Wednesday, November 30, 2016

Fidel Castro: A Great Leader Of Our Time

Fidel Castro: A Great Leader Of Our Time
 He Was Blocked And Sanctioned And Could Not Change, But He Has Changed The World 

مجیب خان
Cuban Revolutionary Leader Fidel Castro

Castro and Cuba played an outsized role in helping to end apartheid in South Africa

Castro gives a speech in front of the United Nations

     فیڈل کا سترو ایک عظیم لیڈر دنیا سے چلا گیا۔ دنیا میں کچھ لوگ اسے عظیم لیڈر مانے یا نہیں لیکن تاریخ نے فیڈل کا سترو کو ایک عظیم نوبل لیڈر کا اعزاز دے دیا ہے۔ کا سترو نے کیوبا میں ایک کرپٹ حکومت کے خلاف مہم کا آغاز کیا تھا۔ پھر یہ کیوبا کا نظام تبدیل کرنے کی مہم بن گئی تھی۔ آخر میں فیڈل کا سترو اس مہم کے ایک انقلابی رہنما بن گیے تھے۔ اور کیوبا میں انقلابی تبدیلیاں کا سترو کی زندگی کا مشن بن گئی تھیں ۔ کا سترو کے انقلاب نے کیوبا کو بدل تھا۔ کیوبا کے لوگوں کی سوچ بدل دی تھی۔ کیوبا کو استحصا لیوں اور بدعنوانوں کی سیاست سے آزاد کرایا تھا۔ کا سترو نے 32 سال کی عمر میں کیوبا میں عوامی انقلاب کو کامیاب بنایا تھا۔ اور یہ  کا سترو کی ایک بڑی تاریخی فتح تھی۔ ترقی پذیر دنیا کے ملکوں میں بڑی عمروں کے لیڈروں نے عوامی انقلاب کے نعرے لگاۓ تھے۔ استحصالی نظام بدلنے کی باتیں کی تھیں۔ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عہد کرتے تھے۔ لیکن وہ یا تو ناکام ہو جاتے تھے۔ یا پھر اقتدار میں آنے کے بعد استحصالی نظام کا حصہ بن کر کرپشن کی جڑوں میں اتر جاتے تھے۔ اور اس طرح ملک میں لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانوں کا نظام جاری رہتا تھا۔
     فیڈل کا سترو 32 سال کی عمر میں اقتدار میں آۓ تھے۔ 50 سال کیوبا میں حکومت کی تھی۔ تین نسلیں کاسترو کے دور اقتدار میں پیدا ہوئی ہیں۔ کا سترو کے نظام میں ان کی پرورش ہوئی ہے۔ کا سترو نے انہیں ایجوکیٹ کیا ہے۔ کیوبا کے پاس تیل کی دولت نہیں تھی۔ اس کے نوجوان اس کی دولت تھے۔ جنہیں کا سترو نے ڈاکٹر بنایا تھا۔ اور یہ ڈاکٹر پھر کیوبا کی دولت بن گیے تھے۔ اور اس دولت سے کیوبا میں ہیلتھ کیئر کا نظام بنایا گیا تھا۔ جو دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں سب سے بہترین نظام ہے۔ لیکن امریکہ جو دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے اور ترقی یافتہ ملک ہے لیکن اس کے پاس اتنے ڈاکٹر نہیں ہیں۔ بہترین ہسپتال ہیں لیکن ہیلتھ کیئر بہترین نظام نہیں ہے۔ کیوبا میں میڈیکل سہولتیں سب کے لئے مساوی ہیں اور مفت ہیں۔ ڈاکٹروں کے شعبہ میں کیوبا خود کفیل ہو گیا ہے۔ اور یہ اپنے ڈاکٹر لاطین امریکہ اور افریقہ کے ملکوں میں ایکسپورٹ بھی کر رہا ہے۔ 2003 میں بیرونی ملکوں میں کیوبا کے 5000 ڈاکٹر تھے جو 2005 میں 25000 پر پہنچ گیے تھے۔ 24 ایشیائی اور 33 افریقی ملکوں میں کیوبا کے تقریباً چالیس ہزار ہیلتھ  ورکرز کام کر رہے ہیں۔ 2004 میں ایشیائی سو نامی میں Banda Aceh اور سری لنکا کی مدد کے لئے کیوبا نے میڈیکل امداد بھیجی تھی۔ 2005 میں کیوبا نے کشمیر میں زلزلے کے بعد تقریباً 2500 سے زیادہ اس آفت سے نمٹنے کے خصوصی ماہرین، سرجن، فیملی ڈاکٹروں اور صحت عامہ سے متعلق ماہرین پاکستان بھیجے تھے۔ پاکستان میں کیوبا کے ماہرین نے زلزلے کے متاثرین کی چھ ماہ تک دیکھ بھال کی تھی۔ 2014 میں مغربی افریقہ میں Ebola Virus سے لوگ بیمار ہو رہے تھے۔ اس Virus سے اموات بھی ہو رہی تھیں۔ کیوبا نے اس بیماری سے نمٹنے میں لوگوں کی مدد کے لئے 103 نرسیں اور 62 ڈاکٹروں کو مغربی افریقہ بھیجا تھا۔ جو کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں میڈیکل کے میدان میں کیوبا کا ایک بڑا حصہ تھا۔
     انسانوں کی بیماریوں کا مفت علاج کرنا اور انہیں صحت مند رکھنے میں مدد دینا بھی ایک بڑی عبادت ہے۔ اور اس عبادت کا اعزاز خدا نے دنیا میں غریب ملک کیوبا کو دیا تھا۔ خدا نے فیڈل کا سترو کو کیوبا میں پیدا کیا تھا۔ اور 32 سال کی عمر میں فیڈل کا سترو  کیوبا میں اقتدار میں آۓ تھے۔ صرف اس ایک شخص کی وجہ سے دنیا میں ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کو نئی زندگی ملی تھی۔ اور یہ لوگ فیڈل کا سترو کے مرنے پر افسردہ  ہیں۔ لیکن دوسری طرف جلاوطن کیوبن جو مذہبی قدامت پسند ہیں اور فیڈل کا سترو کو کمیونسٹ سمجھتے تھے۔ اور فلوریڈا میں آباد ہیں۔ فیڈل کا سترو کے مرنے پر خوشیاں منا رہے تھے۔ اول یہ ان کے اخلاقی بد کردار ہونے کا ثبوت ہے۔ کسی شخص کی موت پر خواہ وہ کتنا ہی ظالم دشمن تھا۔ خوشیاں اور شادیانے بجانا ایک گھٹیا رد عمل تھا۔ فلوریڈا میں جو کیوبن آج کا سترو کے مرنے پر خوش ہو رہے ہیں۔ کل وہ اپنی بیماریوں کا علاج کرانے کیوبا جایا کریں گے۔ اور فیڈل کا سترو کے میڈیکل نظام سے اپنے آپ کو صحت مند رکھا کریں گے۔ امریکہ کے مقابلے میں کیوبا میں ان کا سستے میں علاج ہو جاۓ  گا۔ صحت مند ہونے کے بعد یہ کا سترو کو کس نام سے یاد رکھیں گے؟
     کا سترو نے اپنے ملک میں مفت تعلیم اور میڈیکل کی مفت سہولتیں ایسے حالات میں فراہم کی تھیں کہ جب امریکہ نے کیوبا کا Blocked کر رکھا تھا۔ اور اقتصادی بندشیں لگی ہوئی تھیں۔ فیڈل کا سترو نے ان مشکل حالات میں اپنے عوام کو اگر یہ مفت سہولتیں فراہم کی تھیں تو کا سترو پھر ڈکٹیٹر کیسے ہو گیا تھا۔ جبکہ کا سترو کے ملک میں گوتانوموبے کی طرح کے Torture House بھی نہیں تھے۔ کا سترو کو عوام کی تکلیفوں کا درد تھا۔ کیونکہ وہ خود بھی ان تکلیفوں سے گزر کر اس مقام تک آیا تھا۔ اس لئے کا سترو اپنے عوام سے مخلص تھا۔ صاف گو تھا۔ اور اس کی نیت صاف تھی۔  اس لئے خدا بھی اس کے ساتھ تھا۔ دشمنوں کا سامنا کرنے میں خدا اس کی رہنمائی کرتا تھا۔ سی آئی اے نے کا سترو کو قتل کرنے کی تقریباً چھ سو سے زیادہ مرتبہ کوششیں کی تھیں۔ لیکن خدا جس کے ساتھ ہوتا ہے اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے۔
     کا سترو نے دنیا میں ملکوں کے اتنے دورے نہیں کیے تھے۔ لیکن دنیا کے کونے کونے میں کا سترو کی شخصیت کے گہرے اثرات تھے۔ نیلسن منڈیلا نے بھی یہ اعتراف کیا تھا کہ فیڈل کا سترو کی مدد کے بغیر جنوبی افریقہ کی آزادی ممکن نہیں تھی۔ انگولا کی آزادی میں بھی کیوبا کا اہم رول تھا۔ کا سترو نے لاطین امریکہ کی سیاست کا نقشہ بھی بدل دیا ہے۔ لاطین امریکہ کے ملکوں میں حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھی جا رہی ہیں۔ لاطین امریکہ کے ملکوں نے امریکہ کے غلبہ سے نجات حاصل کر لی ہے۔ ان کے داخلی امور میں امریکہ کی مداخلت کو مسترد کر دیا ہے۔ لاطین امریکہ میں ان تبدیلیوں نے امریکہ کو کیوبا سے تعلقات بحال کرنے پر مجبور کیا ہے۔ کیوبا کے بغیر امریکہ لاطین ملکوں میں تنہا ہو رہا تھا۔ پھر خدا نے دنیا کو دکھایا کہ فیڈل کا سترو کی زندگی میں امریکہ کے صدر بارک  اوبامہ یہ پیغام لے کر کیوبا آۓ تھے کہ امریکہ کیوبا کے ساتھ تعلقات بحال کرنا چاہتا ہے۔ 60 سال بعد بالآخر امریکہ نے فیڈل کا سترو کی قیادت کو تسلیم کر لیا تھا۔ اور خدا نے یہ  دکھانے کے لئے کا سترو کو 90 سال زندہ رکھا تھا۔
     فیڈل کا سترو کے اقتدار کی خوبی یہ تھی کہ عوام اس کی دولت تھے۔ اس کا خزانہ تھے۔ اور کا سترو نے اس دولت اور خزانہ کو برباد نہیں کیا تھا۔ کا سترو نے انتہائی سادگی کے ساتھ اقتدار کیا تھا۔ عیش و عشرت اور شاہانہ زندگی اس کے اقتدار کی ڈکشنری میں نہیں تھے۔ کرپشن کا سترو کے لئے بڑی عجوبہ شہ تھا۔ کرپشن جیسے جانوروں کا چارہ ہوتا ہے۔ کا سترو نے کیوبا میں 50 سال حکومت کی تھی۔ لیکن سرکاری کار 1956 کی تھی۔ جس میں کا سترو جایا کرتے تھے۔ کا سترو کے پاس املاک نہیں تھی۔ کوئی بنک بیلنس نہیں تھا۔ Off Shore بنکوں میں کھربوں ڈالر نہیں تھے۔ اسلام نے قائدین کو سادگی اور انکساری کے ساتھ حکمرانی کرنے، زندگی بسر کرنے اور عوام کے سامنے ہمیشہ جوابدہ کے لئے تیار رہنے کا جو درس دیا ہے۔ کا سترو نے بالکل اس کے مطابق حکومت کی تھی۔ 60 سال میں اسلامی ملکوں میں جتنے بھی لیڈر آۓ ہیں۔ ان کا لوٹ کھسوٹ، ان کی املاک، ان کے اثاثے، Off Shore  بنکوں میں ان کی پوشیدہ دولت، اسے دیکھ کر خدا نے بھی ان سے منہ موڑ لیا ہے۔ کا سترو کی سادگی اور انکساری دیکھ کر کا سترو کو اعزاز بخشا ہے کہ کا سترو کی Legacy   دنیا کے ہر کونے میں نظر آ رہی ہے۔ اور یہ کا سترو کو ہمیشہ زندہ ر کھے گی۔                        
Ten of thousands of people have arrived at the Jose Marti Memorial to pay tribute to the great leader Fidel Castro

Saturday, November 26, 2016

“Cancer In Islam”, Or Is American Policy A Cancer In The Islamic World?

“Cancer In Islam”, Or Is American Policy A Cancer In The Islamic World?

Mujeeb Khan
West Bank Palestinian workers waiting at an Israeli checkpoint near Hebron
Syrian Refugees

     Donald Trump’s designate to be national security adviser, retired Lt. General Michael Flynn called “Islam is a vicious cancer” and “this cancer is inside the body of 1.7 billion people on this planet and it has to be excised." Flynn said this in a speech this past August, but facts are otherwise, Islam is not a cancer, American Policy is becoming a cancer in the Islamic World. It was American Policy to use the religion in the Cold War, and Islam had been used against the communist army in Afghanistan. One billion people on this planet were inspired for Jihad by the name of Islam. American administration had supported Islamic jihad in Afghanistan with these encouraging words: “God is with you and your cause is just.” Thirty thousand young Muslims from the Islamic World were trained for jihad. Not by Saddam Hussain, not by Mummer Qaddafi, but by the CIA. These CIA-trained thirty-thousand jihadi are the “cancer inside the body of 1.7 billion people on this planet”. Communist Armies were in Poland, in Hungry, in East Germany Czech republic and some other countries in Eastern Europe, why were fanatic Christians not used as jihadis against the Soviet army? They had kept western Europe away from religious extremism and promoted liberal democracy in western Europe against Communism. From the Afghan War and after the fall of the Soviet Empire, America benefited the most, but the Islamic countries were the biggest loser in the Afghan jihad. Their religion became a “vicious cancer.”
   What about the American policy in the Israel-Palestine dispute? In America, this general impression had been created that Palestinian are Muslim and chairman Yasser Arafat was an international terrorist. Perhaps, Henry Kissinger had never told the administration and the congress that many millions of Palestinians were Christians. They were members of the PLO and under Yasser Arafat's leadership they were united with Muslims against Israel. America had never talked about Christians Palestinian that how they were living under Israeli occupation but Christian and Muslim Palestinians were living in refugee’s camps together, sharing each other's pain and suffering. Muslim and Christian Palestinians were fighting against Israeli occupation shoulder to shoulder and dying together. Even Hamas and Hezbollah are getting help by Arab Christians. In Lebanon, Hezbollah is a partner in the government with Christians. There is no religious prejudice in the government. They all are working together and Islam is not a "cancer" for Lebanon’s Christians.
   In Iraq, Muslims and Christians were living side by side for centuries. Their culture and language are the same; Arab Christians were as loyal to Iraq as Muslims. In Saddam Hussain’s government, they all had the same rights. Christians were in the army, in the government on high posts, and in the foreign service. There was no religious discrimination in Iraq. All religious sects were living in peace in Iraq. Israel is a democratic state (as Israel claims), Christian Palestinians are Israeli citizens but they don’t have the same rights as Jewish citizens.
      To blame 1.7 billion Muslim and their religion as cancer in Islam is very easily spoken but to not acknowledge what the Bush administration did to Iraq is dishonest. Before preemptive attacks on Iraq, they had never thought about the millions and millions of Christians living in Iraq and in other Arab countries. The preemptive attack on Iraq has destroyed not only the political status quo but also the religious status quo between Muslims and Christian has damaged. The preemptive war which has killed Muslims and Christians alike in Iraq, destroyed their families, ruined their children's future, and Muslim’s and Christian’s are dying in Iraq every day. This is not a “vicious cancer" inside the body of 1.7 billion Muslim people” this vicious cancer was injected in the Muslim people by the American policy. This is a dilemma that mistakes one administration in Iraq with the other administration that is trying to correct it by destabilizing Syria. President Obama’s Syria policy has brought more terrorists in the world than terrorists that it has stopped. All kinds of weapons are being distributed in the Middle East like Hershey and Nestle candy bars.
     The Christian communities of Syria, which comprise about 10 percent of the population, are Orthodox Christians living there for centuries. They were the most ancient Christian community in Syria. They had many historical sacred places in Syria. In six years, civil war backed by the Obama administration, a half million Syrians have been killed, and per Aleppo Bishop, two thirds of Syrian Christians have been killed or have left Syria. The unnecessary civil war’s achievements have destroyed the Syrian families, destroyed the children's future, destroyed the country, millions and millions of Syrians have lost loved ones. Thousands and Thousands of Syrians have been displaced. Syria and Iraq are the tragedy of the century. This is the the result of America’s Middle East policy. How would you say that this is a cancer in Islam? Libya is another victim of this American policy. They are Fighting against the Islamic State in Syria and Iraq, while overthrowing a secular government of Libya. Now Libya has become a new opportunity for the Islamic State. The cancer of terror is spreading in the Middle East by this American policy. U.S. President-elect Donald Trump has rightfully said that the “Middle East is a disaster.”
     Eight years ago, when President Obama came into power, the previous administration handed over to him two unfinished wars. After eight years, Afghanistan and Iraq are still unfinished wars. President Obama has added four new wars in these unfinished wars. In fifty-three days President Obama is going to hand over these six wars and the disaster Middle East to a new administration.                  
       
Iraq war casualty
Victims of landmines in Afghanistan 

Tuesday, November 22, 2016

Modi’s High Stake Maneuvering To Win The Election In Seven Indian States

The Demonetization, The Brutal Military Suppression In Kashmir, And The Daily Attacks On Pakistan’s Border 
Modi’s High Stake Maneuvering To Win The Election In Seven Indian States

مجیب خان
Demonetization with anger rising 

Israeli President Reuven Rivlin and Prime Minister Narendra Modi in Dehli, Nov 15, 2016

Indian Army's brutality in occupied Kashmir

Indian Army's brutality in occupied Kashmir

      ہمارے ایک بھارتی ملاقاتی ہیں۔ نریندر مودی کے گجرات سے ہیں۔ چند روز قبل ان سے ملاقات ہوئی تھی میں نے ان سے پوچھا مودی نے ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ منسوخ کر دئیے ہیں۔ بھارت کے ایک بلین لوگوں کے لئے نئی مصیبتیں پیدا کر دی ہیں۔ لوگوں کی زندگیاں الٹی ہو گئی ہیں۔ اس سے قبل کے میں اپنی بات مکمل کرتا۔ گجراتی بھائی بولے ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ جعلی تھے۔ آپ کے کراچی میں کارخانہ ہے یہ وہاں چھپ رہے تھے۔" میں نے کہا Really” میرے لئے تو یہ واقعی نیوز تھی۔ گجراتی بھائی بولے دہلی میں پولیس نے مسلمان پکڑے ہیں۔ ان کی کار روپوں سے بھری ہوئی تھی۔ " میں نے کہا "ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ ہوں گے بنک لے جا رہے ہوں گے۔ آپ کے بھارت میں لوگوں کو گھروں میں روپے جمع کر کے رکھنے کی عادت ہے۔ بنکوں میں اکاؤنٹ کھولنے کی روایت نہیں ہے۔ گجراتی بھائی بولے مودی اب سب سے حساب مانگے کہ یہ روپے ان کے پاس کہاں سے آۓ تھے۔ ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ منسوخ ہو گیے ہیں۔ اور نوٹوں  سے بھرے تھیلے لوگ کچرے کے ڈھیروں پر پھینک رہے ہیں۔ میں نے کہا کیا آپ کے گجرات میں یہ ہو رہا ہے۔ بولے ہر جگہ یہ ہو رہا ہے کہیں گندے نالوں میں پھینک رہے ہیں۔ اب دو ہزار کے نوٹ آ گیے ہیں۔ میں نے کہا وہ بھی کراچی میں چھپنے لگے گے۔ دو ہزار کے نوٹوں سے کرپشن میں ذرا آسانی ہو جاۓ گی۔ تین چار لاکھ روپے جیبوں میں لے جانا زیادہ آسان ہو جاۓ گا۔ گجراتی بھائی بولے مودی کرپشن بالکل ختم کر دے گا۔
     دوسرے روز ہمارے ایک اور بھارتی ملاقاتی ہیں ان سے ملاقات ہوئی۔ ان کا تعلق چنڈی گھڑ سے ہے اور سنگھ ہیں۔ بھارت میں دو ماہ گزارنے کے بعد ابھی واپس آۓ ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا " جناب بھارت بڑی ترقی کر رہا ہے۔ ابھی چین کے مقابلے پر آیا ہے یا نہیں۔ بھارت کا  GDP سات اور آٹھ فیصد پر آ گیا ہے۔ بڑے ترقیاتی اور تعمیراتی کام ہو رہے ہیں۔ سردار جی بولے کچھ نہیں ہو رہا ہے۔ صرف باتیں ہو رہی ہیں۔ پہلے پٹواری کو پیسے دے کر کام ہو جاتا تھا۔ اب اس سے اوپر والے کو بھی پیسے دینا پڑتے ہیں۔ پھر اس سے اوپر جو بیٹھا ہے اسے بھی پیسے دینا پڑتے ہیں۔ سردار جی پھر مودی کو برا بھلا کہنے لگے۔ کہنے لگے مودی بڑا چالاک ہے۔ اس نے ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ منسوخ کر دئیے ہیں۔ لیکن اپنے لوگوں کو پہلے بتا دیا تھا۔ مودی نے 8 نومبر کو ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ منسوخ کرنے اور دو ہزار کے نئے نوٹ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اور پھر جاپان چلا گیا۔ لیکن لوگوں کے پاس 6 نومبر کو دو ہزار کے نوٹ آ گیے تھے۔ سردار جی نے کہا مودی کا دماغ خراب ہے۔ پاکستان پر حملے کر رہا ہے۔ اسے معلوم نہیں ہے کہ پاکستان کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار ہیں۔ پاکستان نے بھی تیاری کر لی ہے۔ میں نے کہا " مودی کے خیال میں پاکستان پر حملے کرنے سے بھارت دنیا کو بڑی طاقت نظر آ نے لگے گا۔ میرے پاس مودی کے بارے میں کہنے کے لئے ایک ہی لفظ تھا Crazy ہے۔
     میں نے پھر موضوع بدلتے ہوۓ سردار جی سے پوچھا آپ جب چنڈی گھڑ جاتے ہیں تو امریکہ سے پہلے دہلی جاتے ہیں۔ اور پھر وہاں سے برا ستہ کار چنڈی گھڑ جاتے ہوں گے۔ سردار جی بولے رات میں تو کار سے جا نہیں سکتے ہیں۔ راستہ میں لوٹ لیتے ہیں۔ حکومت نے چنڈی گھڑ میں ایک انٹرنیشنل ایرپورٹ بنایا ہے۔ لیکن اسے کھولا نہیں تھا۔ عرصہ سے بند پڑا تھا۔ لوگ حکومت سے اسے کھولنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ لیکن حکومت کچھ نہیں کر رہی تھی۔ لو گوں نے پھر کورٹ سے رجوع کیا اور اب کورٹ کے حکم کے بعد حکومت نے اسے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ غیر ملکی ایر لائنز کے لوگ ایرپورٹ کا جائزہ لینے آۓ تو ایرپورٹ کے رن وے دیکھ کر انہوں نے کہا رن وے  چھوٹا ہے  اور بڑے طیارے یہاں نہیں اتر سکتے ہیں۔" میں نے کہا " جنہوں نے ایرپورٹ تعمیر کیا تھا کیا انہیں یہ معلوم نہیں تھا۔" سردار جی بولے "وہ پیسے کھا گیے تھے۔" اگر پاکستان اور بھارت میں اچھے تعلقات ہوتے تو پاکستان ائیر لائن امریکہ سے لاہور آتی ہے اور آپ لوگوں کو پھر لاہور سے امرت سر یا چنڈی گھڑ لے جاتی۔ اور آپ لوگوں کو دہلی نہیں جانا پڑتا۔ سردار جی بولے ہمارے لئے بہت آسانی ہو جاتی۔ لیکن حکومت یہ نہیں چاہتی ہے۔ چنڈی گھڑ ایرپورٹ اب کھل گیا ہے۔ سات آٹھ پروازیں آتی ہیں۔ ایک دو پروازیں قطر اور دوبئی سے آنے لگی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پھر دہلی ایرپورٹ کا کیا ہو گا؟ چنڈی گھڑ ایرپورٹ مصروف ہونے سے دہلی ایرپورٹ پر پروازیں کم ہو جائیں گی۔ کیونکہ دنیا بھر میں بالخصوص امریکہ کینیڈا یورپ اور مشرق بعید میں زیادہ تر ہمارے پنجاب کے لوگ ہیں یا گجرات کے لوگ ہیں۔ جو سب سے زیادہ سفر کرتے ہیں۔ بھارت کے باقی مقامات سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ باہر نہیں ہیں۔ لہذا حکومت دہلی ایر پورٹ کو مصروف رکھنا چاہتی ہے۔
     وزیر اعظم مودی نے ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ اس لئے بھی منسوخ کیے ہیں کہ بھارت میں Black Money بہت زیادہ سرکولیشن میں تھی۔ اور Black Money میں کرپشن بھی ہو رہا تھا۔ لوگ ابھی لمبی قطاروں میں بنکوں کے باہر گھنٹوں کھڑے تھے۔ ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ ان کے ہاتھوں میں تھے۔ اس روز ہندوستان ٹائمز میں یہ خبر تھی کہ گجرات پولیس نے دو سرکاری ملازمین کو دو ہزار کے نئے نوٹوں میں چالیس لاکھ روپے رشوت لینے کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔ لیکن تفتیش کرنے والوں کو حیرت یہ تھی کہ دو ہزار کے نئے نوٹوں میں یہ چالیس لاکھ کہاں سے آۓ تھے۔ کیونکہ حکومت نے بنکوں سے دو ہزار کے نئے نوٹ لینے کی ایک حد مقرر کی تھی۔ جو ہفتہ میں صرف ایک بار تھی اور یہ 20 ہزار سے زیادہ نہیں لیے جا سکتے تھے۔ جبکہ دو ہزار کے نئے نوٹ حکومت نے صرف ایک ہفتہ قبل ہی جاری کیے تھے۔ اس لئے سوال یہ تھا کہ مودی کی ریاست گجرات میں دو ہزار کے نوٹوں میں یہ چالیس لاکھ کہاں سے آۓ تھے۔
     مودی کا کرنسی منسوخ کرنے کا فیصلہ دراصل سیاسی ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت کیا گیا ہے کہ جب بھارت کی سات ریاستوں میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم کے لئے کرنسی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ یہ خبر بھی ہے کہ بی جے پی کے لوگوں کو کرنسی منسوخ ہونے کے فیصلہ کا پہلے سے علم ہو گیا تھا۔ اور انہوں نے اس کی تیاری کر لی تھی۔ اور اب کانگرس پارٹی اور دوسری اپوزیشن پارٹیاں اس کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں کہ کرنسی منسوخ ہونے کے فیصلے کو کس نے Leak کیا تھا۔ دوسری طرف کرنسی منسوخ ہونے کے نتیجے میں جو بحران آیا ہے۔ لوگوں کی توجہ اس پر مرکوز ہو گئی ہیں۔ اور انتخابات میں امیدواروں کو لوگ شاید بھول گیے ہیں۔ بھارت کے ایک بلین لوگوں کے پاس Black Money نہیں ہو گی۔ غریب کم آمدنی والے اور درمیانہ طبقہ کے لوگوں کے پاس ان کی محنت و مشقت کی کرنسی تھی۔ جو وہ اپنے گھروں میں رکھتے تھے۔ بھارت کے قدیم معاشرے میں لوگوں کی گھروں میں کرنسی رکھنے کی روایت بھی قدیم ہے۔ بلاشبہ وہ گھروں میں ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ جمع کرتے ہوں گے۔ اور چھوٹے نوٹ اپنے روز مرہ کے اخراجات کے لئے استعمال کرتے ہوں گے۔ ایسے لوگوں کو کرنسی منسوخ ہونے کا سب سے زیادہ دھچکا پہنچا ہے۔ تقریباً 60 کے قریب لوگ اس صدمہ سے مر چکے ہیں۔ یہ لوگ انتخابات میں امیدواروں کے چناؤ میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ سات ریاستوں کے انتخابات میں مودی کی پارٹی کو کرنسی منسوخ کرنے کے فیصلے کا بیک فائر ہو گا۔ اور بی جے پی ان ریاستوں میں انتخاب ہار سکتی ہے۔ یا ٹرن آوٹ کم ہو گا  کیونکہ لوگ بنکوں کے باہر لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہنے کے بعد اب ووٹ ڈالنے کے لئے لمبی قطاروں میں انتظار کرنے شاید نہیں آئیں گے۔ صرف اس صورت میں بی جے پی انتخاب جیت سکتی ہے۔ بھارت کے عوام میں اپنی مقبولیت ثابت کرنے اور حکومت کے اب تک کے فیصلوں کی حمایت کے لئے ان ریاستوں کے انتخاب مودی کے لئے بہت اہم ہیں۔
     دوسری طرف پاکستان کی سرحدوں پر بھارتی فوج کے اشتعال انگیز حملے بھی مودی حکومت کی انتخابی سیاست ہے۔ ان حملوں سے بھارتی عوام کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ان کی حکومت ملک کا دفاع کرنا جانتی ہے۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں کی حقوق اور خود مختاری کے لئے اٹھنے والی آوازوں کو انتہائی وحشیانہ فوجی کاروائیوں سے دبایا جا رہا ہے۔ مودی حکومت کے سات ریاستوں میں انتخابات جیتنے کے لئے یہ انتہائی گھٹیا سیاسی طریقہ ہیں۔                

Thursday, November 17, 2016

Who Is Changing The World, Globalization Or The Multi-National Corporate World?

   Who Is Changing The World, Globalization Or The Multi-National Corporate World?  
Is The Future Of Democracy In Danger? 

 مجیب خان
U.S. President-Elect Donald Trump

Victory of Donald Trump and the Red Revolution 

         نائن الیون کے بعد یہ امریکہ کا چوتھا صدارتی انتخاب تھا۔ اور سابقہ تین صدارتی انتخابات کے مقابلے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اس مرتبہ انتخابی مہم پر نہیں چھائی ہوئی تھی۔ القاعدہ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ داعش کی دہشت گردی بھی اہم موضوع نہیں تھا۔ طالبان کو جیسے سب بھول گیے تھے۔ افغانستان اب ڈونالڈ ٹرمپ کی جنگ بن جاۓ گی۔ لیکن صدارتی مباحثوں میں کسی نے ڈونالڈ ٹرمپ سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ وہ صدر منتخب ہونے کے بعد افغانستان کا کیا کریں گے۔ اور شام کی خانہ جنگی میں پانچ سال سے  سی آئی اے جن باغیوں کو تربیت دے رہی تھی۔ ٹرمپ انتظامیہ ان کا کیا کرے گی۔ یمن کے خلاف جنگ میں سعودی حکومت کے ساتھ امریکہ کا جو Share ہے ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ اس کا کیا کرے گی؟ لیبیا میں بھی خانہ جنگی کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ جو افریقہ کو بھی بھڑکا رہے ہیں۔ اور یورپ کو مہاجرین کا بحران دے رہے ہیں۔ یہ جنگیں ڈونالڈ ٹرمپ کا پہلا سردرد ہوں گی۔ لیکن صدارتی انتخابی مہم کے دوران میڈیا کی طرف سے اس صورت حال پر کوئی سوال نہیں کیے گیے تھے۔ حالانکہ ان جنگوں کے نتیجے میں دنیا آج زیادہ خطرناک حالات کا سامنا کر رہی ہے۔ یورپ اور امریکہ میں دہشت گردی کے انتہائی خوفناک واقعات ہوۓ ہیں۔ جن میں بڑی تعداد میں لوگ مارے گیے ہیں۔ لیکن دہشت گردی اور جنگیں اس صدارتی انتخابی مہم کے ایجنڈے سے غائب تھے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ 16 سال میں دہشت گردی اور جنگوں کے حالات نہیں بدلے تھے۔ لہذا انہیں انتخابی مہم کا موضوع بنانا مناسب نہیں سمجھا گیا تھا۔ اور لوگ بھی شاید یہ سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔
    اس انتخابی مہم میں ڈونالڈ ٹرمپ نے امیگریشن، ہیلتھ کیئر پلان، واشنگٹن کو خصوصی مفادات اور لابیوں کے کرپشن کے نظام سے صاف کرنے، آزاد تجارتی معاہدے جن کے نتیجے میں صنعتی پیداواری سرگرمیاں امریکہ سے دوسرے ملکوں میں چلی گئی ہیں۔ اور امریکی اچھی اجرتوں کی ملازمتوں سے محروم ہو گیے ہیں۔ انہیں واپس امریکہ میں لانے کا عزم ایسے موضوع تھے۔ جن کو سننے میں امریکی عوام کی گہری دلچسپی تھی۔ اسٹبلشمینٹ کیونکہ ان کے خلاف تھی۔ اس لئے ڈونالڈ ٹرمپ نے اس پر بھی حملے کرنا شروع کر دئیے تھے۔ ان موضوعات کے علاوہ ڈونالڈ ٹرمپ نے کوئی اور نئی بات کی تھی اور نہ ہی کوئی پرانی باتیں سننا چاہتے تھے۔ اپنی انتخابی ریلیوں میں ہر جگہ اور ہر وقت  صرف ان موضوع کو دہراتے تھے۔ یہ سن سن کر امریکی عوام کو ان کی شخصیت میں جیسے Jesus Christ ان کے تمام مسائل کے نجات دہندہ نظر آنے لگے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اب امریکہ کے 45 ویں صدر منتخب ہو گیے ہیں۔ اور امریکہ کی تاریخ میں پہلے Billionaire صدر ہیں۔ کارپوریٹ دنیا سے ان کا تعلق ہے۔ سیاست کے ایوانوں میں انہوں نے کبھی قدم نہیں رکھا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخاب میں کامیابی صرف ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست نہیں ہے بلکہ یہ ری پبلیکن پارٹی کی بھی ناکامی ہے۔ کیونکہ وہ اچانک ان کی صفوں میں آۓ تھے اور اب وائٹ ہاؤس میں پہنچ گیے ہیں۔ اور جن کی عمریں ری پبلیکن پارٹی کی سیاست میں گزر گئی ہیں وہ ایک سے زیادہ مرتبہ انتخاب ہار جاتے ہیں۔
    اب یہ سوال کہ امریکی کمپنیاں دوسرے ملکوں میں چلی گئی ہیں۔ تو یہ ری پبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے واچ میں ہوا ہے۔ اور آزاد تجارت کے قانون کانگرس نے منظور کیے ہیں۔ اور  NAFTA ( نارتھ  امریکہ فری ٹریڈ معاہدہ دونوں پارٹیوں نے متفقہ طور پر کانگرس میں منظور کیا تھا۔ اور اسے امریکہ کے مفاد میں بتایا تھا۔ لیکن جو حقائق اب سامنے آۓ ہیں یہ فری ٹریڈ معاہدے کارپوریٹ امریکہ کے مفاد میں نظر آ رہے ہیں۔ اور امریکی عوام کو فری ٹریڈ معاہدوں سے بیروزگاری اور اجرتوں میں حیرت انگیز کمی ملی ہے۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخابی مہم میں اس ایشو کو Exploit کیا ہے۔ اور جیسا کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکی عوام سے کہا ہے کہ وہ صدر بننے کے بعد فری ٹریڈ معاہدے ختم کر دیں گے یا ان معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کریں گے۔ اس میں انہیں کتنی کامیابی ہو گی۔ اس کا انتظار ہے۔
    یہ فری ٹریڈ معاہدے دراصل ڈیزائن ہی کمپنیوں کے مفاد میں کیے گیے تھے۔ امریکہ سے جو کمپنیاں چین چلی گئی ہیں وہ بھاری منافع سے متاثر ہو کر اپنا کاروبار چین لے گئی ہیں۔ ان کمپنیوں کا چین میں ایک سال کا منافع  امریکہ میں پانچ سال کے منافع کے برابر ہے۔ اس لئے کمپنیوں اور کارپوریشنوں کو امریکہ کے نظام سے زیادہ چین کا نظام Suit کرتا ہے۔ فری ٹریڈ اور منافع کے تعاقب کی دوڑ کو گلوبلائزیشن کہا جاتا ہے۔ حالانکہ گلوبلائزیشن دراصل Multi National Corporate World ہے۔  کارپوریٹ امریکہ کی جگہ اب Corporate World لے رہی ہے۔ اس عمل میں لوگوں کو جن مالی اور اقتصادی مصائب کا سامنا ہو رہا ہے۔ اس کا سبب گلوبلائزیشن کو بتایا جا رہا ہے۔ امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیوں نے ایک ٹیریلین ڈالر امریکہ سے باہر رکھا ہے۔ لیکن عوام کے اقتصادی مصائب کا سبب گلوبلائزیشن کو بتایا جا تا ہے۔
    2016 کے صدارتی انتخابات امریکہ کے سیاسی جمہوری نظام میں کیا تبدیلیاں لائیں گی؟ یہ اہم توجہ طلب سوال ہے؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پہلے ہی امریکہ اور دوسرے مغربی جمہوری ملکوں میں لوگوں کے جمہوری حقوق میں سیکورٹی کے نام پر بڑی حد تک تخفیف ہو گئی ہے۔ اور اب مغربی جمہوری نظام میں ایک نیا سیاسی رجحان خصوصی طور سے نوٹ کیا جا رہا ہے۔ اور یہ “One Party Democratic Government Minus Opposition” ہے۔ اس میں چین کے نظام حکومت کی جھلک نظر آتی ہے۔ جرمنی میں اسے آزمایا جا رہا ہے۔ اور کامیاب ہے۔ جرمنی کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیاںCDU اور   SPD      حکومت میں شامل ہیں اور تیسری پارٹی CSU بھی حکومت میں شامل ہو گئی ہے۔ اہم وزارتیں جرمنی کی دو بڑی پارٹیوں کے پاس ہیں۔ جبکہ خوراک اور زراعت، ٹرانسپورٹ کی وزارتیں CSU کے پاس ہیں۔ اور سیاسی اپوزیشن غائب ہے۔ 2005 سے چانسلر انجیلا مرکل اقتدار میں ہیں۔ اور  کسی سیاسی مزاحمت کے بغیر حکومت کے فیصلے کر رہی ہیں۔ اور بہت کامیابی سے حکومت کر رہی ہیں۔ اس سے قبل جب ان دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک بڑی پارٹی اپوزیشن میں ہوتی تھی۔ برسراقتدار پارٹی کے کسی فیصلے پر اپوزیشن کے شدید اختلاف کے نتیجے میں حکومت ختم ہو جاتی تھی یا حکومت کے ساتھ کسی چھوٹی پارٹی کا اتحاد ختم ہو جانے سے حکومت ٹوٹ جایا کرتی تھی۔ لیکن تقریباً 11 سال سے حکومت میں تسلسل ہے ۔ فرانس میں سوشلسٹ پارٹی اقتدار میں ہے Francois Hollande صدر ہیں۔ جبکہ فرانس کی دوسری بڑی پارٹی Union for a Popular Movement دائیں بازو کی پارٹی ہے۔ سابق صدر نکولیس سارکوزی 2012 میں انتخاب ہار گیے تھے۔ تیسری پارٹی نیشنل فرنٹ ہے Marine Le Pen پارٹی کی سربراہ ہیں۔ یہ پارٹی ابھی تک حکومت میں نہیں آئی ہے لیکن پارلیمنٹ میں اس کے 23 اراکین ہیں۔ پہلی مرتبہ یہ دیکھا جا رہا ہے کہ سوشلسٹ پارٹی کی حکومت کو اپوزیشن کی طرف سے کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں ہو رہا ہے۔ فرانس میں دہشت گردی کے بڑے خوفناک واقعات ہوۓ ہیں۔ سینکڑوں لوگ اس میں مارے گیے ہیں۔ لیکن اپوزیشن نے اسے حکومت کی کمزوری نہیں قرار دیا ہے۔ اور حکومت کی سخت لفظوں میں تنقید سے گریز کیا ہے۔ حالانکہ فرانس میں حکومت معمولی کوتاہی کے نتیجے میں ٹوٹ جانے کی ایک روایت ہے۔ پہلی مرتبہ فرانس میں حکومت کا تسلسل برقرار دیکھا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کے رویہ میں نرمی ہے۔ اور پارلیمنٹ میں حکومت کے خلاف اپوزیشن کی گرما گرمی نہیں دیکھی جا رہی ہے۔
    برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی حکومت میں ہے۔ اور Theresa May جب سے وزیر اعظم بنی ہیں۔ پارلیمنٹ میں لیبر پارٹی کا اپوزیشن کردار ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم Theresa May کے فیصلوں اور پالیسیوں کو خاموشی سے تسلیم کیا جا رہا ہے۔ لیبر پارٹی جیسے Sleeping Mode میں چلی گئی ہے۔ اسرائیل میں دو بڑی سیاسی جماعتوں لیبر اور لیکوڈ پارٹی کی مخلوط حکومت نے اقتدار کیا ہے۔ اور اس وقت لیکوڈ پارٹی کی دوسری چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مخلوط حکومت ہے۔ اور لیبر پارٹی So Called اپوزیشن ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو کو کسی طرف سے بھی سخت سیاسی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ اسرائیل میں با ظاہر ایک پارٹی کی حکومت ہے۔ 
    بھارت کی جمہوریت میں پہلی مرتبہ کانگرس پارٹی سیاسی طور پر Impotent نظر آ رہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کا بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد ہے۔ بھارت کی پندرہ ریاستوں میں اس وقت اتحاد کی حکومتیں ہیں۔ مرکز میں وزیر اعظم مودی این ڈی اے حکومت کے قائد ہیں۔  وزیر اعظم مودی اس وقت سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی سے زیادہ آہنی نظر آ رہے ہیں۔ بھارت کے روایتی سیاسی، اقتصادی اور خارجہ امور کے ڈھانچہ کو انہوں نے توڑ دیا ہے۔ امریکہ کے ساتھ بھارت کا فوجی اتحاد بنایا ہے۔ بھارت کی معیشت کے دروازے غیرملکی سرمایہ کاروں اور Multi-National Companies کے لئے کھول دئیے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے بھارت کے سیاسی نظام میں اتنے بڑے فیصلے کیے ہیں۔ لیکن پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی طرف سے حکومت کے ان فیصلوں پر کو رد عمل نہیں ہوا ہے۔ کانگرس کے جس ڈھانچہ پر بھارت اس مقام پر پہنچا ہے۔ نریندر مودی نے اسے تباہ کر دیا ہے۔ اور اپوزیشن نے اسے قبول کر لیا ہے۔ مودی حکومت نے ایک ہزار روپے اور پانچ سو روپے کے نوٹ منسوخ کر کے بھارت کے کروڑوں لوگوں کو جیسے اذیتیں دی ہیں۔ لیکن پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی طرف سے اس پر کوئی چیخ پکار نہیں ہو رہی ہے۔ یہ جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن کے کردار کے نئے سیاسی رجحان ہیں۔ پاکستان میں نواز شریف کی پارٹی کو پیپلز پارٹی کی حکومت میں شامل کرایا گیا تھا۔ لیکن نواز شریف زرداری حکومت سے علیحدہ ہو گیے تھے۔ اور اپنے ہونٹوں پر Duck Tap لگا کر اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ گیے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایکBillionaire President کی قیادت میں ری پبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کا کیا رول ہوگا؟                 

Friday, November 11, 2016

America Is Not Ready To Accept A Woman President, As Saudis Are Not Ready To Let Women Sit Behind The Steering Wheel

 America Is Not Ready To Accept A Woman President, As Saudis Are Not Ready To Let Women Sit Behind The Steering Wheel     
Americans Prefer The Incompetent President, Who Is Unfit, As Declared By Both Parties
Now The GOP And DEM's Will Fit Him In The Establishment

مجیب خان

Hillary Clinton gives her concession speech following her loss in the election
U.S. President-Elect, Donald J. Trump

     یہ وضاحت ضروری ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ ری پبلیکن نہیں ہیں۔ اور نہ ہی ڈیموکریٹ ہیں۔ ایک Outsider کی حیثیت سے ری پبلیکن  پارٹی کے پلیٹ فارم سے انہوں نے صدارتی امیدوار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن پارٹی نے انہیں قبول نہیں کیا تھا۔ تاہم امریکی عوام جو ری پبلیکن پارٹی کے حامی تھے۔ انہوں نے پرائم ریز میں ڈونالڈ ٹرمپ کو سب سے زیادہ ووٹ دئیے تھے۔ اور پھر ری پبلیکن پارٹی سے ڈونالڈ ٹرمپ کو پارٹی کا صدارتی امیدوار تسلیم کروایا تھا۔ پارٹی نے صدارتی مہم میں ان کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔ اور وہ اپنی مدد آپ سے صدارتی مہم چلاتے رہے تھے۔ کیونکہ کھرب پتی تھے اس لئے اپنی دولت اپنی صدارتی مہم میں استعمال کرتے رہے۔ میں یہاں جتنے بھی لوگوں سے ملتا تھا۔ دونوں صدارتی امیدواروں کے بارے میں ان کی پہلی راۓ یہ ہوتی تھی کہ وہ دونوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن پھر ان کا کہنا یہ تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کبھی سیاست میں نہیں رہے ہیں۔ اور وہ ری پبلیکن ہیں اور نہ ہی ڈیمو کریٹ ہیں اس لئے وہ تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اور واشنگٹن میں کرپشن بھی ختم کر سکتے ہیں۔ جبکہ امریکہ کی دونوں بڑی پارٹیوں میں اس پر اتفاق تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ صدر بننے کے لئے Unfit ہیں۔ جبکہ ری پبلیکن پارٹی کے سابق صدارتی امیدوار مٹ ر  نے انہیں Con-man کہا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ con-man کہنے والوں کی سیاست کے Inner-circle میں نہیں تھے۔ لہذا لوگوں نے بھی اسے کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ جو کچھ کہتے تھے لوگ اس پر یقین کرنے لگتے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو دونوں پارٹیوں کے سیاسی حلقہ سے باہر ہونے  کا یہ فائدہ ہوا تھا کہ لوگ ان پر اعتماد کرنے لگے تھے۔ لیکن اس کے باوجود امریکی عوام کا یہ پختہ یقین تھا کہ ہلری کلنٹن انتخاب جیت جائیں گی۔
    الیکشن سے صرف تین ہفتے قبل جب ڈونالڈ ٹرمپ کے و ڈیو سامنے آۓ تھے۔ جس میں انہوں نے عورتوں کے بارے میں کچھ نازیبہ باتیں کی تھیں۔ اور یہ وڈیو آنے کے بعد ہلری کلنٹن کے Poll Double-Digit ہو گیے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی شکست یقینی نظر آ رہی تھی۔ پھر انتخابی مہم کے آخری لمحوں میں ایف بی آئی ڈائریکٹر نے اس دھماکہ خیز خبر سے کہ ہلری کلنٹن کے ای میل سکینڈل سے متعلق کچھ نئی ای میل ملی ہیں جن کی تحقیقات کی جاۓ گی۔ تاہم ان ای میل کا تعلق ہلری کلنٹن سے نہیں تھا۔ یہ ان کی ایک معاون اور اس کے شوہر کے بارے میں تھیں۔ حالانکہ قانونی طور پر ایف بی آئی ڈائریکٹر کو انتخابی مہم کے آخری لمحوں میں صدارتی امیدواروں کے بارے میں اس طرح الزامات اور تحقیقات کو سامنے لانے کا اختیار نہیں تھا۔ ایف بی آئی ڈائریکٹر ری پبلیکن تھے۔ بش انتظامیہ میں اسسٹنٹ  اٹارنی جنرل تھے۔ لیکن ان  کی اس مداخلت  سے ہلری کلنٹن کا Double Digit انتخابی امیج سبوتاژ ہو گیا تھا۔ اور یہ تاثر پیدا کر دیا گیا تھا کہ وہ جیل جانے والی ہیں۔ اور یہ تاثر ڈونالڈ ٹرمپ پھیلا رہے تھے۔ ہلری کلنٹن کی شخصیت کی جیسے انہوں نے دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ اس پر خاتون اول Michelle اوبامہ نے کہا کہ “If they go low, you go high”  اس کے بعد ہلری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان مقابلہ اور زیادہ سخت ہو گیا تھا۔ اور دس اور بارہ پوائنٹ کا فرق ایک اور دو پوائنٹ پر آگیا تھا۔ پہلے ڈونالڈ ٹرمپ کے ٹیپ کو منظر عام پر لایا گیا تھا۔ اور انہیں گرانے کی کوشش کی گئی تھی۔ پھر ہلری کلنٹن کے ای میل سکینڈل کو دوبارہ منظر پر لا کر اسے سنسنی خیز بنایا تھا۔ اس کے پیچھے کون سے خفیہ ہاتھ تھے۔ جو انہیں دباؤ میں رکھ کر ان سے  بعض فیصلوں میں ضمانت چاہتے تھے۔
     صدارتی امیدوار امریکی عوام کے سامنے جانے سے پہلے اسرائیل جاتے ہیں۔ اور وہاں ان کے انٹرویو ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ جو امیدوار اسرائیل گیے تھے وہ پرائم ریز میں ہار گیے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اور ہلری کلنٹن صدارتی امیدوار نامزد ہونے کے بعد ستمبر میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے دوران نیویارک میں اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو سے ملے تھے۔ وزیر اعظم نے اس ملاقات میں ڈیڑھ گھنٹہ ڈونالڈ ٹرمپ کا انٹرویو کیا تھا۔ اور اس کے بعد ہلری کلنٹن سے بھی تقریباً اتنی ہی دیر ملاقات کی تھی۔ ان سے انٹرویو کا نتیجہ فوری طور پر نہیں تھا۔ الیکشن کی رات کو سی این این پراس کے نتائج سامنے آۓ تھے۔ اوبامہ انتظامیہ میں وزیر اعظم نتھن یا ہو کے ساتھ تعلقات میں خاصا تناؤ تھا۔ اور گہرے اختلافات بھی تھے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو کے صدر اوبامہ سے زیادہ صدر پوتن کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ فلسطین کی آزاد ریاست کو تسلیم کرنے کی ایک قرارداد جیسے فرانس اس سال موسم بہار میں سیکورٹی کونسل میں پیش کرنے جا رہا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ سے مشورے کے بعد اسے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ اور اب امریکہ کے صدارتی انتخابات کے بعد اس قرارداد کو فرانس یورپی یونین اور امریکہ کی حمایت کے ساتھ سیکورٹی کونسل میں پیش کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اس قرارداد میں فلسطینیوں کی آزاد ریاست کو تسلیم کرنے کا کہا گیا ہے۔ اور فلسطین کی ریاست کا 1967 کی جنگ سے قبل کی سرحدوں کا تعین کیا گیا ہے۔ اسرائیل اس قرارداد کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ امریکہ میں اسرائیلی لابی اس قرارداد کے خلاف نیویارک ٹائمز میں پورے صفحہ کے اشتہار دے رہی ہے۔ جن میں صدر اوبامہ سے اس قرارداد کو روکنے اور اسے ویٹو کرنے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ  اس پر خاموش ہے۔ ہلری کلنٹن نے بھی اس پر کچھ نہیں کہا تھا۔ ہلری کلنٹن کا صدر منتخب ہونے کے بعد عرب اسپرنگ کو دوبارہ زندہ کرنے کا منصوبہ تھا۔ اب با ظاہر یہ نظر آتا ہے کہ اسرائیلی لابی اور ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی ٹیم کے درمیان یہ معاملات طے ہو گیے ہیں۔ جس کے بعد امریکی میڈیا میں صدارتی مہم کا نقشہ پلٹ گیا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو میڈیا میں زیادہ پروجیکٹ کیا جانے لگا تھا۔ جو عورتیں  ڈونالڈ  ٹرمپ کی ان کے ساتھ نازیبہ حرکتوں کو بتانے ٹی وی پروگراموں میں نظر آ رہی تھیں۔ وہ ٹی وی اسکرین سے غائب ہو گئی تھیں۔ ہلری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان Gap قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔
     بالکل ایسا ہی 2000 کے صدارتی انتخابات میں الگور کے ساتھ ہوا تھا۔ اس وقت صدر بش کے مقابلے پر الگور کے جیتنے کے بہت واضح امکان تھے۔ امریکہ کی معیشت بہت اچھی تھی۔ لوگ اقتصادی خشحالی محسوس کر رہے تھے۔ بیروزگاری بھی بہت کم تھی۔ لہذا ان کے ہارنے کی کوئی اور وجہ بھی نہیں تھی۔ صدر کلنٹن اپنے اقتدار کی تاریخ بنانے کے لئے اسرائیل اور فلسطینیوں میں امن سمجھوتہ کرانے کی انتھک کوششیں کر رہے تھے۔ چیرمین یا سر عرفات اور اسرائیلی وزیر اعظم ایہود براک میں مذاکرات میں بڑی حد تک پیش رفت ہوئی تھی۔ ایک دو نکات پر مذاکرات میں تعطل آ گیا تھا۔ جس میں فلسطینی مہاجرین کی واپسی اور فلسطینی ریاست کی سرحدوں کا تنازعہ تھا۔ صدر کلنٹن  چیرمین یا سر عرفات اور اسرائیلی وزیر اعظم ایہود براک نے کیمپ ڈیوڈ میں تقریباً 22 گھنٹے مسلسل مذاکرات کیے تھے۔ صدر کلنٹن نے اپنا سارا Political Capital اس تنازعہ کو حل کرنے میں لگا دیا تھا۔ ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جارج بش کے خارجہ امور کے مشیر اسرائیلی رہنماؤں سے اپیلیں کرنے لگے کہ وہ کوئی معاہدہ مت کریں۔ ہم جب اقتدار میں آئیں گے اسرائیل کو بہتر ڈیل دلائیں گے۔ یا سر عرفات اور ایہود براک میں مذاکرات ختم ہو گیے تھے۔ الگور انتخابات جیتے جیتے  ہار گیے تھے۔ اور جارج بش امریکہ کے 43 صدر بن گیے تھے۔ اسرائیلیوں نے اس کے بعد فلسطینیوں سے  دوبارہ کبھی مذاکرات نہ کرنے کا عہد کیا تھا۔ اور اس وقت عرب دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ یہ مذاکرات نہ کرنے کا پلان بی ہے۔
     اب 16 سال بعد وہ تاریخ پھر دوہرائی گئی ہے۔ ہلری کلنٹن انتخاب جیتے جیتے ہار گئی ہیں۔ اور ڈونا لڈ ٹرمپ انتخاب ہارتے ہارتے جیت گیے ہیں۔ نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی ہے۔ اسرائیلی کابینہ کے وزیر Ofir Akunis نے کہا ہے "ہمیں اب نئی یہودی بستیاں پھیلانے کے لئے یہ غور کرنا چاہیے کہ کس طرح آ گے بڑھا جاۓ۔ اب جبکہ واشنگٹن میں ٹرمپ انتظامیہ ہے اور اس کے مشیروں کا کہنا ہے کہ ایک فلسطینی ریاست کا کوئی مقام نہیں ہے۔"                     

      

Saturday, November 5, 2016

What Is Anti-Americanism?

What Is Anti-Americanism?
International Anti-Americanism Is Shaping Internal Anti-Americanism. What Are We Seeing In Donald Trump’s Speeches, The Tone Of Hugo Chavez?
Is This The Rise Of Internal Anti-Americanism?

مجیب خان
"President of The Philippines, Rodrigo Duterte: "American officials are Monkeys, go to Hell

"Former President of Venezuela Hugo Chavez (late) in U.N. said President Bush is a "devil" and "its system is worthless

 "Republican Party's Presidential Candidate Donald Trump: "We will drain the swamp and the system is rigged  

      فلپائن کے صدر Rodrigo Duterte نے امریکہ کے ساتھ  تعلقات کو خدا حافظ کہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور امریکہ سے ایک سال کے اندر فلپائن میں اپنے پانچ فوجی اڈے خالی کرنے کا کہا ہے۔ تاہم امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رہیں گے۔ صدر راڈ ریگو نے چین کے ساتھ قریبی تعلقات فروغ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور جنوبی دریاۓ چین تنازعہ مذاکرات سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ ان فیصلوں سے صدر راڈ ریگو نے فلپائن میں ایک آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ صدر راڈ ریگو نے مشرقی ایشیا کو نئی جنگوں کا سرکس بنانے سے بچایا ہے۔ یہ جنگی سرکس مغربی ایشیا سے مشرقی ایشیا منتقل کرنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ جنوبی دریاۓ چین تنازعہ کو بنیاد بنا کر چین کے گرد فوجی اتحاد اور فوجی اڈوں کے ذریعے حلقہ تنگ کرنے کی حکمت عملی پر کام جاری تھا۔ اور اس حکمت عملی میں فلپائن اور اس کے پانچ فوجی اڈوں کا جو امریکہ کے پاس تھے خصوصی فرنٹ لائن رول ہوتا۔ امریکہ کو صدر راڈ ریگو کے فیصلے سے سخت مایوسی ہوئی ہے۔ اوبامہ انتظامیہ نے اسسٹنٹ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Danial Russal کو صدر راڈ ریگو کے امریکہ کے ساتھ فوجی اور اقتصادی تعلقات ختم کرنے کے ریمارکس کی وضاحت کے لئے فلپائن بھیجا تھا۔ صدر راڈ ریگو نے اسسٹنٹ سیکرٹیری آف اسٹیٹ سے غصہ کا اظہار کیا تھا۔ صدر راڈ ریگو نے کہا "اگر میں یہاں (اقتدار) کافی عرصہ رہتا ہوں۔ میں فلپائن کے فوجیوں کے علاوہ کسی دوسرے ملک کے فوجی یہاں دیکھنا نہیں چاہتا ہوں۔ اور میں صرف یہ چاہتا ہوں۔" صدر راڈ ریگو اس سال جون میں اقتدار میں آۓ تھے۔
     صدر راڈ ریگو کے خلاف امریکی میڈیا میں ابھی کردار کشی کی مہم شروع نہیں ہے۔ جس طرح ونزویلا کے صدر ہو گو شیویز کے خلاف امریکی میڈیا میں مہم چلائی گئی تھی۔ اور انہیں ڈکٹیٹر اور فاشسٹ کہا گیا تھا۔ حالانکہ صدر شیویز کو وینز ویلا کے لوگوں نے بھاری اکثریت سے منتخب کیا تھا۔ اور اپنے عوام میں مقبول بھی تھے۔ امریکی میڈیا کی توجہ اس وقت صدارتی انتخاب پر مرکوز ہے۔ صدر راڈ ریگو کے بیانات شائع ہو رہے ہیں۔ لیکن ان کے خلاف کچھ نہیں لکھا جا رہا ہے۔ اس صدی کی پہلی دہائی تک یہ کہا جاتا تھا کہ امریکہ کی عالمی طاقت کو جو بھی چیلنج کرے گا یا امریکہ کے مد مقابل آنے کی کوشش کرے  گا اس کی بھر پور طاقت سے مزاحمت کی جاۓ گی۔ اور اس Doctrine کے تحت عراق میں صد ام حسین کو اور لیبیا میں معمر قدافی کا خاتمہ کیا تھا۔ انہیں امریکہ کے مفادات کے خلاف ایک بڑا خطرہ سمجھا گیا تھا۔ یہ لیڈر تیل کی دولت پر بیٹھے ہوۓ تھے۔ اور امریکہ کی عالمی طاقت کو اپنے  تیل کی دولت سے چیلنج کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے۔ لیکن یہ ایک غلط تاثر تھا۔ جبکہ حقائق اس تاثر کے بالکل برعکس تھے۔ یہ لیڈر اس خطہ کے بارے میں امریکہ کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے  تھے۔ اور یہ اس کا بڑے کھرے لفظوں میں اظہار کرتے تھے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ یہ امریکہ کی عالمی طاقت کو چیلنج کر رہے تھے۔ اس غلط فہمی میں صد ام حسین اور معمر قدافی کو ختم کر دیا تھا۔ لیکن اس کے نتائج اب امریکہ کی عالمی قیادت کے لئے چیلنج بنے ہوۓ  ہیں۔ ونزویلا کے صدر ہو گو شیویز اور ایران کے صدر احمدی نژاد بھی امریکہ کی عالمی قیادت کو مسلسل چیلنج کر رہے تھے۔ ان لیڈروں کا سیاسی پس منظر صد ام حسین اور معمر قدافی سے مختلف تھا۔ عوام نے انہیں منتخب کیا تھا۔ عوام نے انہیں لیڈر بنایا تھا۔ اور عوام میں مقبول تھے۔ صدر احمدی نژاد ان کے ملک کے خلاف امریکہ کے بر تاؤ پر تنقید کرتے تھے۔ اسرائیل کے بارے میں امریکہ کی پالیسی کی مذمت کرتے تھے۔ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کا جو Behavior تھا۔ صدر احمدی نژاد کی اس کے خلاف لفظی جنگ رہتی تھی۔ اسرائیل کے اس Behavior کی امریکہ نے ہمیشہ پشت پنا ہی کی تھی۔ اسرائیل کی مذمت میں امریکہ نے سلامتی کونسل میں ہر قرارداد کو ہمیشہ ویٹو کیا تھا۔ اور یہ امریکہ کی مخالفت کا ایک بڑا سبب تھا۔
     صدر ہو گو شیویز کو لاطین امریکہ میں امریکہ کے رول پر غصہ تھا۔ امریکہ نے یہاں ہمیشہ عوام دوست حکومتوں کے تختے الٹنے میں فوجی جنرلوں کی مدد کی تھی۔ اور پھر فوجی حکومتوں کے ذریعے ان پر حکومت کی تھی۔ ان کے وسائل کا استحصال کیا تھا۔ اور ان کے عوام کو غربت میں رکھا تھا۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد صدر ہو گو شیویز کا لاطین امریکہ کے ملکوں کو متحد کرنے اور انہیں ایک آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی ترغیب دینے میں اہم رول تھا۔ لاطین امریکہ میں صدر ہو گو شیویز کی ان سرگرمیوں سے امریکہ خوش نہیں تھا۔ صدر جارج بش کو صدر صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیابی ہو گئی تھی۔ لیکن ونزویلا میں صدر ہو گو شیویز کو اقتدار سے ہٹانے میں ناکامی ہوئی تھی۔ بش انتظامیہ کے حکام کے ذہنوں میں سرد جنگ بھری ہوئی تھی۔ سی آئی اے کی مدد سے ونز ویلا کے جنرلوں نے صدر ہو گو شیویز حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ بش انتظامیہ نے فوجی حکومت کو تسلیم کر لیا تھا۔ لیکن لاطین امریکہ کے ملکوں نے متفقہ طور پر ونز ویلا میں فوجی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اور بش انتظامیہ کے فوجی حکومت کو تسلیم کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوۓ ونز ویلا میں صدر ہو گو شیویز کی حکومت بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لاطین امریکہ ملکوں کا یہ اتحاد اور حکومتوں کا موڈ دیکھ کر بش انتظامیہ کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ اور صدر ہو گو شیویز کی حکومت بحال ہو گئی تھی۔ صدر ہو گو شیويز کو اس پر غصہ تھا کہ بش انتظامیہ نے ان کی  منتخب حکومت کے خلا ف سازش کی تھی۔ اور انہیں اقتدار سے معزول کرنے کی کوشش کی تھی۔ صدر ہو گو شیويز بش انتظامیہ کے خلاف ہو گیے تھے۔ اور صدر جارج بش کے فیصلوں کے خلاف سخت لفظوں میں بیان دیتے تھے۔ امریکہ کا میڈیا اور اسٹبلشمینٹ صدر ہو گو شیويز کو Anti American  کہنے لگے تھے۔ صدر ہو گو شیويز امریکی عوام کے بالکل خلاف نہیں تھے۔ اور امریکہ امریکی عوام کا تھا۔ صدر ہو گو شويز کی امریکی عوام سے یکجہتی کا یہ ثبوت تھا کہ انہوں نے نیویارک میں کم آمدنی والے علاقوں میں سخت ترین سردی میں لوگوں کے گھروں کو گرم رکھنے کے لئے انہیں مفت تیل فراہم کیا تھا۔ اور یہ صدر جارج بش کی انتظامیہ میں ہوا تھا۔
     صدارتی انتخابی مہم میں ڈونالڈ ٹرمپ نے واشنگٹن اور اسٹبلشمینٹ کے خلاف زیادہ سخت لہجہ اختیار کیا ہے۔ اور امریکی عوام کے ذہنوں میں یہ بیٹھا دیا ہے کہ واشنگٹن انتہائی Corrupt ہے۔ اور وہ جب اقتدار میں آئیں گے تو سب سے پہلے “Drain  the Swamp” کریں گے۔ اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ روس کے صدر پوتن کے حامی ہیں۔ اور صدر پوتن ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کے نظام اور اسٹبلشمنیٹ کے خلاف ڈونالڈ ٹرمپ کے سخت بیانات میں   Internal Anti American نظر آتا ہے۔
     فلپائن کے صدر راڈ ریگو کا کہنا تھا کہ  انہیں صرف تاریخی حماقتوں ہی پر غصہ نہیں ہے۔ انہیں 2002 میں Michael Terrence Meiring ایک امریکی کے کیس کا بھی غصہ تھا۔ جو فلپائن کے شہر Davao میں اپنے ہوٹل کے کمرے میں ایک بم پھٹنے سے شدید زخمی ہو گیا تھا۔ راڈ ریگو اس وقت اس شہر کے میئر تھے۔ اس واقعہ کے کچھ ہی دیر بعد Meiring  اپنے ہسپتال کے کمرے سے غائب ہو گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد سے راڈ ریگو کا  کہنا یہ تھا کہ Meiring ایک دہشت گرد تھا۔ اور امریکی کا رندے  اسے کرائم کے الزام میں عدالتی کاروائی سے بچانے کے لئے فلپائن سے نکال کر لے گیے تھے۔ صدر راڈ ریگو اس واقعہ کو بھولے نہیں تھے۔ بش انتظامیہ میں مشرقی ایشیا کے ملکوں انڈونشیا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بموں کے دھماکے ہوۓ تھے۔ جنہیں القاعدہ کی دہشت گردی بتایا جاتا تھا۔ ایسے حالات میں فلپائن کے Davao   شہر کے ایک ہوٹل میں امریکی شہری کے کمرے میں بم کا دھماکہ اور پھر ہسپتال سے اچانک اس کا غائب ہو جانا۔ لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتا تھا۔ صدر راڈ ریگو اس واقعہ کے حقائق جاننا چاہتے ہیں۔ صدر راڈ ریگو کے امریکہ سے دور ہونے کے فیصلے میں اس غصہ کا اظہار بھی ہے۔ کسی نہ کسی کو کہیں نہ کہیں امریکہ پر غصہ ہے۔ جو امریکہ کے صدارتی انتخابات میں بھی نظر آ رہا ہے۔ اس غصہ نے ڈونالڈ ٹرمپ کو بھی Extreme بنا دیا ہے۔