Sunday, December 29, 2019

A Fractured Islamic World Under Saudi Arabia Leadership


   A Fractured Islamic World Under Saudi Arabia Leadership

Saudis are the ones dividing the Islamic world, first in Shia and Sunni, and then ‘why are Turkey and Iran interfering in Arabs affairs? Saudis are confused and lost, cannot lead the Islamic world

مجیب خان

Syria, war destruction

Yemen, war destruction

Iraq, war destruction

Kuala Lumpur, Islamic countries summit, dece21, 2019 

  
   کو والا لمپو ر ملا ئشیا میں اسلامی دنیا کے ایک انتہائی بزرگ اور مدبر رہنما  وزیر اعظم متہا ئر محمد کی قیادت میں  اسلامی ملکوں کے سربراہوں کی کانفرنس کا انعقاد دنیا کے 1.2بلین مسلمانوں کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ ایسے حالات میں کہ جب اسلامی دنیا انتشار کا شکار ہے۔ اور اس کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ اسلامی دنیا کو ان حالات سے نکالنے کے لیے ایک دور اندیش اور مد برا نہ صلاحیتوں کی حامل قیادت کی ضرورت ہے۔ اور وزیر اعظم متہائر محمد میں یہ صلاحیتیں ہیں۔ اسلامی دنیا کو ان پر بھر پور اعتماد ہے۔ اور وہ انہیں اس قیادت کے لیے آگے لائے ہیں۔ وزیر اعظم متہائر محمد نے اسلامی دنیا کو انتشار سے نکالنے کا چیلنج قبول کیا ہے۔ ان کی بھی یہ آرزو ہو گی کہ وہ اپنی زندگی میں اسلامی دنیا کے تمام تنازعہ حل کر دیں۔ اور اسے ایک پرامن اور خوشحال اسلامی دنیا بنائیں۔ خدا انہیں اتنی طویل عمر دے کے وہ اپنی زندگی میں ایک ایسی اسلامی دنیا ضرور دیکھیں۔ اسلامی دنیا کے شہری بھی جب تک یہ دنیا  رہے گی انہیں یاد ر کھے گے۔ اور دعائیں دیں گے۔
  وزیر اعظم متہائر محمد نے کانفرنس کے  آغاز پر کہا "کانفرنس کا مقصد مسلمانوں کے حالات بہتر بنانے کے لیے کچھ کرنا ہے۔ اور Islamophobia کو شکست دینا ہے۔ ہمیں اپنی کوتاہیوں، غیر مسلموں پر ہمارا انحصار، اسلام کے دشمنوں کے خلاف اپنے آپ کو بچانے کے لیے اقدام کرنے کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔" کانفرنس 4 روز تک جاری رہی۔  کانفرنس میں اسلامی دنیا کو در پیش ایشو ز پر غور کیا گیا اور پھر اسلامی دنیا کو ان ایشو ز سے نجات دلانے کے لیے اقدامات تجویز کیے گیےہیں۔ اسلامی دنیا جب متحد ہو گی تو یہ مسائل کا حل ہو گا اور جب اسلامی دنیا کا شیرازہ بکھرا ہو گا تو یہ مسائل میں اضافہ ہو گا۔ اس وقت تمام اسلامی ملک خواہ یہ امیر ہیں یا غریب مسائل میں گھرے ہو ۓ ہیں۔ عراق پر 10سال تک انتہائی غیر انسانی بندشوں کے بعد اسلامی لیڈروں کو اسلامی ملکوں کے خلاف امریکہ کی بندشیں کبھی قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔ امریکہ نے پیشتر بندشیں اسرائیل کے مفاد  میں لگائی ہیں۔ جو دنیا کے 190ملکوں کے مفاد کے خلاف ہوتی ہیں۔ کو ا لا لمپو ر  کانفرنس میں ترکی اور ایران کے صدر، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حما د Al Thani  شریک تھے۔ کانفرنس میں تقریباً 50اسلامی ملکوں نے شرکت کی تھی۔ موجودہ حالات میں اسلامی ملکوں نے اتحاد اور یکجہتی کے لیے کانفرنس کو خصوصی اہمیت دی تھی۔ سعودی عرب نے کانفرنس میں شرکت نہیں کی تھی۔ پاکستان کی کوا لا لمپو ر کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی کچھ اور وجوہات تھیں۔ تاہم اسلامی دنیا میں اتحاد کی اشد ضرورت پر عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں خصوصی طور پر ذکر کیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اسلامی ملکوں کی تباہی پر بڑے دکھ کا اظہار کیا تھا۔ اور اپنے اس عزم کا اظہار بھی کیا تھا کہ وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی اور اختلافات ختم کرانے میں اپنی بھر پور کوشش کریں گے۔ اس مقصد سے وزیر اعظم عمران خان  سعودی عرب اور ایران گیے تھے۔ وزیر اعظم کی ان کوششوں کے کچھ نتائج دیکھے نہیں بلکہ  Slow motion میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ترکی کے صدر ارد و گان سے بھی اپنی کئی ملاقاتوں میں اسلامی یکجہتی اور اتحاد کے لیے کچھ کرنے پر زور دیا تھا۔ اس سال ستمبر میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقعہ پر وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعظم متہائر محمد کے درمیان ملاقات میں اسلامی ملکوں کے سربراہوں کی کانفرنس بلانے پر دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا تھا۔ جس میں اسلامی ملکوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے اور اسلامی ممالک کو جنگوں کے حالات سے نکالنے کی ایک مشترکہ حکمت عملی بنانے پر غور کیا جاۓ۔ اسلامی سربراہ کانفرنس پاکستان میں ہونے کی تجویز تھی۔ لیکن پاکستان میں اقتدار کے بھوکے، خود غرض، مفاد پرست، حکومت سے نفرت کا شکار اپوزیشن لیڈروں کے BEHAVIOR کی وجہ سے اسلامی مملکت پاکستان کے حالات پاکستان میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد کے لیے  مناسب نہیں سمجھے گیے تھے۔ کوا لا لمپو ر کی بجاۓ یہ کانفرنس اگر پاکستان میں ہوتی تو سعودی عرب کے لیے کانفرنس میں شرکت سے انکار شاید ناممکن ہوتا۔ بہرحال یہ تاثر دینا کہ پاکستان نے کوا لا لمپو ر کانفرنس کی مخالفت کی ہے اور اسلامی ملکوں کے سعودی بلاک میں رہنے کو اہمیت دی ہے۔ ایک غلط تاثر ہے۔ پاکستان کے ایران اور قطر سے بدستور اچھے قریبی تعلقات ہیں۔ سعودی عرب کی بعض پالیسیاں انتہائی Controversial ہیں جو اسلامی ملکوں کے لیے Poison بن رہی ہیں۔ کوا لا لمپو ر نہ جانے کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ انہیں وہاں شدید تنقید کا سامنا ہوتا۔
   وزیر اعظم مہتائر محمد اسلامی دنیا کو متحد کریں گے۔ اور وزیر اعظم عمران خان ایران ترکی اور قطر کے ساتھ سعودی عرب کی محاذ آ رائی ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ وزیر اعظم متہائر محمد عمران خان کی قیادت سے بہت متاثر ہوۓ ہیں۔ عمران خان کو انہوں نے بہت مخلص پا یا ہے۔ اسلامی ملکوں کے حالات کے بارے میں عمران خان کے خیالات بہت حقیقت پسندانہ ہیں۔ وزیر اعظم متہائر محمد نے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ مل کر اسلامی دنیا کے لیے کچھ کرنے کا عزم کیا ہے۔ دونوں رہنماؤں کی قیادت میں ملائشیا اور پاکستان کے تعلقات بہت مضبوط  ہوۓ ہیں۔ اگر وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اسٹرٹیجک تعلقات پر پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تو سعودی عرب کو بھی پاکستان کے کوا لا لمپو ر اعلامیہ کی حمایت کرنے پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان نے  اسلامی دنیا کے مفادات کو ہمیشہ اہمیت دی ہے۔ 1974 میں لاہور میں پہلی تاریخی اسلامی سربراہ کانفرنس ہوئی تھی۔ اور پھر اس کانفرنس سے یہ اسلامی ملکوں کی تنظیم بن گئی تھی۔ 1973 میں تیسری عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے عربوں کے علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسرائیلی جارحیت کو مغرب میں عظیم اسرائیلی فتوحات دیکھا جاتا تھا۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کا جیسے تہیا کر لیا تھا۔ پھر اس وقت بھی اسلامی دنیا میں آپس کی محاذ آرا ئیاں اور خلفشار آج کے مقابلے میں مختلف نہیں تھا۔ آج کی طرح اس وقت بھی مڈل ایسٹ تقسیم تھا۔ ایک طرف قوم پرست اور سوشلسٹ  حکومتیں تھیں۔ جنہیں سو ویت بلاک میں رکھا جاتا تھا۔ اور دوسری طرف بادشاہ اور حکمران تھے جو امریکہ کے ساتھ تھے۔ آج سعودی عرب کی قیادت میں خلیج کے ملک  امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف ایران، ترکی شام عراق ہیں۔ سعودی ترکی کو غیر عرب سمجھتے ہیں۔ ایران شام اور عراق کو شیعہ کہتے ہیں جن کے ساتھ ان کی 14سو سال سے جنگ ہے۔ اور امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے اس جنگ کا اب اختتام چاہتے ہیں۔ لاہور اسلامی سربراہ کانفرنس میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شاہ ایران، سعودی شاہ فیصل، صدر معمر قد ا فی، صدر حافظ السد، صدرانورالسادات، چیرمین یا سر عرفا ت سب کو ایک کمرے میں بٹھایا تھا۔ اس کانفرنس کی سب سے نمایاں کامیابی یہ تھی کے اسلامی ملکوں نے متفقہ طور پر پی ایل او کو چیرمین یا سر عرفات کی قیادت میں فلسطینیوں کی واحد نمائندہ تنظیم تسلیم کیا تھا۔ اور پی ایل او کو اقوام متحدہ کی رکنیت دینے کی حمایت میں ایک متفقہ قرار داد منظور کی تھی۔ چیرمین یا سر عرفات نے اس سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تھا۔
  1994 میں تہر ان میں انقلاب ایران کے بعد پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس ہوئی تھی۔ ایران نے عراق کے صدر صد ام حسین کو بھی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ عراق کے ساتھ  1980s میں ایران نے 9سال جنگ لڑی تھی۔ اس جنگ میں سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ صد ام حسین کی مدد کی تھی۔ جنگ میں دونوں ملکوں کی تباہی بہت ہوئی تھی۔ لیکن جنگ کوئی نہیں جیتا تھا۔ امریکہ اور اسرائیل نے عراق اور ایران دونوں کو کھربوں ڈالر کے ہتھیار بیچے تھے۔ سعودی عرب نے یہ جنگ  Finance  کی تھی۔ ایران نے سب کچھ فراموش کر کے تہر ان کانفرنس میں اسلامی دنیا کو متحد کرنے کی کوشش کی تھی۔ عراق پر اقتصادی بندشیں تھیں۔ صدر صد ام حسین تہر ان  کانفرنس میں نہیں آۓ تھے۔ لیکن نائب صدر کی قیادت میں عراق کا وفد اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کرنے تہر ان آیا تھا۔ صدر کلنٹن کے قومی سلامتی امور کے مشیر سینڈ ی بر گر عراقی وفد کو تہر ان میں اسلامی ملکوں کے درمیان دیکھ کر بوکھلا گیے تھے۔ انہیں پریشانی یہ تھی کہ کہیں یہ اسلامی ملک عراق پر سے پابندیاں ختم کرنے کی قرارداد منظور  کریں گے۔ اور عراق کے ساتھ تجارت شروع کر دیں گے۔ سینڈ ی بر گر نے وائٹ ہاؤس میں ایک پریس بریفنگ میں کہا "ہم تہر ان میں اسلامی سربراہ کانفرنس پر نگاہ ر کھے ہوۓ ہیں۔ یہ سعودی عرب اور خلیج کے حکمران تھے جنہوں عراق پر سے پابندیاں ختم کی قرارداد منظور نہیں ہونے دی تھی۔ آج اسلامی دنیا کا جو شیرازہ بکھرا ہوا اس کی پلاننگ 1990s سے ہو رہی تھی۔
 کوا لا لمپو ر میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد پر سعودی حکومت نے کہا کہ   "اس سے اسلامی ملک تقسیم ہو جائیں گے۔" اسلامی دنیا کو شیعہ اور سنی میں تقسیم کر کے سعودی کہتے ہیں کہ 'کوا لا لمپو ر کانفرنس  سے اسلامی ملک تقسیم ہو جائیں گے۔' اسلامی دنیا کو سنی سعودی بلاک اور شیعہ ایرانی بلاک میں کس نے تقسیم کیا ہے؟ اور سعودی حکومت اس تقسیم کو قبول کر رہی ہے۔ شیعہ سنی کی لڑائی جارج ڈبلو بش نے صد ام حسین کا اقتدار ختم کر کے اس اعلان سے کی تھی کہ 'ہم نے ہزار سال کی تاریخ میں پہلی بار عراق میں شیعاؤں کو حکومت دی ہے۔ سعودی حکومت کو صدر بش کے اس بیان کی مذمت کرنا چاہیے تھی۔ جنہوں نے یہاں مذہبی فرقہ پرستی کی جنگ شروع کرنے کے بیج بوۓ تھے۔ جمہوری نظام مذہبی فرقہ پرستی پر قائم نہیں کیا جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں تمام عقائد کے لوگ ہوتے ہیں۔ عوام جس پارٹی کو اکثریت سے منتخب کرتے ہیں۔ وہ حکومت بناتے ہیں۔ لیکن عراق میں صدر بش نے صرف شیعاؤں کو جمہوریت دی تھی۔ اور سنیوں کے ملیشیا گروپ امریکی  فوجی کمانڈروں نے بناۓ تھے۔  سعودی حکومت اور خلیج کے حکمران اس Set up  کے مطابق ابھی تک کام کر رہے ہیں۔ شیعہ سنی لڑائی عراق سے شام، شام سے یمن، یمن سے لبنان ، لبنان سے لیبیا پہنچ گئی ہے۔ امریکی میڈیا میں اس کی سرخیاں یہ ہوتی ہیں Sunni back by Saudi Arabia, Shia back by Iran’  بے گناہ ایرانیوں کو اس میں رگڑا جا رہا ہے کیونکہ وہاں شیعہ اکثریت ہے۔ سعود یوں کو یہ Nonsense بہت پسند ہے۔ اس لیے مڈل ایسٹ میں ساری لڑائیاں بھی Nonsense ہیں۔ سعودی قیادت مسلمانوں کو تباہی کے راستے پر لے گئی ہے۔  
                                                                                                                                                                                                                                                            

Monday, December 23, 2019

Before the Impeachment of The President, People Want to Know Why Vice President Joe Biden Was More Interested in Firing a Ukraine Prosecutor Who Was Investigating Corruptions in Ukraine? Isn’t Ukraine a Sovereign Country? Why Was Vice President Biden Meddling in Ukraine In A Serious Corruptions Investigation?


  Before the Impeachment of The President, People Want to Know Why Vice President Joe Biden Was More Interested in Firing a Ukraine Prosecutor Who Was Investigating Corruptions in Ukraine? Isn’t Ukraine a Sovereign Country? Why Was Vice President Biden Meddling in Ukraine In A Serious Corruptions Investigation? 


Folks, Donald J. Trump is not a politician, he is a businessman, and when a businessman talks it means business. And when a politician talks it means politics. Likewise, “do me a favor” when a businessman said do me a favor, its meaning is different when a politician asks to "do me a favor"; its meaning is quite different.   

مجیب خان
House Speaker Nancy Pelosi, announced the impeachment against President Trump, on articles related to Ukraine

House Judiciary Committee Chairman Jerrold Nadler 

House Intelligence Committee Chairman Adam Schiff

President Donald J. Trump

  امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار پریذیڈنٹ کو صرف وجہ سے Impeach کیا جا رہا ہے کہ پریذیڈنٹ ٹرمپ نے Ukraine کے نو  منتخب صدر Volodymyr Zelensky سے نائب صدر Joe Biden کے بارے میں یہ تحقیقات کرنے کے لیے کہا تھا کہ انہوں نے Ukraine کی حکومت سے Prosecutor کو برطرف کرنے کا کیوں کہا تھا۔ جو Ukraine  کی ایک ا نر جی کمپنی میں کرپشن کی تحقیقات کر رہے تھے۔ Joe Biden نے Ukraine کو اس وقت تک ایک بلین ڈالر امداد روک لی تھی کہ جب تک حکومت Prosecutor کو برطرف نہیں کرے گی۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ نے اس کی تحقیقات ہونے تک Ukraine کی 400ملین ڈالر روک لیے تھے۔ بعد میں دریافت ہوا کہ اس ا نر جی کمپنی کے بورڈ میں Joe Biden کے صاحبزادے تھے۔ جنہیں کمپنی 50ہزار ڈالر ماہانہ دیتی تھی۔ Joe Biden اس وقت امریکہ کے نائب صدر تھے۔ ڈیمو کریٹس اب پریذیڈنٹ ٹرمپ کو اس لیے Impeach کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے ایک غیر ملکی حکومت کو امریکی شہری کی تحقیقات کرنے کے لیے امداد کو Bribe کے طور پر استعمال کیا ہے۔ جو امریکہ کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ نے ایک غیر ملک کی حکومت  سے Joe Biden پر Dirt پھکنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ مختصر یہ کہ جتنے بھی الزام Impeach کا کیس قانونی بنا سکتے تھے۔ وہ سب  اس میں شامل کرتے گیے ہیں۔ حالانکہ پریذیڈنٹ ٹرمپ کی Ukraine کے صدر سے  Joe Biden کے بارے میں تحقیقات کی درخواست بالکل جائز تھی۔ کیونکہ نائب صدر Joe Biden نے اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کیا تھا اور ایک خود مختار ملک کی حکومت سے Prosecutor کو برطرف کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ نائب صدر کو اس پر Impeach کرنا چاہیے تھا۔ لیکن امریکی میڈیا  اسٹبلیشمنٹ کے لیڈروں کے کرائم چھپاتے ہیں۔ اور مہم اب یہ ہے کہ پریذیڈنٹ ٹرمپ کو Impeach کیا جاۓ۔ اور Joe Biden کو پریذیڈنٹ بنایا جاۓ۔ 63 ملین امریکیوں نے 2016 کے انتخاب میں ڈونالڈ ٹرمپ کو ووٹ دئیے تھے۔ اور اب Ukraine کی سیاست کی مداخلت امریکی عوام کے منتخب پریذیڈنٹ کو Impeach کر رہی ہے۔ روس نے امریکہ کے انتخابات میں Meddling کی تھی۔

    “Over the course of the last three months, we have found in controvertible evidence that President Trump abused his power by pressing the newly elected president of Ukraine to announce an investigation into President Trump’s political rival.” Adam Schiff, Democrat, chairman Intelligence Committee, who presides the impeachment inquiry.

چیرمین Adam Schiff نے کہا" خطرے ابھی موجود ہیں۔ ہماری جمہوریت خطرے میں ہے۔ امریکہ کی قومی سلامتی کو نقصان پہنچا ہے۔ Ukraine امریکہ کا اتحادی ہے۔ یہ روس کی فوجوں سے لڑ رہا ہے۔ Ukraine کے 15 ہزار لوگ مارے گیے ہیں۔ ایسے حالات میں صدر ٹرمپ کو یہ امداد روکنا نہیں چاہیے تھی۔" اس پر یہ بھی کہا گیا کہ امداد کو Bribe کے طور پر استعمال کیا تھا۔ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے Ukraine کے صدر Zelensky سے کہا کہ ‘Do me favor’ پہلے Joe Biden اور Hunter Biden کی تحقیقات کی جاۓ۔' ‘Do me favor’ کا مطلب Bribe کرنا لیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ Business man ہیں اور Business man کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ جو Washington insiders اور Professional Politicians نہیں سمجھتے ہیں۔ اب ایک Business man جب کسی سے  Do me favor’ کہتا ہے تو اس کا مطلب مختلف ہوتا ہے۔ اور جب ایک  Politician کسی سے ‘Do me favor’ کہتا ہے تو اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔ لیکن چیرمین Adam Schiff نے اس کا مطلب Bribe لیا تھا۔ کیونکہ Bribery high crimes and misdemeanors میں آتا ہے۔ اور یہ Impeachable ہے۔ لیکن یہاں ایسے کوئی ثبوت نہیں تھے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں عوام سے واشنگٹن میں لابیوں کے کرپشن کا خاتمہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اور صدر ٹرمپ کو جب یہ  پتہ چلا کہ نائب صدر Joe Biden نے Ukraine کی حکومت پر Prosecutor کو برطرف کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ جو کرپشن کیس کی تحقیقات کر رہا تھا۔ اور دباؤ بھی اس وقت  ڈالا گیا تھا کہ جب یورپی یونین  Ukraine  کی حکومت سے کرپشن ختم کرنے پر زور دے رہی تھی۔ بلاشبہ صدر ٹرمپ بھی Ukraine سے بزنس کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب Ukraine میں کرپشن کے بارے میں رپورٹیں 50صفحات پر ہوں گی اور بزنس کے حالات پر صرف 3صفحوں پر رپورٹ ہو گی۔ تو ہر کوئی 400ملین ڈالر روکنے پر غور کرے گا۔ چیرمین Adam Schiff کے بیانات میں خاصا Contradiction ہے۔ جیسے ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ صدر ٹرمپ کو Impeachment میں کہاں اور کیسے Fit کیا جاۓ۔ چیرمین Adam Schiff کہتے ہیں Ukraine امریکہ کا انتہائی قریبی اتحادی ہے۔ اور صدر ٹرمپ نے اس کی امداد روک کر امریکہ کی قومی سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے۔ جو لوگ صد ا م حسین کو امریکہ کی قومی سلامتی  کے لیے خطرہ کہتے تھے۔ ان کے مشورے سے صد ا م حسین کو ہٹانے سے کیا امریکہ کی قومی سلامتی کو نقصان نہیں پہنچا ہے؟ افغانستان میں القا عدہ اور طالبان کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا ایک انتہائی قریبی اتحادی تھا۔ اور فر نٹ لائن پر تھا۔ جو نیٹو اور امریکی فوجوں کی اس جنگ میں مدد کر رہا تھا۔ Obama-Biden انتظامیہ نے اس جنگ کے ایک انتہائی اہم موڑ پر پاکستان کی امداد روک دی تھی۔ اور پاکستان نیٹو فوجوں کو جو سروس فراہم کر رہا تھا اس کی ادائیگی بھی بند کر دی تھی۔ اور پاکستان سے طرح طرح کے مطالبے کیے گیے تھے۔ جو زیادہ تر بھارت کے مفاد میں تھے۔ چیرمین Adam Schiff صدر ٹرمپ کو Ukraine میں 15 ہزار Ukrainian مرنے پر Impeach کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں 50ہزار لوگ جن میں ایک بڑی تعداد فوجیوں کی بھی تھی صرف امریکہ کے لیے افغانستان کی جنگ میں فر نٹ لائن اتحادی بننے کے نتیجے میں مارے گیے تھے۔ اور پاکستان کا 100بلین کا نقصان ہوا تھا۔ Nobody gave a damn صدر ا وبا مہ نے بھارت کے 5 دورے کیے تھے۔ لیکن پاکستان کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کیا تھا۔ امریکہ نہ صرف خود افغان جنگ ہار گیا بلکہ اپنے ساتھ  نیٹو کو بھی شکست دلائی ہے۔ یہ نیٹو کی یورپ سے باہر دنیا کے ایک انتہائی غریب اور تباہ حال ملک میں پہلی جنگ تھی۔ نیٹو کو اس شکست کے بعد اب اپنی دوکان بند کر دینا چاہیے۔
  امریکہ کے مفاد اور سلامتی کو ایران ایٹمی سمجھوتہ سے امریکہ کے علیحدہ ہونے سے زبردست نقصان پہنچا ہے۔ یہ ایک عالمی سمجھوتہ تھا۔ جس پر امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے دو سال  مذاکرات کیے تھے۔ امریکہ کے ایٹمی ہتھیاروں کے ماہرین نے اس سمجھوتہ کا جائزہ لیا تھا اور اس کے بعد صدر ا و با مہ نے اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ اس معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ عالمی امن کے خطروں میں ایک بڑا خطرہ حل ہو گیا تھا۔ ایران کا ایٹمی سمجھوتہ مشرق وسطی میں امریکہ کے اتحادیوں کی سلامتی کے مفاد میں تھا۔ لیکن جس طرح Ukraine میں کرپشن کی تحقیقات کے دوران نائب صدر Joe Biden نے Prosecutor کو  برطرف کرایا تھا۔ اسی طرح اسرائیل کے وزیر اعظم نتھن یا ہو نے ٹرمپ انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر ایران کا ایٹمی سمجھوتہ ختم کرایا تھا۔ اسرائیل بھی ایک Foreign country تھا۔ اور اس کے وزیر اعظم نے امریکہ کی خارجہ پالیسی اور سلامتی کے ایک اہم ایشو میں Meddling کر کے اسے سبوتاژ کر دیا۔ اس مداخلت کے نتیجے میں امریکہ کی ساکھ خراب ہو گئی، امریکہ کا Image  دنیا میں خراب ہو گیا۔ امریکہ کے یورپی اتحادیوں سے تعلقات خراب ہو گیے جنہوں نے ایران سمجھوتے کی حمایت کی تھی اور امریکہ سے اس معاہدہ میں شامل رہنے کی اپیلیں کی تھیں۔ چیرمین Adam Schiff کو اس Colossal Damage پر Impeachment کرنا چاہیے تھا۔
   بش انتظامیہ نے امریکہ کو Great Values سے نکال کر Military Empire بنا دیا تھا۔ اور جھوٹ پر جنگوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا ہے جو 20سال ہو گیے ہیں اور ابھی تک ختم نہیں ہو رہا ہے۔ ا و با مہ انتظامیہ نے بھی جھوٹ بول کر جنگیں جاری رکھی تھیں۔ بلکہ ان جنگوں کو اور پھیلا دیا تھا۔ امریکہ کی تاریخ کا ایسا خوفناک دور دنیا نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہزاروں اور لاکھوں بے گناہ لوگ صرف جھوٹ بولنے کے نتیجے میں مارے گیے تھے۔ 30ہزار امریکی فوجی اب عمر بھر ان جنگوں کے زخموں کے ساتھ زندہ رہیں گے۔ 10ہزار امریکی فوجی جن کی عمریں 18سے 30 کے درمیان تھیں وہ دنیا میں کبھی نہیں آئیں گے۔ بش اور ا و با مہ انتظامیہ کے اعلی حکام اور Advisors اب کتابیں لکھ رہے ہیں اور لاکھوں ڈالر بنا رہے ہیں۔ جنگوں اور زخمی امریکی فوجیوں کی دیکھ بھال کے اخراجات کے بل امریکی عوام کو ادا کرنے کے لیے دے گیے ہیں۔ عراق جنگ پر صدر بش اور ان کی انتظامیہ کی سیکیورٹی ٹیم کو 43 مرتبہ Impeach کیا جاتا۔ لیکن کانگرس نے جیسے 9/11 کے بعد انتظامیہ اور سیکیورٹی کے اداروں کو Above the Law قرار دے دیا تھا۔                                                                                                                                                                          
                      

Tuesday, December 17, 2019

India, End of Secular and Progressive Democratic Values, Hindu Extremist’s Agenda Is Shaping New Laws


 India, End of Secular and Progressive Democratic Values, Hindu Extremist’s Agenda Is Shaping New Laws

India is becoming the Hindu state only for the Hindu people, as Israel is a Jewish state only for Jewish people 
مجیب خان
Protests in Guwahati, Assam, against the new citizenship law, Dec13,2019

Indian students protests against anti-muslims citizenship law

Riots in Jammu- Kashmir

Israel's Prime Minister Benjamin Netanyahu with India's Prime Minister Narendra Modi, Olga Beach, Israel, July6, 2017




  مودی حکومت نے ابھی تک یہ دعوی نہیں کیے ہیں کہ بھارت کے شہروں میں جو پر تشدد مظاہرے اور ہنگامے ہو رہے ہیں۔ یہ سب دہشت گرد ہیں اور یہ پاکستان سے Cross border دہشت گردی ہے۔ یہ بھارت کو عدم استحکام کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مودی حکومت اب یہ دعوی بھی نہیں کر سکتی ہے۔ کیونکہ مودی حکومت کے انتہا پسندانہ اقدامات دنیا خود دیکھ رہی ہے۔ مودی حکومت میں بھارت میں ہندو انتہا پسندی کا عروج ہو رہا ہے۔ 70سال سے ایک کامیاب سیکو لر جمہوری بھارت اب ہندو انتہا پسندوں کے فاشسٹ نظام میں Transform ہو رہا ہے۔ اور ان کے فاشسٹ نظام میں بھارت صرف ایک ہندو ریاست ہو گی۔ 70سال سے یہ ہندو انتہا پسند ایک ایسے لیڈر کو ڈھونڈ رہے تھے۔ جو ایک دن ان کے خواب کی تعبیر پوری کر سکتا تھا۔ اور یہ لیڈر انہیں اب مل گیا ہے۔ جو نریند مودی ہے۔ اس لیڈر کو  انہوں نے گجرات میں آزمایا تھا۔ صرف نریندر مودی ہندو انتہا پسندوں کے دیرینہ ایجنڈے کی تکمیل کر سکتا تھا۔ اس لیے گزشتہ انتخاب میں انتہا پسند ہندوؤں نے نریندر مودی کو بھارت کی 29 ریاستوں میں بھاری اکثریت سے کامیاب کیا ہے۔ نریندر مودی کی پارٹی کو پارلیمنٹ میں مکمل برتری مل گئی ہے۔ قانون سازی میں مودی کو کسی دوسری پارٹی کی  ضرورت نہیں ہے۔  ہندو انتہا پسندوں کے ایجنڈے کے مطابق قانون پارلیمنٹ منظور کرے گی۔ مودی نے دوسری مرتبہ منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے کشمیریوں کے خلاف چھریاں تیز کی تھیں۔ کشمیریوں کو حق خود مختاری دینے کا تنازعہ اس طرح حل کیا تھا کہ انہیں حق خود مختاری سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیا اور مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں شامل کر لیا۔ کشمیری تقریباً  180 دن سے گھروں میں نظر بند ہیں جسے مودی کہتی ہے یہ کرفیو ہے۔ ان کے باہر کی دنیا سے تمام رابطے منقطع کر دئیے ہیں۔ کشمیریوں کی نقل و حرکت انتہائی محدود کر دی ہے۔ ہندو فوج نے ان کی ریاست ہائی جیک کر لی ہے۔ ہندو فوج نے کشمیری مسلمانوں کو یرغمالی بنا لیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر لیا ہے۔ پارلیمنٹ نے اس سلسلے میں قانون بھی منظور کر لیا ہے۔ اور مرکزی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی حکومت قائم کر دی ہے۔ مودی نے انتہا پسند ہندوؤں سے اپنا ایک وعدہ پورا کر دیا ہے۔ اب دوسرے مرحلے میں ہندوؤں کو کشمیر میں آباد کرنے کا عمل شروع ہو گا۔ مودی حکومت نے 180 دن کشمیریوں کو ان کے گھروں میں قید کر کے کشمیریوں کی معیشت کا زبردست نقصان کیا ہے۔ اس وقت تک تقریباً 50بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ مودی کے ہندوؤں کی گھٹیا ذہنیت یہ ہے کہ جب کشمیر کی معیشت میں کشمیریوں کے لیے زندہ رہنے کے لیے کچھ نہیں ہو گا تو یہ کشمیر چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں چلے جائیں گے۔ اور ہندو ان کی جگہ یہاں آ جائیں گے۔ ہندو یہاں اکثریت بن جائیں گے اور مسلمان اقلیت ہو جائیں گے۔
  کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف ان اقدامات کے بعد مودی حکومت نے بھارت کے مسلمانوں کی شہریت کا قانون رائج کیا ہے۔ اس قانون کے تحت مسلمانوں کو بھارت کی شہریت نہیں دی جاۓ گی۔ اس قانون کے خلاف آ سام، بہار اور بھارت بھر میں احتجاج اور پر تشدد مظاہرے ہو رہے ہیں۔ کئی شہروں میں ریلوے اسٹیشنوں کو آگ لگا دی ہے۔ بسیں جلا دی ہیں۔ پولیس سے تصادم میں 10 مظاہرین جاں بحق ہو گیے ہیں۔ کشمیر میں ایسے پر تشدد مظاہروں کے پیچھے Cross border دہشت گردی بتایا جاتا تھا۔ اور یہ الزام پاکستان کو دیتے تھے۔ دنیا کی توجہ یہ کہہ کر پاکستان کی طرف کر دی جاتی تھی۔ لیکن آج آ سام ، بہار اور دوسرے شہروں میں جو مناظر دیکھے جا رہے ہیں۔ دنیا کی توجہ ہندو انتہا پسندی اور مودی حکومت پر ہے۔ جو انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہے۔ مسلمانوں کا احتجاج صرف مسلمانوں کی شہریت کا قانون سوال نہیں ہے۔ بلکہ بھارت کا سیکو لر نظام اور پروگریسو جمہوریت کو بچانا ہے۔ بھارت میں اس وقت 20 کروڑ مسلمان ہیں۔ اور اس صدی کے اختتام تک یہ 30کروڑ ہوں گے۔ بھارت کی سلامتی سیکو لر اور پروگریسو جمہوریت میں ہے۔ ایک دن سیکھ بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مودی کے بھارت کی شہریت نہیں چاہتے ہیں۔ ایک نظام کا جب شیرازہ بکھرتا ہے تو یہ پھر بکھرتا چلا جاتا ہے۔ اور بھارت جیسے ملک کے لیے اسے سنبھالنا مشکل ہو گا۔
  بھارت کی 70سال کی تاریخ میں ہندو انتہا پسند جماعتیں تھیں۔ جنتا پارٹی میں بھی ہندو انتہا پسند تھے۔ جنتا پارٹی کئی مرتبہ اقتدار میں بھی آئی تھی۔ لیکن اس میں Common Sense قیادت نے ہمیشہ بھارت کے سیکو لر جمہوری نظام کو اہمیت دی تھی۔ اور اس نظام کو کبھی Up Set کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ انہوں نے بھارت کے سیکو لر جمہوری نظام میں رہتے ہوۓ حکومت کی تھی۔ گجرات میں مودی کی حکومت میں مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند ہندوؤں کے فسادات نے نریندر مودی کو ان کا ایک قابل اعتماد لیڈر بنایا تھا۔ خود مودی کا Background بھی ہندو انتہا پسند نظریاتی تھا۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ کی کمزور قیادت نے بھی مودی کو قومی سیاست کے اسٹیج پر آنے کا موقع دیا تھا۔ دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ جس کی حکومت میں مذہبی فسادات ہوتے ہیں۔ ہزاروں لوگ مارے جاتے ہیں۔ اور وہ قومی لیڈر بن جاتا ہے۔  اگر یہ لیڈر کسی اسلامی ملک کا ہوتا تو دنیا کا بر تاؤ اس کے ساتھ  مختلف ہوتا۔ شاید دنیا ایسے لیڈر کو کبھی قبول نہیں کرتی۔ بہرحال، بھارت پر اب ہندو انتہا پسندوں کا قبضہ ہے۔ مودی کو انہوں نے بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا ہے۔ اور مودی اب ان کے ایجنڈے کے مطابق بھارت کا سیاسی نقشہ تشکیل دے رہا ہے۔ کشمیر کو بھارت میں شامل کر لیا ہے۔ ہندو انتہا پسند کشمیری مسلمانوں کو وادی کشمیر چھوڑنے پر مجبور کریں گے۔ جیسے بعض اکثریتی مسلم ریاستوں سے رفتہ رفتہ مسلمانوں کی اکثریت ختم کی گئی تھی۔ مودی کو یہ بتایا گیا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں آ سام میں مسلمانوں کی اکثریت ہو جاۓ گی۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کشمیر کے بعد آ سام اور پھر بہار مسلمانوں کی اکثریتی ریاستیں بن جائیں گی۔
1970s   مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کے دوران بڑی تعداد میں بنگالی مسلمانوں نے آ سام میں پناہ لے لی تھی۔ یہ وزیر اعظم اندرا گاندھی تھیں۔ جنہوں نے مسلم بنگالی خاندانوں کو یہاں پناہ دی تھی۔ اور پھر اندرا گاندھی نے بنگالی مہاجرین کا بحران پیدا کر کے مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کی تھی۔ جنگ کی وجہ سے یہاں کی معیشت تقریباً تباہ ہو چکی تھی۔ بنگالی مہاجرین نے آ سام کو اپنا نیا گھر بنا لیا تھا۔ اس وقت سے یہ مسلم بنگالی یہاں آباد ہیں۔ 40سال میں ان کی تیسری اور چوتھی نسلیں یہاں پیدا ہوئی ہیں۔ اب یہ بھارت کے شہری ہیں۔ یہاں ان کی جائیدادیں ہیں۔ کاروبار ہیں۔ یہ مقامی حکومت میں ملازمتیں کرتے ہیں۔ آ سام  کے تعلیمی اداروں میں ٹیچر اور پروفیسر ہیں۔ آ سام کے بعد بہار میں بھی مسلم آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مشرقی بھارت کی Demography تبدیل ہو رہی ہے۔ ہندو انتہا پسند اس ابھرتی صورت حال سے خوفزدہ ہیں۔ اس صورت کا حل انہوں نے 'شہریت کا ایک نیا قانون نافذ کرنے میں دیکھا ہے۔ اس قانون کے تحت مسلمانوں کو بھارت کی شہریت نہیں دی جاۓ گی۔ حالانکہ 40سال بعد یہ مسلمان بھارت کے Natural citizens ہو گیے ہیں۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے انہیں انسانی بنیادوں پر پناہ دی تھی۔ 40سالوں میں کسی بھارتی حکومت نے انہیں واپس ان کے ملک میں بھیجنے کی پالیسی نہیں بنائی تھی۔ انہوں نے انتخابات میں آ سام اور بہار میں  پارلیمنٹ کے رکن منتخب کیے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے کے ساتھ ان رکن پارلیمنٹ کی رکنیت بھی ختم کی جاۓ جو مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب ہوۓ ہیں۔
  یہ ایک المیہ ہے کہ بھارت جسے دنیا کی ایک بڑی جمہوریت ہونے کی مثال دی جاتی ہے۔ اب وہ بھارت لبرل اور پروگریسو جمہوریت سے 'طالبان ' کے نظام حکومت کو اختیار کر رہا ہے۔ سخت گیر طالبان اور سخت گیر ہندو انتہا پسندوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ صدیوں اور برسوں سے آباد مختلف مذہبی عقائد کے لوگوں کو شہریت دینے سے انکار اور انہیں ریاست کے تمام حقوق سے محروم کرنا جمہوریت نہیں ہے۔ یہ تحریک اسرائیل کی ہے۔ اسرائیل جسے بڑے فخر سے مشرق وسطی میں ایک واحد جمہوریت بتایا جاتا ہے۔ اسرائیل کی Knesset نے اس سال یہ قانون منظور کیا ہے کہ اسرائیل صرف Jewish State ہے۔ اور یہ صرف Jewish people کے لیے ہو گی۔ اسرائیل میں آباد عیسائی اور مسلمان دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔ اسرائیلی حکومت فلسطینی مسلمانوں اور عیسائوں کو آزادی دینا چاہتی ہے اور نہ ہی انہیں اسرائیل کی شہریت دینے کے لیے تیار ہے۔ وزیر اعظم مودی اور وزیر اعظم نتھن یا ہو کے درمیان تعلقات کی کیمسٹری ایک ہے۔ اس لیے یہ تعلقات بہت قریبی ہیں۔