Sunday, July 31, 2016

The War On Terror: Who Do You Trust?

    
?The War On Terror: Who Do You Trust  

مجیب خان
   
Istanbul airport bombing

People remove a body from a market in Baghdad

Bomb detonated in Baghdad

Terror hits a Hazara protest in Kabul

 Eighty Shia Hazara killed in a double suicide bombing in Kabul 

       29 جون کو استنبول کے اتاترک انٹرنیشنل ایرپورٹ پر دہشت گردوں کے خود کش بموں کے دھماکوں میں 54 لوگ  ہلاک اور 2 سو سے زیادہ لوگ زخمی ہو گیے تھے۔ استنبول میں دہشت گردی کے صرف پانچ روز بعد اور عید الفطر سے دو روز قبل بغداد مارکیٹ عراق میں دہشت گردوں نے بموں کے دھماکہ کر کے 213 لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اور 175 لوگ بری طرح زخمی ہو گیے تھے۔ یہ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ ارد گرد کی عمارتیں ہل گئی تھیں۔ انسانی جسموں کے ٹکڑے ہر طرف بکھرے ہوۓ تھے۔ انسانیت یہ خوفناک منظر 21 ویں صدی میں دیکھ رہی تھی۔ عراق میں بموں کے ان دھماکوں کے تقریباً دو ہفتہ بعد کابل افغانستان میں ہزارہ قومیت کے لوگوں کے ایک پرامن احتجاجی مظاہرے میں بم دھماکہ میں 80 لوگ ہلاک ہو گیے تھے۔ اور231 لوگ زخمی ہو گیے تھے۔ دہشت گردی کے یہ خوفناک واقعات تین اسلامی ملکوں عراق افغانستان اور ترکی میں ہوۓ تھے۔ جبکہ فرانس اور جرمنی میں دہشت گردی کے واقعات کی نوعیت مختلف تھی۔ عراق ترکی اور افغانستان میں بموں کے حملوں میں داعش کو Suspect بتایا گیا تھا۔ جیسے طالبان کو اب پیچھے کیا جا رہا ہے اور داعش کو آگے لایا جا رہا ہے۔ افغان جنگ کا آغاز القاعدہ کے خلاف ہوا تھا۔ پھر 6 سال بعد یہ طالبان کے خلاف جنگ بن گئی تھی۔ اور 10 سال بعد اس جنگ کی Baton اب داعش کو دی جا رہی ہے۔ صدر اوبامہ نے یہ صحیح  کہا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہونے میں Decades لگ جائیں گے۔
     داعش کی بنیاد عراق میں ر کھی گئی تھی۔ جس عراقی فوج کو امریکہ نے تربیت دی تھی۔ دو سال قبل اس کا ایک بریگیڈ حکومت سے منحرف ہو گیا تھا۔ اور امریکہ کے فراہم کردہ ہتھیاروں کے ساتھ اسلامی ریاست کے بانیوں سے مل گیا تھا۔ جنہوں نے فلوجہ اور موصل میں اپنی اسلامی ریاست قائم کر لی تھی۔ اور یہ عراقی سنی تھے۔ اور پھر یہاں سے انہوں نے شام کا رخ کیا تھا۔ شام میں عدم استحکام کھائی کی گہرائی تک پہنچ گیا تھا۔ اور یہاں حکومت شام کے ایک بڑے حصہ پر اپنا کنٹرول کھو چکی تھی۔ اسلامی ریاست کے لئے یہ امریکہ کی شام کے باغیوں سے زیادہ ان کی مدد ثابت ہوئی تھی۔ اسلامی ریاست نے شام کے بعض بڑے شہروں پر قبضہ جما لیا تھا اور پھر یہاں اسلامی ریاست قائم کر لی تھی۔ لیکن پھر جوں ہی شام میں حکومت کا کنٹرول بحال ہو گیا تھا۔ اسد حکومت نے روس کی مدد سے اسلامی ریاست سے اپنے شہر واپس لے لئے تھے۔ اسلامی ریاست اب عراق کے سنی صوبوں پر قابض ہے۔ فلوجہ کو اسلامی ریاست سے آزاد کرا لیا گیا ہے اور اب موصل کو آزاد کرانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ موصل کو آزاد کرانے کے بعد اسلامی ریاست میں جو لوگ شامل ہیں وہ کہاں جائیں گے؟ ان کا  تعلق عراق سے ہے۔ اور یہ عراق کے سنی شہری ہیں۔ عراق پر اینگلو امریکی حملہ کے نتیجہ میں جو عدم استحکام آیا ہے۔ اس نے اسلامی ریاست کو جنم دیا ہے۔ اسلامی ریاست میں کچھ دوسرے ایکٹر بھی شامل ہو گیے ہیں۔ عراق میں اگر شیعہ سنی ایک قوم بن جاتے اور سیاسی استحکام بحال ہو جاتا پھر شاید اسلامی ریاست بھی دنیا کے لئے مسئلہ نہیں بنتا۔
     لیکن دنیا کے جو Genius تھے۔ وہ دنیا کے سامنے عراق میں سیاسی استحکام کی صرف باتیں کرتے رہے اور دوسری طرف وہ شام کو عدم استحکام کرتے رہے۔ شام جیسے ایک چھوٹے سے ملک میں پانچ سال سے انتشار اور خانہ جنگی کسی ایٹمی دھماکہ سے کم نہیں تھی۔ شام کے ذریعے اسلامی ریاست کو اپنا نیٹ ورک وسط ایشیا اور یورپ میں پھیلانے کا موقعہ فراہم کیا گیا تھا۔ اس میں وسط ایشیا سے منشیات مافیا بھی شامل ہو گیا ہے۔ اس میں مشرقی یورپ کے Criminal Gangs بھی شامل ہو گیے ہیں۔ اسلامی ریاست اتنی اسلامی نہیں کہ جتنی یہ Criminals  کی State  ہے۔ طویل جنگوں کے نتیجے میں ان ملکوں میں معاشی وسائل اور معاشرتی قدریں تباہ ہو گئی ہیں۔ اور لوگوں میں کرائم کے رجحان بڑھ گیے ہیں۔ لوگوں کو افیون کا عادی بنانا، لوگوں کو منشیات کی اسمگلنگ کا عادی کرنا اور لوگوں کو دہشت گردی کی ترغیب دینا یہ سب ایک ہی نوعیت کے کرائم ہیں۔ اور یہ ان ملکوں کا المیہ ہے۔ 29 جون کو بغداد مارکیٹ بم دھماکوں میں 213 لوگ ہلاک ہوۓ تھے۔ 4 جولائی کو استنبول ایرپورٹ بم دھماکوں میں 54 لوگ ہلاک ہوۓ تھے۔ اور 22 جولائی کو کابل میں ہزارہ کے ایک پرامن احتجاجی مظاہرے میں بم دھماکوں میں 80 لوگ ہلاک ہوۓ تھے۔ جبکہ دہشت گردی کے ان تینوں واقعات میں زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں تھی۔ دہشت گردی کے اگر ان تینوں واقعات کا ذرا گہرائی سے جائزہ لیا جاۓ تو یہ ایک ہی طرح کا Pattern ہے۔ جو انتہائی اعلی پروفیشنل Criminal ہونے کا ثبوت ہے۔
     ترکی حکومت کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق استنبول ایرپورٹ بم دھماکوں میں حملہ آوروں کا تعلق وسط ایشیا کی سابق سوویت ریاستوں سے تھا۔ حملہ آوروں نے استنبول کے ایک انتہائی قدامت پسند ڈسٹرکٹ میں ایپارٹمنٹ کراۓ پر لیا تھا۔ اور یہاں انہوں نے استنبول ایرپورٹ پر حملہ کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ترکی کے حکام کے مطابق ان کے ایپارٹمنٹ کی تلاشی کے دوران ان کے پا سپورٹ ملے ہیں۔ اور یہ روس ازبکستان اور کرغستان کے شہری تھے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ انہیں کون Finance کر رہا تھا؟ ان کے ایپارٹمنٹ کا کرایہ کون دے رہا تھا؟ یہاں قیام کے دوران ان کے اخراجات کون ادا کر رہا تھا؟ ڈرون دہشت گردوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ لیکن ان کو جو Finance کرتے ہیں ان کا کوئی تعاقب نہیں کرتا ہے۔ صدام حسین کے خلاف اتنی سخت پابندیاں لگائی گئی تھیں کہ اسکول کے بچوں کے لئے پین پنسل اور پیپر تک عراق میں نہیں جا سکتے تھے۔ لیکن دہشت گردوں کو جو Finance کر رہے ہیں۔ انہیں ایسی بندشوں سے آزاد رکھا ہے۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فوجوں کی موجودگی میں افیون کی پیداوار اور منشیات کی اسمگلنگ  کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ اور منشیات مافیا طالبان کی سرگرمیوں کو Finance کرتا تھا۔ کیونکہ طالبان کے تعاون کے بغیر منشیات مافیا کاروبار نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے 16 سال ہو گیے ہیں اور ان کی سرگرمیاں ابھی تک جاری ہیں۔ منشیات مافیا کا کاروبار بھی جاری ہے۔ اور امریکہ کے فوجی آپریشن بھی جاری ہیں۔
     دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بش انتظامیہ نے جھوٹ بولے تھے۔ اور اب اوبامہ انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف مہم میں بہت سے حقائق چھپاۓ ہیں۔ استنبول ایرپورٹ بم دھماکوں کے بعد نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں روسی سیکورٹی حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ تقریباً 7 ہزار روسی اور وسط ایشیا سے شام میں لڑنے گیے تھے۔ اور ان میں پیشتر داعش میں شامل ہو گیے تھے۔ جبکہ 2015 میں کازکستان، کرغستان، تاجکستان، ترکمستان اور ازبکستان سے 4 ہزار رضاکار شام میں داعش میں شامل ہو گیے تھے۔ روس کے North Caucasus سے اور وسط ایشیا سے اتنی بڑی تعداد میں جہادی شام میں لڑنے گیے تھے۔ ان میں ایک بڑی تعداد نے سی آئی اے کے تربیتی کیمپوں میں تربیت بھی لی ہو گی۔ لیکن امریکہ اور نیٹو ملکوں کے میڈیا نے روس اور وسط ایشیا سے شام میں جانے والے جہادیوں کے بارے میں کبھی نہیں بتایا تھا۔ دنیا کو صرف یہ بتایا جاتا تھا کہ یورپ اور شمالی امریکہ سے مسلم نوجوان بڑی تعداد میں شام میں لڑنے جا رہے تھے۔ لیکن وسط ایشیا سے جو شام جاتے تھے وہ پھر داعش میں شامل ہو جاتے تھے۔ اور جب یہ واپس وسط ایشیا آتے تھے تو افغانستان چلے جاتے تھے۔ اور وہاں بموں کے دھماکے کرتے تھے۔ اور یہ ازبک تاجک اور کرغستان وغیرہ کے جہادی تھے۔ انہیں داعش بتایا جاتا تھا۔ لیکن کابل میں جب بموں کے حملہ ہوتے ہیں۔ کابل کی حکومت ان کے حملوں کا الزام پاکستان کو دینے لگتی تھی کہ یہ پاکستان سے آتے ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے لگتی تھی کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کرے۔ کانگرس پاکستان پر پابندی لگا دیتی ہے کہ پاکستان دہشت گرد گروپوں کو ختم نہیں کر رہا ہے۔ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں ہے۔ یہ ایک نظام بن گیا ہے۔ 16 سال میں اس نظام کے ذریعہ کتنے ملکوں کو تباہ کیا گیا ہے۔ یہ کام داعش سے لیا جا رہا ہے۔ داعش کو اب افغانستان میں Inject کیا جا رہا ہے۔ افغان انٹیلی جنس کی توجہ پاکستان کی طرف ہے اور افغانستان کے پچھلے دروازے سے داعش کابل میں داخل ہو رہی ہے۔ امریکہ اور نیٹو ملکوں کے میڈیا سے طالبان غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ اور داعش کو ان کے مقام پر لایا جا رہا ہے۔ اس لئے عقلمندوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ علاقائی تنازعوں کو علاقائی ملکوں کو خود حل کرنا چاہیے۔ صرف اس میں ان کی بہتری ہوتی ہے۔ بیرونی طاقتیں علاقائی تنازعوں کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے لگتی ہیں۔ اور علاقائی ملکوں کے لئے نئے تنازعہ پیدا کر دیتی ہیں۔         

Wednesday, July 27, 2016

Erdogan’s Nuclear Coup Against The Military Coup

Erdogan’s Nuclear Coup Against The Military Coup
Turkey Is Becoming An Islamic State From A Secular State, In The Midst Of The War Against The Islamic State

مجیب خان
Turkish President Erdogan

Failed Turkey Coup Plottors

Police Arresting Those Accused Of Being Involved In The Failed Coup

Pro-Erdogan Supporters

        امریکہ کی قیادت میں ISIS) ("اسلامی ریاست" کے خلاف اتحادیوں کی جنگ کی یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ ترکی  سیکولر ریاست سے اسلامی ریاست بن رہا ہے۔ اور ترکی کو اسلامی ریاست بنانے کے خلاف فوجی انقلاب بھی اب ناکام ہو گیا ہے۔ با ظاہر فوجی انقلاب کا مقصد ترکی کے سیکولر آئین کو بحال رکھنے کے اقدام میں تھا۔ ترکی کے آئین کی حفاظت فوج کے فرائض میں شامل ہے۔ اس آئین نے ترکی کو استحکام دیا ہے۔ ترکی کو ایک مہذب معاشرہ بنایا ہے۔ جس کی وجہ سے ترکی کو مغربی طاقتوں کے کلب میں ایک با وقار مقام ملا ہے۔ اور اس آئین میں ترکی کے لوگوں کو اقتصادی اور معاشرتی خوشحالی ملی ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے بعد پہلی مرتبہ ترکی کو اسلامی دنیا میں قیادت کا مقام ملا تھا۔ ترکی نے یہ سب ایک سیکولر آئین میں حاصل کیا تھا۔ سیکولر آئین کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ترکی میں لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ اور انہیں اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے کی اجازت  نہیں تھی۔ ایک سیکولر آئین نے ترکی کے لوگوں کو اچھا اور با اخلاق مسلمان بنایا ہے۔ جبکہ جن اسلامی ملکوں کے آئین اسلامی ہیں۔ ترکی کے مسلمان ان ملکوں کے مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ پر امن اور مہذب ہیں۔ اور معاشرتی طور پر بھی ترکی ان ملکوں کے مقابلے میں بہت بہتر اسلامی معاشرہ ہے۔ لیکن ترکی سیکولر ریاست سے اب اسلامی ریاست بننے جا رہا ہے۔ اور یہ تشویش کی بات ہے۔
      صدر طیب اردو گان ترکی کو اب بدل رہے ہیں۔ اس کا سیکو لر نظام بدل رہے ہیں۔ اس کی لبرل سیاست میں تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ ترکی کو ایک مذہبی قدامت پسند معاشرہ بنا رہے ہیں۔ ترکی کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں کر رہے ہیں۔ خطہ کے سیاسی اختلافات اور تنازعوں میں ترکی کا رول تبدیل ہو رہا ہے۔ ان تبدیلیوں کے عمل میں ترکی خطرناک حد تک عدم استحکام ہو رہا ہے۔ صدر طیب اردو گان 2003 سے 2014 تک ترکی کے وزیر اعظم تھے۔ اور ان 11 برسوں میں صدر اردو گان نے ترکی کی سیاست میں اپنی مذہبی نظریاتی بنیادیں خاصی مستحکم کر لی ہیں۔ اور 2014 میں اردو گان ترکی کے صدر منتخب ہو گیے تھے۔ صدر بننے کے بعد اردو گان حکومت نے گزشتہ دو سال میں علاقائی انتشار کے سلسلے میں جو سیاسی فیصلے کیے ہیں۔ وہ ترکی کے استحکام، سلامتی اور مفاد میں تباہی کا سبب بنے ہیں۔ سابق صدر عبداللہ گل کے دور میں جس میں طیب اردو گان وزیر اعظم تھے۔ ترکی نے بہت مثبت فیصلے کیے تھے۔ خطہ کی جنگوں اور تنازعوں میں اتحادی بن کر ترکی کو Controversial نہیں بنایا تھا۔ عراق پر حملہ کی ترکی نے مخالفت کی تھی۔ اور اس جنگ میں امریکہ سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ترکی میں نیٹو کے فوجی اڈوں کو عراق کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اسلامی دنیا میں ترکی کے ان فیصلوں کو خاصا سراہا یا گیا تھا۔ ترکی کی ایران اور شام کے ساتھ قریبی تعلقات کو فروغ دینے کی پالیسی علاقائی امن اور استحکام کے مفاد میں تھی۔ یہ بہت درست فیصلے تھے۔ اور سب کے فائدے میں تھی۔
      صدر اردو گان نے پھر 180 ڈگری سے یوٹرن لیا اورایران اور شام کے ساتھ قریبی اتحاد کی پالیسی تبدیل کر کے سعودی عرب کی ایران اور شام کے خلاف پالیسی کو گلے لگا لیا تھا۔ حالانکہ ایران اور شام ترکی کے انتہائی اہم ہمسایہ تھے۔ ترکی کی سرحدیں ان ملکوں کے ساتھ ملتی تھیں۔ عراق ایک افسوسناک خانہ جنگی اور خطرناک عدم استحکام میں گہرا ہوا تھا۔ اور یہ بھی ترکی کی سرحد پر تھا۔ اب ترکی شام اور عراق کی خانہ جنگی اور عدم استحکام کے دباؤ میں آ گیا تھا۔ اس خطہ کی سیاست میں سعودی عرب کا رول بڑا Dubious اور Controversial رہا ہے۔ سعودی پالیسیوں نے اس خطہ میں امن کو اتنا فروغ نہیں دیا ہے کہ جتنا جنگوں کو فروغ دینے میں مدد کی ہے۔ دنیا ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکی ہے کہ سعودی عرب کو شام سے اچانک یہ دشمنی کیسے ہوئی ہے کہ انہوں نے شام کو تباہ و برباد کرنے میں کھربوں ڈالر لگا دئیے ہیں۔ اسلامی حکمرانوں کی ان نفرتوں کے نتیجے میں دو لاکھ بےگناہ شامی ہلاک ہو گیے ہیں۔ حالانکہ 2010 میں مرحوم شاہ عبداللہ صدر بشر السد کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چل رہے تھے۔ صدر اردو گان ایک جمہوری ملک کے صدر تھے۔ ترکی سعودی عرب سے زیادہ یورپی یونین کے قریب تھا۔ اور ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت دینے کے مسئلہ پر ان کے مذاکرات بھی جاری ہیں۔ پھر صدر اردو گان نے سعودی عرب کی شام سے دشمنی میں اتحاد میں شامل ہونا کیسے قبول کر لیا تھا؟ بڑے دکھ کی بات ہے کہ سعودی شاہ حرمین شریفین ہیں۔ انہیں تو مسلمانوں کے ساتھ جنگوں، نفرتوں اور دشمنیوں سے دور رہنا چاہیے تھا۔ بلکہ مسلمانوں کے درمیان نفرتیں اور دشمنیاں ختم کرانا ان کا مقدس مشن ہونا چاہیے تھا۔
      ایک درست راستہ چھوڑ کر غلط راستہ پر جانے کا ترکی کو خاصا تلخ تجربہ ہوا ہے۔ ترکی کی سرحد پر ایک طرف عراق میں اور دوسری طرف شام میں عدم استحکام ہے اور خانہ جنگی ہو رہی ہے۔ بلاشبہ ان حالات سے ترکی بھی متاثر ہو گا۔ ترکی کی سیکورٹی کے لئے نئے خطرے پیدا ہو گیے ہیں۔ امن سے سیکورٹی آتی ہے۔ سیکورٹی سے امن نہیں آتا ہے۔ سرحدوں پر جب امن ہو گا۔ ملک کی سیکورٹی کے لئے بھی کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ اور جب سرحدوں پر امن نہیں ہو گا ملک کی سیکورٹی کے لئے بھی خطرے پیدا ہوں گے۔ سرد جنگ میں امریکہ اور مغربی یورپ کے ملکوں نے سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے ساتھ سرحدوں پر امن رکھا تھا۔ اور اس امن کی وجہ سے مغربی اور مشرقی یورپ میں سیکورٹی کے لئے خطرے پیدا نہیں ہوۓ تھے۔ صدر اردو گان کا شام کی خانہ جنگی میں سعودی عرب کے ساتھ شامل ہو کر باغیوں کی حمایت کرنے کا فیصلہ ترکی کے لئے Suicidal Blunder ثابت ہوا ہے۔ اردو گان حکومت کے یہ فیصلے ترکی کو بھی عدم استحکام کی طرف لے جا رہے تھے۔ دہشت گردی ترکی کے شہروں میں پہنچ گئی تھی۔ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اس دہشت گردی کے نتیجے میں ہلاک ہو گیے تھے۔ عراق میں 13 سال سے خانہ جنگی کے حالات تھے لیکن ان حالات نے ترکی کو عدم  استحکام نہیں کیا تھا۔ لیکن شام میں پانچ سال سے جاری خانہ جنگی نے ترکی کے استحکام کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ انقرہ اور استنبول میں دہشت گردی کے خوفناک واقعات کا ترکی کے لوگوں نے کبھی تصور نہیں کیا ہو گا۔ ترکی میں یہ واقعات کبھی نہیں ہوتے اگر صدر اردو گان اس قدر مذہبی نظریاتی نہیں ہوتے اور ترکی کے سیکولر آئین کی سوچ کے مطابق علاقائی سیاست میں ملوث ہونے کے فیصلے کرتے تو شاید ترکی کو اس فوجی انقلاب کا بھی سامنا نہیں ہوتا۔ صدر اردو گان کی طرح پاکستان میں جنرل ضیا الحق بھی انتہائی مذہبی نظریاتی تھے۔ اور انہوں نے افغانستان کی داخلی سیاست میں ملوث ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ پاکستانی قوم ابھی تک ان کے فیصلوں کو بھگت رہی ہے۔ جنرل ضیا الحق فوج سے تھے لیکن ان کے خلاف بھی فوجی انقلاب کی شورش ہوئی تھی۔ انہوں نے بھی فوج اور دوسرے اداروں میں Purges کیا تھا۔
      شام کی داخلی خانہ جنگی میں ملوث ہونے کا فیصلہ کرنے سے پہلے اردو گان حکومت کو 1980 کے عشرے میں پاکستان کے علاقائی سیاست میں فیصلوں کا مطالعہ کرنا چاہیے تھا پھر ان کے نتائج دیکھتے اور اس کے بعد ترکی کے ارد گرد کے حالات کا جائزہ لیتے تو انہیں شاید بڑی مماثلت نظر آتی۔ ترکی کی سرحد پر عراق میں خانہ جنگی ہو رہی  تھی۔ اور پاکستان کی سرحد پر بھارت میں ہندو مسلم فسادات اور کشمیر میں خانہ جنگی ہو رہی تھی۔ جبکہ شام میں حکومت کے خلاف خانہ جنگی انتہا پر پہنچ رہی تھی۔ شام سے لاکھوں مہاجرین ترکی میں آ رہے تھے۔ پاکستان کی سرحد پر افغانستان میں ماسکو نواز حکومت کے خلاف شورش ہو رہی تھی۔ اور ہزاروں کی تعداد میں افغان پاکستان میں آ رہے تھے۔ مذہبی نظریاتی لیڈر خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو سیاسی فیصلے بڑی تنگ نظری سے کرتے ہیں۔ صدر اردو گان ایک ایسے ملک کے صدر تھے جس کا آئین سیکولر تھا۔ لیکن کیونکہ وہ خود مذہبی نظریاتی تھے لہذا انہوں نے شام میں ایک سیکولر حکومت کے خلاف مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اردو گان حکومت کے ان فیصلوں کے نتیجے میں ترکی کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حکومت شام میں باغیوں کی حمایت کر رہی تھی۔ اور ترکی کے کرد باغی بن گیے تھے۔ اور اپنے لئے آزادی کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ شام کے مسئلہ پر روس کے ساتھ ترکی کے تعلقات خراب ہو گیے تھے۔ روس نے ترکی پر اقتصادی بندشیں لگا دی تھیں۔ جس کے نتیجے میں ترکی کی روس کے ساتھ کھربوں ڈالر کی تجارت ختم ہو گئی تھی۔ جرمن پارلیمنٹ نے آرمنیا میں نسل کشی میں ترکی کا رول تسلیم کرنے کی قرارداد منظور کر لی تھی۔ ترکی میں دہشت گردوں کے حملوں کے باوجود نیٹو ترکی کی مدد کے لئے نہیں آیا تھا۔
Ankara Rocked by A Second Terror Attack
      لیکن پھر صدر اردو گان کو جلد اپنی غلط پالیسیوں کا احساس ہو گیا تھا۔ انہوں نے روس کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لئے اس سے معافی مانگی تھی۔ اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات دوبارہ سابق سطح پر لانے کا اعلان کیا تھا۔ ایران کے صدر حسن روحانی کے ساتھ دونوں ملکوں میں تجارت کو فروغ دینے کا معاہدہ کیا تھا۔ اور اپنے خطہ میں Zero Enemy پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ فیصلے اردو گان حکومت نے بھاری جانی، اقتصادی اور سیاسی نقصانات ہونے کے بعد کیے تھے۔ اصولوں کا تقاضہ یہ تھا کہ صدر اردو گان کو استنبول ایرپورٹ دہشت گردی کے واقعہ کے بعد مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔ فوج شاید پھر انہیں اقتدار سے ہٹانے نہیں آتی۔ جب حکومت قوم کے مفاد میں غلط فیصلے کر رہی تھی تو پھر فوج کو بھی قوم کی سلامتی کے مفاد میں حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے غلط فیصلہ کرنا پڑا تھا۔ اور اب صدر طیب اردو گان ترکی کے جنرل ضیا الحق بن گیے ہیں۔ انہوں نے حکومت کے تمام اداروں میں Purges  شروع کر دیا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے عدلیہ کے تمام ججوں کو برطرف کر دیا تھا۔ اس کے بعد بڑے پیمانے پر فوج میں برطرفیاں اور گرفتاریاں شروع کر دی ہیں۔ انٹیلی جنس اداروں میں بھی چھانٹیاں کی جا رہی ہیں۔ صحافیوں کو حراست میں لیا جا رہا۔ اخبارات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں۔ اگر ترکی میں فوجی انقلاب کامیاب ہو جاتا تو فوجی حکومت پھر یہ تمام اقدامات کرتی جو اس وقت اردو گان حکومت کر رہی ہے۔ اور اب خدشہ یہ ہے کہ جس طرح جنرل ضیاالحق نے فوج، انٹیلی جنس اداروں، تعلیمی اداروں، عدلیہ اور نشر اشاعت کے اداروں میں اسلامی نظریاتی لوگوں کی بھرتیاں کی تھیں۔ اردو گان حکومت بھی اب ایسا ہی کرنے جا رہی ہے؟ اس صورت میں ترکی کا نیٹو میں کیا مستقبل ہو گا؟ ترکی کے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی؟ اور صدر اردو گان کتنا عرصہ Survive کر سکے گے؟  یہ سوالات ہیں جن کے جواب آنے والے دنوں میں سامنے آئیں گے۔                

Thursday, July 21, 2016

France Under Attack: Irresponsible World Leaders Are Responsible For All Of This

1980's Jihad In Afghanistan, 1990's Bloody Civil War In Algeria, Bloody Civil War Of The Century In Syria, The Removal Of Gaddafi, New Opening For Jihad And Civil Wars   

France Under Attack: Irresponsible World Leaders Are Responsible For All Of This
  
مجیب خان
Nice, France

Victims of Algerian Civil War

Algerians Suffering During Their Brutal Civil War   

Nice, France 

Former French President, Nicolas Sarkozy
       ‌فرانس کی یوم آزادی پر بحر روم کی ساحل کے قریب جنوبی شہر نیس (Nice) میں دہشت گردی کے خوفناک واقعہ سے دنیا جیسے دہل گئی تھی۔ فرانس کا جشن آزادی اچانک سوگ بن گیا تھا۔ 30 ہزار لوگ Nice میں جشن آزادی کی تقریبات دیکھنے دور دراز سے اور مختلف ملکوں سے یہاں آۓ تھے۔ بچے جوان عورتیں مرد غرضیکہ ہر عمر کے لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہجوم تھا۔ سب کی نظریں آسمان کی طرف تھیں اور سب آتش بازی کا نظارہ کر رہے تھے۔ پھر ایک 31 سالہ سر پھرا ڈرائیور بہت بڑے ٹرک کے ساتھ  Zig Zag کرتا ہجوم میں گھستا چلا گیا۔ یہ تقریباً 1.3 میل تک ہجوم میں اسی طرح چلتا چلا گیا تھا۔ اس ٹرک نے بے شمار لوگوں کی جانیں لے لی تھیں۔ جن میں بچے بھی شامل تھے۔ سڑک پر ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ پولیس کی فوری آمد سے سینکڑوں لوگوں کی جانیں بچ گئی تھیں۔ پولیس نے ٹرک پر فائرنگ کر کے ڈرائیور کو ہلاک کر دیا تھا۔ کسی کے ذہن میں بھی یہ نہیں تھا کہ یہ بہت بڑا ٹرک بھی ٹینک کی طرح استعمال  کیا جا سکتا تھا۔ 85 لوگ موقعہ ہی پر ہلاک ہو گیے تھے۔ جن میں دس بچے بھی شامل تھے۔ اور300 لوگ شدید زخمی ہو گیے تھے۔ آٹھ ماہ میں یہ فرانس میں دہشت گردی کا دوسرا بڑا واقعہ تھا۔ پچھلے سال نومبر میں پیرس میں دہشت گردی کے واقعہ میں 130 لوگ ہلاک ہوۓ تھے۔ اس واقعہ کے بعد سے فرانس میں ہنگامی حالت نافذ تھے۔ اور حکومت چند روز میں ہنگامی حالات ختم کرنے کا اعلان کرنے والی تھی۔ لیکن Nice میں دہشت گردی کا واقعہ ہونے کے بعد اب ہنگامی حالت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
     گزشتہ نومبر میں پیرس میں دہشت گردی کے بعد فرانس بھر میں تقریباً 6 ہزار لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ 3 ہزار کو پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔ 100 کے قریب لوگوں کو سزائیں ہوئی تھیں۔ فرانس میں ایک بہت بڑی تعداد میں شمالی افریقہ کے ملکوں سے تعلق رکھنے والی مسلم آبادی ہے۔ جو فرانس کی سابق نوآبادیات تھے۔ اور اب کئی دہائیوں سے فرانس میں آباد ہیں اور ان کی دوسری اور تیسری نسلیں فرانس میں پیدا ہوئی ہیں۔ فرانس کے کلچر میں انہوں نے پرورش پائی ہے۔ گزشتہ نومبر میں جنہوں نے پیرس میں دہشت گردی کی تھی۔ ان کا تعلق مراکش سے تھا۔ لیکن فرانس میں پیدا ہوۓ تھے۔ اور Nice میں جس نے دہشت گردی کی ہے وہ تونس میں پیدا ہوا تھا۔ لیکن فرانس کا شہری تھا۔ فرانس میں دہشت گردی کے واقعات میں 5 فیصد داعش کا تعلق ہو سکتا ہے۔ لیکن 100 فیصد داعش فرانس میں ملوث نہیں ہے۔ اب تک فرانس کی حکومت کی تحقیقات کے مطابق Nice میں دہشت گردی میں داعش کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ ٹرک ڈرائیور کے کمپیوٹر اور فون ریکارڈ سے بھی  ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔ یہ شخص جنونی مذہبی بھی نہیں تھا۔ اس کے کچھ گھریلو مسائل تھے۔ اور ذہنی مریض تھا۔ لیکن پھر اس نے فرانس کے لوگوں کے خلاف یہ دہشت گردی کیوں کی تھی؟
     بہت سے ذہنوں با لخصوص فرانس کے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ہے کہ آخر فرانس مسلسل دہشت گردی کی زد میں کیوں ہے؟ ان حالات سے مایوس ہو کر فرانس کے لوگ اب یہ کہنے لگے ہیں کہ انہیں ایک طویل عرصہ اس دہشت گردی کے ساتھ رہنا ہو گا۔ لیکن انہیں دہشت گردی کے خوفزدہ حالات میں کیوں رہنا ہو گا؟ یہ حالات انہوں نے اپنے لئے پیدا نہیں کیے ہیں۔ یہ حالات ان کے لیڈروں نے انہیں دئیے ہیں۔ اس کے ذمہ دار ان کے لیڈر ہیں۔ جنہوں نے اپنے عوام سے کبھی سچ نہیں بولا ہے۔ فرانس کے عوام کو اپنے سابق Flamboyant صدر نکولس سرکو زی  کا گھراؤ کرنا چاہیے۔ اور اس سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ اس نے کیا سوچ کر شمالی افریقہ میں لیبیا کو عدم استحکام کیا تھا؟ کیا اس کے دور رس Consequences کے بارے میں غور کیا تھا؟ یا گلی کے بچوں کی طرح اچھلتے کودتے بستی میں گھر کو آگ لگا کر بھاگ گیے تھے اور اب Village کے لوگ اس آگ کے شعلوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر عقل تسلیم نہیں کرتی ہے کہ واقعی کیا یہ دنیا کے ذمہ دار لیڈر ہیں؟
     یہ لیڈر خود اپنے گھروں میں دہشت گردی لاۓ ہیں۔ اور دنیا کو بھی دہشت گردی دے رہے ہیں۔ فرانس اس وقت جن دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہے۔ حقیقت میں داعش سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ یہ فرانس کی سابق کالونیوں الجیریا، تونس اور مراکش سے ہیں اور سب فرانس کے شہری ہیں۔ اور فرانس میں ان کی خاصی بڑی تعداد ہے۔ لیبیا میں جب تک صدر کرنل معمر قدافی اقتدار میں تھے۔ وہ فرانس کے لئے فرنٹ لائن سیکورٹی تھے۔ برطانیہ میں 2007 میں دہشت گردی کے کئی واقعات ہوۓ تھے۔ اسی اثنا میں اسپین اٹلی اور یونان میں بھی ایسے ہی کئی واقعات ہو چکے تھے۔ لیکن فرانس ایسے واقعات سے بچا ہوا تھا۔ جب فرانس نے برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ مل کر صدر معمر قدافی کے خلاف کاروائی کی تھی اور ان کا اقتدار ختم کر دیا۔ اس کے بعد شمالی افریقہ میں فرانس کی سابق کالونیوں میں اسلامی انتہا پسندوں کا جیسے پنڈو رہ با کس کھل گیا تھا۔ اور اصل آزادی لیبیا کے لوگوں کو نہیں بلکہ انہیں دلائی گئی تھی۔ اسلامی ریاست کے قیام کے لئے اصل تحریک شمالی افریقہ با لخصوص الجیریا میں 90 کے عشرے سے جاری تھی۔ داعش ایک جعلی اور ‌فراڈ تنظیم ہے جو امریکہ کے Military Industrial Complex کے مفاد میں کام کر رہی ہے۔ اسی ہفتہ امریکہ نے تقریباً 8 سو ملین ڈالر کے بم متحدہ عرب امارات کو فروخت کیے ہیں۔ الجیریا کی آزادی کے بعد 26 دسمبر 1991 میں الجیریا میں پہلے انتخابات ہوۓ تھے۔ جس میں Islamic Salvation Front کے پہلے راؤنڈ میں 118 امیدوار منتخب ہو گیے تھے۔ جبکہ National Liberation Front کے صرف 16 امیدوار کامیاب ہوۓ تھے۔ اور FIS کی 13 جنوری 1992 میں دوسرے راؤنڈ میں بھاری اکثریت سے کامیابی بہت واضح نظر آ رہی تھی۔ FIS  نے ابھی سے حکومت کو دھمکیاں دینا شروع کر دی تھیں۔ اسے غیر محب وطن، فرانس کی پٹھو اور کر پٹ ہو نے کے الزام دئیے جا رہے تھے۔ 11 جنوری 1992 میں فوج نے انتخابی عمل ملتوی کر دیا اور صدر Bendjedid سے مستعفی ہو جانے کا اصرار کیا تھا۔ اور الجیریا کی تحریک آزادی کے سپہ سالار محمد  Boudiafکو جو جلاوطن تھے۔ انہیں واپس بلا کر الجیریا کا صدر بنا دیا تھا۔ لیکن چند ہی ماہ میں 29 جون 1992 میں ان کے ایک محافظ نے انہیں قتل کر دیا تھا۔ 1995 میں قاتل کو خفیہ عدالتی کاروائی کے بعد موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ لیکن اس کی سزا پر عملدرامد نہیں ہو سکا تھا۔ اسلامک فرنٹ (FIS) پارٹی کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ فوجی ذرائع کے مطابق تقریباً پانچ ہزار لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس فوجی انقلاب کا مقصد صرف اسلامک فرنٹ کو الجیریا کے پہلے جمہوری انتخاب میں حکومت میں آنے سے روکنا تھا۔ فرانس کی خفیہ ایجنسی الجیریا کی انٹیلی جنس کے ساتھ مل کر یہ کاروائیاں کر رہی تھی۔ 1992 میں الجیریا میں انتہائی خوفناک خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ اس خانہ جنگی میں 2 لاکھ الجیرین مارے گیے تھے۔ جبکہ 15 ہزار افراد لا پتہ  ہو گیے تھے۔
     مارچ 1993 میں فرانسیسی بولنے والے یونیورسٹیوں کے ماہر تعلیم، دانشوروں، مصنف، صحافی اور میڈیکل ڈاکٹروں کو قتل کیا جا رہا تھا۔ شہروں کے غریب نوجوان جو اس جہاد میں شامل ہو رہے تھے۔ ان کی نظروں میں فرانسیسی بولنے والے دانشوروں کا امیج نفرت سے وابستہ تھا۔ مسلح اسلامی تحریک بہت منظم اور ایک مکمل تنظیم تھی۔ جو ایک طویل المدت جہاد کی حامی تھی۔ یہ ریاست اور اس کے نمائندوں کو ٹارگٹ کر رہے تھے۔ علی بن حاج جیل سے مسلح اسلامی تحریک کی حمایت میں فتوی جاری کر رہے تھے۔ Said Mekhloufi جنہوں نے افغان جہاد میں حصہ لیا تھا۔ ایک سابق سپاہی اور FIS کی سیکورٹی کے سابق سربراہ تھے۔ فروری 1992 میں انہوں نے اسلامی ریاست (Movement for an Islamic State) کی تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔ اس وقت Francois Mitterrand فرانس میں صدر تھے۔ الجیریا کی خانہ جنگی میں فرانس کا رول خفیہ تھا۔ لیکن الجیریا کی فوج کا رول سب کے سامنے تھا۔ 90 کے عشرے میں ایک انتخابی عمل کے ذریعہ اگر الجیریا میں اسلامسٹ کو اقتدار میں آنے سے نہیں روکا جاتا تو الجیریا اور شمالی افریقہ کے نوجوانوں کے ذہنوں میں 90 کے عشرے میں الجیریا میں خونی خانہ جنگی میں فرانس کا رول نہیں ہوتا۔ جس میں دو لاکھ لوگ مارے گیے تھے۔ اور 15 ہزار ابھی تک لا پتہ ہیں۔ اس وقت اسلامسٹ  کو اقتدار میں آنے سے روکنے کی جنگجو نہ پالیسی کی یہ مہلک سیاسی بیماریاں ہیں جن کا علاج اب فرانس کے پاس ہے اور نہ ہی 16 سال میں امریکہ ان کا کوئی علاج کر سکا ہے۔
     صدر نکولس سرکو زی نے شمالی افریقہ میں ان سیاسی حقائق کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا۔ اور لیبیا میں صدر معمر قدافی کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد شمالی افریقہ میں اسلامی ریاست کی تحریک کو آزادی دلا دی تھی۔ اور اسلامسٹ جو پہلے اپنی فوج کے حملوں کا سامنا کر تے تھے جن کی پشت پر فرانس تھا۔ اب فرانس ان کے حملوں کی زد میں ہے۔ طاقت کے استعمال سے مسائل پر قابو پا نے کا تصور اب فرسودہ ہو چکا ہے۔ جو طاقتیں طاقت کو استعمال کر رہی ہیں وہ اب کمزور نظر آ رہی ہیں۔ اور انہیں سیاسی تنازعوں کا سیاسی حل تلاش کرنا ہو گا۔  


                          

Friday, July 15, 2016

India’s Nonsense Stand On The Sixty-Eight Year Old Kashmir Dispute

     
India’s Nonsense Stand On The Sixty-Eight Year Old Kashmir Dispute

مجیب خان






   
        دہلی حکمرانی کے خلاف کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک تقریباً 29 سال سے جاری ہے۔ اس عرصہ میں تھوڑی دیر کے لئے یہ تحریک ٹھنڈی ہو گئی تھی لیکن اب پھر اس تحریک میں شدت آ گئی ہے۔ یوں تو کشمیر پر بھارتی قبضہ کے خلاف مزاحمت 68 سال سے جاری ہے۔ اور گزشتہ 29 سال کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک میں محرومی کا احساس زیادہ نظر آ رہا ہے۔ اس مزاحمت کی تحریک کے دوران ہزاروں کشمیری بھارتی فوج کی بربریت کے نتیجے میں ہلاک ہو گیے ہیں۔ ہزاروں کشمیری ابھی تک لا پتہ ہیں۔ آٹھ لاکھ بھارتی فوج اس وقت  کشمیریوں کی گردنوں پر دن رات سنگینں تانے کھڑی ہیں۔ صرف گزشتہ پانچ دنوں میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے 35 کشمیری ہلاک ہوۓ ہیں۔ مقبوضہ کشمیر بھارتی فوج کی Garrison States بن گیا ہے۔ کشمیریوں کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ فوج ان کے گھروں کا گھراؤ کیے ہوۓ۔ یہ منظر جنوبی افریقہ میں نسل پرست سفید فام حکومت کا سیاہ فام لوگوں کے ساتھ سلوک سے مختلف نہیں ہے۔ کشمیریوں کے ساتھ یہ بر تاؤ جنتا پارٹی اور کانگرس پارٹی کی حکومتوں میں ہو رہا تھا۔ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں یہ پالیسی دونوں پارٹیوں کی حکومت میں یکساں تھی۔ دونوں پارٹیوں نے کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کو صرف بھر پور طاقت سے کچل نے کے اقدام سے زیادہ کچھ نہیں کیا ہے۔ گزشتہ 29 سال میں جنتا پارٹی اور کانگرس پارٹی نے حقوق سے محروم کشمیریوں کی تکلیفوں کا کوئی علاج نہیں کیا تھا۔ حالانکہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ لیکن کشمیر کے تنازعہ کا سیاسی حل دریافت کرنے کے لئے بھارت کا ذہن جمہوری نہیں ہے۔ 29 سال سے دونوں پارٹیاں پردھان منتری میں بیٹھی کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کے پیچھے صرف پاکستان کا ہاتھ ہونے کا الزام دیتی رہی ہیں۔ اور کشمیریوں کو دہشت گرد اور Militant قرار دے کر ان کے خلاف کاروائیاں کرتی تھیں۔ اس کے سوا انہوں نے کچھ نہیں کیا ہے۔
      دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہر طرف چرچا تھا۔ کچھ ملک اس سے بری طرح متاثر ہو رہے تھے ۔ کچھ ملک اس سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف اور بھارت نے کشمیریوں کے خلاف دہشت گردی کی جنگ سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ فلسطینیوں کے حقوق اور کشمیریوں کے حق خود مختاری کی جدوجہد پر دہشت گرد ہونے کے لیبل لگا دئیے تھے۔ اور ان کے نزدیک یہ حل تھا۔ بھارت نے 29 میں سے 16 سال کشمیریوں کو دشت گرد کہنے اور پاکستان کو کشمیری دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کرنے کے الزامات لگانے میں گزار دئیے تھے۔ جو بھارت کے خیال میں کشمیر کے تنازعہ کا حل ہو گیا تھا۔ پاکستان دہشت گردی کی جنگ کے دباؤ میں گھیرا رہے گا۔ دنیا کو بیس پچیس سال اور اسی طرح دہشت گردی کا سامنا رہے گا۔ اس وقت تک دنیا فلسطینیوں کے حقوق کی بات کرے گی اور نہ ہی کشمیریوں کو خود مختاری دینے کا سوال ہو گا۔ یہ دیکھ کر ایسا احساس ہوتا کہ جیسے 21 ویں صدی میں جمہوری قیادتوں اور دہشت گردوں کی سوچیں ایک جیسی ہو گئی ہیں۔ اس لئے جمہوری قیادتیں تنازعہ اور مسائل حل نہیں کر پا رہی ہیں۔  بلکہ دہشت گردوں کے ساتھ کھیل کھیل رہی ہیں۔
    
Kashmir's Resistance Against The Indian Army’s Brutality Is Terrorism, But The Syrian Rebels Backed By America Are Fighting For Freedom

       جب یہ طے ہے اور سب نے اسے تسلیم کیا ہے کہ کشمیر ایک تنازعہ ہے اور کشمیریوں کی حق خود مختاری پر راۓ شماری کرائی جاۓ گی۔ تو پھر کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ کیسے ہو گیا ہے؟ اور اگر کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے تو 29 سال سے کشمیری اس اٹوٹ انگ پالیسی کے خلاف مزاحمت کیوں کر رہے ہیں؟ اور کشمیریوں کے خلاف بھر پور فوجی طاقت کا استعمال کیوں ہو رہا ہے؟ کہ جس طرح اسرائیلی فلسطینیوں کے خلاف فوج استعمال کرتے ہیں۔ کشمیر کے تناز‏عہ  کو 68 سال ہو گیے ہیں۔ اس تنازعہ میں کئی نسلیں پیدا ہو کر جوان اور پھر بوڑھی ہو کر دنیا سے رخصت ہو گئی ہیں۔ 29 سال قبل کشمیر میں جب مزاحمتی تحریک شروع ہوئی تھی۔ اور اس وقت جو بچے کشمیر میں پیدا ہوۓ تھے۔ وہ بھی اس مزاحمتی تحریک کے ساتھ اب 29 سال کے ہو گیے ہیں۔ اور مقبوضہ کشمیر میں اب بھارتی فوجیوں پر پتھروں سے حملے کر رہے ہیں۔ برہان وانی جو بھارتی فوج کی فائرنگ سے ہلاک ہوا ہے وہ 25 سال کا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں جب صورت یہ ہے تو آئندہ 25 سال میں بھی بھارت کو ایسے بے شمار برہان وانی کا سامنا کرنا ہو گا۔
      بھارت اور پاکستان اگر ایٹمی ہتھیار بنا سکتے ہیں۔ تو یہ کشمیر کا تنازعہ بھی حل کر سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں میں یہ صلاحیتیں ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صلاحیتوں کو مصلحتوں پر ترجیح کیسے دی جاۓ؟ بھارت نے کشمیریوں کو حق خود مختاری دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اور پاکستان بھارت سے اس پر عملدرامد کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ کشمیریوں کو بھارت کے خلاف اکسانا نہیں ہے۔ بلکہ یہ بھارت ہے جو کشمیریوں سے اپنے وعدہ سے مکر جانے سے انہیں بھارت کے خلاف اکسا رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت جب  کشمیریوں کے حق خود مختاری کو تسلیم کرتے ہیں۔ تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ کشمیریوں کی آزاد ریاست ہو سکتی ہے۔ کشمیریوں کو فوج رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں کشمیر کی آزادی اور خود مختاری کی ضمانت دیں گے۔ بھارت اور پاکستان کی فوجیں کشمیر میں نہیں جائیں گی۔ کشمیریوں کو بار ڈر پولیس اور داخلی امن و امان  کے لئے پولیس رکھنے کا اختیار ہو گا۔ اور ان کی اپنی عدلیہ ہو گی۔ کشمیریوں کو دنیا سے تجارت اور اقتصادی معاہدے کرنے کا حق ہو گا۔ لیکن بیرونی طاقتوں کو کشمیر میں سیاسی اور فوجی اثر و رسوخ بڑھانے کا اختیار نہیں ہو گا۔ ایک خود مختار اور آزاد کشمیر بھارت کے مفادات کے خلاف اور نہ ہی پاکستان کے مفادات کے خلاف کوئی فیصلے، پالیسی اور اقدام کرے گا۔ کشمیر میں مذہبی آزادی ہو گی لیکن مذہب کی سیات کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ بھارت اور پاکستان کشمیریوں کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اور نہ ہی کشمیر کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کریں گے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں کشمیر Neutral رہے گا۔ ان خطوط پر کشمیر کا تنازعہ حل کیا جا سکتا ہے۔ ایک مرتبہ جب اس تنازعہ کو حل کر لیا جاۓ گا تو پھر یہ ہی کشمیر جو ستر سال سے دونوں ملکوں میں کشیدگی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا Bridge بن جاۓ گا۔ اس تنازعہ کا حل بھارت کے کورٹ میں ہے۔ بھارت کی طرح برطانیہ بھی ایک قدیم جمہوری ملک ہے۔ برطانیہ 40 سال سے یورپی یونین میں شامل تھا۔ پھر برطانیہ میں یہ راۓ عامہ ابھر آئی جو یہ سمجھتی تھی کہ برطانیہ یورپی یونین کے بغیر زیادہ بہتر کر سکتا ہے۔ اس کی اپنی خارجہ پالیسی ہو گی۔ اس کی کرنسی دنیا میں اپنا مقام پھر بنا سکتی ہے۔ اور برطانیہ یورپی یونین کی اقتصادی پالیسیوں سے نجات حاصل کر کے زیادہ تیزی سے دنیا کی اقتصادی طاقت بن سکتا ہے۔ برطانیہ نے یورپی یونین چھوڑنے یا یورپی یونین میں رہنے کے سوال پر ریفرینڈم کرایا تھا۔ برطانوی عوام کی اکثریت نے یورپی یونین چھوڑنے کی حمایت میں فیصلہ دیا تھا۔ برطانیہ نے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔
      India is Union of States ہے۔ اور کشمیر اس یونین میں شامل نہیں ہے۔ تاہم بھارت بھی Brexit کی طرح Kashmir exit پر ریفرینڈم کرا سکتا ہے۔  اور یہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو سکتا ہے۔       
  

  
                                                                                                                                                                                                                                                                                                            

Monday, July 11, 2016

John Chilcot's Report On Iraq War: There Was “No Imminent Threat From Saddam Hussein” In March 2003 And Military Action Was “Not A Last Resort”

 John Chilcot's Report On Iraq War: There Was “No Imminent Threat From Saddam Hussein” In March 2003 And Military Action Was “Not A Last Resort”

مجیب خان
British P.M. Tony Blair And U.S. President George W. Bush

Bush Awarding Tony Blair With A Presidential Award

Bush Awarding CIA Director, George Tenet, With A Presidential Award, Despite The False Intelligence

"John Chilcot Discusses "The Iraq Inquiry
    
      برطانیہ کی عراق جنگ   رپورٹ اب منظر پر آ گئی ہے۔ عراق جنگ  شروع کرنے میں کتنا جھوٹ بولا گیا تھا۔ اور اصل حقائق کیا تھے۔ اس کی انکوائری اور پھر رپورٹ کی تیاری میں تقریبا 7 سال لگے ہیں۔ Sir John Chilcot جو ایک سابق بیورو کریٹ تھے۔ انہیں عراق جنگ انکوائری کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس انکوائری کی مرکزی شخصیت وزیر اعظم ٹونی بلیر تھے۔ جو برطانیہ کو امریکہ کے ساتھ اس جنگ  میں لے گیے تھے۔ جس کے نتیجے میں دو سو سے زیادہ برطانیہ کے فوجی عراق میں مارے گیے تھے۔ جبکہ انکوائری کا دوسرا اہم موضوع صدام حسین تھے۔ جن کے بارے میں یہ بتایا جا رہا تھا کہ وہ دنیا کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ تھے۔ اور اس انکوائری کے ذریعے یہ دریافت کرنا تھا کہ واقعی کیا وہ اتنا بڑا خطرہ تھے؟ وزیر اعظم ٹونی بلیر نے عراق میں مہلک ہتھیاروں کے  خطروں سے  جس طرح خوفزدہ کیا تھا۔ اس انکوائری کے ذریعے اس کی صداقت اور جھوٹ کو عوام کے سامنے لانا تھا۔ یہ رپورٹ 2.6 ملین لفظوں میں ہے۔ اور تقریباً 8 سو صفحات کی رپورٹ ہے۔ وزیر اعظم ٹونی بلیر اور بش انتظامیہ کے سابق حکام  نے اس رپورٹ کو شائع کرنے کی مخالفت کی تھی۔ تاہم وزیر اعظم بلیر کے خطوط کے جواب میں صدر بش نے جو خط لکھے تھے انہیں شائع نہیں کیا گیا ہے۔
     عراق جنگ پر Chilcot رپورٹ میں ٹونی بلیر نے صدر بش کو جو خط لکھے تھے۔ اور جس طرح عراق پر حملہ کے سلسلے میں مشورے اور منصوبے تجویز کر رہے تھے۔ ان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عراق پر حملہ کے سلسلے میں دنوں کا Mind set تھا۔ انہیں عالمی راۓ عامہ کی کوئی پروا تھی اور نہ ہی انہیں عالمی قوانین کا احترام تھا۔ دونوں ہائی اسکول ذہن سے صدام حسین کے خلاف Adventurism  کرنے جا رہے تھے۔ اور اس کے لئے انہوں نے جنہیں استعمال کیا تھا ان کی عمریں بھی 19 سے 30 کے درمیان تھیں۔ جو ہائی اسکول اور کالج کی عمریں تھیں۔ وزیر اعظم ٹونی بلیر نے 28 جولائی 2002 میں صدر بش کے نام اپنے ایک ذاتی میمو میں لکھا تھا کہ "عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے ان سے جو کچھ بھی ہو گا وہ کریں گے۔" بلیر نے کہا کہ " صدام کو اقتدار سے ہٹانا ایک درست فیصلہ ہے۔" انہوں نے یہ مزید کہا کہ "اہم سوال یہ نہیں ہے کہ کب بلکہ کیسے۔" اس رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم بلیر اس وقت برطانوی عوام اور پارلیمنٹ کو یہ بتا رہے تھے کہ عراق کے خلاف جنگ کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

One Trillion Dollars Was Invested In The Iraq War And In Return Came Deaths, Human Misery, Turmoil, Chaos And Conflagration. 

Would Bush And Blair Invest Ten Million Dollars For Thousands In Return?
   
     وزیر اعظم بلیر صدر بش کو پھر یہ لکھتے ہیں کہ "میں جس طرح بھی ہوا آپ کا ساتھ دوں گا۔ لیکن یہ موقعہ مشکلات کا ذرا اکھڑ پنے سے جائزہ لینے کا ہے۔ اس پر منصوبہ بندی اور اسٹرٹیجی ابھی بہت کٹھن ہے۔ یہ کوئی کاسوو نہیں ہے۔ نہ ہی یہ افغانستان ہے۔ یہ خلیج کی جنگ بھی نہیں ہے۔" صدر بش اقوام متحدہ کے راستہ پر جانے کے لئے تیار نہیں تھے۔ لیکن پھر وزیر اعظم بلیر نے انہیں آمادہ کیا تھا کہ اس ایشو کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جانے سے یہ حمایت حاصل کرنے کا بہتر راستہ ہو گا۔ وزیر اعظم بلیر نے مشورہ دیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جانے سے وہ صدام حسین کو اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے انسپکٹروں کو بغیر کسی پیشگی شرط کے عراق میں جانے کا وقت دے سکتی ہے۔ اور ممکن ہے وہ اس میں پھنس جائیں گے۔ اور مقررہ وقت کی شرط پوری نہیں کر سکیں گے۔ اور اگر مقررہ وقت گزر جانے کے بعد وہ آتے ہیں تو ہم یہ ڈیل مسترد کر دیں گے۔ اور ہمیں اگر WMD کے بارے میں تمام ثبوت بھی دے دئیے جاتے ہیں تب بھی یہ اس کی ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی کوششیں سمجھا جاۓ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ القاعدہ کے ساتھ تعلق بھی جوڑ دیا جاۓ۔ یہ یہاں پر بہت موثر ہو گا۔" بلیر نے پھر بش کو دونوں ملکوں میں Media اور Communication War Room قائم کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے اعلامیہ جاری کرنے کے سلسلے میں ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی تجویز دی تھی۔ اور یہ کہ انٹرویو دینے میں احتیاط برتی جاۓ۔ اور صرف صدام کی شخصیت کو فوکس کیا جاۓ۔ وزیر اعظم بلیر نے کہا کہ ہمارا پیغام صرف یہ ہونا چاہیے کہ "وہ بد کار ہے۔ ہم اچھے ہیں۔ اسے شکست ہو رہی ہے اور ہم جیت رہے ہیں۔"
     بلیر اور بش کے درمیان عراق پر حملہ کی تیاری میں ان پیغامات کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ تاہم بلیر کے مشوروں کا بش نے کس طرح جواب دئیے تھے۔ انہیں شائع کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ لیکن بلیر جس طرح مشورے دے رہے تھے۔ ان سے بش کے جوابات کا بھی کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔ جو بلاشبہ بلیر کے خیالات سے مختلف نہیں ہوں گے۔ عراق کے بارے میں دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے بلیر جس طرح جھوٹ پھیلانے کے مشورے دے رہے تھے۔ بش کی ٹیم ان مشوروں پر عمل کر رہی تھی۔ لیکن بلیر پھر برطانیہ کے عوام اور دنیا سے اپنی ان تجویزوں کے بالکل برعکس باتیں کرتے تھے۔ کہ عراق کے خلاف ہمارا فوجی کاروائی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اور دنیا نے بھی ان کی باتوں پر یقین کیا تھا کیونکہ ان میں ایک برطانیہ کے وزیر اعظم تھے اور دوسرے امریکہ کے صدر تھے۔ جو اخلاقی قدروں کے علمبردار تھے۔ اور جہاں قانون کی حکمرانی مثالی تھی۔ لیکن پہلے یہ دنیا سے جھوٹ بولتے رہے کہ ان کے پاس یہ ٹھوس ثبوت ہیں کہ صدام مہلک ہتھیار بنا رہے تھے۔ اور عراق میں ان ہتھیاروں کے ڈھیر لگے ہیں۔ اور پھر عراق میں جب یہ ہتھیار کہیں نہیں ملے تھے۔ تو پھر یہ انٹیلی جنس کو الزام دینے لگے تھے کہ انٹیلی جنس نے انہیں غلط رپورٹیں دی تھیں۔ کیا 10 سال سے انٹیلی جنس انہیں عراق کے بارے میں یہ غلط رپورٹیں دے رہی تھی؟ کیونکہ عراق پر 10 سال سے انسانی تاریخ کی انتہائی وحشیانہ اقتصادی بندشیں بھی صرف اسی بنیاد پر لگائی گئی تھیں۔ اور ان بندشوں کے نتیجے میں عراق میں 5 لاکھ معصوم بچے پیدائش کے چند گھنٹوں بعد دم توڑ دیتے تھے۔
      حالانکہ تمام حقائق یہ گواہی دیتے ہیں کہ انٹیلی جنس نے جب انہیں یہ رپورٹ دی تھی کہ عراق میں مہلک ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ ہو گیا ہے۔ تو اسی روز ان کی فوجوں نے عراق پر چڑھائی کر دی تھی۔ اور یہ عراق کے شہروں بستیوں  گھروں سرکاری عمارتوں میں گھستی چلی گئی تھیں۔ اور انہوں نے عراق پر قبضہ کر لیا تھا۔ عراق کے تیل کی صنعت کو انہوں سب سے پہلے قومی ملکیت سے نجی شعبہ میں دے دیا تھا۔ اس کے بعد عراق کے صنعتی اور مالیاتی نظام کو انہوں نے عراقی عوام سے پوچھے بغیر فری مارکیٹ اکنامی میں بدل دیا تھا۔ کیا انہوں نے یہ فیصلہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تحت کیے تھے۔  لیکن جب تک انٹیلی جنس نے عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں انہیں گرین سگنل نہیں دیا تھا۔ اس وقت تک امریکہ اور برطانیہ فضا سے عراق پر بم برساتے رہے تھے۔  1998 میں صدر کلنٹن اور وزیر اعظم ٹونی بلیر نے تین ہفتہ عراق پر بمباری کی تھی۔
     واٹر گیٹ سکینڈل کے بعد عراق امریکہ کی تاریخ کا دوسرا بڑا سکینڈل تھا۔ کیونکہ یہ دونوں پارٹیوں کا مشترکہ سکینڈل تھا۔ اس لئے اسے سکینڈل تسلیم نہیں کیا تھا۔ اور انٹیلی جنس کو غلط رپورٹیں دینے کا الزام دے کر اپنے جھوٹ دھو دئیے تھے۔ لیکن کسی بھی صورت میں عراق پر اینگلو امریکہ کا حملہ غیر قانونی اور اخلاقی قدروں کے منافی تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل کوفی عنان نے عراق پر حملہ کو غیر قانونی کہا تھا۔ 1991 میں کویت سے عراقی فوجوں کے انخلا کے بعد سلامتی کونسل نے عراق کے بارے میں جتنی بھی قراردادیں منظور کی تھیں ان میں کہیں بھی بغداد میں فوجی حملہ کر کے حکومت تبدیل کرنے کا نہیں کہا گیا تھا۔ صدام حسین نے جو ایک ڈکٹیٹر تھے اگر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزیاں کی تھیں تو اینگلو امریکہ نے جن کی قدریں جمہوری تھیں اور جو قانون کی حکمرانی کے چمپین تھے۔ انہوں نے عالمی قانون کی خلاف ورزی اس طرح کی تھی کہ قانون جارحیت کو اپنا قانون بنا لیا تھا۔ اور اس قانون جارحیت کے تحت خود مختار ملکوں پر حملہ کر کے انہیں ناکام مملکتیں قرار دینا شروع کر دیا تھا۔ مارچ 2003 سے پہلے عراق ایک مملکت تھا۔ لیکن اپریل 2003 کے بعد سے عراق ایک فیل ریاست بن گیا ہے۔ 2003 سے عراق کے بارے میں اقوام متحدہ کی ہر سال رپورٹوں میں 20 سے 25 ہزار عراقیوں کے ہلاک ہونے کے اعداد و شمار دئیے جاتے ہیں۔ لیکن ٹونی بلیر اور جارج بش کا کہنا ہے کہ “Iraq is better off without Saddam Hussein” عراق میں روزانہ بموں کے دھماکے ہو رہے ہیں۔ انتشار اور فرقہ پرستی عراق کا نیا نظام بن گیا ہے۔ انسان جب پہلا جھوٹ بولتا ہے تو وہ اس جھوٹ کے Guilt کی وجہ سے دوسرا جھوٹ بولنے سے گریز کرتا ہے۔ لیکن عراق کا عدم استحکام جس طرح مشرق وسطی میں پھیل رہا ہے۔ اور صد ر بش کے انتہائی ذہن مشیر Karl Rove کا کہنا یہ ہے کہ “Saddam was a force for destabilization”          
Victims Of The Iraq War