Tuesday, May 31, 2016

Time Off From Afghanistan

Time Off From Afghanistan    

The Last 36 Years Pakistan Has Been Involved In Afghanistan, What Has Pakistan Got? Hand Over Afghanistan To India

مجیب خان


        بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اب امریکہ کی ڈارلنگ بن گیے ہیں۔ بش انتظامیہ میں پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کو امریکہ کی ڈارلنگ کہا جاتا تھا۔ یہ صرف سامراجی طاقتوں کے نظام میں ہوتا ہے۔ جو اپنی ضرورت کے مطابق ڈارلنگ بنا لیتی ہیں۔ اور اپنی ضرورتوں کے مطابق انہیں پھر Maid بنا دیتی ہیں۔ صدر جنرل مشرف نے افغانستان میں طالبان کے خلاف 180 ڈگری سے کیونکہ یو ٹرن لیا تھا۔ اس لئے وہ ڈارلنگ بن گیے تھے۔ پھر بش انتظامیہ نے یو ٹرن لے لیا تھا۔ اور بھارت کے ساتھ امریکہ کے اسٹرٹیجک تعلقات قائم ہو گیے تھے۔ امریکہ نے بھارت کو پاکستان کا دوست بنانے کے بجاۓ بھارت نے امریکہ کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور امریکہ اور بھارت کے یہ اسٹرٹیجک تعلقات پاکستان کو ٹارگٹ کر رہے تھے۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فوجوں کو ویت نام سے زیادہ شرمناک شکست کی وجہ امریکہ اور بھارت اسٹرٹیجک تعلقات تھے۔ بھارت افغانستان میں اپنا سیاسی کھیل کھیل رہا تھا۔ امریکہ اور نیٹو کے لئے یہ کتنا باعث ندامت ہے کہ انہیں دنیا کے انتہائی غریب ملک میں جو 20 سال سے خانہ جنگی میں بالکل تباہ ہو چکا تھا۔ اور اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ ایک ایسے ملک میں انہیں شکست ہوئی تھی۔ بھارت کا افغانستان میں مفاد صرف یہ تھا کہ پاکستان کو افغانستان کے حالات میں پھنسا کر اسے اچھی طرح رگڑا جاۓ۔ اور بھارت نے اس مقصد میں امریکہ کے ساتھ اپنے اسٹرٹیجک تعلقات کا بھر پور Exploit کیا تھا۔ کوئی یہ تسلیم کرے یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے۔
      افغان جنگ کے دوران امریکہ بھارت اسٹرٹیجک تعلقات پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کو ٹارگٹ بنا رہے تھے۔ ان کے خلاف ایک باقاعدہ پراپگنڈہ مہم چلائی جا رہی تھی۔ اس طرح القاعدہ اور طالبان کو فوج اور آئی ایس آئی پر حملہ کرنے کی شہ مل رہی تھی۔ اور فوج اور آئی ایس آئی پر القاعدہ اور طالبان کے حملہ شروع ہو گیے تھے۔ اور بھارت کے لئے یہ اصل کامیابی تھی۔  جس سے تاثر یہ تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو طالبان کے خلاف جنگ میں اتحادی بنایا تھا۔ اور بھارت پاکستان کے خلاف اتحادی تھا۔ یہ امریکہ کی اپنی پالیسی تھی جس نے نیٹو کو افغانستان میں ناکام بنایا تھا۔ اور طالبان نے اس کا کریڈٹ لیا ہے۔ بش کی قومی سلامتی ٹیم نے نامعلوم کیا سوچ کر بھارت کو افغانستان میں پاکستان کے مدمقابل کھڑا کر دیا تھا۔ حالانکہ انہیں دونوں ملکوں کے کشیدہ اور حقارت کے تعلقات کا علم تھا۔ اس جنگ میں یہ امریکہ کا ایک بہت بڑا Blunder تھا۔ جو افغانستان میں امریکہ کی شکست کا سبب بنا تھا۔ امریکہ بھارت اسٹرٹیجک تعلقات پر کسی کو اعتراض نہیں تھا۔ لیکن امریکہ کو ان تعلقات کو پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں سے دور رکھنا چاہیے تھا۔ تاکہ افغان جنگ کو کامیاب بنایا جاۓ۔ اور جب افغانستان میں مکمل امن اور استحکام بحال ہو جاتا اس وقت بھارت افغانستان کے ساتھ معمول کے تعلقات فروغ دے سکتا تھا۔ بش انتظامیہ افغان جنگ کو زیادہ اہمیت بھی نہیں دے رہی تھی۔ اس لئے ایک نامکمل جنگ کو چھوڑ کربش انتظامیہ عراق چلی گئی تھی۔ اور جب یہ واپس افغانستان آئی تھی تو بھارت کے ساتھ اس کا Joint Strategic Venture  شروع ہو گیا تھا۔ نائن ایلون  کے بعد بش انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ نئے تعلقات کے سلسلے میں بڑے بلند وعدہ کیے تھے۔ صدر جنرل مشرف کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ نئے تعلقات پرانے تعلقات نہیں ہوں گے۔ اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو ایک قریبی اتحادی بنایا تھا۔ پاکستان کو نیٹو رکن ملک کا درجہ دیا تھا۔
      پھر یہ وعدے اور یقین دہانیاں کہاں چلی گئی تھیں۔ اتحادی بنا کر پاکستان کی تذلیل کی جا رہی تھی۔ اس کی خود مختاری اور اقتدار اعلی پر حملہ کیے جا رہے تھے۔ یہ بھارت کو بڑا دکھانے اور پاکستان کو نچا دکھانے کی گھٹیا پالیسیاں تھیں۔ اوبامہ انتظامیہ کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات پر آمادہ نہیں کر رہا ہے۔ جب پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کے لئے آمادہ کر لیا تھا۔ اس وقت بش انتظامیہ کا کہنا یہ تھا کہ طالبان سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں اور ان کا خاتمہ کیا جاۓ گا۔ امریکہ کی یہ پالیسی اتحادیوں کو Mental بنا رہی تھی۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر امریکہ افغانستان میں کیا چاہتا تھا۔ 13 سال میں امریکہ نے جتنے طالبان مارے تھے۔ اتنے ہی طالبان اور پیدا کر دئیے تھے۔ اس کا فوجی حل نہیں تھا۔ اس کا سیاسی حل نہیں تھا۔ پھر اس کا ایک ہی حل تھا کہ طالبان کے بھاری اکثریت کے صوبوں کو ہیروشما بنا دیا جاتا۔ جاپان کی طرح افغانستان میں بھی امن آ جاتا۔
      صدر جنرل پرویز مشرف نے 2005 میں افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن پھر صدر کرزئی نے صدر بش سے کہا کہ افغانستان معاشی طور پر ابھی اتنا مستحکم نہیں ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں افغانوں کو بسا سکے گا اور انہیں روز گار فراہم کر سکے گا۔ لہذا پاکستان ابھی ان افغانوں کو اپنے ملک میں رہنے دے۔ جنرل مشرف کیونکہ امریکہ کی ڈارلنگ تھے۔ صدر بش کی درخواست پر انہوں نے یہ فیصلہ بدل دیا تھا۔ پھر 2006 سے امریکہ اور کرزئی حکومت پاکستان کو یہ الزام دینے لگے کہ پاکستان نے طالبان کو پناہ دی ہے۔ اور یہ طالبان پاکستان سے افغانستان کے اندر دہشت گردی کرنے آتے ہیں۔ پاکستان میں اگر نتھن یاہو جیسا لیڈر ہوتا وہ امریکہ سے واپس آ کر افغان مہاجرین کے پاکستان سے انخلا کے احکامات دے دیتا۔ صدر بش اور صدر کرزئی کو چیخ پکار کرنے دیتا۔ انہیں یہ بتا دیا جاتا کہ پاکستان کا یہ فیصلہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ ہے۔ اور اس سے افغانستان میں دہشت گردی ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فوجیں تھیں اور وہ پاکستان سے آنے والے افغانوں کو بسانے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ حکومت کے یہ فیصلہ پاکستان کی سلامتی پر ڈرون حملوں کو روکنے کے تھے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کوئی امریکہ کی ڈارلنگ بنا ہوا تھا اور کوئی کلمہ گو افغانوں کے عشق میں مبتلا تھا۔ پاکستان کے حکمران اور دفتر خارجہ کے حکام میں Bold فیصلہ کرنے کی مردانگی نہیں تھی۔
      امریکہ کے پاس پاکستان کو ذلیل اور خوار کرنے کے لئے ایف 16 طیارے اور مالی امداد جیسے دو پتہ ہیں۔ 90 کے عشرے میں سرد جنگ ختم ہونے کے بعد جب امریکہ کو پاکستان کی ضرورت نہیں تھی۔ تو پھر سینیٹر Larry Pressler ایکٹ سینٹ نے منظور کیا تھا۔ جس کے تحت پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فراہمی روک دی تھی۔ حالانکہ پاکستان نے 600 ملین ڈالر ادا کر دئیے تھے۔ اور پاکستان کی مالی امداد بھی بند کر دی تھی۔ اور اب پھر سینٹ نے پاکستان کی 300 ملین ڈالر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اخراجات کی رقم روک لی ہے۔ اور امریکہ کی امداد سے ایف 16 طیارے خریدنے کو بھی بلاک کر دیا ہے۔ جبکہ ایوان نمائندگان نے پاکستان کی 450 ملین ڈالر امداد بلاک کر دی ہے۔ پاکستان آخر کب تک ان Tortures کا سامنا کرتا رہے گا؟ فرض کیا جاۓ کہ افغانستان میں اگر امریکہ کو کامیابی ہو جاتی۔ طالبان حکومت کا حصہ بن جاتے۔ اور افغانستان میں امن اور استحکام بھی آ جاتا تب بھی پاکستان کے ساتھ برتاؤ مختلف نہیں ہوتا۔ امریکہ بھارت اور افغانستان ایک ہوتے۔ اور پاکستان کو افغانستان سے دور رکھا جاتا۔ ہر صورت میں پاکستان کی اہمیت گرانا مقصد ہے۔
      وزیر اعظم نریندر مودی گزشتہ ماہ سعودی عرب کے دورے پر گیے تھے۔ سعودی شاہ نے ان کی بڑی آؤ بھگت کی تھی۔ بھارت کے ساتھ اقتصادی اور سرمایہ کاری کے کئی بڑے معاہدے ہوۓ تھے۔ سعودی عرب نے 60 بلین ڈالر بھارت میں انویسٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس میں بھارت میں انفراسٹیکچر کی تعمیر بھی شامل تھا۔  اور اب ایک ماہ بعد وزیر اعظم نریندر مودی ایران کے دورے پر آۓ تھے۔ اور ایران میں مودی نے سعود یوں کے انویسٹمینٹ میں سے 500 ملین ڈالر سے چابہار بندر گاہ تعمیر کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اور چابہار سے زاہدان تک ریلوے لائن بچھانے کا معاہدہ بھی ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بھارت نے ایران کے ساتھ دوسرے شعبوں میں بھی بارہ معاہدے کیے ہیں۔ اب یہ دیکھ کر سعودی اور اسرائیلی ایک دوسرے  کا سر کھجا رہے ہوں گے۔ سعودی جی سی سی ملک اور اسرائیل ایران کو اقتصادی طاقت بن کر ابھرنے سے روک رہے ہیں۔ لیکن کیونکہ امریکہ کا اشارہ تھا۔ اس لئے سعودی بھی خاموش ہیں۔ امریکی میڈیا میں بھی بلیک آؤٹ ہے۔ اگر بھارت کی جگہ پاکستان ہوتا تو امریکی میڈیا میں سرخیاں لگ رہی ہوتیں کہ سعود یوں کے پیسوں سے پاکستان یہ بندر گاہ تعمیر کر رہا ہے۔ جیسے ایٹمی دھماکوں پر کہا گیا تھا کہ پاکستان نے مغربی ٹیکنالوجی چوری کی تھی۔ اور یہ اٹم بم بناۓ تھے۔ پھر یہ کہا گیا کہ چین نے پاکستان کو یہ ٹیکنالوجی دی تھی۔ اس وقت بھی پاکستان کی تذلیل کرنا تھا۔
      جس طرح انسان اپنی بیماری کے علاج اور زندہ رہنے کے لئے ڈاکٹر کی انتہائی کڑوی گولیاں نگلتا ہے۔ اسی طرح اب پاکستان کے اداروں اور حکمرانوں کو پاکستان کے وقار اور بقا کے لئے انتہائی کڑوے فیصلے کرنا ہوں گے۔ اس سے قبل کے امریکہ کا دوسرا ڈرون پاکستان میں گرے۔ پاکستان کو فوری طور پر افغانستان کے امور سے قطع تعلق ہونے کا اعلان کرنا چاہیے۔  طالبان کو امن کی میز پر لانے کی فراڈ سیاست سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کرنا چاہیے۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات Freeze کر دینا چاہیے۔ طالبان اور افغان مہاجرین کو پاکستان سے فوری طور پر نکال دیا جاۓ۔ جیسا کہ بلوچستان کے وزیر داخلہ نے کہا ہے بالکل اسی لہجہ میں بات کی جاۓ۔ اور افغانستان کو بھارت کے حوالے کر دیا جاۓ۔ بھارت ایران میں چابہار بندر گاہ تعمیر کر رہا ہے۔ جہاں سے وہ افغانستان اور وسعت ایشیا میں اپنے لئے تجارتی منڈیاں دیکھ رہا ہے۔ لیکن اس کے لئے  بھارت کو افغانستان میں امن اور استحکام چاہیے۔ لہذا وہ خود افغانستان کے ساتھ مل کر امن اور استحکام بھی لاۓ گا۔ پاکستان اب بھارت کے لئے افغانستان میں کیوں ذلیل و خوار ہو۔
      جہاں تک افغانستان میں بھارت کا انفلوئنس بڑھ جانے کا سوال ہے پاکستان کو اس کی بالکل فکر نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان میں جب 46 بلین ڈالر کا چین کا انویسٹمینٹ ہو گا تو چین اس کا تحفظ کرنا بھی جانتا ہے۔ خلیج میں امریکہ کا اتنا بڑا انویسٹمینٹ بھی نہیں تھا۔ لیکن خلیج مغرب کی اقتصادی لائف لائن تھا۔ لہذا امریکہ نے اس کا دفاع کیا تھا۔ پھر پاکستان کے علاوہ چین کے افغانستان کے قدرتی معدنیات  کے ذخائر میں بھی انویسٹمینٹ کے بڑے اقتصادی سمجھوتے ہیں۔ لہذا افغانستان میں چین کا اثرورسوخ زیادہ اہم ہو گا۔ پاکستان کو اس وقت صرف چین کے اقتصادی منصوبوں کی تکمیل پر توجہ دینا چاہیے۔ دہشت گردی کی Torture جنگ سے اب چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے۔ 36 سال سے پاکستان افغانستان کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ اور ملا کیا ہے صرف امریکہ کے ڈرون اور گالیاں مل رہی ہیں۔ افغانستان کا سر درد اب بھارت کو دے دیا جا ۓ۔                    

Saturday, May 28, 2016

The American President Is A Weapons Salesman Who Markets War

The American President Is A Weapons Salesman Who Markets War

مجیب خان 
President Obama visits Vietnam and removes the decades-long arms embargo

G.C.C. Officials meet with U.S. Officials
   
       ویت نام کی کمیونسٹ حکومت کے ساتھ امریکہ نے 1995 میں تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور تعلقات بحال ہونے کے  پانچ سال بعد صدر بل کلنٹن پہلے امریکی صدر تھے جنہوں نے 2000 میں ویت نام کا دورہ کیا تھا۔ اور اب 16 سال بعد صدر اوبامہ ویت نام کے تین روزہ دور پر آۓ ہیں۔ حکومت کی یا کمیونسٹ پارٹی کی کوئی اعلی شخصیت صدر اوبامہ کا استقبال کرنے ایرپورٹ نہیں آئی تھی۔ ایک 25 سالہ لڑکی نے صدر اوبامہ کو ایرپورٹ پر پھولوں کا گلدستہ پیش کیا تھا۔ اور حکومت نے  دفتر خارجہ کے دوسرے درجہ کے چند افسر ایرپورٹ بھیجے تھے۔ 2000 میں صدر بل کلنٹن جب ویت نام آۓ تھے اس وقت ہنوئی میں امریکہ کے سفیر نے ایرپورٹ پر ان کا استقبال کیا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کا یہ پروٹوکول شاید اس لئے تھا کہ ویت نام جنگ انہوں نے جیتی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی، حکومت اور فوج میں ابھی Old Guards  موجود ہے جو ویت نام جنگ ابھی بھولے نہیں ہیں۔ ویت نام دو نسلوں میں تقسیم ہے ایک ویت نام جنگ کی نسل ہے اور دوسری ویت نام جنگ ختم ہونے کے بعد کی نسل ہے۔ پہلی نسل کے سامنے ویت نام جنگ کی یادیں ابھی زندہ ہیں۔ دوسری نسل اسے  با خوبی سمجھتی ہے۔ اس نسل کے ذہین میں سوال یہ ہو گا کہ ان کے بڑوں نے دنیا کی اتنی بڑی طاقت کو شکست کیسے دی تھی؟ دوسرے دن صدارتی محل میں صدر اوبامہ کا ویت نام کے صدر نے خیر مقدم کیا تھا۔ اور صدر اوبامہ کو گارڈ آف آنر دیا گیا تھا۔ اس موقع پر کمیونسٹ پارٹی کے اعلی حکام بھی موجود تھے۔ جن کے سر فخر سے بلند تھے۔ کہ امریکہ نے ان کے آگے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔
       صدر اوبامہ ایسے حالات میں ویت نام گیے تھے۔ کہ جب ان کی تھالی دنیا بھر کے تنازعوں جنگوں اور خانہ جنگیوں سے بھری ہوئی تھی۔ اور ویت نام جنگ کے بعد سے ابھی تک امریکہ کو کسی جنگ میں کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ افغان اور عراق جنگ بھی امریکہ کے لئے ویت نام جنگ ثابت ہوئی ہے۔ اور ویت نامی بھی یہ دیکھ رہے ہیں۔  شام اور لیبیا ویت نامیوں کے ذہن میں لاؤس اور کمبوڈیا کا احساس دلا رہے  ہوں گے۔ ویت نامیوں نے بھی بڑی خوفناک اور خونی جنگ لڑی تھی۔ ویت نام بھی بالکل تباہ ہو گیا تھا۔ اس جنگ میں تقریباً دو ملین ویت نامی مارے گیے تھے۔ اور 58 ہزار امریکی فوجی مارے گیے تھے۔ تقریباً اتنی ہی بڑی تعداد میں امریکی فوجی زخمی ہوۓ تھے جو ابھی تک ویت نام جنگ کے زخموں کے ساتھ زندہ ہیں۔ جنگ کے بعد ویت نام کی تعمیر نو اس طرح کی گئی ہے کہ ویت نام کی ہر نسل اس جنگ کو کبھی بھلا نہیں سکے گی۔ ہنوئی اور ہوچی من سٹی کی شاہراہوں اور چورنگیوں پر ویت نامی فوج نے امریکہ کے جو ٹینک توپیں بکتر بند گاڑیاں طیارے تباہ کیے تھے۔ انہیں شاہراہوں اور چورنگیوں پر جنگ کی یاد گار کے طور پر کھڑا کیا ہے اور اس کے ساتھ اس کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ صدر اوبامہ کا موٹر کیڈ ہنوئی کی ان شاہراہوں سے گزرا ہو گا اور صدر اوبامہ نے بھی ویت نام جنگ کی یہ یاد گاريں دیکھی ہوں گی۔ ویت نام جنگ جب شروع ہوئی تھی صدر اوبامہ اس وقت تین سال کے تھے۔ صدر اوبامہ سرد جنگ میں پیدا ہوۓ تھے۔ سرد جنگ میں بالغ ہوۓ تھے۔ سرد جنگ میں تعلیم حاصل کی تھی اور اب امریکہ کے صدر ہیں۔ اور دنیا میں اب گرم جنگوں کی کمانڈ کر رہے ہیں۔
       ویت نام کی آبادی کے دو تہائ نوجوان ہیں جو 1975 کے بعد پیدا ہوۓ ہیں۔ اس نسل کے لئے ان کے بڑوں نے جنگ لڑی تھی۔ قربانیاں دیں تھیں۔ آج اس نسل کا مستقبل روشن ہے۔ یہ نسل اقتصادی طور پر مستحکم ہے۔ اور یہ نسل ترقی کی جانب گامزن ہے۔ ویت نام نے تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جو شاندار ترقی کی ہے صدر اوبامہ اسے سراہا رہے تھے۔ ویت نام کی تعمیر نو کے لئے کسی نے مارشل پلان نہیں دیا تھا۔ ویت نام کی کمیونسٹ حکومت نے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لئے تھے۔ ویت نام کے کمیونسٹوں نے امریکی سامراج سے خود جنگ لڑی تھی۔ اور جنگ میں فتح مند ہونے کے بعد اپنے ملک کو خود تعمیر کیا تھا۔ اقبال کا فلسفہ خودی ویت نامی قوم میں نظر آتا ہے۔ ویت نام آج دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت ہے۔ 1995 میں امریکہ اور ویت نام کے تعلقات بحال ہونے کے بعد دونوں ملکوں میں تجارت 450 ملین ڈالر سے گزشتہ سال45 بلین ڈالر پر پہنچ گئی ہے۔ ویت نام کے ٹیلی ویژن، اسمارٹ فون، کپڑے اور Seafood کا امریکہ ایک بڑا خریدار ہے۔ جبکہ مشینری، آٹوموبیل، کاٹن، پلاسٹک Material اور Animal Feed and Material ویت نام امریکہ سے خریدتا ہے۔
       لیکن امریکہ کو کمیونسٹوں کے خلاف جنگوں سے حاصل کیا ہوا ہے۔ اس وقت امریکہ کی ساری سرمایہ دارانہ ٹریڈ کمیونسٹ ملکوں سے ہو رہی ہے۔ جن میں چین پہلے نمبر پر ہے۔ ویت نام کے ساتھ تجارت کو مسلسل فروغ مل رہا ہے۔ کیوبا کے ساتھ تجارت شروع کی جا رہی ہے۔ امریکی عوام کی زندگیوں میں کمیونسٹوں سے جنگ کرنے یا کمیونسٹوں کے ساتھ تجارت کرنے سے کوئی نمایاں فرق نہیں آیا ہے۔ صدر ریگن جب سوویت کمیونسٹوں سے لڑ رہے تھے تو وہ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ ہم اپنے Children اورGrand Children کے مستقبل اور  آزادی کے لئے یہ جنگ لڑ رہے تھے۔ اور صدر ریگن کے دور میں جو بچے پیدا ہو رہے تھے۔ وہ 20 سال بعد اپنی آزادی سلامتی اور خشحالی کا دفاع کرنے کی جنگ لڑنے عراق اور افغانستان گیے تھے۔ اور وہاں مارے گیے تھے۔ نیویارک ٹائمز نے چار صفحات پر ان امریکی فوجیوں کی تصویریں ان کی پیدائش کی تاریخ اور عمروں کے ساتھ شائع کی تھیں۔ ان میں تقریباً دو تہائ 20 سے 30 کی عمروں میں تھے۔ انہوں نے ابھی دنیا کی خوبصورتی بھی نہیں دیکھی تھی کہ قبرستان ان کی دنیا بن گیا تھا۔ میں 1984 میں ایک امریکی ویت نام Veteran سے ملا تھا۔ جو پچیس چھبیس سال کا تھا۔ اس کے بائیں جانب پلاسٹک کی ایک بوتل لٹکی ہوئی تھی۔ اور ٹیوب اس کے پیٹ سے اس بوتل میں جا رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا یہ کیا ہے۔ کہنے لگا ویت نام جنگ نے مجھے یہ کینسر دیا تھا۔ جو Agent Orange کی وجہ سے ہوا تھا۔ امریکی فوج نے 1962 سے 1971 کے دوران یہ کیمیائی اسپرے ویت نام میں جنگلوں پر کیا تھا۔ اس کا مقصد جنگلوں کو صاف کرنا اور شمالی ویت نام فوجوں کی فصلیں تباہ کرنا تھا۔ جو دشمن کی فوج کو خوراک دیتی تھیں۔ شمالی ویت نامی گوریلے ان جنگلوں سے امریکی فوج کے خلاف گوریلا جنگ کر رہے تھے۔ بہرحال یہ امریکی ویت نام Veteran علاج کرانے فلوریڈا چلا گیا تھا۔ اور کچھ ماہ بعد اس کی Death ہو گئی تھی۔ آج بھی میں اسے بھولا نہیں ہوں۔ صدر اوبامہ ہنوئی میں گھوم رہے تھے اور یہ ویت نام Veteran میری نگاہوں کے سامنے تھا۔ میرے ذہن میں سوال یہ تھا کہ اس 26 سالہ امریکی نوجوان نے ویت نام کے لئے یہ قربانی دی تھی یا امریکہ کی سیکورٹی کے لئے قربانی دی تھی؟
       اور اب ان حالات میں کہ جب مشرق وسطی میں ایک درجن سے زیادہ جنگیں لڑی جا رہی ہیں۔ امریکہ اب مشرقی ایشیا میں کشیدگی اور فساد کو ہوا دے رہا ہے۔ اور بحر جنوبی چین کے تنازعہ کو ایک بڑی جنگ بنانے کی حکمت عملی پر جیسے کام ہو رہا ہے۔ اس کشیدگی کے لئے جنوبی کوریا اور جاپان کی فوجوں کو مسلح کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے ساتھ ان کی فوجی مشقیں ہو رہی ہیں۔ فلپائن کو امریکہ 50 کے دہائی میں لے آیا ہے۔ اور صدر مار کوس کے دور میں امریکہ کے جو فوجی اڈے تھے وہ اب دوبارہ کھل گیے ہیں۔ فلپائن کی نئی دنیا پرانی تاریخ میں آ گئی ہے۔ فلپائن کی فوج کی بیٹری چارج کی جا رہی ہے۔ اور اسے چین کے خلاف تیار کیا جا رہا ہے۔ اور اب ویت نام کو بھی اس فوجی اتحاد میں شامل کیا جا رہا ہے۔ ویت نام کی بندر گاہ امریکہ کے بحری بیڑے کھڑے کرنے کے لئے  مانگے جا رہے ہیں۔ صدر اوبامہ نے ہنوئی کی زمین پر قدم رکھنے کے چند گھنٹوں بعد ویت نام پر سے ہتھیاروں کی عائد پابندی اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ اور اب ویت نام کو کھربوں ڈالر کے نئے ہتھیار فروخت کیے جائیں گے۔
       کمیونسٹ چین اب ایک جمہوری امریکہ کو سکھاۓ گا کہ جمہوریت میں ہتھیاروں اور جنگوں کا کوئی مقام نہیں ہوتا ہے۔ اور تنازعہ اور اختلافات صرف جمہوری مزاج سے حل کیے جاتے ہیں۔ ہتھیاروں کی زبان استعمال نہیں کی جاتی ہے۔ اس لئے 70 سال سے یورپ میں کوئی جنگ نہیں ہوئی ہے۔ کیونکہ یورپ میں جمہوریت ہے۔ اور یورپ کا ہر ملک جمہوری اصولوں کا پابند ہے۔              

Tuesday, May 24, 2016

In A War-Torn Country "Boots On The Ground" Is Not The Cure

In A War-Torn Country "Boots On The Ground" Is Not The Cure         
The Innocent Iraqi People Are The Victims Of Anglo-American Adventurism

مجیب خان
Baghdad, Iraq Under Saddam's Rule
Iraq Under U.S. Occupation 
Iraq War

Falllujah
         بیرونی فوجی حملہ نے صدا م حسین کو جس دن اقتدار سے ہٹایا ہے۔ اس دن سے عراقیوں کو امن نصیب نہیں ہوا ہے۔ عراق میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا ہے کہ بم نہیں پھٹتے ہیں۔ اور سینکڑوں عراقیوں کا خون اور جسموں کے ٹکڑے بغداد کی سڑکوں پر بکھرے نہیں دیکھے جاتے ہیں۔ اس بیرونی حملہ نے عراق کو عرب دنیا کے وسط میں Wholesale human killing کا سینٹر بنا دیا ہے۔ عراق پر جب اینگلو امریکہ کا قبضہ تھا یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے۔ پھر نوری الما لکی کو  جمہوری حکومت کا سرٹیفکیٹ دے کر اینگلو امریکی فوجوں نے اقتدار منتقل کر دیا تھا۔ صدر جارج بش نے نوری الما لکی کو عراق کی ہزار سال کی تاریخ میں پہلے شیعہ وزیر اعظم منتخب ہونے کی مبارک باد دی تھی۔ اور اس کے بعد عراق کو 10 بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جو جنگ عراق میں ہتھیاروں کا خاتمہ کرنے سے شروع ہوئی تھی۔ وہ جنگ اب عراق کو ہتھیاروں سے بھرنے سے جاری تھی۔ نوری الما لکی عراق کے وزیر اعظم بن گیے تھے۔ لیکن بغداد کی سڑکوں اور بازاروں میں عراقیوں کا خون بہنے اور ہلاکتوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ عراقیوں کی ہلاکتوں کی ذمہ دار اب یہ حکومت  تھی۔
        اس وقت تک عراق میں اقوام متحدہ کے ان ہلاکتوں کے بارے میں جو اعداد و شمار ہیں۔ ان کے مطابق 500،000 عراقی مارے گیے تھے۔ جبکہ گزشتہ دو سالوں میں 18،802 عراقی شہری ہلاک ہوۓ تھے۔ اور صرف گزشتہ ہفتہ بغداد میں بموں کے دھماکوں میں 200 عراقی ہلاک ہوۓ تھے۔ صدا م حسین کے 35 سال دور اقتدار میں کبھی ایسی ہلاکتیں نہیں دیکھی گئی تھیں۔ ٹھیک ہے، مغرب کی نگاہوں میں صدا م حسین بہت برے انسان تھے۔ انہوں نے صرف  حکومت کے مخالفین مارے تھے۔ انہوں نے عراق میں ابو غریب جیل اور گوتا نوموبے نظر بندی کیمپ بھی قائم کیے تھے۔ اور یہاں حکومت کے مخالفین کو اذیتیں دی  تھیں۔ لیکن صدا م حسین نے عراقی آبادی کے ایک چھوٹی سیاسی اپوزیشن کے ساتھ زیادتیاں کی تھیں۔ جو صدا م حکومت کے خلاف تھی۔ تاہم صدا م حسین کے عراق میں شیعاؤں کو امریکہ کے خلیجی اتحادیوں بحرین، کویت اور سعودی عرب میں شیعاؤں سے زیادہ حقوق دئیے  تھے۔ حکومت کے اداروں میں انہیں مساوی طور پر بھرتی کیا جاتا تھا۔ پھر دوسری طرف عراق کو امن اور استحکام بھی دیا تھا۔ عراقیوں کو اقتصادی مواقع فراہم کیے تھے۔ عراقی بچوں کو تعلیم دی تھی۔ انہیں سائنس دان بنایا تھا۔ انہیں ڈاکٹر بنایا تھا۔ انہیں انجنیئر بنایا تھا۔ انہیں ادب اور ثقافت میں دانشور بنایا تھا۔ انہیں اقتصادی ماہر بنایا تھا۔ انہیں معاشی خوشحال ہونے کا ہنر دیا تھا۔ جارج بش اور ڈک چینی سنو- صدا م حسین نے اپنے نوجوانوں کو تعلیم دی تھی۔ اور انہیں معاشرے کا مہذب انسان بنا یا تھا۔ صدا م حسین کے دور میں یہ ترقی ہوئی تھی۔ 70 اور 80 کے دور میں بغداد میں جو امریکی سفیر تھے وہ اس کی تصدیق کر سکتے  ہیں۔ صدا م حسین کے 35 برس دور اقتدار میں  صدا م حسین نے دہشت گرد نہیں بناۓ تھے۔ عراقی فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے خلاف لڑنے نہیں جاتے تھے۔ امریکہ کی پراپگنڈہ مشین خواہ کتنا ہی جھوٹ بولے۔ لیکن اصل حقائق تاریخ بتاتی ہے۔ اور دنیا کی بڑی سے بڑی فوجی طاقت بھی تاریخ میں حقائق تبدیل نہیں کر سکتی ہے۔
       عراق پر اینگلو امریکہ کے فوجی قبضہ کے بعد عراق میں تعلیمی اداروں پر تالے ڈال دئیے گیے تھے۔ عراقی حکومت کے جہاں دوسرے اداروں کو ختم کر دیا گیا تھا وہاں یونیورسٹیوں کالجوں اور اسکولوں کے اساتذہ اور پروفیسروں کی ملازمتیں بھی ختم کر دی گئی تھیں۔ پروفیسر انجنیئر ڈاکٹر دانشور عراق سے چلے گیے تھے۔ یا ان کی لاشیں کھائیوں میں پڑی ملتی تھیں۔ ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوتی تھیں۔ ان کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوتے تھے۔ آج دنیا کو داعش کے کرائم بتاۓ جا رہے ہیں۔ لیکن ان کرائم کی کوئی بات نہیں کرتا ہے کہ اینگلو امریکہ کے فوجی قبضے میں یہ کرائم کس نے کیے تھے؟ ہزاروں اور لاکھوں عراقیوں کا روز گار چھین لیا گیا تھا۔ لوگ جب غریب ہو جاتے ہیں یا بے روز گار ہوتے  ہیں تو کرائم کرنے لگتے ہیں۔ اور دہشت گردی ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ عراق میں القاعدہ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ کوئی دہشت گرد نہیں تھا۔ یہ عراق پر اینگلو امریکہ کے فوجی قبضہ کی ایجاد تھے۔ اس فوجی قبضہ میں عراقیوں نے IED ایجاد کیا تھا۔ عراقیوں نے بموں کے دھماکہ کرنا سیکھا تھا۔ دہشت گرد اور انتہا پسند بننا سیکھا تھا۔ اینگلو امریکہ نے عراقی معاشرے کو مذہبی فرقہ پرستی کی نفرتوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ پہلے شیعہ ملیشیا سنیوں کے خلاف بناۓ تھے۔ پھر سنی ملیشیا شیعاؤں کے خلاف بناۓ تھے۔ اینگلو امریکی فوجی قبضہ نے ابو مصاب الزرقاوی اور ابو ایوب الاماصری پیدا کیے تھے۔ عراقیوں کو مہدی آرمی دی تھی۔ صدر جارج بش نے عراق پر جس طرح حکومت کی تھی۔ وزیر اعظم نوری الما لکی  اور اب وزیر اعظم حیدر الا عابدی بھی اسی طرح حکومت کر رہے ہیں۔ 10 بلین ڈالر کے ہتھیار جو امریکہ سے خریدے تھے اب وہ  عراقیوں کے خلاف استعمال ہو رہے تھے۔ ان میں سے شاید ایک بلین ڈالر کے ہتھیار داعش لے گیے ہیں۔ عراق میں داعش کی ایجاد بھی اینگلو امریکی فوجی قبضہ کا تسلسل ہے۔ انہیں اب یہ کہتے شرم آتی ہے کہ داعش تو صدا م حسین سے زیادہ خطرناک ہے۔
       عراق میں 2003 سے 2011 کے دوران انسرجنسی کے خلاف اینگلو امریکی فوجوں نے تقریباً 500 آپریشن کیے تھے۔ ان میں Operation Option North and Operation Bayonet Lightning in Kirkuk, Operation Desert Thrust, Operation Abilene and Operation All American Tiger throughout Iraq, Operation Iron Hammer in Baghdad and Operation Ivy Blizzard in Samarra- all in 2003;Operation Market Sweep, Operation Vigilant Resolve and Operation Phantom Fury in Fallujah in 2004;Operation Matador in Anbar, Operation Squeeze Play and Operation Lightning in Baghdad, Operation New Market near Haditha, Operation Spear in Karbala and the Battle of Tal Afar- all in 2005;Operation Swarmer in Samarra and Operation Together Forward in Baghdad in 2006; and Operation Law and Order in Baghdad, Operation Arrowhead Ripper in Baqouba and Operation Phantom Strike throughout Iraq- all in 2007.
        یہ آپریشن ‏عراق میں صرف 9 سال کے عرصہ میں ہوۓ تھے۔ اور یہ سب فیل آپریشن تھے۔ جس کے بعد داعش وجود میں آئی تھی۔ اس کو وجود میں لانے میں کون سے ہاتھ تھے؟ داعش کو منظم کس نے کیا تھا؟ داعش کو فوجی گاڑیاں کس نے فراہم کی تھیں؟ جیسا کہ امریکی میڈیا میں یہ بتایا گیا تھا کہ داعش 50 سے 60 ہزار لوگوں کی فوج تھی۔ اس کا ایک انٹرنیٹ نیٹ ورک بھی تھا۔ داعش کا موصل اور فلوجہ پر قبضہ ہے۔ جو سنی اکثریت کے شہر ہیں۔ اور شام میں Aleppo اور Raqqa داعش کے کنثرول میں ہیں۔ ان علاقوں پر قبضہ مضبوط  کرنے کے بعد اسے عراق اور شام سے کاٹ کر یہاں داعش کا اسلامی خلافت قائم کرنے کا منصوبہ تھا۔ لیکن یہ منصوبہ کس نے دیا تھا؟ امریکہ کے قریبی خلیجی اتحادی اور ترکی عراق میں امن اور شام کے استحکام میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں جتنی دلچسپی انہیں صدر بشر السد کو اقتدار سے ہٹانے میں ہے۔ حالانکہ صدر بش کی عراق میں صدا م حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی دلچسپی کے نتائج بھی ان کے سامنے ہیں۔ امریکہ تو ہر صورت حال کو اپنے مقاصد میں Exploit کرنا جانتا ہے۔ صدا م حسین کو اقتدار سے ہٹانے سے پہلے کے حالات کو بھی امریکہ نے اپنے مقاصد میں Exploit کیا تھا۔ اور صدا م حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ اسے بھی امریکہ اپنے مفاد میں Exploit کر رہا ہے۔
       عراق میں جن سنیوں کو امریکہ پر غصہ تھا وہ داعش میں شامل ہو گیے تھے۔ اور امریکہ میں جنہیں دونوں پارٹیوں پر غصہ ہے وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ شامل ہو گیے ہیں۔ یا برنی سینڈر کے ساتھ ہیں۔ حالات کو جنگوں میں رکھنے کی ایک حد ہوتی ہے۔ اور اس کے بعد لوگ پھر جنگوں کے خلاف بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ اور لوگ اب ہر طرف  بغاوت کے موڈ میں نظر آتے ہیں۔                        

Friday, May 20, 2016

Why Are Muslims So Upset That Donald Trump’s Administration Will Bar Muslims From Entering America?

Why Are Muslims So Upset That Donald Trump’s Administration Will Bar Muslims From Entering America? 

 مجیب خان
There are over 1.3 billion Muslims in the world
There are over 1.2 billion people in China
          لندن نے ایک ایسے وقت ایک مسلمان کو اپنا میئر منتخب کیا ہے کہ جب دنیا بھر میں مسلمانوں پر برا وقت آیا ہوا ہے۔ اور امریکہ میں صدارتی انتخابات کی مہم میں ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کا صدر بننے کے بعد پہلا صدارتی حکمنامہ مسلمانوں کے امریکہ آنے پر پابندی لگانے کے لئے جاری کریں گے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے لئے ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ بیان ایسا تھا کہ جیسے امریکہ نے ہیرو شیما پر نہیں بلکہ مسلمانوں پر ایٹم بم گرایا تھا۔ ایسے حالات میں مسلمان لندن کے لوگوں کے خلوص کے ساتھ ممنون ہیں کہ انہوں نے ایک مسلمان کو اپنا میئر منتخب کیا ہے۔ جو مسلمانوں کے لئے اتنا ہی بڑا اعزاز ہے کہ جتنا بڑا لندن کا مقام دنیا میں ہے۔ اب اگر ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہو جاتے ہیں اور مسلمانو ں کے امریکہ آنے پر پابندی لگا دیتے ہیں۔ اور پھر برطانیہ کے آئندہ انتخابات میں لیبر پارٹی صادق خان کو وزیر اعظم کے لئے نامزد کرتی ہے۔ اور صادق خان بھاری اکثریت سے برطانیہ کے وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو پھر کیا ہو گا؟ انگریز ہمیشہ دور کی سوچتے ہیں۔ اور جو تبدیلیاں ابھی دور ہیں۔ انہیں شاید محسوس کر رہے ہیں۔
        مسلمانوں کو اس لئے پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ میں ان کے امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی ہو گی۔ دنیا میں 1.3 بلین مسلمان ہیں۔ اور تقریباً 900 ملین مسلمان پہلے ہی اس لئے خوش نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے۔ دنیا کی آبادی 6.5 بلین ہے۔ جبکہ امریکہ کی آبادی 300 ملین ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ میں جب مسلمانوں کے امریکہ آنے پر پابندی ہو گی۔ اس صورت میں یہ امریکہ سے کٹ جائیں گے۔ ادھر بحر جنوبی چین میں امریکہ کی فوجی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اور چین کی ابھرتی طاقت کی ناکہ بندی کے لئے مشرقی ایشیا میں نئے فوجی اتحاد اور فوجی اڈے قائم کرنے کی پالیسی کو مسلسل فروغ دیا جا رہا ہے۔ جس سے کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ چین کے عوام اپنے ملک کی آزادی، خود مختاری اور سلامتی کے مسئلہ پر بڑے حساس ہیں۔ اور وہ اپنے ملک کے اطراف امریکہ کی ان فوجی سرگرمیوں سے خوش نہیں ہوں گے۔ چین کے عوام میں   بھی امریکہ کی مخالفت بڑھ  جاۓ گی۔ اور 1.3 بلین چینی عوام بھی امریکہ کے خلاف ہو جائیں گے۔ اب 1.3 بلین مسلمانوں کے ساتھ 1.3 بلین چینی عوام بھی امریکہ کے خلاف ہو جائیں گے۔ یوکرین کے مسئلہ پر روس اور امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہو گیے ہیں۔ امریکہ نے روس کے خلاف اقتصادی بندشیں عائد کر دی ہیں۔ اس کے علاوہ روس کے اطراف نیٹو کی فوجی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ روس کے 150 ملین لوگ امریکہ کے اس Behavior سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ اور پھر یہ بھی 1.3 بلین مسلمانوں اور 1.3 بلین چینیوں کے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔
        بھارت کی آبادی 1.3 بلین ہے۔ اور اس میں تقریباً  180 ملین مسلمان ہیں۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ لہذا اسے دنیا کی اکثریت کے ساتھ رہنا ہو گا۔ بھارت کے ہمسا یہ میں 1.3 بلین چینیوں، 1.3 بلین مسلمانوں اور 150 ملین روسیوں کے امریکہ کے ساتھ تعلقات جب زیادہ کشیدہ ہوں گے۔ بھارت کو پھر اپنی 1950 کی غیرجانبدار نہ پالیسی کو Revive کرنا ہو گا۔ بھارت کے 60 ، 70 اور 80 کے عرشوں  میں امریکہ کے ساتھ جس طرح کے تعلقات تھے۔ وہ تاریخ دونوں ملکوں کے تعلقات میں واپس آ جاۓ گی۔ لیکن یہ یقینی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ اگر امریکہ کے 45 ویں صدر بن جاتے ہیں تو پھر دنیا حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھے گی۔ اور یہ ان انقلابی تبدیلیوں کا خوف ہے جو ری پبلیکن پارٹی میں ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارتی نامزدگی کی مخالفت کا سبب بھی ہے۔ جو شخص اپنی جیب سے 49 ملین ڈالر صرف ری پبلیکن پارٹی کی پرائم ریز میں خرچ کر رہا ہے۔ وہ Crook سیاستدان کیسے ہو سکتا ہے۔
        یہ مسلمان تھے جنہوں نے کمیونزم کے خلاف سرد جنگ کو ایک گرم جنگ میں تبدیل کیا تھا۔ اور افغانستان میں سوویت یونین کو بالآخر شکست دی تھی۔ اور امریکہ کو سرد جنگ سے آزاد کرایا تھا۔ پھر امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا تھا۔ اور یہ دنیا کے 1.3 بلین مسلمان تھے۔ جن کے بغیر امریکہ سرد جنگ سے آزاد نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن سرد جنگ کا خاتمہ مسلمانوں کے مفاد میں ثابت نہیں ہوا تھا۔ مسلم ملکوں کو اپنے مسلمانوں کو سرد جنگ کی سیاست سے الگ تھلگ رکھنا چاہیے تھا۔ جس طرح بھارت نے اپنے ہندوؤں کو سرد جنگ کی سیاست سے الگ رکھا تھا۔ بھارت نے امریکہ سے اپنے مفادات تسلیم کرواۓ تھے۔ اور سوویت یونین سے اپنے مفادات کی تکمیل کروائی تھی۔  سرد جنگ میں یہ بھارت کی غیرجانبدارا نہ حکمت عملی تھی۔ لیکن سرد جنگ میں مسلم ملکوں کی جانبدارانہ سیاست ایک بہت بڑا Blunder تھا۔ اگر سرد جنگ میں مغربی طاقتوں کے مفاد میں یہ جانبداری تھی تو یہ Reciprocal ہونا چاہیے تھی۔ مسلمانوں کو جن تنازعوں کا سامنا تھا۔ مغربی طاقتوں بالخصوص امریکہ کو ان تنازعوں کو حل کرنے میں مدد کرنا چاہیے تھا۔ سرد جنگ کے دور میں فلسطین اسرائیل اور کشمیر بڑے تنازعہ تھے۔ جن پر کئی جنگیں لڑی گئی تھیں۔ اور جنگ کے سیاہ بادل بدستور منڈ لا رہے تھے۔ فاشزم اور نازی ازم کے خلاف جنگ میں امریکہ اور مغربی طاقتوں نے صیہونی یہودیوں سے فلسطین میں ان کی آزاد ریاست بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ اور ان سے کہا تھا کہ وہ نازیوں کو شکست دینے میں ان کی مدد کریں۔ 1945 میں جنگ ختم ہو گئی تھی۔ اتحادی فوجوں کی فتح ہوئی تھی۔ تین سال بعد 1948 میں امریکہ اور مغربی طاقتوں نے فلسطین تقسیم کر دیا اور صیہونی یہودیوں کے لئے ریاست بنا دی تھی۔ اور یہ نئی یہودی ریاست اسرائیل تھی۔ لیکن پھر کمیونزم کے خلاف سرد جنگ کے اختتام پر مسلمانوں کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ اب فلسطینیوں کی آزاد ریاست بنائی جاۓ گی۔ لیکن سرد جنگ ختم ہوۓ اب 26 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن فلسطینی ابھی تک اپنی ایک آزاد ریاست کی حسرتوں کے ساتھ قبروں میں جا رہے ہیں۔ پھر مسلمانوں سے یہ کہا گیا کہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل میں صدام حسین ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ جب صدام حسین کا مسئلہ حل ہو جاۓ گا۔ پھر فلسطین کا تنازعہ حل کیا جاۓ گا۔ اب صدام حسین کا مسئلہ ہوۓ 13 سال ہو گیے ہیں۔ عربوں کو ان کی 13 انچ زمین تک نہیں ملی ہے۔ بلکہ امریکہ کے واچ میں فلسطینیوں کے 13لاکھ گھروں کو تباہ کر کے اسرائیل نے وہاں نئی یہودی بستیاں آباد کر دی ہیں۔ مسلمانوں کو سرد جنگ سے کیا ملا تھا۔ اور سرد جنگ ختم ہونے سے کیا ملا ہے۔ سرد جنگ کا خاتمہ مسلمانوں کے لئے تباہی اور بربادی کا سبب بنا ہے۔ ہر طرف مسلمان جنگوں میں گھرے  ہوۓ ہیں۔ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اگر سرد جنگ جاری رہتی تو عراق لیبیا شام افغانستان یمن کو کبھی اس طرح تباہ نہیں کیا جاتا۔ 60 ملین انسان اس طرح یورپ میں در بدر نہیں گھوم رہے ہوتے۔ عورتوں اور بچوں کی لاشیں سمندروں میں نہیں تیر رہی ہوتیں۔ سرد جنگ میں انسانوں کو انسان سمجھا جاتا تھا۔ آج کارپوریشنوں کو انسان سمجھا جاتا ہے۔ مسلمان آج سرد جنگ کو Miss کر رہے ہیں۔       
   


                                                                                                                                                                                              

Monday, May 16, 2016

Squeeze Afghan Warlords, Not Pakistan

Squeeze Afghan Warlords, Not Pakistan

مجیب خان       
"Afghan Warlord  Gul Agha Sherzai  "The Bulldozer




           گزشتہ ماہ افغانستان پر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2016 کے پہلے تین ماہ میں افغان شہریوں کی ہلاکتوں میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ افغان سیکورٹی فورس کی انتہا پسندوں کے خلاف لڑائی میں زیادہ شہری ہلاک اور زخمی ہوۓ تھے۔ پہلے تین ماہ میں چھ سو افغان شہری ہلاک اور 1343 زخمی ہوۓ تھے۔ اور ان میں ایک بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس میں 29 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق درجنوں افغان اسکولوں کو فوجی مقاصد میں استعمال کیا گیا تھا۔ جس سے اسکولوں پر ممکنہ حملوں کی وجہ سے بچے خطروں میں آ  گیے تھے۔ رپورٹ کے مطابق مخالف افغان مسلح گروپوں میں بالخصوص طالبان 60 فیصد شہری ہلاکتوں کے ذمہ دار تھے۔ تاہم یہ توازن اب بدل رہا تھا۔ گزشتہ سال اس دوران 73 فیصد شہریوں کی ہلاکتیں مسلح گروپوں کی کاروائیوں کے نتیجے میں ہوئی تھیں۔ جبکہ صرف 14 فیصد  شہری ہلاکتیں حکومت کی سیکورٹی فورس کی کاروائیوں کے دوران ہوئی تھیں۔ اور اب یہ 19 فیصد ہو گئی ہیں۔ اقوام متحدہ نے افغان شہریوں کی تکالیف اور شہری فضائی حملوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
       اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کی اشاعت کے تقریباً 72 گھنٹوں کے اندر کابل میں بموں کے کئی زبردست دھماکہ ہوۓ تھے۔ جس میں 68 لوگ ہلاک اور 300 زخمی ہوۓ تھے۔ یہ دھماکہ کابل شہر کے وسط میں ہوا تھا۔ جہاں حکومت کی وزارتیں، صدارتی محل، سفارت خانے تھے۔ اور سیکورٹی بہت سخت تھی۔ لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ اس حملہ کا سبب کیا اس رپورٹ سے تھا جس میں اس سال کے پہلے تین ماہ میں حکومت کی سیکورٹی فورس کی کاروائیوں میں چھ سو افغان شہریوں کے ہلاک ہونے کا بتایا گیا تھا۔ اور شہریوں کی ہلاکتوں میں 70 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ افغان سیکورٹی فورس پر کس افغان ثقافتی گروپ کا  غلبہ تھا۔ کابل میں دھماکہ بھی وزارت دفاع  سے زیادہ دور نہیں ہوا تھا۔ تاہم اقوام متحدہ کی رپورٹ میں جن چھ سو افغان شہریوں کی ہلاکتوں کا ذکر تھا ان کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا تھا ان کا کس افغان ثقافت سے تعلق تھا۔ افغانستان میں ایک درجن سے زیادہ لڑائیاں مختلف محاذوں پر جاری تھیں۔ لیکن ہر لڑائی کے ریڈار پر صرف طالبان تھے۔
        کابل میں بموں کے دھماکوں کے بعد صدر اشرف غنی نے جو بیان دیا تھا اس میں ان کا سارا غصہ پاکستان پر یہ تھا کہ پاکستان طالبان کے خلاف کچھ نہیں کر رہا تھا۔ صدر اشرف غنی نے کہا کہ "پاکستان طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کے بجاۓ طالبان کا خاتمہ کرے۔" صدر اشرف غنی سابق صدر بش کے جیسے ترجمان بن گیے تھے اور ان کے اس موقف کو دہرا رہے تھے کہ طالبان سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ان کا خاتمہ کیا جاۓ۔ یہ صدر اشرف غنی کی شاید اپنے ملک کے حالات سے لاعلمی تھی۔ جو پاکستان کے سلسلے میں ان کا یہ Attitude تھا۔ ان سے پہلے صدر حامد کرزئی بھی اسی لب و لہجہ میں پاکستان کے بارے میں باتیں کرتے تھے۔ صدر کرزئی تقریباً بارہ سال سے اقتدار میں تھے۔ آخر انہوں نے اپنے ملک کو جنگ سے نکالنے کے لئے کیا کیا تھا؟ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ افغانستان کو جنگ کے حالات میں رکھنے کی حکمت عملی کے تحت یہ جنگ فروغ دی جا رہی تھی۔ اگر افغانستان کو جنگ کے حالات سے نکالنا مقصد ہوتا تو یہ جنگ کامیابی کے ساتھ کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔ سولہ سال سے یہ جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اور جنگ میں کوئی بڑی کامیابی بھی نہیں ہو رہی ہے۔ یہ خود افغانستان کو جو امن  نہیں دے سکے ہیں۔ اب اس کی توقع یہ پاکستان سے کیسے کر رہے ہیں۔ جب افغانستان میں امن کے لئے پاکستان کچھ کر سکتا تھا۔ اس وقت بش انتظامیہ نے پاکستان کو اس سے روک دیا تھا۔ اور افغانستان میں طالبان کا خاتمہ ہونے تک جنگ جاری رکھنے کا پاکستان سے مسلسل اصرار کیا جاتا رہا۔ زر داری گیلانی حکومت کو بھی یہ ہی پیغام دیا گیا تھا کہ طالبان سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔ امریکہ کی یہ منطق سمجھ سے باہر تھی کہ طالبان سے مذاکرات کیوں نہیں کیے جائیں۔ حالانکہ یہ طالبان جب مجاہدین تھے اور امریکہ کے اتحادی تھے۔ تو اس وقت امریکہ نے سوویت رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے تھے۔ امریکہ نے یہ نہیں کہا تھا کہ جب تک سوویت فوجیں افغانستان سے نہیں جائیں گی سوویت رہنماؤں سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔
        کابل میں ایک نام نہاد منتخب حکومت کو جمہوریت کی ڈگری دے دی تھی۔ لیکن امریکہ اور نیٹو افغانستان میں انتہائی Brutal وار لار ڈز  کو مضبوط کر رہے تھے اور ان سے طالبان کا خاتمہ کرنے کا کام لے رہے تھے۔ افغان Brutal وار لار ڈز کے ساتھ  پاکستان کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ کیونکہ پاکستان نے طالبان کی حمایت کی تھی۔ اور طالبان نے افغانستان سے وار لارڈز کا نظام ختم کر دیا تھا۔ اس لئے صدر کرزئی کا رویہ بھی پاکستان کے بارے بدل گیا تھا۔ پاکستان کے مخالف وار لارڈز صدر کرزئی حکومت میں بھی تھے۔ اب طالبان کے خلاف امریکہ کا دباؤ پاکستان پر تھا۔ امریکہ کا اتحاد افغان وار لارڈز سے تھا۔ اور افغان وار لارڈز اپنی سہولت اور مفاد کے مطابق طالبان کے خلاف بھی تھے اور طالبان کے ساتھ بھی تھے۔ وار لارڈز طالبان کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے تھے۔ اور جو طالبان ان کے مفاد میں نہیں تھے انہیں امریکہ کے مفاد میں خاتمہ کر دیتے تھے۔ اور اس پر طالبان کا جو رد عمل ہوتا تھا۔ اس کے الزامات کے لئے پاکستان کو آگے رکھا گیا تھا۔
        پاکستان نے افغانستان کے مسئلہ میں ایک غلطی نہیں کی تھی بلکہ غلطیوں پر غلطیاں کی تھیں۔ صدر جنرل پرویز مشرف کو صدر بش اور کانڈو لیزا رائس ایسا مکھن لگاتے تھے کہ وہ خوش خوش واپس اسلام آباد آتے تھے۔ صدر زر داری کو ان کے منجمد 60 ملین ڈالر صدر بش نے دلوا دئیے تھے۔ اور اس کے عوض صدر زر داری کو امریکہ کی افغان پالیسی کے مطابق کام کرنے کا Assignment دیا گیا تھا۔ جس پر زر داری اور گیلانی کام کرتے رہے۔ دفتر خارجہ میں اتنے Shrewd  سفارت کار نہیں تھے کہ امریکہ اور بھارت افغانستان میں جو کھیل کھیل رہے تھے۔ اس کے پاکستان کے لئے دور رس اثرات کو سمجھ جاتے اور افغانستان سے Retreat ہونے کی حکمت عملی پر کام شروع کر دیتے۔ امریکہ کا آج جو رویہ ہے اس سے بہتر تھا کہ امریکہ کے دباؤ کا سامنا کر لیا جاتا۔ افغانستان کے ساتھ سرحدیں سیل کر دی جاتیں۔ اور دو ٹوک لفظوں میں امریکہ کو بتا دیا جاتا کہ ہم افغانستان کی ذمہ دار یاں قبول کر کے الزامات لینا نہیں چاہتے ہیں۔ اور تمام تر توجہ اپنے اندرونی حالات مضبوط  بنانے پر دی جاتی۔ افغانستان کے بارے میں ایران نے جو پالیسی اختیار کی تھی پاکستان کو بھی ایسی ہی پالیسی اختیار کرنا چاہیے تھی۔
        اب یہ 99.9 فیصد وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان کا مسئلہ داخلی ہے۔ افغان اقلیتوں اور افغان اکثریت کے درمیان پہلے سیاسی محاذ آ رائی ختم کرنا ہو گی۔ یہ محاذ آ رائی اب صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے درمیان پہنچ گئی ہے۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے اپنے حالیہ دورہ کابل میں دونوں کے درمیان کشیدگی ختم کرانے کی کوشش بھی کی تھی۔ یہ خبریں بھی تھیں کہ صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں بات چیت نہیں تھی۔ افغانستان میں 34 صوبے ہیں۔ ہر صوبے کی اپنی ایک حکومت ہے۔ اور ہر صوبے کا اپنا گورنر ہے۔ صوبے کی انتظامیہ گورنر کے ماتحت ہے۔ آخر صوبے کی یہ حکومتیں مقامی طور پر طالبان سے بات چیت کیوں نہیں کرتی ہیں۔ انہیں صوبے کے سیاسی عمل کا حصہ کیوں نہیں بناتی ہیں۔ بے گناہ افغانوں کی روزانہ ہلاکتوں کو روکنے کے اقدامات صوبائی سطح سے ہو سکتے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کا بلاشبہ مقامی طالبان پر کچھ نہ کچھ تو اثر و رسوخ ہو گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صوبے کی حکومتیں طالبان کا مسئلہ حل کرنے کے لئے کابل کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ کابل کی حکومت طالبان کا مسئلہ حل کرنے کے لئے سرحد پار پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ امریکہ  افغانستان کی داخلی سیا ست میں پاکستان کو Bully کر رہا ہے۔ جیسا کہ اس ہفتہ نیویارک ٹائمز نے اپنے ادارے میں کہا ہے کہ "یہ پاکستان کو دبانے کا وقت ہے۔" حالانکہ اسی ادا ریہ میں نیویارک ٹائمز نے یہ بھی کہا ہے کہ کابل کی متحدہ حکومت کو سیاسی لڑائی، ملک بھر میں کرپشن، بجٹ کے سنگین مسائل اور فوجی ہلاکتوں کی بڑھتی شرح نے مفلوج بنا دیا ہے۔ جبکہ لندن میں اس ہفتہ کرپشن کے خلاف عالمی کانفرنس میں وزیر اعظم ڈیوڈ کمیرن نے افغانستان اور نائیجریا کو “fantastically corrupt” ملکوں میں بتایا ہے۔ افغانستان کی صورت حال کے بارے میں جب یہ حقائق دنیا کے سامنے ہیں۔ پھر ان حالات میں پاکستان سے یہ مطالبہ کرنا نامعقول ہو گا کہ پاکستان افغانستان کی تمام داخلی بیماریوں کا علاج کرے اور اسے ایک صحت مند ملک بناۓ۔ امریکہ نے انتہائی کرپٹ افغان وار لارڈز کے خلاف ابھی تک کوئی کاروائی نہیں کی ہے۔ جو افغانستان کا 75 فیصد مسئلہ ہیں۔  اور وقت آ گیا ہے کہ اب انہیں Squeeze کیا جاۓ۔                 
    
                 



Thursday, May 12, 2016

Arab Spring In The Republican Party

Are The Warmongers And The Extremists The Same?  

Arab Spring In The Republican Party

مجیب خان


          ری پبلیکن  پارٹی کے صدارتی امیدوار کے لئے 17 امیدواروں میں مقابلہ تھا۔ یہ 17 امیدوار ایک سال سے پرائم ریز انتخابات کے لئے انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ مختلف ٹی وی چینلز نے ان کے درمیان ایک درجن سے زیادہ مباحثوں کا انعقاد کیا تھا۔ ان مباحثوں میں صدارتی امیدواروں سے سینکڑوں سوال کیے گیے تھے۔ پھر ان امیدواروں کے ساتھ ٹاؤن ہال سیشن بھی ہوۓ تھے۔ اور یہاں شہریوں نے بھی صدارتی امیدواروں سے سوال کیے تھے۔ پھر ان 17 امیدواروں نے سواۓ ڈونالڈ ٹرمپ کے ہر امیدوار نے لاکھوں ڈالر پرائم ریز میں انتخابی مہم پر خرچ کیے تھے۔ جو انہیں مختلف نظریاتی مالدار قدامت پسندوں نے دئیے تھے۔ جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے کھربوں ڈالروں میں سے لاکھوں ڈالر اپنی صدارتی مہم پر خرچ کیے تھے۔ ایک سال سے امریکی عوام ان 17 امیدواروں کے خارجہ پالیسی، دفاعی پالیسی، دہشت گردی کے خلاف جنگ، شام کی خانہ جنگی، دنیا بھر میں امریکہ کی ٹانگ اڑانے کی عادت، امریکہ پر 19 ٹیریلین ڈالر کا قرض، لوگوں کا روز گار امریکی کمپنیاں چین اور دوسرے ملکوں میں لے گئی ہیں انہیں کیسے واپس امریکہ میں لایا جاۓ، عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ، کم سے کم اجرتوں میں اضافہ کا سوال، امیگریشن کا مسئلہ، ان کے علاوہ دوسرے سماجی اور معاشی ایشو بھی تھے۔ جن پر ان امیدواروں کے خیالات لوگ ایک سال سے سن رہے تھے۔ ان میں ایک امیدوار سابق صدر جارج ایچ بش کے صاحبزادے اور جارج ڈبلو بش کے بھائی Jeb Bush تھے۔ بش Clan کے تیسرے فرد نے جب امریکہ کی صدارت کے لئے امیدوار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ تو میرا تبصرہ یہ تھا کہ خدا خیر کرے اگر تیسرا بش امریکہ کا صدر بن گیا تو پھر تیسری عالمی جنگ یقینی ہو جاۓ گی۔ بش نے اپنی صدارتی مہم کے آغاز ہی میں یوکرین کے مسئلہ پر یورپ میں فوجیں بھیجنے کی باتیں کرنا شروع کر دی تھیں۔ ری پبلیکن پارٹی کی پرائم ریز میں صدارتی مہم کے دوران جو امیدوار جتنا زیادہ بڑھ چڑھ کر جنگ اور فوجیں بھیجنے کی باتیں کرتا تھا۔ اسے اتنے ہی کم ووٹ ملتے تھے۔ اور وہ پیچھے ہوتا جا رہا تھا۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ رفتہ رفتہ ان سے آگے نکل رہے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا موقف 16 دوسرے امیدواروں کے مقابلے میں بہت مختلف تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا پارٹی سیاست سے کبھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ ٹرمپ پیشہ ور سیاستدان بھی نہیں تھے۔ واشنگٹن کے Insider بھی نہیں تھے۔ لہذا امریکی عوام بھی انہیں ذرا مختلف دیکھ رہے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے روس کے ساتھ اچھے تعلقات کی بات کی تھی۔ انہوں نے صدر پوتن کی تعریف بھی کی تھی۔ ٹرمپ نے نیٹو ختم کرنے کی بات کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اب یورپ کے دفاع پر خرچ نہیں کر سکتا ہے۔ جبکہ نیٹو کے رکن ملک اپنے بجٹ کا دو فیصد دفاعی اخراجات میں دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ پھر امریکہ یورپ کے دفاع پر اپنے عوام کے ٹیکس کی رقم کیوں خرچ کرے؟ مڈل ایسٹ میں امریکہ کے ملوث ہونے کے ڈونالڈ ٹرمپ خلاف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب دوسرے ملکوں کو مڈل ایسٹ میں آگے آنا چاہیے۔ اور مڈل ایسٹ کے امن اور استحکام میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ پر ڈونالڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کی انتظامیہ اس تنازعہ میں غیرجانبدار رہے گی۔ اور اس تنازعہ میں کسی ایک فریق کی پارٹی نہیں بنے گی۔ صدارتی مہم میں ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے عیسائی قوم پرست ہونے کا اظہار اس طرح کیا تھا کہ جب وہ صدر ہوں گے تو کرسمس پر Happy Holiday نہیں کہا جاۓ گا بلکہ Merry Christmas کہا جاۓ گا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب عیسائی اپنا تہوار منا تے ہیں اسی وقت یہودیوں کا تہوار بھی ہوتا ہے۔ اس لئے سب Happy Holiday کہنے لگے تھے۔
       ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کی حکمت عملی بڑے سوچ سمجھ کر بنائی تھی۔ جس میں امریکی معاشرے کے ہر مکتبہ فکر کے لئے سوچنے اور انتظامیہ کی Status-quo پالیسیوں کے خلاف ان کا ہم خیال بننے کے لئے اہم پوائنٹ تھے۔ جن سے اختلاف کرنا ممکن نہیں تھا۔ جو امریکہ کی خارجہ اور ڈیفنس پالیسی سے اختلاف کرتے تھے۔ وہ خارجہ اور ڈیفنس پالیسی کے بارے میں ڈونالڈ ٹرمپ کے خیالات سے اتفاق کرنے لگے تھے۔ جو دنیا بھر میں بالخصوص مڈل ایسٹ میں امریکہ کی مسلسل مداخلت کے خلاف تھے۔ وہ مڈل ایسٹ کے بارے میں ڈونالڈ ٹرمپ کے موقف سے اتفاق کرتے تھے۔ جو فلسطین اسرائیل تنازعہ میں امریکہ کی اسرائیل کے ساتھ قریبی جانبداری کے خلاف تھے۔ وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے فلسطین اسرائیل تنازعہ میں غیرجانبدار رہنے کے خیالات سے مکمل اتفاق کرتے تھے۔ جو امریکہ کے فری ٹریڈ بلاک بنانے کی پالیسی کے سخت خلاف تھے۔ وہ ڈونالڈ ٹرمپ کی فری ٹریڈ بلاک  کے خلاف پالیسی کی حمایت کرتے تھے۔ جو لوگ اس لئے خوش نہیں تھے کہ بے شمار امریکی کمپنیاں چین، میکسیکو  اور دوسرے ملکوں میں چلی گئی ہیں۔ جس کے ساتھ ان کی نوکریاں بھی چلی گئی ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے ان کمپنیوں کو اب واپس امریکہ لانے کی بات کی ہے۔ اس لئے یہ لوگ ڈونالڈ ٹرمپ کے حامی تھے۔ امریکہ کی جنوبی ریاستیں جو انتہائی مذہبی عیسائی ریاستیں سمجھی جاتی ہیں۔ یہاں لوگ ڈونالڈ ٹرمپ کی عیسائی قوم پرستی سے متاثر ہو کر ان کی حمایت کر رہے تھے۔
       اور اب پرائم ریز میں ڈونالڈ ٹرمپ نے بڑی اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کر لی ہے۔ تقریباً  دس ملین سے زیادہ لوگوں نے انہیں ووٹ دئیے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ہونے کے بہت واضح مستحق ہیں۔ لیکن ری پبلیکن پارٹی کی اسٹبلشمینٹ میں نظریاتی عناصر ڈونالڈ ٹرمپ کو پارٹی کا صدارتی امیدوار قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ با ظاہر ری پبلیکن پارٹی کے یہ نظریاتی ڈونالڈ ٹرمپ کے خارجہ امور اور ڈیفنس کے بارے میں خیالات سے شدید اختلاف کرتے ہیں۔ اور امریکہ کے لئے انہیں نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ یہ نظریاتی امریکہ کی انیسویں اور بیسویں صدی کے Status-quo کی پالیسیاں اکیسویں صدی میں بھی جاری رکھنے کی حمایت کرتے ہیں۔ سابق صدر جارج ایچ بش، سابق صدر جارج ڈبلو بش، ناکام صدارتی امیدوار Jeb Bush، اسپیکر Paul Ryan، سینیٹر جان مکین، سینیٹر لینڈزی  گرہیم، ری پبلیکن پارٹی کے 2012 میں صدارتی امیدوار مٹ رامنی نے ڈونالڈ ٹرمپ کو ووٹ نہیں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔   
      اور یہ امریکہ کی گرینڈ اولڈ پارٹی GOP)( کی جمہوریت کا تصور ہے۔ جس میں لوگوں سے صرف ووٹ لئے جاتے ہیں۔ اور تمام فیصلہ پارٹی کی اسٹبلشمینٹ کے ہوتے ہیں۔ اور حالیہ صدارتی پرائم ریز میں پارٹی کا یہ کلچر ٹوٹتا نظر آ رہا ہے۔ لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت جیسے پارٹی اسٹبلشمینٹ کے خلاف بغاوت کر رہی ہے۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ اس بغاوت کی قیادت کر رہے ہیں۔ امریکی عوام جنگوں کے خلاف ہیں۔ لیکن انہیں مسلسل جنگوں میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ عوام کے فیصلہ کبھی غلط نہیں ہوتے ہیں۔ ویت نام جنگ کے خلاف عوام کا فیصلہ درست تھا۔ انتظامیہ کو شکست ہوئی تھی۔ امریکی عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت عراق پر حملہ کے خلاف تھی۔ انتظامیہ کو عراق میں بری طرح شکست ہوئی تھی۔ سات ہزار امریکی فوجی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ اور تیس ہزار فوجی ابھی تک زخموں سے صحت یاب نہیں ہو سکے ہیں۔ جبکہ اس جنگ پر کھربوں ڈالر خرچ کیے گیے تھے۔
       ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنی صدارتی مہم میں جو کچھ  کہا ہے وہ بالکل درست ہے۔ اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی ایک مکمل تباہی ہے۔ عراق، افغانستان، لیبیا، شام، فلسطین اسرائیل تنازعہ  ہر طرف ناکامی اور تباہی نظر آتی ہے۔ اس لئے امریکی عوام ڈونالڈ ٹرمپ پر اعتماد کر رہے ہیں۔ اور انہیں Credible سمجھتے ہیں۔ ری پبلیکن پارٹی کی نظریاتی قیادت پر اب ان کو اعتماد نہیں ہے۔ ری پبلیکن پارٹی کی قیادت اس لئے ڈونالڈ ٹرمپ سے خوش نہیں ہے کہ انہوں نے ایک سال سے اپنی انتخابی مہم میں اسٹبلشمینٹ کے خلاف باتیں کی ہیں۔ اور لوگوں کو اسٹبلشمینٹ کے خلاف کیا ہے۔ حالانکہ امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام نے ڈونالد ٹرمپ کو بنایا ہے۔ اور ری پبلیکن پارٹی نے ہمیشہ اس نظام کی حمایت کی ہے جو ارب پتی پیدا کرتی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اس نظام کے خلاف نہیں ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اسٹبلشمینٹ کی خارجہ، ڈیفنس اور فری ٹریڈ پالیسیوں کو ٹارگٹ کیا ہے۔ اور ان میں انقلابی تبدیلیوں کی بات کی ہے۔ ری پبلیکن کے نظام نے ڈونالڈ ٹرمپ کو بنایا ہے۔ اور اس کی قیادت کو اب ڈونالڈ ٹرمپ کو گلے لگانا ہو گا ۔ اور یہ عوام  کا فیصلہ ہے۔