Tuesday, May 29, 2018

The Peace And Stability Is A Necessity In The Korean Peninsula, While Chaos And Wars Are A Luxury In The Arabian Peninsula


The Peace And Stability Is A Necessity In The Korean Peninsula, While Chaos And Wars Are A Luxury In The Arabian Peninsula    

Kim Jong-Un Dismantling His Dangerous Weapons, While In The Middle East Dangerous Weapons Dismantling Countries One By One

مجیب خان
South Korean President Moon Jae-in with North Korean Leader Kim Jong-un during their meeting on May 26, 2018, in Panmunjom, North Korea

South Korean President  Moon Jae-in met President Donald Trump in White House, Washington, May 21, 2018 


    جنوبی کوریا کے صدر Moon Jae-in نے اپنی انتخابی مہم میں شمالی کوریا سے تعلقات استوار کر نے کا وعدہ کیا تھا۔ اور Donald Trump نے اپنی انتخابی مہم میں شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کا مسئلہ حل کرنے کا عہد کیا تھا۔ شمالی کوریا کے مسئلہ پر دونوں کی کیمسٹری ایک تھی۔ صدر Moon نے اقتدار میں آنے کے بعد شمالی کوریا پر توجہ مرکوز کی تھی۔ موسم سرما کے Olympic Games نے دونوں ملکوں میں بات چیت کے دروازے کھولے تھے۔ صدر Moon کو شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کو حل کرنے کا موقعہ ملا تھا۔ Korean Peninsula میں امن اور استحکام سب کے لئے ایک Necessity ہے۔ یہ مڈل ایسٹ نہیں ہے۔ جہاں Chaos اور Destabilization سب کے لئے ایک Luxury ہے۔ صدر مو ن نے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کو پہلی ملاقات میں Denuclearize پر آمادہ کر لیا تھا۔ صدر مو ن نے Trump-Kim ملاقات کے لئے گراؤنڈ ہموار کر دیا تھا۔ کم جونگ ان نے اپنے فیصلے میں سنجیدہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوۓ Sides  Nuclear Test تباہ کرنا شروع کر دئیے تھے۔ نیو کلیر پروگرام پہلے ہی Freeze کر دیا تھا۔ تین امریکی شہری بھی رہا کر دئیے تھے۔ جو ایک عرصہ سے شمالی کوریا کی جیل میں تھے۔ یہ تمام معاملات جنوبی کوریا کے صدر مو ن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے درمیان پہلی ملاقات کے بعد سامنے آۓ تھے۔
    شمالی کوریا کے ساتھ حیرت انگیز پرو گریس کے بعد صدر مو ن گزشتہ ہفتہ واشنگٹن آۓ تھے۔ وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے صدر مو ن نے تقریباً دو گھنٹے ملاقات میں کم  جونگ ان سے اپنی ملاقات کی تفصیل بتائی تھی۔ صدر ٹرمپ کو بتایا تھا کہ کم جونگ Denuclearize میں بہت سنجیدہ ہیں۔ صدر مو ن نے صدر ٹرمپ کو سنگاپور میں 12 جون کو کم جونگ سے ملاقات کے سلسلے میں بریفنگ  دی تھی۔ ٹرمپ-کم ملاقات پروگرام کے مطابق بالکل یقینی نظر آ رہی تھی۔ صدر مو ن امریکہ سے ابھی واپس Seoul  پہنچے تھے کہ انہیں صدر ٹرمپ کے کم جونگ ان سے 12 جون کو سنگاپور میں ملاقات منسوخ کرنے کی خبر دی گئی۔ صدر مو ن اور ان کی کابینہ کے اراکین کو اس خبر سے حیرت ہوئی تھی۔ اور مایوسی بھی ہوئی تھی۔ صدر مو ن نے امریکہ اور شمالی کوریا میں تعلقات بحال کرانے اور Korean Peninsula کو Denuclearize کرنے میں اپنا وقت اور پولیٹیکل کیپیٹل انویسٹ کیا تھا۔ صدر مو ن اسے ڈوبتا دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ صدر ٹرمپ نے کم جونگ ان سے اپنی ملاقات منسوخ کر نے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ شمالی کوریا کے دفتر خارجہ کے ایک اہل کار نے نائب صدر Mike Pence کے اس بیان پر کہ "اگر ٹرمپ-کم ملاقات میں Denuclearize پر اگر کوئی سمجھتا نہیں ہوتا ہے تو پھر لیبیا ماڈل پر عمل درآمد ہو سکتا ہے۔" نائب صدر کو Political Dummy  کہا تھا۔ جس پر صدر ٹرمپ نے اس ملاقات کو  منسوخ کر دیا تھا کہ شمالی کوریا نے نائب صدر کی توہین کی تھی۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ چند ہفتہ قبل کم جونگ ان نے صدر ٹرمپ کو “Dotard” کہا تھا۔ لیکن پھر دونوں ملکوں میں گرما گرمی کم ہونے کے بعد صدر ٹرمپ نے کم جونگ ان کو Honorable شخصیت کہا تھا۔ صدر ٹرمپ کا عجلت میں یہ فیصلہ کرنے کی وجہ کچھ اور تھی۔ جنوبی کوریا، شمالی کوریا، جاپان اور چین کو صدر ٹرمپ کے اچانک فیصلہ پر بڑی حیرت ہوئی تھی۔ شمالی کوریا کہ جس اعلی افسر نے نائب صدر کو Political Dummy کہا تھا اس کے ذہن میں امریکہ کا Free Speech تھا اور صدر ٹرمپ خود اکثر Hillary Clinton کے بارے میں ایسے لفظ استعمال کرتے رہتے تھے۔ بہرحال صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے ایسٹ ایشیا میں یہ تاثر لیا جا رہا تھا کہ صدر ٹرمپ ایران ایٹمی سمجھوتہ کی طرح اب شمالی کوریا کے پرامن طریقہ سے Denuclearization فیصلہ سے بھی Walkaway کر رہے ہیں۔ اور خوفناک فوجی طاقت کے ذریعہ اس کو حل کرنے کے عزائم رکھتے ہیں۔ جس کا صدر ٹرمپ نے کم جونگ ان کے نام اپنے خط میں حوالہ بھی دیا تھا۔
    جنوبی کوریا کے صدر Moon Jae-in شمالی کوریا کے اس مسئلے کا ایک Permanent حل چاہتے تھے۔ ان کی سیاسی Credibility stake پر تھی۔ صدر مو ن شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کو Korean Peninsula کو Denuclearize کرنے پر لے آۓ تھے۔ جس طرح یورپی یونین نے امریکہ کے بغیر ایران ایٹمی سمجھوتہ پر عملدرامد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح جنوبی کوریا، چین، جاپان امریکہ کے بغیر شمالی کوریا کے ساتھ Denuclearization کا سمجھوتہ کرنے جا رہے تھے۔ جس میں روس بھی شامل ہوتا۔ اور پھر امریکہ سے کہا جاتا کہ وہ اس سمجھوتہ کو قبول کرے یا ایسٹ ایشیا میں Isolate ہونے کی تیاری کرے۔ اس صورت کو دیکھ کر ٹرمپ انتظامیہ نے 48 گھنٹے کے اندر اپنا فیصلہ تبدیل کر دیا اور شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان سے صدر ٹرمپ کی سنگاپور میں 12 جون کی ملاقات پروگرام کے مطابق ہونے کا اعلان کیا۔ ٹرمپ-کم ملاقات کو ممکن بنانے میں صدر مو ن کی کوششوں کا ایک بڑا رول ہے۔ شمالی کوریا کو Denuclearize کرنے کے سلسلے میں Ground work جنوبی کوریا کے صدر مو ن نے کیا ہے۔ صدر مو ن آ بناۓ کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں اور جنگوں سے نجات دلانے میں بہت پختہ عزم رکھتے  ہیں۔ جنوبی کوریا کی اقتصادی ترقی اور خوشحالی میں صدر مو ن شمالی کوریا کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کا شاید کم جونگ ان پر اتنا اثر نہیں ہوا ہے کہ جتنا صدر مو ن کی شمالی کوریا کو اقتصادی ترقی دینے کی باتوں اور منصوبوں کا کم جونگ ان کی سوچ پر اثر ہوا ہے۔ آ بناۓ کوریا میں امن اور استحکام جنوبی اور شمالی کوریا کی ضرورت  ہے۔ اس سوچ کے ساتھ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے ہتھیاروں کی دوڑ کا راستہ چھوڑ کر اقتصادی ترقی کے راستہ پر صدر مو ن کے ساتھ  چلنے کو اہمیت دی ہے۔
    سمجھوتے کے اہم معاملات جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان طے ہو چکے ہیں۔ 25 فیصد معاملات امریکہ اور شمالی کوریا کو طے کرنا ہیں۔ جس میں آ بناۓ کوریا میں امریکہ کی فوجی موجودگی اور اس کی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیاں ہیں۔ جنہیں اب Demilitarize کرنا ہو گا۔ جنوبی اور شمالی کوریا کو اس سمجھوتہ میں یہ بھی شامل کرنا چاہیے کہ امریکہ جاپان کو مہلک ہتھیاروں سے مسلح نہیں کرے گا۔ اور جاپان اور چین بلکہ خطہ کے کسی دوسرے ملک کے درمیان بھی امریکہ ہتھیاروں کی دوڑ شروع نہیں کرے گا۔ سمجھوتوں کی خلاف ورزیاں کرنے میں امریکہ کا کریڈٹ خراب ہے۔ امریکہ نے بہت سے ملکوں کو اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے سہا نے خواب دیکھا کر جارحانہ جنگوں میں انہیں اتحادی بنایا تھا۔ لیکن یہ اتحادی بھی ان جنگوں سے اتنے ہی بری طرح متاثر ہوۓ تھے کہ جتنا جس ملک کے خلاف فوجی کاروائی سے وہ ملک متاثر ہوا تھا۔ امریکہ نے 70 سال میں تقریباً 60 ہزار مرتبہ فلسطینیوں کو ان کی آزاد ریاست کے قیام میں صبر اور پرامن رہنے کی تلقین کی تھی۔ لیکن کسی امریکی انتظامیہ نے صبر کا پھل فلسطینیوں کو نہیں دیا تھا۔ 1999 میں کیمپ ڈیوڈ  میں صدر کلنٹن کی انتھک کوششوں کے نتیجہ میں چیرمین یا سر عرفات اور وزیر اعظم یہود بارک سمجھوتہ کے بہت قریب تھے۔ لیکن پھر جارج ڈبلیو بش کی صدارتی انتخابی مہم کے ایڈوائزر یا سر عرفات اور یہود بارک سے یہ اپیلیں کرنے لگے تھے کہ وہ انتظار کریں بش اقتدار میں آنے کے بعد انہیں بہتر ڈیل دیں گے۔ پھر صدر بش جب اقتدار میں آ گئے  تو یہ کہا گیا کہ پہلے صد ام حسین کا مسئلہ حل کیا جاۓ گا جو اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ بننے ہوۓ ہیں۔ صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد 120 نتائج اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل میں نئی رکاوٹ بن گیے ہیں۔ اس تنازعہ کو حل نہیں کرنے کی وجوہات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ مڈل ایسٹ میں Chaos اور Wars سب کے لئے Luxury ہے۔ اگر مڈل ایسٹ میں Peace اور Stability ایک Necessity ہوتا تو اس تنازعہ کو بھی اسی طرح حل کیا جاتا کہ جیسے شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیاروں کا مسئلہ حل کیا جا رہا ہے۔                  

Wednesday, May 23, 2018

America, From Inventions To The Moon, To Mars, To Super Power, To Sanction Power, To Noble Peace, To Evil Wars, To Regime Change, To Behavior Changes of The World Leaders


America: From Inventions To The Moon, To Mars, To Super Power, To Sanction Power, To Noble Peace, To Evil Wars, To Regime Change, To Behavior Changes of The World Leaders

مجیب خان
Shiite Cleric Muqtada al-Sadr, Leader of Sairoon alliance

Hassan Nasrallah Leader of Hezbollah, Lebanon



   ایک دور تھا جب امریکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایجادات میں سب سے آ گے تھا۔ دنیا میں امریکہ کی ایجادات کو بڑی دلچسپی سے دیکھا جاتا تھا۔ امریکہ نے انسان کو چاند پر بھیجا تھا۔ دنیا نے چاند پر انسان کو چہل قد می کرتے دیکھا تھا۔ چاند پر امریکہ کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ پھر امریکہ نے مریخ پر زندگی کے آثار دریافت کرنے کے لئے سیارہ بھیجا تھا۔ دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں امریکہ کی شاندار ترقی کا چرچا ہوتا تھا۔ ان ایجادات اور تحقیق کی وجہ سے امریکہ Exceptional تھا۔ لیکن آج امریکہ 18سال سے طالبان سے لڑنے اور 60 مختلف ملکوں میں دہشت گردوں سے لڑنے میں Exceptional ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں ملا عمر دریافت کیا تھا۔ افغانستان کے پہاڑوں میں جو کسی طرح مریخ پر پہنچنے سے کم نہیں تھا۔ یہاں ا سا مہ بن لادن دریافت کیا تھا۔ ہٹلر کے خلاف گرم جنگ اور سو ویت یونین کے خلاف سرد جنگ کے بعد ملا عمر کے طالبان اور ا سا مہ بن لادن کے دہشت گردوں کے خلاف یہ امریکہ کی نئی جنگ تھی۔ اس جنگ کو اب 18 سال ہو گیے ہیں۔ اور یہ جنگ ابھی تک کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی ہے۔  طالبان کو Humanity میں Convert کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ملا عمر دنیا سے رخصت ہو گیے ہیں۔ لیکن امریکہ ابھی تک افغانستان سے رخصت نہیں ہوا ہے۔ جو جنگ افغانستان سے شروع ہوئی تھی وہ جنوبی ایشیا سے گزر کر مڈل ایسٹ میں پہنچ کر شمالی اور مغربی افریقہ میں پہنچی ہے۔ یہاں امریکہ نے افریقہ Shithole میں دیکھا ہے۔ لہذا افریقہ کو اب Shithole سے نکال کر اسے 21ویں صدی میں لایا جا رہا ہے۔ Nigeria، مالی، چڈ  اور صومالیہ میں Behavior کا مسئلہ ہے۔  ان کا Behavior تبدیل کرنے سے پہلے انہیں Human بنایا جا رہا ہے۔
   ایرانی لیڈروں کا بڑا Aggressive Behavior ہے۔ عراق میں امریکہ نے صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ لیکن عراق میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔ لبنان شام اور یمن ایران کے Orbit میں آ گیے ہیں۔ جیسا کہ اسرائیل نے ٹرمپ انتظامیہ کو یہ رپورٹ دی ہے کہ ایران کا نیو کلیر پروگرام بدستور جاری ہے۔ ایران بم اور میزائل بنا رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے ایران کے مہلک ہتھیاروں کے بارے میں ایسی تصویر دکھائی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ کو ایران افغانستان سے زیادہ خطرناک نظر آ نے لگا تھا۔ ہر پریذیڈنٹ اپنی انتخابی مہم میں امریکی عوام کے مفاد میں کام کرنے کے وعدے کرتا ہے۔ لیکن پھر منتخب ہونے کے 6 ماہ بعد اسرائیل کے مفاد کے کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران ایٹمی معاہدہ پر دنیا کی جمہوری اکثریت کی حمایت کو رد کر دیا اور صرف اسرائیل کی حمایت میں  فیصلہ کر کے  Dictator  ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ سعودی عرب نے بھی صدر ٹرمپ کے اس فیصلہ کو درست کہا ہے۔ اس فیصلہ سے امریکہ اور سعودی عرب کا جیسے ایک ہی نظام ہو گیا ہے۔ اور اب صد ام حسین کے دور میں عراق سے زیادہ خوفناک اقتصادی بندشیں ایران پر لگانے کی دھمکی دی ہے۔ عراق پر امریکہ کی ان بندشوں کے نتیجہ میں 5لاکھ معصوم بچے پیدائش کے ابتدائی چند ماہ میں دواؤں اور طبی سہولتوں کی قلت کی وجہ سے مر گیے تھے۔ تقریباً 5 لاکھ سے زیادہ لوگ شام میں خانہ جنگی میں مارے گیے ہیں۔ اس خانہ جنگی میں امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل شام کی حکومت کے خلاف باغیوں کی پشت پنا ہی کر رہے تھے۔ اور انہیں فنڈ ز اور ہتھیار دے رہے تھے۔ اب کس چہرے سے ایران سے کہا جا رہا ہے کہ وہ عراق اور شام سے چلا جاۓ۔ ایران نے ان ملکوں میں القا عدہ اور ISIS کے خلاف  لڑائی لڑی ہے۔ عراق اور شام میں اس کے فوجی مارے گیے ہیں۔ ان ملکوں میں دہشت گردوں کے اڈے ایران کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔ امریکی فوجیں 18 سال سے 10 ہزار میل دور افغانستان میں صرف اپنی سلامتی کے مفاد میں بیٹھی ہوئی ہیں کہ یہاں سے دہشت گردوں نے امریکہ پر حملہ کیا تھا۔ حالانکہ اس حملہ میں کوئی افغان شہری نہیں تھا۔ عراق اور شام ایران کے قریب ہیں۔ اور اسرائیل ایران کو شام اور عراق بنانا چاہتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کے اس مشن کی تکمیل کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتی ہے۔ حالانکہ یہ بھی صدر ٹرمپ کا انتخابی وعدہ تھا کہ وہ مڈل ایسٹ میں مداخلت نہیں کریں گے۔  Regime change سے دہشت گردی کا فروغ ہوا ہے۔ اور ٹرمپ انتظامیہ Regime change میں یقین نہیں رکھتی ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں جو Regime change کی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کا Behavior بھی تبدیل ہونا چاہیے۔
   روس کے صدر پو تن کے Behavior پر بھی تنقید ہو رہی ہے۔ صدر پو تن نے امریکہ کے انتخاب میں مداخلت کی ہے۔ اور امریکہ کے جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ صدر پو تن نے Ukraine میں فوجیں بھیجی تھیں اور Crimea کو روس میں شامل کر لیا ہے۔ روس Ukrainian باغیوں کی پشت پنا ہی کر رہا ہے۔ اور انہیں ہتھیار دے رہا ہے۔ شام میں امریکہ کی پشت پنا ہی میں باغیوں کی دمشق حکومت کے خلاف جنگ میں صدر پو تن نے مداخلت کی ہے۔ اور شام میں خانہ جنگی کا نقشہ بدل دیا ہے۔ امریکہ کو صدر پو تن کا یہ Behavior قبول نہیں تھا۔ روس کے خلاف شام میں مداخلت کرنے پر اقتصادی بندشیں لگی ہیں۔ روس کے خلاف Ukraine میں فوجیں بھیجنے پر اقتصادی بندشیں لگی ہیں۔ روس کے خلاف امریکہ کے صدارتی انتخاب میں مداخلت کرنے پر اقتصادی بندشیں لگی ہیں۔ ان میں صدارتی ایگزیکٹو بندشیں ہیں اور ان کے علاوہ کانگریس کی بندشیں علیحدہ ہیں۔ امریکہ نے اپنے آپ کو جنگوں میں کمزور کیا ہے۔ جبکہ روس نے  جنگوں سے دور رکھ کر اپنے آپ کو مضبوط رکھا ہے۔ لہذا امریکہ نے روس پر بندشیں لگا کر اسے کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ کہا ہے کہ یہ بندشیں اس وقت تک نہیں ہٹائی جائیں گی کہ جب تک صدر پو تن Behave نہیں کرتے ہیں۔
   صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی امور کے مشیر John Bolton نے شمالی کوریا کو متنبہ کیا ہے کہ اگر Kim Jong Un نے تعاون (Behave) نہیں کیا تو سنگاپور میں صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات مختصر ہو سکتی ہے۔
President Trump said that “Libya model would take place if we don’t make a deal, most likely.” President said, “if North Korea agrees to get rid of nuclear weapons then he’d be there; he’d be in his country; he’d be running his country.” In Libya deal same had been said that the United States did offer security guaranty for Libya in exchange for dismantling its nuclear programmed. In his intellectual life, John Bolton perhaps first time honest, said that “we are looking Libya model for North Korea.” This would be a very risky gambling for North Korea.      
   2سال کے بعد وائٹ ہاؤس میں نئی انتظامیہ ہو گی۔ جیسے ایران کے ساتھ ہوا ہے۔ صدر اوبامہ نے 2015 میں ایران ایٹمی معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ اور 2سال بعد وائٹ ہاؤس میں نئی انتظامیہ نے اسے ختم کر دیا تھا۔ ایران سے نئے مطالبہ کرنے شروع کر دئیے تھے۔ اور اقتصادی بندشیں دوبارہ لگا دی تھیں۔ جنوبی کوریا میں اس وقت ایک لبرل حکومت ہے جو شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں خصوصی دلچسپی لے رہی ہے۔ جنوبی کوریا میں آئندہ  انتخاب میں اگر Hawkish سوچ کی حکومت آ جاتی ہے۔ تو Libya model بہت ممکن ہو سکتا ہے۔ Kim Jong Un نے نیو کلیر پروگرام منجمد کر دیا ہے۔ بالکل صحیح فیصلہ ہے۔ اور اب پہلے جنوبی کوریا کے ساتھ  Confident build کیا جاۓ۔ تجارتی اور People to People تعلقات فروغ دئیے جائیں۔ امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے جائیں۔ ایران کے مسئلہ پر امریکہ کے Behavior پر نظر رکھی جاۓ۔ صدر ٹرمپ ان لوگوں کے دائرہ میں آ گیے ہیں جو Regime change میں پختہ ایمان رکھتے ہیں۔ اور یہ Regime change کو امریکہ کی خارجہ پالیسی کا Corner stone سمجھتے ہیں۔ یہ صدر جارج بش انتظامیہ میں تھے۔ اور انہوں نے عراق میں Regime change کرایا تھا۔
   عراق اور لبنان میں انتخابات کے نتائج ایران کے لئے کامیابیوں کی روشنی ہے۔ اور امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے لئے ناکامیوں کی تاریکی ہے۔ عراق میں مقتدا الصدر کی قیادت میں سیاسی اتحاد نے پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کر لی ہیں۔ جبکہ لبنان میں حزب اللہ نے انتخاب جیتا ہے۔ عراق اور لبنان کے عوام نے امریکہ اور اسرائیل مخالف پارٹیوں کو ووٹ دئیے ہیں۔ لبنانی عوام نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم تسلیم کرنے کو مسترد کر دیا ہے۔ مڈل ایسٹ میں حزب اللہ واحد پارٹی ہے جو عیسائوں اور سنیوں کے ساتھ حکومت میں شامل ہے۔ اور ان کے ساتھ مل کر لبنان کی تعمیر نو میں حصہ لے رہی ہے۔ امریکہ کو یہ بھی پسند نہیں ہے کہ حزب اللہ نے لبنان کے عیسائوں کے ساتھ اتحاد کیوں بنایا ہے اور اس لئے حزب اللہ پر بندشیں لگا دی ہیں۔ اسرائیل کے مقابلے میں لبنان میں Genuine democracy ہے۔ مختلف مذہبی فرقہ اقتدار میں شامل ہیں۔ حزب اللہ نے اپنے مذہبی عقیدے کو دوسرے عقیدوں پر مسلط نہیں کیا ہے۔ لبنان مثبت سمت میں آ گے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ کو لبنان کے لوگوں کے فیصلہ کا احترام کرنا چاہیے۔
    اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان نفرتوں کی سیاست میں امریکہ ایک پارٹی بن گیا ہے۔ امریکہ کو اس خطہ میں نفرتوں کی سیاست ختم کرنے میں زیادہ مثبت  رول ادا کرنا چاہیے تھا۔ لیکن امریکہ کے منفی رول نے نفرتوں کا ایک جال پھیلا دیا ہے۔ امریکہ 70 سال میں عرب اسرائیل تنازعہ حل کر سکا ہے۔ اور نہ ہی عربوں اور اسرائیل میں نفرتیں ختم کرنے میں امریکہ کا کوئی مثبت رول ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجیمن  نھتن یاہو کو فلسطینیوں سے سخت نفرت ہے۔ کیونکہ Popular Front for the Liberation of Palestine نے 1970s میں وزیر اعظم نھتن یا ہو کے بھائی کو مار دیا تھا۔ جو اسرائیلی فوج میں کمانڈو تھا۔ حزب اللہ کے رہنما Nasrallah Hassan جب 10 سال کا تھا۔ اسرائیلی فوج نے اس کے والد کو مار دیا تھا۔ اس وقت سے Hassan Nasrallah کو اسرائیلی فوج سے نفرت ہے۔ اور اس نے اسرائیلی فوج سے لڑنے کا عزم کر رکھا ہے۔ President George W. Bush کو صد ام حسین سے نفرت ہو گئی تھی کیونکہ “Saddam Hussein tried to Kill our Dad                صدر بش نے عراق پر Preemptive attacked کر کے صد ام حسین سے اس کا بدلہ لیا تھا۔ امریکی انتظامیہ میں کوئی بھی ان نفرتوں کی جڑیں نہیں سمجھتا ہے۔ امریکہ کی مڈل ایسٹ میں نفرتیں پھیلانے کی پالیسیاں ہیں۔ نفرتیں ختم کرنے کی نہیں ہیں۔ جو اسرائیل کو Suit کرتی ہیں۔                                                                                 
Now Jerusalem is Israel's capital, Jews are dancing
   
Palestinian Protesters  facing teargas fired by Israeli troop

Tuesday, May 15, 2018

The Situational Irony of The American Role In The Middle East That Gain Iran


   The Situational Irony of The American Role In The Middle East That Gain Iran  

Would President Trump Sanctions Citizens Of Lebanon Who Voted Hezbollah? There Is No Evidence of Iranian Meddling And Collusion In Lebanon And Iraq Elections, It Means Iran’s Behavior Temperature Is Normal In The Region   
America And Israel Are Frightening Gulf Arab Countries From Iran, To Bring Them Under Israel’s Security Orbit

مجیب خان
U.S. President Donald Trump signs a document reinstating sanctions against Iran

Iranians burn U.S. flags and make-shift Israel flags during demonstration outside the former U.S. embassy in Tehran, May9, 2018
   ایران ایٹمی سمجھوتہ کی خلاف ورزی کرنے کے بعد کیا امریکہ – یورپ تعلقات میں Trust دوبارہ آ سکتا ہے؟ اب یہ نیا سوال ابھرا ہے کہ کیا امریکہ کے ساتھ کوئی اس اعتماد کے ساتھ معاہدہ کرے گا کہ امریکہ اس معاہدہ پر قائم رہے گا؟ خواہ پریذیڈنٹ آئیں یا جائیں لیکن اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اتحادیوں کے لئے امریکہ کے ساتھ  کسی ملک سے سمجھوتہ کرنا ممکن ہو گا؟ اور اگر شمالی کوریا کا امریکہ سے سمجھوتہ ہوتا ہے تو اس سمجھوتہ کے مستقبل کی کیا ضمانت ہے؟ اس خطہ میں پہلے ہی امریکہ کی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیاں Tensions پیدا کر رہی ہیں۔ ایران کی طرح شمالی کوریا بھی اپنا ایٹمی پروگرام ختم کرنے میں سنجیدہ ہے۔ اور اپنے ملک کی سلامتی کو Economic Power میں ٹرانسفر کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کا ایٹمی سمجھوتہ ختم کر کے ایران کو اپنی سلامتی اور بقا کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کا سہارا لینے پر مجبور کیا ہے۔ اور اس خطہ میں Tension برقرار رکھنے کی پالیسی کو اہمیت دی ہے۔ Tension جو اسرائیل کے مفاد میں ہے۔ 70 سال سے اس خطہ میں Tension نے اسرائیل کو ایک بڑی فوجی طاقت بنایا ہے۔ مڈل ایسٹ میں Balance of Power ختم ہو گیا ہے اور Status quo بھی ختم ہو گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی پالیسی اس خطہ میں اسرائیل کی بالا دستی کو فروغ دے رہی ہے۔ اور امریکہ جب مڈل ایسٹ سے جاۓ گا تو مڈل اسٹ اسرائیل کے حوالے کر کے جاۓ گا۔ سعودی عرب اور خلیج کے حکمران اسرائیلی فیصلوں کو Submit کر چکے ہیں۔ شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان نے فلسطینیوں سے دو ٹوک لفظوں میں کہا ہے کہ "اسرائیل اور امریکہ تمہیں جو دے رہے ہیں اسے قبول کر لو۔ ورنہ بکو اس بند کرو۔" شہزادہ ولی عہد نے اپنے Uncle شاہ عبداللہ کے اس پلان کی بات نہیں کی تھی جو شاہ عبداللہ نے 2002 میں عرب لیگ کے اجلاس میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں دیا تھا کہ اسرائیلی فوجوں کو 1967 کی سرحدوں پر جانا ہو گا۔
    صدر ٹرمپ کے ایران ایٹمی سمجھوتہ سے نکلنے کے فیصلہ کے در پردہ کچھ  دوسرے مقاصد بھی ہیں۔ جس میں یورپ کے ساتھ Trade war اور Atlantic Alliance Trans-کو ٹارگٹ کرنا ہے۔ صدر ٹرمپ کی “America First Doctrine”میں  Trans America Alliance  کا مقام کیا ہے؟ صدر بننے کے بعد صدر ٹرمپ کا رویہ برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ بڑا سرد اور غیر سنجیدہ تھا۔ برطانیہ کی وزیر اعظم Theresa May اور چانسلر انجیلا مرکل کی صدر ٹرمپ سے پہلی ملاقات کا تاثر زیادہ اچھا نہیں تھا۔ G-7 اور نیٹو سربراہ کانفرنس میں صدر ٹرمپ انہیں America First پر لیکچر دیتے رہے تھے۔ تاہم یورپی رہنما ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کی کوششیں کرتے رہے۔ فرانس میں انتخاب کے بعد نئے صدر Manual Macron نے صدر ٹرمپ کے ساتھ ذاتی نوعیت کے  تعلقات قائم کرنے کو اہمیت دی تھی۔ لیکن صدر ٹرمپ یورپی رہنماؤں کے ساتھ اپنے سرد رویہ سے جیسے انہیں یہ احساس دلا رہے تھے کہ انہیں اپنے معاملات اب  خود طے کرنا ہوں گے۔ اور یہ Alliance اب ختم ہونا چاہیے۔ یورپ نے امریکہ سے فائدے اٹھاۓ ہیں۔ نیٹو میں یورپی ممالک اپنے حصہ کی ادائیگی نہیں کر رہے ہیں۔ امریکہ کا یورپ کے ساتھ Trade deficit بڑھتا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ یورپ سے امریکہ کے ساتھ Fair trade کے لئے مذاکرات کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ ایران کا سمجھوتہ ختم کرنے کے پیچھے دراصل صدر ٹرمپ نے یورپ کے ساتھ Trade war شروع کی ہے۔ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے Trade war جیتنے کو سب سے آسان جنگ بتایا تھا۔ ایران پر اقتصادی بندشوں کے اثرات یورپ پر ہوں گے۔ اس وقت ایران کے ساتھ یورپ کی ٹریڈ تقریباً  25 بلین ڈالر ہے۔ اور آئندہ 5 سے 10سال میں یہ 100بلین ڈالر تک پہنچ جاۓ گی۔ ایران کے مسئلہ پر یورپی ملکوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے اقتصادی مفادات کا تحفظ کریں گے۔ فرانس کے وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ یورپی ممالک امریکہ کے تابعدار نہیں ہیں۔ جو ٹرمپ انتظامیہ کے ایران نیو کلیر سمجھوتہ کے مسئلے پر امریکہ کی تابعداری کریں۔ فرانس کے وزیر خارجہ نے کہا "یورپ کو امریکہ دنیا کی معیشت کا پولیس مین قبول نہیں کرنا چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یورپی کمپنیاں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ایران پر اقتصادی بندشوں کے باوجود ایران سے تجارت جاری رکھیں۔" فرانس کے وزیر خارجہ نے کہا " یورپی کمپنیاں سب سے زیادہ متاثر ہوں گی۔ بندشیں ان کمپنیوں کو نشانہ بنائیں گی جو ایران سے تجارت کر رہی ہیں۔" وزیر خارجہ Jean-Yves le Drian نے کہا" ہمیں ان Extraterritoriality بندشوں کے اقدامات قبول نہیں ہیں۔ امریکہ معاہدہ سے دستبردار ہونے کی سزا یورپین کو نہیں دے جس نے خود اس معاہدہ میں حصہ لیا تھا۔" وزیر خارجہ نے کہا "یورپ اپنی کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے ضروری اقدامات کرے گا اور اس معاملہ پر واشنگٹن سے مذاکرات کیے جائیں گے۔" فرانس کے وزیر خزانہ Bruno le Maire نے کہا "یورپی حکومتوں کو یہ احساس ہے کہ ہم اس سمت کی طرف نہیں جا سکتے ہیں جس طرف ہم آج جا رہے ہیں جہاں ہم امریکہ کے فیصلوں کے تابعدار ہو گیے ہیں۔" جرمن وزیر خارجہ نے کہا " ہم بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ لیکن جہاں ضروری ہو گا ہم اپنی پوزیشن کے لئے لڑیں گے۔"
   اس Trans-Atlantic Alliance  کو تقسیم کرنے کا الزام صدر پو تن کو دیا جا رہا تھا۔ لیکن اس الائنس میں صدر ٹرمپ نے اپنے ایک غلط فیصلہ سے صرف چند سیکنڈ میں شگاف ڈال دئیے۔ ایران ایٹمی سمجھوتہ اتنا بڑا ایشو نہیں تھا۔ ایران 3 سیکنڈ میں ایٹم بم نہیں بنا رہا تھا۔ یہ سمجھوتہ 2سال کے انتھک مذاکرات کے بعد ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسے عالمی  قانونی  سمجھوتہ ہونے کا درجہ دیا تھا۔ IAEA نے اپنی 10 رپورٹوں میں ایران کے سمجھوتہ پر مکمل عملدرامد کرنے کی تصدیق کی تھی۔ صدر ٹرمپ اگر چاہتے تو سمجھوتہ میں شامل پانچ دوسرے ملکوں سے یہ ضمانت بھی لے سکتے تھے کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بناۓ گا۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کے مسئلہ پر چین کے صدر Xi Jinping سے امریکہ سے تعاون کرنے کی اپیلیں کر رہے تھے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے ایران ایٹمی سمجھوتہ کے مسئلہ پر تعاون کرنے کی تمام اپیلوں کو مسترد کر دیا تھا اور اسرائیل کے وزیر اعظم نتھن یا ہو سے اس سمجھوتہ کو ختم کرنے میں تعاون کیا تھا۔
   یورپی یونین کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات میں کئی سالوں سے تناؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ یورپی ممالک اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف بھر پور فوجی طاقت استعمال کرنے کی پالیسی کے خلاف ہیں۔ اور اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ پھر یورپ میں Anti- Semitic بھی پھیل رہا ہے۔  یورپی یونین نے اسرائیل کی جو اشیا مقبوضہ علاقوں میں بنتی تھیں ان کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی۔ یورپ میں اسرائیلی اشیا بائیکاٹ کرنے کی تحریک بھی جاری ہے۔ صدر ٹرمپ کے یورپ کی ایران ایٹمی معاہدے کی بھر پور حمایت کے باوجود معاہدہ کو ختم کرنے کے پیچھے یہ اسرائیلی مقاصد تھے۔ اسرائیل نے امریکہ کے ذریعہ یورپ کی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔ دوسری طرف ایران پر غیر انسانی اقتصادی بندشیں لگوا کر ایرانیوں کو Death cell میں اس پیغام کے ساتھ بھیجا ہے کہ اگر وہ اس Death cell سے باہر آنا چاہتے ہیں تو تہران میں Regime change کریں۔ یہ کام پریذیڈنٹ ٹرمپ اسرائیل کے مفاد میں کر رہے ہیں؟ اس صدی کے آغاز میں اب تک امریکہ کے ہر پریذیڈنٹ نے مڈل ایسٹ میں آگ بھڑکانے کے کام کیے ہیں۔ امن پر عربوں کو لیکچر دئیے ہیں یا خوبصورت لفظوں میں امن کی صرف باتیں کی ہیں۔ ان لیکچر اور باتوں کے درمیان کبھی صد ام حسین کو امن کی کوششوں میں رکاوٹ کا الزام دیا ہے۔ کبھی قد افی کو الزام دیا ہے۔ کبھی چیرمین یا سر عرفات کو امن میں سنجیدہ نہ ہونے کا الزام دیا تھا۔ سعودی عرب کی مدد سے مڈل ایسٹ میں جو اسلامی انتہا پسند پیدا کیے تھے۔ پھر انہیں الزام دیا تھا۔ اب مڈل ایسٹ میں 20سال سے جو ہو رہا ہے اس کی ساری Shit ایران پر Dump کر کے خود Blameless ہو گیے ہیں۔
   اب امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب کا سیاسی مذہب ایک ہو گیا ہے۔ ان تینوں میں اس پر اتفاق ہو گیا ہے کہ اگر دن میں ایک ہزار مرتبہ Lies of Rosary لوگوں کو سنائی جاۓ تو وہ یقین کرنے لگے گے۔ اور اب امریکہ میں عیسائی، اسرائیل میں یہودی اور سعودی عرب میں مسلمان ایرانی شعیاؤں کے خلاف جھوٹ کو سچ سمجھنے لگے ہیں۔ اور شاید یہ بھی قیامت کے آثار ہیں کہ جب لوگ اپنے حکمرانوں کے جھوٹ کو سچ سمجھنے لگے گے۔ 20سال میں انہیں مڈل ایسٹ میں ایران کا اثر و رسوخ نظر نہیں آیا تھا۔ لیکن 2018 میں انہیں ایران کا اثر و رسوخ نظر آنے لگا ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب امریکہ کی مڈل ایسٹ میں ملکوں کو تباہ کر نے کی حمایت کر رہے تھے۔ اس وقت اسرائیل کو یہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ شام کو تباہ کرنے کے اسرائیل پر کیا اثرات ہوں گے۔ اسرائیل کو اپنی طاقت پر اتنا زیادہ گھمنڈ تھا کہ اس کا خیال تھا وہ شام پر بھی قبضہ کر لے گا۔ اور سعودی عرب کی مدد سے د مشق میں مغربی کنارے کی طرح ایک حکومت بنا دے گا۔ لیکن روس نے اسرائیل اور سعودی عرب کے یہ عزائم خاک میں ملا دئیے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے صرف گزشتہ سال روس کے 7 دورے کیے تھے۔ ایران کو شام میں بیٹھ کر مڈل ایسٹ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی پرواہ نہیں ہے کہ جیتنا جلد شام کو امن اور استحکام دینے اور بے گھر شام کے لوگوں کو ان کے گھروں میں بسانے کی فکر ہے۔ یہ انسانی Holocaust جرمنی میں ہونے والے Holocaust سے کہیں زیادہ خوفناک تھا۔ اسرائیل نے امریکہ سے مل کر ایران ایٹمی معاہدہ ختم کرا یا ہے۔ لیکن اسرائیل کو شام میں Holocaust ختم کرانے کی انسانی جرت نہیں ہوئی تھی۔ اور اب اسرائیلی دنیا بھر میں شام میں ایران کی موجودگی پر شور مچا رہے ہیں۔ اسرائیل کے وزیر دفاع Avigdor Lieberman says “Assad, get rid of the Iranians….they are not helping you….their presence will only cause problems and damages.”                             
وزیر دفاع شاید دماغی توازن کھو چکے ہیں۔ جو یہ باتیں کر رہے ہیں۔ شام تباہ ہو چکا ہے۔ اور اسد گردن تک مسائل میں دھنسا ہوۓ ہیں۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے اس تباہی کو دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا تھا اور یہ کہا تھا کہ شام کو دوبارہ تعمیر ہونے میں اب 100 سال لگے گے۔ اسرائیلی لیڈروں کو پہلے یہ سوچنا چاہیے تھا۔ اس وقت اسرائیلی اور امریکہ اسد حکومت کے خلاف دہشت گردوں کی مدد کر رہے تھے۔ اور انہیں ہتھیا ر دے رہے تھے۔ شام کی خانہ جنگی ان کے ہتھیاروں کی فروخت کی منافع بخش مارکیٹ بنی ہوئی تھی۔  ایران کا مڈل ایسٹ میں اتنا زیادہ اثر و رسوخ ہے کہ عراق اور لبنان کے انتخابات میں اس کی Meddling  اور Collusion کے بغیر لبنان میں حزب اللہ اور عراق میں Muqtada al-Sadr کی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوۓ ہیں۔ اور یہ سعودی عرب اسرائیل اور امریکہ کی الزام تراشیوں کی سیاست کی ناکامی ہے۔ صدر ٹرمپ کیا ان لبنانی شہریوں پر اقتصادی بندشیں لگائیں گے جنہوں نے حزب اللہ کو ووٹ دئیے ہیں؟