Friday, May 29, 2020

Love for The Indian Government’s Actions in Kashmir, Hates China’s Actions in Hong Kong, Rewards India And Punishes China


  Love for The Indian Government’s Actions in Kashmir, Hates China’s Actions in Hong Kong, Rewards India And Punishes China

Hong Kong National Security Law is China’s Patriot Act, rising extremism in Hong Kong in the name of freedom, and Democracy is just politics. The world has seen these politics in Egypt, Syria, Libya, and in Iraq
مجیب خان
Hong Kong, Vandalism has no place in freedom and Democracy

 Out of control protesters in Hong Kong 

Freedom movements in occupied Kashmir and democratic actions of the Indian government


Indian  army's brutality against unarmed people in occupied Kashmir



  تائیوان میں لوگ  اگر سڑکوں پر آ جائیں اور حکومت سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ امریکہ سے ہتھیار خریدنے کا معاہدہ منسوخ کرے اور چین کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات فروغ دینے کو اہمیت دے۔ حکومت ان کے یہ مطالبے ماننے کو تیار نہیں ہے۔ مظاہرین Extreme ہوتے جا رہے ہیں۔ اور تائیوان بھی ہانگ کانگ بن رہا ہے۔ تائیوان کی حکومت ان کے مطالبے ماننے کو تیار نہیں ہے۔ مظاہرے کرنے والوں کے خلاف حکومت نے سخت کاروائی شروع کر دی ہے۔ اس صورت حال پر سیکرٹیری آف اسٹیٹ اور پریذیڈنٹ کا رد عمل کیا ہو گا؟ امریکہ کی کیا پالیسی ہو گی؟ تائیوان کے عوام کی جمہوری آواز کو دبانے میں کیا حکومت کے غیر جمہوری اقدامات کو سپورٹ کیا جاۓ گا؟ ہانگ کانگ میں 10ماہ سے پر تشدد مظاہرے ہو رہے ہیں۔ امن و امان کی صورت حال تہس نہس ہو گئی ہے۔ املاک اور کاروبار تباہ ہو رہے ہیں۔ شہریوں کی زندگی روزانہ کے فسادات سے اجیرن ہو گئی ہے۔ جن حکومتوں کے بیجنگ سے اختلافات ہو گیے ہیں۔ وہ ہانگ کانگ کے حالات کو اپنے ایجنڈہ میں استحصال کر رہے ہیں۔ بیجنگ کے ساتھ ان کے جو مطالبے ہیں۔ وہ ہانگ کانگ میں فسادات کی ہواؤں کا دباؤ بڑھا کر بیجنگ سے انہیں منو انا  چاہتے ہیں۔ جمہوریت اور آزادی کے بارے میں اگر یہ مخلص ہوتے تو مصر میں آج آزادی اور جمہوریت کی روشنیاں ہر طرف نظر آتی۔ جن کی تاریخ جمہوریت اور آزادی سبوتاژ کرنے کی ہے۔ ان کی ہانگ کانگ میں آزادی اور جمہوریت کی حمایت میں صرف سیاست ہے۔
  چین کی حکومت نے ہانگ کانگ میں شر پسندوں کے ساتھ بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ طاقت کے بھر پور استعمال سے گریز کیا ہے۔ ہانگ کانگ کی صورت حال سے فوج کو دور رکھا ہے۔ ہانگ کانگ کی مقامی انتظامیہ اور پولیس Law and Order بحال کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، سنگاپو میں اگر ہانگ کانگ جیسے حالات کا سامنا ہو گا تو وہ بھی یہی کریں گے جو چین کی حکومت کر رہی ہے۔ ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو Carrie Lam نے گزشتہ ستمبر میں اس بل کو واپس لے لیا تھا۔ جو اس تحریک کا سبب تھا۔ جس میں مشتبہ مطلوب ملزم اور خطہ میں بھگوڑے مجرم حوالے کرنے کا کہا گیا تھا۔ چین اور تائیوان بھی اس بل میں شامل تھے۔ بل کا نفاذ ہونے سے لوگوں کو یہ تشویش ہو رہی تھی کہ ہاںگ کانگ کے شہری اور یہاں دورے پر آنے والے بھی اس بل کے دائرہ اختیار میں ہوں گے۔ اور یہ بل چین کا نظام قانون سمجھا گیا تھا۔ تاہم ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے یہ بل واپس لے لیا تھا۔ لیکن احتجاجی تحریک کے لیڈروں نے تمام گرفتار مظاہرین رہا کرنے، پولیس کی زیادتیوں اور اس کی طرز کارکردگی کی تحقیقات کرانے، اور احتجاج کرنے والوں کے خلاف سرکاری بیانات واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے ان سے پہلے مظاہرے ختم کرنے کا کہا تھا۔ اور اس کے بعد ان کے مطالبوں پر غور کرنے کہا تھا۔
 ماضی میں کمیونسٹ حکومتیں احتجاجی تحریکیں بھر پور طاقت سے کچل دیتی تھیں۔ لیکن چین کی حکومت نے ہانگ کانگ میں اس طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ بلکہ ہانگ کانگ کی ایڈمنسٹریشن کے ساتھ مل کر کام کرنے کو اہمیت دی ہے۔ صورت حال کو صبر و تحمل کی حدود میں رکھا ہے۔ اس لیے 10 ماہ سے جاری مظاہروں میں صرف 2افراد مرے ہیں۔ جس میں ایک پولیس کا اہل کار تھا جو مظاہرہ کرنے والوں کے پتھر سے ہلاک ہوا تھا۔ چین ہانگ کانگ کو One country two system میں رکھنا چاہتا ہے۔ اور یہ ہانگ کانگ کے نظام میں تبدیلی نہیں چاہتا ہے۔ اور یہ اس کے مفاد میں ہے۔ ہانگ کانگ ایک Develop Economic Center ہے۔ اور چین اسے برقرار ر کھے گا۔ ہانگ کانگ کی اس حیثیت سے چین کے جو علاقہ اس کے قریب ہیں انہیں اقتصادی ترقی میں مدد ملے گی۔ ہانگ کانگ، Shanghai, Guangzhou, Wuhan اور بعض دوسرے بڑے اقتصادی Region دینا سے تجارت کے سینٹر ز ہوں گے۔ Hong Kong Security Law دراصل Patriot Act کی Copy ہے۔ ہانگ کانگ میں Extremism بڑھ رہا ہے۔  بیرونی عناصر Extremists کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ چنانچہ اسے طاقت کے ذریعے روکنے کی بجاۓ قانونی طریقوں سے ختم کرنے کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ ہانگ کانگ کی انتظامیہ کو عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ عوام 10ماہ سے Extremists کے ہنگاموں اور توڑ پھوڑ کے اثرات معیشت پر محسوس کر رہے ہیں۔ تجارتی اور کاروباری طبقہ میں نام نہاد آزادی تحریک کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔ عوام ہانگ کانگ کا امن بحال کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔
  کمیونسٹ چین نے ہانگ کانگ میں ابھی تک ایسے Ruthless فیصلے اور اقدامات نہیں کیے ہیں۔ جو ایک جمہوری بھارت میں حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں کیے ہیں۔ اور کشمیریوں کو ان کی آزادی اور حق خود مختاری سے محروم کر دیا ہے۔ ان کی مرضی کے برخلاف بھارت کا نظام کشمیریوں پر مسلط کر دیا ہے۔ 5لاکھ بھارتی فوج کا کشمیر پر قبضہ ہے۔ کشمیری اپنے گھر کا دروازہ کھولتے ہیں بھارتی فوجی مشین گن کے ساتھ انہیں کھڑا نظر آتا ہے۔ کشمیری تمام بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دئیے گیے ہیں۔ نشریاتی اداروں پر بندشیں لگا دی ہیں۔ ا نٹر نیٹ موبائل فون بند کر دئیے ہیں۔ کشمیریوں کی منتخب اسمبلی ختم کر دی ہے۔ کشمیری لیڈروں کو نظر بند کر دیا ہے۔ مودی نے اپنا آدمی کشمیر میں گورنر بنا کر بیٹھا دیا ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک ہانگ گانگ سے متعلق عالمی سمجھوتوں کی خلاف ورزی کرنے پر چین کے خلاف کاروائی کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن بھارت میں مودی حکومت کی کشمیر سے متعلق تمام عالمی سمجھوتوں، اقوام متحدہ کی قرار دادوں، بھارت کے آئین، کشمیریوں کو حق خود مختاری دینے کے عہد کی خلاف ورزی، بھارت کے اتنی زیادہ خلاف ورزیاں کرنے پر امریکہ اور مغربی ممالک بھارت کو چین کے مقابلے پر ایشیا کی بڑی طاقت بنانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت اور ظلم کی رپورٹیں انسانی حقوق کی تنظیموں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹوں میں ان کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ ہانگ کانگ میں کم از کم ایسی مثالیں نہیں ہیں۔ کمیونسٹ چین نے ہانگ کانگ پر اپنا تسلط قائم نہیں کیا۔ چین کی کمیونسٹ فوجیں ہانگ کانگ میں لوگوں کے گھروں میں داخل نہیں ہوئی ہیں۔ چین نے ہانگ کانگ کی معیشت تباہ نہیں کی ہے۔ ہانگ کانگ کی دولت نکال کر بیجنگ نہیں لے گیے ہیں۔ چین نے ہانگ کانگ کو One country two system میں رکھا ہے۔ اور چین اسے برقرار رکھنے میں سنجیدہ ہے۔
  امریکہ کا دنیا کی واحد عالمی طاقت کا مقام با ظاہر اختتام پر پہنچ رہا ہے۔ اس لیے ٹرمپ انتظامیہ بلکہ یہ سلسلہ بش انتظامیہ اور پھر ا و با مہ میں بھی تھا کہ عالمی قوانین اور عالمی سمجھوتوں کو نظر انداز کر دیا جاتا تھا۔ اور صرف امریکہ کی سیکورٹی کے مفاد میں عالمی فیصلے ہونے لگے تھے۔ خواہ یہ دنیا کے 192 ملکوں کے مفاد میں ہوتے تھے یا نہیں۔ بھارت کو  معلوم ہے کہ اسے Backward سے Forward میں آنے میں 21ویں صدی گزر جاۓ گی۔ اس لیے اسے بھی عالمی سمجھوتوں اور قوانین کی پرواہ نہیں ہے۔ چین عالمی طاقت کے Status کے قریب  پہنچ گیا ہے۔ اس لیے چین عالمی سمجھوتوں اور قوانین کو اہمیت دے گا۔ ان پر عملدرامد بھی کرے گا۔ اور ایک ذمہ دار ، Law abiding power ہونے کی مثال قائم کرے گا۔ چین صرف اسی صورت میں دوسری طاقتوں سے منفرد ہو گا۔                      

Friday, May 22, 2020

Trump Administration’s China Policy: Whining, Blaming, Bluffing, Complaining, Demonizing and Talking About Good Trade Relations with China


  Trump Administration’s China Policy: Whining, Blaming, Bluffing, Complaining, Demonizing and Talking About Good Trade Relations with China


Would Mr. Navarro tell the American people how much Americans businesses benefited from economic relations with China and how many Americans became new millionaires in the last thirty years?

مجیب خان


US President Donald Trump and China's President Xi Jinping during the G20 Summit in Osaka, Japan


  ٹرمپ انتظامیہ Coronavirus پر غلط فہمی اور تضاد میں تھی۔ ایک طرف ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ' چین نے ہمیں Coronavirus کے انتہائی خطرناک ہونے کے بارے میں ابتدا میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ پھر دوسری طرف پریذیڈنٹ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتہ کہا کہ 'انہیں 4 بہترین اور اعلی ماہرین نے بتایا تھا کہ 'یہ Virus ادھر [امریکہ] نہیں آۓ گا۔ ادھر [چین] ہی رہے گا۔' ماہرین کا یہ مشورہ سننے کے بعد پریذیڈنٹ ٹرمپ شاید چین میں اس Virus کے نتائج دیکھنے کا انتظار کرتے رہے۔ اور اس غلط فہمی میں رہے کہ 'یہ Virus ادھر ہی رہے گا اور ادھر نہیں آۓ گا۔' پھر یہ Virus جب ادھر سے ادھر[امریکہ] آ گیا تو پریذیڈنٹ ٹرمپ و ر لڈ ہیلتھ ارگنا ئزیشن  [W.H.O] کو الزام دینے لگے کہ یہ چین اور W.H.O کی ملی بھگت سے ادھر سے ادھر آیا ہے۔ اور W.H.O نے یہ ہمیں نہیں بتایا تھا۔ تاہم W.H.O کے حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس Virus کہ انتہائی خطرناک ہونے کے بارے میں امریکہ یورپ اور تمام ملکوں کو آگاہ کر دیا تھا۔ اب W.H.O کو الزام دینے اور اس پر چین کا Puppet ہونے کا لیبل لگانے سے پہلے پریذیڈنٹ ٹرمپ کو ان 4 اعلی ماہرین سے پوچھنا چاہیے تھا کہ انہوں نے یہ کس بنیاد پر کہا تھا کہ 'یہ Virus ادھر ہی رہے گا اور ادھر نہیں آۓ گا۔' اس لیے امریکہ میں Coronavirus کو روکنے کے سلسلے میں پہلے سے کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی۔ سب کی توجہ چین میں اس Virus کے نتائج دیکھنے پر تھی۔ امریکہ کی چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے نتیجہ میں ایشیائی ملکوں میں یہ Conspiracy theory گردش کر رہی ہے کہ یہ Virus جب چین میں پھیلنے لگتا اور چین کی حکومت کے لیے اسے کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا تو اس صورت میں پھر غیر ملکی کمپنیاں اور سرمایہ چین سے جانے پر مجبور ہو جاتے۔ یہ Virus چین کی اقتصادی ترقی تباہ کر دیتا۔ اور چین کا دنیا کی اول درجہ کی اقتصادی طاقت  بننے کا خواب شاید کبھی پورا نہیں ہوتا۔ لیکن چین کی قیادت نے جس طرح اس Virus کو چین میں پھیلنے سے روکا ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ چین کی حکومت کو ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہونے کا شاید پہلے سے خدشہ تھا۔ اور حکومت اس کے لیے تیار تھی۔ Virus کو Wuhan میں روک دیا تھا۔ چین ایک بہت بڑی تباہی سے بچ گیا تھا۔
 حیرت کی بات یہ تھی کہ Coronavirus امریکہ پہنچنے سے پہلے Qom ایران آیا تھا۔ جو آیت اللہ ؤں کی تعلیم و تربیت کا مرکزی شہر تھا۔ یہ Virus تہران سے پہلے یہاں کیسے آیا تھا؟ یہاں کئی آیت اللہ Coronavirus سے مر گیے تھے۔ Qom سے یہ Virus پھر ایران کے دوسرے شہروں میں آیا تھا۔ تحقیقات یہ ہونا چاہیے کہ Virus تہران سے پہلے Qom کیسے آیا تھا؟ آیت اللہ کبھی چین نہیں گیے تھے۔ چین سے کبھی کوئی Qom نہیں آیا تھا۔ لیکن Coronavirus خلیج میں سب سے پہلے Qom ایران میں آیا تھا۔ 5ہزار ایرانی Coronavirus سے مر گیے تھے۔ جبکہ امریکہ کی غیر انسانی اقتصادی بندشیں علیحدہ لوگوں کو مار رہی تھیں۔ ایران نے Virusپھیلانے کا الزام کسی کو نہیں دیا تھا۔ لیکن امریکہ نے چین اور W.H.O کو یہ الزام دیا ہے کہ انہوں نے Virus کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنے میں غفلت برتی تھی۔ W.H.O ایک عالمی ادارہ ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کا ادارہ نہیں ہے۔ اس ادارے میں دنیا بھر کے لوگ کام کرتے ہیں۔ جن میں امریکی بھی شامل ہیں۔ اگر W.H.O نے چین کی وجہ سے Virus کے بارے میں دنیا کو نہیں بتایا تھا۔ تو اس میں کام کرنے والے امریکہ برطانیہ فرانس وغیرہ کے شہری یہ ضرور اپنی حکومتوں کو بتاتے۔ لیکن اس ادارے میں کام کرنے والوں نے ادارے کی کارکردگی کو Defend کیا ہے۔
 19سال سے دنیا کو خطرناک کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں سے انسانیت کو لاحق خطروں کے بارے میں بتایا جا رہا تھا۔ امریکہ نے ان خطروں کا خاتمہ کرنے کے لیے جنگیں لڑی تھیں۔ لیکن آج دنیا ایک خطرناک  Biological virus میں زندگی اور موت کی کشماکش میں ہے۔ غریب ملکوں میں Coronavirus سے زیادہ بھوک اور افلاس سے اموات ہونے کے خطرے بڑھتے جا رہے ہیں۔ دنیا کی معیشت پر تالے پڑنے سے غریب ملک انتہائی شدید اقتصادی بحران میں آ گیے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کو پریشانی یہ ہے کہ Virus چین سے آیا ہے۔ اور دنیا ابھی تک یہ تسلیم نہیں کر رہی ہے اور اس کی تحقیقات ہونے کی حمایت بھی نہیں کر رہی ہے۔ جبکہ چین کو غریب ملکوں میں اقتصادی سرگرمیاں بحال کرنے کی فکر ہے۔ تاکہ ان ملکوں میں لوگوں کو Coronavirus اور بھوک و افلاس دونوں سے بچایا جاۓ۔ اس مشن میں چین W.H.O کے ساتھ بھر پور تعاون کر رہا ہے۔ اور اس ادارے میں شامل ملکوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ چین نے W.H.O کو 2 بلین ڈالر دئیے ہیں۔ امریکہ نے اس ادارے کی ادائیگی بند کر دی ہے۔ جنیوا میں W.H.O کے سالانہ و زار تی اجلاس میں 100 سے زیادہ ملکوں نے اس ادارے کو سراہا یا ہے۔ اس ادارے کے بارے میں پریذیڈنٹ ٹرمپ کے موقف کو کوئی سپورٹ نہیں ملی ہے۔ سابقہ دو انتظامیہ کی طرح ٹرمپ انتظامیہ میں بھی کچھ Nonsense head advisors جو ایک طرف چین سے کشیدگی بڑھانے اور مسلسل تصادم کا رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اور دوسری طرف عالمی اداروں سے قطع تعلق کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ ان میں پریذیڈنٹ ٹرمپ کی پارٹی کے بعض سینیٹر ز بھی شامل ہیں۔ جن کا 20 سال سے امریکہ کو دنیا میں Confrontation کی طرف لے جانے کا Behavior سے سب با خوبی واقف ہیں۔ ایسے Nonsense head advisors سے امریکہ کو دور رکھنے لیے امریکی عوام نے Donald J. Trump کو منتخب کیا تھا۔ لیکن یہ المیہ ہے کہ پریذیڈنٹ ان ہی Advisors کے راستوں پر چلے گیے ہیں۔
 30سال میں چین اور امریکہ کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات نے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے میں ضم کر دیا ہے۔ امریکہ کی اقتصادی خوشحالی  چین کی اقتصادی ترقی سے جوڑ گئی ہے۔ چین کی اقتصادی ترقی کے بغیر امریکہ کی اقتصادی خوشحالی ممکن نہیں ہے۔ امریکہ کی اقتصادی خوشحالی چین کی اقتصادی ترقی ہے۔ امریکہ میں China hawk اسے امریکہ کی معیشت کے لیے ایک خطرہ کہتے ہیں۔ امریکہ کا یہ ایک کلچر ہے کہ جب کسی ملک یا اس ملک کی قیادت سے امریکہ کو اختلاف ہو جاتا ہے تو اس ملک یا قیادت کے خلاف برائیوں کے Gutter کھل جاتے ہیں۔ 24/7 اس کی برائیاں بیان کرنے کی مہم شروع ہو جاتی ہے۔ چین کے ساتھ 30سال میں امریکہ کے اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے جو فائدے ہیں۔ ان کی پریذیڈنٹ ٹرمپ بات کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے ٹریڈ مشیر Peter Navarro اعتراف کرتے ہیں۔ یہ امریکہ کے Great ہونے کے ثبوت نہیں ہیں۔ حالانکہ Billion Dollar Walmart Empire چین کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہے۔ Amazon کو صرف چند سالوں میں Billion Dollar Empire کس نے بنایا ہے؟ Peter Navarro ٹی وی کیمروں کے سامنے کھڑے ہو کر امریکی عوام کو یہ نہیں بتاتے ہیں کہ چین کے ساتھ تجارتی تعلقات سے امریکہ میں کتنے نئے Millionaire بن گیے ہیں۔ Apple company امریکہ کی پہلی Trillion-Dollar  کمپنی چین کی 1.2 بلین لوگوں کی مارکیٹ میں بنی ہے۔ جو کمپنیاں امریکہ میں خسارے میں تھیں وہ چین میں منافع میں ہیں۔ چین نے امریکی کمپنیوں کو زبردست منافع دیا ہے۔ اور امریکی Consumers کو Purchasing power دی ہے۔ Nike shoes جو چین میں 10ڈالر میں بنتے ہیں۔ امریکہ میں وہ 190-180 ڈالر میں خریدے جاتے ہیں۔ President Trump اور Peter Navarro امریکی کمپنی Nike کے اس Huge Profit کی بات نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ Nike کو Tax break دیا جاتا ہے۔ اور اس Tax break کو چین سے وصول کرنے کے لیے Trade war شروع کی ہے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ امریکی عوام کو صرف یہ بتاتے ہیں کہ چین نے امریکہ سے ٹریڈ میں 500بلین ڈالر بناۓ تھے۔
 تائیوان چین سے کبھی جنگ نہیں کرے گا۔ اور نہ ہی چین تائیوان سے جنگ کرے گا۔ تائیوان کے صنعت کاروں نے چین میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ اور چین کی کمپنیوں نے بھی تائیوان میں سرمایہ کاری ہے۔ تائیوان چین کا چوتھا بڑا ٹریڈ نگ پارٹنر ہے۔ چین اور تائیوان کے سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں میں گہرے تعلقات ہیں۔ اور چین کے لیے یہ بہت اہم ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تائیوان میں چین مخالف حکومت ہے۔ اس لیے چین نے تائیوان کے حالیہ انتخاب میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ چین نے 40سال میں تائیوان کی اقتصادی ترقی کو برقرار رکھا ہے۔ چین اور تائیوان کے عوام میں رابط بڑھاۓ ہیں۔ ہزاروں تائیوانی چین جاتے ہیں۔ اسی طرح چین سے بھی لوگ تائیوان جاتے ہیں۔ People to People Relations آج کی دنیا میں سب سے بہترین سفارت کاری ہے۔ امریکہ کو Venezuela میں Maduro government پسند نہیں ہے۔ امریکہ نے Venezuela پر اقتصادی بندشیں لگا کر لوگوں کو غریب اور بیمار کر دیا ہے۔ ایران پر اقتصادی بندشیں لگا کر ایرانی عوام کے لیے اذیتیں پیدا کر دی ہیں۔ عراق، شام لیبیا تباہ کر دئیے ہیں۔ تائیوان کے ساتھ چین نے ایسا نہیں کیا ہے۔ تائیوان کے لوگوں کو غیر انسانی بندشیں لگا کر اذیتیں نہیں دی ہیں۔ نہ ہی ان کی معیشت تباہ کی ہے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ کہتے ہیں امریکہ نے مڈل ایسٹ میں 7ٹیریلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ لیکن امریکی عوام کو یہ نہیں بتاتے ہیں کہ مڈل ایسٹ میں کتنے ٹیریلین کے امریکہ نے ہتھیار فروخت کیے ہیں۔                                                                                                                                                              

Friday, May 15, 2020

How Will The World Do Business With Prime Minister Benjamin Netanyahu, Who Is Indicted In A Criminal Corruption Case?


How Will The World Do Business With Prime Minister Benjamin Netanyahu, Who Is Indicted In A Criminal Corruption Case? 

Israel has no choice in the absence of peace talks but to annex a large part of the West Bank. Palestinians have no choice but to throw rocks at the Israeli soldiers.

مجیب خان
Secretary of State Mike Pompeo in Israel, with Prime Minister Benjamin Netanyahu

Secretary of State Mike Pompeo and Blue and white party's leader Benny Gantz

Israeli settlements as Bethlehem is seen in the background Israeli occupied West Bank  

Israeli army demolishes Palestinian homes 

Secretary of State Mike Pompeo



  اسرائیلی جمہوریت میں یہ ایک نئی مثال قائم کی جا رہی ہے کہ Criminal corruption میں Indicted وزیر اعظم تین مرتبہ انتخابات میں اکثریت نہیں ملنے کے باوجود ایک مخلوط حکومت کے وزیر اعظم بن گیے ہیں۔ اسرائیل کی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ 'ہاں Indicted وزیر اعظم نتھن یا ہو وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ Criminal corruption کے الزامات میں Indictment عدالتی کاروائی کو  وزیر اعظم نتھن یا ہو نے Manipulate کیا تھا۔ ججوں کو گھر بھیج دیا۔ جو ان کے خلاف کیس میں Indictment  کی کاروائی کر رہے تھے۔ Coronavirus نے 2سو سے زیادہ اسرائیلی مر گیے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم نتھن یا ہو کو Coronavirus نے ایک نئی سیاسی زندگی دی ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے اسرائیل میں مکمل Lockdown کا اعلان کر دیا۔ اور عدالتوں میں بھی تالے پڑ گیے تھے۔ اسرائیل کی تاریخ میں نتھن یا ہو ایک دہائی وزیر اعظم رہے تھے۔ لیکن مارچ میں تیسری مرتبہ بھی انتخاب میں نتھن یا ہو اتنی نشستیں حاصل نہیں کر سکے تھے کہ وہ دوسری پارٹیوں کی مدد کے بغیر اپنی حکومت بنا سکتے تھے۔ ایک دہائی وزیر اعظم نتھن یا ہو نے سخت گیر یہودی مذہبی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا کر حکومت کی تھی۔ لیبر پارٹی اسرائیل کے سیاسی منظر سے غائب ہو گئی ہے۔ لبرل پارٹی کا وجود نہیں ہے۔ اعتدال پسند ہیں لیکن سیاست کے بغیر ہیں۔ سابق اسرائیلی جنرل Benny Gantz کی نئی Blue and white موڈ ریٹ پارٹی ہے۔ 3 انتخابات میں 3 مرتبہ دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ لیکن یہ بھی اپنی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس سیاسی بحران کا حل ایک مخلوط حکومت کا قیام یا چوتھے انتخاب تھا۔ اسرائیل میں پہلی مرتبہ فلسطینیوں نے جو اسرائیل کے شہری ہیں تیسرے انتخاب میں 15 نشستیں حاصل کی ہیں اور تیسری بڑی پارٹی بن کر سامنے آۓ ہیں۔ Blue and white پارٹی کا فلسطینیوں کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کا پروگرام تھا۔ لیکن ایک سخت گیر نظریاتی یہودی پرست نتھن یا ہو نے اس کی سخت مخالفت کی تھی کہ فلسطینیوں کے ہاتھوں پر یہودیوں کو ہلاک کرنے کا خون تھا۔ یہ فلسطینی اسرائیل کے شہری تھے۔ اسرائیل میں پیدا ہوۓ تھے۔ جبکہ خود وزیر اعظم نتھن یا ہو کے ہاتھوں پر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بچوں، عورتوں اور مردوں کو ہلاک کرنے کا خون تھا۔ اسرائیل کے شہری فلسطینیوں نے نتھن یا ہو کی اس Garbage سیاست سے اپنے آپ کو دور رکھا تھا۔ لیکوڈ اور Blue and white دونوں پارٹیوں کو یقین تھا کہ اگر وہ چوتھے انتخاب کے راستے پر جاتے تو اس کے نتائج بھی تین انتخابات سے زیادہ مختلف نہیں ہوتے۔ اس لیے دونوں پارٹیوں کے سامنے صرف ایک ہی راستہ تھا۔ اور دونوں نے مخلوط حکومت بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ اسرائیل کے ایک سابق جنرل نے کہا کہ چوتھے انتخاب قبول ہیں لیکن نتھن یا ہو کا وزیر اعظم بننا قبول نہیں ہے۔
  جن اسرائیلیوں نے  Benny Gantz کی پارٹی کو ووٹ دئیے تھے۔ انہوں نے پارٹی کے نتھن یا ہو کے ساتھ حکومت بنانے کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ اور اس فیصلے کے خلاف اسرائیل میں مظاہرے کیے تھے۔ لیکن Coronavirus کی وجہ سے اسرائیل میں Lockdown ہو گیا۔ اسرائیلی صدر نے دونوں پارٹیوں کو حکومت بنانے کے لیے جو وقت دیا تھا۔ وہ اب قریب آ گیا تھا۔ اسرائیلی صدر چوتھے انتخاب کا اعلان کرنے والے تھے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو اور Benny Gantz میں مخلوط حکومت بنانے کا معاہدہ ہو گیا۔ معاہدے کے تحت پہلے 18 ماہ نتھن یا ہو وزیر اعظم ہوں گے۔ اور پھر Benny Gantz 18ماہ وزیر اعظم ہوں گے۔ آئندہ ہفتہ مخلوط حکومت حلف لے گی۔ نتھن یا ہو ایک بار پھر وزیر اعظم کی کرسی پر ہوں گے۔ Judges عدالت کی کرسیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو کے خلاف Criminal corruption کے کیس اور Indictment عدالت کی فائلوں میں رہیں گے۔ اسرائیلی عوام Lockdown ہیں۔ کیونکہ Coronavirus ان کے شہروں میں آ گیا ہے۔ اب یہ فیصلہ کون کرے گا کہ اسرائیل کی Fake جمہوریت لیڈروں کو Corrupt کر رہی ہے یا اسرائیلی لیڈر جمہوریت کو Corrupt کر رہے ہیں؟
  اسرائیل کی سپریم کورٹ کے ججوں نے اسرائیل میں جمہوریت کو صاف ستھرا بنانے کے حق میں فیصلہ دینے کے بجاۓ Criminal corruption میں Indicted لیڈر کو وزیر اعظم ہونے کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ دنیا اب ایک ایسے لیڈر سے کیسے Deal کرے گی۔ جبکہ امریکہ اور یورپ  Venezuela میں President Maduro حکومت تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ جسے عوام نے ووٹ دئیے ہیں۔ کانگریس اور سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا ریپبلیکن پارٹی کے پریذیڈنٹ کو امریکہ کا پریذیڈنٹ تسلیم نہیں کرے۔ بحر حال امریکہ اور یورپ کو اسرائیل میں Criminal corruption میں Indicted وزیر اعظم قبول ہے۔ سوال یہ ہے کہ Benny Gantz کو پہلے وزیر اعظم کیوں نہیں بنایا گیا ہے؟ اور اس دوران نتھن یا ہو ایک عدالتی عمل کے ذریعہ ان کے اوپر جو الزامات تھے انہیں غلط ثابت کرتے اور پھر مخلوط حکومت میں معاہدے کے مطابق Benny Gantz کے وزیر اعظم کے عہدے پر 18 ماہ مکمل ہونے کے بعد نتھن یا ہو وزیر اعظم  بن جاتے۔ دنیا بھی پھر یہ دیکھتی کے عرب ڈکٹیٹروں کے جزیرہ میں اسرائیل واقعی ایک Genuine Democratic country ہے۔ لیکن سارے عرب ڈکٹیٹر یہ دیکھ کر خوش ہوۓ ہوں گے کہ نتھن یا ہو پھر وزیر اعظم بن گیے ہیں۔ یہ دیکھ کر شہزادہ محمد بن سلمان کو اپنا مستقبل بھی روشن نظر آ رہا ہو گا۔
 وزیر اعظم کا حلف لینے سے پہلے نتھن یا ہو سے سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے یروشلم میں ملاقات کی ہے۔ ایک طرح سے یہ ملاقات نتھن یا ہو کے لیے انہیں وزیر اعظم کے عہدہ پر امریکہ کا Endorsement تھا۔ اس موقع پر سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے کہا “You are a great partner, you share information- unlike some countries that obfuscate and hide that information.”
چین نے عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں امریکہ کو ‘very genuine information’ دی تھیں۔ اور امریکہ کو عراق کے خلاف فوجی کاروائی سے روکا تھا۔ اور اس کے خوفناک نتائج سے بھی آ گاہ کیا تھا۔ لیکن امریکہ نے اپنے ‘Great partner Israel’ کی “Information” اور ‘Advise’  پر عمل کیا تھا۔ اب ٹرمپ انتظامیہ ایران کے ایٹمی معاہدے پر اپنے ‘Great partner Israel’ کے ‘Nix it or Fix it’ حکم میں اٹک گئی ہے۔ دنیا امریکہ کو ‘Information’ دے کر اب اپنا وقت برباد کرنا نہیں چاہتی ہے۔ آخر میں امریکہ نے اپنے ‘Great partner Israel’ کی ‘information’ پر عمل کرنا ہے۔ جس سے اسرائیل کہہ گا امریکہ اس سے بات کرے گا۔ اسرائیل نے امریکہ سے جب کہا کہ PLO سے کوئی امن مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔ کیونکہ یہ دہشت گرد تنظیم ہے۔ امریکہ نے PLO کے ساتھ تمام رابطہ ختم کر دئیے واشنگٹن میں ان کا سفارتی آفس بند کر دیا۔ امریکہ سے انہیں نکال دیا۔ اب اسرائیل امریکہ سے کہہ رہا کہ وہ PLO پر اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔ امریکہ نے PLO پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ اسرائیل سے کہا ہے کہ اگر PLO مذاکرات نہیں کر رہی ہے ان کے علاقوں پر قبضہ کر لے۔ امریکہ کی 70سال سے مڈل ایسٹ میں فیل پالیسیوں نے مڈل ایسٹ کی ہر حکومت کو فیل کیا ہے۔ ہر نظام فیل ہے۔ مڈل ایسٹ کی معیشت فیل ہے۔ امن فیل ہے۔ جنگیں فیل ہیں۔ دہشت گردی فیل ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ فیل ہے۔ اسرائیل میں جمہوریت فیل ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ Criminal Corruption indicted نتھن یا ہو وزیر اعظم بن گیے ہیں۔ امریکہ میں اسے اسرائیلی جمہوریت کی ایک بڑی کامیابی دیکھا جاتا ہے۔