Monday, August 31, 2020

President Bush Had Said, “Osama Bin Laden Hated America and He Wants to Destroy Our Economic Prosperity” Now China is Asking Why America Hates China? Why is America Destroying China’s Economic Prosperity?


 President Bush Had Said, “Osama Bin Laden Hated America and He Wants to Destroy Our Economic Prosperity” Now China is Asking Why America Hates China? Why is America Destroying China’s Economic Prosperity?
مجیب خان


Chasing prosperity, doing Business in China

 The U.S. sends Aircraft carrier to the South China Sea

Nimitz aircraft carrier the USS Carl Vinson in the South China Sea



  امریکہ- 20سال قبل 9/11 کے بعد یہ کہا جاتا تھا کہ ا سا مہ بن لادن امریکہ سے نفرت کرتا ہے۔ اور وہ ہماری ترقی اور اقتصادی خوشحالی کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ پریذیڈنٹ جارج بش نے یہ 9/11 حملہ کے بعد امریکی عوام سے کہا تھا۔ ا سا مہ بن لادن کے بارے میں یہ ایک عام تاثر تھا۔ اور اسے امریکہ کا دشمن کہا جاتا تھا۔ تاہم بن لادن امریکہ کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔ شاید کوئی بھی یہ تسلیم نہیں کرتا تھا۔ کیونکہ امریکہ ایک نیو کلیر پاور تھا۔ اور یہ دنیا کی ایک واحد سپر پاور بھی تھا۔ امریکہ کو ختم کرنے سے پہلے امریکہ ان کا وجود  ختم کر دیتا۔ یہ صرف باتوں کی حد تک باتیں تھیں۔ اور ان باتوں میں حقیقت کم تھی۔ لیکن 20سال بعد اب چین میں یہ پوچھا جا رہا ہے کہ امریکہ کو چین سے کیوں نفرت ہے؟ امریکہ چین کے عوام کی اقتصادی ترقی اور خوشحالی کیوں تباہ کرنا چاہتا ہے؟ امریکہ کے چین کے خلاف جو ایکشن ہیں۔ انہیں دیکھ کر چین میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے۔ اور اس میں کسی حد تک حقیقت بھی ہے۔ اور دنیا کو بھی یہ یقین ہے کہ امریکہ چین کی اقتصادی ترقی اور خوشحالی کو نقصان پہنچانے میں خاصا سنجیدہ نظر آتا ہے۔ چین کی کمپنیوں، کمپنیوں کے اعلی حکام، چین کی Hi-Tech صنعت کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کرنا اور انہیں بندشوں سے ٹارگٹ کرنا، چین سے نفرت اور اس کی ترقی کو تباہ کرنے کے واضح ثبوت ہیں۔ 9/11 کے بعد مسلمانوں بالخصوص عرب مسلمانوں کو ہراس اور انہیں دہشت گردوں سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا جاتا تھا۔ آج امریکہ میں چینی اسٹوڈنٹ اور امریکی نژاد چینیوں کو ہراس اور گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اور ان پر چین کی کمیونسٹ پارٹی کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام لگاۓ جا رہے ہیں۔ ان میں بعض کو Sensitive software چین ٹرانسفر کرنے کے الزام میں گرفتار بھی کیا ہے۔ ان میں نیو کلیر سائنس ماہرین، ریسرچ لیبارٹریوں اور دوسرے حساس اداروں سے وا باسطہ چینی شامل تھے۔’When America going Low, China going high’  ہزاروں امریکی چین میں 2سو سے زیادہ امریکی کمپنیوں میں کام کرتے ہیں۔ لیکن چین نے ان میں سے کسی کو امریکہ کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام نہیں دیا ہے۔ انہیں ہراس نہیں کیا جا رہا ہے۔ اور یہ چین کے Great ہونے کے ثبوت ہیں۔ جس طرح امریکہ نے چینی سفارت کاروں کو امریکہ سے نکالا ہے۔ چین نے اسی سلوک سے امریکی سفارت کاروں کو چین سے نہیں نکالا تھا۔ بلکہ انہیں چین سے نکالنے میں بھی Civilize ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ امریکہ کی چین خلاف جنگی کشیدگی سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کس قدر ‘War addicted’ ہے۔ اور یہ Addiction بہت بری عادت ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جنگوں میں ناکامیاں ہونے کے باوجود امریکہ ‘War addicted’ ہے۔ ملٹری مشقوں کی آ ڑ میں South China Sea میں جنگی شر انگیز یاں  کی جا رہی ہے۔ امریکہ کی ملٹری سرگرمیاں چین کو گھیرے میں لینے کی کوششیں ہیں۔ دنیا اس وقت Coronavirus سے نجات حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ میں روزانہ Coronavirus سے Wholesale deaths کی خبریں سنائی جاتی ہیں۔ تقریباً 8ماہ ہو رہے ہیں لیکن معاشی سرگرمیاں ابھی تک پوری طرح بحال نہیں ہوئی ہیں۔ لیکن امریکہ کی ملٹری سرگرمیاں معمول کے مطابق جا رہی ہیں۔
  کمیونزم جنگ ختم ہو گئی ہے اور 30سال ہو گیے ہیں۔ کمیونزم جنگ ختم ہونے کے بعد ایک امریکی نسل بھی 30 سال کی ہو گئی ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo 60s میں پیدا ہوۓ تھے اور ابھی تک 60s میں ہیں بلکہ 50s میں چلے گیے ہیں اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کے خلاف جنگ کا نیا محاذ کھول دیا ہے۔ حالانکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی 50s اور 60s سوچ سے آزاد ہو گئی ہے۔ Reform کا مطلب سوچ میں بھی Reform ہوتا ہے۔ اور صرف  اسی وجہ سے چین میں معاشرتی اور اقتصادی Reform زبردست کامیاب ہیں۔ 1.3Billion کی آبادی کا ملک 40سال میں اس مقام پر آگیا ہے جہاں امریکہ کو پہنچنے میں 200سال لگے تھے۔ ریپبلیکن اور ڈیموکریٹک دونوں پارٹیاں ابھی تک 50s اور 60s کی دنیا میں ہیں۔ اور دونوں پارٹیاں 21ویں صدی کی دنیا میں Cold War اور so called] Regime change wars [ فروغ دے رہی ہیں۔
  پریذیڈنٹ Richard Nixon نے کمیونسٹ چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کو خصوصی اہمیت دی تھی۔ حالانکہ پریذیڈنٹ Nixon کمیونزم کے سخت خلاف تھے۔ لیکن چین سے تاریخی تعلقات کا آغاز پریذیڈنٹ Nixon کی Water Gate Scandal پر ایک Shining Legacy  تھی۔ پریذیڈنٹ Ronald Reagan بھی کمیونزم کے سخت خلاف تھے۔ لیکن انہوں نے پریذیڈنٹ Nixon کی چین پالیسی کو جاری رکھا تھا۔ اور فارن بزنس اور انویسٹمنٹ کے لیے چین کو کھولنے اور اقتصادی اصلاحات کرنے پر زور دیا تھا۔ امریکہ کے 8Presidents نے صرف ایک چین پالیسی جاری رکھی تھی جو پریذیڈنٹ Nixon نے دی تھی۔ امریکہ کے 8Presidents کو کیا یہ معلوم نہیں تھا کہ چین کمیونسٹ ملک تھا؟ اب ایسا نظر آتا ہے کہ امریکہ کے 9ویں پریذیڈنٹ ٹرمپ کو سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے یہ Brainwash briefing دی ہے کہ چین میں کمیونسٹ پارٹی حکومت کرتی ہے۔ جیسے یہ امریکہ کے سابق 8Presidents کو معلوم نہیں تھا۔ اور Mike Pompeo چین کی کمیونسٹ پارٹی کے خلاف اب مہم چلانے میدان میں آ گیے ہیں۔
  Corporate America چین کو اس طرح نہیں دیکھتا ہے کہ جس طرح Military Industrial Complex Pro- لیڈر ز دیکھتے ہیں۔ Corporate America کی کمپنیاں مغربی سرمایہ دارا نہ ملکوں میں اتنی دولت نہیں بناتی تھیں کہ جتنی دولت یہ چین میں بنا ر ہی ہیں۔ اور بہت کامیاب Profitable Business کر رہی ہیں۔ چین نے اپنا کمیونسٹ نظام انہیں نہیں دیا ہے۔ امریکی کمپنیوں نے گزشتہ 30سالوں میں چین میں کتنی دولت بنائی ہے۔ اس کی تفصیل امریکی عوام کے سامنے لائی جاۓ۔ اور امریکی ایکسپورٹر ز نے چین سے کتنا منافع  بنایا ہے وہ بھی سامنے لایا جاۓ۔ تمام بڑے Chain Stores نے Made in China سے کتنا منافع بنایا ہے وہ بھی بتایا جاۓ صرف اس صورت میں ٹرمپ انتظامیہ کے چین پر الزامات درست یا غلط ثابت ہو سکتے ہیں۔ ویت نام بھی ایک کمیونسٹ ملک ہے۔ لیکن امریکہ نے ویت نام سے Free Trade معاہدہ کیا ہے۔ امریکہ کے لاؤس اور کمپو چیا سے بھی تجارتی تعلقات ہیں۔ اور یہ بھی کمیونسٹ ملک ہیں۔ Military Industrial Complex نے Middle East کی دولت اچھی طرح Suck کر لی ہے۔ Middle East کھنڈرات بن گیا ہے۔ اور اب دولت East Asia میں نظر آ رہی ہے۔ امریکہ کے بحری بیڑے جنگوں سے لدے اب East Asia کا رخ کر رہے ہیں۔     

Tuesday, August 25, 2020

Are Arab Rulers Hiring Israel As A Security Insurance Policy and Firing America From Its Worst Job in The Middle East?


  Are Arab Rulers Hiring Israel As A Security Insurance Policy and Firing America From Its Worst Job in The Middle East?

Will Israel make Dubai, Hong Kong and UAE make Israel Singapore?

مجیب خان
Prime Minister Benjamin Netanyahu and UAE Crown Prince Mohammed Bin Zayed

Gulf Cooperation Council, Bahrain, Kuwait, Oman, Qatar, Saudi Arabia, and the United Arab Emirates



  اسرائیل اور متحدہ عرب امارت انتہائی مشکل حالات میں ہیں۔ اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی اقتصادی مشکلات کا حل سفارتی تعلقات بحال کرنے میں دیکھا ہے۔ متحدہ عرب امارت GCC کا رکن ہے۔ یمن کے ساتھ جنگ میں یہ GCC ملکوں کے اتحاد میں شامل ہے۔ لیکن اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے میں متحدہ عرب امارت نے جیسے GCC ملکوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ اور GCC ملکوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے ایک مشترکہ فیصلہ کے بغیر متحدہ عرب امارت نے  اپنا  فیصلہ کیا ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن زید نے عرب لیگ کی اس قرارداد کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے جس پر انہوں نے 2002 میں دستخط کیے تھے۔ اور جس میں عرب سربراہوں نے یہ کہا تھا کہ ' عرب اور تمام اسلامی ممالک ایک ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اسرائیل کو پہلے 1967 کی سرحدوں پر واپس جانا ہو گا۔ عرب لیگ سربراہ کانفرنس کا یہ اعلامیہ سعودی عرب کے مرحوم شاہ عبداللہ نے عالمی پریس کے سامنے بیان کیا تھا۔ لیکن عرب سربراہوں کا المیہ یہ ہے کہ جن کپڑوں میں وہ یہ فیصلے کانفرنسوں میں کرتے ہیں۔ وہ کپڑے کانفرنس ہال میں اتار کر اپنے محلوں میں واپس آ جاتے ہیں۔ متحدہ عرب امارت کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید نے اپنے عرب لیگ کے کپڑے اتار دئیے ہیں اور ‏Made in Benjamin Netanyahu کے کپڑے پہن لیے ہیں۔ غیر عرب اسلامی حکومتوں کو ایسے عرب سربراہوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ جن کے فیصلوں پر بھرو سہ ان کے لیے تباہی بن سکتا ہے۔ ان کے صرف اس Behavior کی وجہ سے اسرائیل 50برس سے ان کے علاقوں پر قابض ہے۔ اور اب بادشاہوں، ولی عہد اور شہزادوں کی گردنیں پکڑ کر ان سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ اس سے بڑی ذلت انہوں نے دنیا ۓ اسلام کو نہیں دی ہو گی۔
  مصر نے 1979 میں اور ار دن نے 1994 میں اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ اس وقت ان کے فیصلوں کو تاریخی فیصلے کہا گیا تھا۔ لیکن یہ اسرائیل کے لیے تاریخی فیصلے ثابت ہوۓ تھے۔ اور عربوں کے لیے یہ تاریکی کے فیصلے ثابت ہوۓ تھے۔ اسرائیل نے عربوں کے علاقوں پر قبضہ Permanent کر کے اسرائیلی عوام کو ایک نئی تاریخ دی تھی۔ لیکن مصر اور ار دن کے عوام کو اسرائیل تسلیم کرنے سے کیا ملا تھا؟ 40 اور 26 سال میں ان کی زندگیوں میں امن کی کون سی بہاریں آ گئی تھیں؟ وہ 1979 اور 1994 میں جہاں تھے آج بھی وہ وہیں ہیں بلکہ آج زیادہ بدتر حالات میں ہیں۔ اسرائیل نے مصری عوام کو اپنی جمہوریت نہیں دی تھی بلکہ ان کی جدو جہد سے جو جمہوریت مصر میں آئی تھی۔ اسرائیل نے اس کے خلاف سازش کر کے سبوتاژ کر دیا تھا۔ مصر کے عوام آزادی اظہار سے ابھی تک محروم ہیں۔ Media پر تالے پڑے ہیں۔ عوام ابھی تک غربت میں ہیں۔ فوجی ڈکٹیٹر ان پر مسلط ہے۔ امریکہ نے مصر سے امن معاہدے کے صرف اس حصہ پر عملدرامد کرایا تھا جو اسرائیل کی سلامتی کے مفاد میں تھا۔ اور معاہدے کا بقیہ حصہ Archive میں جمع کر دیا تھا۔
  مصر اور ار دن کے ساتھ امن معاہدوں کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کا Behavior  بدل گیا تھا۔ اور یہ Apartheid ہو گیا تھا۔ جو فلسطینی اسرائیل میں رہتے ہیں اور اسرائیل کے شہری ہیں۔ ان کے ساتھ بھی اسرائیل کا رویہ Apartheid تھا۔ اسرائیل کے گزشتہ انتخاب میں اسرائیلی فلسطینیوں نے پارلیمنٹ میں 15نشستیں حاصل کی تھیں۔ لیکن وزیر اعظم نتن یا ہو نے ان کا Knesset میں خیر مقدم کرنے کے بجاۓ یہ کہا کہ ان فلسطینیوں کے ہاتھوں پر اسرائیلیوں کا خون ہے۔ اور ان کے ساتھ حکومت بنانا قبول نہیں ہے۔ Blue and white پارٹی کے Benny Gantz کو حکومت بنانے کے لیے کچھ نشستوں کی ضرورت تھی اور وہ فلسطینیوں کی 15 نشستیں شامل کر کے حکومت بنا سکتے تھے۔ لیکن نتن یا ہو کو یہ قبول نہیں تھا۔ لیکن متحدہ عرب امارت کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید اس اسرائیلی حکومت سے سمجھوتہ کر رہے ہیں جو عربوں کے خون میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس حکومت نے اپنے وزیر اعظم کا قتل کرایا تھا۔ جس نے فلسطینیوں سے امن سمجھوتہ کیا تھا۔ فلسطینیوں کے حقوق اور آزادی دینے کی بات کی تھی۔ وزیر اعظم نتن یا ہو کی پارٹی نے اس سمجھوتہ کو ختم کر کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں امریکہ اور یورپ سے آنے والے نئے یہودیوں کی بستیاں تعمیر کر دی ہیں۔ اور فلسطینیوں پر اب  یہ دباؤ ڈالا جا رہا کہ انہیں جو دیا جا رہا ہے۔ اس پر سمجھوتہ کر لیں۔ عرب حکمران ایک ایک کر کے فلسطینیوں کا ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں۔ اور اسرائیل کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ غیر عرب اسلامی ملک فلسطینیوں کے پیچھے کھڑے ہیں۔ اور جب تک فلسطینیوں کے ساتھ انصاف نہیں ہو گا۔ وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے Period۔
  متحدہ عرب امارت اس وقت انتہائی مشکل اقتصادی حالات میں ہے۔ دوسری طرف اسرائیل بھی اقتصادی بحران میں ہے۔ Coronavirus نے سب کی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ اسرائیل کی معیشت کو پہلے ہی BDS تحریک کا سامنا تھا۔ جبکہCoronavirus  اور Lockdown کی وجہ سے ہزاروں غیر ملکی اپنے کاروبار ختم کر کے اور اپنی املاک فروخت کر کے متحدہ عرب امارت سے واپس اپنے ملکوں میں جا رہے تھے۔ ان میں بڑی تعداد برطانیہ، آسٹریلیا، اور دوسرے یورپی اور ایشیائی کی تھی۔ شاپنگ مال بند ہو گئی تھیں۔ ہوٹلوں میں تالے لگ گیے تھے۔ بلند ترین عمارتیں خالی ہوتی جا رہی تھیں۔ سیاحت انڈسٹری کا نقصان لاکھوں ڈالروں میں تھا۔ امارت ائیر لائن کی تمام عالمی پروازیں بند ہو گئی تھیں۔ ائیر لائن کا خسارہ بڑھتا جا رہا تھا۔ تیل کی قیمتیں بری طرح گر گئی تھیں۔ خلیج کے دوسرے ملک بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کر رہے تھے۔ یہ دولت مند ملک پہلی مرتبہ اتنی خطرناک صورت حال کا سامنا کر رہے تھے۔
 وزیر اعظم نتن یا ہو نے کہا تھا کہ 'ہم ایران کی معیشت کا گلہ گھونٹ دیں گے۔' لیکن Coronavirus اسرائیل کی معاشی شہ ر گ پر پہنچ گیا تھا۔ اسرائیل کے Behalf پر ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر واقعی گلہ گھونٹنے والی بندشیں لگائی تھیں۔ لیکن Coronavirus سے اسرائیل کی معیشت  بند ہونے سے اپریل سے جون کی سہ ماہی میں معیشت 28.7% گری ہے۔ اسرائیلی معیشت کا اتنا بڑا نقصان عربوں سے جنگ سے نہیں ہوا ہو گا۔ Lockdown سے اسرائیل کی تجارت اور پیداوار کا زبردست نقصان ہوا ہے۔ اسرائیل کی GDP 7.8% گر گئی ہے۔ جبکہ اسرائیل کی برآمدات 29.2% گر گئی ہیں۔ اسرائیلی معیشت کمزور ہونے سے ایک طرف مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی فوجی کاروائیوں کا زور ٹوٹا ہے۔ اور دوسری طرف خلیج کی ریاستوں اور عرب ملکوں سے اسرائیل تعلقات قائم کرنے پر زور دے رہا ہے۔ اسرائیل کی پالیسیوں میں سیاسی تبدیلیوں کا براہ راست اسرائیلی معیشت سے گہرا تعلق ہے۔ اسرائیل مڈل ایسٹ میں بے شمار اقتصادی، تجارتی اور سیاسی موقع دیکھ رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف عربوں کے سامنے بھی اسرائیل سے اپنے تمام تنازعہ حل کرانے کے سنہری موقع ہیں۔ عرب حکمران محاذ جنگ میں ہار گیے تھے۔ اور اب سیاست اور سفارت کے محاذ پر کمزور اور خوفزدہ نظر آ رہے۔ جسے وزیر اعظم نتن یا ہو ایک سنہری موقع دیکھ رہے ہیں۔
  امریکہ اور اسرائیل کی مڈل ایسٹ حکمت عملی خاصی کامیاب ہو رہی ہے۔ انہوں نے پہلے مڈل ایسٹ کو شیعہ سنی لڑائی میں تقسیم کر دیا تھا۔ سنی بلاک کا لیڈر سعودی عرب کو بنایا تھا۔ اور ایران کو شیعہ بلاک کا لیڈر ہونے کا پراپگنڈہ شروع کر دیا تھا۔ حالانکہ خلیج کی ہر ریاست میں بہت بڑی تعداد میں شیعہ آبادی ہے۔ جو عرب ہیں۔ متحدہ عرب امارت میں بڑی تعداد میں ایرانی ہیں۔ جو انقلاب ایران کے بعد سے یہاں رہتے ہیں۔ اور ان کے یہاں کاروبار ہیں۔ اسلامی دنیا امریکہ اور اسرائیل کی اس گھٹیا سوچ کو 21صدی  میں Nonsense سمجھتی ہے۔ پھر ترکی کے خلاف یہ پھیلایا گیا کہ ترکوں نے سلطنت عثمانیہ میں عربوں کا قتل عام کیا تھا۔ جرمنی میں نازی جر منوں کے دور میں یہودیوں کا Holocaust ہوا تھا۔ اس لیے یورپ میں جرمنی کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔ 21ویں صدی کو 18ویں صدی کے واقعات سے نئی صدی نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ عرب حکمران آخر اپنی عقل کب استعمال کریں گے۔ عرب حکم رانوں کے بہت سے مسائل صرف اپنی عقل استعمال کرنے سے حل ہو سکتے تھے۔
  اسرائیل نے ار دن سے صرف Government to Government Relations ر کھے ہیں۔ اور People to People Relations ابھی بحال نہیں کیے ہیں کیونکہ ار دن میں بہت بڑی تعداد فلسطینیوں کی ہے۔ اور اسرائیل یہ نہیں چاہتا ہے کہ ان Jordanian Palestinians کا اسرائیل میں ٹریفک بڑھ جاۓ گا۔ خلیج میں بھی اسرائیل کو اس صورت حال کا سامنا ہو گا۔ یہاں بھی بڑی تعداد میں فلسطینی مہاجر نصف صدی سے ہیں۔ جن کے یہاں کاروبار ہیں۔ اور جب اسرائیل سے تعلقات بحال ہوں گے۔ تو یہ اسرائیلی مقبوضہ فلسطین سے تجارت فروغ دیں گے۔ اسرائیلی جب اپنی کمپنیوں کے ساتھ یہاں رہنے آئیں گے تو فلسطینی بھی اپنا کاروبار لے کر اسرائیل میں رہنے جائیں گے۔ اسی طرح اسلامی انقلاب کے بعد جو ایرانی یہودی اسرائیل چلے گیے تھے۔ اور اسرائیل میں ان کے کاروبار ہیں۔ وہ بھی اپنے کاروبار کے ساتھ خلیج میں آ کر آباد ہو سکتے ہیں۔ وہ اپنے آبائی ایران سے قریب ہوں گے۔ اور ایران کے ساتھ تجارت بھی فروغ دیں گے۔ بلکہ ایران کے راستے وسط ایشیا تک اپنی تجارت پھیلا سکتے ہیں۔ خلیجی ریاستوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات مصر اور ار دن کے ساتھ تعلقات سے بہت مختلف ہوں گے۔ یہ One way نہیں ہوں گے۔ بلکہ Two Way ہوں گے۔  لیکن سوال پہلے مڈل ایسٹ کے سیاسی تنازعہ حل کیے جائیں۔ صرف اسی صورت میں معاشی اور اقتصادی تعلقات فروغ دئیے جا سکتے ہیں۔                          

Thursday, August 20, 2020

Election 2020: Obama’s Republicans and Bush’s Democrats are United Behind Joe Biden, Last Hopes to Save the System, Failed Wars and $26Trillion in Debt Now Forced to Change the System


   Election 2020: Obama’s Republicans and Bush’s Democrats are United Behind Joe Biden, Last Hopes to Save the System, Failed Wars and $26Trillion in Debt Now Forced to Change the System

Coronavirus is a temporary issue, while gun violence is a permanent issue, how many people have been killed during the Bush-Obama administrations, why don’t they solve this chronic problem.
President Trump makes a mistake transforming America’s ‘war-based economy’ with a trade war with China.

مجیب خان

Former President Bill Clinton addressing the Democratic Party convention, 2020  

Former President Barack Obama makes a case for Joe Biden to elect President in addressing the Democratic Party Convention, 2020  

    2008 میں ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوارJohn McCain نے 44سالہ Sarah Palin کو نائب صدر کے لیے نامزد کیا تھا۔ John McCain تقریباً 72 برس کے تھے۔ اس وقت یہ کہا جا رہا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہو جاتے ہیں اور انہیں کچھ ہو جاتا ہے تو پھر Sarah Palin پریذیڈنٹ ہوں گی۔ John McCain صدارتی انتخاب ہار گیے تھے۔ اور کچھ عرصہ بعد وہ شدید علیل ہو گیے تھے۔ اور اب 12سال بعد ڈیموکریٹک  پارٹی کے 77 سالہ صدارتی امیدوار Joe Biden نے سینیٹر Kamala Harris کو نائب صدر کے لیے نامزد کیا ہے۔ سینیٹر Kamala Harris 55برس کی ہیں۔ اور Joe Biden اگر صدر منتخب ہو جاتے ہیں تو آئندہ جنوری میں وہ 78 کی عمر میں امریکہ کے 46پریذیڈنٹ کا حلف لیں گے۔ سابق صدر کارٹر نے کہا ہے کہ Joe Biden کو اس عمر میں صدارتی امیدوار نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن سابق ری پبلیکن نائب صدر Dick Cheney کا کہنا تھا کہ ڈیموکریٹک پارٹی میں صرف Joe Biden پریذیڈنٹ Trump کو شکست دے سکتے ہیں۔ یہ سیاسی المیہ تھا کہ امریکہ کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی میں کوئی بھی پریذیڈنٹ ٹرمپ کو انتخابات میں ہرا نہیں سکتا تھا۔ اور صرف Joe Biden ہیں جو پریذیڈنٹ Trump کو ہرا سکتے ہیں۔ لیکن پھر ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کے بعد نائب صدر کے عہدہ کے لیے امیدوار تلاش کرنے میں Joe Biden کو تین ماہ لگے تھے۔ اور اس عہدہ پر وہ صرف Woman چاہتے تھے۔ اور ان کی پہلی ترجیح Black Woman تھی۔ لیکن یہ نظر آ رہا تھا کہ کوئی موجودہ حالات میں آگے آنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ صدارتی انتخاب میں 80دن رہے گیے تھے۔ اور نائب صدر کے لیے تلاش جاری تھی۔ بلا آخر سینیٹر Kamala Harris نے نائب صدر کے عہدہ کے لیے امید وار بننے کے لیے تیار ہو گئی تھیں۔ کیلیفورنیا سے سینیٹر منتخب ہوئی تھیں۔ اس سے قبل کیلیفورنیا کی اٹرنی جنرل تھیں۔ اور اگر Joe Biden پریذیڈنٹ منتخب ہو گیے تو Kamala Harris کے 4سال میں کسی وقت پریذیڈنٹ بننے کے قوی امکان ہیں۔ Kamala Harris کی ماں بھارتی نژاد امریکی ہیں۔ ان کے والد Jamaican ہیں۔ ان کے شوہر Jewish ہیں۔ بھارت میں ان کے رشتے دار بہت خوش تھے کہ Kamala کو نائب صدر کے لیے نامزد کیا ہے۔ لیکن وزیر اعظم مودی نے گزشتہ سال پریذیڈنٹ ٹرمپ کے ساتھ دو بڑی ریلی ایک امریکہ اور دوسری گجرات میں 50ہزار بھارتیوں کے اجتماع سے پریذیڈنٹ ٹرمپ کو ‘For more year’ دینے کے نعرے لگاۓ تھے۔ اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر اعظم کی حیثیت سے نرند ر مودی نے پریذیڈنٹ ٹرمپ کو ‘For more year’ کے لیے Endorse کیا تھا۔
  امریکہ کی تاریخ میں Hillary Clinton پہلی Woman صدارتی امیدوار تھیں۔ جو ڈیموکریٹ تھیں۔ اور 2016 میں ان کے پریذیڈنٹ بننے میں کسی کو شبہ نہیں تھا۔ وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے بہت قریب پہنچ گئی تھیں۔ ایک نئی تاریخ بننے کا پہیہ جیسے پراسرار ہاتھوں نے پیچھے موڑ دیا تھا۔ ان کے خیال میں امریکہ Woman President لیے ابھی تیار نہیں تھا۔ ہلری کلنٹن کے بارے میں ووٹر ز میں یہ تاثر پیدا کر دیا تھا کہ اگر وہ پریذیڈنٹ بن گئی تو وہ پریذیڈنٹ ا وبا مہ کی پالیسیاں جاری رکھیں گی۔ ہلری کلنٹن کی الیکشن ٹیم کو اس تاثر کا فوری Counter کرنا چاہیے تھا۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ ہلری کلنٹن پریذیڈنٹ ا و با مہ کی پالیسیاں جاری رکھتی۔ وہ اپنے Husband کی پالیسیاں بھی واپس لا سکتی تھیں۔ پریذیڈنٹ بل کلنٹن کی پالیسیوں نے امریکہ کو اقتصادی خوشحالی دی تھی۔ حالانکہ کے اس وقت Globalization کا آغاز ہو رہا تھا۔ اور پریذیڈنٹ بل کلنٹن ان تبدیلیوں میں امریکہ کی معیشت کو Adjust کرتے رہے۔ امریکہ سے جو Jobs چلے گیے تھے۔ ان کی جگہ Jobs کے نئے موقع پیدا کیے تھے۔ امریکہ کی معیشت کو ‘war based economy’ بننے سے دور رکھا تھا۔ بش41]]  نے پہلی عراق جنگ کو امریکہ کی ‘war based economy’ بنانے میں استعمال کیا تھا۔ پھر Bush-Cheney انتظامیہ میں جنگوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ افغانستان میں جنگ کو قومی سلامتی امور کی ٹیم نے طالبان کا مکمل خاتمہ ہونے تک جاری رکھنے کی بات کی تھی۔ اور جب بھی افغان جنگ ختم کرنے کی بات کی جاتی تھی۔ دونوں پارٹیوں کی طرف سے کانگریس میں اس کی مخالفت ہوتی  تھی۔ 19سال سے جاری افغان جنگ کو بڑے فخر سے دنیا کو بتایا جاتا تھا کہ امریکہ کی تاریخ کی سب سے طویل جنگ ہے۔ حالانکہ افغانستان پہلے ہی 30 سال سے جنگ میں تباہ ہو چکا تھا۔ اور انتہائی غریب ملک تھا۔ اس جنگ کو 19 دن میں ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم نہیں کی جا رہی تھی اسے پھیلایا جا رہا تھا۔ نائب صدر Dick Cheney نے کہا تھا کہ یہ جنگ 50سال تک جاری رہے گی۔ یعنی یہ Cold War کا Substitute تھی۔ 13 سال عراق جنگ، 8سال لیبیا جنگ، 8سال شام جنگ، 7سال یمن جنگ، اور یہ جنگیں امریکہ کی ‘war based economy’  فروغ دے رہی تھی۔ مڈل ایسٹ  میں سب سے زیادہ ہتھیار فروخت کیے جا رہے تھے۔ جہاں اسلامی انتہا پسندی کی گہری جڑیں تھیں۔ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان اور جرمنی پر ہتھیاروں کی پابندی لگا دی تھی۔ لیکن امریکہ پر 9/11 کو 19 عربوں نے حملہ کیا تھا۔ اور اس حملے کے بعد سے امریکہ نے عربوں کو دھڑا دھڑ ہتھیار فروخت کرنا شروع کر دئیے تھے۔ امریکہ کی معیشت Boom کر رہی تھی۔ دونوں پارٹیاں ہر4سال بعد جب الیکشن کا موسم آتا ہے۔ عوام کی بات کرتی ہیں۔ الیکشن کا موسم گزر جاتا ہے۔ پھر National Security Establishment کا انتظامیہ پر کنٹرول ہوتا ہے۔
  دونوں پارٹیوں کے 16 سال اقتدار میں پالیسیوں سے لوگ بہت Fed up ہو گیے تھے۔ اور وہ ایک Outsider کو اقتدار میں لاۓ تھے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ Outsider ہیں۔ ری پبلیکن Insider ہیں۔ لیکن عوام پریذیڈنٹ ٹرمپ کے پیچھے کھڑے ہیں۔ اور پریذیڈنٹ ٹرمپ انتہائی مشکل حالات میں امریکہ کی کرپٹ سیاست Shake up کر رہے ہیں۔ عالمی امور کو Shake up کیا ہے۔ اور جب System Shake up ہوتا ہے۔ تو بلاشبہ System جن کے مفاد میں ہوتا ہے۔ انہیں سب سے زیادہ تکلیف پہنچتی ہے۔ اور System کو بچانے کے لیے وہ متحد ہونے لگتے ہیں۔ اور ہم اب کیا دیکھ  رہے ہیں، پریذیڈنٹ ا و با مہ کے ری یپبلیکن اور پریذیڈنٹ بش کے ڈیموکریٹ  اب Joe Biden کے پیچھے متحد ہو گیے ہیں۔ دونوں سابق انتظامیہ میں National Security Establishment کے لوگ Biden administration میں شامل ہونے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔
 Coronavirus ایک Temporary issue ہے۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ نے اسے Handle کرنے میں دیر کی تھی۔ تو ریاستوں کی انتظامیہ نے بھی Blunders کیے ہیں۔ ریاستوں کی انتظامیہ Virus  کا ریاست میں داخل ہونے کا انتظار کرتی رہی۔ انہیں Virus ریاست میں پہنچنے سے بہت پہلے اپنے تمام بڑے شہروں کا مکمل Lockdown کرنا چاہیے تھا۔ دور دراز میں 10ہزار، 5 ہزار اور 3ہزکی آبادی کے شہروں میں معاشی سرگرمیاں جاری رہتی۔ ہر ریاست کی انتظامیہ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی ریاست میں Businesses کے بھاری نقصانات ہونے کو محدود رکھتے۔ اور جلد از جلد معاشی سرگرمیاں بحال کرنے کو اہمیت دیتے۔ 50 ریاستوں میں Coronavirus پھیلنے کا  ذمہ دار صرف POTUS کو ٹھہرانا Fair نہیں ہے۔