Thursday, August 31, 2017

Another Doomed To Fail New Afghan Policy

Another Doomed To Fail New Afghan Policy

The Solution of Afghanistans' Problems Are Not Inside Pakistan; Focus Should Be on Afghanistan’s Internal Problems That Are Chronic Corruption In The Government And Contagious Ethnic Rivalry. Powerful Warlords Underground The Billion-Dollar Drug Economy

مجیب خان

Poppy Farm in Afghanistan

Warlord Rashid Dostum

A man counting money at Kabul market in Afghanistan

Record Opium harvest    
      صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی بھی سابقہ دو انتظامیہ کی گھسی پٹی افغان پالیسی سے مختلف نہیں ہے۔ اس پالیسی پر صدر ٹرمپ کے signature صرف نئے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی دیکھنے کے بعد یہ نظر آ تا ہے کہ صدر ٹرمپ کے چار سال افغان جنگ میں اسی طرح گزر جائیں گے کہ جیسے صدر اوبامہ اور ان سے پہلے صدر بش کے آٹھ سال گزرے تھے۔ اور یہ افغان جنگ اب صدر ٹرمپ کی جنگ بن گئی ہے۔ ہر امریکی صدر کی نئی افغان پالیسی میں مستقبل کے صدر کے لئے ایک نئی افغان پالیسی بنانے کا موقعہ دیا جاتا ہے اور امریکہ کے 46 ویں اور شاید 47 ویں صدر کی بھی افغان جنگ پر نئی افغان پالیسی ہو گی۔ بش انتظامیہ میں اس جنگ کے architect نے حکمت عملی اس طرح ڈیزائن کی ہے کہ ایشیا کے وسط میں اس جنگ کو ختم کرنے میں کم از کم نصف صدی گزر جاۓ۔ اور اس خطہ کے تمام اہم ملکوں کے عصاب پر افغان جنگ کو رکھا جاۓ۔ ذرا غور کرنے کی بات ہے کہ امریکہ جیسی فوجی طاقت plus نیٹو کے 26 ملک 17 سال سے صرف طالبان کو شکست دینے کی جنگ میں خود شکست کا سامنا کر رہے ہیں۔ جنگ کے علاوہ افغانستان کے مسئلہ کا جیسے اور کوئی حل نہیں ہے۔ اور یہ صدر بش کی signature افغان پالیسی تھی کہ طالبان کو شکست دینے تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ لیکن یہ نہیں بتایا جاتا تھا کہ طالبان کو کب اور کیسے شکست دی جاۓ گی۔ بش انتظامیہ کے جواب یہ ہوتا تھا کہ طالبان سے کوئی بات نہیں ہو گی۔ اور جنگ جاری رہے گی۔ لہذا یہ جنگ صدر اوبامہ کی انتظامیہ میں بھی جاری رہی اور اب صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں بھی افغان جنگ جاری رکھنے کا پلان ہے۔ صدر بش افغان جنگ چھوڑ کر عراق میں ایک نئی جنگ شروع کرنے چلے گیے تھے۔ کیونکہ صدر بش کو یہ بتایا گیا تھا کہ صدا م حسین طالبان سے زیادہ بڑا خطرہ تھے۔ افغان سیکورٹی فورسز ز کی تربیت مکمل ہونے کے بعد صدر اوبامہ افغانستان ان کے حوالے کر کے لیبیا پھر یمن اور شام میں حکومتیں تبدیل کرنے کی جنگوں میں حصہ لینے چلے گیے تھے۔ تاہم صدر اوبامہ نے افغانستان میں طالبان کے خلاف ڈرون حملے جاری رکھے تھے۔ لیکن ڈرون حملوں میں اتنے طالبان نہیں مرتے تھے کہ جتنے بے گناہ شہری ہلاک ہوتے تھے۔ اور جب بھی افغان شہری امریکی حملوں میں مرتے تھے۔ طالبان gain کرتے تھے۔ اور امریکہ loose کرتا تھا۔ ڈرون حملے دراصل طالبان کو strength دیتے تھے۔ انہیں کمزور نہیں کر رہے تھے۔ لیکن امریکہ میں جنہوں نے یہ افغان پالیسی بنائی تھی انہیں جب طالبان مضبوط ہوتے نظر آنے لگتے تھے۔ تو وہ یہ کہنے لگتے تھے کہ طالبان کی safe heavens پاکستان میں ہیں۔
     صدر ٹرمپ نے افغانستان کے دروں میں طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف mother of all bomb استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔ افغانستان میں امریکی کمانڈر جان نکل سن نے اسے استعمال کیا تھا۔ Mother of all bomb سے صرف 90 طالبان مرے تھے۔ لیکن پھر 72 گھنٹوں کے اندر طالبان نے فوجی بیر ک پر حملہ کر کے 150 افغان فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ جنہیں امریکہ نے کئی سال تک تربیت دی تھی۔ اور ان کو تربیت دینے پر ہزاروں ڈالر خرچ کیے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ افغان فوجی کسی کے شوہر تھے۔ بچوں کے باپ تھے۔ کسی ماں باپ کے بیٹے تھے۔ کسی کے بھائی تھے۔ اور اپنے خاندان کی پروش کا واحد ذریعہ بھی تھے۔ ایک غلط فیصلہ کے نتیجے میں 150 افغان خاندانوں کی زندگیاں تباہ ہو گئی تھیں۔ اب اس حملہ کا پاکستان میں طالبان کی safe heavens سے کیا تعلق تھا؟ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ 17 سال میں ایسے ہزاروں واقعات ہوۓ تھے۔ افغان آبادی کابل حکومت کے خلاف ہونے لگی تھی۔ اور غیرملکی فوجوں سے انہیں نفرت ہو گئی تھی۔ امریکی کمانڈر ابھی تک افغان معاشرے کی قبائلی نفسیات نہیں سمجھ سکے ہیں۔ انتقام قبائلیوں کی فطرت میں ہے۔ جب بھی امریکہ اور نیٹو کے حملوں میں افغان شہری ہلاک ہوۓ ہیں۔ افغانوں نے اس کا انتقام لیا ہے۔ افغان فوج کے اندر فوجیوں نے امریکی فوج پر حملے کیے ہیں۔ متعدد افغان فوجی منحرف ہو گیے تھے اور طالبان سے مل گیے تھے۔ اور انہوں نے طالبان کے ساتھ کابل حکومت اور امریکی فوج کے خلاف کاروائیاں شروع کر دی تھیں۔ اب اس صورت حال کا پاکستان میں نام نہاد طالبان کے safe heavens سے کیا تعلق تھا۔ یہ افغانستان کی داخلی صورت حال تھی۔ جس نے افغانوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیا تھا۔
     16 سال میں بش اور اوبامہ انتظامیہ نے اپنی افغان پالیسی میں افغانستان کے اندرونی سیا سی انتشار اور ان داخلی قوتوں کو کبھی اہمیت نہیں تھی جو افغانستان کو عدم استحکام کے حالات میں ر کھے ہوۓ ہیں۔ اور امریکہ کی افغان پالیسی میں صرف طالبان اور پاکستان کو فوکس کیا جاتا ہے۔ اور افغانستان کے اندرونی سیاسی انتشار کو نظر انداز کر کے جنگ صرف جیتنے کے لئے لڑی جا رہی ہے۔ جب سرحدوں پر جنگ لڑی جاتی ہے ملک کے اندر اتحاد  امن اور استحکام کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن افغانستان کی مختلف قو میتوں میں اتحاد  ہے نہ امن اور استحکام ہے ہر طرف سے صرف جنگ کو جاری رکھا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں تین لاکھ افغان فوج جسے امریکہ نے تربیت دی ہے کمزور رہے گی۔ طالبان افغان فوج سے بھی لڑ رہے ہیں۔ امریکہ اور نیٹو فوج سے بھی لڑ رہے ہیں۔ اگر یہ صورت ہے تو پھر طالبان کو افغان فوج تسلیم کر لیا جاۓ اور ان سے امن استحکام اور افغان قوم کو متحد کرنے کا  کام کیوں نہیں لیا جاۓ۔ طالبان کی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں افغانستان کے داخلی سیاسی انتشار کا پاکستان میں نام نہاد طالبان کی safe heavens سے زیادہ بڑا رول ہے۔ 17 سال سے امریکہ نے افغانستان کی اس داخلی صورت حال کو بالکل فوکس نہیں کیا ہے۔ بلکہ افغانستان کی اس داخلی سیاسی صورت حال کا ذمہ دار بھی پاکستان کو ٹھہرایا ہے۔ امریکہ کی افغان پالیسی کا یہ approach افغانستان میں امریکی فوجی شکست کا سبب ہے۔ جب تک امریکہ کا غلط approach درست نہیں ہو گا افغانستان کے حالات بھی کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔
     افغان حکومت میں chronic corruption کا خاتمہ کرنے پر امریکہ کی کسی بھی انتظامیہ نے اس طرح زور نہیں دیا کہ جیسے پاکستان سے طالبان کی safe heavens کا خاتمہ کرنے کا اصرار کیا جاتا ہے۔ افغان حکومت کا chronic corruption طالبان کا نیا مذہب بن گیا ہے۔ افغانستان کے داخلی سیاسی انتشار کا دوسرا بڑا مسئلہ طاقتور قبائلی وار لارڈ ز ہیں۔ جو اتنے ہی corrupt ہیں جتنی افغان حکومت ہے۔ یہ وار لارڈ ز افغانستان میں امن استحکام اور ایک سیاسی جمہوری عمل کو اپنی طاقت کی سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہاں ان کی سوچ عرب بادشاہوں کی سوچ سے مختلف نہیں ہے۔ طالبان کی حکومت نے افغانستان سے وار لارڈ ز کا مکمل خاتمہ کر دیا تھا لیکن امریکہ نے افغانستان میں وار لارڈ ز کو اسی طرح بحال کیا ہے کہ جس طرح مصر میں فوجی آمریت کو بحال کیا ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو فوجوں کی موجودگی میں افغان وار لارڈ ز کی بلین ڈالر زیر زمین منشیات کی معیشت کو فروغ دیا گیا ہے۔ افغان وار لارڈ ز کی منشیات کی تجارت پاکستان میں طالبان کی safe heavens سے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ لیکن امریکی انتظامیہ نے اپنی نئی افغان پالیسی میں اسے کبھی ایک سنجیدہ مسئلہ نہیں سمجھا ہے۔ وار لارڈ ز کی یہ زیر زمین معیشت سیاسی جرائم پیشہ ور پیدا کر رہی ہے۔ اور پھر وار لارڈ ز انہیں اپنے سیاسی مقاصد میں استعمال کرتے ہیں۔ افغان وار لارڈ ز بھی اتنے ہی ظالم ہیں اور تشدد میں یقین رکھتے ہیں کہ جتنے طالبان ہیں۔ طالبان کے ظلم اور بربریت کا خاتمہ ہونے کے بعد اب وار لارڈ ز کی بربریت کا نظام رائج ہو گیا ہے۔ طالبان کی ایک بہت بڑی تعداد وار لارڈ ز کے اس نظام میں convert ہو گئی ہے۔ افغانستان کے جن علاقوں میں وار لارڈ ز کی مضبوط گرفت ہے۔ وہ طالبان کے لئے safe heavens ہیں۔ طالبان وار لارڈ ز کی ملیشیا بھی ہیں۔ کابل حکومت کا ان علاقوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ امریکہ کی افغان پالیسی میں بھی ایسے علاقوں کو کابل حکومت کے کنٹرول میں لانے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاتا ہے۔ اور نہ ہی وار لارڈ ز کی زیر زمین بلین ڈالر معیشت کو dismantle کرنے کے لئے کہا ہے۔ اگر امریکہ کی افغان پالیسی میں ان ایشو ز کو address نہیں کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ کی افغان پالیسی بڑی dubious ہے۔ صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی میں بھی وار لارڈ ز کے کرائم ختم کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
     افغانستان میں تیسرا بڑا مسئلہ ethnic rivalry تا جک اور ازبک کا پشتونوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنا ہوا ہے۔ صدر اشرف غنی پشتون ہیں۔ اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ تا جک ہیں۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ جان کیری کی انتھک کوششوں سے یہ ایک مخلوط حکومت بن گئی ہے۔ لیکن دونوں میں اختلافات خاصے  شدید ہیں۔ اور اس ethnic تقسیم کی وجہ سے سیاسی حالات اور زیادہ پیچیدہ ہو گیے ہیں۔ افغانستان میں سیاسی انتشار اور عدم استحکام کا سبب صرف طالبان ہی نہیں ہیں۔ بلکہ دوسرے عناصر اور عوامل بھی ہیں۔ افغان ثقافتیں جب تک متحد نہیں ہوں گی۔ افغانستان کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوں گے۔ حکومت اور اس کے اداروں کو موثر بنایا جاۓ۔ سیکورٹی اداروں کو ethnic بنیادوں پر استعمال نہیں کیا جاۓ۔ بیرونی فوجی کوششیں اگر افغانستان کو امن دے سکتی تھیں تو 17 سال ایک بہت بڑا عرصہ تھا۔ اور یہ کوششیں فیل ہو چکی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ بھی سابقہ انتظامیہ کی طرح افغانستان کے تمام مسائل کا حل پاکستان کے اندر دیکھ رہی ہے کہ پاکستان میں اگر طالبان کی safe heavens  ختم ہو جائیں تو افغانستان میں امن آ جاۓ گا۔ یہ حقائق سے منہ موڑنے کا بہانہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو افغانستان کے اندرونی سیاسی حالات کو ٹھیک کرنے پر سب سے پہلے توجہ دینا ہو گی۔ فوجی آپریشن کے بارے میں بعد میں سوچنا ہو گا۔ 17 سال فوجی آپریشن افغانستان کو کوئی حل نہیں دے سکے ہیں۔                  

Thursday, August 24, 2017

Army Rule In The White House: Strict Discipline

Army Rule In The White House: Strict Discipline

Mentally Unstable President Trump Is Better Than President Bush, Who Said "'I Am Driven With A Mission From God. George, go and end the tyranny in Iraq.’ And I did.”

مجیب خان

White House Chief of Staff John Kelly

National Security advisor H.R.mcMaster and President Trump

Defence Secretary James Mattis 

   ایسا نظر آتا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں کئی ماہ کی بد انتظامی کے بعد اب Military Rule آ گیا ہے۔ جنرل جان کیلی چیف ایڈمنسٹریٹر ہو گیے ہیں۔ اور صدر ٹرمپ کے چیف آف اسٹاف بن گیے ہیں۔ اور آرمی کا سخت ڈسپلن انہوں نے وائٹ ہاؤس میں  نافذ کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے سابق چیف آف اسٹاف نے استعفا دے دیا تھا۔  جو سابق ریپبلیکن نیشنل کمیٹی کے چیرمین تھے۔ ان کے علاوہ کئی اور ایڈ وائزر بھی چھوڑ کر چلے گیے ہیں۔ ان کے علاوہ ابھی چند اور صدر ٹرمپ کے ایڈ وائزر کے استعفا دینے کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ اس وقت تین جنرل تین اہم عہدوں پر ہیں۔ پینٹ گان میں سیکریٹری ڈیفنس جنرل James Mattis ہیں۔ قومی سلامتی امور کے مشیر جنرل H.R.mcMaster ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں 7 ماہ سے نظم و ضبط نہ ہونے کے نتیجہ میں جنرل جان کیلی کو وائٹ ہاؤس میں چیف آف اسٹاف بنایا گیا ہے۔ جنرل جان کیلی ھوم لینڈ سیکورٹی کے سیکرٹیری تھے۔ اور ھوم لینڈ سیکورٹی میں ان کی شاندار کارکردگی دیکھ کر انہیں وائٹ ہاؤس کی انتظامی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے لایا گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں گزشتہ 7 ماہ سے Leaks ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا تھا۔ وائٹ ہاؤس میں ہر نجی گفتگو اور پالیسی امور پر فیصلے Leaks ہو جاتے تھے۔ یہ کون Leak کرتا تھا۔ اس بارے میں وائٹ ہاؤس کے اسٹاف میں ری پبلیکن پارٹی کے کچھ insiders پر شبہ بتایا جا رہا تھا۔
   ڈونالڈ ٹرمپ کی پریزیڈنسی اس وقت ہر طرف سے شدید دباؤ میں ہے۔ پریزیڈنسی ایک سوالیہ ہے۔ واشنگٹن اسٹبلشمنٹ ڈونالڈ ٹرمپ کی پریزیڈنسی قبول نہیں کر رہا ہے۔ ری پبلیکن اور ڈیمو کریٹک پارٹی کا جیسے ایک محاذ بنا ہوا ہے۔ کانگرس اور سینٹ کی دو کمیٹیاں اس وقت صدر ٹرمپ کی انتخابی ٹیم کے روس کے ساتھ تعلقات کی تحقیقات کر رہی ہیں۔ جبکہ جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے بھی ایک خصوصی کونسل کو نامزد کیا ہے۔ جو صدر بش اور صدر اوبامہ انتظامیہ میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر تھے۔ اور سابق فیڈرل پراسکیوٹر بھی تھے۔ گزشتہ دنوں ایف بی آئی نے صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سابق چیرمین کی رہائش گاہ پر دن کی روشنی آنے سے قبل چھاپہ مارا تھا۔ ان کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ انہوں نے واشنگٹن میں روس کے سفیر سے ملاقاتیں کی تھیں۔ بعض روسی بزنس سرمایہ کاروں کے لئے لابی کی تھی۔ اور حکومت کو اس بارے میں بتایا نہیں تھا وغیرہ۔ اس تحقیقات میں صدر ٹرمپ کے داماد اور صاحبزادے بھی شامل ہیں۔ یہ سیاسی نوعیت کی تحقیقات ہیں۔ یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ صدر ٹرمپ اگر صدارت سے استعفا دے دیں تو انہیں اور ان کے داماد  صاحبزادے کو immunity دے دی جاۓ گی۔ اس کے لئے  صدر ٹرمپ پر ہر طرح سے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ تاکہ صدر ٹرمپ واشنگٹن اسٹبلیشمنٹ سے سمجھوتہ کریں۔ امریکہ کا ہر صدر حلف اٹھانے کے بعد واشنگٹن اسٹبلیشمنٹ کے لئے کام کرتا ہے۔ صدارتی مہم کے دوران عوام سے جو وعدے کیے جاتے ہیں۔ وہ صرف وعدے رہتے ہیں۔ انہیں کبھی پورا نہیں کیا جاتا ہے۔ عوام انہیں بھول جاتے ہیں۔ اس لئے صدر بش دوبارہ منتخب ہو گیے تھے۔ اس لئے صدر اوبامہ دوبارہ منتخب ہو گیے تھے۔ حالانکہ عوام نے اوبامہ کو پہلی مرتبہ ان کے Hope اور Change کے وعدوں پر یقین کیا تھا۔ اور اوبامہ کو صدر منتخب کیا تھا۔ لیکن صدر اوبامہ کی پہلی مدت کی صدارت میں Hope کا وعدہ پورا ہوا تھا اور نہ ہی Change آئی تھی۔ اسی طرح صدر جارج بش نے بھی عوام سے جو وعدے کیے تھے۔ ان میں سے ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا تھا۔ افغان جنگ میں صدر بش کو کوئی کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں صدر بش نے جھوٹ بولا تھا۔ اور عراق پر حملہ کیا تھا۔ عراق جنگ امریکہ کے لئے Debacle ثابت ہوئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود صدر بش دوبارہ صدر منتخب ہو گیے تھے۔ واشنگٹن اسٹبلیشمنٹ اور کار پوریٹ میڈیا ایک فیل صدر کو کامیاب بنا دیتے ہیں۔ اور ایک کامیاب صدر کو فیل ثابت کر دیتے ہیں۔
   دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کی تعمیر جن پالیسیوں پر کی گئی تھی۔ 70 سال بعد وہ تمام پالیسیاں اب Obsolete ہو چکی ہیں۔ اور صدر ٹرمپ اس سسٹم کو Dismantle کرنا چاہتے ہیں جو ان پالیسیوں کا Underwriter  ہے۔ داخلی امور میں عوام سے وعدے صرف اسی صورت میں پورے ہوں گے کہ جب “America First” ٹرمپ خارجہ پالیسی کا پہلا ستون ہو گا۔ سابقہ دو انتظامیہ نے 16 سال امریکہ کی سرحدوں سے ہزاروں میل دور اپنا 65 فیصد وقت فوجی مہم جوئیوں میں گزارا تھا۔ جس کے نتیجہ میں امریکہ میں سڑکیں پل ایرپورٹ ٹوٹے پڑے ہیں۔ اور صدر ٹرمپ کا یہ کہنا ہے کہ یہ کسی تیسری دنیا کے ایرپورٹ  پل اور سڑکیں نظر آتی ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ نے 500 ملین ڈالر مڈل ایسٹ کو آزادی اور ڈیمو کریسی میں ٹرانسفارم کرنے کے پروجیکٹ پر خرچ کیے تھے۔ اور یہ پروجیکٹ فیل ہو گیا تھا۔ جس کے بعد اوبامہ انتظامیہ نے شام میں حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے پروجیکٹ پر باغیوں کو تربیت دینے پر 500 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ اسی طرح بش انتظامیہ نے افغان اور عراق جنگوں پر تقریباً ایک ٹیریلین ڈالر خرچ کیے تھے۔ کانگرس نے  Blank Cheques انتظامیہ کو دے دئیے تھے۔ امریکہ آج 20 ٹیریلین ڈالر کا مقروض ہے۔ اس طرح  بش اور اوبامہ انتظامیہ نے ایک ٹیریلین ڈالر صرف امریکہ کی  ناکامیوں میں انویسٹ کیے تھے۔
    صدر ٹرمپ کے داخلی پروجیکٹس پر کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ لیکن ہر طرف سے مزاحمت امریکہ کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیوں کے خلاف ہو رہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ڈیفنس بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن دنیا بھر میں مہم جوئیوں سے Retreat کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ تاہم اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بجٹ میں کمی کر دی ہے۔ امریکہ کے فارن ایڈ بجٹ بھی کم کر دیا ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اسٹاف میں بھی حیرت انگیز کمی کی جا رہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو اقتدار میں 8 ماہ ہو گیے ہیں۔ لیکن اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ڈپٹی سیکرٹیری اور اسسٹنٹ سیکرٹیریوں کی ابھی تک تقرر یاں نہیں ہوئی ہیں۔ صدر ٹرمپ روس کے ساتھ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ اور روس کو امریکہ کا دشمن نہیں سمجھتے ہیں۔ کانگرس اور امریکی میڈیا میں یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ  صدر پو تن کی مذمت کرنے سے گریز کیوں کر رہے ہیں؟ ٹرمپ انتظامیہ کے امریکہ کے قدیم یورپی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں بھی زیادہ گرمجوشی نہیں ہے۔ جبکہ مڈل ایسٹ کے حالات میں  کچھ بہتری نظر آ رہی ہے۔ بش اور اوبامہ انتظامیہ کی مڈل ایسٹ کو مسلسل عدم استحکام کرنے کی پالیسی اب تبدیل ہو گئی ہے۔ مڈل ایسٹ میں ISIS کا زور ٹوٹا ہے۔ بعض حلقوں کی اب تشویش یہ ہے کہ ISIS ایران کے بڑھتے ہوۓ اثرو رسوخ کا مقابلہ کر سکتی تھی۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ اور صدر پو تن میں شام اور عراق سے ISIS کا مکمل خاتمہ کرنے پر اتفاق اور تعاون ہے۔ سعودی عرب اور قطر کے درمیان کشیدگی پر صدر ٹرمپ کا کردار منفرد اور مثالی ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کے آغاز میں صدر ٹرمپ نے بڑے پر زور طور پر سعودی عرب کی حمایت میں قطر سے دہشت گردوں کی حمایت ترک کرنے کا کہا تھا۔ پہلا تاثر یہ تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ حالانکہ قطر میں امریکہ کی سب سے بڑی نیول بیس تھی۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کرانے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Rex Tillerson قطر اور سعودی عرب گیے تھے۔ شاہ سلمان سے سعودی عرب میں اور امیر قطر سے دوہا میں ملاقات  کی تھی۔ لیکن انہیں دونوں ملکوں میں مصالحت کرانے میں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ پھر مڈل ایسٹ کے خصوصی سفیر بھی قطر اور سعودی عرب گیے تھے۔ اور دونوں ملکوں کے رہنماؤں سے ایک دوسرے کے بارے میں شکایتیں سن کر واپس آ گیے تھے۔ اس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ خاموش  ہو گئی تھی۔ اور سعودی عرب اور قطر کو اپنے اختلافات خود حل کرنے کے لئے چھوڑ دیا تھا۔ سعودی عرب اور قطر قبائلی معاشرے ہیں۔ قبائل آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ اور پھر ساتھ بیٹھ کر ایک ہی تھا لی میں کھانا کھانے لگتے ہیں۔ قطر کے ایک معزز قبائلی شیخ نے شاہ سلمان سے ان کے محل میں ملاقات کی ہے۔ جس کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں گرمی کی شدت کچھ کم ہوئی ہے۔ شاہ سلمان نے```````````` قطر کے عازمین حج کے لئے سرحد کھولنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ شاہ سلمان نے اپنے خرچہ پر خصوصی سعودی طیارہ قطر سے عازمین حج کو مکہ لانے کے لئے بھیجا ہے۔ ہمسایہ ملکوں کے مابین تنازعہ میں غیر ملکی مداخلت دونوں ملکوں کو ہتھیاروں کے ساتھ آمنے سامنے کھڑا کر دیتی ہیں۔ اگر امریکہ سرگرمی کے ساتھ سعودی اور قطر کے درمیان تنازعہ میں ایک پارٹی بن جاتا اور سعودی عرب کی پشت پنا ہی کرنے لگتا تو حالات اور زیادہ بگڑ جاتے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے بڑے دور اندیشی کا ثبوت دیا ہے اور سعودی عرب اور قطر کے تنازعہ سے امریکہ کو دور رکھا ہے۔
    ٹرمپ انتظامیہ میں خارجہ پالیسی کے اقدامات سے بلاشبہ واشنگٹن اسٹبلشمنٹ بوکھلا ہٹ میں آ گیا ہے۔ بعض سینیٹر ز اور کانگرس مین نے صدر ٹرمپ کو mentally unstable  کہنا شروع کر دیا ہے اور اس کے ساتھ صدر ٹرمپ کو صدارت کے عہدہ کے لئے Unfit قرار دے کر انہیں صدر کے عہدہ سے ہٹانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے 18 ماہ صدارتی مہم ری پبلیکن پارٹی کی مدد کے بغیر خود چلائی تھی۔ اور پرائمریز میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔ ایک Mentally unstable شخص ایسی کامیابیاں حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ صدر ٹرمپ کا باتیں کرنے ڈائیلاگ بولنے اور Tweet کرنے کا اپنا ایک انداز ہے۔ یہ دیکھ کر واشنگٹن اسٹبلشمنٹ  ڈونالڈ ٹرمپ کو ایسے دیکھ رہا کہ جیسے Zoo  سے آۓ ہیں۔                              

Sunday, August 20, 2017

Trump’s Road Rage With Kim Jong-Un

Trump’s Road Rage With Kim Jong-Un

America’s Inconsistent Policies From Administration To Administration

مجیب خان  
   
President Trump and North Korea's Supreme Leader Kim Jong-Un

    مسٹر ٹرمپ اور مسٹرUn کے درمیان “war of Nuclear words” سے دنیا کو شاید اتنی تشویش نہیں ہو گی ۔ دونوں ملکوں  میں War of Nuclear words کا جیسے Ping Pong ہو رہا ہے۔ ایک shot ادھر سے جاتا ہے اور ایک shot ادھر سے آتا ہے۔ لہذا اس حد تک دنیا کو کوئی تشویش نہیں ہے۔ لیکن نیو کلیر لفظوں کی جنگ اگر نیو کلیر ہتھیاروں کی جنگ بننے لگے تو اس صورت میں دنیا کی تشویش پھر خطروں میں بدل جاۓ گی۔ امریکہ سے جنگ میں شمالی کوریا کبھی پہل نہیں کرے گا۔ جنگوں میں ہمیشہ امریکہ نے پہل کی ہے۔ اور مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے کبھی گریز نہیں کیا ہے۔ اس خطہ میں تابکاری اثرات آج بھی موجود ہیں۔ جو جاپان کے خلاف جنگ میں ایٹم بم استعمال کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوۓ تھے۔ شمالی کوریا کے خلاف نیو کلیر ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی بہت مرتبہ دی گئی ہے۔ 1953 میں کوریا کی جنگ کو ختم کرانے کے لئے چین اگر مذاکرات میں مدد کرنے سے انکار کر دیتا تو اس صورت میں امریکہ نے شمالی کوریا کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی دھمکی دی تھی۔ جس کے بعد چین اور شمالی کوریا نے جنگ ختم کرنے کے سمجھوتے پر دستخط کیے تھے۔ امریکہ نے یہاں کئی مرتبہ نیو کلیر بلیک میل کیا ہے۔ اور اس پالیسی کو ایک بار پھر صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے مسئلہ پر اختیار کیا ہے۔ امریکہ کی طرف سے اس کے خلاف نیو کلیر ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی مسلسل دھمکیوں کے نتیجہ میں شمالی کوریا کو بھی نیو کلیر ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکیاں دینے کی پالیسی کو اختیار کرنا پڑا ہے۔ اور با ظاہر یہ پالیسی دونوں ملکوں کے لئے work کرتی ہے۔
   آ بناۓ کوریا کے بارے میں یہ امریکہ کی پالیسی ہے جو دو دہائیوں سے زیادہ  شمالی کوریا کو اپنی سلامتی کے لئے ایٹمی ہتھیاروں پر انحصار کرنے کی شہ دے رہی ہے۔ یہ امریکہ کے علم میں بھی ہو گا۔ شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لئے کامیاب پالیسی یہ ہوتی کہ امریکہ اپنی کوریا پالیسی تبدیل کرتا۔ اس خطہ میں کشیدگی کے حالات ختم کرتا۔ فوجی سرگرمیاں بند کرتا۔ اور پھر دنیا دیکھتی کہ شمالی کوریا کی حکومت کس طرح behave کرتی ہے۔ سرد جنگ کے دور میں امریکہ نے جاپان کو فوجی طاقت بننے کا مشورہ کبھی نہیں دیا تھا۔ جاپان ایک بڑی اقتصادی طاقت تھا۔ جاپان کی اقتصادی طاقت سے اس خطہ کے ملکوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ یہ اس خطہ کا status quo بن گیا تھا۔ لیکن پھر سرد جنگ ختم ہونے کے بعد دنیا بھر میں امریکہ کی فوجی سرگرمیوں میں اچانک جو تیزی آئی تھی۔ نیٹو کو سرد جنگ سے نکال کر دنیا میں گرم جنگوں کے لئے ایک نیا عالمی رول دیا جا رہا تھا۔ اور اندیشہ یہ ہے کہ کسی موقعہ پر جاپان بھی نیٹو میں شامل ہو گا؟ جاپان کا فوجی بجٹ بڑھتا جا رہا ہے۔ جاپان کو نیول پاور بننے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ جنوبی کوریا میں میزائل ڈیفنس شیلڈ نصب کی جا رہی ہیں۔ یہ تمام فوجی سرگرمیاں امریکہ کی ہیں۔ ان سرگرمیوں کے علاوہ جنگیں بھی جاری ہیں۔ شمالی کوریا امریکہ کے ریڈار پر ہے۔ امریکہ کی فوجیں اس کی سرحدوں پر بیٹھی ہیں۔ 50 کی دہائی میں امریکہ نے کوریا پر حملہ کیا تھا۔ دو ملین لوگ اس جنگ میں مار دئیے تھے۔ یہ صورت حال ہے اور حقائق ہیں جس نے شمالی کوریا کو نیو کلیر میزائلوں سے اپنے عوام کا دفاع کرنا دکھایا ہے۔ شام، عراق، لیبیا، یمن کی مثالیں بھی شمالی کوریا کے سامنے ہیں۔ ان ملکوں کو دنیا کا کوئی قانون بھی نہیں بچا سکا ہے۔ جب بم ان ملکوں پر گر رہے تھے۔ کسی نے انہیں روکا نہیں تھا۔ دنیا Big screen پر یہ تماشا دیکھتی رہی۔ ملک تباہ ہو گیے۔ خاندان اجڑ گیے۔ لاکھوں بے گناہ لوگ مار دئیے۔ کیوں؟ اور کس لئے؟ کسی نے پوچھا بھی نہیں۔ امریکہ میں ہر چار یا آٹھ سال بعد انتظامیہ بدل جاتی ہے۔ اور اس کے ساتھ اکثر پالیسیاں بھی بدل جاتی ہیں۔ سابقہ انتظامیہ میں جو سمجھوتے، معاہدے ہوتے ہیں۔ نئی انتظامیہ ان سے اختلاف کرنے لگتی ہے۔ اہم ایشو ز پر اتحادیوں کے ساتھ جو ہم آہنگی ہوتی ہے۔ وہ بھی بدل جاتی ہے۔ جیسے عراق میں مہلک ہتھیار اصل مسئلہ تھے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں میں صدا م حسین کو اقتدار سے ہٹانے کا نہیں کہا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے انسپکٹروں نے عراق کو مہلک ہتھیاروں سے صاف کر دیا تھا۔ اور سلامتی کونسل کا مشن پورا ہو گیا تھا۔ لیکن بش انتظامیہ میں عراق میں حکومت کی تبدیلی امریکہ کی نئی پالیسی بن گئی تھی۔ امریکہ کی کانگرس خود مختار ملکوں میں حکومت تبدیل کرنے کا قانون منظور کرنے لگی تھی۔ اور انتظامیہ عالمی قانون پر اپنی کانگرس کے قانون کو فوقیت دینے لگی تھی۔ بش انتظامیہ نے عراق پر Preemptive حملہ کر کے صدا م حسین کو اقتدار سے ہٹا دیا۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صدا م حسین نے شاید ایسی خلاف ورزیاں نہیں کی تھیں کہ جتنی بش انتظامیہ نے نہ صرف عراق کے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی تھی بلکہ اقوام متحدہ کے خود مختار ملکوں کی آزادی بقا اور سلامتی کے قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔ اور عراق پر Preemptive حملہ بھی غیر قانونی تھا۔ 14 سال ہو گیے ہیں لیکن عراق ابھی تک ایک ملک دوبارہ نہیں بن سکا ہے۔
    صدر کرنل قد افی نے اپنے ملک کو عراق بننے سے بچانے کے لئے اپنے تمام مہلک ہتھیار امریکہ کے حوالے کر دئیے تھے۔ جس کے بعد بش انتظامیہ نے لیبیا کے بارے میں امریکہ کی پالیسی تبدیل کر دی تھی۔ قد ا فی حکومت کے خلاف کاروائی کرنے کی پالیسی ترک کر دی تھی۔ اور لیبیا کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال ہو گیے تھے۔ لیبیا دوبارہ عالمی برادری میں آ گیا تھا۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ میں بش انتظامیہ کی لیبیا پالیسی پھر تبدیل ہو گئی تھی۔ اور اب لیبیا میں حکومت تبدیل کرنے کی اوبامہ انتظامیہ کی پالیسی بن گئی تھی۔ بش انتظامیہ میں صدر قد ا فی سے ان کے اقتدار میں رہنے کے بارے میں جو وعدہ کیے گیے تھے۔ اور جو یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں۔ انہیں اوبامہ انتظامیہ نے Null and void کر دیا تھا۔ اور لیبیا پر Preemptive حملہ کر کے قد ا فی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ یہ قوموں کی آزادی اور خود مختاری کے عالمی قوانین کی امریکہ نے ایک اور خلاف ورزی کی تھی۔ اوبامہ انتظامیہ کے اس فیصلے کے نتیجہ میں ہزاروں اور لاکھوں لیبیا کے شہریوں کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ لیبیا کا امن اور استحکام تہس نہس کر دیا۔ اور اب 6 سال ہو گیے ہیں لیبیا ابھی تک دوبارہ ایک پر امن ملک نہیں بن سکا ہے۔ شام میں حکومت تبدیل کرنے کا کام دہشت گردوں کے ذریعے لیا گیا تھا۔ جو زیادہ تر وہابی اور سلافسسٹ تھے۔ جنہوں نے شام کی ایک قدیم تاریخ کو تباہ و برباد کر دیا۔ اسلامی ملکوں سے اسلامی دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لئے کہا جا رہا تھا۔ اور اوبامہ انتظامیہ نے شام میں ایک سیکولر اور لبرل حکومت کے خلاف اسلامی انتہا پسندوں کے ساتھ اتحاد بنایا تھا۔ اور ان پر اسد حکومت کے Rebels کا لیبل لگا دیا تھا۔ سعودی عرب شام میں دہشت گردی کو Finance کر رہا تھا۔ سی آئی اے اردن میں نام نہاد باغیوں کو تربیت دے رہی تھی اور اسلحہ فراہم کیا جا رہا تھا۔ ISIS کس نے بنائی تھی۔ یہ 30 ہزار دہشت گردوں کا لشکر تھا۔ لیکن امریکہ کی کسی خفیہ ایجنسی کو اس کا کوئی علم نہیں تھا؟ شام کی تباہی انسانیت کی تباہی تھی۔ اس میں امریکہ کے رول کو دنیا شاید کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ ٹرمپ انتظامیہ میں شام کی یہ پالیسی تبدل ہو گئی ہے۔ جس کے بعد صورت حال بہتر ہونے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔
   ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ملٹری ایکشن بھی اوبامہ انتظامیہ کے ریڈار پر تھا۔ نتھن یا ہو حکومت نے اس حملہ کی تیاری کر لی تھی۔ لیکن شام میں ناکامی  دیکھ کر اوبامہ انتظامیہ کی ایران پالیسی بدل گئی تھی۔ ادھر یورپی یونین، اقوام متحدہ، چین اور روس میں ایران کے ایٹمی پروگرام کا مسئلہ پرامن سفارتی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق ہو گیا تھا۔ تاہم ایران کے ساتھ مذاکرات میں اوبامہ انتظامیہ نے ایران میں انسانی حقوق، حکومت کے مخالفین کے ساتھ  بر تاؤ، پریس کی آزادی جیسے ایشو ایران کے ایٹمی پروگرام کے مسئلہ پر مذاکرات میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن روس چین اور یورپی یونین نے اس کی اجازت نہیں دی تھی۔ اور ان ایشو ز کو علیحدہ رکھا تھا۔ کیونکہ عراق میں مسئلہ صرف مہلک ہتھیاروں کا تھا۔ لیکن امریکہ نے عراق کے داخلی سیاسی ایشو ز کو شامل کر کے اسے عراق میں حکومت تبدیل کرنے کا مسئلہ بنا دیا تھا۔ لہذا ایران کے داخلی ایشو ز کو داخلی رکھا گیا تھا۔ اس لئے ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ ہو گیا تھا۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ کو یہ سمجھوتہ قبول نہیں ہے اور اس سمجھوتے کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ کانگرس میں بھی اس سمجھوتہ کی مخالفت ہے۔ کانگرس نے ایران کے خلاف نئی پابندیاں لگانے کا قانون منظور کیا ہے۔ کانگرس اور انتظامیہ لابیوں اور مخصوص غیرملکی مفادات کے اثر و رسوخ میں کام کرتی ہیں۔ اس لئے دنیا کے اتنے مسائل حل نہیں ہو سکے ہیں کہ جتنے نئے تنازعہ دنیا کے لئے پیدا کیے گیے ہیں۔ حالیہ برسوں میں امریکہ کے فیصلوں میں inconsistency بہت زیادہ ہے۔ دنیا میں امریکہ پر اعتماد کرنے کی ساکھ 25 فیصد رہے گئی ہے۔ اس لئے چین اپنی ساکھ کو امریکہ کی ساکھ کے ساتھ منسلک کر کے  شمالی کوریا کے مسئلے میں خراب کرنا نہیں چاہتا ہے۔ کیونکہ امریکہ کے اس خطہ میں ہر انتظامیہ کے نئے مفادات اور مقاصد ہو تے ہیں۔ اور دنیا کے لئے یہ مسئلہ شمالی کوریا کے ایٹمی میزائلوں کے مسئلہ سے زیادہ خطرناک ہے۔          
     

                    

Sunday, August 13, 2017

The Rule of Law Is The Democracy

The Rule of Law Is The Democracy

Nawaz Sharif’s Jihad Against The Supreme Court

مجیب خان
"People refused to accept court decision against me"

Nawaz Sharif

     میاں نواز شریف نے ایک بڑا عرصہ لندن میں گزارا ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ لندن میں رہ کر انہوں نے یہ نہیں سیکھا کہ برطانیہ میں پارلیمانی نظام کس طرح کام کرتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں اور لیڈر کس طرح Behave کرتے ہیں۔ ادارے اداروں کا احترام کس طرح کرتے ہیں۔ اور سول سوسائٹی کس طرح بنتی ہے۔ برطانیہ میں بھی وزیر اعظم کو ذاتی بحران کا سامنا ہوا ہے۔ لیکن معاملات عدالت میں پہنچنے سے پہلے طے کر لئے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتے ہیں۔ وزیر اعظم استعفا دے دیتے ہیں۔ معاملات کا پنڈ رہ با کس نہیں کھلتا ہے۔ ذاتی معاملات قومی بحران نہیں بنتے ہیں۔ برطانوی عوام نے وزیر اعظم ٹونی بلیر کو تین مرتبہ بھاری اکثریت سے منتخب کیا تھا۔ ٹونی بلیر نے کوئی کرپشن نہیں کیا تھا۔ عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں صرف جھوٹ بولا تھا۔ پارلیمنٹ میں غلط بیانی کی تھی۔ امریکہ کے ساتھ انٹیلی جینس کی غلط رپورٹوں پر عراق کے خلاف فوجی کاروائی میں حصہ لیا تھا۔ صرف ان الزامات پر ان کی پارٹی نے انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹایا تھا۔ ٹونی بلیر نے بڑی کوشش کی تھی کہ وہ تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوۓ تھے۔ دو سال نکال لئے تھے اور تین سال باقی رہے گیے تھے۔ لیکن پارٹی انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے کے لئے متحد ہو گئی تھی۔ اور اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ آخر کار ٹونی بلیر کو وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔ پارلیمنٹ اور عوام سے صرف عراق کے بارے میں جھوٹ بولنے پر ان کا سیاسی کیریر Tarnish ہو گیا تھا۔ یہ سول سوسائٹی ہے۔ اور اس کے سول لیڈر ہیں۔ جو اپنے لیڈر کا پہلے خود احتساب کرتے ہیں۔ اور پارٹی کی سیاست روشن رکھتے ہیں۔ لیبر پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ نے وزیر اعظم کے جھوٹ بولنے پر خود احتساب کیا تھا۔ جمہوریت کے تقاضے پارٹی کے اصول ہوتے ہیں۔ ہم برطانیہ کی کالونی تھے۔ برطانیہ نے ہمیں کمشنر اور ڈپٹی کمشنر دئیے تھے۔ بیورو کریسی کا ادارہ دیا تھا۔ فوج کا ادارہ دیا تھا۔ سیاسی لیڈروں نے ان اداروں میں Fit ہونا سیکھ لیا تھا۔ لیکن جمہوری اور عدلیہ کے اداروں میں Fit ہونا ان لیڈروں کے لئے ہمیشہ مشکل ثابت ہوا ہے۔ میاں نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جس طرح Behave کر رہے ہیں وہ سول سوسائٹی میں قانون کی با لا دستی اور جمہوریت میں احتساب کے اصولوں کے بالکل منافی ہے۔ احتساب کے بغیر جمہوریت آمریت سے زیادہ بدتر ہوتی ہے۔ میاں نواز شریف عوام سے کہتے ہیں کہ " ایک عدالت نے اپنا فیصلہ دیا ہے۔ اور اب یہ عدالت پاکستان کے عوام کی عدالت ایک فیصلہ دے گی۔" اور نواز شریف پھر اجتماع سے پوچھتے ہیں کہ "انہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول ہے۔" اجتماع کا جواب تھا "نہیں"۔ یہ پاکستان کے لیڈر ہیں جو قانون کی با لا دستی کے دعوی کرتے ہیں لیکن عوام کو عدالتوں کے فیصلہ قبول نہ کرنے کا درس دیتے ہیں۔ میاں صاحب دنیا کے کن جمہوری ملکوں میں عدالتوں کے بغیر جمہوریت ہے؟
    پاکستان میں Facts Straight رکھنے کی کسی کو عادت نہیں ہے۔ سیاسی تاریخ کا کوئی مطالعہ نہیں کرتا ہے۔ شوشوں سے لوگوں کو گمراہ کرنا سب کی عادت بن گئی ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھ دوسروں نے بھی یہ کہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی وزیر اعظم نے اقتدار کی میعاد کبھی پوری نہیں کی ہے۔ یہ Nonsense ہے۔ یہ فوج اور بیورو کریسی نہیں یہ میاں نواز شریف تھے جنہوں نے 90 کی دہائی میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو اقتدار کی میعاد پوری نہیں کرنے دی تھی۔ اور ان کی حکومت کے خلاف سازش کی تھی۔ مرحوم جنرل حمید گل اور اسامہ بن لادن کے ساتھ مل کر وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ وزیر اعظم رضا گیلانی کو کس نے اپنی حکومت کی میعاد پوری نہیں کرنے دی تھی؟ انہیں آصف زر داری اور اعتزاز احسن نے حکومت سے برطرف کرایا تھا۔ اعتزاز احسن وزیر اعظم گیلانی کے وکیل تھے۔ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم گیلانی کو سوئس حکومت سے آصف زر داری کے خلاف کرپشن کے کیس کی تحقیقات دوبارہ شروع کرنے کے لئے خط لکھنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن اعتزاز احسن نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ آصف زر داری کیونکہ صدارت کی کرسی پر بیٹھے ہوۓ لہذا ان کے خلاف غیر ملکی حکومت سے تحقیقات کرانے کے لئے خط نہیں لکھا جا سکتا ہے۔ کورٹ کے اندر اعتزاز احسن کا یہ موقف تھا۔ لیکن کورٹ کی سیڑھیوں پر کیمروں کے سامنے اعتزاز احسن یہ کہتے تھے کہ خط لکھنے میں کوئی ہر ج نہیں تھا۔ اعتزاز احسن وزیر اعظم گیلانی کے وکیل تھے اور آصف علی زر داری اعتزاز احسن کے وکیل تھے۔ دونوں خط لکھا جاۓ یا نہیں لکھا جاۓ کی بحث کو طول دے رہے تھے۔ تاکہ سوئس قانون کے مطابق ایک مقررہ مدت کے بعد کیس دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا ہے۔ اور آصف زر داری کا کیس بھی اس قانون میں آ جاتا۔ وزیر اعظم گیلانی کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت میں ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ آصف علی زر داری نے اپنے خلاف کرپشن کے الزام میں دراصل یوسف رضا گیلانی کا صدقہ دیا تھا۔ گیلانی ملتان کے پیروں کے پیر تھے۔ گیلانی کو سات مرتبہ گلے لگا کر صدقہ دینے کے بعد چار سال ہو گیے ہیں پاکستان میں کسی کی زبان پر کرپشن کے بارے میں آصف علی زر داری کا نام نہیں ہے۔ کوئی آصف علی زر داری سے 60 ملین ڈالر کا حساب نہیں مانگ رہا ہے۔ یہ پاکستان میں وزیر اعظموں کے میعاد پوری نہ کرنے کی تاریخ ہے۔ جو وزیر اعظم اپنی میعاد پوری نہیں کر سکے ہیں انہیں خود اپنے آپ کو اس کا الزام دینا چاہیے۔
    اب جہاں تک میاں نواز شریف کے کیس کا تعلق ہے۔ اس میں بھی کسی کی کوئی سازش نہیں ہے۔ Offshore کمپنیوں کے بارے میں تمام ریکارڈ پا نا مہ  کی لا فرم Mossack Fonseca کی تحویل میں تھا۔ اور لا فرم کے ایک ملازم نے اسے Leak کیا تھا۔ اس میں میاں نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز اور صاحبزادی مریم نواز کے نام تھے۔ جو لندن میں عالیشان پراپرٹی خریدنے کے بارے میں تھے۔ اور یہ British Virgin Island کے ذریعہ خریدے گیے تھے۔ اور میاں نواز شریف کے بچوں کے نام تھے۔ جو اس وقت نابالغ تھے۔ پھر 2008 میں انہوں نے فلیٹ کو گروی رکھ کر 7 ملین پونڈ کا قرضہ سوئس بنک کے ذیلی Deutsche Bank سے لیا تھا۔ پا نا مہ فائلیں دیکھنے سے قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں ہونے کے ثبوت ملتے  تھے۔ پا نا مہ فائلیں صرف شریف خاندان کے بارے میں نہیں تھیں۔ اس میں Iceland کے وزیر اعظم کا نام بھی تھا۔ جنہوں نے پا نا مہ پیپرز میں اپنا نام دیکھ کر وزیر اعظم کے عہدے سے استعفا دے دیا تھا۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کمیرن کا نام بھی تھا۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تھا۔ اور حکومت کو ٹیکس ادا کر دئیے تھے۔ لیکن وزیر اعظم نواز شریف نے پا نا مہ پیپر ز کے بارے میں تحقیقات کرانے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ نواز شریف نے یہ نہیں سوچا تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے ان کے خلا ف کرپشن کے جو کیس عدالتوں میں تھے اور انہیں واپس لے لیا تھا۔ ان کے سارے ثبوت پا نا مہ پیپر ز میں تھے۔
    اس لئے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ پر جو عالمی رد عمل تھا۔ وہ ایسا نہیں تھا جو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ہوا تھا۔ دنیا بھر میں بڑے وکلا نے اس فیصلہ کی خامیاں بتائی تھیں۔ حالانکہ اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا۔ لیکن عالمی میڈیا میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو سراہا یا گیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنے ادا ریہ میں ججوں کے فیصلہ کو درست فیصلہ کہا ہے۔ برطانیہ کے اخبار گارجین نے بھی پا نا مہ پیپرز کی روشنی میں عدالت کے فیصلہ کو غلط نہیں کہا ہے۔ شاید سپریم کورٹ کے ججوں نے اس کیس کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا ہو گا کہ فیصلہ میاں نواز شریف کے حق میں کیسے کیا جاۓ؟ لیکن انہیں ہر زاویہ سے تمام شواہد میاں نواز شریف کے خلاف نظر آتے تھے۔ مریم نواز شریف نے جس Font کو استعمال کیا تھا اور اس سے ٹائپ دستاویز کورٹ کو دی تھیں۔ جن پر 2004 کی تاریخ تھی۔ اس کے بارے میں چند گھنٹوں کے اندر Micro soft کمپنی کی طرف سے یہ تردید آئی تھی کہ اس Font کا 2004 میں کوئی وجود نہیں تھا۔ Micro soft نے 2007 میں پہلی بار اسے Window Vista میں استعمال کیا تھا۔ Micro soft کمپنی کی اس تردید کے بعد جج حضرات کس طرح Fraud Documents پر نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیتے۔ پاکستان کے وکلا خود یہ بتائیں۔ ان میں سے کل وہ جج بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ پاکستان تھا اگر امریکہ اور یورپ کے کسی ملک میں یہ ہوتا تو جج Fraud Documents بنانے والے کو جیل بھیج  دیتا۔ پاکستان میں اس کیس کے Facts کو اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔ 70 سال میں پاکستان میں کسی وزیر اعظم نے کیونکہ کبھی اپنی میعاد پوری نہیں کی ہے۔ لہذا صرف اس ذہن سے میاں نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ کو دیکھا جا رہا ہے۔
     میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے بارے میں Documents پاکستان کے اداروں نے دریافت نہیں کیے تھے۔ یہ پا نامہ کی لا فرم میں محفوظ تھے اور وہاں سے Leak ہوۓ تھے۔ اور ان کے Authentic  نہ ہونے کو کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا۔ نواز شریف عوام کے سامنے مظلوم بن رہے ہیں۔ اور ان سے اپنے بے گناہ ہونے کو ثابت کروا رہے ہیں۔ لیکن وہ عوام کے سامنے کبھی کھلی کتاب کی طرح نہیں آ سکتے ہیں اور عوام کو یہ بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے سب سے زیادہ دولت اس وقت بنائی تھی کہ جب وہ حکومت میں نہیں تھے۔ ان کی Income اربوں میں ہوتی تھی۔ اور جب بھی وہ حکومت میں آۓ ہیں ان کی Income گر کر ہزاروں میں آ جاتی تھی۔ اور وہ خود کو غریب محسوس کرنے لگتے تھے۔ اس لئے نواز شریف پاکستان کے غریبوں کا لیڈر ہے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ میاں نواز شریف لوگوں کو عدالتوں کے فیصلہ قبول نہیں کرنے کا درس دے رہے ہیں۔ لیکن وہ اور ان کی پارٹی قانون کی بالا دستی کے نعرے لگاتی ہے۔ فوج اور عدالتیں جمہوریت کا حصہ ہیں اور یہ عوام کے ادارے ہیں۔ عوام ہمیشہ عوام رہیں گے لیکن سیاسی لیڈر آتے جاتے رہیں گے۔