Tuesday, November 28, 2017

America Has Nationalized The Korean Crisis, Now United Nations Would Have To Play A Role To Denationalize It

America Has Nationalized The Korean Crisis, Now United Nations Would Have To Play A Role To Denationalize It  

مجیب خان
President Trump with leaders of South Korea and Japan

United Nations Secretary General Antonio Guterres

President of North Korea Kim Jong Un
    شمالی کوریا کو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی دہشت گرد ملکوں کی فہرست میں دوسری مرتبہ پھر شامل کر دیا ہے۔ اس فیصلے کا اعلان صدر ٹرمپ نے امریکہ میں نیوز ٹی وی چینلز پر ایک مختصر خطاب میں کیا ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی فہرست میں سوڈان شام اور ایران پہلے سے شامل ہیں۔ جبکہ عراق اور لیبیا بھی ان ملکوں کی فہرست میں شامل تھے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ان ملکوں کی نشاندہی کی ہے جو عالمی دہشت گردی کی معاونت کرتے ہیں۔ صد ام حسین کے دور میں عراق اور کرنل قدافی کے دور میں لیبا دہشت گرد ملکوں میں شامل تھے۔ اب عراق میں صد ام حسین ہیں اور نہ ہی لیبیا میں کرنل قدافی ہیں۔ لیکن عراق اور لیبیا اب خوفناک دہشت گردی میں گھیرے ہوۓ ہیں۔ لیکن امریکہ کو ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ عراق اور لیبیا میں دہشت گردوں کی معاونت کون سے ملک کر رہے ہیں۔ یہ ISIS کس کی ایجاد ہے؟ کس نے ان کو منظم کیا ہے؟ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی دہشت گرد ملکوں میں لوگوں اور ملکوں کو بھی شامل کیا جاۓ جو ISIS کی معاونت کر رہے ہیں۔ شمالی کوریا کئی سالوں سے سخت اقتصادی بندشوں کی وجہ سے دنیا کے امور سے بالکل کٹ گیا ہے۔ شمالی کوریا کے لئے اپنے عوام کو زندہ رکھنا پہلی اہمیت ہے۔ ان حالات میں شمالی کوریا دہشت گردوں کی کیا معاونت کرے گا۔ شمالی کوریا کو دہشت گرد ملکوں میں شامل کرنے کی صدر ٹرمپ کی منطق صرف یہ ہے کہ اس طرح ایک rogue قوم پر ایٹمی ہتھیاروں کو حاصل کرنے سے روکنے کے لئے دباؤ بڑھے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کون سا دباؤ بڑھے گا؟ جبکہ شمالی کوریا پر دنیا کی کوئی ایسی بندش نہیں ہے جو اس پر نہیں لگی ہے۔
    صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے مسئلہ پر جاپان جنوبی کوریا اور چین میں تفصیلی مذاکرات کے بعد انتہائی کامیاب دورے سے ابھی واپس آۓ تھے۔ اور ان ملکوں نے صدر ٹرمپ سے اس پر مکمل اتفاق کیا تھا کہ شمالی کوریا کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہونا چاہیں۔ چین کی انتھک  کوششوں کے نتیجہ میں شمالی کوریا نے دو ماہ سے زیادہ ہو گیے ہیں۔ اور ابھی تک ایٹمی میزائل کا کوئی نیا تجربہ نہیں کیا ہے۔ چین کی اس کامیابی کو دیکھ کر صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کو دہشت گرد ملکوں میں شامل کر دیا۔ تاکہ صدر Kim Jong Un مشتعل ہو کر پھر ایٹمی میزائل کا تجربہ کریں گے۔ اور امریکہ کو شمالی کوریا کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کا موقعہ ملے گا۔ نہ صرف یہ بلکہ صدر ٹرمپ نے چین کی 13 کمپنیوں پر بھی بندشیں لگائی ہیں۔ جن میں شپنگ اور ٹرانسپورٹیشن کمپنیاں ہیں۔ جو شمالی کوریا کی لاکھوں ڈالر کی تجارت میں سہولتیں فراہم کر رہی تھیں۔ جبکہ چین کی ایک دوسری کمپنی شمالی کوریا کو ساز و سامان اور پارٹ فراہم کر رہی تھی جو نیو کلیر بم اور بلاسٹک میزائل سے تعلق رکھتے تھے۔ صدر ٹرمپ نے چین کے دورے میں صدر شی سے شمالی کوریا کے مسئلہ پر گفتگو کو انتہائی مفید اور مثبت کہا تھا۔ اور اس تنازعہ کے حل میں صدر شی کی کوششوں کو سراہا یا تھا۔ لیکن اس دورے سے واپس آنے کے بعد چین کی 13 کمپنیوں پر شمالی کوریا پر عائد بندشوں کی خلاف ورزی کرنے پر پا پندیاں لگانے کا اعلان کیا تھا۔ یہ امریکہ کی اپنی بندشیں تھیں۔ جو ایک Sovereign ملک کی کمپنیوں پر لگائی گئی تھیں۔ چین نے ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ عالمی بندشوں پر عملدرامد کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اور یہ بندشیں سرگرمی کے ساتھ نافذ کی جا رہی ہیں۔ امریکہ کے ساتھ یہ بڑا مسئلہ ہے کہ تنازعہ میں شریک اپنے اتحادیوں سے مشورہ کے بغیر اپنے یکطرفہ فیصلے ان پر تھوپ دئیے جاتے ہیں۔ اور پھر ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ انہیں حل کریں۔ چین شمالی کوریا کے تنازعہ کے حل میں ایک اہم پارٹی ہے۔ جیسا کہ امریکہ میں یہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں اس تنازعہ کو حل کرنے کی چابی امریکہ کے پاس ہے۔
    امریکی انتظامیہ کے اس طرح فیصلے کرنے سے جو ملک اور ادارے تنازعہ کے حل میں پر امن سفارتی کوششیں کرتے ہیں۔ وہ confuse ہونے لگتے ہیں کہ ان کی کوششوں میں کیا امریکہ واقعی سنجیدہ ہے یا وہ اپنا وقت برباد کر رہے ہیں۔ اور آخر میں طاقت کے بھر پور استعمال سے تنازعہ کو حل کرنے میں امریکہ کی دلچسپی ہے۔ کئی عالمی تنازعوں میں ایسی مثالیں ہیں کہ جب بعض ملکوں کی بھر پور کوششوں کے نتیجہ میں تنازعہ کا حل یقینی ہوگیا تھا کہ امریکہ نے اسی وقت بھر پور فوجی طاقت استعمال کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ 2001 میں امریکہ پر دہشت گردوں کے حملہ کا الزام بش انتظامیہ نے افغانستان میں ا سا مہ بن لادن کو دیا تھا۔ جسے طالبان حکومت نے پناہ دی تھی۔ بش انتظامیہ نے طالبان حکومت سے بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اور بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہ کرنے کی صورت میں بش انتظامیہ نے افغانستان پر حملہ کر کے  طالبان کی حکومت کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پاکستان نے طالبان رہنما ملا عمر کے ساتھ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کے سلسلے میں مذاکرات کیے تھے۔ جبکہ امریکہ کی افغانستان پر حملہ کی دھمکیوں سلسلہ جاری تھا۔ بلا آخر پاکستان نے ملا عمر کو آمادہ کر لیا تھا۔ اور ملا عمر ا سا مہ بن لادن کو کسی تیسرے ملک کے حوالے کرنے کے لئے تیار ہو گیے تھے۔ لیکن صدر بش نے افغانستان میں طالبان کے خلاف فوجی کاروائی کرنے حکم دے دیا تھا۔
   1991 میں کویت پر صد ام حسین کی فوجوں کا قبضہ ختم کرانے میں متعدد ملکوں نے سفارتی کوششیں کی تھیں۔ سو ویت یونین کے صدر میکائیل  گارباچوف  نے اپنے وزیر خارجہ کو ایک خصوصی پیغام کے ساتھ بغداد بھیجا تھا۔ سو ویت وزیر خارجہ نے بغداد میں صدر صد ام حسین سے ملاقات میں صدر گار با چو ف کا پیغام انہیں دیا تھا۔ جس کے بعد صدر صد ام حسین نے کویت سے اپنی فوجوں کے انخلا کا اعلان کیا تھا۔ لیکن بڑے بش نے عراق پر حملہ کا حکم دے دیا تھا۔ 2003 میں چھوٹے بش نے بھی یہ ہی کیا تھا۔ انٹرنیشنل ایٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر Mohmed El Baradei نے ایجنسی کی 3 ماہ کے intrusive inspections کے بعد سلامتی کونسل کو یہ رپورٹ دی تھی کہ عراق میں نیوکلیر ہتھیاروں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ 1990 سے عراق نے یورینیم درآمد نہیں کیا تھا۔ اور centrifuge enrichment میں استعمال کے لئے aluminium tubes بھی درآمد نہیں کی تھیں۔ اسی اثنا میں اقوام متحدہ کے Hans Blix کی رپورٹ بھی آنے والی تھی جو عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں تھی۔ بش انتظامیہ کو اس رپورٹ کی تفصیلات کا علم ہو گیا تھا۔ اور چھوٹے بش نے عراق پر حملہ کا حکم دے دیا تھا۔ صدر کلنٹن اور وزیر اعظم ٹونی بلیر نے 90 کی دہائی میں صدر صد ام حسین کے سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عملدرامد نہ کرنے پر عراق پر بمباری کی تھی۔ لیکن صدر بش نے بھی سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کی تھی۔ کیونکہ قرارداد میں صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اور عراق پر امریکہ کا حملہ بھی غیر قانونی تھا۔ جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل کوفی عنان نے کہا تھا۔
    تنازعوں کے پرامن حل کی کوششوں کے یہ تلخ تجربے دیکھنے کے بعد شمالی کوریا کے تنازعہ کا پرامن حل ایک سوال ہے۔ یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ کوریا کو دو حصوں میں امریکہ نے تقسیم کیا ہے۔ 50 کی دہائی میں امریکہ نے کوریا پر حملہ کیا تھا۔ ایک ملین سے زیادہ لوگ اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ کوریا کی جنگ امریکہ کی سلامتی میں لڑی گئی تھی۔ کوریا کو امریکہ کی سلامتی کے مفاد میں تقسیم کیا گیا تھا۔ کوریا کے ایک حصہ میں امریکہ کی سلامتی کا مفاد ہے۔ جبکہ کوریا کا دوسرا حصہ امریکہ کی سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ 60 سال سے امریکہ نے آدھے کوریا کو اپنا دشمن بنا کر رکھا ہے اور آدھے کوریا کو اپنا دوست اور اتحادی بنایا ہے۔ اور اس طرح ایک ختم ہونے والی جنگ کو نہ ختم ہونی والی جنگ بنا دیا ہے۔
    کوریا کا تنازعہ صرف کوریا کی حکومتیں اور عوام حل کر سکتے ہیں۔ ایک خاندان جو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ یہ اس خاندان کے درمیان ایک تنازعہ ہے۔ جس کو بیرونی طاقتیں اپنے مفاد میں استحصال کر رہی ہیں۔ اور اس کے حل میں رکاوٹیں بنی ہوئی ہیں۔ جنوبی اور شمالی کوریا کے عوام تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں۔ تقسیم خاندان دوبارہ ایک خاندان بننا چاہتے ہیں۔ کوریا کے تنازع کا بہترین حل Peoples to Peoples تعلقات میں ہے۔ دونوں طرف لوگوں کو سفر کی سہولتیں دی جائیں۔ لوگوں کو تجارت کے موقع دئیے جائیں۔ دونوں حصوں کے لوگ جب مل کر بھٹیں گے ایک دوسرے کو سنیں گے تو پھر حکومتوں میں کشیدگی پگلے گی۔ جنوبی اور شمالی کوریا کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اقوام متحدہ ایک اہم اور مثبت رول ادا کر سکتا ہے۔ عالمی امن، قوموں کی سلامتی اور تنازعوں کا پر امن حل اقوام متحدہ کے قیام کا اہم سبب تھا۔ اور اقوام متحدہ کو اپنی یہ  ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے سرگرم ہونے کی ضرورت ہے۔ کوریا کے تنازعہ کو حل کرنے کے لئے اقوام متحدہ ایک خصوصی سفیر نامزد کرے۔ جنوبی اور شمالی کوریا کے عوام اور حکومتوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں Facilitate کرے۔                                                                                                      

Wednesday, November 22, 2017

This Is Southeast Asia, Where Indonesia And Malaysia, Two Islamic Countries Are Among Communist, Buddhist and Christian Countries, Living With Peace, And Their Economic Development Is Remarkable

This Is Southeast Asia, Where Indonesia And Malaysia, Two Islamic Countries Are Among Communist, Buddhist and Christian Countries, Living With Peace, And Their Economic Development Is Remarkable       

While in Southwest Asia, all countries are Islamic, among them only Israel is a Jewish State. This region has no peace, always in turmoil and war, too much too long Israel’s warmongering, too much America’s meddling and collusion with repressive regimes      
مجیب خان
Vietnam

Vietnam aftermath by kai gunderse

Saigon today   Ho Chi Minh city


Saigon, Vietnam

Aleppo, Syria before war

Homs, Syria before war

Aleppo, after war of aggression

Homs, Syria
     صدر ٹرمپ جنوب مشرقی ایشیا کے پانچ ملکوں کے 12 روز کے دورے کے بعد واپس آۓ ہیں۔ اس دورے میں صدر ٹرمپ نے ویت نام میں APEC ملکوں کی اور بنکاک فلپائن میں ASEAN ملکوں کی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے جن جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کا دورہ کیا تھا ان میں جاپان جنوبی کوریا چین ویت نام  سنگاپور اور فلپائن شامل تھے۔ صدر ٹرمپ نے جنوبی کوریا اور ویت نام کی شاندار اقتصادی ترقی کو سراہا یا تھا۔ ویت نام کو سراہا تے ہوۓ صدر ٹرمپ نے کہا "یہ دنیا کے عظیم مجوزوں میں ایک ہے اور یہ واقعی دیکھنے کے قابل ہے" ویت نام جنگ کے 20 سال بعد جس میں لاکھوں لوگ مارے گیے تھے۔ ملک کی معیشت 1990 سے دنیا کے تیز تر ترقی کرنے والے ملکوں میں شمار کی جاتی ہے۔ و رلڈ بنک کے مطابق 2000 میں اس کا GDP 6.5 سالانہ تھا۔ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر ایٹم گراۓ تھے۔ اور 50 کی دہائی میں کوریا پر حملہ کیا تھا۔ اور 60 کی دہائی میں ویت نام سے جنگ لڑی تھی۔ اور جس طرح آج شام کھنڈرات نظر آ رہا ہے 40 سال قبل ویت نام کو امریکی فوجیں کھنڈرات میں چھوڑ کر آئی تھیں۔ اور 50 سال قبل جنگ ختم ہونے کے بعد کوریا کے حالات عراق کے حالات سے زیادہ مختلف نہیں تھے۔ ویت نام جنگ کمیونزم کے خلاف تھی۔ 50 ہزار امریکی فوجی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ اور جو امریکی فوجی ابھی تک زندہ ہیں ان کے اس جنگ کے زخم ابھی تک بھرے نہیں ہیں۔ لیکن ویت نام آج بھی ایک کمیونسٹ ملک ہے۔ اور ویت نام نے اس کمیونسٹ نظام میں حیرت انگیز صنعتی اور اقتصادی ترقی ہے۔ جس کی صدر ٹرمپ نے ہنوئی میں تعریف کی ہے۔ امریکہ کی بغل میں کیوبا کمیونسٹ ملک ہے۔ لیکن امریکہ نے کیوبا پر اقتصادی پابندیاں اس لئے لگائی ہیں کہ یہ کمیونسٹ ملک ہے۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ کمیونزم اور سوشلزم فیل ہو چکے ہیں۔ لیکن چین اور ویت نام میں کمیونسٹ بہت کامیاب ہیں۔ اور صدر ٹرمپ نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔
    جنوب مشرقی ایشیا کی یہ خوبی ہے کہ اس خطہ میں سیاسی نظام اور مذہبی عقیدے مختلف ہیں۔ لیکن اقتصادی ترقی سب کا ایک مذہب ہے۔ جاپان میں پارلیمانی جمہوریت ہے۔ اور جاپان کی Imperial سوچ نہیں ہے۔ جنوبی کوریا میں صدارتی جمہوری نظام ہے۔ چین اور ویت نام میں کمیونسٹ نظام ہے۔ فلپائن میں صدارتی نظام ہے۔ اور اکثریت کتھو لک  عیسائوں کی ہے۔ انڈونشیا اور ملائشیا اسلامی ملک ہیں۔ انڈونشیا میں صدارتی جمہوری نظام ہے۔ اور ملائشیا میں پارلیمانی جمہوریت ہے۔ لیکن ان ملکوں میں بعض اسلامی قوانین بھی رائج ہیں۔ سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس خطہ میں اسلامی ملکوں، عیسائی ملکوں، بدھ پرست اور کمیونسٹ ملکوں میں نظریاتی محاذ آ رائی نہیں ہے۔ اور یہ اس خطہ میں امن اور استحکام رکھنے کا پہلا اصول تھا۔ چین کی دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی عادت نہیں ہے۔ اس لئے چین کے اثر و رسوخ کا کسی کو خوف نہیں ہے۔ جاپان امریکہ کے ساتھ مل کر جنوبی کوریا یا ویت نام اور چین کے خلاف سازشیں نہیں کر رہا ہے۔ بلکہ ایک دوسرے کی اقتصادی ترقی سے سب افادہ حاصل کر رہے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں میں اقتصادی ترقی کا عمل جاری رکھنے میں چین کا ایک بہت بڑا Contribution ہے۔ South China Sea کے مسئلہ پر جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ملکوں کے چین سے سخت اختلافات ہیں۔ لیکن چین نے ان ملکوں سے طاقت کی زبان میں محاذ آ رائی سے گریز کیا ہے۔ اور پرامن سفارت کاری کی مہذب زبان میں گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اور تنازعہ میں شامل ملکوں نے بھی اس سفارتی عمل سے اتفاق کیا ہے۔ حالانکہ امریکہ کی South China Sea تنازعہ میں پارٹی بننے کی بڑی کوشش اور خواہش ہے۔ لیکن جنوب مشرقی ایشیا کے یہ ملک اس تنازعہ کو حل کرانے کا Contract امریکہ کو دینا نہیں چاہتے ہیں۔ یہ ایک Regional مسئلہ ہے اور ان کے خیال میں اسے  Internationalize نہیں کیا جاۓ۔ انڈونشیا اور ملائشیا جنوب مشرقی ایشیا کے دو بڑے اسلامی ملک عربوں کی سیاست کے ساۓ سے دور کمیونسٹ ملکوں، بدھ پرست ملکوں اور عیسائی ملکوں کے درمیان بہت بہتر حالات میں ہیں۔ اور اسلامی دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں اقتصادی ترقی میں بہت آگے ہیں۔
    نائن ایلون کے بعد بش چینی کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے منصوبہ میں انڈونشیا اور ملائشیا کو بھی شامل کیا تھا۔ انڈونشیا میں دہشت گردی کے کئی واقعہ بھی ہوۓ تھے۔ جن میں مقامی لوگوں کے علاوہ بڑی تعداد میں غیر ملکی سیاح بھی مارے گیے تھے۔ پھر ملائشیا میں بھی دہشت گردوں نے حملہ کیے تھے۔ اس کے بعد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوۓ تھے۔ اور یہ سلسلہ پھیل رہا تھا۔ جس کے بعد آسٹریلیا نیوزی لینڈ جاپان  جنوبی کوریا چین انڈونشیا اور ملائشیا نے بش چینی انتظامیہ کو جنوب مشرقی ایشیا میں دہشت گردی کی جنگ پھیلانے سے روکا تھا۔ انڈونشیا اور ملائشیا نے بیرونی مداخلت کے بغیر اپنے ملکوں میں اسلامی انتہا پسندوں کو قابو کر لیا تھا۔ Regional ملکوں نے انڈونشیا اور ملائشیا کی مدد کی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ایک لمبی جنگ نہیں بننے دیا تھا۔ اسی طرح شمالی کوریا ایٹمی پروگرام کے مسئلہ پر بھی جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں بالخصوص جنوبی کوریا اور جاپان نے امریکہ کو فوجی کاروائی سے روک دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ دورے میں جنوبی کوریا کے صدر نے ان پر یہ واضح کر دیا تھا کہ ان کی حکومت کی اجازت کے بغیر شمالی کوریا کے خلاف فوجی کاروائی نہیں کی جاۓ۔ Regional ملک اپنے Region کے تنازعوں کو زیادہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ اور انہیں حل کرنے میں امن اور استحکام کو بگڑنے نہیں دیتے ہیں۔ جبکہ غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت ان کے اپنے ایجنڈے کے مطابق ہوتی ہے۔ اور تنازعہ کے حل کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ دنیا کا تجربہ یہ ہے کہ بیرونی مداخلت تنازعہ کو حل کرنے کے بجاۓ اس تنازعہ سے نئے تنازعہ پیدا کر دیتی ہے۔
    جنوب مغربی ایشیا کی جغرافیہ اور سیاست جنوب مشرقی ایشیا سے بہت مختلف ہے۔ جنوب مغربی ایشیا عرب اسلامی ملکوں کی ایک Belt ہے۔ جس پر تقریباً 26 عرب اسلامی ملک ہیں۔ اور ان کے درمیان کمیونسٹ ملک ہے اور نہ ہی عیسائی ملک ہے۔ صرف ایک یہودی ریاست ہے۔ امن نام کی کوئی شہ اس خطہ میں نہیں ہے۔ اس خطہ میں استحکام کی جب ضرورت ہوتی ہے آ جاتا ہے۔ اور جب ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے استحکام چلا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی طاقتوں نے یہودیوں کو یورپ سے نکال کر عربوں کے درمیان ریاست بنا کر اس میں بیٹھا دیا تھا۔ اور دوسری طرف فلسطینیوں کو ان کے ابا ؤ اجداد کی سرزمین سے یہودی ریاست کے نئے مکینوں نے نکال دیا تھا۔ ان فلسطینیوں میں مسلمانوں کے ساتھ عیسائی بھی شامل تھے۔ عرب اسرائیل تنازعہ نے اس خطہ میں بیرونی مداخلت کو Permanent بنا دیا تھا۔ پھر اس خطہ کو بحرانوں میں رکھنے میں عرب بادشاہوں، امیر اور ڈکٹیٹروں کا بھی ایک رول ہے۔ مفاد پرست اور Greedy نوآبادیاتی اور سامراجی طاقتیں اس خطہ کی انسانیت سے زیادہ تیل اور گیس کی دولت میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ یہ خطہ بھی جنوب مشرقی ایشیا کی طرح ہو سکتا تھا اگر اس خطہ میں یہودی ریاست نہیں ہوتی۔ اگر اس خطہ میں تیل اور گیس کی دولت نہیں ہوتی۔ اگر اس خطہ میں عرب بادشاہتیں نہیں ہوتی۔ اگر اس خطہ میں سامراجی اور نوآبادیاتی  طاقتوں کی Meddling نہیں ہوتی۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس دنیا میں سب زیادہ ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ تھے۔ لیکن جنوب مغربی ایشیا میں ان کی پالیسیوں اور فیصلوں نے انہیں سب سے بڑا جاہل ثابت کیا تھا۔ اس خطہ کے ہر ملک سے انہوں نے جھوٹ اور مکاری کی تھی اور انہیں ایک دوسرے لڑایا تھا۔ اس خطہ میں ان کے کوئی اصول تھے اور نہ ہی کوئی اخلاقی قدریں تھیں۔ اور نہ ہی مثبت پالیسیاں تھیں۔ اس خطہ کی دولت کو انسانی بربادی کے کاموں میں برباد کرنا تھا۔ اس لئے جنوب مشرقی ایشیا کے تمام عرب اسلامی ملک جنہیں امریکہ کا اتحادی کہا جاتا ہے وہ سب تباہ حال ہیں۔ اور گردن تک تباہیوں کے مسائل میں دھنسے ہوۓ ہیں۔      جنوب مغربی ایشیا میں جو حکومتیں 40 سال سے اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف لڑنے کا تجربہ رکھتی تھیں۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس نے اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے پہلے انہیں اقتدار سے ہٹایا تھا۔ اور جو حکومتیں 50 برس سے سرد جنگ میں اسلامی انتہا پسند تنظیموں کی سرپرستی کر رہی تھیں۔ امریکہ نے اسلامی انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں ان ملکوں کو اتحادی بنایا تھا۔ اور ان کے ساتھ  اسلامی انتہا پسندی کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ پھر جنوب مغربی ایشیا میں صدیوں سے آباد عیسا ئیوں پر اسلامی انتہا پسندوں کے حملہ ہوتے تھے تو اسے عیسا ئیوں سے مسلمانوں کی نفرت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن فلسطین میں عیسائی فلسطینی اور اسلامی حما س دونوں اسرائیلی فوجی بربریت کا سامنا کر رہے ہیں تو امریکہ برطانیہ اور فرانس حما س کو دہشت گرد تنظیم کہتے ہیں۔ حالانکہ حما س نے امریکہ کے خلاف کبھی دہشت گردی نہیں کی ہے۔ جبکہ لبنان میں عیسائی، شیعہ حزب اللہ اور سنی سب ایک مخلوط حکومت میں شامل ہیں۔ اور اس حکومت نے ایک طویل خانہ جنگی کے بعد جس میں ہزاروں عیسائی شیعہ اور سنی مارے گیے تھے، لبنان کو امن دیا ہے۔ اور استحکام دیا ہے۔ لیکن امریکہ کو لبنان میں عیسا ئیوں شیعہ حزب اللہ اور سنیوں کا اتحاد بھی پسند نہیں ہے۔ امریکہ نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ اب امریکہ کو جو اسلامی انتہا پسند عیسا ئیوں پر حملہ کر رہے ہیں وہ بھی پسند نہیں ہیں۔ اور جو مسلمان لبنان میں عیسا ئیوں کے ساتھ  مخلوط حکومت میں شامل ہو کر عیسا ئیوں کے ساتھ امن سے رہ رہے ہیں وہ بھی امریکہ کو پسند نہیں آ رہا ہے۔ امریکہ نے جنوب مغربی ایشیا میں خود Realities accept کی ہیں اور نہ ہی اسرائیل اور سعودی عرب سے یہ کہا ہے کہ Now enough is enough, accept the realities and live with them.     
              
Baghdad before Iraq war in 2002


Another view of Baghdad before war

Iraq after war in 2004

Destruction of Iraq
Libya before and after Nato's war of regime change


Wednesday, November 15, 2017

Crown Prince Mohammed Bin Salman Should Not Be King of Saudi Arabia

Crown Prince Mohammed Bin Salman Should Not Be King of Saudi Arabia 

Saudi Arabia’s Survival Is In Conciliation, Not In Confrontation

مجیب خان
Saudi Arabia's King Salman with his son, Crown Prince Mohammed Bin Salman   

Ritz Carlton hotel in Riyadh, Guantanamo Bay of world's Corrupt wealthiest's Prison  

Prince Al-Waleed Bin Talal and Ameera Al-Taweel

Crown Prince Mohammed's Yacht
    اگر چند Rogue صومالی خلیج عدن میں گیارہ دولت مندوں، تاجروں اور سرمایہ کاروں کو اپنی تحویل میں لے لیتے جو اغوا کرنا ہوتا اور پھر ان سے لاکھوں ڈالر نکلواتے تو انہیں Pirate کہا جاتا۔ لیکن سعودی عرب میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حکم پر 11 شہزادوں حکومت کے بعض اعلی حکام اور تاجروں سمیت 2 سو کے قریب افراد کو کرپشن کے الزامات میں حراست میں لیا گیا ہے۔ اور انہیں حراست میں لینے کے 48 گھنٹے بعد یہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا کہ زیر حراست شہزادوں سے 800 بلین ڈالر نکلواۓ گیے ہیں۔ اور شہزادہ محمد کو امید ہے کہ ان لوگوں سے تقریباً ایک ٹیریلین ڈالر حکومت کے خزانے میں آئیں گے۔ صومالیہ اور سعودی عرب دونوں قبائلی معاشرے ہیں۔ تاہم سعودی عرب میں بادشاہت ہے اور صومالیہ میں غربت ہے۔ اس لئے مہذب قوموں کا رد عمل بھی مختلف ہے۔ دنیا صومالی Pirate کی مذمت کرتی۔ لیکن سعودی عرب میں جس طرح 210 لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ جن میں 11 شہزادے بھی شامل تھے۔ اور ان کے بنک اکاؤنٹ منجمد کیے گیے ہیں۔ ان کے ملک سے باہر جانے پر پابندی لگا دی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے کرپشن کے خلاف شہزادہ محمد کے اقدامات کی حمایت کی ہے۔ لیکن جہاں تک کرپشن کا سوال ہے تو سعودی حکومت اور شہزادہ محمد بھی اسی کر پٹ نظام کا حصہ ہیں۔ سعودی عرب دنیا کا ایک انتہائی دولت مند ملک ہے۔ لیکن سعودی عرب میں غربت اور بیروزگاری دراصل حکومت کے کر پٹ ہونے کے ثبوت ہیں۔ سعودی شاہ غیرملکی سربراہوں کو لاکھوں ڈالر کے انتہائی قیمتی تحفہ دیتے ہیں۔ اور پھر اس کے عوض اس ملک کے سربراہ سے Favor لیتے ہیں۔ یہ بھی دراصل ایک طرح سے کرپشن ہے۔ 2013 میں سعودی شاہ نے ملیشیا کے وزیر اعظم نجیب رازق کو681 ملین ڈالر تحفہ  میں دئیے تھے۔ جو ملیشیا میں ایک بہت بڑا اسکنڈل بن گیا تھا۔ ملیشیا کے اٹارنی جنرل نے اس کی تحقیقات کرنے حکم دیا تھا۔ وزیر اعظم نجیب نے اسے سعودی حکومت کو واپس کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن تحقیقات کے مطابق یہ ساری رقم واپس نہیں کی تھی۔ ملیشیا میں وزیر اعظم کا سعودی حکومت سے 681 ملین وصول کرنے کو کرپشن کہا گیا تھا۔ اور ان سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ شاہ عبداللہ مرحوم نے مصر میں فوجی حکومت کو اخوان المسلمون کی حکومت کا خاتمہ کرنے پر 20 بلین ڈالر دئیے تھے۔ یہ سعودی حکومت کی ایک خود مختار ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت تھی۔ اور دوسری طرف یہ سعودی عرب کا کرپشن تھا۔ لیکن مصر کی فوجی حکومت نے جب شام کی خانہ جنگی میں صدر اسد کو اقتدار سے ہٹانے کی مخالفت کی تھی تو پھر سعودی حکومت نے 20 بلین ڈالر روک لئے تھے۔ اسی دوران سعودی شاہ نے لبنان کی حکومت کو 3 بلین ڈالر لبنا نی فوج بنانے کے لئے دئیے تھے۔ تاکہ حزب اللہ کی ملیشیا پر لبنان کا انحصار ختم کیا جاۓ۔ Saad Hariri لبنان کے وزیر اعظم تھے۔ حزب اللہ نے لبنان کی بقا اور سلامتی میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اور حزب اللہ کو لبنان کے سیاسی نظام سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وزیر اعظم Saad Hariri اب سعودی عرب میں یرغمالی بنے ہوۓ ہیں۔ اور اطلاع یہ ہے کہ سعودی حکومت ان سے 3 بلین ڈالر واپس مانگ رہی ہے۔ وزیر اعظم کو خصوصی طور پر سعودی عرب بلایا گیا تھا۔
    سعودی شاہ کے انتہائی Lavish بیرونی دورے جن پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی کرپشن ہے۔ شاہ سلمان کے حالیہ تین روزہ روس کے دورے پر تقریباً 3 ملین ڈالر خرچ ہوۓ تھے جو سعودی خزانہ سے ادا کیے گیے تھے۔ جبکہ اس سال شاہ سلمان کے ایسٹ ایشیائی ملکوں جاپان، انڈونشیا، ملیشیا اور چین کے دوروں پر دس ملین ڈالر خرچ کیے گیے تھے۔ شاہ کے ساتھ دو سے تین سو لوگ جاتے ہیں۔ جن میں شاہی خاندان کے لوگ، بزنس سے وابستہ سعودی، شاہ کا ذاتی عملہ شامل ہوتا ہے۔ شاہ سلمان ایک ماہ کی موسم سرما کی تعطیلات گزارنے مراکش  آۓ تھے۔ شاہ کے ساتھ ان کے ایک ہزار مہمان بھی آۓ تھے۔ جن میں ان کے رشتہ دار، وزرا اور سیکورٹی کا عملہ بھی شامل تھا۔ ان کے لئے خصوصی طور پر ہوٹل میں 800 کمرے حاصل کیے گیے تھے۔ 200 کاریں Leased کی گئی تھیں۔ شاہ سلمان کی ایک ماہ کی تعطیلات پر 100 ملین ڈالر خرچ ہوۓ تھے۔ اور یہ اخراجات بھی کرپشن میں شمار ہوتے ہیں۔
    گزشتہ سال اکتوبر میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کفایت شعاری اسکیم کے تحت بجٹ میں کٹوتی کی تھی۔ حکومت کے ہر شعبہ میں اخراجات کم کرنے کے اقدامات کیے تھے۔ سرکاری کنٹریکٹ منجمد کر دئیے تھے۔ سول ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کر دی تھی۔ شاہی خاندان کی مراعات میں بھی کمی کی تھی۔ ولی عہد شہزادہ محمد بجٹ میں Austerity کے فیصلے کرنے کے بعد فرانس کے جنوب میں تعطیلات گزارنے چلے گیے تھے۔ یہاں ساحل کے کنارے پر شہزادہ محمد نے اپنے محل سے 440 فٹ کا Yacht دیکھا جو شہزادہ کو پسند آ گیا تھا۔ شہزادہ محمد نے اپنے معاون کو Yacht کا سودا کرنے کے لئے بھیجا۔ Yacht ایک روسی Yuri Shefler کا تھا جو Vodka Tycoon تھا۔ چند گھنٹوں میں Yacht کا سودا ہو گیا تھا۔ Yuri Shefler کے ایک قریبی ساتھی اور سعودی شاہی خاندان کے ذرائع کے مطابق Yacht 550 ملین ڈالر میں خریدا تھا۔ اور اس کی ادائیگی بھی اسی وقت کی گئی تھی۔ اور روسی نے بھی اسی روز Yacht خالی کر دیا تھا۔ اور یہ شہزادہ محمد کی ملکیت بن گیا تھا۔ ولی عہد شہزادہ محمد  نے سعودی بجٹ میں Austerity پروگرام کا اعلان کیا تھا۔ شاہی خاندان کے مراعات میں کمی کی تھی۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کر دی تھی۔ لیکن پھر فرانس میں شہزادہ کی تعطیلات پر اخراجات کے علاوہ 550 ملین ڈالر کا Yacht خریدا تھا۔ یہ Yacht بھی محل کی طرح ہیں۔ اور اس کے اخراجات بھی محل سے کم نہیں ہوں گے۔ اس کا بھی ایک عملہ ہو گا۔ اس کی سیکورٹی کے بھی اخراجات ہوں گے۔ شہزادہ محمد کے اس Behavior میں کرپشن تھا۔ اور اس کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ گزشتہ اگست میں Yacht کو Red Sea میں حادثہ کے نتیجہ میں اس کے ڈھانچہ کو زبردست نقصان پہنچا تھا۔
    شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کے مسائل کا حل نہیں ہیں بلکہ سعودی عرب کا مسئلہ ہیں۔ 2015 میں وزیر دفاع بننے کے بعد شہزادہ محمد نے یمن سے جنگ شروع کر دی تھی۔ یہ جنگ سعودی عرب نے اپنی مرضی سے شروع کی تھی۔ لیکن اس جنگ کو تین سال ہو گیے ہیں اور ابھی تک جنگ میں کامیابی نہ ہونے کا الزام ایران کو دیا جا رہا ہے۔ 10 ہزار یمنی اس جنگ میں مارے گیے ہیں۔ سعودی بمباری نے ایک قدیم تاریخ کے ملک کو کھنڈرات بنا دیا ہے۔ یمن کی جنگ ابھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ رہی تھی کہ داعش کے خلاف جنگ کا محاذ کھل گیا تھا۔ شام کی خانہ جنگی میں امریکہ فرانس سعودی عرب بحرین کویت  ترکی کے ملوث ہونے سے یہ ایک خوفناک جنگ بن گئی تھی۔ داعش کے خلاف جنگ بھی شام کی جنگ میں merge ہو گئی تھی۔ ان جنگوں میں کردوں کی اپنی جنگ شروع ہو گئی تھی۔ کرد  ترکی پر حملہ کرنے لگے تھے۔ اس خطہ میں یہ سعودی عرب کی قیادت تھی جو امریکہ کے ساتھ یہ جنگیں آرگنائز کرنے میں معاونت کر رہی تھی۔ 6 سال اوبامہ انتظامیہ کے ساتھ اتحادی بن کر اس خطہ میں تباہیوں کو فروغ دیا ہے۔ اس خطہ میں یہ سعودی عرب کا اثر و رسوخ ہے۔ جو قبائلی کلچر ہے۔ ہر طرف قبائلی ذہنیت لڑائیوں میں مصروف ہے۔
    سعودی عرب نے قطر سے بھی تعلقات خراب کر لئے ہیں۔ اور قطر کے ساتھ کشیدگی جنگ کے حالات بنا رہی ہے۔ اور اب  سعودی مداخلت لبنان کو عدم استحکام کر رہی ہے۔ حزب اللہ کے خلاف ایک نئی جنگ کی سازش ہو رہی ہے۔ سعودی وزیر خارجہ  ایران کو مداخلت کا الزام دیتے ہیں۔ لیکن ان کی حکومت خطہ میں ہر طرف مداخلت کر رہی ہے۔ ہر ملک میں انتشار پھیلایا جا رہا ہے۔ اس خطہ کے انتشار میں ایران کا کیا مفاد ہے؟ یا حزب اللہ کو انتشار سے کیا حاصل ہو گا؟ سعودی عرب کی بھی اسرائیل کی طرح اگر یہ حکمت عملی ہے کہ Permanent Enemy اس کی سلامتی کے مفاد میں ہیں۔ تو پھر سعودی عرب بہت جلد تنہا رہے جاۓ گا۔ شہزادہ محمد بن سلمان  2030 تک سعودی عرب کو ترقی یافتہ صنعتی ملک بنانا چاہتے ہیں۔ 500 بلین ڈالر سے  Silicon Valley کی طرز پر ایک نیا شہر بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن دوسروں کے شہروں اور ملکوں کو تباہ کر کے یہ کیسے ممکن ہو گا؟ سعودی عرب کے بقا اور سلامتی میں حکومت کو Confrontation کی پالیسی ترک کرنا ہو گی۔ اور Conciliation کی حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔ ایران اور سعودی عرب کا مفاد مشترکہ ہے کہ اس خطہ کا امن اور استحکام بحال کیا جاۓ۔ دونوں ملکوں میں اس ایک نقطہ پر تعاون ہو سکتا ہے۔ پھر اس خطہ کے ملکوں میں ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں سیاسی مداخلت نہ کرنے اور خطہ کے کسی بھی ملک میں بیرونی مداخلت کی اجازت نہیں دینے پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔ اقتصادی ترقی اور تجارت کا فروغ خطہ کے تمام ملکوں کی پہلی ترجیح تسلیم کی جاۓ۔ یہ فیصلے سعودی عرب کی قیادت کو کرنا ہیں۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ خطہ کے چند ملکوں پر اقتصادی بندشیں لگا کر اور چند ملکوں کو جنگوں کے حالات میں رکھ کر صرف سعودی عرب اور اسرائیل میں امن ہو گا اور صرف وہ  ترقی کریں گے۔                       

Friday, November 10, 2017

Bush-Cheney Administration’s Meddling In Pakistan’s 2008 Election And Collusion With Asif Zardari, Is The Model Of Russian Meddling In America’s 2016 Election And Collusion With Trump

Bush-Cheney Administration’s Meddling In Pakistan’s 2008 Election And Collusion With Asif Zardari, Is The Model Of Russian Meddling In America’s 2016 Election And Collusion With Trump     

مجیب خان
President Bush and President Zardari, Sept 23, 2008  

Prime Minister Raza Gillani with President Bush at the White House, July 28, 2008

Prime Minister Manmohan Singh and President Asif Zardari
     امریکہ میں آج کل اس پر بڑا ہنگامہ اور شور ہے کہ روس نے 2016 کے صدارتی انتخاب میں meddling کی تھی۔ اور روس کا ٹرمپ کے ساتھ collusion تھا۔ 7 نومبر کو امریکہ میں صدارتی انتخاب کا ایک سال ہو گیا ہے۔ لیکن صدارتی انتخاب ابھی تک سیاسی حلقوں اور میڈ یا کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اور یہ موضوع صدارتی انتخاب میں روس کی meddling اور ڈ ونالڈ ٹرمپ کے ساتھ روس کا collusion ہے۔ اس پر بحث میں صدر ٹرمپ کا پہلا سال تقریبا  گزر گیا ہے۔ اس سلسلے میں بیک وقت کئی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ایک خصوصی کمیٹی اس کی تحقیقات کر رہی ہے۔ جبکہ کانگرس اور سینٹ میں بھی یہ تحقیقات ہو رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کے عصا ب ان تحقیقات کی تلواروں کے شدید دباؤ میں ہیں۔ روس کی حکومت امریکہ کے صدارتی انتخاب میں مداخلت کے الزام کی تردید کر چکی ہے۔ صدر پو تن اس بکواس بحث کو کئی مرتبہ یہ کہہ کر مستر د کر چکے ہیں کہ امریکہ Banana Republic نہیں ہے۔ خود صدر ٹرمپ کے لئے بھی یہ الزام باعث شرم ہے کہ وہ روس کی مداخلت کے نتیجہ میں منتخب ہوۓ ہیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد گزشتہ 28 سالوں میں ایسے کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ روس نے مشرقی یورپی ملکوں میں جو سرد جنگ میں اس کے orbit میں تھے۔ ان کی داخلی سیاست میں مداخلت کی تھی۔ اور ان ملکوں کے انتخابات میں اپنی پسند کے امیدواروں کو اقتدار میں لانے کی کوشش کی تھی۔ جبکہ دوسری طرف امریکہ نے سرد جنگ ختم ہو نے کے بعد  اپنی اس روایت کو برقرار رکھا تھا۔ صدر جارج بش کے دور میں دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں By hook or By crook مداخلت ہو رہی تھی۔ روس اب کمیونسٹ ملک نہیں ہے۔ صدر پو تن نے سرد جنگ دور کی تمام پالیسیاں تبدیل کر دی ہیں۔ روس میں کل جو کمیونسٹ تھے وہ آج بڑے سرمایہ دار کمپنیوں کے مالک اور ارب پتی اور کھرب پتی بن گیے ہیں۔ انہوں نے یورپ اور امریکہ میں بھی کاروبار خرید لئے ہیں۔ یہاں سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ امریکہ کے معاشی نظام میں روسیوں کے داخل ہونے  پر امریکہ نے اسے مداخلت نہیں سمجھا تھا۔ امریکہ کو قرضہ دینے والے ملکوں میں روس ساتویں نمبر پر ہے۔ امریکہ روس کا تقریباً دو سو بلین ڈالر کا مقروض ہے۔ امریکہ جب کسی ملک کو قرضہ یا مالی امداد دیتا ہے تو اس ملک میں سیاسی مداخلت بھی کرنے لگتا ہے۔ لیکن صدر پو تن کا Political Economy کا تصور مداخلت یا اس ملک سے اپنی سیاسی پالیسیوں پر عملدرامد کرانا نہیں ہے۔ روس کی نئی سوچ اور امریکہ کی پرانی سوچ کا یہ تصادم ہے جسے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت دیکھا جا رہا ہے۔ اور روس کا ٹرمپ سے Collusion کہا جا رہا ہے۔
     صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں امریکی قوم پرستی کو ابھارا ہے۔ اپنی انتظامیہ کی پالیسیوں میں America First کی بات کی ہے۔ فری ٹریڈ اور ٹریڈ الائنس کو امریکہ کے مفاد میں تبدیل کرنے کا کہا ہے۔ اب یہ سمجھ سے باہر ہے کہ ایک ایسے صدارتی امیدوار کے لئے جس کے یہ خیالات تھے۔ انتخابات میں مداخلت کرنے میں روس کا کیا مفاد ہو سکتا تھا؟ امریکی عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت نے ڈونالڈ ٹرمپ کو صرف اس لئے ووٹ دئیے تھے کہ وہ جنگوں کے خلاف تھے۔ اور ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں امریکہ کو جنگوں سے نکالنے کی بات کی تھی۔ جبکہ ہلری کلٹن کے بارے میں امریکی عوام میں تاثر تھا کہ وہ منتخب ہونے کے بعد صدر بش اور صدر اوبامہ کی جنگجو نہ پالیسیوں کو جاری رکھیں گی۔ اور صدر پو تن بھی امریکی عوام کے ان خیالات سے اتفاق کرتے تھے۔ صدر پو تن امریکہ کو دہشت گردوں کے Networks کی جنگوں سے نکالنے میں صدر ٹرمپ کی مدد کرنا چاہتے ہوں گے۔ امریکی عوام صدارتی انتخاب میں روس کی Meddling اور روس کا ٹرمپ سے  Collusion ہونے کے دعووں پر یقین نہیں کر رہے ہیں۔
    یوں تو دوسرے ملکوں کی داخلی سیاست میں Meddling اور ان ملکوں میں اپنی پسند کے لیڈروں سے Collusion کی امریکہ کی پرانی عادت ہے۔ اور اس کی حال ہی میں پاکستان ایک مثال ہے۔ جہاں 2008 کے انتخابات میں امریکہ نے ‏Meddling کی تھی۔ اور بش چینی کا آصف زر داری سے Collusion تھا۔ امریکہ کے انتخاب میں روس کی Meddling کی باتیں کرنے والے پنڈت ذرا پاکستان کے 2008 کے انتخابات میں بش چینی ایڈمنسٹریشن کی Meddling کا جائزہ لیں تو انہیں پتہ چلے گا کہ Meddling کسے کہتے ہیں؟ انہیں پھر روس کی Meddling ایک Penny نظر آۓ گی۔ امریکہ کے میڈیا اور کانگرس سے یہ سوال ہے کہ امریکہ کی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا تھا کہ انتہائی کر پٹ امریکی لیڈر کے غیر ملکی بنکوں میں منجمد فنڈ ز اور اس کے خلاف عدالتوں میں کرپشن کے کیس ملکہ برطانیہ کی سفارش پر صدر امریکہ نے ختم کر دئیے تھے۔ اور قانون کی بالا دستی کو برقرار رکھا تھا۔ اور وہ پھر امریکہ کا صدر بن گیا تھا۔ لیکن یہ پاکستان کے ساتھ ہوا تھا۔ جہاں بش چینی ایڈمنسٹریشن نے پاکستان کی داخلی سیاست میں Meddling اور کر پٹ لیڈروں کے خلاف ایک عدالتی عمل کو Quash کرایا تھا۔ اور انہیں سیاست میں سرگرمی سے اچھل کود کرنے کے سرٹیفکیٹ دلواۓ تھے۔ زر داری کے 60 ملین ڈالر جو سوئس بنکوں میں حکومت پاکستان کی درخواست پر کرپشن کے الزامات میں منجمد کیے گیے تھے۔ بش چینی ایڈمنسٹریشن نے وہ بھی بحال کروا دئیے تھے۔ اور پاکستان کی داخلی سیاست میں یہ امریکہ کی Meddling اور بش چینی کا زر داری سے Collusion تھا۔
    بے نظیر بھٹو کے المناک سانحہ سے پیپلز پارٹی کو جو زبردست مقبولیت ملی تھی۔  پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا تھا۔ آصف زر داری نے بے نظیر بھٹو کے انتخابی ایجنڈے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تھا۔ اور 60 ملین ڈالر کے عوض جو Assignment دیا گیا تھا۔ وہ زر داری حکومت کا ایجنڈا بن گیا تھا۔ بش چینی کا زر داری کے ساتھ  Collusion  دراصل دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو Fit کرنا تھا۔ پاکستان جو یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی ہے۔ اور زر داری گیلانی حکومت نے اسے پاکستان کی جنگ تسلیم کر لیا تھا۔
    یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلے واشنگٹن پہنچے تھے۔ اور وائٹ ہاؤس میں صدر بش اور نائب صدر ڈک چینی سے وزیر اعظم گیلانی کی ملاقات ہوئی تھی۔ حسین حقانی بھی اس ملاقات میں وزیر اعظم کے ساتھ تھے۔ اس ملاقات میں وزیر اعظم کو یہ پیغام دیا گیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ اور طالبان سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اور وزیر اعظم گیلانی نے بش چینی سے اتفاق کرتے ہوۓ طالبان کا مکمل خاتمہ ہونے تک جنگ جاری رکھنے کا یقین دلایا تھا۔ وزیر اعظم کے بعد پھر صدر آصف زر داری واشنگٹن پہنچے تھے۔ وائٹ ہاؤس میں زر داری بھی صدر بش اور نائب صدر ڈک چینی سے ملے تھے۔ اس ملاقات میں بھی حسین حقانی  صدر زر داری کے ساتھ کھڑے تھے۔ بش چینی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا جو پیغام وزیر اعظم گیلانی کو دیا تھا۔ وہ ہی پیغام صدر زر داری کو دیا گیا تھا۔ اور صدر زر داری سے یہ عہد لیا گیا تھا۔ وہ جنگ جاری رکھیں گے اور اس جنگ میں Short Cut نہیں لیں گے۔ فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑے گی۔ پھر نائب صدر ڈک چینی نے اپنی مخصوص مسکراہٹ سے صدر زر داری کی طرف دیکھتے ہوۓ حسین حقانی کو امریکہ میں پاکستان کا سفیر بنانے کے لئے کہا کہ مسڑ حقانی دونوں ملکوں کے تعلقات کو قریبی رکھنے میں بہتر ثابت ہوں گے۔ وائٹ ہاؤس میں اس ملاقات کے بعد صدر زر داری بڑے مطعمین واپس اسلام آباد آۓ تھے۔ صدر زر داری کو یہ پختہ یقین ہو گیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف اگر وہ جنگ جاری رکھیں گے تو اس مرتبہ  اقتدار کے پانچ سال ضرور مکمل کر لیں گے۔
    یہ پاکستان کے Short-sighted لیڈر تھے۔ ان کے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ بش انتظامیہ چند ماہ کے بعد چلی جاۓ گی۔ اور ہمیں دہشت گردی کی جنگ میں پھنسایا جا رہا تھا۔ اور اس جنگ کی تباہیوں کا ہمیں سامنا کرنا ہو گا۔ امریکہ میں انتخاب ہونے والے تھے۔ وزیر اعظم گیلانی اور صدر زر داری نے امریکہ کے دورے میں انتخابی مہم کی سرگرمیاں بھی دیکھی تھیں۔ لیکن زر داری گیلانی حکومت نے بش چینی پلان کے مطابق فیصلے کیے تھے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پاکستان کی جنگ تسلیم کر لیا تھا۔ جنرل کیانی کو صدر زر داری نے دہشت گردوں کے خلاف  کاروائی کرنے کا مکمل اختیار دے دیا تھا۔ اور حسین حقانی کو واشنگٹن میں سفیر بنا دیا تھا۔ سفیر بننے کے بعد حقانی نے کہا کہ میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی ایسی بنیاد رکھوں گا کہ میرے بعد اسے کوئی تبدیل نہیں کر سکے گا۔ جنرل ضیا کی پالیسیوں کی حمایت کرنے کے بارے میں بھی حقانی کا یہ ہی کہنا تھا کہ جنرل ضیا کی پالیسیوں سے پاکستان کبھی نکل نہیں سکے گا۔
    وزیر اعظم گیلانی اور صدر آصف زر داری کے بعد جسٹس چودھری افتخار محمد کی سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی کرسی بحال ہونے کے بعد امریکہ کے دورے پر آۓ تھے جہاں ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی تھی۔ نیویارک بار کی طرف سے جسٹس چودھری کو پاکستان میں قانون کی بالا دستی قائم کرنے پر ایوارڈ دیا گیا تھا۔ امریکہ سے واپس آنے کے بعد چیف جسٹس صدر زر داری کے سر پر جیسے تلوار بن کر لٹک گیے تھے۔ وزیر اعظم گیلانی کو چیف جسٹس چودھری نے سوئس حکومت کو آصف زر داری کے خلاف کرپشن کیس دوبارہ کھولنے کے لئے خط لکھنے کا حکم دیا تھا۔ چیف جسٹس کا یہ حکم دراصل امریکہ کے لئے اس کی ضمانت تھا کہ صدر زر داری 60 ملین لینے کے بعد بش چینی سے اپنے Commitment سے پھر نہیں سکتے تھے۔ چار سال تک صدر زر داری کو اس عصا بی دباؤ میں رکھا تھا کہ چیف جسٹس چودھری کا اب کیا فیصلہ ہو گا؟
    پشتونوں کے لیڈر اسفندر یار ولی بھی واشنگٹن آۓ تھے۔ انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی بنا لیا تھا۔ سرحد کے دونوں طرف پشتونوں کے علاقہ دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے محاذ بنے ہوۓ تھے۔ پشتون مر رہے تھے۔ لیکن اسفندر یار ولی کی خاموشی مجرمانہ تھی۔ پشاور میں دہشت گردوں کے حملوں میں پشتون بچوں عورتوں اور مردوں کے خون سے سڑکیں سرخ ہو گئی تھیں۔ لیکن اسفندر یار ولی نے سرحد کے دونوں طرف پشتونوں کو پشتونوں کے خلاف دہشت گردی کرنے سے روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔ یہ پشتونوں کے لیڈر تھے۔ انہیں پشتونوں کو بچانے کے لئے باہر نکلنا چاہیے تھا۔ پشتونوں کو ایسے مفاد پرست لیڈروں کے کردار کو یاد رکھنا چاہیے۔ ان کی شعلہ انگیز تقریروں سے متاثر ہو کر انہیں کندھوں پر اٹھا کر اقتدار کے ایوانوں میں لے جانے کی سیاست اب ختم کی جاۓ۔ جمہوری عمل کا مطلب سیاست سے گندہ خون نکالنا اور سیاست کو نیا خون دنیا ہوتا ہے۔ یہ بڑے حیرت کی بات تھی کہ 2008 کے انتخابات میں امریکہ کی پاکستان میں Meddling  اور بش چینی کا زر داری سے Collusion کا پاکستان میں کوئی نوٹس نہیں لیا گیا تھا۔ پاکستان کے سیاسی حلقوں اور میڈیا نے بھی اسے اہم نہیں سمجھا تھا۔ حالانکہ یہ مشرقی پاکستان کے سانحہ سے کم المیہ نہیں تھا۔