Thursday, April 28, 2016

Is The War Against Terror Spreading Poverty?

Is The War Against Terror Spreading Poverty?

Corruption And Poverty Are The Real Problem Of The World

مجیب خان



       اس مرتبہ وزیر اعظم چیف جسٹس کو خط لکھیں گے۔ پچھلی حکومت میں چیف جسٹس نے وزیر اعظم گیلانی سے ایک ایسا ہی خط سوئس حکومت کو لکھنے کا کہا تھا۔ لہذا وزیر اعظم نواز شریف کے لئے یہ خط لکھنا مشکل نہیں ہو گا کیونکہ ان کے خط کا متن بھی سابق حکومت نے سوئس حکومت کو جو خط  لکھا تھا اس جیسا ہو گا۔ تاہم وزیر اعظم نواز شریف جو خط  لکھنے جا رہے ہیں۔ اس میں وہ چیف جسٹس سے پانامہ پیپرز کے بارے میں تحقیقاتی کمیشن بنانے کے لئے درخواست کریں گے۔ جس میں وزیر اعظم نواز شریف ان کے خاندان کے بعض افراد اور چند دوسری سیاسی شخصیتوں پر منی لا نڈرنگ ٹیکس Evasion کے بارے میں انکشافات کیے گیے ہیں۔ جبکہ سابق چیف جسٹس نے وزیر اعظم آصف گیلانی کو جو خط لکھنے کا کہا تھا اس میں ان سے سوئس حکومت سے صدر آصف علی زر داری کے خلاف کرپشن کے کیس دوبارہ کھولنے کے لئے کہا تھا۔ اورپھر یہ خط  لکھنے کا سوال ایک آئینی بحران بن گیا تھا۔ اعتزاز احسن صدر زر داری کے وکیل تھے۔ اور وہ سپریم کورٹ کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر صرف یہ کہتے رہے کہ خط لکھنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ لیکن وزیر اعظم کو خط نہیں لکھنا چاہیے۔ اس بحث میں قوم کے دو سال گزر گیے تھے۔ اور اب وزیر اعظم نواز شریف چیف جسٹس کو خط لکھیں گے۔ وزیر اعظم کے خط کے جواب میں پھر چیف جسٹس انہیں خط لکھیں گے کہ وزیر اعظم پانامہ کی حکومت کو خط لکھیں اور پانامہ پیپرز کے بارے میں تمام دستاویز منگوائیں۔ چیف جسٹس غیر ملکی حکومت کو خط نہیں لکھ سکتے ہیں۔ اور پھر یہ بحث شروع ہو جاۓ گی کہ ایک برسراقتدار حکومت میں  اعلی حکام پر کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کے لئے چیف جسٹس پانامہ کی وزارت قانون کو خود خط کیوں نہیں لکھ سکتے ہیں۔ اس بحث میں 2016 ختم ہو جاۓ گا۔ اور 2017 آ جاۓ گا۔ آئینی بحران پیدا کر نے والے ماہرین کی پاکستان میں کمی نہیں ہے۔ ایک گروپ وزیر اعظم کی صفائی میں بحث کرتا رہے گا کہ وزیر اعظم اپنے خلاف کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کرانے میں خاصے سنجیدہ تھے۔ اس لئے انہوں نے چیف جسٹس کو خط بھی لکھا تھا۔ اور جس طرح سابقہ حکومت میں ہوا تھا کہ نئے الیکشن جب قریب آ گیے تھے تو چیف جسٹس نے توہین عدالت کیس میں وزیر اعظم گیلانی کو نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا تھا۔ انتخابات 2018 میں ہوں گے۔ اب پانامہ پیپرز کے بارے میں تحقیقات کی بحث اگر 2017 کے وسط تک گھسیٹ لی جاتی ہے۔ تو وزیر اعظم نواز شریف نئے انتخابات شاید 2018 سے پہلے کرانے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ تاہم اس بحث کو طول دینے میں قوم کا صرف وقت برباد ہو گا۔ جس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے خط لکھا جاۓ یا نہیں لکھا جاۓ کی بحث میں قوم کے دو سال برباد کر دئیے تھے۔
       سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات صدر جارج بش کی سفارش پر ختم کیے گیے تھے۔ اور انہیں سیاست میں حصہ لینے کی اجازت بھی مل گئی تھی۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے ان کے خلاف کرپشن کے مقدمہ قالین کے نیچے دبا دئیے تھے۔ لیکن قانون نے انہیں کرپشن کے الزامات سے بری نہیں کیا تھا۔ اور کرپشن کے یہ الزامات ان سیاستدانوں کا اس وقت تک پیچھا کرتے رہیں گے کہ جب تک یہ خود کو قانون کی عدالت کے سامنے پیش نہیں کریں گے۔ اور قانونی عمل سے گزر کر اپنا نام صاف نہیں کریں گے۔ پیپلز پارٹی اگر پھر اقتدار میں آۓ گی تو اس کے رہنماؤں پر کرپشن کے الزامات بھی دوبارہ سوال ہوں گے۔ وہ دوبئی چلے جائیں۔ لندن چلے جائیں۔ جہاں بھی جائیں گے کرپشن کے الزامات ان کا پیچھا کرتے رہیں گے۔ ان سیاستدانوں کو ان کے خلاف کرپشن کے مقدمہ صدر جارج بش کی سفارش پر ختم کرنے کو کبھی قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس طرح ایک غیرملکی مداخلت کو قبول کر کے انہوں نے Contempt Of Democracy کی ہے۔ انہیں تو صدر بش سے یہ سوال کرنا چاہیے تھا کہ امریکہ میں سینٹروں یا کانگرس مین کے خلاف اس طرح کے الزامات میں صدر کو ان کے مقدمہ ختم کرنے کا اختیار ہے؟ جمہوریت اس وقت تک صاف ستھری نہیں ہو گی کہ جب تک سیاستدان صاف ستھر ے نہیں ہوں گے۔ سیاستدانوں پر کرپشن کے دھبوں سے جمہوریت میں بھی آلودگی رہے گی۔
       پانامہ  پیپرز میں لاکھوں ڈالروں کی ہیرا پھیری کرنے ٹیکسوں میں غبن کرنے کے انکشافات ہو نے کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا رد عمل کچھ ایسا ہے کہ جیسے وہ کرپشن سے بالکل پاک ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے فوج کے چند اعلی افسروں کو کرپشن کرنے پر فوج سے برطرف کر دیا تھا۔ یہ فوج میں کرپشن کے خلاف پہلی مثال نہیں تھی۔ اس سے قبل جنرل پرویز مشرف نے بھی کرپشن میں ملوث بعض افسروں کا کورٹ مارشل کیا تھا۔ نیوی کے ایڈ مرل کو جنہوں نے لاکھوں ڈالر کا غبن کیا تھا اور پھر امریکہ میں روپوش ہو گیے تھے۔ ایڈ مرل کی عدم موجودگی میں ان کا کورٹ مارشل ہوا تھا۔ صدر جنرل مشرف نے انہیں پاکستان لانے کی کوشش کی تھی۔ پہلے صدر کلنٹن سے ایڈ مرل کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اور پھر صدر بش سے ایڈ مرل کو پاکستان بھیجنے کی درخواست کی تھی۔ با لا آخر صدر جنرل مشرف ایڈ مرل کو پاکستان لانے میں کامیاب ہو گیے تھے۔ انہوں نے ایڈ مرل سے غبن کے کچھ پیسے نکلوا لئے تھے۔ اور کی جائیداد ضبط کر لی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں ایسی مثال قائم نہیں کی گئی تھی۔ جنرل راحیل شریف نے کرپشن میں ملوث فوجی افسروں کو برطرف کر کے جو مثال قائم کی ہے۔ اس پر بلاول بھٹو کا حکومت سے یہ کہنا ہے کہ اب اسے بھی ایسی مثال قائم کرنا چاہیے۔ حالانکہ یہ باتیں کرنے کے بجاۓ بلاول بھٹو کو خود اپنی پارٹی سے اس مثال کا آغاز کرنا چاہیے تھا۔ اور سب سے پہلے رحمان ملک کو پارٹی سے برطرف کرتے۔ اور اس کے بعد راجہ اشرف عرف رینٹل، یوسف رضا گیلانی اور سندھ حکومت میں جو نو سال سے کچھ نہیں کر رہے تھے۔ صرف کرپشن کیے جا رہے تھے۔ ان کے خلاف کاروائی کرتے۔  بلاول بھٹو کے یہ اقدام مسلم لیگ ن اور دوسری جماعتوں کے لئے بھی مثال ہوتے۔
      مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ایک جنرل نے سیاستدانوں کو کرپشن کے کیسوں میں معافی دے کر مثال قائم کی تھی۔ اور ایک دوسرے جنرل نے فوج میں جو آفسر کرپشن کر رہے تھے۔ انہیں فوج سے برطرف کر کے مثال قائم کی ہے۔ بلاول بھٹو ذرا بتائیں کہ ان کی پارٹی نے پانچ سال حکومت کی تھی۔ آخر ان کی پارٹی نے کرپشن سے صاف ستھری حکومت کرنے کی مثال کیوں قائم نہیں کی تھی۔ انہیں وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ کرپشن کے خلاف لیکچر نہیں دینا چاہیے۔ انہیں اپنی پارٹی سے کرپشن کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ سندھ میں ان کی پارٹی کی تقریباً آٹھ سال سے حکومت ہے۔ جو اپنے کرپشن میں سارے صوبہ کو بھی لے ڈوبی ہے۔ پیپلز پارٹی نے حکومت کرنے کی صاف ستھری مثال نہ تو وفاق میں قائم کی تھی۔ اور نہ ہی سندھ صوبہ میں ایسی کوئی مثال قائم کی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ پیپلز پارٹی نے جن لوگوں کو صوبہ میں تھانیدار بنایا تھا۔ انہوں نے بھی ایسی کوئی مثال قائم نہیں کی ہے کہ جس سے حکومت کرنے کا نظام کرپشن سے پاک و صاف نظر آتا ہے۔
      انقلاب ایران کے بعد میں 1980 میں تہران گیا تھا۔ کراچی یونیورسٹی میں ایرانی میرے کلاس فیلو تھے۔ ہم پاکستان میں جنرل ضیا الحق کی آمریت کے خلاف جد و جہد کر رہے تھے۔ اور ایران میں شاہ کی مطلق العنان حکومت کےخلاف ایرانیوں کی تحریک عروج پر تھی۔ یونیورسٹی میں ایرانی دوستوں کے ساتھ اکثر گرما گرم بحث ہوتی تھی۔ کیونکہ ان کی تحریک کی قیادت ملا کر رہے تھے۔ اور ہمارے ملاؤں نے جمہوریت کا تختہ الٹ کر فوجی آمریت ہم پر مسلط کر دی تھی اور پھر یہ فوجی حکومت سے مل گیے تھے۔ بہرحال ہمارے ایرانی دوست شاہ کے خلاف تحریک کے آخری دنوں میں پیرس چلے گیے تھے۔ اور وہاں آیت اللہ خمینی کے ساتھ شامل ہو گیے تھے۔ اور پھر آیت اللہ خمینی کے ساتھ تہران آۓ تھے۔ انقلاب ایران کے بعد پہلے انتخابات میں میرے ایرانی دوست پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہو گیے تھے۔ انہوں نے مجھے ایران آنے کی دعوت دی تھی۔ اور ان کی دعوت پر میں ایران گیا تھا۔ انقلاب ایران میں استحکام نہیں آیا تھا۔ اس کے خلاف مزاحمت ہو رہی تھی۔ تہران میں انتشار کی فضا تھی۔ انقلابی گارڈ مشین گنوں کے ساتھ ہر طرف نظر آتے تھے۔ جس ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔ وہاں بھی انقلابی گارڈ  گھوم رہے تھے۔ ہوٹل خالی تھے۔ صرف چند غیر ملکی میڈیا کے نمائندے تھے۔ تہران کے شمال میں شاہ کا محل انقلابی حکومت نے میوزیم کے طور پر غیر ملکیوں کو دکھانے کے لئے کھولا تھا۔ مجھے بھی شاہ کا محل دکھایا گیا تھا۔ محل کے اندر انہوں نے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ اور یوں نظر آ رہا تھا کہ جیسے شاہ کہیں باہر گیے تھے۔ شاہ کو پینٹنگ جمع کرنے کا خاصا شوق تھا۔ محل میں خوبصورت  پینٹنگ دیواروں پر آویزاں تھیں۔ ایرانی گائڈ نے پینٹنگ کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ شاہ نے یہ پینٹنگ اٹلی سے پچاس ملین ڈالر کی خریدی تھی۔ وہ پینٹنگ فرانس سے ستر ملین ڈالر کی خریدی تھی۔ کوئی پینٹنگ ملین سے کم نہیں تھی۔ محل میں کمروں کے پردے ریشمی تھے۔ جو فرانس سے آۓ تھے۔ ڈائنگ روم میں ڈائنگ ٹیبل پر پلیٹیں چمچے Forks اور Knifes سجے ہوۓ تھے۔ جیسے شاہ لنچ پر آنے والے تھے۔ چمچے Forks اور Knifes سونے کے تھے۔ ڈائنگ ٹیبل کے اطراف جو کرسیاں تھیں ان پر نقش و نگار سونے کا تھا۔ شاہ کا بیڈ روم علیحدہ تھا۔ اور ملکہ کا اپنا بیڈ روم تھا۔ دونوں کے بیڈ کے اطراف پردے ریشم کے تھے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ اٹلی سے آۓ تھے۔ محل کی دوسری منزل سے نیچے آنے کے لئے سیڑھیوں کے ساتھ دیوار پر انقلابی حکومت نے تہران کے جنوب میں بستیوں میں آباد لوگوں میں پھیلی ہوئی غربت کی تصویروں کے فریم دیواروں پر لگاۓ تھے۔ جن میں بچوں کے پاؤں میں جوتا نہیں تھا۔ ان کے جسم پر گندے اور پھٹے کپڑے تھے۔ ایرانی گائڈ نے مجھ سے کہا آپ نے شاہ کا محل دیکھا تھا۔ اور یہ تہران کے جنوب میں غربت تھی۔
      ایران میں شاہی راج ختم ہونے کے بعد پھر شاہ کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ جن ملکوں نے شاہ کے محلوں کی سجاوٹ میں قیمتی اشیا لاکھوں ڈالروں میں فروخت کی تھیں۔ شاہ کو عیش و عشرت اور شان و شوکت فراہم کرنے کی قیمت کھربوں میں وصول کی تھی۔ جنہوں نے شاہ کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا تھا۔ جنہوں نے شاہ کی خفیہ پولیس کو عوام کو اذیتیں دینے کی تربیت دی تھی اور اس کے لئے ساز و سامان بھی فروخت کیا تھا۔ ان ملکوں میں سے کسی ملک نے بھی شاہ کو پناہ نہیں دی تھی۔ امریکہ نے شاہ کا طیارہ اپنی سرزمین پر اترنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ شاہ کو دفنانے کے لئے کوئی بھی اپنی زمین کا ٹکرا دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ آخر میں شاہ کو مصر میں دفنانے کی اجازت دی تھی۔
      سعودی عرب میں غربت ایران میں شاہ کے دور میں غربت سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ حالانکہ سعودی عرب دنیا میں سب سے امیر ترین ملک ہے۔ اس ملک میں کسی شہری کو غریب نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ساری دولت شاہی خاندان کے محلوں میں خرچ ہوتی ہے۔ شاہ عبداللہ مرحوم کے پاس 20 بلین ڈالر تھے۔ یہ 20 بلین ڈالر شاہ عبداللہ مرحوم االلہ کے پاس لے گیے ہوں گے کہ اے اللہ تیرے لئے یہ 20 بلین ڈالر لایا ہوں۔ مجھے جنت میں محل دے دو۔ دنیا میں تیرے آگے اے اللہ بہت سے ہاتھ پھیلے ہوۓ ہیں۔ تجھ سے دولت مانگ رہے ہیں۔ اے اللہ تو جسے چاہیے دولت سے نواز دے۔
      بالخصوص اسلامی معاشروں میں دولت اگر چند ہاتھوں میں ہے۔ اور آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ غریب ہے اور فاقہ کر رہا ہے۔ تو یہ کرپشن ہے۔ اصل جنگ غربت کے خلاف ہونا چاہیے تھی۔ لیکن دولت مند قومیں غریبوں کو پیسے دے رہی ہیں۔ ان کے ذریعے  دہشت گردی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اور اس کے پشت پر دولت مند دنیا کی دولت بٹورنے میں مصروف ہیں۔ پانامہ پیپرز اس کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔                                                                                                                                                                                                                 

Sunday, April 24, 2016

For Saudi Arabia, Iran Is Not The Problem. And For Iran, Saudi Arabia Is Not The Problem

For Saudi Arabia, Iran Is Not The Problem. And For Iran, Saudi Arabia Is Not The Problem 
(Hassan Rouhani) 

مجیب خان






          جن خطرناک حالات میں اس وقت اسلامی دنیا گھری ہوئی ہے۔  یہ دنیا کے  1.3 بلین مسلمانوں کے بقا کا مسئلہ ہے۔ ایسے حالات میں استنبول میں اسلامی سربراہوں کی کانفرنس میں اسلامی رہنماؤں کو اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ اور اسلامی ملکوں کو خطرناک جنگوں کی دلدل سے نکالنے کے لئے ایک مشترکہ لائحہ عمل پر غور کرنا چاہیے تھا۔ اور اپنی نوجوان نسل کو جو دہشت گردی کے راستہ پر چلی گئی ہے۔ دنیا بھر میں جیلیں ان کا مستقبل بن رہا ہے۔ اس اسلامی نسل کو بچانے کے اقدام کیے جاتے۔ یہ اسلامی سربراہوں کے سامنے اہم ایشو تھے۔ جن پر استنبول کانفرنس میں سنجیدہ فیصلے کیے جاتے۔ لیکن یہ بڑے دکھ کی بات تھی کہ اسلامی رہنما ان ایشو پر کوئی ٹھوس فیصلے نہیں کر سکے تھے۔ اسلامی سربراہوں کی کانفرنس امہ میں شدید انتشار، اختلافات اور ایک دوسرے کے خلاف شکوہ اور شکایتوں پر ختم ہو گئی۔ سعودی عرب اور خلیج کے رہنماؤں نے اس کانفرنس کو ایران کے خلاف اپنی لڑائی کا محاذ بنا لیا تھا۔ ان کے ارد گرد جو جنگیں اور خانہ جنگی ہو رہی ہیں ان کا ذمہ دار وہ ایران کو ٹھہراتے رہے کہ یہ ان کے امور میں مداخلت کر رہا ہے۔ سعودی اور خلیج کے حکمرانوں کے اس روئیے سے یہ تاثر پیدا ہو رہا تھا کہ یہ سنی اسلامی سربراہ کانفرنس تھی۔ اور شیعہ سنی تقسیم کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ لیکن دکھ کی بات یہ تھی کہ سعودی اور خلیج کے حکمرانوں نے اس طرح کی عالمی کانفرنسوں میں عربوں کے معاملات میں اسرائیل کی مسلسل مداخلت اور عربوں کے علاقوں پر نصف صدی سے فوجی قبضہ کے خلاف ایسا سخت موقف کبھی اختیار نہیں کیا تھا۔ اس وقت دنیا میں جتنی کانفرنسیں ہو رہی ہیں۔ ان میں صرف عراق شام اور لیبیا کے حالات پر بات ہوتی ہے۔ اور مظلوم فلسطینی جن کی زندگیاں نصف صدی سے عدم استحکام انتشار اور اسرائیلی فوجوں کی دہشت گردی کا شکار بنی ہوئی ہیں۔ لیکن انہیں عراق شام اور لیبیا کے حالات سے علیحدہ کر دیا ہے۔ دنیا نے فلسطینیوں کو اتنا زیادہ Bullshit دیا ہے کہ Bullshit دینے کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گیے ہیں۔ اور اب فلسطینیوں کی کوئی بات نہیں کرتا ہے۔ کس طرح مشرق وسطی کو ان حالات میں پہنچایا گیا ہے۔
        امریکہ اور سعودی عرب کے قریبی تعلقات کے 70 سال کی تاریخ میں صدر اوبامہ شاید پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے سعود یوں کو یہ بالکل درست مشورہ دیا ہے کہ انہیں ایران کو شامل کرنا چاہیے۔ ایران سعودی عرب کا قریبی ہمسایہ ہے۔ اور انہیں اس کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہیے۔ لیکن سعودی الٹا صدر اوبامہ سے سوال کر رہے ہیں کہ انہوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کیوں کیے تھے؟ اور امریکہ  انہیں چھوڑ کر ایران کے ساتھ تعلقات بحال کر رہا ہے۔  استنبول اسلامی سربراہ کانفرنس اعلامیہ میں ایران کی دشت گردی کی حمایت کرنے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ لیکن پھر دوسری طرف اسی اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ "غیر ملکی قبضہ کے خلاف لڑائی دہشت گردی نہیں ہے۔" اگر یہ اسلامی سربراہ کانفرنس کا فیصلہ ہے۔ تو پھر سعودی عرب اور عرب لیگ نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم کیوں قرار دیا تھا۔ حزب اللہ نے صرف اسرائیلی فوجی قبضہ کے خلاف لڑائی لڑی ہے۔ اور اس وقت بھی اسرائیلی جا حا ریت کے خلاف اس کی مزاحمت جاری ہے۔ اب ایران اگر اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی مزاحمت کرتا ہے تو پھر یہ اسلامی سربراہ کانفرنس کے اس فیصلے کے مطابق ہے کہ غیرملکی قبضہ کے خلاف لڑائی دہشت گردی نہیں ہے۔
        ایران کے صدر حسن روحانی  استنبول اسلامی سربراہ کانفرنس میں اس خلوص اور خیرسگالی کے جذبہ کے ساتھ شرکت کرنے آۓ تھے کہ عرب ایران کا نقطہ نظر سنیں گے۔ اور انہیں ایران کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں۔ وہ انہیں دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور عربوں میں یہ اعتماد پیدا کریں گے کہ ایران کا اس خطہ پر غلبہ حاصل کرنے کے کوئی عزائم نہیں ہیں۔ ایران اس خطہ کے امن استحکام اور اقتصادی ترقی میں خصوصی دلچسپی رکھتا ہے۔ اور اس کے لئے ایران عرب حکومتوں کے ساتھ تعاون اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہے۔ لیکن عرب حکمران کیونکہ مطلق العنان ذہنیت رکھتے ہیں۔ اس لئے افہام و تفہیم، دوسروں کا نقطہ نظر سمجھنا اور گفت و شنید سے غلط فہمیاں دور کرنا بادشاہوں کے مزاج میں نہیں ہے۔ استنبول سربراہ کانفرنس کے سامنے جیسے صرف ایران بڑا مسئلہ تھا۔ اسلامی دنیا میں اور کوئی دوسرے مسئلے نہیں تھے۔ ایرانی وفد کو بیٹھا کر سعودی اور خلیجی رہنماؤں نے ایران کے خلاف الزامات میں تقریریں شروع کر دیں تھیں۔ ایران کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے۔ اور پھر ایران کی مذمت میں اسلامی سربراہ کانفرنس سے قرارداد منظور کرنے کا حکم دینے لگے تھے۔ جس پر صدر حسن روحانی اور ان کا وفد کانفرنس حال سے چلا گیا۔
       57 اسلامی ملکوں کی سربراہ کانفرنس میں ایک بڑی تعداد غیر عرب ملکوں کی بھی تھی۔ جو اسلامی دنیا کو در پیش چیلنجوں کے اس نازک موڑ پر سعودی عرب اور ایران کے درمیان محاذ آرائی کی حمایت میں نہیں ہیں۔ اسلامی ملک پہلے ہی داخلی دہشت گردی علاقائی خانہ جنگی اور غیر ملکی طاقتوں کی جنگوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور اس صورت حال میں سنی سعودی عرب اور شیعہ ایران میں فرقہ پرستی کی بنیاد پر تقسیم خطرناک نتائج کی سیاست ثابت ہو گی۔ یہ صیہونی سازش ہے۔ جو اسلامی دنیا میں پھوٹ ڈالو، عربوں کے علاقوں پر قبضہ رکھو، اور فلسطائن کو اسرائیلستان بناؤ منصوبہ ہے۔ اور اس خطہ میں GCC ملکوں کی سیاست اس منصوبہ کی تکمیل کر رہی ہے۔ سعودی عرب کا یہ کہنا ہے کہ "ایران مشرق وسطی کو عدم استحکام کر رہا ہے" لیکن انہیں شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ مشرق وسطی کو مارچ 2003 میں امریکہ نے عراق پر حملہ سے عدم استحکام کرنے کی سنگ بنیاد رکھی تھی۔ اور خلیج کی ریاستیں اس حملہ میں امریکہ کے ساتھ کھڑی تھیں۔ انہوں نے اپنی زمین مشرق وسطی کو عدم استحکام کرنے کے لئے اس حملہ کے لئے دی تھی۔ مارچ 2003 مشرق وسطی کا سب سے تاریک دن تھا۔ اور وہ تاریکی ابھی تک مشرق وسطی پر چھائی ہوئی ہے۔ قومیں تاریکی میں جلد عدم استحکام ہو جاتی ہیں۔ ہزاروں میل سے غیر ملکی فوجیں جب آتی ہیں تو تباہی پھیلاتی ہیں۔ سارے خطہ کو عدم استحکام کر دیتی ہیں۔ اس لئے اسرائیل امریکہ اور نیٹو فوجوں کو کبھی اپنی سرزمین پر قدم نہیں رکھنے دیتا ہے۔ حالانکہ اس کے اطراف میں ہر طرف عدم استحکام ہے لیکن اسرائیل میں استحکام مضبوط ہے۔ GCC ملکوں کی سیاست کی وجہ سے عراق تباہ ہوا ہے۔ عراق میں سنی حکومت کا انہوں نے خاتمہ کرایا ہے۔ اور اب یہ واؤ ویلا کر رہے ہیں۔ لیبیا کو انہوں نے تباہ کرایا ہے۔ شام ان کی وجہ سے تباہ ہوا ہے۔ یمن کو انہوں نے تباہ کیا ہے۔ اسلامی دنیا کو انہوں نے کمزور کر دیا ہے۔ یمن کی جنگ میں انہیں شکست ہو گئی ہے۔ شام میں بری طرح ناکام ہوۓ ہیں۔ فلسطین کا تنازعہ یہ حل نہیں کرا سکے ہیں۔ ایران کے مسئلہ پر یہ امریکہ کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ کیونکہ ایران کے خلاف اسرائیل بھی ان کی پشت پر ہے۔ لیکن فلسطین کے مسئلہ پر یہ امریکہ سے اس لب و لہجہ میں بات کرنے کی جرات  نہیں کر سکتے ہیں۔ ان ملکوں کو اب اپنے سیاسی قبلہ کا تعین کرنا ہو گا۔
        سعودی حکومت نے حال ہی میں اقتصادی ترقی اور سرمایہ کاری کا جو منصوبہ دیا ہے۔ اور تیل پر سے انحصار کم کر کے  صنعتی پیداوار پر انحصار بڑھانے کا جو فیصلہ کیا ہے۔ کیا یہ منصوبہ خطہ کے موجودہ حالات میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب میں استحکام ہے لیکن سیاسی حالات غیر یقینی ہیں۔ جبکہ اس کے ارد گرد میں عدم استحکام پھیلا ہوا ہے۔ ان اقتصادی منصوبوں کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ سعودی عرب کو پہلے اپنے ہمسایہ میں استحکام لانا ہو گا۔ اور ایران کو ان کوششوں میں شامل کرنا ہو گا۔ خطہ کے ملکوں کو تباہی میں چھوڑ کر سعودی عرب اقتصادی ترقی کا جزیرہ نہیں بن سکتا ہے۔
        دوسری جنگ عظیم میں یورپ کے تقریباً تمام ملک تباہ ہو چکے تھے۔ کیا برطانیہ اور فرانس جرمنی کو تباہی میں چھوڑ کر خود اقتصادی ترقی کر سکتے تھے؟ اور کیا جرمنی کے بغیر یہ یورپ کو امن اور استحکام دے سکتے تھے؟ یا جرمنی اور فرانس برطانیہ کو تباہی میں چھوڑ کر خود یورپ کی اقتصادی طاقتیں بن سکتے تھے؟ ان ملکوں نے یورپ کو جنگ کی تباہی سے نکالنے کے لئے پہلے ایک اتحاد بنایا تھا۔ جس میں مشرقی یورپ کے ملکوں کو بھی شامل کیا تھا۔ اور پھر سب نے مل کر ایک مختصر عرصہ میں یورپ کو جنگ کی تباہی سے نکالا تھا۔ اور اسلام نے بھی مسائل حل کرنے کا راستہ اتحاد میں بتایا ہے۔ اتحاد میں جو طاقت ہے وہ دنیا کے کسی ہتھیار میں نہیں ہے۔     

Tuesday, April 19, 2016

The Role Of The Dollar In War And Corruption

The Role Of The Dollar In War And Corruption

We Believe In God, But We Have Faith In The Almighty Dollar

مجیب خان


        تقریباً 70 سال سے دنیا میں سارا کاروبار صرف ایک واحد کرنسی ڈالر میں ہو رہا ہے۔ حالانکہ دنیا میں اس وقت فری ٹریڈ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ قوموں سے تجارت پر بندشیں ختم کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے۔ لیکن دنیا میں پھر صرف ڈالر کی اجارہ داری کو قائم رکھا گیا ہے۔ ایک سے زیادہ کرنسی کو فری ٹریڈ کا حصہ بنانے کو اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔ ڈالر کی وجہ سے لوگوں کے لئے جہاں سماجی اور اقتصادی مسائل پیدا ہوۓ ہیں۔ وہاں معاشروں میں کرپشن بھی پھیلا ہے۔ جب پونڈ دنیا کی ایک واحد کرنسی تھا۔ اور دنیا کا سارا کاروبار بھی پونڈ میں ہوتا تھا۔ اس وقت معاشروں میں شاید ایسا کرپشن نہیں تھا۔ پونڈ نے لوگوں کے لئے اقتصادی اور سماجی مسائل پیدا نہیں کیے تھے۔ امریکہ اب دنیا کی سپر پاور ہے۔ اور دنیا کا سارا کاروبار ڈالر میں ہوتا ہے۔ دنیا کی واحد سپر پاور کے سیاسی فیصلوں سے دنیا کے امن اور استحکام کے لئے خطرے پیدا ہو گیے ہیں۔ اور ڈالر پر دنیا کی معیشت کا انحصار ہے۔ جو کسی بھی وقت عالمی معیشت کے لئے مسئلہ بن سکتا ہے۔ با ظاہر چین اور دوسری ابھرتی معیشتیں اس وقت عالمی معیشت کو سنبھالے ہوۓ ہیں۔ اور ڈالر کو بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔ امریکہ اس وقت 19 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے۔ لیکن اس کی کرنسی میں دنیا کا کاروبار ہو رہا ہے؟
       دنیا میں اس وقت جتنی بھی جنگیں ہو رہی ہیں وہ سب ڈالر میں ہو رہی ہیں۔ اور جن کے خلاف یہ جنگیں ہو رہی ہیں۔ وہ بھی ڈالر میں اسلحہ خریدتے ہیں۔ نائن ایلون کو امریکہ پر حملہ کی تیاری میں بھی دہشت گردوں نے ڈالر استعمال کیے تھے۔ اس کے جواب میں پھر امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اور اس کی تیاری میں لاکھوں ڈالر خرچ کیے تھے۔ افغانستان سے طالبان کا صفایا کرنے کے لئے افغان وار لارڈ ز کو ڈالروں سے بھرے بریف کیس دئیے تھے۔ افغانستان میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن پر امریکہ لاکھوں ڈالر خرج کر رہا تھا۔ اور طالبان امریکی اور نیٹو فوجوں پر حملے کرنے میں ہزاروں ڈالر استعمال کرتے تھے۔ افغانستان طالبان کا افغانستان اس طرح بن گیا تھا کہ کمیونسٹ فوجیں افغانستان میں آ گئی تھیں۔ اور افغانوں سے زیادہ امریکہ کو یہ پریشانی ہو گئی تھی کہ کمیونسٹ فوجیں ایک اسلامی ملک کو کمیونسٹ بنا دیں گی۔ لہذا افغانستان کی ایک اسلامی ریاست کا مقام بحال رکھنے کے لئے امریکہ نے افغانوں کی ایک جہادی فوج کو کمیونسٹ فوجوں سے لڑنے کے لئے تیار کیا تھا۔ جن کی تربیت پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے تھے۔ افغانستان کو کمیونسٹ فوجوں سے آزاد کرانے کی جنگ تقریباً دس سال تک لڑی گئی تھی۔ اور اس جنگ پر کھربوں ڈالر خرچ ہوۓ تھے۔ بلا آخر سوویت فوجیں افغانستان سے چلی گئی تھیں۔
       افغانستان سے سوویت فوجوں کے جانے کے دس سال بعد امریکی فوجیں افغانستان کو طالبان سے آزاد کرانے آئی تھیں۔ کیونکہ طالبان افغانستان میں کمیونسٹ نظام سے بھی زیادہ بدتر نظام لا رہے تھے۔ اس مرتبہ امریکہ کو طالبان کو شکست دینے کے لئے افغانستان میں اپنی فوجوں پر کھربوں ڈالر خرچ کرنا پڑے تھے۔ پاکستان کو افغانستان کے بارے میں اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے پر امداد کی صورت میں  کھربوں ڈالر کی پیشکش کی تھی۔ اسامہ بن لادن کو ایک اعلی درجہ کا جہادی بنانے پر ہزاروں ڈالر خرچ ہوۓ تھے۔ جس کے بعد پھر بن لادن کو دینا کا ایک انتہائی خطرناک جہادی قرار دیا گیا تھا۔ اور پھر اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے پر کھربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے تھے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کیونکہ فرنٹ لائن پر تھا۔ اس لئے پاکستان کو لاکھوں ڈالر کی امداد دی گئی تھی۔ لیکن دہشت گردوں نے پاکستان کا کھربوں ڈالر کا نقصان کر دیا تھا۔
       عراق میں صدام حسین نے کیمیائی حیاتیاتی اور جوہری ہتھیار خود ایجاد نہیں کیے تھے۔ امریکہ اور یورپ کی کمپنیوں نے ان ہتھیاروں کو ایجاد کرنے پر کھربوں ڈالر خرچ کیے تھے۔ اور صدام حسین نے ان کمپنیوں سے یہ ہتھیار لاکھوں ڈالروں میں خریدے تھے۔ جب یہ ہتھیا ر عراق کو فروخت کیے جا رہے تھے۔ صدام حسین اس وقت اچھے انسان تھے۔ لیکن صدام حسین نے جب ان ہتھیاروں کی ڈالروں میں مغربی کمپنیوں کو ادائیگی کر دی تو امریکہ کو احساس ہوا کہ صدام حسین تو انتہائی خطرناک انسان تھے۔ اور یہ ہتھیار ان کے پاس کیوں ہیں۔ لہذا اب عراق میں ان ہتھیاروں کو تباہ کیا جاۓ گا۔ اور عراق میں ان ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی جنگ پر ٹیریلین  ڈالر خرچ ہوۓ تھے۔ عراق پر امریکی فوجوں کے قبضہ کے دوران عراق سے 90 بلین ڈالر غائب ہو گیے تھے۔ اکاؤٹینٹ جنرل نے کئی مرتبہ اپنی رپورٹوں میں اس کی نشاندہی بھی کی تھی۔ لیکن ابھی تک اس کا کھوج نہیں لگایا جا سکا ہے کہ یہ کن کی جیبوں میں گیے تھے۔
        دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دنیا بھر میں القاعدہ کے دہشت گردوں کو پکڑنے پر لاکھوں ڈالر خرچ ہوۓ تھے۔  پھر انہیں گوتانوموبے میں نظر بند رکھنے ، انہیں تین وقت کا کھانا کھلانے، رمضان میں انہیں سحری اور افطار کرانے، اور عید کے بعد ان سے تحقیقات کرنے کے دوران اذیتیں دینے پر علیحدہ لاکھوں ڈالر خرچ کرنا پڑے تھے۔ اور انہیں جب رہا کیا گیا تھا تو انہیں ان کے آبائی ملکو ں میں بھیجنے پر بھی ہزاروں ڈالر خرچ ہوۓ تھے۔ ان میں سے پیشتر اپنے ملکوں میں واپس جانے کے بعد افغانستان میں طالبان کے ساتھ اور عراق میں داعش اور القاعدہ کے ساتھ شامل ہو کر پھر امریکہ کے خلاف لڑنے لگے تھے۔ اوراب ان سے جنگ میں پھر لاکھوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔
        شام میں حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے پانچ سال میں کھربوں ڈالر خرچ کیے گیے ہیں۔ جبکہ شام کی تباہی کا تخمینہ تقریباً ٹیریلین ڈالر ہے۔ شام کی خانہ جنگی نے داعش کو جنم دیا ہے۔ لیکن امریکہ میں یہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ داعش کو کس نے جنم دیا تھا۔ داعش اب عراق اور شام کے بعض صوبوں پر قابض ہے۔ اور داعش سے عراق اور شام کے علاقہ آزاد کرانے پر اب لاکھوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ چار ہزار امریکی فوجیں عراق پہنچ چکی ہیں۔ 13 سال میں یہ عراق میں ساتویں جنگ ہو گی۔
        سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں کو امریکہ اور یورپی ملکوں نے کھربوں ڈالر کا جنگی اسلحہ فروخت کیا تھا۔ یہ جنگی اسلحہ سعودی عرب نے یمن کے خلاف جنگ میں استعمال کیا ہے۔ جس سے یمن میں کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اور جو یمنی اس جنگ میں مارے گیے ہیں۔ وہ نقصان مقامی کرنسی میں ہے۔ سعودی عرب نے یمن کے خلاف جنگ میں ملیشیا کو شامل کرنے کے لئے پہلے ملیشیا کے وزیر اعظم نجیب راز‍ق کے نجی بنک اکاؤنٹ میں 681 ملین ڈالر جمع کراۓ تھے۔ وزیر اعظم نجیب نے اپنی فوجیں سعودی عرب بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ ملیشیا میں یہ وزیر اعظم کے خلاف ایک بہت بڑا اسکنڈل بن گیا تھا۔ اور وزیر اعظم سے استعفا دینے کا مطالبہ ہو رہا تھا۔ وزیر اعظم نجیب نے 620 ملین ڈالر سعودی عرب کو واپس کر دئیے ہیں۔ لیکن 61 ملین کا پتہ نہیں چل سکا کہ یہ کہاں گیے ہیں۔  
        ڈالر کو عالمی کرنسی کا درجہ دراصل امریکی کمپنیوں اور کارپوریشنوں کے مفاد میں خاصا منافع بخش ثابت ہو رہا ہے۔ جبکہ غریب اور ترقی پذیر ملکوں کی معیشت پر اس کے منفی اثرات ہو رہے ہیں۔ غریب ملکوں کی لیبر کا استحصال ہو رہا ہے۔ جو ایک ڈالر یومیہ اجرت پر ان کمپنیوں کے لئے کام کرتے ہیں۔ اور یہ کمپنیاں انہیں کوئی مراعات بھی نہیں دیتی ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں بالخصوص پاکستان جیسے ملکوں میں ڈالر کی وجہ سے ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتوں میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ان اشیا کی قیمتوں کا تعین پہلے ڈالر میں ہوتا ہے اور پھر اسے مقامی کرنسی میں منتقل کر دیتے ہیں۔ مثلاً  امریکہ میں ایک درجن انڈے اگر دو ڈالر کے ہیں۔ تو پاکستان میں یہ ڈالر کے ایکسچینج شرح کے حساب سے دوسو سے تین سو روپے کے فروخت ہونے لگتے ہیں۔ حالانکہ مرغیاں انڈے پاکستان میں دیتی ہیں۔ لیکن امریکہ میں انڈوں کا ڈالر میں جو بھاؤ ہوتا ہے وہ پاکستان میں روپوں میں ہوتا ہے۔ اکثر دوکانوں پر تو یہ سائن لگے ہوتے ہیں کہ ڈالر میں ادا کريں گے تو جوتے کی قیمت یہ ہو گی اور روپوں میں قیمت یہ ہو گی۔ اور اس وجہ سے قیمتیں آسمان پر پہنچی ہوئی ہیں۔ حکومت کیونکہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے ڈالروں میں قرضہ لیتی ہے۔ اس لئے  پاکستان میں مہنگائی میں ڈالر کے رول پریہ کچھ نہیں کر رہی ہے۔
        1998 میں چین کے وزیر اعظم Zhu Rongji  نے واشنگٹن اسٹیٹ میں یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کے بعد طلبہ کے سوالوں کے دوران جب ان سے یہ پوچھا گیا تھا کہ امریکہ میں ہر چیز میڈ ان چائنا کی فروخت ہو رہی ہے۔ اور چین اس سے بہت منافع بنا رہا ہے۔ وزیر اعظم Zhu Rongji  نے جواب میں کہا کہ چین میں Nike کا جوتا 10 ڈالر میں بنتا ہے۔ جس میں لیبر اور‏Material بھی شامل ہے۔ لیکن شکاگو میں Nike کا جوتا 190 ڈالر کا فروخت ہو رہا ہے۔ اب منافع امریکی کمپنیاں بنا رہی ہیں یا چین۔ وزیر اعظم نے یہ صرف ایک مثال دی تھی۔ لیکن الیکٹرونک کی اشیا جو چین میں بن رہی ہیں وہ بھی تقریباً آٹھ سو سے ایک ہزار فیصد منافع پر فروخت ہو رہی ہیں۔ دنیا میں ایک ڈالر یومیہ اجرت سے بڑی بڑی کمپنیاں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اور لوگوں کی زندگیوں میں اس سے کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ اور جو ایک ڈالر یومیہ اجرت پر کام کر رہے ہیں۔ ان کے لئے بے روز گار رہنے سے بہتر ہے کہ روز گار ہے۔ ان کی زندگیوں میں صرف یہ تبدیلی ہے۔ گزشتہ ہفتہ گارجین میں ایک رپورٹ کے مطابق امریکی کارپوریشنوں کے 1.4 ٹیریلین ڈالر Tax Havens میں خفیہ ر کھے ہیں۔ ان کارپوریشنوں میں جنرل الیکٹرک مائیکروسوفٹ، Pfizer، Exxon Mobil  وال مارٹ،  Apple ان کی ایک لمبی فہرست ہے۔ دہشت گردی کی جنگ کے پس پردہ دولت مندوں کی ایک نئی دنیا بنائی جا رہی ہے۔ اور دہشت گردی کے خلاف جو سخت قوانین بناۓ گیے ہیں۔ وہ دولت مندوں کے خلاف بولنے والوں کے خلاف استعمال ہوں گے۔


               

Friday, April 15, 2016

The Legal Corruption For The Wealthy Elite, And The Illegal Wars For The Poorest Countries

Panama Papers

The Legal Corruption For The Wealthy Elite, And The Illegal Wars For The Poorest Countries

مجیب خان



            کبھی کسی کے یہ ذہن و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ 21 ویں صدی میں برطانیہ کے وزیر اعظم اور پاکستان کے وزیر اعظم کے نام منی لانڈرنگ اور فراڈ میں ایک ہی صفحہ پر ہوں گے۔ کسی نجومی نے بھی یہ نہیں بتایا تھا۔ لیکن کسی Hacker نے پانامہ کی ایک لا فرم سے یہ خفیہ پیپرز حاصل کر لیے ہیں جن میں ہزاروں دوسرے دولت مند لوگوں کے ساتھ وزیر اعظم ڈیوڈ کمیرن اور وزیر اعظم نواز شریف کے نام بھی Off Shore فراڈ اور ٹیکس Evasion کرنے والے لوگوں کی فہرست میں تھے۔ پانامہ کی یہ لا فرم Mossack Fonseca تھی جو Off Shore کمپنیاں قائم کرنے میں خاصی مہارت رکھتی تھی۔ اور دنیا کے دولت مند اور انتہائی با اثر لوگوں کے Off Shore بنک اکاؤنٹس اور انویسٹمینٹ کے بارے میں تمام دستاویز خفیہ رکھا کرتی تھی۔ یہ تقریباً 12 ملین پیپرز ہیں۔ جن کی پہلی قسط دنیا کے سامنے آئی ہے۔ اور اسے پانامہ پیپرز کا نام دیا گیا ہے۔ ابھی اور ایسے پانامہ پیپرز سامنے آئیں گے۔
        سرد جنگ کے دور میں تیسری دنیا کے جو ڈکٹیٹر عوام کی دولت لوٹتے تھے۔ وہ اس دولت کو پھر سوئس بنک میں جمع کراتے تھے۔ اور سوئس بنک ان کی دولت کا ریکارڈ خفیہ رکھتے تھے۔ آصف علی زرداری نے سوئس بنکوں کو استعمال کیا تھا۔ اور اپنے 60 ملین ڈالر بھی سوئس بنک میں ر کھے تھے۔ لیکن پھر حکومت پاکستان کی درخواست پر سوئس حکومت نے زرداری کے بنک اکاؤنٹ منجمد کر دئیے تھے۔ اور ان پر فراڈ اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے بارے میں تحقیقات شروع کر دی تھی۔ سوئس حکومت سے بعض دوسرے کیسوں میں بھی بنک اکاؤنٹس کے بارے میں معلومات مانگے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ جس کے بعد سوئس بنک میں دولت خفیہ رہنے کا تصور ختم ہو گیا تھا۔ اور اس کی جگہ اب Off Shore بنکنک اور انویسمینٹ کا تصور زیادہ خفیہ اور مقبول بھی  تھا۔ ایک طرح سے دولت چھپانے کا یہ طریقہ قانونی تھا۔ لیکن یہ غیر قانونی صرف اس صورت میں تھا کہ اگر یہ دولت فراڈ اور ٹیکس Evasion سے آئی تھی۔
       British Virgin Islands  کا دنیا میں Off Shore فنانشل سروس انڈسٹری میں ایک نمایاں کردار تھا۔ دنیا کی 45 فیصد Off   Shore کمپنیاں British Virgin Islands میں تھیں۔ جو برطانوی حکومت کے ماتحت ہے۔ اور یہ علاقہ Tax Haven کے لئے مشہور ہے۔ پانامہ پیپرز کے مطابق Mossack Fonseca کے موکل British Virgin Islands کو زیادہ تر Tax Haven کے لئے استعمال کرتے تھے۔ اور اس مقصد سے ایک کمرے میں ایک درجن کمپنیوں کے آفس بھی ہو سکتے تھے۔ اور انہیں Off Shore بنکنک اور انویسمینٹ کا قانونی تحفظ حاصل ہو جا تا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں امریکہ برطانیہ اور مغربی ملکوں کے بڑے بڑے بنک ہیں۔ جہاں دنیا بھر سے Off Share دولت ان کے بنکوں میں جمع ہوتی ہے۔ اور پھر امریکہ برطانیہ اور مغربی ملکوں میں یہ دولت دوبارہ آ جاتی ہے۔ حالانکہ یہ بھی کرپشن ہے لیکن اسے کرپشن نہیں کہا جاتا ہے۔ یعنی Black Money پہلے Off Shore جاتی ہے اور پھر وہاں سے White Money بن کر ان ملکوں میں آ جاتی ہے۔
       پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف جن کا تعلق تیسری دنیا سے اور برطانیہ کے وزیر اعظم ڈ یوڈ کمیرن جن کا تعلق ترقی یافتہ صنعتی ملکوں سے ہے۔ اس وقت کرپشن کے یکساں الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور دونوں اپنے سیاسی بقا کے لئے لڑ رہے ہیں۔ لندن میں وزیر اعظم کمیرن کے  خلاف مظاہروں میں ہزاروں لوگوں نے حصہ لیا تھا جو وزیر اعظم سے استعفا دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ جبکہ پاکستان میں بھی وزیر اعظم نواز شریف سے ایسے ہی مطالبہ ہو رہے ہیں۔ پانامہ پیپرز میں نواز شریف کے ساتھ ان کے دو صاحبزادوں اور صاحبزادی کا نام بھی ہے۔ لیکن وزیر اعظم نواز شریف اپنی اور اپنے بچوں کی صفائی میں اتنا نہیں بول رہے ہیں کہ جتنا ان کی کابینہ کے وزیر ان کی صفائی میں بول رہے ہیں۔ ان وزیروں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اس پر ان کے حلقہ میں عوام کی اکثریت کیا کہہ رہی ہے۔ جنہوں نے انہیں منتخب کیا ہے  پہلے وہ ان کے نمائندے ہیں اور پھر وزیر اعظم کی کابینہ کے وزیر ہیں۔ یہ وزیر اعظم کا ذاتی مسئلہ ہے جس میں ان کی فیملی کے لوگ بھی شامل ہیں۔ اس مسئلہ پر پارلیمنٹ میں بحث کے دوران وہ اپنی راۓ کا اظہار کر سکتے ہیں۔ لیکن عوام کے خرچہ پر ٹی وی چینلز پر گھنٹوں بیٹھ کر وزیر اعظم کے لئے صفائیاں دینا جمہوریت نہیں ہے۔ عوام نے انہیں ان کاموں کے لئے منتخب نہیں کیا ہے۔ وزیر اعظم اپنا دفاع خود کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ وزیروں کو درباری بننے کی ضرورت نہیں ہے۔
        پانامہ پیپرز میں وزیر اعظم ڈ یوڈ کمیرن کے بارے میں Tax Evasion کے انکشافات ہیں۔ لیکن وزیر اعظم کمیرن نے یہ اعتراف کیا ہے کہ انہیں وراثت میں کچھ پیسے ملے تھے جو ان کے والد نے دئیے تھے۔ اور اس پر انہوں نے ٹیکس دیا تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے فوری فیصلے کیے اور اپنے ٹیکس کا سارا ریکارڈ عوام کے سامنے جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔  وزیر اعظم کمیرن اپنی صفائی میں خود وضاحتیں دے رہے تھے۔ ان کے وزرا ان کی صفائی میں گواہیاں نہیں دے رہے تھے۔ وزیر اعظم خود پارلیمنٹ میں سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔ میڈیا کے سامنے بھی کھڑے تھے۔ انہیں اپنے نام پر ان داغوں کو صاف کرنے کی پریشانی تھی۔ اور اس سلسلے میں وزیر اعظم کمیرن نے یہ فوری فیصلے کیے تھے۔ برطانیہ کی تاریخ میں ایسا شاید پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ وزیر اعظم کمیرن سے استعفا دینے کا مطالبہ کرنے جس وقت ہزاروں لوگ سڑکوں پر آ گیے تھے اسی وقت پاکستان  میں وزیر اعظم نواز شریف سے بھی استعفا دینے کا مطالبہ ہو رہا تھا۔ کامن ویلتھ ملکوں نے بھی یہ کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔  
        وزیر اعظم نواز شریف کو دھچکا یہ لگا ہے کہ پانامہ پیپرز میں ان کا نام ہے۔ لیکن آصف زرداری کا نام کیوں نہیں ہے۔ بے نظیر بھٹو مرحومہ کا نام ہے۔ رحمان ملک کا نام ہے۔ اور زرداری یہ دیکھ کر ضرور مسکرا رہا ہو گا۔ لاکھوں ڈالر تو زرداری نے خورد برد کیے تھے۔ اور ٹیکس بھی نہیں دیا تھا۔ وہ کہاں گیے ہیں۔ اس کا نام پانامہ پیپرز میں کیوں نہیں ہے۔ زرداری کو پاکستان میں سیاست کا اتنا تجربہ نہیں ہے کہ جتنا انہیں پاکستان میں خورد برد کرنے کا تجربہ ہے۔ اس لئے آج تک 60 ملین ڈالر کا کوئی کھوج نہیں لگا سکا ہے کہ یہ کہاں ر کھے ہیں۔ کسی نے اس کا حساب بھی نہیں لیا اور وہ پاکستان کے صدر بھی بن گیے تھے۔ اور نواز شریف اب یہ جاننا چاہتے ہوں گے کہ زرداری نے کس Island میں اپنی دولت چھپا رکھی ہے۔
        نائین ایلون کے بعد صدر جارج بش نے کہا تھا کہ "وہ ہماری آزادی اور خوشحالی سے نفرت کرتے ہیں۔ اور اسے تباہ کرنا چاہتے ہیں۔" اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہو گئی تھی۔ کارپوریٹ میڈیا میں 7/24 صرف القاعدہ  دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی باتیں ہوتی تھیں۔ دنیا میں لوگوں کی توجہ دہشت گردی کی جنگ کی طرف لگا دی تھی۔ اور اس جنگ کے پس پردہ کمپنیوں کارپوریشنوں اور بنکوں کو دولت بٹورنے کا موقعہ دیا گیا تھا۔ صرف چند مختصر برسوں میں امیر امیر ترین ہو گیے ہیں۔ اور غریب غریب تر ہو گیے ہیں۔ دہشت گردوں نے غریبوں کو غریب تر نہیں کیا ہے۔ لیکن یہ امیر ترین ہیں جنہوں نے غریبوں کو غریب تر کر دیا ہے ۔ امریکی میڈیا میں پانامہ پیپرز کو کوئی نمایاں اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ پانامہ کی لا فرم جو Off Shore کمپنیاں قائم کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔ اس کے بارے میں بھی امریکی میڈیا میں زیادہ کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔         
        سرد جنگ میں سی آئی اے نے پانامہ کو لاطین امریکہ میں کمیونسٹوں کے خلاف دائیں بازو کی جنگ میں استعمال کیا تھا۔ پانامہ میں جنرل مینول نوریگا کی حکومت تھی۔ اس وقت جنرل نوریگا سی آئی اے کے لئے ایک قیمتی اثاثہ  تھے۔ اور نوریگا کو ایک لاکھ ڈالر سالانہ دئیے جاتے تھے۔ منیول نوریگا کے ذریعے Drug Trafficking ہوتی تھی۔ منی لانڈرنگ ہوتی تھی۔ اور ان سرگرمیوں سے پھر لاطین امریکہ میں کمیونسٹوں کے خلاف دائیں بازو کی تحریکوں کو سپورٹ کیا جاتا تھا۔ منی لانڈرنگ میں بڑے بڑے بنک بھی شامل تھے۔ اس مقصد میں BCCI بنک کو بھی استعمال کیا گیا تھا جو لاطین امریکہ میں بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا۔ جارج ایچ بش اس وقت سی آئی اے کے ڈائریکٹر تھے۔ سرد جنگ کے اختتام پر جارج ایچ بش امریکہ کے صدر بن گیے تھے۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ نے اپنی طاقت کا استعمال پانامہ میں مینول نوریگا کے خلاف کیا تھا۔ امریکی فوجیں صدارتی محل میں داخل ہو گئی تھیں۔ اور صدر جنرل نوریگا کو ہتھکڑ یاں لگا کر امریکہ لے آئی تھیں۔ انہیں فلوریڈا میں نظر بند کر دیا تھا۔ جنرل نوریگا پر منی لا نڈرنگ، Drug Trafficking کے الزامات میں مقدمہ چلایا گیا۔ نوریگا کو تیس سال کی سزا دی گئی تھی۔
        اور اب پانامہ کی پولیس نے Mossack Fonseca لا فرم کی تقریباً 27 گھنٹے تلاشی لی ہے۔ لا فرم کا سارا ریکارڈ پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ پانامہ کی یہ لا فرم بھی پاکستان میں Axact کمپنی کی طرح نظر آتی ہے جو دنیا بھر میں جعلی ڈگریوں کا کاروبار کرتی تھی۔                                                                                                                                                                               



Monday, April 11, 2016

America’s Tribal Animosity With The "Kim Clan"

America’s Tribal Animosity With The "Kim Clan"

A Nuclear North Korea Is “Homeland Security” For East Asia

مجیب خان

Kim Il Sung And Kim Jong Il

North Korean Leader Kim Jong Un

North Korean Missile Testing

             شمالی کوریا پر اقتصادی بندشیں لگانے کے اب تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ دنیا میں شاید کسی ملک پر اتنی اقتصادی بندشیں نہیں لگی ہوں گی کہ جتنی شمالی کوریا پر لگائی گئی ہیں۔ شمالی کوریا ان اقتصادی بندشوں کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ اور اس سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ امریکہ بھی شمالی کوریا پر سے اقتصادی بندشوں میں کمی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اور شمالی کوریا اپنی نیوکلیر سرگرمیاں ترک کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ شمالی کوریا پر جتنی زیادہ اقتصادی بندشیں لگائی جاتی ہیں۔ شمالی کوریا اتنے ہی زیادہ نیو کلیر میزائلوں کے تجربے کرنے لگتا ہے۔ شمالی کوریا میں کم ال سنگ سے (Kim il sung) امریکہ کی جو لڑائی شروع ہوئی تھی وہ ان کے بیٹے کم جونگ ال  (Kim jong il) کے دور میں بھی جاری تھی۔ اور امریکہ کی یہ لڑائی اب ان کے پوتے کم جونگ ان (Kim jong un) سے ہے۔ جو 30 برس کے ہیں۔ امریکہ نے جن ملکوں پر حملے کیے ہیں۔ اور وہاں حکومتیں تبدیل کی ہیں۔ ان ملکوں کے مقابلے میں شمالی کوریا بہت پرامن ملک ہے۔ اور اس کے ارد گرد میں استحکام ہے۔ شمالی کوریا نے اپنے ہمسایہ ملکوں کے لئے ایسے مسائل پیدا نہیں کیے ہیں۔ جو عراق اور لیبیا میں حکومتیں تبدیل کرنے سے ان کے ہمسایہ ملکوں کے لئے پیدا ہو گیے ہیں۔ شمالی کوریا کے اطراف میں ہمسایہ ممالک اپنے اقتصادی پیداواری سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ اور شمالی کوریا اپنے ایٹمی میزائلوں کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے ہیں۔ اور نہ ہی ایک دوسرے کے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ وہ شمالی کوریا کے میزائلوں کے تجربوں سے بھی خوفزدہ نہیں ہو رہے ہیں۔ اور شمالی کوریا پر ان کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ امریکہ نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں جو ایٹمی ہتھیار استعمال کیے تھے۔ جاپانی ان سے ہونے والی تباہی ابھی تک بھولے نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے تابکاری اثرات ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں ابھی تک موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جاپانی شمالی کوریا کے جو اس کا ہمسایہ ہے۔ ایسی مہم نہیں چلا رہے ہیں جو صدام حسین کے خلاف امریکہ اور برطانیہ نے چلائی تھی۔ اور ساری دنیا کو خوف و حراس سے دو چار کر دیا تھا۔ اور عراق کے جو ہمسایہ تھے اگر یہ شمالی کوریا کے ہمسایہ ہوتے تو شمالی کوریا کا حشر بھی ہو چکا ہوتا۔ لیکن یہ شمالی کوریا کے ہمسایہ ہیں جو اپنے خطہ کے امن اور استحکام کے مفاد میں فرنٹ لائن پر ہیں۔ اور امریکہ کو ایسا کوئی extreme اقدام کرنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں کہ جس سے اس خطہ میں 1950 دوبارہ آ جاۓ اور کوریا کی دوسری جنگ شروع ہو جاۓ۔ اس لئے یہ شمالی کوریا کے استحکام میں اپنے لئے امن دیکھتے ہیں۔ جبکہ عربوں نے عراق کے استحکام میں اپنے لئے امن نہیں دیکھا تھا۔ عرب امریکہ کے مفادات میں اپنا استحکام اور امن دیکھ رہے تھے۔
          سوال یہ ہے کہ عالمی برادری  شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیاروں کے ایشو پر امریکہ کو اس طرح ملوث ہونے کی ترغیب کیوں نہیں دیتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر امریکہ کو ٹیبل پر بٹھایا تھا۔ اور پھر انتھک مذاکرات کے بعد ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ ہوا تھا۔ شمالی کوریا میں بھی ایک نئی قیادت آئی تھی۔ جو بہت کم عمر تھی۔ اور شاید یہ امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں بھی دلچسپی رکھتی تھی۔ امریکہ کو ذرا محاذ آ رائی اور hawkish رویہ ترک کر کے شمالی کوریا کی نئی قیادت سے بات چیت کے لئے دروازے کھولنا چاہیے تھے۔ 32 سالہ Kim Jong Un کو اقتدار میں آۓ پانچ سال ہو رہے ہیں۔ ان پانچ سالوں میں پیاؤنگ یاؤنگ میں نئی قیادت نے اپنے ہمسائیوں کے خلاف کوئی جا حا ریت نہیں کی ہے۔ انہیں صرف لفظی دھمکیاں دی ہیں۔ اور میزائلوں کے تجربے کیے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق ایٹمی دھماکہ بھی کیے ہیں۔ اس کی بھی ایک نفسیاتی وجہ ہو سکتی ہے۔ کیونکہ دنیا نے انہیں تنہا کر دیا ہے اور اس تنہائی میں وہ یہ ہتھیار بنا رہے ہیں اور ان کے تجربے کر کے دنیا کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پھر یہ کہ امریکہ نے بھی ان کے ساتھ ابھی تک پچاس کے عشرے کی کوریا جنگ کی کشیدگی کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ امریکہ کی یہ پالیسی بھی پیاؤنگ یاؤنگ کو نیو کلیر میزائلوں کے تجربے کرنے کی شہ دے رہی ہے۔ اوبامہ انتظامیہ نے کیوبا سے تعلقات بحال کر لئے ہیں۔ ویت نام کی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا تھا۔ حالانکہ کمیونسٹوں کے خلاف ویت نام جنگ کے زخم ابھی تک بھرے نہیں ہیں۔ لیکن امریکہ نے اس تاریخ کو پیچھے چھوڑ کر ایک نئی تاریخ کا آغاز کیا ہے۔ اسی طرح شمالی کوریا کے ساتھ بھی امریکہ کو ایک نئی تاریخ کا آغاز کرنا چاہیے۔ شمالی کوریا کی نوجوان قیادت کے خیالات میں بھی ایک نئی تاریخ کا جذبہ ہوگا۔ کم جونگ ان اپنے دادا کم ال سنگ اور اپنے والد کم جونگ ال سے بہت مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر امریکہ پیاؤنگ یاؤنگ سے خود براہ راست رابطہ کرنا نہیں چاہتا ہے تو امریکہ کے توسط سے یہ رابطہ جنوبی کوریا اور جاپان کے ذریعے بھی ہو سکتے ہیں۔
         شمالی کوریا اس وقت نیو کلیر ہتھیار بنانے  کی جس پالیسی پر گامزن ہے۔ اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ یہ دنیا بہت خطرناک ہو گئی ہے۔ شمالی کوریا کے سامنے عراق، لیبیا، افغانستان اور شام کی مثالیں ہیں۔ جہاں امریکہ اور نیٹو نے حکومتیں تبدیل کر کے ان ملکوں کو تہس نہس کر دیا ہے۔ ان ملکوں میں لاکھوں خاندانوں کے گھر اجڑ گیے ہیں۔ ان کی زندگیاں تاریک ہو گئی ہیں۔ عراق پر اس وقت حملہ کیا گیا تھا کہ جب امریکہ کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ عراق میں مہلک ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ ہو گیا تھا۔ امریکی فوجیں اسی روز عراق میں بغداد تک گھستی چلی گئی تھیں۔ اور پھر بغداد پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسی طرح لیبیا میں کرنل قدافی سے یہ کہہ کر سارے مہلک ہتھیار لے لئے گیے تھے۔ کہ اب وہ اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔ اور ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاۓ گی۔ انہیں یہ یقین بش انتظامیہ نے دلایا تھا۔ لیکن پھر اوبامہ انتظامیہ نے سابقہ انتظامیہ کے عہد کو نظر انداز کر دیا تھا۔ اور لیبیا پر بمباری کر کے ایک طرف قدافی حکومت کو تباہ کر دیا اور دوسری طرف لیبیا کو برباد کر دیا۔
        پھر یہ کہ دنیا میں دہشت گردوں کے خلاف 14 سال سے جنگ لڑی جا رہی تھی۔ لیکن پھر ان ہی دہشت گردوں سے شام میں حکومت تبدیل کرنے کا کام بھی لیا جا رہا تھا۔ شام کھنڈرات بن گیا ہے۔ شام کے لوگوں کے گھر کاروبار زندگیاں سب کھنڈرات بن گیے ہیں۔ عالمی قانون ،اخلاقی قدریں، مہذب اصول، انسانی حقوق کے ادارے دنیا کا کوئی قانون عراق لیبیا شام کے لوگوں کا تحفظ نہیں دے سکا تھا۔ جا حا ریت کے سامنے سب کمزور تھے۔ ایک طرف ہتھیار تھے اور دوسری طرف نہتے ملک اور لوگ تھے۔ ہتھیاروں کی طاقت، دہشت گردی اور جا حا ریت نے دنیا کو خطرناک بنا دیا ہے۔ دنیا کو خطرناک دیکھ کر قومیں اب اپنی سلامتی بھی خطرناک ہتھیاروں کو حاصل کرنے میں دیکھ رہی ہیں۔ ایک خطرناک دنیا میں اب خطرناک ہتھیار ہی قوموں کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ قوموں کو زندہ رکھنے کا دنیا میں اب کوئی قانون نہیں ہے۔ شمالی کوریا بھی اب شاید اس نتیجے پر پہنچ گیا ہے           

Thursday, April 7, 2016

The Important Commercial Relations Between Iran And Pakistan

The Strategic Relations Between Saudi Arabia And India 

The Important Commercial Relations Between Iran And Pakistan

مجیب خان 

Saudi King Welcomes Indian Prime Minister Modi
Iranian President Rouhani Meets With Nawaz Sharif In Islamabad
  
           بھارت کا فوجی، بھارت کی خفیہ ایجنسی را کا ایجنٹ، ایران میں مختلف بھیس میں رہتا تھا۔ لیکن پاکستان اس کی خفیہ سرگرمیوں کا مشن تھا۔ اور یہ مشن پاکستان میں دہشت گردی اور انتشار پھیلانا تھا۔  پاکستان کی بقا کے خلاف یہ علیحدگی پسندوں کی مد د کر رہا تھا۔ ایران کی حکومت کو اس بھارتی شہری کی ان خفیہ سرگرمیوں کا کوئی علم نہیں تھا۔ پاکستان نے اس پر بھارت سے احتجاج کیا تھا۔ اسلام آباد میں بھارتی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کیا تھا۔ اور ایک احتجاجی مراسلہ اسے دیا تھا۔ دفتر خارجہ نے ایک خط میں ایران سے بھی اس بھارتی فوجی را ایجنٹ کے بارے میں جواب طلبی کی تھی۔ حالانکہ ایران کے صدر حسن روحانی اس وقت پاکستان کے دورے پر تھے۔ اور اس بارے میں یہ سوال ان سے بھی کیا گیا تھا۔ پھر آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی صدر روحانی سے ملے تھے۔ اور بعض اطلاعات کے مطابق وہ بھی بھارتی فوجی کی پاکستان میں خفیہ سرگرمیوں کا معاملہ ان کے نوٹس میں لاۓ تھے۔ اور اس سلسلے میں حکومت کو بہت سے سوالوں کے جواب صدر روحانی کے دورے میں مل گیے ہوں گے۔ پھر دفتر خارجہ نے یہ خط حکومت ایران کو کیوں لکھا تھا؟ اور کس کے مشورے سے لکھا تھا؟ یہ اس سرد جنگ ذہنیت کی یاد دلاتا ہے جس کا امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ میں اکثر پاکستان امریکہ کی حمایت میں اس طرح کی حرکتیں کرتا تھا۔ اور اس وقت سعودی عرب اور ایران میں ایک علاقائی سرد جنگ جنم لے رہی ہے۔ پاکستان کو اپنے اس کردار کو یہاں دہرانے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ پاکستان کی دفتر خارجہ کا ایران سے جواب طلبی کے لئے خط لکھنے کا فیصلہ غلط تھا۔ اول تو اس بھارتی شہری کا ایران سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایران میں خاصی تعداد میں بھارتی مقیم ہیں۔ اگر ان بھارتیوں میں کوئی را کا خفیہ ایجنٹ ایران میں مشکوک سرگرمیوں میں ملوث پا یا جا تا۔ تو ایرانی حکومت اس کے خلاف کاروائی کرتی۔ لیکن یہ بھارتی شہری ایران میں مقیم تھا۔ اور اس کی خفیہ سرگرمیاں پاکستان میں تھیں۔ اور یہ پاکستان کی ذمہ داری تھی کہ وہ فوری طور پر ایران کی حکومت کو اس کے بارے میں مطلع کرتی۔ اور یہ دہشت گردی کے خلاف مہم میں پاکستان اور ایران کے تعاون کا سوال بھی تھا۔
         لیکن پاکستان کی وزارت داخلہ بھی پی آئی اے کا ادارہ بنی ہوئی ہے۔ جس میں سفارشی، نااہل اور لا پرواہ  لوگ بھرے ہوۓ ہیں جو صبح حاضری دینے آتے ہیں اور شام کو حاضری دے کر چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کے بارے میں سابقہ حکومت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے بڑے بیانات دئیے تھے۔ بلوچستان میں جب بھی دہشت گردی کا خوفناک واقعہ ہوتا تھا۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کا بیان یہ ہوتا تھا کہ ہمیں معلوم ہے بلوچستان میں بھارت کی را کا دہشت گردی کرانے میں ہاتھ ہے۔ اگر وزیر داخلہ کو یہ معلوم تھا تو انہوں نے کیا کیا تھا؟ کیا انہوں نے ایران کے ساتھ بلوچستان کی سرحدوں کو محفوظ کیا تھا؟ اس سلسلے میں ایران کو الرٹ کیا تھا؟ انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ ایران سے روزانہ کتنی تعداد میں لوگ بلوچستان آتے ہیں؟ حکومت جب سرحدوں پر آزادانہ نقل و حرکت کو بھی جمہوریت سمجھتی ہے۔ تو بھارتی را کے ایجنٹ بھی آزادی سے پاکستان آ تے جا تے تھے۔ ان حالات میں بھارتی را کے ایجنٹ کی پاکستان میں سرگرمیوں کے مسئلہ پر ایران سے جواب طلب کرنے کا مقصد سمجھ میں نہیں آیا۔ اس سے صرف صدر حسن روحانی کے دورہ پاکستان پر جیسے پانی پھیردیا گیا ہے۔
          پچاس برس تک پاکستان امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کا قیدی بنا ہوا تھا۔ اور اب پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک نا معقول کشیدگی کا قیدی بننے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں اب جمہوریت ہے۔ اور ایک سیاسی حکومت ہے۔ جس سے پاکستان کو سعودی ایران لڑائی کا قیدی بنانے کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔ سعودی ایران سے دراصل اسرائیل کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ دو سال قبل اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ اسرائیل ایران جنگ بھارت اور پاکستان میں جنگ سے زیادہ خوفناک ہوتی۔ اسرائیل کو اس سے روکا گیا تھا۔ ایران کا سعودی عرب سے کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ ایران اس خطہ میں استحکام اور امن چاہتا ہے۔ اور اس خطہ میں اقتصادی ترقی کے لئے عربوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس خطہ میں اسرائیل کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ اور وہ اس خطہ میں اسلامی اتحاد کا غلبہ دیکھنا نہیں چاہتا ہے۔ لہذا خطہ کو شیعہ اور سنی میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اور سنی سعودی عرب اور شیعہ ایران میں لڑائی کے دو بلاک بن گیے ہیں۔ اس لڑائی میں سعودی عرب کے اپنے مفادات ہیں۔ اور ضروری نہیں ہے کہ ہر سنی ملک کا بھی یہ مفاد ہے۔ اسرائیلی سنی ملکوں سے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان نے سرد جنگ میں امریکہ کے مفاد کو اپنا مفاد بنا لیا تھا۔ جب سرد جنگ ختم ہو گئی تو یہ احساس ہوا کہ یہ پاکستان کا مفاد نہیں تھا۔
           صدر اوبامہ نے امریکی جریدے Atlantic کو انٹرویو میں کہا ہے کہ "سعود یوں کو مشرق وسطی میں اپنے ایرانی حریفوں کو بھی شریک کرنا چاہیے۔ سعود یوں اور ایرانیوں کے درمیان مقابلہ کی وجہ سے شام، عراق اور یمن میں پراکسی جنگیں اور انتشار پھیل رہا ہے۔ ہمیں اپنے دوستوں اور اسی طرح ایرانیوں سے یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ انہیں ہمسایہ کو شریک کرنے اور کسی قسم کا سرد امن رکھنے کے موثر طریقہ کار تلاش کرنا چاہیے۔" با ظاہر سعودی اس موڈ میں نہیں ہیں۔ اور وہ ایران کو مشرق وسطی سے باہر رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان نے ایران سے جو سوال کیے تھے ابھی ان کے جواب کا انتظار تھا کہ اس اثنا میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا طیارہ ریاض انڑنیشیل ایرپورٹ پر اترا تھا۔ جہاں سعودی شہزادے وزیر اعظم مودی کا استقبال کرنے کے لئے کھڑے تھے۔ شاہ سلمان نے وزیر اعظم مودی کو سعودی عرب کا سب سے اعلی تمغہ بھی دیا ہے۔ دونوں ملکوں نے اسڑٹیجک تعلقات قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ دونوں ملکوں میں پانچ بڑے تجارتی معاہدے ہوۓ ہیں۔ سعودی عرب اور بھارت نے دفاعی تعاون کو فروغ دینے پر بھی سمجھوتہ ہوا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں میں فوجیوں کے دورے ہوں گے۔ سعودی عرب اور بھارت کے مشترکہ اعلامیہ میں ان ملکوں کی مذمت کی گئی ہے جو دوسرے ملکوں کے خلاف دہشت گردی میں مذہب کا نام استعمال کرتے ہیں۔ مشترکہ اعلامیہ میں تمام ملکوں سے دہشت گردوں کے انفرا اسٹیکچر تباہ کرنے کا کہا گیا ہے۔ سعودی شاہ کی وزیر اعظم مودی سے ملاقات میں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند ہندوؤں کی دہشت گردی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کشمیری مسلمانوں پر جو ظلم اور تشدد کر رہی ہے۔ اس پر بھی کچھ نہیں کہا گیا ہے۔
          حالانکہ بھارت کے ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ بھارت چاہ بہار ایران میں بندر گاہ تعمیر کر رہا ہے۔ بھارت سب سے زیادہ تیل ایران سے خریدتا ہے۔ شام اور یمن کے مسئلہ پر بھارت کا موقف سعودی موقف سے مختلف ہے۔ اس لئے سعودی بھارت اعلامیہ میں شام کے مسئلہ کو جیسے سنسر کر دیا گیا ہے۔ اور یمن کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ جبکہ اعلامیہ میں سعودی عرب اور بھارت نے اس خطہ میں استحکام اور امن کے لئے مل کر کام کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہو گا کہ جب سعودی عرب ایران کے ساتھ کشیدگی فروغ دینے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اور اس کشیدگی میں سنی پاکستان کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔ اور دوسری طرف ہندو بھارت کے ساتھ خطہ میں امن اور استحکام کے لئے کام کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ پاکستان کو بھارت اور امریکہ کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات کے فروغ پر تشویش تھی۔ اور اب بھارت اور سعودی عرب کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات پاکستان کی سرحدوں پر آ گیے ہیں۔ را کے ایجنٹ پاکستان کی سرحدوں کے اندر آ گیے ہیں۔ پاکستان دوسروں کے مفادات میں کب تک اسی طرح استعمال ہوتا رہے گا؟