Thursday, September 29, 2016

Mr. Prime Minister Modi, “If There’s A Will, There’s A Way”, And You Don’t Have Both

         
Mr. Prime Minister Modi, “If There’s A Will, There’s A Way”, And You Don’t Have Both
Whining And Complaining Has Become India’s Habit
Fifty Thousand Peoples Have Been Killed In Pakistan In Terrorists Attacks, But India Is Telling The World That They Are The Victim Of Terrorism

مجیب خان

India's Prime Minister, Narendra Modi
Protests for Kashmir
Violent clashes in the streets of Kashmir

      مودی حکومت کا امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدہ ہو گیا ہے۔ اور بھارت کا GDP 7.9 فیصد پر پہنچ گیا ہے۔ بھارتی رہنماؤں کی سوچ ہی بدل گئی ہے۔ بھارت انہیں اس خطہ کی سپر پاور نظر ہے۔ اس خطہ کے ملک جن کا امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدہ نہیں ہے اور جن کا GDP 3 اور 4 فیصد ہے۔ وہ ان کی نظر میں بھارت کے Slave ہیں۔ اور پاکستان کے ساتھ تعلقات رکھنے کو وہ Hell سمجھتے ہیں۔ انتہا پسند ہندوؤں نے اپنی آستینیں اوپر چڑھا لی ہیں۔ اور یہ ڈنڈے لاٹھیاں لے کر میدان میں آ گیے ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ نے ہندو انتہا پسندوں کے ساتھ فوجی معاہدہ کر کے اس خطہ میں ایک نئی جنگ کی فضا پیدا کر دی ہے۔ امریکہ اور بھارت میں 29 اگست کو معاہدہ ہوا تھا۔ اور یہ معاہدہ ہونے کے صرف24 روز بعد بھارت نے پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ دن رات پاکستان کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ سورج جب طلوع ہوتا ہے وزیر اعظم مودی یہ مطالبہ کرنے لگتے ہیں کہ پاکستان کو دہشت گرد اسٹیٹ قرار جاۓ۔ اور سورج جب غروب ہو جاتا ہے تو پھر یہ کہنے لگتے ہیں پاکستان کو تنہا کر کے اس تاریکی میں چھوڑ دیا جاۓ۔ اور اگر تاریکی کی بجاۓ چاندنی رات ہوتی ہے۔ تو پھر یہ کہنے لگتے ہیں کہ پاکستان کو پانی کی فراہمی معطل کر دی جاۓ۔ پاکستان کو سزا دینے کی یہ باتیں بھارتی حکومت میں اس لئے ہو رہی ہیں کہ چھ لاکھ بھارتی فوجیں کشمیریوں کی سرکشی پر قابو پا نے میں ناکام ہو رہی ہیں۔ باغی کشمیریوں نے 18 بھارتی فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ اس لئے مقبوضہ کشمیر کے حالات کی گرمی پاکستان پر اتر رہی ہے۔
    ایشیا بالخصوص جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں کو اس بھارتی Behavior کا خصوصی طور پر نوٹس لینا چاہیے۔ بھارت اور امریکہ میں ابھی صرف فوجی معاہدہ ہوا ہے۔ اور امریکہ نے بھارت کو ابھی مہلک ہتھیاروں کی ترسیل بھی شروع نہیں کی ہے۔ لیکن بھارت نے پاکستان کا پانی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ مذہبی انتہا پسند ہیں اس لئے Evil خیالات ذہن میں جلدی آ جاتے ہیں۔ لیکن اختلافات یا تنازع کو حل کرنے کے سلسلے میں اچھے خیالات ان  کے ذہن میں کبھی نہیں آ تے ہیں۔ حالانکہ دنیا میں پانی کی قلت کی جنگ اس صدی کے آخر تک شروع ہونے کا کہا جا رہا ہے۔ اس وقت تک تیل کی لڑائی کی جگہ پانی کی لڑائی لے لی گی۔ لیکن بھارت نے ابھی سے پاکستان کا پانی بند کر نے کا فیصلہ کر کے  یہ لڑائی شروع کر دی ہے۔ ویسے بھی پاکستان کے ساتھ لڑائیوں میں بھارت سب سے آ گے ہو تا ہے۔ اور چین کے ساتھ امن میں آ گے رہتا ہے۔ امریکہ بھارت فوجی معاہدہ  کے تحت امریکہ بھارت کو بحر ہند کی ایک بڑی نیول پاور بننے میں بھی مدد کرے گا۔ بھارت کو انتہائی جدید طیارہ بردار بحری بیڑے اور ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح آبدوزیں بھی بھارت کو فراہم کی جائیں گی۔ بھارت بحر ہند کی نیول پاور بننے کے بعد پھر بحر ہند میں ان ملکوں کے تجارتی بحری جہازوں کی ناکہ بندی کرے گا جو بھارت کی تابعداری نہیں کریں گے یا جن کے ساتھ بھارت کے سیاسی اور تجارتی اختلافات ہوں گے۔ اس وقت پاکستان کے ساتھ بھارت کا جو Behavior ہے۔ اور بھارتی حکومت جس طرح پاکستان پر اپنی بالا دستی قائم کرنے کے لئے عالمی دباؤ کا سہارا لے رہی ہے۔ پاکستان کو Bully کر رہی ہے۔ اس سے ایشیائی ملکوں بالخصوص جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی آنکھیں کھل جانا چاہیے۔ بحر ہند پر بھارت کی اجارہ داری روکنے میں جوابی اقدامات بہت ضروری ہیں۔ اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
    80 کی دہائی میں امریکہ نے افغانستان میں اپنے محدود تنگ نظر مفادات میں انتہائی رجعت پسند اسلامی مجاہدین کو ہتھیاروں سے مسلح کیا تھا۔ اور انہیں سوویت یونین کے مقابلے پر کھڑا کر دیا تھا۔ لیکن اس وقت کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ 30 یا 35 سال بعد یہ اسلامی مجاہدین جنوبی ایشیا اور دنیا کے لئے کتنا بڑا خطرہ ہوں گے۔ بالکل اسی طرح آج بھارت کو ہتھیاروں سے مسلح کر کے چین کے مقابلے پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ لیکن کوئی یہ غور نہیں کر رہا ہے کہ 30 یا 35 سال بعد بھارت جنوب مشرقی ایشیا کے لئے کتنا بڑا خطرہ ہو گا۔ جبکہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ تاہم بھارت کا چین کے مقابلے کی اقتصادی طاقت بننے سے کسی کو خطرہ نہیں ہو گا۔
    وزیر اعظم نریند ر مودی نے اب پاکستان کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا ہے کہ "میں پاکستان کے عوام کو بتانا چاہتا ہوں کہ بھارت آپ سے لڑنے کے لئے تیار ہے۔ اگر آپ میں طاقت ہے تو غربت کے خلاف لڑنے آ گے آئیں۔ دیکھتے ہیں پھر کون جیتتا ہے۔ دیکھتے ہیں کس میں بھارت یا پاکستان میں پہلے غربت اور جہالت کو شکست دینے کی صلاحیت ہے۔" لیکن بھارت کے دفاعی اخراجات غربت کا حل کیسے ہو سکتے ہیں؟ بھارت پاکستان کو یہ چیلنج کر رہا ہے کہ "آؤ دیکھتے ہیں غربت اور جہالت پہلے کون ختم کرتا ہے۔" لیکن پھر یہ بھارت ہے جو چین اور پاکستان کے درمیان غربت ختم کرنے کے اقتصادی منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کی سازشیں بھی کر رہا ہے۔ ہر طرف سے یہ کوشش ہے کہ کسی طرح چین ان منصوبوں کی تکمیل سے پیچھے ہٹ جاۓ۔ بلوچستان میں حکومت لوگوں کے اقتصادی حالات بہتر بنانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ فوج نے بلوچستان میں خاصے ترقیاتی کام بھی کیے ہیں۔ سڑکیں بنائی ہیں۔ اسکول تعمیر کیے ہیں۔ ہسپتال بناۓ ہیں۔ لیکن وزیر اعظم مودی بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اس طرح بیان کر رہے ہیں کہ جیسے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج Chili-Filled Shell سے لوگوں کو اندھا کر رہی ہے اور Pellet guns سے لوگوں کے جسموں کو چھینی کیا جا رہا ہے۔ بھرم داغ بگتی کو بلوچستان میں بھارتی حکومت انتشار پھیلانے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ وزیر اعظم مودی اسے بلوچستان جا کر اپنے بلوچ عوام کو غربت سے نجات دلانے کے کام کرنے کا مشورہ کیوں نہیں دیتے ہیں۔ اسے بلوچستان میں غربت ختم کرنے کے کاموں کو تباہ کرنے میں کیوں استعمال کر رہے ہیں؟
    حیرت کی بات ہے کہ بھارت جو دنیا کی ایک بڑی جمہوریت ہے۔ بھارت نے امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدہ کرنے کے 24 روز بعد پاکستان کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ اور سرحدوں پر بھارتی فوج کی نقل و حرکت بھی بڑھ گئی ہے۔ جبکہ سرد جنگ میں پاکستان میں فوجی حکومت نے بھی امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدہ کیے تھے۔ لیکن فوجی جنرلوں نے امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدے کرنے کے 24 روز بعد بھارت پر حملہ کی دھمکیاں کبھی نہیں دی تھیں۔ وزیر اعظم مودی کی حکومت کو دو سال ہو گیے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے حالات سے وہ بہت عرصہ سے واقف تھے۔ جہاں 5 لاکھ فوج تقریباً 3 دہائیوں سے کشمیریوں کا گھراؤ کیے ہوۓ ہے۔ وزیر اعظم مودی کشمیریوں کو فوج کے پریشر کو ککر میں چھوڑ کر دنیا بھر میں گھومتے پھر رہے ہیں۔ صدر اوبامہ سے وہ آٹھ مرتبہ ملے ہیں۔ لیکن کشمیریوں سے وزیر اعظم مودی نے ایک مرتبہ بھی ملاقات نہیں کی تھی۔ نہ کشمیر کے حالات کی طرف کوئی توجہ دی تھی۔ لہذا مقبوضہ کشمیر میں یہ پریشر کو ککر ایک دن تو پھٹنا تھا۔ اور جب یہ پریشر کو ککر پھٹ گیا ہے تو بھارت نے شور مچا دیا ہے کہ یہ دہشت گرد پاکستان سے آۓ تھے اور  پریشر کو ککر پھٹ گیا ہے۔ پاکستان کو الزام دینا ہر بھارتی حکومت کی عادت بن گئی ہے۔ حالانکہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے کتنے خوفناک واقعات ہوۓ تھے۔ جس میں 50 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گیے تھے۔ جن میں ایک بڑی تعداد فوجیوں کی بھی شامل ہے۔ بھارتی حکومت یہ جانتے بوجتے بھی پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ 
    اگر بھارتی حکومت میں “There’s a will, There’s a way” سوچ ہوتی تو اس کے سامنے پاکستان کے ساتھ تنازعوں کو حل کرنے کے راستے بھی ہوتے۔ لیکن بھارتی حکومت اگر تنازعوں کو حل کرنا نہیں چاہتی ہے۔ اور ان تنازعوں کو پاکستان کے ساتھ محاذ رائی کی سیاست کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ پھر اس کا حل کسی دیوتا کے پاس بھی نہیں ہے۔ نریندر مودی اقتدار میں آۓ تھے۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ سب سے پہلے وزیر اعظم واجپائی اور صدر جنرل پرویز مشرف کے درمیان جن امور پر اتفاق ہو گیا تھا۔ اور پھر وزیر اعظم من موہن سنگھ  کے درمیان جس معاہدے پر دستخط ہونے والے تھے۔ وزیر اعظم مودی  اس پر وزیر اعظم نواز شریف سے اپنی پہلی ملاقات میں بات کرتے اور پھر اس معاہدے کو آگے بڑھاتے۔ دونوں ملکوں میں مذاکرات “Z” پر پہنچنے کے بعد انہیں دوبارہ “A” سے شروع نہیں کیا جاۓ۔ Now the ball is in India’s court                                            

Monday, September 26, 2016

Two Two-Term Presidents And Seven Wars

Two Two-Term Presidents And Seven Wars
The Next President Inherits These Seven Wars    
        
مجیب خان
President Obama Speaks at the U.N. on Wednesday, September 20th, 2016
   
     20 ستمبر 2016 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے صدر اوبامہ نے آخری خطاب کیا تھا۔ اور 23 ستمبر 2009 کو جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے صدر اوبامہ نے پہلا خطاب کیا تھا۔ صدر اوبامہ نے جنرل اسمبلی سے 8 مرتبہ خطاب کیا ہے۔ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے صدر اوبامہ کے پہلے خطاب اور آخری خطاب کے درمیان صدر اوبامہ کی صدارت کی ایک تاریخ  ہے۔ جس سے عالمی امور میں صدر اوبامہ کی صدارت کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ صدر اوبامہ Hope کے ایک عظیم پیغام کے ساتھ اقتدار میں آۓ تھے۔ دنیا کے کروڑوں لوگوں کو صدر اوبامہ کے Hope کے پیغام سے بڑی توقعات تھیں۔ لیکن کیا صدر اوبامہ نے اپنے Hope کے پیغام سے لوگوں کی توقعات پوری کی ہیں؟ یا دنیا میں ان سے امیدیں وابستہ لگاۓ  لوگوں کو مایوسیوں میں چھوڑ کر جائیں گے؟ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 8 سالانہ اجلاس سے صدر اوبامہ کے خطابات میں امید اور مایوسی کا ملا جلا تاثر ملتا ہے۔
     صدر اوبامہ نے 23 ستمبر 2009 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ "مجھے آفس میں صرف 9 ماہ ہوۓ ہیں لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ جیسے خاصا عرصہ ہو گیا ہے۔" صدر اوبامہ نے کہا کہ "دنیا کو میری صدارت سے جو امیدیں ہیں۔ میں ان سے بھی با خوبی واقف ہوں۔ یہ توقعات میرے بارے میں نہیں ہیں۔ کسی حد تک مجھے یقین ہے کہ اس بے چینی کی جڑیں Status quo میں ہیں۔ جو ہم سے ہمارے اختلافات کا جلدی اعتراف کرا لیتے ہیں۔ اور پھر یہ ہمارے مسائل سے آگے نکل جاتے ہیں۔ لیکن ان کی جڑیں امید میں ہے۔ امید جس میں تبدیلی ممکن ہے۔ اور امریکہ اس امید کا لیڈر ہے اور یہ تبدیلی لاۓ گا۔" صدر اوبامہ نے اس خطاب میں کہا کہ "اقوام متحدہ کا قیام بھی اس یقین کے ساتھ آیا تھا کہ دنیا میں لوگ سکون سے رہیں گے۔ اور اپنے خاندانوں کی پرورش کریں گے۔ اور اپنے اختلافات پرامن طریقوں سے حل کریں گے۔" صدر اوبامہ نے کہا " القا عدہ اور اس کے انتہا پسند  اتحادیوں کو شکست دی جاۓ گی۔ یہ نیٹ ورک جس نے مختلف عقیدوں  اور قوموں کے ہزاروں لوگوں کو مارا ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں ہم اور دوسرے بہت سے ملک ان حکومتوں کی مدد کر رہے ہیں۔ جبکہ ان کے عوام کی سیکورٹی کے لئے حالات بہتر بنانے پر بھی کام کر رہے ہیں۔" صدر اوبامہ نے کہا کہ "عراق میں جنگ ختم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم نے عراقی شہروں سے فوجی دستہ ہٹا لئے ہیں۔ اور آئندہ سال اگست تک عراقی سر زمین سے ہماری تمام فوجیں چلی جائیں گی۔"
    21 ستمبر 2011 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب میں صدر اوبامہ نے کہا کہ "جنگ کی موجیں دست کش ہو رہی ہیں۔ میں جب اقتدار میں آیا تھا اس وقت تقریباً  ایک لاکھ 80 ہزار فوجیں عراق اور افغانستان میں  تھیں۔ اور اس سال کے آخر تک ان کی تعداد نصف ہو جا ۓ گی۔ اور ان کی تعداد میں مسلسل کمی ہوتی جاۓ گی۔ عراق اور افغانستان کی Sovereignty کے لئے بھی یہ بہت اہم ہے۔" صدر اوبامہ نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں عالمی رہنماؤں کو بتایا کہ "ایک سال پہلے مصر تقریباً 30 سال سے صرف ایک صدر کو جانتا تھا۔ لیکن 18 روز سے دنیا کی نظریں تحریر اسکوائر پر لگی ہوئی ہیں۔ جہاں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے مصری مرد عورتیں نوجوان بوڑھے مسلم عیسائی سب اپنے آفاقی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم نے ان مظاہرین میں عدم تشدد کی اخلاقی قوت دیکھی تھی۔ جس نے دہلی سے وا رسا اور Selma سے جنوبی افریقہ تک دنیا کو چکا چوند کر دیا تھا۔ مصر اور عرب دنیا میں تبدیلی آنا تھی۔ اور ہم یہ جانتے تھے۔"
     صدر اوبامہ نے 2009 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے اپنے پہلے خطاب کا آغاز اسامہ بن لادن اور القا عدہ کے خلاف دہشت گردی کی جنگ سے کیا تھا۔ جنرل اسمبلی کا یہ 64 واں اجلاس تھا۔ اور 2016 میں اب جنرل اسمبلی کے 71 ویں سالانہ اجلاس سے صدر اوبامہ نے اپنے آخری الوداعی خطاب کا اختتام اسلامی ریاست کو تباہ کرنے کے لئے ایک متحدہ اور انتھک ضرورت پر زور دیا ہے۔ صدر اوبامہ نے افسوس سے کہا کہ "یہ فرقہ پرستی انتہا پسندی خونریزی اور انتقام کی طرف راغب ہیں۔ یہ اتنی آسانی سے تبدیل نہیں ہوں گے۔" صدر اوبامہ نے جنرل اسمبلی سے اپنے آخری خطاب میں افغانستان کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ اور عراق میں امن اور استحکام کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا تھا۔ عراق میں امن اور استحکام نہ ہونے کی وجہ سے یہ بے شمار انتہا پسند گروپوں کا  گھڑ بنا ہوا ہے۔ ISIS ان میں سب سے بڑا گروپ ہے۔ اوبامہ انتظامیہ نے ابتدا میں جو پالیسیاں اختیار کی تھیں بعد میں انہیں تبدیل کر دیا تھا۔ اس عمل کے دوران نئے انتہا پسندوں کی پیدائش ہوئی تھی۔ صدر اوبامہ نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں Myanmar میں منتخب جمہوری حکومت کا خیر مقدم کیا تھا۔ لیکن مصری عوام کو ایک فوجی حکومت سے آزادی ملنے کا خیر مقدم کرنے کے بعد ان پر دوسری فوجی حکومت مسلط ہونے کا خوش آمد ید کرنے  کا صدر اوبامہ نے اپنے خطاب میں کوئی وضاحت نہیں دی تھی۔ صدر اوبامہ نے عالمی برادری کو یہ بھی نہیں بتایا کہ مصر میں اب جمہوریت کب آۓ گی؟ مصری عوام Hope سے Set Backs میں آ گیے ہیں۔ مشرق وسطی میں سیاسی اور جمہوری عمل کا ٹینکوں اور بکتر بند فوجی ٹرکوں سے راستہ روک کر اوبامہ انتظامیہ نے دراصل Militants کو حوصلہ دئیے تھے۔ یہ بڑے حیرت کی بات تھی کہ امریکہ جیسے جمہوری ملک نے سیاسی عمل پر تالے ڈال دئیے تھے اور صرف جنگوں سے انتہا پسندی سے متعلق تمام مسئلوں کو حل کرنے پر زور تھا۔ جنرل اسمبلی کے سامنے اپنے آخری خطاب میں صدر اوبامہ اگر مصر اور لیبیا میں جمہوریت کا فروغ ہونے اور عراق اور افغانستان میں سیاسی استحکام آنے کا پیغام دیتے تو جنرل اسمبلی میں عالمی برادری کھڑے ہو کر انہیں زبردست خراج تحسین پیش کرتی اور دیر تک ان کی تالیوں سے جنرل اسمبلی کا ہال گونجتا رہتا۔
      صدر اوبامہ نے کہا "شام جیسے ملک میں جہاں فوجی فتح آخری جیت نہیں ہو گی۔ اس مقصد سے ہم ڈپلومیسی کی انتھک کوشش کر رہے ہیں۔ تاکہ تشدد کو روکا جاۓ اور جنہیں مدد کی اشد ضرورت ہے ان کی مدد کی جاۓ۔ اور ان کی حمایت کی جاۓ جو سیاسی حل چاہتے ہیں۔ اور پھر یہ انہیں بھی دیکھ سکے گے جو خود کو کسی وقار اور عزت کے قابل نہیں سمجھتے ہیں۔" صدر اوبامہ نے کہا "ہم یہ روزانہ سرخیوں میں دیکھتے ہیں کہ ظالم تنازعہ سے مہاجروں کے سرحدیں عبور کرنے کے ہجوم لگے ہیں۔ مشرق وسطی کے ایک بڑے حصہ میں بنیادی سیکورٹی اور بنیادی نظام ٹوٹ گیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی حکومتیں صحافیوں کے منہ بند کر رہی ہیں۔ اور مخالفین کو کچل رہی ہیں۔ اطلاعات کو سنسر کر رہی ہیں۔ دہشت گرد نیٹ ورک سوشل میڈ یا کو ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے مقصد سے استعمال کرتے ہیں۔ معاشروں کو خطروں میں ڈالتے ہیں۔ اور بے گناہ مہاجروں اور مسلمانوں کے خلا ف غصہ دلا رہے ہیں۔ طاقتور قومیں عالمی قانون سے انہیں روکنے کی بحث میں الجھی ہوئی ہیں۔"
     لیکن عرب دنیا میں بے گناہ انسانیت کے لئے یہ تمام مسائل بھی جن کا صدر اوبامہ نے جنرل اسمبلی سے اپنے آخری خطاب میں ذکر کیا ہے۔ دراصل یہ طاقتور قوموں نے اس معصوم انسانیت کے لئے پیدا کیے ہیں۔ عرب دنیا میں 300 ملین کی آبادی اسامہ بن لادن کی حامی تھی اور نہ ہی یہ ابوبکر الابغدادی کی اسلامی ریاست کے حق میں ہے۔ اور جو انتہا پسند اور تشدد کی سیاست میں ایمان لاۓ ہیں وہ بھی طاقتور قوموں کی مسلسل فوجی مہم جوئیوں سے تنگ آ کر اس راستہ پر آ گیے ہیں۔ اور یہ عدم استحکام کے ستم زدہ ہیں۔ یہ عدم استحکام ان کے ملک میں ہے اور ان کی زندگیوں میں بھی عدم استحکام ہے۔ اینگلو امریکہ کے عراق پر حملہ نے عراقیوں کو خوشحالی سے مفلسی میں دھکیل دیا ہے۔ جیسے ان کا سب کچھ اس حملہ کی سو نامی میں بہہ گیا ہے۔ اور ان کا کوئی پرساں حال نہیں ہے۔ ان کے بچوں کا مستقبل بھی چھین لیا ہے۔ چودہ سال ہو رہے ہیں عراقیوں کے بچوں نے اسکولوں اور کالجوں کی شکل نہیں دیکھی ہے۔ ان کے سامنے صرف انسانیت کا خون ٹپک رہا ہے۔ ان کے کانوں میں بموں کے دھماکوں کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ ہر انسان کی فطرت میں ایک اچھی زندگی گزارنے کی لگن ہوتی ہے۔ جب ظالم انسانیت نے ان کی اس لگن کا بھی گلہ گھونٹ دیا ہے تو پھر وہ کیا بنیں گے؟ اس سوال سے ان کا ضمیر بیدار ہونے سے بہت سے مسائل ہو جائیں گے؟
     یہ کس Plato یا Socrates  نے کہا ہے کہ ایک عدم استحکام کے شکار ملک کو اس کے ہمسایہ میں مستحکم ملک کو عدم استحکام کر کے پھر عدم استحکام کے شکار ملک کو استحکام دیا جا سکتا ہے۔ عراق Brutally Destabilize تھا۔ پھر شام کو کیا سوچ کر Destabilize کیا گیا ہے۔ صدر اوبامہ نے مصری مظاہرین میں عدم تشدد کی اخلاقی قوت دیکھی تھی۔ لیکن شام میں پر  تشدد مظاہرین میں کونسی اخلاقی قوت دیکھی تھی۔ اور پھر ان کی پشت پنا ہی کی تھی۔ سیا ست یا کاروبار میں ایک غلط فیصلے کی قیمت بہت بھاری ادا کرنا پڑتی ہے۔ اور اگر پہلا فیصلہ غلط ہوتا ہے تو پھر بعد کے تمام فیصلے بھی غلط ہوتے ہیں۔ اور امریکہ کے یہ فیصلے دنیا کے لئے المیہ ثابت ہو رہے ہیں۔        



         

Wednesday, September 21, 2016

Karachi: A City Of Lost Opportunity

       
Karachi: A City Of Lost Opportunity

 مجیب خان
Downtown Karachi

Karachi's Daily Traffic

Karachi Port
      ہمیشہ “First impression is the last impression” ہوتا ہے۔ اور ایم کیو ایم، اس کے قائد الطاف حسین اور اس کی قیادت کے بارے میں میرا پہلا تاثر بھی آخری ہے۔ اور یہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ 90 کی دہائی میں مرحوم جام صادق علی سندھ کے وزیر اعلی تھے۔ ایم کیو ایم کی قیادت میں کراچی میں بڑے پیمانے پر فسادات ہو رہے تھے۔ اور فسادات کے خلاف حکومت کی کاروائی جا رہی تھی۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ ہو رہی تھی۔ اس دوران میں نے یہ خبر پڑھی تھی کہ کراچی میں برطانیہ، سویڈن، ڈنمارک، سوئزرلینڈ وغیرہ کے کونسل جنرل  ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے گھر جا رہے تھے۔ یہ خبر پڑھ کر میرا ماتھا ٹھنک گیا تھا کہ یہ سفارت کار الطاف حسین کے گھر کیوں جا رہے تھے۔ کراچی میں ہم نے بڑے فسادات دیکھے تھے لیکن کبھی غیرملکی سفارت کاروں کو فسادات کے دوران اس طرح کسی  لیڈر کے گھر جاتے نہیں دیکھا تھا۔ اور اس پارٹی کی قیادت کا غیرملکی ایجنٹ ہونے کے بارے میں اس وقت سے یہ میرا پہلا تاثر ہے اور یہ میرا آخری تاثر بھی ہے۔ پھر اس وقت الطاف حسین کو جس طرح خفیہ "سفارتی طریقہ" سے کراچی سے نکال کر لندن لے گیے تھے۔ وہ بھی میرے اس تاثر کی تصدیق کرتا تھا۔ الطاف حسین برطانیہ کی خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ تھا۔ لندن میں برطانیہ کی خفیہ ایجنسی کا الطاف حسین کی لیڈرشپ اور کراچی میں ایم کیو ایم کے رول کو Shape دینے میں اہم ہاتھ تھا۔ پاکستان میں اخبارات اور نشریاتی میڈیا میں برطانیہ کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ لہذا الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو بھی خصوصی کوریج ملنے لگا تھا۔
      برطانیہ کو کراچی میں مہاجروں میں یہ اچانک دلچسپی  ہو گئی تھی۔ اور اپنی اس دلچسپی میں برطانیہ نے ایم کیو ایم اور اس کے قائد پر ہاتھ رکھا تھا۔ برطانیہ نے ہانگ کانگ چین کے حوالے کر دیا تھا۔ کیونکہ اس کی ہانگ کانگ کی 100 سال کی لیز ختم ہو گئی تھی۔ اوربرطانیہ کو ہانگ کانگ چین کو واپس کرنا پڑا تھا۔ اس کے بعد بڑے زور شور سے یہ کہا جا رہا تھا کہ کراچی اب ہانگ کانگ بنے گا۔ اس خبر سے خلیج کے عرب مسلمان بھائیوں کے کان کھڑے ہو گیے تھے۔ وہ دوبئی کو ہانگ کانگ کے مقابلے پر تعمیر کر رہے تھے۔ ان کے تیل اور گیس کی تمام دولت لندن کے بنکوں میں جمع ہوتی تھی۔ دوبئی کو ہانگ کانگ بنانے کے لئے برطانیہ کی بڑی بڑی تعمیراتی کمپنیوں کو ٹھیکے دئیے گیے تھے۔ اور برطانیہ کے لئے کراچی کو ہانگ کانگ بننے سے روکنے کا ٹھیکہ بھی تھا۔ برطانیہ کے ساتھ اس Endeavour میں بھارت بھی شامل ہو گیا تھا۔ بھارت کراچی کو ایشیا کا اسٹاک ایکسچینج بنتا دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ Mumbai اسٹاک ایکسچینج کو بھارت شہنگائی اسٹاک ایکسچینج کے مقابلے پر لانا چاہتا تھا۔ ان مقاصد میں الطاف حسین کی قیادت اور ایم کیو ایم کو استعمال کیا گیا تھا۔
      لسانی اور قومیت کے نام پر جن لیڈروں نے سیاست کی ہے۔ انہوں نے اپنے عوام کو کچھ نہیں دیا ہے۔ انہیں انتشار میں رکھا ہے۔ انہیں سماجی اور اقتصادی طور پر پیچھے رکھا ہے۔ سندھ میں جی ایم سید سندھو دیش کے نعروں سے سندھیوں کو متاثر کرتے تھے۔ سندھیوں کو حکومت کے خلاف ابھارتے تھے۔ لیکن اس سے زیادہ جی ایم سید نے سندھیوں کو کچھ نہیں دیا تھا۔ آج سندھ میں عوام کے جو حالات ہیں وہ جی ایم سید کی اس سیاست کے ثبوت ہیں۔ سندھی آج ترقی کے ہر شعبہ میں بہت پیچھے ہیں۔ بلوچستان میں اکبر بگتی، سردار عطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش وغیرہ بلوچ قوم کے نام پر سیاست کرتے تھے۔ بلوچوں کو اپنے حقوق کے لئے لڑتے رہنے کا درس دیتے تھے۔ جبکہ انہیں تمام حقوق حاصل تھے۔ حکومت سے اپنے لئے جو چاہتے تھے۔ حاصل کر لیتے تھے۔ یہ بلوچستان میں حکومتوں میں بھی تھے۔ لیکن انہوں نے بلوچوں کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔ وہ بھی بلوچ قوم کے نام پر سیاست کرتے تھے۔ اور اپنی اس سیاست سے وہ بلوچوں کو تعلیم اور ترقی میں بہت پیچھے چھوڑ کر چلے گیے ہیں۔ سرحد میں خان عبدالولی خان کو سیاسی حقوق حاصل تھے۔ سیاسی تقریریں کرتے تھے۔ سیاسی بیانات بھی دیتے تھے۔ لیکن پشتونوں سے خود مختاری اور حقوق کے لئے لڑتے رہنے کا کہتے تھے۔  ولی خان کے صاحبزادے اسفندر یار ولی اسی سرحد میں پیدا ہوئیے تھے۔ اسی سرحد میں جوان ہوۓ تھے۔ انہیں عیش و عشرت کے ساتھ تمام حقوق حاصل ہیں۔ لیکن ولی خان پشتونوں کو پسماندہ چھوڑ کر گیے ہیں۔ تعلیم اور معاشی ترقی میں پشتون بھی بہت پیچھے ہیں۔
      کراچی میں مہاجروں نے جی ایم سید کے سندھ ،اکبر بگتی کے بلوچستان اور عبدالولی خان کے سرحد کے مقابلے میں مہاجر قومی قیادت کے بغیر خاصی ترقی کی تھی۔ قومی سیاست میں بھی کراچی کے مہاجروں کا ایک بڑا رول تھا۔ کراچی جب بھی حرکت میں آتا تھا۔ اسلام آباد میں حکومتیں گر جاتی تھیں۔ کراچی کا یہ مقام تھا۔ کراچی ادب تہذیب و تمدن کا مرکز تھا۔ دنیا جب کراچی کو دیکھتی تھی تو پاکستان اسے Civil Society نظر آتا تھا۔ الطاف حسین کراچی میں مہاجر پاکستان کی پانچویں قوم کا نعرہ لگا کر جی ایم سید، اکبر بگتی اور ولی خان بن کر آۓ تھے۔ ان کی سیاست کا یہ نعرہ کراچی کے مہاجروں کو بھی پسماندہ کر رہا ہے۔ جبکہ لندن میں الطاف حسین کو اور کراچی میں ایم کیو ایم کی قیادت کو عیش و عشرت کی تمام مراعت حاصل ہیں۔ لیکن ایم کیو ایم کی قیادت مہاجروں کے نام پر سیاست سے مہاجروں کو اقتصادی ترقی سے محروم کر رہی تھی۔ اور انہیں غربت کی تاریکیوں میں لے جا رہی تھی۔ ایم کیو ایم کی سیاست نے کراچی کی خوبصورتی کو بدصورتی میں بدل دیا ہے۔ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ سندھ حکومت میں شامل تھی۔ لیکن کراچی کے حالات اس وقت بھی بد تر تھے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ایم کیو ایم نے کراچی کے امن و استحکام کو تباہ کیا تھا۔ ان کے واچ میں کراچی میں ٹارگٹ کلینگ اور دوسرے کرائم ہو رہے تھے۔ پانچ سال ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں تھی۔ اس دور میں کراچی میں کتنی سڑکیں اور پل تعمیر ہوۓ تھے۔ اور ایم کیو ایم کی قیادت نے اپنے کتنے گھر کراچی اور دوبئی میں تعمیر کیے تھے؟ کراچی کے لوگوں کے لئے ایم کیو ایم نے  کتنے نئے روزگار پیدا کیے تھے۔  
      ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت سے جب علیحدہ ہو گئی تھی۔ تو الطاف حسین نے لندن سے کراچی میں تقریباً روزانہ ہڑتالوں کی اپیلیں کرنا ایک معمول بنا لیا تھا۔ ایک تو کراچی میں امن و امان کے حالات انتہائی خراب تھے۔ اور دوسرے الطاف حسین کی روزانہ ہڑتالوں کی اپیلوں سے کراچی کا کاروبار بری طرح متاثر ہو رہا تھا۔ کراچی میں جن کا کھانا روز کی کمائی پر انحصار کرتا  تھا۔ ان کے گھروں میں فاقہ پڑنے لگے تھے۔ لیکن الطاف حسین کو اس کا احساس تھا اور نہ ایم کیو ایم کی قیادت کو اس کا خیال تھا۔ ان ہڑتالوں اور امن و امان کے حالات سے تنگ آ کر کراچی کے سرمایہ کار اور بزنس مین اپنا سرمایہ اور کاروبار بنگلہ دیش ملیشیا،  انڈونشیا اور دوسرے ملکوں میں منتقل کرنے لگے تھے۔ مہاجروں کی سیاست کے نام پر ایم کیو ایم مہاجروں کے لئے یہ کام  کر رہی تھی۔ کراچی میں سرمایہ اور کاروبار لانے کے بجاۓ۔ سرمایہ اور کاروبار کو کراچی سے باہر جانے کا راستہ دیا جا رہا تھا۔ پھر ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے واچ میں کراچی میں ڈاکٹروں، پروفیسروں اور ممتاز دانشوروں کو قتل کیا جا رہا تھا۔ یہ بھی مہاجر تھے۔ لیکن ایم کیو ایم نے کیا کیا تھا؟
      کراچی کی ترقی کے لئے ایم کیو ایم کے پاس حکومت میں شامل ہو کر یا حکومت سے باہر رہتے ہوۓ بھی بے شمار سنہری موقعہ تھے۔ ایم کیو ایم اگر کراچی کے لوگوں کی خشحالی میں مخلص اور سنجیدہ ہوتی تو کراچی کو وہ ضرور دنیا کے صف اول کے شہروں کا شہر بنا سکتی تھی۔ کراچی پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر ہے۔ کراچی میں خریداری بھی بہت ہوتی ہے۔ حکومت کراچی سے روزانہ لاکھوں روپے سیل ٹیکس وصول کرتی ہے۔ یہ سیل ٹیکس کراچی کی آمدنی ہے اور اسے کراچی میں تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کے حالات بہتر بنانے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پھر کراچی میں پراپرٹی ٹیکس بھی کھربوں میں وصول کیا جاتا ہے۔ جس میں کمرشل پراپرٹی بھی شامل ہے۔ یہ پراپرٹی ٹیکس بھی کراچی کی آمدنی ہے۔ اور اسے کراچی میں سڑکیں بنانے ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے اور کراچی کو صاف ستھرا شہر رکھنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی میں پورٹ اور ایرپورٹ سے ہونے والی آمدنی کا حصہ بھی  کراچی کو ملنا چاہیے۔ کراچی کے لئے آمدنی کے بے شمار وسائل ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان وسائل کو ڈھونڈنے کے لئے دماغوں کی کمی ہے۔ جو کراچی کے لیڈر بنے ہوۓ ہیں ان کے دماغوں میں فساد بھرا ہوا ہے۔ ایم کیو ایم کراچی کے ایجنڈے پر کام نہیں کر رہی تھی۔ یہ جن کے ایجنڈے پر کام کر رہی تھی کراچی کے حالات بھی اسی ایجنڈے کے مطابق سامنے آۓ ہیں۔
      پاکستان میں الطاف حسین کو بہت ذہن سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے لندن میں بیٹھ کر کراچی میں ایم کیو ایم کو منظم ر کھا ہے۔ اور بڑی کامیابی سے پارٹی چلا رہے ہیں۔ اول تو الطاف حسین اتنے ذہن نہیں تھے۔ اگر وہ واقعی ذہن ہوتے تو اپنے آپ کو کبھی اس انجام پر لے جانے کی سیاست نہیں کرتے۔ اور پارٹی کا بھی یہ حشر نہیں ہونے دیتے۔ الطاف حسین لندن میں بیٹھے تھے۔ لیکن پاکستان میں برطانیہ اور امریکہ کے سفیروں کی انہیں پشت پنا ہی حاصل تھی۔ پاکستان کے ٹی وی چینلز پر الطاف حسین کو اتنا زیادہ کو ریج بھی برطانیہ کی وجہ سے دیا جاتا تھا۔ ادھر لندن میں بھی ایک بڑی آ ئی ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی الطاف حسین کے بارے میں فائلیں لے کر لندن ھوم منسٹر کے پاس جاتے تھے۔ لیکن ان کے سامنے فائلیں رکھ کر وزیر داخلہ جیسے دیوار سے سر پیٹ کر واپس آ جاتے تھے۔ اور اس پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی تھی۔ لیکن لندن میں میئر کے الیکشن میں پاکستانی نژاد برطانوی شہری لندن کا میئر منتخب ہو گیا تھا۔ لندن کے میئر کے اختیارات اور برطانوی وزیر اعظم کے اختیارات میں صرف ایک فرلانگ کا فرق ہے۔ الطاف حسین لندن کے شہری ہیں۔ ہمارے ملک میں امریکہ اور برطانیہ کے ایک اشارے پر حکومتوں کے تختہ الٹ جاتے تھے۔ امریکہ اور برطانیہ کا پاکستان میں کیونکہ جمہوریت میں مفاد ہے۔ اس لئے آصف علی زر داری نے بھی پانچ سال مکمل کر لئے تھے۔ اگر بے نظیر بھٹو یا ذوالفقار علی بھٹو آج وزیر اعظم ہوتے تو وہ بھی پانچ سال مکمل کرلیتے۔ لہذا الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف کاروائی میں بھی تاخیر نہیں ہوئی تھی۔ ایم کیو ایم کا بھی تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ لندن میں پاکستانی نژاد میئر اب الطاف حسین کے لئے خطرہ بن گیے ہیں۔                                             

Friday, September 16, 2016

Election Promises And The Role of Congress

Election Promises And The Role of Congress
Guantanamo Bay Detention Camp Is A Black Dot On America’s Democratic Values, President Obama Wants To Shut Down Guantanamo Bay, But Congress Prevents President From Shutting It Down, And President Obama Can’t Fulfill
  His Election Promise

مجیب خان
George W. Bush And President Obama
Donald Trump And Hillary Clinton
      اکیسویں صدی کا یہ پانچواں صدارتی انتخاب ہے۔ پہلے چار صدارتی انتخابات کے نتیجے میں آنے والی انتظامیہ کی پالیسیاں اور کارکردگی دنیا کے سامنے ہے۔ 2000 میں صدارتی انتخابات کی مہم میں صدر جارج بش نے امریکی عوام سے جتنے وعدہ کیے تھے وہ نائن الیون کو دہشت گردی کا واقعہ ہونے کی وجہ سے پورے نہیں ہو سکے تھے۔ اور صدر بش کے پہلے چار سال امریکی عوام کو ا سا مہ بن لادن سے خوفزدہ رکھنے میں گزر گیے تھے۔ جبکہ چار سال بعد دوسرے صدارتی انتخابات میں صدر بش کی انتخابی مہم کا موضوع القاعدہ کے خلاف جنگ تھا۔ اور امریکی عوام کے مسائل کو ثانوی حیثیت دی تھی۔ صدر بش دوسری مرتبہ بھی صدر منتخب ہو گیے تھے۔ دوسرے چار سال بش انتظامیہ کے القاعدہ کے خلاف جنگ دنیا کے مختلف ملکوں میں لڑنے میں گزر گیے تھے۔ صدر بش نے آٹھ سال میں امریکی عوام کے مصائب ختم کیے تھے اور نہ  ہی عالمی تنازعوں کو حل کیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی اس طرح لڑی تھی کہ اسے اور پھیلا دیا تھا۔ بش انتظامیہ نے افغانستان کو استحکام دیا تھا اور نہ ہی عراق کو امن دیا تھا۔ جبکہ امریکہ کی معیشت کے لئے انتہائی گھمبیر مسائل پیدا کر دئیے تھے۔
     اکیسویں صدی کے تیسرے صدارتی انتخابات میں براک اوبامہ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار تھے۔ اپنی صدارتی انتخابی مہم میں اوبامہ نے “Hope on the way” کے نعرے سے امریکی عوام کو حوصلہ دیا تھا۔ صدر اوبامہ نے امریکی عوام کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ اسامہ بن لادن کو پکڑیں گے۔ عراق جنگ ختم کریں گے۔ اور عراق سے فوجیں نکال لیں گے۔ افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ پر توجہ دیں گے۔ طالبان کا خاتمہ کیا جاۓ گا۔ افغان سیکورٹی فورس کی تربیت مکمل ہونے کے بعد افغانستان میں امن اور استحکام کی ذمہ دار یاں کابل حکومت کے حوالے کر دی جائیں گی۔ اور پھر افغانستان سے امریکہ اور نیٹو فوجیں چلی جائیں گی۔ صدر اوبامہ نے اپنی صدارت کے پہلے چار سال میں گوتانوموبے نظر بندی کیمپ بند کرنے کا عہد کیا تھا۔ اور اسے امریکہ کی جمہوری قدروں پر ایک سیاہ داغ قرار دیا تھا۔ بش انتظامیہ کے آٹھ سال دور میں امریکہ کے معاشی حالات انتہائی خراب ہو گیے تھے۔ بیروز گاری 10 اور12 فیصد پر پہنچ گئی تھی۔ امریکہ کی معیشت Recession میں تھی۔ ہاؤسنگ انڈسٹری میں Mortgage  اسکینڈل نے مالیاتی اداروں کو ایک بڑے بحران میں ڈال دیا تھا۔ بڑے بڑے بنک گرنے کے قریب پہنچ گیے تھے۔ صدر اوبامہ کا وائٹ ہاؤس میں پہلا دن تھا اور جب انہوں نے امریکہ کو اتنے خراب معاشی حال میں دیکھا تو انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ صدر بش انہیں امریکہ کے انتہائی خراب معاشی حالات دے کر گیے تھے۔
     پہلے چار سال میں صدر اوبامہ نے امریکی عوام سے انتخابی مہم کے دوران جو وعدے کیے تھے۔ ان میں سے کچھ وعدے پورے کیے تھے۔ لیکن صدر اوبامہ کا زیادہ تر وقت امریکہ کے معاشی اداروں کو بچانے میں گزرا تھا۔ تاہم عراق سے فوجیں بلا لی تھیں۔ یہ بھی امریکہ کے معاشی مسائل میں اضافہ کرنے کا سبب تھا۔ افغان جنگ پر خصوصی توجہ دی تھی۔ صدر اوبامہ کی انتظامیہ میں صدارتی انتخابی مہم کا آغاز ہونے سے صرف چند ماہ قبل اسامہ بن لادن کو پکڑ لیا تھا۔ یہ بہت بڑا وعدہ تھا جسے صدر اوبامہ نے پورا کر کے دکھایا تھا۔ امریکہ کی معیشت میں عوام کا اعتماد بحال ہو رہا تھا۔ امریکہ کو Recession سے نکال لیا تھا۔ Health Care Reform امریکی عوام سے ایک بڑا عہد تھا اور صدر اوبامہ نے اسے بھی پورا کیا تھا۔ یہ چند وعدے تھے جو صدر اوبامہ نے پہلے چار سال میں انتہائی مشکل حالات میں پورے کیے تھے۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ صدر اوبامہ کی انتظامیہ کے پہلے دو سال میں کانگرس میں ڈیموکریٹ کی اکثریت تھی۔ لیکن پھر 2010 میں کانگرس کے مڈ ٹرم الیکشن میں ری پبلیکن کو کانگرس میں اکثریت حاصل ہو گئی تھی۔ جس کے بعد اوبامہ انتظامیہ کے لئے مشکلات بڑھ گئی تھیں۔
     اوبامہ پریذیڈنسی کے دوسری ٹرم میں کانگرس کا رول جیسے انتظامیہ کے اندر ایک انتظامیہ بن گیا تھا۔ کانگرس اپنے ایجنڈے پر عملدرامد دیکھنا چاہتی تھی۔ اس صورت حال میں صدر اوبامہ کو اپنے انتخابی ایجنڈے کے بقیہ حصہ پر عملدرامد میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ صدر اوبامہ کی سفیروں کی تقرر یوں اور اعلی وفاقی عدالتوں میں ججوں کی نامزدگیوں کی توثیق کرنے کے سلسلے میں ری پبلیکن پارٹی کی غالب کانگرس کا رویہ عدم تعاون ہو گیا تھا۔۔ گوتانوموبے نظر بندی کیمپ امریکہ کی جمہوری قدروں پر ایک سیاہ داغ ہے۔ صدر اوبامہ اس سیاہ داغ کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن کانگرس نے ایک بل منظور کرکے صدر اوبامہ کو گوتانوموبے بند کرنے سے روک دیا ہے۔ اور امریکہ کی جمہوری قدروں پر یہ سیاہ داغ برقرار رکھا ہے۔ جبکہ گوتانوموبے میں نظر بند قیدیوں پر سالانہ 7 ملین ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ صرف 2015 میں گوتانوموبے کے اخراجات 445 ملین ڈالر تھے۔ اور 2015 تک یعنی 14 برس میں گوتانوموبے کے مجموعی اخراجات 5.7 بلین ڈالر تھے۔
     صدارتی انتخابات کی مہم تقریباً 18 ماہ سے جاری ہے۔ دونوں پارٹیوں کی پرائم ریز کے دوران مختلف ٹی وی چینلز پر دونوں پارٹیوں کے صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثہ بھی ہوۓ تھے لیکن حیرت کی بات تھی کہ صدارتی امیدواروں سے کانگرس کے اس رول پر کسی نے سوال نہیں کیے تھے۔ اوبامہ انتظامیہ کے لئے یہ “do nothing Congress” تھی۔ کانگرس نے گوتانوموبے  نظر بندی کیمپ بند کرنے کی صدر اوبامہ کو اجازت نہیں دی تھی۔ لیکن عراق جنگ کا تجربہ دیکھنے کے باوجود کانگرس نے صدر اوبامہ کو لیبیا Adventure کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ سینیٹر جان مکین کانگرس کے جیسے De facto سیکریٹری آف اسٹیٹ تھے۔ اور سینیٹر Lindsey Graham ان کے ڈپٹی تھے۔ عراق کے خلاف جنگ کی مہم میں یہ سب سے آگے تھے۔ پھر کرنل قدافی کے خلاف مہم میں یہ بن غازی میں اسلامی انتہا پسندوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے تھے۔ اور ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ اور صدر اوبامہ سے کرنل قدافی کے خلاف فوجی ایکشن کا مطالبہ کر رہے تھے۔ امریکہ کی De jure سیکریٹری آف اسٹیٹ ہلری کلنٹن کو اس پر انتظامیہ کی پالیسی واضح کرنے سے پہلے قدافی کے خلاف فوجی ایکشن کے لئے اتنا زیادہ دباؤ بڑھ گیا تھا کہ صدر اوبامہ نے کچھ سوچے سمجھے بغیر لیبیا پر بمباری کا حکم دے دیا تھا۔ بن غازی میں جن اسلامی انتہا پسندوں کے ساتھ سینیٹر جان مکین اور سینیٹر گرہم کھڑے تھے بعد میں انہوں نے کرنل قدافی کو قتل کر دیا تھا۔ اور پھر انہی کے ساتھیوں نے بن غازی میں امریکی سفیر اور چار دوسرے امریکیوں کو مار دیا تھا۔ اب ہلری کلنٹن کے judgment کے بارے میں سب سوال کر رہے ہیں۔ لیکن سینیٹر جان مکین اور سینیٹر Lindsey Graham کے Judgment کے بارے میں کوئی سوال نہیں کر رہا ہے۔ ان کے Judgment غلط ہونے کے باوجود لوگ انہیں منتخب کرتے ہیں۔
   
   "Senator John McCain and Senator Lindsey Graham’s judgment were worse than Secretary Hillary Clinton."     

     مشرق وسطی کو جمہوری بنانے کے پروجیکٹ پر بش اور اوبامہ انتظامیہ نے تقریباً 576 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ جس کے بعد مصر میں جمہوریت آئی تھی۔ جو عرب دنیا کا ایک بڑا ملک تھا۔ سینیٹر جان مکین اور سینیٹر Graham  مصر میں جمہوریت کے متوالوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ جمہوریت کے لئے ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔ لیکن پھر مصر میں جمہوریت نے پیدائش کے پہلے ہی سال میں دم توڑ دیا تھا۔ مصر میں دوبارہ فوجی راج بحال ہو گیا تھا۔ سینیٹر مکین اور سینیٹر گرہم نے سینٹ میں اس کے خلاف کچھ نہیں کیا تھا۔ مصر کی فوجی اور اقتصادی امداد نئے فوجی راج میں بھی جاری تھی۔ مصر میں جمہوریت کی ناکامی کے بعد شام میں سیاسی تبدیلی کے لئے تحریک کی حمایت معطل کر دی جاتی۔ لیکن اسد حکومت کے خلاف باغیوں کو تربیت دینے پر اوبامہ انتظامیہ 500 ملین ڈالر خرچ کر رہی تھی۔ کانگرس نے اسے کبھی ویٹو نہیں کیا تھا۔ جبکہ سینیٹر مکین اور سینیٹر گرہم شام میں امریکی فوجیں بھیجنے کا اصرار کر رہے تھے۔ شام میں جن نام نہاد باغیوں کی حمایت کی جا رہی تھی۔ ان میں ایک بڑی تعداد کا عرب اور شمالی افریقہ میں القاعدہ اور داعش سے تعلق تھا۔ امریکہ کو عرب دنیا میں جمہوریت پھیلانے میں بری طرح ناکامی ہوئی ہے۔ جس پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے تھے۔ امریکہ نے شام میں باغیوں کو تربیت دی تھی 500 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ اس سے  القاعدہ اور داعش کو فروغ ملا ہے۔ عرب دنیا میں ہر طرف یہ امریکہ کی ناکامیاں ہیں۔ جنہوں نے روس کے لئے عرب دنیا میں داخل ہونے کے دروازے کھولے ہیں۔ امریکہ کی یہ تاریخی ناکامیاں روس کے لئے تاریخی فتح بن گئی ہیں۔
    اوبامہ انتظامیہ کو مصر میں کسی بھی قیمت پر جمہوریت کو ناکام نہیں بنانا چاہیے تھا۔ مشرق وسطی میں یہ جمہوری تبدیلی امریکہ کے مفادات کی فرنٹ لائن تھی۔ اگر مصر میں امریکہ کامیاب ہو جاتا تو شام میں بھی اسے ضرور کامیابی ہوتی۔ اور روس کو بھی شام میں آنے کا موقعہ نہیں دیا جاتا۔ اسرائیل میں تقریباً دو ملین روسی آباد ہیں۔ اور آئندہ حکومت اسرائیل میں روسی نژاد وزیر اعظم کی ہو گی۔ ایرانی یہودی اس کی کابینہ میں ہوں گے۔ اور یہ بڑی تبدیلی کا آغاز ہو گا۔ صدر پو تن نے فلسطین کے صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یاہو کو ماسکو میں مذاکرات شروع کرنے کے لئے بلایا ہے۔ یہ وہ اہم ایشو ہیں جن پر صدارتی امیدواروں کو بات کرنا چاہیے تھی۔ اور اپنی پالیسی واضح کرنا چاہیے تھی۔
    اب اوبامہ انتظامیہ کے اس تجربہ  اور کانگرس کے اس رول میں ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ عوام سے اپنے وعدے کس طرح پورے کرے گی؟ جبکہ کانگرس میں ڈیموکریٹ اور ری پبلیکن  دونوں ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف پہلے ہی بہت زیادہ Hostile ہیں۔ جبکہ ہلری کلنٹن انتظامیہ میں ری پبلیکن کانگرس کا رویہ خاصا معاندانہ ہو گا۔ اور خدشہ یہ ہے کہ 90 کی دہائی میں صدر کلنٹن کا دور واپس آ جاۓ گا۔ اور اس مرتبہ صدر ہلری کلنٹن کے خلاف Congressional انکوائریوں کی بھر مار ہونے لگے گی۔                          

Saturday, September 10, 2016

Crown Prince Mohammad’s Yemen War And "Vision 2030"

Crown Prince Mohammad’s Yemen War And "Vision 2030"    

مجیب خان

President Obama meets with Saudi Crown Prince Mohammad
President Xi Jinping of China meets with Prince Mohammad
Japanese Prime Minister Abe meets with Prince Mohammad

      خانہ جنگیں اور خونی جنگیں سعودی عرب کو ہر طرف سے گھیرے ہوۓ ہیں۔ عدم استحکام خطہ کے ہر ملک کی سلامتی کے لئے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ یمن میں سعودی عرب کی جنگ کراۓ کے لوگ لڑ رہے ہیں۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس کے طیارہ بردار بحری بیڑے خلیج میں کھڑے ہیں اور سعودی عرب کی سلامتی کی چوکیداری کر رہے ہیں۔ نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جو یمن کے خلاف سعودی عرب کی جنگ کے Architect ہیں۔ اور سعودی عرب کے وزیر دفاع بھی ہیں۔ سعودی عرب کو اس جنگ میں چھوڑ کر اب اس کا تیل پر انحصار ختم کر کے اسے ایک ترقی یافتہ صنعتی ملک بنانے کے منصوبہ پر کام کر رہے ہیں۔ اور یہ نیشنل ٹرانس فارمیشن 2020 اور ویژن 2030 ہے۔ ان منصوبوں کے فروغ سے سعودی عرب میں معاشی سلامتی کے حالات پیدا کیے جائیں گے۔ اور سعودی سلطنت کا علاقائی اور عالمی درجہ بلند کرنے کے راستہ میں جو رکاوٹیں ہیں ان موقعوں سے انہیں دور کرنے کی کوشش کی جاۓ گی۔ آئندہ چند برسوں میں سعودی معیشت کا صرف تیل پر انحصار ختم ہو جاۓ گا۔ اور معیشت کے مختلف شعبوں میں صنعتوں کے قیام کو فروغ دیا جاۓ گا۔ اور 2030 تک یہ منصوبے مکمل کیے جائیں گے۔ یہ نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا سعودی عرب کے مستقبل کا Vision 2030 ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد اپنا یہ Vision 2030 لے کر سب سے پہلے واشنگٹن آۓ تھے۔ اور صدر اوبامہ سے ملاقات میں انہیں Vision 2030 کے بارے میں بتایا تھا۔ صدر اوبامہ نے سعودی عرب کی اقتصادی ترقی میں اسے ایک اچھا آغاز قرار دیا تھا۔ شہزادہ محمد نے امریکہ میں قیام کے دوران صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں سے بھی ملاقاتیں کی تھیں اور انہیں سعودی عرب میں صنعتیں لگانے کے لئے کہا تھا۔ امریکہ میں قیام کے دوران شہزادہ محمد کیلیفورنیا میں Silicon Valley بھی گیے تھے۔ جو High Tech اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کمپنیوں کا سینٹر ہے۔ شہزادہ محمد یہاں ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ایگزیکٹو سے ملے تھے۔ اور انہیں Silicon Valley کی طرح سعودی عرب میں بھی High Tech کمپنیوں کا سینٹر قائم کرنے کے لئے کہا تھا۔ شہزادہ محمد  بل گیٹ سے بھی ملے تھے۔
     ولی عہد شہزادہ محمد کے سعودی عرب کو ترقی یافتہ صنعتی ملک بنانے کے یہ منصوبے بہت اچھے ہیں۔ لیکن ادھر سعودی عرب اور یمن میں جنگ بھی جاری ہے۔ جس میں مغرب کے ترقی یافتہ صنعتی ملکوں کے جدید ترین ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں۔ اس جنگ میں بے شمار یمینی شہریوں کے ہلاک ہو نے کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بن کی مون نے یمین میں ہسپتالوں اور اسکولوں پر سعودی بمباری کی مذمت کی ہے جس میں بڑی تعداد میں عورتیں اور بچے ہلاک ہو گیے تھے۔ جبکہ سعودی عرب کی سرحد کے دوسری طرف عراق میں صدر جارج ایچ بش نے 90 کی دہائی میں جس جنگ کی بنیاد رکھی تھی وہ جنگ امریکہ کے ساتویں صدارتی انتخابات میں بھی جاری ہے۔ صدر اوبامہ نے اس ہفتہ مزید چار سو امریکی فوجی عراق بھیجے ہیں۔ عراق کے شہروں میں بموں کے دھماکوں کا جیسے نظام رائج ہو گیا ہے۔ روزانہ عراق میں بموں کے دھماکہ ہوتے ہیں روزانہ سینکڑوں عراقی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ تیسری طرف شام میں ایک خوفناک خونی خانہ جنگی جاری ہے جسے اب چھ سال ہو رہے ہیں۔ نصف ملین شامی اس خانہ جنگی میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ شام کھنڈرات بن گیا ہے۔ شام کی آبادی تہس نہس ہو گئی ہے۔ اس خانہ جنگی میں امریکہ  ہتھیار، سعودی عرب اور خلیج کی حکومتیں  ڈالر فراہم کر رہے تھے۔ انسانیت کے لئے اذیت ناک حالات پیدا کرنے کے سوا ان ملکوں نے کیا حاصل کیا ہے۔ ان ملکوں نے جس میں امریکہ بھی شامل ہے۔ مصر میں ایک فوجی ڈکٹیٹر کو قبول کیا ہے۔ جس نے اسلامی نظریاتی لوگوں کی حکومت ختم کی تھی۔ اور جیلیں ان لوگوں سے بھر دی ہیں۔ لیکن پھر یہ ملک شام میں ڈکٹیٹر کے خلاف ان ہی اسلامی نظریاتی لوگوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان ملکوں کی اخلاقی اور انسانی قدریں کیا ہیں؟ موقعہ پرستی صرف ان کی قدریں ہیں۔ شام کو تباہ کرنے میں سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں نے کھربوں ڈالر انویسٹ کیے ہیں۔ یہ کھربوں ڈالر وہ شام عراق یمن مصر کے لوگوں کے معاشی حالات بہتر بنانے میں انویسٹ کر سکتے تھے۔ ان ملکوں میں Silicon Valley تعمیر کر سکتے تھے۔
     نائب ولی عہد شہزادہ محمد سعودی عرب کے لئے اپنا Vision 2030 لے کر مشرقی ایشیا گیے تھے۔ چین میں شہزادہ محمد نے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی تھی۔ اور صدر شی سے باہمی اقتصادی امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ سعودی وفد اور اعلی چینی حکام کے درمیان ملاقات میں چینی کمپنیوں کے لئے سعودی مارکیٹ کھولنے پر سمجھوتہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ چین کی سب سے بڑی انفارمیشن اور ٹیلی کومینیکیشن کمپنی Huawei کو سعودی عرب میں ٹیلی کومینیکیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انویسٹ کرنے کے لئے لائیسنس دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ شہزادہ محمد نے چین کی پندرہ بڑی کمپنیوں اور اداروں کے اعلی حکام سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔ اور ان سے انویسٹ کے مناسب موقعوں، پارٹنر شپ  اور تعاون کے امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ شہزادہ محمد پھر جاپان پہنچے تھے۔ جہاں جاپان کے شہنشاہ Akihito نے ان کا خیر مقدم کیا تھا۔ یہاں دونوں ملکوں کے اعلی حکام میں ملاقاتوں کے بعد کئی معاہدے ہوۓ ہیں۔ جن میں دونوں ملکوں میں ثقافتی تبادلہ بہتر بنانے کا معاہدہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب میں چھوٹے اور درمیانی درجہ کے انٹرپرائز کو ترقی دینے اور معاشی تعاون کو فروغ دیا جاۓ گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بڑھانے کے معاہدے پر بھی دستخط ہوۓ ہیں۔
     نائب ولی عہد شہزادہ محمد نے Vision 2030 کے اعلان کے بعد امریکہ، فرانس، جرمنی، چین اور جاپان کے کامیاب دورے کیے ہیں۔ ان دوروں میں حوصلہ افزا یقین دہانیاں اور معاہدے ہوۓ ہیں۔ لیکن Vision 2030 کو کامیاب بنانے میں اہم خلا سعودی عرب کے خطہ میں عدم استحکام کی آگ لگی ہوئی ہے۔ جو پھیلتی جا رہی ہے۔ جب تک یہ آگ نہیں بجھے گی اور استحکام نہیں ہو گا۔ Vision 2030 باتوں اور ملاقاتوں کے لئے اچھا موضوع ہے۔ شہزادہ محمد نے وزیر دفاع بننے کے بعد یمن کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا۔ اس جنگ کو 18 ماہ ہو گیے ہیں۔ اور یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اور جب یہ جنگ ختم ہو گی سعودی عرب کے سامنے War reparations کا بل ہو گا جو کھربوں ڈالر میں ہو گا۔ یمن کے علاوہ شام کو تباہ کرنے میں نام نہاد باغیوں کی مدد کرنے کے نتیجے میں سعودی عرب پر War reparations واجب ہو گیا ہے۔ تاہم اس میں امریکہ اور خلیج کی ریاستیں بھی شامل ہوں گی۔ ان ملکوں نے صدام حسین سے War reparations ادا کرنے کا کہا تھا۔ حالانکہ کویت کو صدام حسین کی فوج نے اس پیمانے پر تباہ نہیں کیا تھا۔ یہ مسائل خود انہوں نے اپنے لئے پیدا کیے ہیں۔ اور ان مسائل سے جو نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں وہ بھی ان کا پیچھا کرتے رہیں گے۔ مکہ اور مدینہ میں بیٹھ کر مسلمانوں کو لڑانے اور ان میں انتشار پیدا کرنے کے لئے کام کرنا سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کبھی نہیں ہونا چاہیے تھی۔
     نائب ولی عہد شہزادہ محمد کو اپنا Vision 2030 پیش کرنے سے پہلے ایسٹ ایشیائی ملکوں کے اقتصادی ترقی کے Vision کا مطالعہ کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بعد انہیں یورپ کے ملکوں کی اقتصادی ترقی کے Vision کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے ملکوں نے کس طرح اپنی تعمیر نو کی تھی اور ایک انتہائی مختصر عرصہ میں یہ دنیا کی سیاست میں پھر عظیم طاقتیں بن کر آ گیے تھے۔ برطانیہ نے فرانس کو پیچھے چھوڑا تھا اور نہ ہی فرانس اور برطانیہ نے جرمنی کو تباہ حال رکھا تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے مشرقی یورپ کے ملکوں کو بھی مغربی یورپ سے پیچھے نہیں رکھا تھا۔ اور دوسری جنگ عظیم کی تباہی سے انہیں بھی نکلنے کا موقعہ دیا تھا۔ اس لئے سرد جنگ میں یورپ میں استحکام تھا اور امن رہا۔ ایک موقع پر مغربی یورپی ملکوں نے سوویت یونین کو اقتصادی طور پر گرنے سے بچایا تھا۔ 80 کی دہائی میں سوویت فوجیں افغانستان میں پھنس گئی تھیں۔ اور سوویت یونین افغان جنگ کے نتیجے میں اقتصادی طور پر تقریباً دیوالیہ ہو چکا تھا۔ سوویت ایمپائر 80 کی دہائی کے وسط میں گرنے کے قریب تھی۔ امریکہ کی انٹیلی جنس کو یہ خبر مل گئی تھی۔ لیکن ریگن انتظامیہ سوویت ایمپائر کے گرنے کی صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں تھی۔ لہذا مغربی جرمنی نے سوویت یونین کو 80 بلین ڈالر فوری طور پر فراہم کر کے اسے گرنے سے بچایا تھا۔ اپنے ہمسایہ کو عدم استحکام ہونے سے بچانے کے لئے اکثر اپنے نظریاتی دشمن کی بھی مدد کرنا پڑتی ہے۔ صدر پوتن نے روس میں اقتدار میں آنے کے بعد جرمنی کے 80 بلین ڈالر واپس کیے تھے۔
     لیکن سعودی عرب کا اپنے ہمسایہ میں اسلامی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ کیا بر تاؤ ہے؟ سعودی سوچ یہ ہے کہ اس کے ہمسایہ میں سواۓ چند حکمران ریاستوں کے باقی سب ملکوں کو اقتصادی اور سیاسی طور پر آ گے نہیں آ نے دیا جاۓ اور صرف سعودی عرب خطہ کی بڑی طاقت ہو گا۔ حالانکہ سعودی عرب کے جو ہمسایہ ہیں ان کی یہ سوچ نہیں ہے۔ وہ سعودی عرب کا احترام کرتے ہیں۔ اور وہ اس خطہ کے ہر ملک کی خوشحالی میں سب کی سلامتی اور بقا دیکھتے ہیں۔ سعودی حکومت کی پالیسیوں نے جس طرح اسلامی دنیا کو تقسیم کر دیا ہے اس سے مسلمانوں کو بڑی مایوسی ہوئی ہے۔ اس سے سعودی عرب کمزور ہوا ہے اور اسلامی دنیا بھی کمزور ہو گئی ہے۔  
Destruction of Yemen