Monday, September 30, 2019

Curfews, Sanctions, Blockades, Are Economic Landmines That Are Against the Law of Humanity. Five-Hundred Thousand Infants Were killed In Iraq During the Harsh Economic Sanctions, According to The U.N. Report.



   Curfews, Sanctions, Blockades, Are Economic Landmines That Are Against the Law of Humanity. Five-Hundred Thousand Infants Were killed In Iraq During the Harsh Economic Sanctions, According to The U.N. Report.
مجیب خان

President Trump, I've heard a very aggressive statement [in Houston] I didn't have say in that. I was there, I didn't know I was going to hear that statement, I had said. But I was sitting there and I heard a very aggressive statement from India, from the Prime Minister 

Prime Minister Imran Khan addressing U.N. General Assembly, Sept 27, 2019

Prime Minister Narendra Modi with President Donald Trump on stage at Howdy Modi event at NRG Stadium on Sept22, 2019 Houston TX. AFP.

Prime Minister Narendra Mode in U.N. General Assembly Sept27, 2019






   جب 1970 میں بھارت نے پاکستان کے داخلی سیاسی بحران میں فوجی مداخلت کی تھی۔ عمران خان اس وقت 17 سال کے تھے۔ جنرل یحی خان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس بھارتی مداخلت اور جارحیت پر سلامتی کونسل میں پاکستان کا کیس پیش کرنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کو بھیجا تھا۔ سلامتی کونسل کے 15 اراکین سے ذوالفقار علی بھٹو کا خطاب بہت جذباتی تھا۔ پاکستان کے بارے میں بھٹو کے جذبات جیسے دل کی گہرائی سے بول رہے تھے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک تاریخی تقریر تھی۔ مشرقی پاکستان میں بھارت کی فوجی مداخلت بند کرنے پر پولینڈ کی  قرار داد بھٹو نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اور اس قرار داد کو پھاڑ کر کونسل کے اراکین کے منہ پر پھینک کر بھٹو کونسل کے اجلاس سے اپنے وفد کے ساتھ اٹھ کر باہر آ گیے تھے۔ اس وقت جو پاکستانی، بھارتی، اور بنگالی 19 سال کے تھے۔ آج وہ سب 50سال کے ہو گیے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی بھی 66سال کے ہو گیے۔ لیکن ان 50سالوں میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعہ خلاؤں کے چکر لگا کر پھر وہیں آ گیے ہیں جہاں یہ 50سال پہلے کے حالات میں تھے۔ مشرقی پاکستان کے بحران کی جگہ اب کشمیر کے بحران نے لے لی ہے۔ آج کشمیر کا بحران 50 سال قبل مشرقی پاکستان کے بحران سے مختلف نہیں ہے۔ کشمیر آج بھارت کا مشرقی پاکستان ہے۔ بھارت نے کشمیر میں فوجی مداخلت کی ہے۔ اور کشمیر کو اپنی فوجی چھاؤنی بنا لیا ہے۔ کشمیریوں کی نقل و حرکت پر بندشیں لگا دی ہیں۔ نہتے کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوج کی بربریت انتہا پر ہے۔ کشمیر میں 55Days Curfew بھارت کی جمہوریت میں سیاہ داغ ہیں۔
  وزیر اعظم عمران خان کو بھارت کے خلاف کرکٹ کھیلتے دیکھا جاتا تھا۔ لیکن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم عمران خان کے کشمیر کی صورت حال پر خطاب کو بھارت میں ہزاروں لوگوں نے دیکھا ہے۔ پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کو جس طرح سراہا یا گیا ہے۔ اسی طرح بھارت میں بھی آبادی کے ایک بڑے حصہ میں وزیر اعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں تقریر کو سراہا یا گیا ہے۔ 50 سال قبل بھارتی جارحیت اور مداخلت پر سلامتی کونسل میں ذوالفقار علی بھٹو نے  بڑی جذباتی تقریر کی تھی۔ اور اب 50سال بعد وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے کشمیر میں بھارتی جارحیت اور مداخلت پر تقریر کی تھی۔ کشمیریوں پر بھارتی فوج کے ظلم اور بربریت بیان کرتے ہوۓ وزیر اعظم عمران خان بھی جذباتی ہو گیے تھے۔ 'کشمیر میں انسانیت خطرے میں ہے۔ پاکستان اور بھارت  نیو کلیر جنگ کے داہنے پر کھڑے ہیں۔' بھارت کے Aggressive Behavior میں 50 سالوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ مودی حکومت کسی نہ کسی بہانے پاکستان پر حملہ کرے گی۔ اور پھر جنگ کے نقصانات اور خوفناک نتائج کے الزام بھی پاکستان کو دے گی۔ بھارتی حکومت ذرا یہ بتاۓ کہ اس نے افغانستان میں ازبک اور تا جک  کے پشتونوں کے ساتھ اختلافات ختم کرانے میں کیا تھا؟ بلکہ ازبک اور تا جک کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا تھا۔ اور افغانستان میں امن کی کوششوں کو سبوتاژ کیا تھا۔ اس خطہ اور ایشیا میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں کیا تھا؟ وزیر اعظم مودی نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ بلکہ دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوۓ وزیر اعظم مودی نے کہا “We belong to a country that has given the world not war, but Buddha’s message of peace.” وزیر اعظم مودی سے سوال ہے کہ جب وہ گجرات کے وزیر اعلی تھے۔ ان کے واچ میں ہندو انتہا پسندوں نے ہزاروں مسلمانوں عورتوں، بچوں اور مردوں کا قتل عام کیا تھا۔ 30ہزار مسلمانوں کے گھروں اور کاروباروں کو آگ لگائی تھی۔ کیا یہ Buddha’s message of peace” تھا؟ اور اس وقت کشمیر میں 9لاکھ بھارتی فوج کیا کشمیریوں کو “Buddha’s message of peace” دے رہی ہے؟  بھارتی جاسوس کو جو پاکستان میں دہشت گردوں کو کومک پہنچانے کا کام کرتا تھا۔ اور جسے پاکستان نے  پکڑا تھا۔ عالمی عدالت نے اسے بےگناہ نہیں کہا ہے۔ بلکہ اس کی موت کی سزا پر نظر ثانی کرنے کا کہا ہے۔ وہ بھارتی ایجنٹ تھا۔ اور پاکستان میں دہشت گردی کر رہا تھا۔  نہ صرف یہ بلکہ بھارتی فوجیں روزانہ اپنی سرحدوں سے پاکستان پر حملہ کر رہی ہیں۔ اور وزیر اعظم مودی دنیا سے کہتے ہیں کہ 'ہم ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جو دنیا کو جنگ نہیں بلکہ بدھا کا امن کا پیغام دیتا ہے۔' شاید وزیر اعظم عمران خان کو اسی بدھا نے امن کا پیغام دیا تھا جس کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے مودی کی طرف امن کا ہاتھ  بڑھایا تھا۔ لیکن وزیر اعظم مودی نے وزیر اعظم عمران خان کے نہیں بلکہ بدھا کے امن پیغام کو ٹھکرا یا تھا۔ 50سال قبل وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سلامتی کونسل میں تاریخی تقریر کے بعد یہ کسی پاکستانی لیڈر کی پہلی تاریخی تقریر تھی جو وزیر  اعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی میں کی ہے۔ یہ تقریر سن کر بھارتی لیڈر، بھارتی دفتر خارجہ کے بیورو کریٹس  سکتہ میں آ گیے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کا Rebuttal  کے لیے وزیر اعظم مودی اور ان کی حکومت کو الفاظ نہیں مل رہے ہیں۔ بھارت میں آج نواز شریف اور آصف علی زر داری  بہت یاد آ رہے ہیں۔
  وزیر اعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی میں تقریر سے قبل نیویارک میں اپنے ایک ہفتہ قیام میں کئی Think Tanks سے خطاب، امریکی نیوز چینلز کو انٹرویوز،  وال اسٹریٹ جنرل کے ایڈیٹوریل بورڈ سے ملاقات میں کشمیر میں مودی حکومت کے غیر جمہوری، غیر آئینی، غیر انسانی اقدامات سامنے ر کھے تھے، علاقہ کی صورت حال، پاکستان امریکہ تعلقات، افغانستان کو جنگ سے امن میں لانے کی کوششیں جیسے اہم موضوع پر ان کی حکومت کی پوزیشن اور پالیسی ترجیحات پر کھل کر بات کی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے صرف ایک ہفتہ میں پاکستان کا امیج بنایا ہے۔ جسے ماضی کی دو حکومتوں نے ہر طرح کے دھبوں سے داغدار کر دیا تھا۔ اسے دھو یا ہے اور پھر چمکا یا ہے۔ سابقہ حکومتوں نے واشنگٹن میں پاکستان کا امیج بنانے کے لیے لابی فرم کو Hired کیا تھا۔ اور اسے 60ملین ڈالر دئیے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے لیے یہ لابی خود کی تھی۔ اور اس کے ٹھوس مثبت نتائج بھی فورا" سامنے آئیں ہیں۔ کشمیر کو عالمی مسئلہ بنا دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ ماضی کی انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ  برا سلوک کیا تھا۔ صدر ٹرمپ پاکستانی میڈیا  کے نمائندوں سے بھی بڑے Friendly ہو گیے تھے۔
  امریکی نژاد بھارتیوں نے ہوسٹن میں نریند ر مودی کو بھارت کا ایک عظیم لیڈر تسلیم کرانے کے لیے ایک بہت بڑا اجتماع  کیا تھا۔ جس میں بھارتیوں کے علاوہ ٹیکساس کے ری پبلیکن سینیٹر ز  اور کانگیریس مین بھی وزیر اعظم مودی کو سننے آۓ تھے۔ ٹیکساس میں امریکی نژاد بھارتیوں نے ٹیکساس کے سینیٹروں کے ذریعے صدر ٹرمپ کو بھی اس اجتماع میں شریک ہونے کے لیے کہا تھا۔ صدر ٹرمپ خصوصی طور پر وزیر اعظم مودی کے ساتھ اسٹیج پر آۓ تھے۔ وزیر اعظم مودی کی تقریر کے سارے وقت صدر ٹرمپ ان کے پیچھے کھڑے رہے۔ بھارتیوں کا اتنا بڑا اجتماع دیکھ کر  وزیر اعظم مودی یہ بھول گیے تھے کے وہ ٹیکساس میں یہ تقریر کر رہے تھے اور ان کے پیچھے صدر ٹرمپ اور سامنے کی پہلی نشستوں پر امریکی سینیٹر ز  اور کانگریس مین بیٹھے تھے۔ وزیر اعظم مودی کو پاکستان پر سخت غصہ تھا۔ جو کشمیر میں عالمی مداخلت کے لیے مہم چلا رہا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نیویارک میں روزانہ صرف کشمیر پر بولے جا رہے تھے۔ وزیر اعظم مودی بھی ٹیکساس میں اپنی تقریر میں یہ سمجھ کر پاکستان کے بہت زیادہ خلاف بول رہے تھے کہ وہ کیرالہ میں انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ دوسرے روز نیویارک میں صدر ٹرمپ  وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وفد  سے ملے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے گفتگو کا آغاز کشمیر کی صورت حال پر شدید تشویش سے کیا تھا۔ اس پر صدر ٹرمپ نے کہا "ہوسٹن میں وزیر اعظم [مودی] کا بیان بہت Aggressive تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں یہ سننے جا رہا تھا۔ میں وہاں موجود تھا اور میں نے بہت Aggressive بیان سنا تھا۔" اور مجھے امید ہے کہ وہ اس فیصلے کے قریب آ رہے ہیں کہ بھارت اور پاکستان مل کر اس کا حل نکالیں گے جو دونوں کے لیے اچھا اور بہتر ہو گا۔ اور مجھے یقین ہے یہ ہو سکتا ہے۔ اس بارے میں ہمیشہ ایک حل ہے۔" صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی کے انتہائی جارحانہ روئیے کو محسوس کیا تھا۔ اور وہ اس سے خوش نہیں تھے ان کی موجودگی میں اتنی زیادہ جارحیت  کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ صدر ٹرمپ کو وزیر اعظم مودی کے  سیاسی اجتماع میں جانا نہیں چاہیے تھا۔ 80 فیصد بھارتی نژاد امریکی ڈیمو کریٹس ہیں۔ 2016 کے انتخابات میں انہوں نے ہلری کلنٹن کو ووٹ دئیے تھے۔ کانگریس میں چار پانچ بھارتی امریکی 2016 میں منتخب ہوۓ تھے۔ اور یہ ڈیمو کریٹس ہیں۔ اور صدر ٹرمپ کے Impeachment کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم وزیر اعظم مودی نے امریکی بھارتیوں سے کہا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کو ووٹ دیں۔ اور صدر ٹرمپ کو آئندہ چار سال کے لیے منتخب کریں۔
  9/11 کے بعد پاکستان اور امریکہ میں تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا۔ صدر بش نے پاکستان کو Non-NATO ملک کا درجہ دیا تھا۔ پھر افغانستان میں پاکستان کے اصرار پر ازبک اور تا جک کے بجاۓ ایک پشتون صدر بنانے پر اتفاق کیا تھا۔ برجیت مسرا وزیر اعظم اٹل بہاری با جپائی کے قومی سلامتی امور کے مشیر تھے۔ اور پھر وزیر اعظم من موہن سنگھ  نے بھی انہیں اپنا قومی سلامتی  امور کا مشیر رکھا تھا۔ بر جیت مسرا بڑا دور اندیش اور ایک انتہائی Shrewd strategist تھا۔ اس نے وزیر اعظم با جپائی کو یہ مشورہ دیا کہ امریکہ کو پاکستان سے دور کرنے کے لیے بھارت کو امریکہ کے قریب تر ہونا پڑے گا۔ بش انتظامیہ کے آخری چند ماہ اور پھر اوبامہ انتظامیہ کے 8سال میں اس بھارتی Strategy کے ثبوت بہت واضح نظر آ رہے تھے۔ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے قریبی تعلقات نے دور کے فاصلوں نے لے لی تھی۔ امریکہ پاکستان کی کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ پاکستان کے خلاف بھارت کے ہر دعوی اور ہر الزام کی تائید کرنے لگا تھا۔ یہاں تک کہ بھارت کے ساتھ امریکہ کے Strategic  تعلقات کو افغان جنگ پر فوقیت دی گئی تھی۔ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات سے ہمیشہ فائدہ اٹھایا تھا۔ لیکن بھارت کے ساتھ امریکہ کے  Strategic  تعلقات سے  نئی دہلی نے سیاسی، اقتصادی، اور تجارتی فائدے اٹھاۓ تھے۔ بھارت کے ساتھ امریکہ کا تجارتی خسارہ 800 بلین ڈالر پر پہنچ گیا تھا۔ جو شاید چین کے ساتھ تجارتی خسارے سے بھی بہت زیادہ تھا۔ پھر سیاسی خسارے میں امریکہ ایک ٹیریلین ڈالر کی افغان جنگ بھی ہار گیا تھا۔ صدر ٹرمپ کی America First میں صدر ٹرمپ اب بھارت سے تجارتی اور سیاسی خسارے کا حساب مانگ رہے ہیں۔ امریکہ- بھارت Strategic تعلقات سے پاکستان کا خسارہ یہ تھا کہ افغان جنگ پاکستان کے شہروں میں پہنچ گئی تھی۔ اس جنگ میں پاکستان کے 70ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ پاکستان کی معیشت کو ایک بلین ڈالر کا خسارہ ہوا تھا۔
   صدر ٹرمپ ہوسٹن مودی ریلی میں ایسے ہی نہیں گیے تھے۔ ان کے کچھ اپنے مفاد بھی تھے۔ ایک تو صدر ٹرمپ کو یہ بڑی امید تھی کہ مودی کے  اس دورے میں بھارت کے ساتھ امریکہ کا تجارتی معاہدہ ہو جاۓ گا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ صدر ٹرمپ بھارت کو آئل اور گیس برآمد کرنے کے معاہدے دیکھ رہے تھے۔ وزیر اعظم مودی H-1B ویزے  پر سے پابندی ہٹانے اور بھارتی Software engineers کو امریکہ آنے کے لیے ویزے دینے کی صدر ٹرمپ سے درخواست کر رہے تھے۔ لیکن وزیر اعظم مودی کی کشمیر پالیسی اور وزیر اعظم عمران خان کی جنرل اسمبلی میں پر زور تقریر نے  بھارت کے ساتھ معاہدوں کا ماحول بدل دیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے ہوسٹن میں وزیر اعظم مودی کا انتہائی Aggressive Behavior بھی دیکھ لیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم مودی کی ٹیم کو 8 وکٹوں اور 100 رن پر آوٹ کر دیا۔ اور یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی تھی۔
  یہ اہم نیشنل ایشو ز ہیں۔ جن پر پاکستان کے تمام رہنماؤں کا ایک پختہ موقف ہونا چاہیے تھا۔ اگر ان کا کوئی موقف نہیں تھا تو انہیں اپنے منہ بند رکھنا چاہیے تھا۔ جس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنما انتہائی گھٹیا زبان استعمال کر رہے ہیں۔ حکومت کے کپڑے اتارنے کی سیاست کر رہے ہیں۔ اس سے ان کے Uncivilized Society کے رہنما ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ 30سالہ پیپلز پارٹی کا چیرمین بھی ان کے ساتھ انتہائی جاہل ہو گیا ہے۔ بے نظیر بھٹو مرحومہ نے اس لیے اسے پرورش کے لیے لندن میں رکھا تھا کہ یہ وہاں کچھ سیکھے گا۔ ایک Civilize Leader بن کر پاکستان کی سیاست کو Civilize  بناۓ گا۔ لیکن یہ حکومت کی مخالفت میں نواب زدہ  نصر اللہ اور مولانا مفتی محمود مرحوم کی سیاست کر رہا ہے۔ جنہیں اقتدار کی ہوس ہے عوام اب انہیں اقتدار سے محروم رکھیں۔   
              


Wednesday, September 25, 2019

This War, Threat of War, Military Boots on Foreign Soil, Inhuman Sanctions, Are Immoral, Uncivilized, Undemocratic, Methods to Solve Disputes, Conflicts, And Disagreements. Where Are America’s Great Values?



   This War, Threat of War, Military Boots on Foreign Soil, Inhuman Sanctions, Are Immoral, Uncivilized, Undemocratic, Methods to Solve Disputes, Conflicts, And Disagreements. Where Are America’s Great Values?
مجیب خان
World to unite against Iran's "Blood Lust". As long as Iran's menacing behavior continues, sanctions will not be lifted. they will be tightened. President Trump's address to the UN General Assembly, Sept 24, 2019  

 Iran aggressively pursues weapons of mass destruction and export terror, President Bush's Axis of evil speech to the UN General Assembly, Sept 2002   





   سعودی عرب کی Aramco آئل تنصیبات ور لڈ ٹریڈ سینٹر تھا۔ جس پر 9/14 کو 9/11 کے صرف 3 روز بعد رات کی تاریکی میں میزائلوں سے حملہ ہوا تھا۔ امریکہ میں اس وقت دن تھا۔ سعودی عرب میں جب دن کی روشنی آئی تو سعودی حکام کو بتایا گیا کہ ایران نے ان کے تیل کی تنصیبات پر 19 میزائل گراۓ تھے۔ ان میں سے کچھ میزائل ڈر ون سے گراۓ تھے۔ لیکن صرف دو میزائل آئل تنصیبات پر گرے تھے۔ جس سے آئل تنصیبات کا زبردست نقصان ہوا تھا۔ سعودی حکام کے مطابق صرف 5فیصد آئل پروڈکشن میں کمی ہوئی ہے۔ اور عالمی آئل فراہمی میں کوئی فرق نہیں آۓ گا۔ تنصیبات کی اس ماہ کے آخر تک مرمت مکمل ہو جاۓ گی۔ اور آئل کی پروڈکشن معمول کے مطابق ہونے لگے گی۔ سعود یوں نے کبھی جنگ نہیں لڑی تھی۔ صرف قبائلی لڑائیاں لڑنے کا ان کا کلچر ہے۔ جنگ میں ہمیشہ بھاری نقصانات ہوتے ہیں۔ سعودی امریکی،  برطانوی اور فرانسیسی ہتھیاروں سے یمن کو کھنڈرات بنا رہے تھے۔ لوگوں کی املاک تباہ کر رہے تھے۔ اسپتال اسکول سڑکیں تباہ کر رہے تھے۔ یمن غریب ترین ملک ہے۔ ان کے پاس World class companies and corporations نہیں ہیں کہ سعودی بمباری سے عالمی معیشت پر تباہ کن اثرات ہوتے۔ لیکن جنگ میں بچے عورتیں بوڑھے جوان مرتے ہیں اور املاک تباہ ہوتی ہیں۔ لیکن طاقتور اور مالدار قومیں انہیں زیادہ اہمیت نہیں دیتی ہیں۔ یا ایران کو الزام دینے لگے گے۔ اگر صد ام حسین عراق میں ہوتے تو انہیں الزام دینے لگتے۔ صد ام حسین کیونکہ بادشاہ نہیں تھا۔ اس میں اتنی انسانیت ضرور تھی کہ اس نے کویت پر قبضہ کرنے کے بعد کویت کو اس طرح کھنڈرات نہیں بنایا تھا کہ جیسے یمن اور شام کو انہوں نے کھنڈرات بنایا ہے۔ ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں تہس نہس کی ہیں۔ تاہم ان میں یہ Guilt ہے جو ایران کو ان تباہیوں کے الزام دینے لگتے ہیں۔ صدر ٹرمپ تیسرے صدر ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں ایران کے بارے میں انتہائی سخت باتیں کی ہیں۔ دنیا کو ایران سے نفرت اور حقارت سے برتا ؤ کرنے کا کہا ہے۔ ان سے قبل صدر اوبامہ اور صدر اوبامہ سے قبل جارج بش نے بھی ایران کو ملعون کیا تھا۔ Axis of Evil کہا تھا۔ لیکن اس سے ایران پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ ایران کا جو مقام ہے وہ ہے۔ لیکن ایسی زبان استعمال کرنے سے امریکہ کے Greatness ہونے کا مقام ضرور گر گیا تھا۔ بغداد میں صدر بش پر جوتا پھینکا تھا۔ بلاشبہ America is the Great لیکن اس کے لیڈروں کے Low Behavior اور Cheap Talks سے امریکہ کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی سالانہ رپورٹ میں سعودی عرب میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ذکر ہوتا ہے۔ لیکن اب اقوام متحدہ کی رپورٹ میں سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کو یمن میں جنگی جرائم  میں ملوث ہونے کا بتایا گیا ہے۔ امریکی عوام کو جنگی جرائم میں امریکہ کا نام آنا پسند نہیں ہو گا۔ جنگی جرائم اگر کسی بڑے مقصد سے ہوتے تو شاید انہیں دوسری طرح دیکھا جا سکتا تھا۔  
  صدر ٹرمپ نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں ایران کے خلاف الزامات کی جو چار ج شیٹ دی ہے۔ اصل Facts اس کے بر عکس ہیں۔ 40 سال میں ایران نے اپنے اسلامی انقلاب کو اپنی سرحدوں میں رکھا ہے۔ اور اسے کسی عرب ملک میں پھیلانے کی کبھی کوشش نہیں کی تھی۔ جیسے سعودی عرب اپنا وہابی اور سلا فسٹ نظریاتی اسلام سارے اسلامی ملکوں میں پھیلا رہا تھا۔ 9/11 کے بعد اس پر بہت کچھ کہا گیا ہے اور بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ امریکہ کے اخبارات میں یہاں تک لکھا گیا تھا کہ امریکہ کو کسی طرح سعودی عرب کے تیل کی دولت کو کنٹرول کرنا چاہیے جسے سعودی حکومت اسلامی ملکوں میں مسجدوں اور مدرسوں میں وہابی نظریاتی اسلام فروغ دینے پر خرچ کرتی ہے۔ پھر یہ بھی کہا گیا تھا کہ عرب Repressive حکومتیں اپنے عوام کی توجہ مغرب سے نفرت کی طرف کر دیتی تھیں۔ شاید مغرب بالخصوص امریکہ نے اس کا یہ حل کیا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کو یمن کی جنگ دے دی ہے۔ اور ان کے تیل کی دولت اس طرح کنٹرول کی جا رہی کہ انہیں کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا جا رہا ہے۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس نے 4سال میں یمن جنگ بند کرانے میں کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ اسرائیل کی جب بھی فلسطینیوں کے ساتھ جنگ ہوئی ہے۔ اور اسرائیل میں شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے امریکہ اور یورپی ملکوں نے  جنگ بندی کر آئی تھی۔ 80ہزار یمنی اس جنگ میں مارے گیے ہیں۔ جبکہ اتنی بڑی تعداد میں سعودی نہیں مارے گیے ہیں۔ اس جنگ کے دوران سعودی عرب میں نائٹ کلب اور Movie Theaters کھل گیے ہیں۔ یمن کے لوگ بھوک اور افلاس سے مر رہے ہیں۔ کسی نے یہ دیکھ کر سعودی آئل تنصیبات کو ٹارگٹ کیا ہے کہ جب سعودی عرب کے پاس Petrodollar نہیں ہوں گے تو نائٹ کلب اور Movie Theaters تعمیر نہیں ہوں گے۔ اور کھربوں ڈالر کا اسلحہ بھی نہیں خریدا جاۓ گا۔ جس سے 80ہزار بے گناہ یمن کے شہری مارے جا رہے تھے۔ اس حملہ پر ایرانی تہران کی سڑکوں پر خوشی سے ڈانس نہیں کر رہے تھے۔ سعودی آئل تنصیبات پر حملے سے ایران کو کیا حاصل گا؟ ایران پر امریکہ کی بندشیں لگی ہو ئی ہیں۔ سعودی آئل تنصیبات پر حملہ کی صورت میں ایران اپنے تیل کی پیداوار بڑھا کر اسے برآمد نہیں کر سکتا تھا۔ پھر ایران کا اس سے کو نسا مقصد پورا ہو سکتا تھا۔
  مڈل ایسٹ میں امریکہ کی جنگ ناکام ہوئی ہے۔ امریکہ کی ڈپلومیسی ناکام ہو گئی ہے۔ امریکہ کی کامیابیوں کی کچھ کوششوں کو اسرائیل نے ناکام بنایا ہے۔ اور کچھ کوششیں سعودی عرب نے سبوتاژ کی ہیں۔ اور امریکہ کو اپنی ناکامیوں کے الزام دوسروں کو دینے کی سیاست دی ہے۔ امریکہ کی اپنی اخلاقی اور جمہوری قدریں ہیں۔ کبھی ایسا نظر آتا ہے کہ امریکہ کی اخلاقی، جمہوری اور قانون کی بالا دستی کی قدریں Soviet Empire کے ملبہ میں دب گئی ہیں۔ اور امریکہ اب اسرائیل اور سعودی عرب کی انگلیوں پر ناچ رہا ہے۔ ان کی قدریں امریکہ کی قدریں بن گئی ہیں۔ عالمی برادری نے 2سال کی انتھک کوششوں کے بعد ایران کے ایٹمی پروگرام کا مسئلہ حل کیا تھا۔ جسے سلامتی کونسل نے ایک اہم قانونی دستاویز تسلیم کیا تھا۔ مڈل ایسٹ کا ایک اہم ترین مسئلہ حل ہو گیا تھا۔ ویسے تو مڈل ایسٹ میں تنازعوں کو حل کرنے کی کوئی روایت نہیں ہے۔ 70 ، 50 ،40 سال سے مڈل ایسٹ ہر طرح کے تنازعوں میں لٹکا ہوا ہے۔ صدر بش نے عراق میں مہلک ہتھیاروں کا مسئلہ جنگ سے حل کیا تھا۔ جس کے بعد صدر بش نے مڈل ایسٹ میں ایک ہزار نئی جنگیں پیدا کر دی تھیں۔ ایک ہزار نئے مسائل پیدا کر دئیے تھے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کا ایٹمی سمجھوتہ  ختم کر کے مڈل ایسٹ میں تیسری عالمی جنگ کے حالات پیدا کر دئیے ہیں۔ امریکہ کے ان احمقانہ فیصلوں سے دنیا کو Fed Up دیکھ کر ایران کو الزامات دینے لگتے ہیں۔ الزام دینا مسئلوں کا حل نہیں ہے۔ ایک مسئلے کا پر امن حل ہوجا نے کے بعد اسے دوبارہ پہلے سے زیادہ بڑا مسئلہ بنانا اور پھر عالمی برادری سے ایران کے مسئلہ پر امریکہ سے تعاون کی اپیلیں کرنا۔ دنیا کو پاگل کرنا ہے۔
  صدر ٹرمپ کو اگر ایران کے ایٹمی سمجھوتہ میں کچھ خامی نظر آئی تھی تو اسے دور کرنے کے Civilize طریقے اختیار کیے  جا سکتے تھے۔ معاہدے کو برقرار رکھا جاتا۔ معاہدے پر عملدرامد جاری رہتا۔ معاہدے میں رد و بدل کے لیے مذاکرات ہوتے رہتے۔ آیت اللہ  خمینائی پہلے ہی ایٹمی ہتھیاروں کو بنانے اور رکھنے کے خلاف فتوی دے چکے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ ایران سمجھوتہ میں رد و بدل  پر آمادہ نہیں ہوتا۔ لیکن صدر ٹرمپ نے صرف دو ملکوں اسرائیل اور سعودی عرب کی مخالفت کی حمایت میں  ایک چھوٹے سے اختلاف کو پہاڑ بنا دیا ہے۔ دنیا بالخصوص مڈل ایسٹ جہاں پہلے ہی امن اور استحکام نہیں ہے ایک خطرناک عالمی جنگ کے دہا نے پر پہنچا دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں ایران کے بارے میں پیراگراف کہ “World to unite against Iran’s Blood Lust, as long as Iran’s menacing behavior continues, sanctions will not be lifted. They will be tightened.” اور 18 سال قبل صدر جارج بش کے جنرل اسمبلی سے خطاب میں ایران کے لیے Axis of Evil کے الفاظ اس کا واضح ثبوت ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کی پالیسی مڈل ایسٹ کے حالات کو تنازعوں میں رکھنے کی پالیسی ہے۔ 18سال ایک بہت بڑا عرصہ ہے۔ مسلمانوں کی ایک نسل کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ مسلمانوں کی ایک نسل امریکہ کے لیے افغانستان میں کمیونسٹوں کے خلاف جہاد میں تباہ و برباد ہو گئی تھی۔ سعودی عرب نے اسلام اور مسلمانوں کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ کمیونزم اور سوشلزم سے اسلام اور مسلمانوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچا تھا۔ روس میں مسلمان سعودی عرب سے زیادہ بہتر حال میں ہیں۔ صدر پو تن نے Chechnya دوبارہ تعمیر کر دیا جو 1990s میں خانہ جنگی میں کھنڈرات بن گیا تھا۔ Chechen Muslim خوش ہیں اور امن سے یہاں رہتے ہیں۔                 


Friday, September 20, 2019

Is Saudi Arabia Acting on Behalf of Israel, And Is America Acting on Behalf of Saudi Arabia Against Iran?


 
   Is Saudi Arabia Acting on Behalf of Israel, And Is America Acting on Behalf of Saudi Arabia Against Iran?  

US, UK, And France Are Complicit in Yemen, War Crimes Said in United Nations Investigations Report, Providing Intelligence and Logistics Support to A Saudi-Led Coalition That Starved Civilians as A War Tactic. Iran Is Not Mention in Report Complicit in the Yemen War Crimes, But Said Iran Support Houthis  
مجیب خان

Exhibition of Iran missiles debris, attack Saudi Arabia's Aramco oil facilities 

Secretary of State Colin Powell making a case for war on Iraq at the U.N Security Council, on Fab5, 2003  

Bombing civilians in Yemen, A British Army Servicing Saudi Jets 

More than 60% of Civilians deaths have been the result of Saudi-led airstrikes, the UN said 




   سعودی عرب تیل تنصیبات پر میزائل حملہ کی خبر کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئی تھیں کہ امریکہ کے نیوز چینلز پر پنڈتوں نے یہ فیصلہ دے دیا تھا۔ کہ حملہ ایران کی سر زمین سے ہوا تھا۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے پنڈتوں سے مکمل اتفاق کیا تھا۔ اور کہا کہ سعودی تیل تنصیبات پر حملہ اس میں شبہ نہیں ہے کہ ایران نے کیا ہے۔ ایران کو سعودی عرب میں تیل تنصیبات پر حملہ میں بالکل اسی طرح ملوث کیا جا رہا تھا کہ جیسے صد ام حسین کو 9/11 کے امریکہ پر حملہ میں ملوث ہونے کے ثبوت دئیے جا رہے تھے۔ اور صد ام حسین کو انتہائی خطرناک انسان بتایا جاتا تھا۔ عراق کے خلاف صرف الزامات پر مبنی جس طرح  مہم چلائی گئی تھی اسے اب ایران کے خلاف Scan کیا جا رہا ہے۔ ایران کو ہر طرف سے گھیرا جا رہا ہے۔ ایران کو Destabilize کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ عراق پر انسانی تاریخ کی بدترین بندشیں لگائی گئی تھیں لیکن صد ام حسین کو مخصوص مقدار میں آئل فروخت کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ لیکن ایران  پر اقتصادی بندشیں عراق سے بھی زیادہ خوفناک ہیں۔ ایران کو تیل کے 15قطرے بھی فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جیسا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بجیمن نتھن یا ہو نے کہا ہے کہ ہم اقتصادی بندشوں سے ایران کا گلہ گھونٹ دیں گے۔ ہم ایران کا مالیاتی نظام تباہ کر دیں گے۔ اوراب  یہ بتایا جا رہا کہ اقتصادی بندشیں ایرانیوں کو Bite کر رہی ہیں۔ ایرانی شیعاؤں کے سامنے اللہ کے آخری نبی محمد صعلم کے نواسوں کی مثالیں ہیں کہ یزد نے ان کا پانی بند کر دیا تھا۔ گرمی سخت تھی۔ اللہ کے نبی کے نوا سے پیاس سے بلبلا رہے تھے۔ لیکن یزد کے آگے جھکے نہیں تھے۔ اپنی جانیں دے دی تھیں۔ شیعہ مذہب اس مثال پر قائم ہے۔ ار دن کے شاہ عبد اللہ نے یہ بالکل درست کہا ہے کہ امریکہ مڈل ایسٹ کے بارے کچھ نہیں جانتا ہے۔ لیکن سمجھتے ایسا ہیں کہ جیسے وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ امریکیوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا ہے کہ ایران جنگ کیوں چاہے گا؟ اسے جنگ سے کیا ملے گا؟ امریکہ کا مفاد جنگوں میں ہے۔ جنگوں کے بغیر امریکہ کا Survival مشکل ہو جاتا ہے۔ گزشتہ 19 سال میں دنیا میں کسی ملک نے اتنی جنگیں نہیں لڑی ہیں کہ جتنی امریکہ نے ریکارڈ توڑ جنگیں لڑی ہیں۔ مسلسل جنگیں اسرائیل کی ثقافت بن گئی ہیں۔ بہرحال ایران کو دنیا بھر میں جنگیں لڑنے کا شوق ہے اور نہ ہی اس کی آبادی اور وسائل ایران کو اس کی اجازت دیتے ہیں۔ ظالم اور مظلوم کی جنگ میں مظلوم کی مدد اور حمایت ایک بڑی عبادت ہے۔ دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جن کی ہمدردیاں یمن میں Houthis کے ساتھ ہیں۔ ایران بھی  Houthis کی اسی طرح حمایت کرتا ہے کہ جیسے امریکہ نے افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف Afghan Freedom Fighters کی حمایت کی تھی۔ لیکن ایران Houthis کو تربیت نہیں دے رہا ہے۔ انہیں ہتھیار نہیں دے رہا ہے۔ ان کی صرف اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر حمایت کر رہا ہے۔
  اقوام متحدہ کی یمن میں جنگی جرائم ہونے کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “US. UK and France Complicit in Yemen war crimes, providing intelligence and logistics support to a Saudi-led coalition that starves civilians as a war tactic,” the U.N said                                                                                                                                                                                                                                                         
رپورٹ میں Houthis کو بھی جنگی جرائم ہونے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ ایران کے بارے میں صرف Houthis کی حمایت کرنے کی حد تک ذکر ہے۔ لیکن ایران کو یمن میں جنگی جرائم کرنے کا الزام نہیں دیا گیا ہے۔ نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ  ایران Houthis کو تربیت دے رہا تھا اور انہیں ہتھیار دے رہا تھا۔ اور ایران بھی War crimes میں Complicit تھا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اگر یہ کہا جاتا تو امریکی میڈ یا میں اسے بار بار دکھایا جاتا۔ لیکن امریکی میڈ یا میں اس رپورٹ کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ہے۔
  عرب دنیا میں شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے  فیصلوں سے ہر طرف مخالفین بناۓ ہیں۔ عرب حکومتوں سے صرف تعلقات ر کھے ہیں۔ اور عرب عوام کو اپنا مخالف بنایا ہے۔ Brotherhood کی عرب دنیا میں سعودی عرب نے بنیاد رکھی تھی۔ اور اس تنظیم کو عرب ملکوں میں قوم پرست اور سو شلسٹ حکومتوں کو Counter کرنے کے مقصد سے استعمال کیا تھا۔ سعودی عرب اور خلیج کے بادشاہوں نے انہیں 60سال تک سپورٹ کیا تھا۔ Brotherhood ہر عرب ملک میں ہیں۔ اور یہ ملین میں ہیں۔ 9/11 کے بعد ان کی سیاست بدل گئی ہے۔ انتہا پسند سیاست ترک کر دی ہے۔ اور یہ اعتدال پسندی کی طرف آ گیے ہیں۔ اس لیے مصر کے پہلے جمہوری انتخاب میں Brotherhood بھاری اکثریت سے انتخاب جیتے تھے۔ Brotherhood کو سعودی عرب نے اب دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ اور امریکہ سے بھی اسے دہشت گرد قرار دینے کا کہا ہے۔ لیکن بعض عرب حکومتوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ ان عرب ملکوں میں ان کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ اور یہ عرب ملک اپنی آبادی کے ایک بڑے حصہ کو دہشت گرد قرار دینے کے خلاف ہیں۔ ان ملکوں میں ار دن، کویت،  تونس، الجیریا، مراکش قطر شامل ہیں۔ حزب اللہ اور حما س بھی سعودی عرب نے دہشت گرد تنظیمیں قرار دی ہیں۔ سعودی عرب کی سخت گیر مذہبی سیاست میں یہ تنظیمیں ایک اہم مقام رکھتی تھیں۔ سعودی عرب نے ان تنظیموں کی حمایت کھو دی ہے۔ سعودی عرب کے ایران سے تعلقات بہت خراب ہیں۔ عراق کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات اگر خراب نہیں ہیں تو بہت اچھے بھی نہیں ہیں۔ سعودی عرب کے شام سے تعلقات منقطع ہیں۔ سعودی عرب کے قطر سے تعلقات منقطع ہیں۔ سعودی عرب نے قطر کی ناکہ بندی کر دی ہے۔ یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں بادشاہوں کے اتحاد کو بری طرح شکست ہو رہی ہے۔ سوڈان میں عوام نے سعودی حکومت کے ایک قریبی اتحادی صدر  Omar al-Basherکی حکومت ختم کر دی ہے۔
  سعودی عرب کے اندرونی حالات میں Unrest ہے۔ سعودی عرب میں 70سال کے نظام کو جس تیزی سے ولی عہد شہزادہ محمد نے Dismantle کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کی سخت مخالفت ہو رہی ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد جب 30سال کے ہو گیے تو ایک روز صبح اٹھے اور یہ فیصلہ کیا کہ سعودی عرب میں نائٹ کلب اور Movie Theaters کھولے جائیں گے۔ سعودی عرب کو جدید ترقی یافتہ سوسائٹی بنایا جاۓ گا۔ اور اس پر کام شروع ہو گیا ہے۔ نائٹ کلب کھل گیے ہیں۔ شہزادوں کے محلوں کی طرح شاہانہ Movie Theaters بھی کھل گیے ہیں۔ سعودی عرب Super-strict اسلامی معاشرہ ہے۔ ولی عہد کی جدید اصلاحات کی سخت مخالفت ہو رہی ہے۔ لو گ احتجاج کر رہے ہیں۔ امام اپنے خطبوں میں انہیں مستر د کر تے ہیں۔ ولی عہد کی خفیہ پولیس مسجدوں سے اماموں کو پکڑ کر لے جاتی ہے۔ بہت سے عالم دین، مسجدوں کے امام جن میں خانہ کعبہ کے امام بھی شامل ہیں۔ حکومت کی حراست میں ہیں اور لا پتہ ہیں۔ ان کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہے۔ ان میں بعض کو موت کی سزائیں دی گئی ہیں۔ سعودی عرب میں حکومت کے مخالفین کو امریکہ کی Signature war of Terror’ کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس کے میڈ یا کبھی اس صورت حال کے بارے میں دنیا کو نہیں بتاتے ہیں۔ نہ ہی یہ بتاتے ہیں کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی یمن کے خلاف جنگ کے بارے میں سعودی عوام کیا کہتے ہیں۔ جسے اب 4سال ہو گیے ہیں اور ولی عہد کو جس میں بری طرح غریب Houthis سے شکست ہو رہی ہے۔ سعودی حکومت کے مخالفین کی ہمدردیاں بھی شاید Houthis کے ساتھ ہیں۔
  اگر ایران نے خلیج کے ملکوں میں شیعاؤں کو حکومتوں کے خلاف اس طرح نہیں اکسایا ہے کہ جس طرح Hong Kong کے لوگوں کو انتشار پھیلانے کے لیے اکسایا جا رہا ہے۔ پھر ایران سعودی عرب میں آئل تنصیبات پر کیوں حملہ کرے گا؟  خطہ کے حالات کو مزید بگاڑنے میں ایران کا کوئی مفاد نہیں ہے۔ سعودی فوجی ریاض میں میزائلوں کے جن ٹکڑوں کے بارے میں عالمی پریس کو بتا رہے تھے کے یہ ایران کے تھے۔ مڈل ایسٹ میں 6سال سے ISIS کے خلاف شام اور عراق میں گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی۔ یہاں ایرانی بھی عراقی اور شامی فوج کے ساتھ  ISIS سے اپنے ہتھیاروں اور میزائلوں کے ساتھ لڑ رہے تھے۔ اور عراق اور شام سے ISIS کا مکمل خاتمہ کیا تھا۔ اب ریاض میں ایرانی میزائلوں کے جن ٹکڑوں کو عالمی پریس کو دکھایا گیا تھا۔ یہ اسرائیلی Mossad اور ISIS نے عراق اور شام سے جمع کیے ہوں گے۔ اور سعودی حکومت کو ایران کے خلاف ایک Solid case بنانے کے لیے دئیے ہوں گے۔ عراق کے خلاف حملہ کا کیس بنانے  میں ایسی مثالوں کو بنیاد بنایا گیا تھا۔
               

Sunday, September 15, 2019

Thank God, John Bolton Is Gone and The World Is Saved. Bombs Will Not Fall on Iran, Regimes Will Not Change in Iran, North Korea, and Venezuela, Long Live People



  Thank God, John Bolton Is Gone and The World Is Saved. Bombs Will Not Fall on Iran, Regimes Will Not Change in Iran, North Korea, and Venezuela, Long Live People    
 
Condoleezza Rice, America’s Worst National Security Advisor, And Architects  
of America's Longest War, Afghan War will Continue Until the Complete Annihilation of The Taliban; No Talk with Taliban, No Political Solution  
 
مجیب خان

President Trump fire National Security Advisor John Bolton

President George W. Bush's  National Security Advisor  


 
  وائٹ ہاؤس میں اگر ایک دوسرا بش ہوتا اور John Bolton اس کے قومی سلامتی امور کے مشیر ہوتے تو مڈل ایسٹ میں اس وقت ایک اور نئی جنگ ہو رہی ہوتی۔ ایران پر بم برس رہے ہوتے۔ بے گناہ شہری مر رہے ہوتے۔ شہر کھنڈرات بن چکے ہوتے۔ مڈل ایسٹ کا نقشہ ناقابل بیان ہوتا۔ لیکن خدا کا شکر ہے۔ دنیا ایک نئی جنگ سے بچ گئی ہے۔ John Bolton اب قومی سلامتی کے مشیر نہیں ہیں۔ امریکہ اور دنیا کی سلامتی محفوظ ہے۔ ایسے لوگ جنہوں نے عراق جنگ، لیبیا جنگ، شام جنگ، یمن جنگ میں رول ادا کیے ہیں۔ اور جن کی غفلت سے طالبان کو جنگ میں شکست ہونے کے بعد طالبان کو امریکہ کو شکست دینے کا موقعہ ملا  ہے۔ ان کی وائٹ ہاؤس، قومی سلامتی امور، پینٹ گان اور ھوم لینڈ سیکیورٹی جیسے اہم اداروں میں تقریر یاں نہیں ہونا چاہیے۔ John Bolton قومی سلامتی امور میں صرف ایک ایجنڈا لے کر آۓ تھے کہ ایران میں Regime change کس طرح ممکن بنایا جاۓ۔ مڈل ایسٹ میں ایران اسرائیل کے راستہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ جارج بش کی قومی سلامتی ٹیم کے  مشوروں پر عراق  تباہ کیا تھا۔ لیبیا اور شام اوبامہ انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم کے مشورے سے تباہ ہوۓ ہیں۔ ان ملکوں کے تباہ ہونے سے اسرائیل طاقتور ہوا ہے۔ عرب ملک کمزور ہوۓ ہیں۔ ایران واحد ملک ہے جو اسرائیل کی طاقت کو چیلنج کر سکتا ہے۔ لہذا اسے اسرائیل کے راستہ سے ہٹانا ضروری ہو گیا ہے۔ 9/11 کے دن جو بچے پیدا ہوۓ تھے۔ آج وہ 18 سال کے ہو گیے ہیں۔ مارچ 2003 میں عراق پر امریکہ کے حملہ کے دن جو بچے پیدا ہوۓ تھے وہ دو سال بعد 18 سال کے ہو جائیں گے۔ امریکہ کی دو نسلوں کی پرورش جنگوں کے ماحول میں ہوئی ہے۔ اور یہ ان کا مستقبل ہے۔
 18 سال میں قومی سلامتی امور کا رول اور کارکردگی انتہائی بدترین اور Disastrous ہے۔ قومی سلامتی کے خطرات میں کمی نہیں، اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کی قومی سلامتی امور ٹیم کے رول کو الزام دینے کے بجاۓ یہ کہا جا رہا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو عالمی ادارے اور نظام وجود میں آۓ  ہیں۔ صدر ٹرمپ انہیں تباہ کر رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صدر جارج بش کے Sovereign ملکوں پر Preemptive حملوں، Violations of Rule of Law ، قومی سلامتی کے نام پر غیر قانونی جنگیں، عالمی اداروں کی اہمیت اور قوانین ختم کرنے کے اقدامات تھے۔ امریکہ کی یہ پالیسیاں 18 سال سے ان اداروں اور عالمی نظام کو کمزور اور Destabilize کر رہی ہیں۔ 9/11 کے بعد regime change کے نام پر Preemptive wars ان اداروں اور عالمی نظام کو Dismantle کر رہی ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آۓ تھے۔ صدر اوبامہ اور ان کی قومی سلامتی امور کی ٹیم نے صدر بش نے جو جنگیں شروع کی تھیں انہیں ختم کرنے کے بجاۓ ان میں نئی جنگوں کا اضافہ کیا تھا۔ دو انتظامیہ نے 16سال میں کوئی ایک جنگ ختم نہیں کی تھی۔ بن لادن کا قتل ہونے کے بعد ISIS وجود میں آ گئی تھی۔ جو القا عدہ سے بھی زیادہ خطرناک تھی۔ امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی سلامتی امور کا جنگوں اور سلامتی کے بارے میں Judgement غلط ثابت ہو رہا تھا۔ افغانستان پر حملہ کرنے سے پہلے پینٹ گان میں ان روسی جنرلوں سے جو افغانستان میں لڑے تھے یہ پوچھا گیا تھا کہ انہوں نے افغانستان میں کیا غلطیاں کی تھیں جو ان کی شکست کا باعث بنی تھیں۔ لیکن نظر یہ آ رہا تھا کہ بش انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم کے سیاسی جنرلوں نے طالبان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد ان سے بڑے Blunders کیے تھے۔ قومی سلامتی امور کی مشیر Condoleezza Rice کو افغانستان کی تاریخ، ثقافت، اور قبائلی سسٹم کا بالکل علم نہیں تھا۔ قبائلوں میں جب لڑائی ہوتی ہے تو یہ صدیوں جاری رہتی ہے۔ افغانوں نے کبھی اپنی سرزمین پر غیر ملکی فوجوں کا خیر مقدم نہیں کیا تھا۔ لیکن پہلی  مرتبہ طالبان کے خلاف افغانوں نے امریکی فوجوں کا خیر مقدم کیا تھا۔ اس وقت طالبان کمزور تھے۔ ان کی تحریک سیاسی انتشار میں تھی۔ اور طالبان سے امریکہ اور افغان عوام کی شرائط پر سمجھوتہ ممکن ہو سکتا تھا۔ افغان جنگ بھی چند سالوں میں ختم ہو جاتی۔ لیکن قومی سلامتی امور کی مشیر Condoleezza Rice کا Judgement یہ تھا کہ طالبان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ امریکہ اور نیٹو سے مقابلہ میں زیادہ عرصہ survive کر سکیں گے۔ شاید اس غلط فہمی میں قومی سلامتی امور کی مشیر کونڈا لیزا رائس نے طالبان سے کوئی مذاکرات نہ کرنے اور ان کا مکمل خاتمہ ہونے تک جنگ جاری رکھنے کا کہا تھا۔ جبکہ Common sense اس کے برعکس تھا۔ قومی سلامتی کی مشیر کونڈا لیزا رائس شاید یہ بھول گئی تھیں طالبان جب امریکہ کے اتحادی تھے اور کمیونسٹ فوجوں لڑ رہے تھے تو یہ مجاہدین تھے اور انہیں سی آئی اے نے تربیت دی تھی۔ اور یہ اب طالبان ہیں اور اپنی اس تربیت کو یہ امریکہ کے خلاف استعمال کر رہے تھے۔
  افغان Blunder کے بعد قومی سلامتی ٹیم کا دوسرا بڑا Blunder عراق تھا۔ اول، عراق جنگ غیر قانونی تھی۔ دوسرے بغداد میں Regime change کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔ خلیج کی پہلی جنگ میں بڑے بش کے قومی سلامتی امور کے مشیر  Brent Scowcroft کا بغداد نہ جانے اور Regime change نہ کرنے کا Judgement بہت صحیح تھا کہ اس سے عراق عدم استحکام ہو  گا اور مڈل ایسٹ میں نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ اقوام متحدہ کا عراق کے بارے میں  Mandate  بھی اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ قومی سلامتی امور کے مشیر Scowcroft کے فیصلے میں قانون کا احترام تھا۔ نئے مسائل پیدا کرنے سے گریز تھا۔ حالات کو قابو میں رکھنے کا عزم تھا۔ عراق میں صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد صدر بش نے بغداد میں اپنی حکومت بنا لی تھی Condoleezza Rice یہاں بھی ان کی (عراق) سلامتی امور کی مشیر تھیں۔ بغداد میں تمام وزارتوں سے عراقیوں کو نکال دیا تھا۔ عراقی فوج اور پولیس کے ادارے ختم کر دئیے تھے۔ اور نیویارک کے ایک سابق پولیس چیف کو بغداد میں تعین کر دیا تھا۔ برطانیہ جو عراق میں ایک کلیدی اتحادی تھا۔ اسے بغداد سے دور بصرہ اور موصل میں شیعاؤں اور سنیوں کے درمیان جنگ کی دیکھ بھال کرنے کا کام دے دیا تھا۔ اور بغداد حکومت میں برطانیہ کو کوئی نمائندگی نہیں دی تھی۔ بش انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم کا یہ ایک Blunder کے بعد دوسرا Blunder تھا۔ عراق جنگ میں برطانیہ کے 600 فوجی مارے گیے تھے۔ ان فوجیوں کی مائیں آج بھی اپنے Loved ones کو یاد کر کے روتی ہیں۔ اور وزیر اعظم ٹونی بلیر سے سوال کرتی ہیں کہ عراق نے ہمارے خلاف کیا کیا تھا؟  صدر جارج  بش اور صدر اوبامہ کی قومی سلامتی امور کی ٹیم  میں اس ذمہ داری کے ساتھ Judgement کی صلاحیت نہیں تھی۔ بش انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم نے افغان اور عراق جنگوں سے دہشت گردی کو زندہ رکھا تھا۔ اور اوبامہ انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم نے لیبیا اور شام کو Destabilize کر کے دہشت گردی کو یورپ کے شہروں میں پہنچایا تھا۔ دنیا حیران اور پریشان تھی کہ امریکن یہ کیا کھیل کھیل رہے تھے۔ روس اور چین نے شام کے مسئلہ پر دو مرتبہ امریکہ کی قرارداد صرف عالمی قوانین اور اداروں کو بچانے کے لیے ویٹو کیا تھا۔ خطہ اور دنیا کے نظام کو Destabilize کرنے سے روکنے کے لیے ویٹو کیا تھا۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ طاقت دیکھانے میں بش انتظامیہ سے آ گے رہنے کے مقابلے میں تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادیوں کو روس سے مڈل ایسٹ بالخصوص شام میں مداخلت کے لیے کہنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ شام کو بچانے میں مسلم ملکوں اور پیشتر یورپی ملکوں روس کی مکمل حمایت کی تھی۔ شام کے مسئلہ پر اوبامہ انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم کا یہ احمقانہ فیصلہ تھا جبکہ مصر میں جمہوریت اور آزادی کا تختہ الٹ گیا تھا۔ ملٹری ڈکٹیٹروں کا نظام بحال ہو گیا تھا۔ ملٹری حکومت نے آزادی اور جمہوریت کے 900 سے زیادہ حامیوں کو جیلوں میں بند کر دیا تھا۔ انہیں اذیتیں دی جا رہی تھیں۔ انہیں موت کی سزائیں سنائی جا رہی تھیں۔ اور امریکہ کا صدر خلیج کے دولت مند ڈکٹیٹر بادشاہوں کے ساتھ کھڑے ہو کر Butcher of Damascus has to go کر رہے تھے۔ حالانکہ کچھ عرب Botchers صدر امریکہ کی بغل میں کھڑے تھے۔
 اوبامہ انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم کو لیبیا پر حملہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ جبکہ بش انتظامیہ نے لیبیا کے ساتھ تمام معاملات طے کر لیے تھے۔ صدر قد ا فی نے اپنے تمام مہلک ہتھیاروں کو امریکہ کے حوالے کر دیا تھا۔ صدر قد ا فی اسلامی دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی مدد بھی کر رہے تھے۔ اسلامی دشت گردوں نے امریکہ پر صرف ایک حملہ کیا تھا۔ لیکن صدر قد ا فی اور ان کی حکومت کے خلاف اسلامی دہشت گرد 40 سال سے حملے کر رہے تھے۔ امریکہ کی قومی سلامتی ٹیم مڈل ایسٹ میں لبرل، سیکو لر اور قوم پرست (جو اب یورپ میں مقبول ہو رہے ہیں) حکومتوں کے خلاف Regime change پالیسیاں اختیار کر رہی تھی۔ اور دوسری طرف دنیا میں اسلامی دہشت گردی سے خطروں کا واویلا تھا۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم قد ا فی حکومت کے خلاف اسلامی انتہا پسندوں کی حمایت کر رہی تھی۔ انہیں ہتھیار دے رہی تھی۔ لیبیا کو Destabilize کرنے میں ان کی مدد کر رہی تھی۔ حالانکہ قد ا فی حکومت کے اعلی حکام اوبامہ انتظامیہ کو Warn کر رہے تھے کہ القا عدہ ان کی حکومت کا خاتمہ کر کے لیبیا کو اسلامی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ لیکن صدر اوبامہ اور ان کی قومی سلامتی ٹیم نے قد ا فی حکومت کی ان اپیلوں کو بالکل Ignore کر دیا تھا۔ امریکہ کے پہلے Black President نے اسے بھی Ignore کر دیا تھا کہ قد ا فی حکومت Black Africa کی ترقی میں Petro-Dollar Invest کر رہی تھی۔ لیکن پھر جب فرانس اور یورپ کے ملکوں میں بم پھٹنے لگے تو اوبامہ انتظامیہ کی قومی سلامتی ٹیم نے ISIS کو ان دھماکوں کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ امریکی انتظامیہ کے صرف ایک غلط فیصلہ سے لیبیا کے بے گناہ لوگ نہیں بلکہ لیبیا کے اطراف میں ملکوں کے ہزاروں اور لاکھوں خاندانوں کی زندگیاں بھی بری طرح متاثر ہوئی تھیں۔ ان ملکوں کے ہزاروں لوگ لیبیا کی آئل انڈسٹری میں کام کرتے تھے اور اپنے خاندانوں کو پالتے تھے۔ چڈ، مالی، نائجر اور بعض دوسرے ملکوں میں جیسے اقتصادی سو نامی آ گئی تھی۔ امریکہ کی قومی سلامتی ٹیم کے اس ایک غلط فیصلے نے لوگوں کو القا عدہ، الشہباب، ISIS  میں بھرتی ہونے کی طرف دھکیلا تھا۔ دہشت گرد گروپوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ دہشت گردی کا فروغ ہو رہا تھا۔ دنیا میں Chaos, Anarchy, Violence   بڑھتا جا رہا تھا۔ جب امن نہیں ہوتا ہے اور جنگیں بہت ہوتی ہیں پھر لوگ بھی Violent ہونے لگتے ہیں۔
 قومی سلامتی کا رول کلنٹن انتظامیہ کے آخری قومی سلامتی امور کے مشیر Sandy Berger کے دور میں بدل گیا تھا۔ صدر کلنٹن کو اسکینڈل کی تحقیقات اور Impeachment نے گھیر لیا تھا۔ اور Sandy Berger قومی سلامتی امور کے فیصلے کرتے تھے۔1990s  میں امریکہ کے خلاف دہشت گردی کے کئی واقعات ہو چکے تھے۔ جن میں امریکہ کے کئی سو فوجی ہلاک ہو ۓ تھے۔ کلنٹن انتظامیہ  امریکہ کے خلاف دہشت گردی کے ہر واقعہ کا ذمہ دار بن لادن کو ٹھہراتی تھی۔ سعودی عرب میں امریکہ کے ملٹری بیس پر القا عدہ کے حملے کے بعد  سعودی حکومت نے بن لادن کو ملک سے نکال دیا تھا۔ بن لادن سوڈان آ گیا تھا۔ سوڈان کی حکومت نے کلنٹن انتظامیہ کو بن لادن کی سوڈان میں آمد کی اطلاع دی تھی اور کلنٹن انتظامیہ سے بن لادن کو سوڈان سے لے جانے کا کہا تھا۔ لیکن سوڈان کی حکومت کو یہ پیغام دیا گیا کہ وہ بن لادن کو سوڈان سے نکال دیں۔ پھر سوڈان سے بن لادن افغانستان جاتا ہے لیکن سی آئی اے نے اسے پکڑنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ امریکہ کی قومی سلامتی ٹیم اگر چاہتی تو بن لادن اور اس کے تمام ساتھیوں کو افغانستان سے بھی پکڑ سکتی تھی۔ افغانستان کی سرحدیں کھلی ہوئی تھیں۔ ہر طرف لاقانونیت تھی۔ افغانستان میں القا عدہ اور طالبان کے مخالفین بھی بہت تھے۔ لیکن قومی سلامتی ٹیم کسی اور منصوبے پر کام کر رہی تھی۔ اگر ا سا مہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کو سوڈان یا افغانستان سے پکڑ لیا جاتا تو پھر 9/11 نہیں ہوتا۔ 3ہزار لوگ نہیں مرتے۔ دنیا بھی پھر کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ بن لادن کو نہیں پکڑنے پر سی آئی اے کے ڈائریکٹر جارج ٹینٹ کو صدر بش نے امریکہ کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا تھا۔ اور دنیا میں بن لادن کو پکڑنے والے کو 50ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔ کانگریس اور سینیٹ نے بن لادن کو پکڑنے میں Negligence کی کسی سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی تھی۔
 امریکہ کی قومی سلامتی ٹیم کا آخری Judgement بہت صحیح تھا جو جارج ایچ بش کی انتظامیہ میں کیا گیا۔ Brent Scowcroft قومی سلامتی امور کے مشیر تھے۔ اور انہوں نے کویت کو آزادی دلانے کے بعد امریکی فوجوں کو بغداد جانے سے روک دیا تھا۔ اور اس جنگ کا مشن صرف کویت کو عراقی فوجوں سے آزادی دلانے تک محدود رکھا تھا۔ بغداد میں Regime change اقوام متحدہ کی قراردادوں میں نہیں تھا۔ اور اس کا احترام کیا تھا۔ امریکہ کی شاید یہ آخری جنگ تھی۔ جو تمام عالمی قوانین کی حدود میں رہتے ہوۓ امریکہ نے اتحادیوں کے ساتھ لڑی تھی۔ اور یہ سب  کی کامیابی تھی۔ افغان، عراق، لیبیا، شام، یمن، نام نہاد دہشت گردی کی جنگیں دنیا کو انتشار اور تباہیوں میں رکھنے کی جنگ ہیں۔