میں ا سا مہ بن لادن کے و ڈیو پیغام کو خصوصی طور پر بریکنگ نیوز کے ذریعہ پبلسٹی دی جاتی تھی۔ اور اس کے پیغام پر پنڈت گھنٹوں تبصرے کرتے تھے۔ بن لادن کے پیغام امریکی میڈیا کے ذریعہ القا عدہ کے کارکنوں تک پہنچ رہے تھے۔ لیکن امریکہ کی 36 ایجنسیوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ا سا مہ بن لادن کے وڈیو کون بنا رہا تھا؟ اور کہاں بنا رہا تھا؟ اور یہ کیسے الجیزیرہ اور سی این این تک پہنچتے تھے؟  13مارچ 2002 میں صدر بش نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس میں ا سا مہ بن لادن کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا
   “I truly Am not that concerned about Osama Bin Laden. I just don’t spend that much time on, who knows if he’s hiding in some cave or not. We haven’t heard from him in a long time. The idea of focusing on one person really indicates to me people don’t understand the scope of the mission. Terror is bigger than one person. He’s just a person who’s been marginalized…. I don’t spend that much time on him, to be honest with you.”
 صدر بش ان خیالات کا اظہار کئی مرتبہ کر چکے تھے۔ صدر بش نے یہ بھی کہا کہ ا سا مہ بن لادن اب زیادہ Relevant  نہیں ہے۔ اس وقت تک افغانستان، پاکستان، عراق، یمن، اور بہت سے دوسرے ملکوں میں دہشت گردی پھیل چکی تھی۔ اور ہر ملک اپنی ایک جنگ لڑ رہا تھا۔
   صدر اوبامہ کے سی آئی اے کے ڈائریکٹر Leon Panetta نے گزشتہ ہفتہ ایک امریکی کیبل چینل میں کہا کہ انہیں بن لادن کے بارے میں معلوم تھا لیکن انہوں نے جنوری 2011 تک اسے خفیہ رکھا تھا۔ اور پھر اسے پکڑنے کا منصوبہ بنا تھا۔ 2 مئی 2011 میں ابیٹ آباد پاکستان میں اسپیشل فورسز ز کے آپریشن میں بن لادن مارا گیا تھا۔ "بن لادن پاکستان میں تھا" فوج نے اسے پناہ دی تھی۔" "ایبٹ آباد فوجی چھاؤنی ہے۔ اور یہاں بن لادن کی رہائش گاہ تھی۔" یہ اخبارات کی سرخیاں تھیں۔ پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کو اس طرح بدنام کرنے پر سابق صدر جنرل مشرف خاصے برہم ہوۓ تھے۔ آرمی چیف جنرل کیانی بھی زیادہ خوش نہیں تھے۔ سابق صدر بش اور ان کے قومی سلامتی امور کے مشیر Stephen Hadley نے بیان دئیے کے فوج کی اعلی قیادت کو بن لادن کے  پاکستان میں ہونے کا علم نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے کہ فوج میں نچلی سطح پر کسی نے بن لادن کو یہاں رہائش دی ہو گی۔ اسی اثنا میں Stephen Hadley اسلام آباد آۓ تھے۔ اور جی ایچ کیو میں جنرل کیانی سے ملاقات کی تھی۔ ٹیکساس کے ری پبلیکن گورنر Rick Perry نے جن کے سابق صدر بش سے قریبی تعلقات تھے۔ صدر جنرل پرویز مشرف اور ان کی بیگم کو اپنی رہائش گاہ پر ڈنر دیا تھا۔ بلاشبہ ڈنر کے دوران ایبٹ آباد اور بن لادن پر سابق صدر بش کے توسط سے بات ہوئی ہو گی۔ بہرحال بن لادن کو پاکستان میں رکھنے پر بش انتظامیہ اور صدر جنرل مشرف میں کیا گٹھ جوڑ تھا۔ اسے دبا دیا گیا تھا۔ پاکستان کی سیاسی حکومتوں نے ایبٹ آباد واقعہ پر جسٹس جاوید اقبال کمیشن کی تحقیقات رپورٹ دبا دی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جھوٹ اور پراپگنڈہ پر تھی۔ Transparency کو بش انتظامیہ نے اس جنگ سے نکال دیا تھا۔ اب صدر ٹرمپ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے امریکہ کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔ اس سے بڑی امریکہ کی اور کیا مدد ہو سکتی تھی کہ پاکستان بھی Transparent نہیں تھا۔ پاکستان اگر 2002 میں صدر بش کو بتانے سے پہلے دنیا کو یہ بتا دیتا کہ ا سا مہ بن لادن پاکستان میں ہے۔ اور قانون نافذ کرنے والوں کی حراست میں ہے۔ بش انتظامیہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نقشہ بدل جاتا۔ جنگوں میں امریکہ کا اتحادی بننے کی قیمت بھی اتحادیوں کو دینا پڑتی ہے۔      
   

Wednesday, November 21, 2018

American Weapons And Preemptive Wars Make A Very Dangerous World

American Weapons And Preemptive Wars Make A Very Dangerous World 

مجیب خان
   
US President Donald Trump meets with France President Emmanuel Macron at Elysee presidential palace




President Donald Trump attends the American commemoration ceremony at the Suresnes  American cemetery in Paris, France.Nov.11,2018
  

   پیرس میں پہلی جنگ عظیم کی 100سالہ یاد گار ایسے حالات میں منائی جا رہی تھی کہ جب دنیا ہر طرف سے ہر طرح کی جنگوں میں گھیری ہوئی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں امریکی فوجوں کی مقامی ملکوں کی فوجوں کے ساتھ فوجی مشقیں ہو رہی ہیں۔ ایک جنگ ابھی ختم نہیں ہوتی ہے کہ نئی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ افغان جنگ دنیا کی تاریخ کی سب سے طویل جنگ ہے۔ جسے 17 سال ہو گیے ہیں۔ اور یہ ابھی تک جاری ہے۔ اور افغان جنگ ختم ہونے کے میلوں کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کی 100سالہ یاد گار منانے کی تقریب میں 60 ملکوں نے شرکت کی تھی۔ جن میں وہ بڑے ملک بھی تھے۔ جو مہلک ہتھیار بناتے ہیں۔ ان ہتھیاروں کو پھر دنیا کے انتہائی خطرناک خطوں میں فروخت کرتے ہیں۔ قوموں کو آپس میں لڑاتے ہیں۔ اور یہ قومیں ان کے ہتھیاروں سے جنگیں کرتی ہیں۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کی 100سالہ یاد گار منائی جا رہی تھی۔ امریکہ 100سال بعد ابھی تک متعدد جنگوں میں سرگرم ہے۔ جس سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ جیسے پہلی جنگ عظیم ابھی تک کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی ہے۔ اسرائیل مڈل ایسٹ میں امریکہ کا انتہائی قریبی اتحادی ہے جو 70 سال سے فلسطینیوں کی نسل ختم کرنے کی جنگ کر رہا ہے۔ جبکہ پہلی جنگ عظیم اور امریکہ کی عراق جنگ میں صرف 89 سال کا فرق تھا۔ اب تک جنگیں سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر ہو رہی تھیں۔ جو ایک دور تک خاصی مقبول تھیں۔ لیکن پھر جب ان جنگوں کی مقبولیت ختم ہونے لگی تھی۔ صدر جارج بش نے War on Terror شروع کر دی تھی۔ اس جنگ کی Media کے ذریعہ Publicity کی جاتی تھی۔ صدر اوبامہ پہلے سیاہ فام امریکی صدر تھے۔ لیکن انہوں نے صدر بش کی جنگ کو آ گے بڑھانے کا کام کیا تھا۔ حالانکہ صدر اوبامہ کے قائد Martin Luther King تھے۔ جنہوں نے Nonviolence تحریک پر زور دیا تھا۔ اور امریکہ میں نسل پرستی ختم کرائی تھی۔ سیاہ فام امریکیوں کے مساوی حقوق تسلیم کیے گیے تھے۔ لیکن صدر اوبامہ نے شام میں لوگوں کو Violence کی تربیت دی تھی۔ اور Violence کے ذریعہ اپنے حقوق حاصل کرنے کی ایک نئی مثال قائم کی تھی۔ جمہوریت، قانون کی با لا دستی، انسانی حقوق کا احترام، اظہار خیال کی آزادی امریکہ کے اصول تھے۔ جس نے امریکہ کو Exceptional بنایا تھا۔ لیکن شام میں حکومت کے خلاف تحریک میں مطلق العنان عرب حکمران امریکہ کے قریبی اتحادی تھے۔ جو شام میں ڈکٹیٹر سے زیادہ بدتر تھے۔ جن کا انسانی حقوق میں ایمان نہیں تھا۔ لیکن دنیا میں امریکہ کی ہر جنگ میں یہ عرب حکمران ایمان رکھتے تھے۔ اور Religiously امریکہ کے اتحادی تھے۔
  
  A Billionaire President proudly telling the American people that Saudi is creating jobs in America. And Saudi is bringing $450 Billion Dollars to invest in America. CAN AMERICA BE GREAT AGAIN ON SAUDI MONEY?


  اب تک جنگیں سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر ہو رہی تھیں۔ صدر ٹرمپ نے اب ایک نئی جنگ کو 21ویں صدی کی جنگ بنایا ہے اور یہ Trade war ہو گی۔ یہ Trade war چین کے ساتھ ہے۔ لیکن یورپی یونین کے ملکوں کو بھی اس ٹریڈ جنگ میں شامل کر لیا ہے۔ اس جنگ میں ٹرمپ انتظامیہ نے Tariff کو ہتھیار بنایا ہے۔ امریکہ میں چین کی در امدادات  پر بھاری Tariff لگائی ہے۔ یورپی یونین سے جو کاریں امریکہ آئیں گی ان پر بھی Tariff لگایا گیا ہے۔ اور کاروں کے پارٹس پر بھی Tariff لگایا ہے۔ امریکہ کے لئے جنگیں جب تک Profitable تھیں۔ امریکہ کو ٹریڈ غیر منصفانہ نظر نہیں آئی تھی۔ یا ٹریڈ میں خسارے کو امریکہ منافع کی جنگوں سے برابر کر لیتا تھا۔ امریکہ کی معیشت کی بنیاد وار مشین پر تھی۔ پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم، ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں سرد جنگ کی نظریاتی پروکسی جنگیں، سرد جنگ ختم ہونے کے بعد گلف جنگ، پھر 21ویں صدی کے آغاز پر افغان جنگ، عراق جنگ، شام کے داخلی سیاسی انتشار میں امریکہ کی مداخلت کے نتیجہ میں جنگ، یمن میں جنگ بش انتظامیہ نے القا عدہ کے خلاف شروع کی تھی۔ یہ جنگ  صدر بش صدر اوبامہ کے حوالے کر گیے تھے۔ صدر اوبامہ نے یمن میں 8سال تک جنگ جاری ر کھی تھی۔ اور جب صدر اوبامہ کے اقتدار کی میعاد پوری ہونے کے قریب  آئی تو صدر اوبامہ نے یمن جنگ سعودی عرب کے حوالے کر دی تھی۔ صدر ٹرمپ نے یمن میں جنگ ختم کرانے کے بجاۓ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ہتھیار فروخت کرنے کی پالیسی اختیار کی تھی۔ جس میں صدر ٹرمپ نے امریکہ کا معاشی مفاد دیکھا تھا۔ کھربوں ڈالر کے ہتھیار سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو فروخت کیے تھے۔ یمن جنگ میں ہتھیاروں کے فروخت سے جو کمایا جا رہا تھا۔ اسے افغان جنگ میں انویسٹ کیا جا رہا تھا۔ 21ویں صدی کی جنگیں بہت مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک کروز میزائل 1.5 ملین ڈالر کا ہے۔ اگر 50 میزائل چند گھنٹوں میں استعمال ہوتے ہیں تو 75ملین ڈالر حکومت کے خزانے سے صرف چند سیکنڈ میں نکل جاتے ہیں۔ جبکہ زخمی فوجیوں کی تیمار داری کے اخراجات کھربوں میں ہیں۔ ان جنگوں کے نتیجہ میں امریکہ کے Resources اب تیزی سے Drain ہو رہے ہیں۔ اس لئے صدر ٹرمپ اب نیٹو کے رکن ملکوں سے اپنا Fair share ادا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اور انہیں یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ امریکہ ان کی سیکیورٹی میں سب سے زیادہ خرچ کر رہا ہے۔ اور اسے جاری نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ نیٹو کے ہر رکن ملک کو اپنا حصہ ادا کرنا ہو گا۔
فرانس کے صدر Emmanuel Macron نے 'امریکہ اور روس کے خلاف یورپ کا دفاع کرنے کے لئے اپنی فوج بنانے کی تجویز دی ہے۔' جس کی جرمنی نے حمایت کی ہے۔ جبکہ امریکہ اور یورپ کے درمیان اقتصادی اور معاشی مفادات پر تصادم ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران پر اقتصادی بندشیں بحال کر کے دراصل یورپ کو معاشی طورپر نقصان پہنچایا ہے۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے ایران میں اقتصادی مفادات فروغ دئیے جا رہے تھے۔ ایران نے ان ملکوں کی کمپنیوں کو تیل، گیس، پیٹرولیم، انجیرنگ اور صنعتی شعبوں میں بڑے Contracts دئیے تھے۔ اور یورپی کمپنیاں بھی ایران میں Invest کر رہی تھیں۔ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ""سعودی عرب امریکہ میں 400بلین ڈالر لا رہا ہے اور Job create کر رہا ہے۔"  ایران یورپ میں ایک سے زیادہ ملکوں کی کمپنیوں کو اپنے ملک میں Contracts کے ذریعہ ان کے ملکوں میں Job create کر رہا تھا۔ لیکن صدر ٹرمپ نے ایران پر غیر ضروری اقتصادی بندشیں بحال کر کے یورپی کمپنیوں کو ایران میں اپنے کاروبار بند کرنے  پر مجبور کر دیا تھا۔ بلکہ یورپی کمپنیوں اور بنکوں کو دھمکیاں بھی دیں کہ اگر وہ ایران کے ساتھ کاروبار کریں گے تو ان کے خلاف کاروائی کی جاۓ گی۔ اور امریکہ میں انہیں کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی جاۓ گی۔ یورپ Euro میں ایران سے تجارت کر سکتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب Euro کو ڈالر کے مقابلے پر لانا ہو گا۔ اور امریکہ کو یہ بھی قبول نہیں ہو گا۔ ایران کے مسئلہ پر صدر ٹرمپ کے Behavior پر یورپ میں غصہ ہے اور Frustrations ہے۔ پیرس میں پہلی جنگ عظیم کی 100سالہ یاد گار منانے کے موقع پر فرانس کے صدر Emmanuel Macron اور صدر ٹرمپ کے درمیان ترش نوک جھونک اس غصہ اور Frustration کا اظہار تھا۔     
       

Friday, November 16, 2018

Midterm Elections: Are The Results According To The Chinese And Russian Meddling?


Midterm Elections: Are The Results According To The Chinese And Russian Meddling?

مجیب خان
President Donald Trump holds a news conference following midterm elections at White house

Midterm elections, The Democrats regained control of the U.S. House of Represents

   مڈ ٹرم الیکشن سے پہلے بڑا شور یہ ہو رہا تھا کہ چین الیکشن میں Hacking کر رہا تھا۔ پھر یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ روس مڈ ٹرم الیکشن میں بھی Meddling کرے گا۔ اور اس پر روس کو متنبہ بھی کیا جا رہا تھا۔ امریکہ کی انٹیلی جینس ایجنسیاں اس بار ے میں سنسنی خیز خبریں پھیلا رہی تھیں کہ چین اور روس کی مڈ ٹرم الیکشن میں مداخلت کے کچھ ثبوت انہیں ملے تھے۔ اور یہ بڑے وثوق سے امریکی عوام کو بتایا جا رہا تھا۔ لیکن چین اور روس کی Meddling کا جتنا زور و شور تھا۔ امریکی عوام مڈ ٹرم الیکشن میں اتنے ہی زور و شور سے ووٹ ڈالنے آۓ تھے۔ جو ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ مڈ ٹرم الیکشن کے نتائج امریکی عوام کے ووٹوں کی گنتی کے بعد جب سامنے آۓ تھے۔ اسے دیکھ کر سب چین کی Hacking اور روس کی Meddling بھول گیے تھے۔ ان خبروں کا موضوع  بدل گیا ہے۔ ایوان نمائندگان میں ڈیمو کریٹس اکثریت میں آ گیے ہیں۔ جبکہ سینٹ میں ری پبلیکن کی اکثریت برقرار ہے۔ اور اب سنسنی خیز خبریں یہ ہیں کہ ڈیمو کریٹس کیا صدر ٹرمپ کو Impeach کریں گے؟ ڈیمو کریٹس 2016 کے انتخابات میں روس کی Meddling کی تحقیقات کی فائلیں دوبارہ کھولیں گے؟ صدر ٹرمپ کے ایجنڈہ پر عملدرامد کیسے ہو گا؟ ایوان نمائندگان میں ڈیمو کریٹس کی اکثریت صدر ٹرمپ کے لئے کس قدر Hostile ہو گی؟ اب امریکی عوام ایوان نمائندگان، سینٹ اور وائٹ ہاؤس سے کیا توقع کر رہے ہیں؟ اس وقت صدر ٹرمپ کے لئے سینٹ میں ری پبلیکن کی اکثریت Blessing ہے۔ مڈ ٹرم الیکشن میں جو سیاسی نقشہ ابھرا ہے یہ صدر ٹرمپ کے 2020 میں دوبارہ صدر منتخب ہونے میں کس حد تک مثبت ہو سکتا ہے۔ ایوان نمائندگان میں ڈیمو کریٹس کا اکثریت میں اور سینٹ میں اقلیت میں جو بھی رول ہو گا اس کا فائدہ صدر ٹرمپ کو ہو گا۔
  مڈ ٹرم الیکشن میں اگر روس اور چین نے مداخلت کی ہے تو اس کی پلاننگ اور اسٹرٹیجی بڑی ذہانت سے کی گئی تھی۔ چین نے ڈیمو کریٹس کو فوکس کیا تھا۔ اور روس نے ری پبلیکن کو فوکس کیا تھا۔ انتخابات سے چند ماہ قبل چین کی Hacking کے بارے میں انٹیلی جینس کی ایک رپورٹ بھی آئی تھی۔ جس میں چین کا امریکہ کے انتخابات کا Data Hack کرنے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ چین صدر ٹرمپ کی Tariff پالیسی سے خوش نہیں تھا۔ جبکہ روس نے سینٹ میں ری پبلیکن کی اکثریت کو صدر ٹرمپ کے سیاسی مفاد میں ضروری سمجھا تھا۔ ری پبلیکن پارٹی کے سینٹروں کا ایک وفد موسم خزاں کے آغاز پر ماسکو گیا تھا۔ وفد نے صدر پو تن اور روسی پارلیمنٹیرین سے ملاقات کی تھی۔ واشنگٹن واپس آنے کے بعد سینٹروں نے روس پر سے پابندیاں ختم کرنے اور صدر پو تن سے ڈائیلاگ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اور روسی پارلیمانی وفد کو امریکہ آنے اور اراکین کانگرس سے ملاقات کرنے کی دعوت دینے کا کہا تھا۔ ری پبلیکن سینٹروں کے وفد کی روس کے ساتھ یہ خیر سگالی قابل ذکر تھی۔ 2018 کے مڈ ٹرم الیکشن میں Meddling اتنا گرم موضوع نہیں ہے۔ 2016 کے انتخابات میں ڈیمو کریٹس کی اگر ایوان نمائندگان اور سینٹ میں اکثریت ہوتی تو روس کی انتخابات میں نام نہاد مداخلت شاید کبھی اتنا بڑا ایشو نہیں بنتا۔ اور اگر ڈیمو کریٹس اسے ایشو بناتے تو 2018 کے مڈ ٹرم الیکشن میں ایوان نمائندگان اور سینٹ میں ان کی اکثریت ختم ہو جاتی۔ بہرحال اب ڈیمو کریٹس کی وائٹ ہاؤس میں آنے کی کیا اسٹریٹجی ہو گی؟ اور ری پبلیکن کی وائٹ ہاؤس اپنے کنٹرول میں رکھنے، ایوان نمائندگان واپس لینے اور سینٹ میں اکثریت برقرار رکھنے کی کیا اسٹرٹیجی ہو گی؟ لیکن ایک بات بہت واضح ہے کہ صدر ٹرمپ کو ایوان نمائندگان اور سینٹ دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ Ball ڈیمو کریٹس کے Court میں ر کھی جاۓ اور وائٹ ہاؤس کے Court میں نہیں آنے دی جاۓ۔
  ڈیمو کریٹس کا پہلا ایشو خارجہ پالیسی ہو گا۔ صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی پر ڈیمو کریٹس کو جن امور پر اختلاف ہے ان پر صدر ٹرمپ کو Flexible ہونا ہو گا۔ ٹریڈ ایشو ز پر ڈیمو کریٹس کے مشورے  سنجیدگی سے لینا ہوں گے۔ ایسے ہی امیگریشن اور Health care ایشو ز ہیں۔ جن پر Compromise کرنا ہو گا۔ ٹیکس اور Budget Deficit اہم معاشی مسئلے ہیں جن پر ٹرمپ انتظامیہ اور کانگرس کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔ اور اس کا کوئی حل ڈھونڈنا ہو گا۔ صرف اکتوبر میں امریکہ کے deficit میں 100بلین ڈالر کا اضافہ ہوا تھا۔ 2018 کے اختتام پر 782بلین ڈالر سے امریکہ کا سالانہ مالیاتی Budget deficit ایک ٹیریلین ڈالر پر پہنچ جاۓ گا۔ جبکہ اس وقت امریکہ 22ٹیریلین ڈالر کا مقروض ہے۔ یہ ایران پر بندشیں لگانے سے زیادہ بڑے امریکہ کے سیکیورٹی کے مسئلے ہیں۔ جنہیں Top Priority دینا ہو گی۔ ایران کو معاشی طور پر Squeeze کرنا صدر ٹرمپ کی Legacy نہیں ہو گی۔ Budget deficit اور Heavy debt میں Squeezed امریکہ کو نکالنے میں صدر ٹرمپ کیLegacy ہے۔