Sunday, September 30, 2018

President Trump Is Wrong About Iran And Wrong On China


President Trump Is Wrong About Iran And Wrong On China

This Is The World Opinion That Iran’s JCPOA Is Working Just Fine, And China Never Interfere In Other Countries Internal Affair

مجیب خان
President Donald Trump chairs a UN Security Council meeting on September 26, 2018

Chinese  Foreign Minister Wang Yi during a UN Security Council Session Chaired by President Trump

Iran's President Hassan Rouhani addresses the General Assembly
  
  اس ماہ امریکہ سلامتی کونسل کا صدر تھا۔ صدر ٹرمپ نے سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس کی صدارت کی تھی۔ کونسل کے اراکین سے صدر ٹرمپ نے خطاب کیا تھا۔ اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے کونسل کے اراکین سے ایران کا ایٹمی سمجھوتہ ختم کرنے کا اصرار کیا تھا۔ امریکہ نے ایران پر جو اقتصادی بندشیں عائد کی ہیں ان پر عملدرامد کرنے کے لئے زور دیا تھا۔ اور انہیں یہ دھمکی بھی دی تھی کہ جو ملک ان بندشوں کی خلاف ورزی کریں گے امریکہ ان کے خلاف کاروائی کرے گا۔  سلامتی کونسل کے جن 14 اراکین سے صدر ٹرمپ ایران کا سمجھوتہ ختم کرنے کی بات کر رہے تھے۔ ان سب نے امریکہ کے ساتھ اس معاہدے کی حمایت کی تھی۔ اور اس کی توثیق متفقہ طور پر سلامتی کونسل کی قرار داد 2231 منظور کر کے کی تھی۔ اور ایران پر سے تمام بندشیں ختم کر دی تھیں۔ کونسل کے کسی ایک رکن نے بھی اس سمجھوتہ کی مخالفت نہیں کی تھی۔ لیکن صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد ایران ایٹمی سمجھوتہ سے امریکہ کو علیحدہ کر لیا تھا۔ جو صدر ٹرمپ کا انتخابی مہم کا ایک وعدہ تھا۔ 2016 کے صدارتی انتخاب کی مہم میں ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ کو ایک بدترین سمجھوتہ کہا تھا۔ اور امریکی عوام سے کہا تھا کہ وہ اس سمجھوتہ کو ختم کر دیں گے۔ اور اس سے زیادہ بہتر سمجھوتہ کریں گے۔ یہ سمجھوتہ اوبامہ انتظامیہ میں ایران کے ساتھ دو سال تک مذاکرات ہونے کے بعد عمل میں آیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے صرف چند ماہ میں اس معاہدہ سے امریکہ کو علیحدہ کر لیا تھا۔ سلامتی کونسل کے 14 اراکین، نیو کلیر ماہرین، IAEA کے اعلی حکام  کے ایران ایٹمی سمجھوتہ کی بھر پور حمایت اور اس معاہدہ پر مکمل عملدرامد ہونے کے دعووں کے باوجود صدر ٹرمپ نے اپنے فیصلے پر دوسری بار غور کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ سلامتی کونسل کے اراکین کے ساتھ صدر ٹرمپ کی یہ پہلی face to face ملاقات تھی۔ سلامتی کونسل کے 14 اراکین نے اجلاس سے اپنے خطاب میں ایران سمجھوتہ سے اپنی یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔ سب نے اس سمجھوتہ کی حمایت کی تھی۔ سب نے اس سمجھوتہ پر عملدرامد کو انتہائی کامیاب بتایا تھا۔ لیکن اسرائیل امریکہ اور جان بولٹن اینڈ کمپنی کی "کامیابی" کی definition مختلف ہے۔ وہ صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے فیصلے کو درست اور بہت کامیاب کہتے ہیں۔ اور ایران کے ایٹمی پروگرام کے سمجھوتہ کو غلط اور انتہائی خطرناک کہتے ہیں۔ جس کی تائید دنیا میں صرف اسرائیل امریکہ سعودی عرب اور خلیج کے حکمران کرتے ہیں۔ دنیا کی اکثریت اب اقلیت کے ظلم اور ظالمانہ بندشوں کا شکار بن گئی ہے۔ ان کے درمیان امریکہ کا دنیا میں ایک ڈکٹیٹر کا رول بن گیا  ہے۔
  بولیو یا جو سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہے۔ اس کے بائیں بازو کے صدر Evo Morales نے اجلاس سے اپنے خطاب میں دنیا میں ہر مسئلہ پر امریکہ کو بڑی کھری کھری سنائی تھی۔ انہوں نے 1953 میں ایران میں ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے میں امریکہ کے رول کا ذکر کیا تھا۔ صدر Morales نے کہا "امریکہ انسانی حقوق اور انصاف کی پرواہ نہیں کرتا ہے۔ اگر یہ نظیر نہیں ہے تو پھر امریکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے کبھی دستبردار نہیں ہوتا۔ Migrant بچوں کو ان کے خاندانوں سے چھین کر انہیں جیلوں میں نہیں ڈالتا۔" فرانس کے صدر Emmanuel Macron نے کہا "ایران پر بندشیں لگانے کی پالیسی سے روکا نہیں جا سکتا ہے۔" برطانیہ کی وزیر اعظم Teresa May نے کہا " ایران کو نیو کلیر ہتھیار بنانے سے روکنے کے لئے JCPOA ایک اچھا معاہدہ ہے۔" چین اور روس نے بھی JCPOA کی حمایت کی تھی۔ اور اس کے نتائج پر مکمل اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ 4 ویٹو پاور ایران کے ساتھ معاہدہ کی مکمل حمایت کرتی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسے بینجمن ناتھن یاہو کے ضمیر سے دیکھتی ہے۔ اور اندرونی طور پر صدر ٹرمپ سیاسی مسائل میں جکڑ ے ہوۓ ہیں۔ صدر ٹرمپ کی شکایتیں یہ ہیں کہ 2015 میں ایران کے ساتھ معاہدہ ہونے کے بعد "ایران کی جارحیت خطہ میں بڑھ گئی ہے۔ ایران پر سے بندشیں ختم ہونے کے بعد جو فنڈ ز بحال ہوۓ تھے۔ انہیں دہشت گردی اور انتشار فروغ دینے اور نیو کلیر میزائل بنانے میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ الزامات اسرائیل کے دعوی ہیں۔ جنہیں ٹرمپ انتظامیہ ایک بڑا ایشو بنا رہی ہے۔  یورپی یونین کی طرف سے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات برقرار رکھنے کے لئے ادائیگی کا ایک خصوصی سسٹم قائم کیا جا رہا ہے۔  چین کے وزیر خارجہ Wang Yi کا زور اس پر تھا کہ ایران کے ساتھ تجارت Sovereign ملکوں کا حق ہے۔ اور اس کا احترام کیا جاۓ۔ سلامتی کونسل کے 14 اراکین کی راۓ میں ایران معاہدہ پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور یہ ایک اچھا معاہدہ ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ کی سلامتی کونسل میں ایک واحد آواز تھی جو اس معاہدہ کے خلاف تھی۔ صدر ٹرمپ سلامتی کونسل میں جمہوریت کے اکثریتی اصول کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ اور اپنا فیصلہ اکثریت پر مسلط کرنے کے لئے بضد تھے۔ صدر بش نے عراق کے بارے میں بھی اکثریت کی راۓ اور مخالفت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اور ایک مٹھی بھر اقلیت کے ساتھ دنیا کے امن پر عراق جنگ تھوپ دی تھی۔ صد ام حسین کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے کا الزام دیا تھا لیکن آخر میں یہ بش انتظامیہ تھی جس نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی کی تھی اور عراق پر حملہ کیا تھا۔ سلامتی کونسل کی کسی قرارداد میں عراق میں Regime change کے لئے نہیں کہا گیا تھا۔ اور اب صدر ٹرمپ کے Advisers اور Speechwriter  صدر ٹرمپ کو ایران میں اسی راستہ پر لے جا رہے ہیں۔ لیکن دنیا نے عراق میں امریکہ کے اس رول سے بڑا تلخ سبق سیکھا تھا۔ اور اس تجربہ کے پیش نظر امن اور استحکام کے مفاد میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے مسئلہ پر سمجھوتہ کو مڈل ایسٹ میں انتشار کی سیاست سے علیحدہ رکھا گیا تھا۔ جو ایک درست فیصلہ تھا۔ پھر یہ کہ مڈل ایسٹ میں ہر طرف ایران کے دشمن ہیں۔ جو چھریاں تیز کر کے وقت کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ اسرائیل کو اگر موقعہ ملا تو وہ ایران کو ہیرو شیما اور ناگا ساکی بنا دے گا۔ اس بیک گراؤنڈ میں صدر ٹرمپ کی ایران کے خلاف پالیسی سے سلامتی کونسل کے 14 اراکین نے ایک سنگل لفظ سے بھی اتفاق نہیں کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کو عراق تاریخ دوہرانے کی اجازت نہیں دی جاۓ۔
  امریکہ کا مالی خزانہ خالی ہے۔ لیکن امریکہ کا سیاسی خزانہ دنیا بھر کو الزام دینے اور ہر طرح کی دھمکیوں سے بھرا ہے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں صدر ٹرمپ نے بڑے ترش لہجہ میں چین کو نومبر میں امریکہ کے مڈ ٹرم انتخابات میں مداخلت کرنے کا الزام دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ چین مڈ ٹرم انتخابات میں ری پبلیکن پارٹی کی شکست چاہتا ہے۔ کیونکہ ان کی انتظامیہ کا ٹریڈ پر ایک سخت مؤقف ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا "وہ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ میں یا ہم جیتیں کیونکہ میں پہلا صدر ہوں جس نے ٹریڈ پر چین کو چیلنج کیا ہے۔" صدر ٹرمپ نے کئی مرتبہ یہ بھی کہا ہے کہ چین نے امریکہ کے ساتھ تجارت سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔ چین نے کھربوں ڈالر امریکہ سے ٹریڈ میں بناۓ ہیں۔ اور چین کی جدید تعمیر نو کی ہے۔ سڑکیں اور پل بناۓ ہیں۔
  جہاں تک امریکہ کے مڈ ٹرم انتخابات میں چین کی مداخلت کا سوال ہے اس میں مبالغہ آ رائی زیادہ ہے اور حقیقت  نہیں ہے۔ جیسا کہ چین کے وزیر خارجہ نے بڑے دو ٹوک لفظوں میں اس کا جواب دیا ہے کہ "بیجنگ سختی سے عدم مداخلت کی پالیسی کا پابند ہے۔ ہم نے کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے اور نہ کبھی کریں گے۔ ہم نے چین کے خلاف کسی بھی بے جواز الزامات کو قبول نہیں کیا ہے۔" صدر ٹرمپ کو چین کے ساتھ موازنہ یہ کرنا چاہیے کہ چین نے گزشتہ 50 سالوں میں کتنی جنگیں لڑی ہیں اور امریکہ نے کتنی جنگیں شروع کی ہیں۔ چین نے کتنے ملکوں میں regime change کرنے کی سیاست کی ہے۔ اور امریکہ نے کتنے ملکوں میں regime change کرنے کے لئے حملہ کیے ہیں۔ امریکہ کے دنیا میں کہاں کہاں فوجی اڈے ہیں۔ اور امریکہ ان فوجی اڈوں پر کتنا خرچ کرتا ہے۔
 چین جو پاکستان کا صدا بہار دوست ہے۔ اس کے 200 ملین لوگ یہ گواہی دے سکتے ہیں کہ چین نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی ہے۔ پاکستان میں فوجی حکومتیں آئی تھیں۔ سیاسی حکومتیں آتی جاتی رہیں۔ پاکستان میں سیاسی بحران بھی آۓ تھے۔ لیکن چین نے پاکستان کی اندرونی صورت حال سے کبھی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اس لئے چین اور پاکستان کے تعلقات صدا بہار ہیں۔ اور پاکستان کے لوگ چین سے دوستی پر فخر کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان نے بھی چین کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی ہے۔ دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی امریکہ کی ایک تاریخ اور ثقافت ہے۔ امریکہ نے عراق میں مداخلت کی ہے۔ امریکہ نے لیبیا میں مداخلت کی ہے۔ امریکہ نے شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے اور اپنے ساتھ دوسرے ملکوں کو بھی شام میں مداخلت کرنے کی دعوت دی ہے۔ امریکہ نے یمن میں مداخلت کی ہے۔ اپنے ساتھ سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں کو بھی جنگ کی صورت میں مداخلت کرنے کا موقعہ دیا ہے۔ یہ ایک بہت لمبی فہرست ہے۔ امریکہ نے ان ملکوں میں مداخلت کرنے میں 7 ٹیریلین ڈالر خرچ کیے ہیں جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے۔ ان ٹیریلین میں کچھ ٹیریلین چین کے ساتھ  تجارت سے امریکہ کے خزانہ میں آۓ تھے۔ جو امریکہ کے لیڈروں نے افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور نام نہاد دہشت گردوں کے خلاف جنگوں پر لوٹا دئیے ہیں۔ اور اب امریکہ کے 45 پریذیڈنٹ ڈونلڈ ٹرمپ الزام دوسروں کو دے رہے ہیں۔ امریکہ کو جنگوں سے نکالنے کے بجاۓ ایران کے ساتھ ایک  نئی جنگ اور Regime change کے لئے پلاننگ ہو رہی ہے۔                                           

Wednesday, September 26, 2018

Is Lying About Iran Necessary?


Is Lying About Iran Necessary?  

Great Nations Accept The Facts, That’s The Only Way America Can Be Great Again

مجیب خان
Syrian Rebels back by Israel

US trains Syrian Rebels

In Syria they are called Rebels, In Afghanistan, they are called Islamic Terrorists 

   صدر ٹرمپ کا America First نعرہ سمٹ کر اب صرف Trade میں America First رہے گیا ہے۔ اور  Geo Politics میں یہ  Israel First نعرہ ہو گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اب تک امریکہ کے لئے Trade میں اور اسرائیل کے مفاد میں Geo Politics  فیصلے کیے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ میں جان بولٹن کی قومی سلامتی امور کے عہدہ پر تعیناتی America First پر سمجھو تا تھا۔ عراق میں Regime change تحریک کے سرگرم رکن جان بولٹن کا ٹرمپ انتظامیہ میں شامل ہونے کا مقصد بہت واضح تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ  ایران میں Regime change کی سمت میں بڑھ رہی ہے۔ اسرائیل کا ایک اور مطالبہ پورا کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا ایران کے خلاف پراپگنڈہ تیز ہوتا جا رہا ہے۔  یہ پراپگنڈہ بالکل ان ہی خطوط پر ہے جس طرح عراق کے خلاف بش  انتظامیہ میں کیا جاتا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اعلی حکام ایران کے خلاف غلط بیا نیا ں کر رہے ہیں۔ انہیں ایران میں مذہبی رہنماؤں کی اہمیت کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔ جس دن سپریم آیت اللہ نے لوگوں سے جھوٹ بولا اسی دن ایران میں آیت اللہ ؤں  کی حکومت ختم ہو جاۓ گی۔ شیعہ مذہب میں سپریم آیت اللہ امام کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور قوم امام کے احکام کی پیروی کرتی ہے۔ آیت اللہ خمینائی نے مہلک ہتھیاروں کے خلاف فتوی دیا ہے جن میں ایٹمی ہتھیار بھی شامل تھے۔ اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ خمینی نے شاہ کے دور کے تمام ایٹمی پاور پلانٹ بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن پھر عراق کے ساتھ 9سال کی جنگ کے بعد جس میں ایران کے ایک لاکھ فوجی مارے گیے تھے۔ اور ایران کے اسلامی انقلاب کو سبوتاژ کرنے کی امریکہ اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی سازشوں کے پیش نظر آیت اللہ خمینی کے حکم پر یہ ایٹمی پاور پلانٹ دوبارہ کھولے گیے تھے۔ جس طرح اسرائیل اپنی سلامتی میں مہلک ہتھیاروں کو جمع کر رہا ہے۔ اسی طرح ایران بھی اپنی بقا میں ان ہتھیاروں پر انحصار کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ اس صورت حال کو Defuse کرنے کے بجاۓ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے اس پورے خطہ کو ہتھیاروں اور جنگوں کا خطہ بنا دیا۔ دنیا ذرا غور کرے اسرائیل 70 سال سے اس خطہ میں صرف جنگیں کر رہا ہے۔ اور جنگیں فروغ دے رہا ہے۔ اور یہ اسرائیلی یورپ سے یہاں آ کر آباد ہوۓ ہیں۔ یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد  یورپ کی سلامتی کا ایک سسٹم رائج کیا تھا اور یورپ کے لوگوں کو امن دیا تھا۔ لیکن مڈل ایسٹ میں یہ یورپ کی طرز پر سلامتی کا نظام رائج کرنے کی بات بھی نہیں کرتے ہیں اور صرف جنگوں اور ہتھیاروں کی زبان بولتے ہیں۔ 40 سال میں ایران کی حکومت نے مڈل ایسٹ میں ملکوں پر اس طرح بمباری نہیں کی ہے کہ جس طرح اسرائیلی حکومت 70 سال سے مڈل ایسٹ میں ملکوں پر بمباری کر رہی ہیں۔ یہ Facts ہے۔
  ایران کو اب اندر سے توڑنے کی پالیسی اختیار کی جا رہی ہے۔ عراق پر جو غیر انسانی اقتصادی بندشیں لگائی تھیں۔ انہیں اب ایران کے خلاف  استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ایران نے ایٹمی ہتھیاروں پر سمجھوتہ کیا ہے۔ اس پر عملدرامد بھی ہو رہا ہے۔ لیکن دنیا میں یہ معاہدہ ڈونالڈ  ٹرمپ اور بنجیمن ناتھن یاہو کو پسند نہیں ہے۔ اس لئے دنیا کو ایک اور Miserable صورت حال کا سامنا کرنا ہو گا۔ ایران میں Regime change کے لئے واشنگٹن میں سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں۔ اس مقصد میں ایرانی حکومت کے مخالفین کو جمع کیا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے وکیل Rudy Giuliani نے نیویارک میں مجاہدین خلق اور ایرانی حکومت کی مخالف تنظیموں سے خطاب میں کہا ہے کہ "ایران میں حکومت تبدیل ہو گی۔" امریکی ٹیلی ویژن کے مختلف چینلز پر سنڈے ٹا کس شو ز میں اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر Nikki Haley نے سی این این کے پروگرام اسٹیٹ آف دی یونین میں ایران میں فوجی پریڈ پر دہشت گردی کے حملہ پر کہا کہ "ایرانی حکومت کو دوسروں کو الزام دینے کے بجاۓ ایران میں عوام کی بڑھتی ہوئی مخالفت پر توجہ دینا چاہیے۔" اس سے قبل سفیر Nikki Haley اقوام متحدہ میں مڈل ایسٹ میں ایران کی مداخلت اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کا ذکر کرتی رہی ہیں۔
   سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا "ایران مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کر رہا ہے۔ شام عراق اور یمن میں ایران کی مداخلت جاری ہے۔ ایران دہشت گردوں کی حمایت کر رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ" سیکرٹیری آف اسٹیٹ نے full stop کے بغیر ایران پر وہ تمام الزامات لگا دئیے تھے۔ جو بش انتظامیہ میں سیکرٹیری آف اسٹیٹ اور دوسرے اعلی حکام عراق میں صد ام حسین پر لگاتے تھے۔ یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ اتنے اعلی عہدوں پر حکام صرف اسرائیل کے مفاد میں جھوٹ بول رہے ہیں اور اصل حقائق کو distort کر کے امریکہ کی عالمی ساکھ  خراب کر رہے ہیں۔ یہ Behavior امریکہ کو دنیا میں “Make America great again” نہیں بناۓ گا۔ ٹرمپ انتظامیہ میں اعلی حکام کے یہ Lies امریکہ کو small بنا رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ، سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo قومی سلامتی امور کے مشیر John Bolton اقوام متحدہ میں امریکی سفیر Nikki Haley مڈل ایسٹ میں ایران کو جب انتشار، دہشت گردی، تباہی، اموات، عدم استحکام پھیلانے کا الزام دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ISIS، القا عدہ، النصرہ، الشہاب، اور سینکڑوں دوسرے دہشت گرد اور جہادی گروپوں کو Defend کرتے ہیں۔ ویسے بھی ان دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں چند ماہ سے ٹرمپ انتظامیہ میں بالکل خاموشی ہے۔ ایران کو خطہ میں دشت گرد قرار دینے  سے ان جہادیوں کے ساتھ جیسے سمجھوتہ ہو گیا ہے؟
  لیکن بڑے اور اعلی ذمہ دار حکام کے ایران کے بارے میں مسلسل جھوٹ بولنے سے حقائق نہیں بدلیں گے۔ اس مرتبہ دنیا ایران کو بھی بڑے قریب سے واچ کر رہی ہے اور ٹرمپ انتظامیہ کے Behavior کو بھی دیکھ رہی ہے۔ امریکہ اور ایران عالمی شہریوں کی عدالت میں ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مڈل ایسٹ میں اسلامی انتہا پسندوں سے لڑائی میں جتنے ایرانی مارے گیے ہیں۔ مڈل ایسٹ کے کسی دوسرے ملک کے اس لڑائی میں شاید اتنے لوگ نہیں مارے گیے ہوں گے۔ عراق میں ایرانی فوج نے موصل کو ISIS سے آزاد کرانے کی لڑائی عراقی فوجوں کے ساتھ لڑی تھی۔ اور اس لڑائی میں ایران کے متعدد فوجی مارے گیے تھے۔ عراق کو امریکہ نے عدم استحکام کیا تھا۔ جسے استحکام دینے کی لڑائی ایران کو لڑنا پڑی ہے۔ شام کو اوبامہ انتظامیہ عدم استحکام کر کے گئی ہے۔ اس کے نتیجہ میں شام دہشت گردوں کی فیکٹری بن گیا ہے۔ یہاں ایران اور لبنان روس کے ساتھ مل کر شام سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ شام کے ایک بڑے علاقہ پر اوبامہ انتظامیہ کے واچ میں ISIS نے قبضہ کر لیا تھا اور یہاں اپنی ایک اسلامی ریاست قائم کر لی تھی۔ ایران لبنان اور شام کی فوجوں نے ISIS سے جنگ لڑی تھی۔ ISIS کو شکست دی تھی اور شام کا علاقہ آزاد کرایا تھا۔ اس لڑائی میں ایران کے بہت سے فوجی بھی مارے گیے تھے۔ اس لڑائی کے دوران اسرائیلی فضائیہ نے شام پر بمباری کی تھی جس میں ایرانی فوج کے افسر مارے گیے تھے۔ اسرائیل نے یہ فضائی حملہ ISIS  اور دوسرے جہادی گروپوں کی مدد میں کیا تھا۔ شام میں ایران کے 120 فوجی مارے گیے ہیں۔ جبکہ اسرائیل نے ایران کے فوجیوں پر علیحدہ بمباری کی تھی اور اس میں 25 سے زیادہ ایرانی فوجی مارے گیے تھے۔
  اسرائیل نے تقریباً 200 مرتبہ شام پر بمباری کی ہے۔ جو بالکل غیر قانونی تھی۔ اسرائیل کا شام میں مسلسل مداخلت کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اسرائیل دراصل اس مداخلت سے اسلامی دہشت گردوں کی مدد کر رہا تھا۔ جو ایران لبنان اور شام کی فوجوں سے بھی لڑ رہے تھے۔ امریکہ ایک طرف دنیا سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے پیغام دے رہا تھا اور دوسری طرف اسرائیل کے ساتھ دہشت گردوں کی فوج بنا رہا تھا۔ صد ام حسین نے صرف ان فلسطینیوں کی مالی مدد کی تھی۔ جن کے باپ، شوہر اور بھائی اسرائیلی فوج کی بربریت کے نتیجہ میں مر جاتے تھے۔ اور عورتیں بیوہ ہو جاتی تھیں۔ ان کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ صد ام حسین نے Humanitarian بنیاد پر ان فلسطینیوں کی مدد کی تھی۔  لیکن امریکہ نے اسے صد ام حسین کی مداخلت کہا تھا۔ اور عراق کے خلاف کاروائی اقتصادی بندشوں سے کی تھی۔ اسرائیل نے 200مرتبہ شام پر بمباری کی تھی۔ اسرائیل کی بمباری سے لوگ بھی مارے گیے تھے۔ املاک بھی تباہ ہوئی ہیں۔ کتنے شہر کھنڈرات بن گیے ہیں۔ لیکن 200 مرتبہ اسرائیلی بمباری میں مرنے والوں اور سماجی  تباہی پھیلنے کی تحقیقات ہونے کے بارے میں لکھا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی اس کی بات کرتا ہے۔ اسرائیل کو مڈل ایسٹ میں سب نے Free hand دے دیا ہے۔ مڈل ایسٹ میں انصاف نام کا کوئی قانون نہیں ہے۔ مڈل ایسٹ میں ساری سیاست جھوٹ پر ہو رہی ہے۔ ساری جنگیں جھوٹ پر ہو رہی ہیں۔ ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے پھر دوسرا جھوٹ بولا جاتا ہے۔ اور پھر پہلے اور دوسرے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے تیسرا جھوٹ بولا جاتا ہے۔ اور پھر انتظامیہ کے اعلی حکام روزانہ جھوٹ بولنے لگتے ہیں کہ لوگ یقین کرنے لگے گے۔ امریکہ میں ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ امریکی اتنی زیادہ شراب پیتے ہیں کہ انہیں کچھ یاد نہیں رہتا ہے۔ اور انتظامیہ کے ذمہ دار انہیں جو بتاتے ہیں وہ اس پر یقین کرنے لگتے ہیں۔ اور اب ایران کے بارے میں لوگوں غلط حقائق بتاۓ جا رہے ہیں۔
  حیرت کی بات ہے کہ عالمی میڈیا بالخصوص امریکی میڈیا میں اس اسرائیلی رپورٹ کا کوئی ذکر نہیں ہے جس میں اسرائیلی فوج نے شام میں باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ اس خبر کو اسرائیلی حکومت نے جلدی سے سنسر کر دیا تھا۔ یہ خبر سب سے پہلے یروشلم پوسٹ نے دی تھی۔ جو اسرائیل کا ایک بڑا اخبار ہے۔ اخبار کی اس تفصیلی رپورٹ میں اسرائیلی فوجی حکام کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ انہوں نے 7 مختلف شامی باغی گروپوں کو بڑے پیمانے پر کیش، ہتھیار اور گولا بارود فراہم کیے تھے۔ تاہم رپورٹ میں ان گروپوں کے نام نہیں بتاۓ گیے تھے۔ کچھ عرصہ قبل بھی ایک ایسی ہی رپورٹ منظر پر آئی تھی اور اس میں بھی اسرائیل باغی گروپوں کو کیش اور ہتھیار دینے کا بتایا گیا تھا۔ اس وقت اسد حکومت نے کہا تھا کہ اسرائیل کئی دہشت گروپوں کو ہتھیار فراہم کر رہا تھا۔ اور اس کے فوجیوں نے متعدد بار ان سے  یہ اسلحہ اور گولہ بارود اپنے قبضہ میں لیا تھا۔ جن پر Hebrew میں تفصیل لکھی ہوتی تھی۔ 20 جنوری 2017 میں وال اسٹریٹ جنرل نے اپنی ایک رپورٹ میں Moatasem al-Golani گروپ کے ترجمان کے حوالے سے بتایا تھا کہ "ہم آج اسرائیل کی مدد کی وجہ سے زندہ ہیں۔" اسرائیلی فوج کو  یہ  اعتماد تھا کہ گولان کے ساتھ اسرائیلی سرحد پر باغی گروپوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا ایک درست  فیصلہ تھا۔ اس “Operation Good Neighbor” کے دوران باغی گروپوں کو کیش اور ہتھیار فراہم کرنے کا اسرائیل کا مقصد حزب اللہ اور ایران کو اسرائیل کی گولان کی چوٹیوں سے دور رکھنا تھا۔ اور جولائی میں اسد حکومت نے جب گولان کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔ تو اسرائیل نے یہ پروگرام  بند کر دیا تھا۔
  امریکہ کی 36 انٹیلی جینس ایجنسیوں نے جس میں ملٹری انٹیلی جینس بھی شامل تھی۔ شام میں اسرائیل کی باغی دہشت گردوں کو کیش، ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کرنے کی رپورٹ کیا صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو دی تھی؟ صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس سے خطاب میں عالمی برادری کو بتایا کہ “Iran fomenting instability in the Middle East through its support for militant groups in Syria, Lebanon and Yemen. Iran’s leaders sow chaos, death and destruction.  They do not respect their neighbors or borders or the sovereign rights of nations”

    Israel Army Admits to Arming Syria Rebels, Then Censors Story
The Jerusalem Post published an article quoting Israeli military officials as saying that they had been providing seven different Syrian rebel groups with “Large amounts of cash, weapons, and ammunition.”

  Even more interesting is that the Israeli military initially told Jerusalem Post this, and then forced the article to be taken down under military censorship rules. The Israeli military is legally empowered to censor the press.
Bashar Assad claimed that Israel had been providing arms to terror groups and its forces had regularly seized arms and munitions with inscriptions in Hebrew.

The Jerusalem Post  Sept 5, 2018

          
                        

Saturday, September 22, 2018

Successful Regional Peace Process In Korean Peninsula And Horn Of Africa


 Successful Regional Peace Process In Korean Peninsula And Horn Of Africa

مجیب خان
South Korean President Moon Jae-in and North Korean Leader Kim Jong Un in Pyongyang, sept 18, 2018


Ethiopian Prime Minister Abiy Ahmed and Eritrea's President Isaias Afwerki sign a  peace agreement

Eritrean women hold flowers and flags to welcome passengers of the flight from the Ethiopian capital Addis


     2018کا سال ختم ہونے میں تقریباً 99 دن رہے گیے ہیں۔ اس سال پر بھی دنیا کے غیر یقینی حالات چھاۓ رہے۔ اس سال میں بھی مشرق وسطی کے حالات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جنگیں اس خطہ کے لوگوں کی زندگی کا جیسے حصہ بن گئی ہیں۔ اسرائیلی جس طرح 70 سال سے جنگوں میں خوشحال ہیں۔ مشرق وسطی کے لوگوں کو بھی اب جنگوں میں خوشحال رہنا سیکھنا ہو گا۔ اسرائیل نے اپنے قیام کے 71 سال کا آغاز بھی فلسطینیوں کو ہلاک کرنے اور اپنے ہمسایہ ملکوں پر بمباری کرنے کی پالیسی سے کیا ہے۔ لہذا یہ اسرائیلی پالیسی  آنے والے سالوں میں بھی جاری رہے گی۔ اسرائیل کی فوجی طاقت اس خطہ میں امن کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ صد ام حسین اور معمر قد ا فی کو اقتدار سے ہٹانے سے مشرق وسطی کے حالات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ بلکہ مشرق وسطی جہنم بن گیا ہے۔ کہیں لوگ اسرائیلی بمباری سے مر رہے ہیں۔ کہیں سعودی بمباری سے لوگ مر رہے ہیں۔ کہیں امریکہ کی بمباری تباہی پھیلا رہی ہے۔ کہیں اسلامی دہشت گرد ملک، شہر، خاندانوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ مشرق وسطی میں جنگوں کا یہ سلسلہ 2019 میں بھی اسی طرح جاری رہے گا۔ اس خطہ میں پرامن حالات دنیا کے لئے ایک بڑا معجزہ ہوں گے۔
  آ بناۓ کوریا اور Horn of Africa کے لوگوں کے لئے 2018 اس لئے ایک اچھا سال ہے کہ ان کی قیادتوں نے امن، استحکام اور عوام کی خوشحالی کے مفاد میں جنگوں کے سیاہ حالات اور کشیدگی کی تاریکی سے نکلنے میں اہم فیصلے کیے ہیں۔ شمالی کوریا کی قیادت نے ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور جنوبی کوریا کی قیادت نے شمالی کوریا کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ اور People to People تعلقات بحال کرنے کو اہمیت دی ہے۔ People to People تعلقات امن کی ضمانت ہوتے ہیں۔ جبکہ اریٹریا اور ایتھوپیا میں 20سال کی جنگ کے بعد دونوں ملکوں نے صلح کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایتھوپیا کے نئے وزیر اعظم Abiy Ahmed نے دو ہمسایہ ملکوں میں کشیدگی ختم کرنے میں پیش رفت کی ہے۔ ایتھوپیا نے متنازعہ سرحد تسلیم کر لی ہے جو دونوں ملکوں میں تنازعہ کا سبب تھا۔ جولائی میں وزیر اعظم احمد  اریٹریا گیے تھے۔ پھر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس میں جنگ ختم کرنے اور امن اور دوستی کا ایک نیا دور شروع کرنے کا کہا گیا تھا۔ اس اعلامیہ کے بعد اریٹریا اور ایتھوپیا میں لوگ خوشی سے سڑکوں پر آ گیے تھے۔ یہاں بھی شمالی اور جنوبی کوریا کی طرح خاندان ایتھوپیا اور اریٹریا میں تقسیم تھے۔ لوگوں میں اب یہ مسرت ہے کہ وہ آزادی سے ایک دوسرے کے ملک میں سفر کریں گے۔ ایتھوپیا نے 1960s میں اریٹریا پر قبضہ کر لیا تھا۔ 30سال سے یہ تنازعہ تھا۔ 1993 میں اریٹریا میں ریفرنڈم کرایا گیا تھا۔ جس میں لوگوں کی ایک بھاری اکثریت نے آزادی کے لئے ووٹ دئیے تھے۔ اور پھر با ضابطہ طور پر اریٹریا  ایتھوپیا سے علیحدہ ہو گیا تھا۔ 1998 میں دونوں ملکوں کی سرحدوں پر ایک قصبہ پر ملکیت کا دعوی تنازعہ بن گیا تھا۔ تاہم اس قصبہ کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں تھی۔ لیکن دونوں ملکوں میں اس تنازعہ  میں 80 ہزار سے ایک لاکھ لوگ مارے گیے تھے۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہو گیے تھے۔ ایتھوپیا کے نئے وزیر اعظم احمد نے اریٹریا کے ساتھ سرحد پر قصبہ کو اس کی ملکیت تسلیم کر لیا ہے۔ اور دونوں ملکوں کے درمیان امن اور اقتصادی ترقی کی ایک نئی تاریخ بنانے کا آغاز کیا ہے۔ لیڈر وہ ہوتے جو Bold فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے۔ جو انسانیت کو جنگوں کی خونریزی سے نکالتے ہیں۔ لیڈر وہ نہیں ہوتے ہیں جو انسانیت کو مہینوں، سالوں جنگوں کی خونریزی میں رکھتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو مہذب دنیا کے لیڈر کہتے ہیں۔
  یہ جنوبی کوریا کے صدر Moon Jae-in کی لیڈرشپ ہے۔ جس نے شمالی کوریا کی قیادت کو ایٹمی ہتھیاروں کی سیاست ترک کر کے  اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے مشترکہ منصوبوں میں شامل ہونے کی ترغیب دی ہے۔ صدر Moon کے اقتدار میں آنے کے بعد آ بناۓ کوریا میں بڑی تیزی سے تبدیلی آئی ہے۔ جسے دنیا کا سب سے خطرناک خطہ کہا جا رہا تھا۔ جو دراصل ایک مبالغہ آ رائی تھا۔ حالانکہ مڈل ایسٹ سے زیادہ دنیا میں کوئی خطرناک خطہ نہیں ہے۔ صدر Moon نے پہلے شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong Un کو ایٹمی میزائلوں کے تجربے بند کرنے پر آمادہ کیا۔ پھر امریکہ کو فوجی مشقیں روکنے کا کہا۔ پھر صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے لئے راستہ بنایا۔ صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان جب آمنے سامنے بھیٹے ایک دوسرے کو سنا، دونوں ذہنوں سے غلط فہمیاں دور ہوئی ہیں۔ ایک دوسرے کا موقف سمجھنے اور غور کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ اختلافات کا بہترین علاج بات چیت میں ہے۔ جو دشمن کو دوست بنا دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان ایٹمی ہتھیاروں کو ختم کرنے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ اور اب اپنے ملک کو ایسٹ ایشیا کے دوسرے ملکوں کی صنعتی ترقی کے مقابلے پر لانا چاہتے ہیں۔ انہیں اس مشن کی تکمیل کے لئے ایک پارٹنر جنوبی کوریا کے صدر مون مل گیے ہیں۔ جو ایک طرف شمالی کوریا کے رہنما کم کے اس مشن  کے لئے راستہ بنا رہے ہیں اور دوسری طرف امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان Bridge کا کام کر ر ہے ہیں۔ صدر مون نے آ بناۓ کوریا کی صورت حال کو Take over کر لیا ہے۔ صورت حال کو خطرناک حد پر پہنچنے سے بچایا ہے۔ صورت حال کا امریکہ کا فوجی حل پیچھے دھکیلا ہے۔ اور شمالی کوریا کے ساتھ خود براہ راست ملوث ہوۓ ہیں۔ صدر مون کی یہ انتہائی ذہین اور کامیاب حکمت عملی ہے۔ جس کے نتائج جلد سامنے آۓ ہیں۔ شمالی کوریا کے ساتھ تنازعہ کا 80فیصد حل میں جنوبی کوریا کی کوشش ہیں۔ اور 20فیصد حل امریکہ کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ جس میں آ بناۓ کوریا میں 1950-1953 کی جنگ کو اب ختم کرنے کا اعلان شامل ہے۔ اس کے علاوہ اس خطہ سے فوجی اڈے ختم کرنے کا فیصلہ بھی ہے۔
   دوسری طرف شمالی کوریا کے رہنما کم جنگ ان کی ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہونے کی Step by Step حکمت عملی بہت معقول ہے۔ شمالی کوریا کی قیادت نے یہ حکمت عملی عراق لیبیا اور اب ایران کے تجربوں کو مد نظر رکھ کر بنائی ہے۔ لیبیا اور ایران نے بھی ایک امریکی انتظامیہ پر اعتماد کیا تھا۔ لیکن پھر دوسری انتظامیہ میں وہ لوگ تھے جنہوں نے بش انتظامیہ میں Regime change کو امریکہ کی خارجہ اور دفاعی Doctrine بنائی تھی۔ اور اس پر صدر بش نے عملدرامد کیا تھا۔ اس پر صدر اوبامہ نے عملدرامد کیا تھا۔ اس Doctrine کے حامیوں میں John Bolton بھی تھے جو اب صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں ہیں۔ شمالی کوریا اور ایران میں Regime change ان کے ایجنڈہ میں ہے۔ وہ لاکھ یہ کہتے رہیں کہ ان ملکوں میں Regime change ہمارا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ یہ یقین کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ عراق کے بارے میں بھی دنیا سے یہ ہی کہا گیا تھا کہ عراق میں Regime change امریکہ کا مقصد نہیں ہے۔ امریکہ عراق سے تمام مہلک ہتھیاروں کا خاتمہ چاہتا ہے۔ لیکن جب امریکہ کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ عراق میں تمام مہلک ہتھیاروں کا خاتمہ ہو گیا تھا امریکی فوجیں اسی وقت عراق میں گھستی چلی گئی تھیں۔ دنیا کو عراق میں مہلک ہتھیار دکھانے کے بجاۓ صد ام حسین کی underwear میں تصویریں دکھائی تھیں۔ بہرحال یہ تاریخ ہے۔ اور تاریخ سے قومیں ہمیشہ سبق سیکھتی ہیں۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ نے بھی اس تاریخ سے ضرور سبق سیکھا ہے۔ اس لئے وہ جنوبی کوریا کے ساتھ معاملات طے کرنے میں زیادہ comfortable نظر آتے ہیں۔
  شمالی کوریا نے ایٹمی ہتھیاروں کو ختم کرنے کا Process شروع کر دیا ہے۔ شمالی کوریا نے تمام ایٹمی تجربے جن میں ICBM میزائلوں کے تجربے بھی شامل ہیں بالکل بند کر دئیے ہیں۔ اس کے علاوہ زیر زمین نیو کلیر test site تباہ کر دیں ہیں۔  شمالی کوریا کے قیام کی تقریب کے موقعہ پر مارچ پا سٹ میں پہلی مرتبہ میزائلوں اور ہتھیاروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ شمالی کوریا کی طرف سے ان تمام فیصلوں اور اقدامات کے باوجود امریکہ کی پالیسی میں کوئی نمایاں flexibility نہیں آئی ہے۔ شمالی کو صرف یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ پہلے وہ اپنے تمام ایٹمی ہتھیاروں کو تباہ کرے اس کے بعد اقتصادی بندشیں ختم کرنے کی بات کی جاۓ گی۔ کچھ ایسا ہی پیغام صد ام حسین کی حکومت کو بھی دیا جاتا تھا۔ ایسے بیان سے امریکہ کے ارادوں میں کچھ شکوک پیدا ہونے لگتے ہیں۔ دنیا کو امن اور استحکام کے فیصلے صرف امریکہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیں بلکہ ان فیصلوں میں آ گے رہنا چاہیے۔  کم جونگ سے ملاقات کے بعد صدر مون نے پریس کانفرنس میں کہا
   “North Korea agreed to allow international inspectors to observe a permanent dismantlement of its key missile facilities and will take additional steps such as closing its main Yongbyon nuclear complex if the United States takes reciprocal measures. North and South Korea agreed that the Korean Peninsula should turn into a land of peace without nuclear weapons and threats.”              

Monday, September 17, 2018

International Criminal Court And Judges Are Threat For America's National Security

International Criminal Court And Judges Are A Threat For America's National Security  

The Court And Judges Are The Last Hope of
 Humanity

مجیب خان
War in Yemen

Victims of war in Syria

Saudi Arabia's war in Yemen

Human destructions in Syria



   صدر ٹرمپ نے اب تک بہت سے عالمی معاہدے کالعدم قرار دئیے ہیں۔ بہت سے عالمی فیصلے جو سابقہ انتظامیہ میں ہوۓ تھے ان پر عملدرامد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پریس پر حملہ کرنے کا موقف اختیار کیا ہے۔ Law of accountability سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ Rule of Law کی اہمیت Obsolete ہوتی جا رہی ہے۔ اور اب صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی امور کے مشیر جان بولٹن نے عالمی کریمنل کورٹ کو یہ دھمکی دی ہے کہ "اگر اس نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کے برتاؤ پر تحقیقات کرنے کی کوشش کی تو ہم اس کے ججوں اور پراسیکیوٹرز کی امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی لگا دیں گے۔ ہم امریکی اقتصادی نظام میں ان کے فنڈ ز پر بندش لگا دیں گے۔ ہم امریکہ کے کریمنل سسٹم کے تحت ان پر مقدمہ چلائیں گے۔ ہم یہ ہر اس کمپنی اور ریاست کے ساتھ بھی کریں گے جو عالمی کریمنل کورٹ کی امریکیوں کی تحقیقات میں معاونت کریں گے۔" عالمی کورٹ کے خلاف بیان میں جان بولٹن نے کہا کہ "یہ امریکی Sovereignty سے تجاوز کرتا ہے۔ بے ضبط طاقت اور غیر موثر، بلا وجہ اور بلا شبہ سراسر خطرناک ہے" قومی سلامتی امور کے مشیر جان بولٹن کی عالمی عدالت کے ججوں کو دھمکیاں دینے پر یورپی دارالحکومتوں میں اس پر ابھی تک کوئی رد عمل نہیں ہوا ہے۔ دنیا میں جو قانون کی بالا دستی کی تبلیغ کرتے ہیں انہوں نے بھی جان بولٹن کی عالمی عدالت کے ججوں کو دھمکیوں کی مذمت نہیں کی ہے۔ اگر ایسا بیان روس کے صدر کی طرف سے آتا تو بلاشبہ واشنگٹن میں زلزلہ آ جاتا۔ حکومتوں کی طرف سے بیانات کا ایک سیلاب آ جاتا۔ مغربی عالمی اخبارات میں اس پر ادارئیے لکھے جا رہے ہوتے۔
   دنیا میں Rule of Law سب کے لئے ہو گا۔ اس کا اطلاق سب پر مساوی ہو گا۔ چھوٹے اور بڑے، امیر اور غریب سب ملکوں کے لئے ایک قانون ہو گا۔ سب صرف اس قانون کے ماتحت ہوں گے۔ اسی صورت میں دنیا میں نظم و ضبط ہو گا۔ قوموں کی سلامتی بھی صرف اسی صورت میں یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ قوموں کی Sovereignty بھی Rule of Law کا حصہ ہے۔ بڑے اور طاقتور ملکوں کو چھوٹے اور کمزور ملکوں کی Sovereignty میں مداخلت کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ حالیہ چند برسوں سے یہ خصوصی طور پر نوٹ کیا جا رہا ہے کہ طاقتور ملکوں کی کمزور ملکوں  میں مداخلت کرنے کی عادت ہو گئی ہے۔ طاقتور ملکوں کی اس عادت کے نتیجہ میں ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بری طرح عذاب میں آ گئی ہیں۔ ان کے گھر اور خاندان تباہ اور برباد ہو گیے ہیں۔ ان کے ملک تباہ اور شہر کھنڈرات بن گیے ہیں۔ کئی نسلوں کا مستقبل تاریک ہو گیا ہے۔ لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے پڑے ہیں اور ان کا کوئی پرساں حال نہیں ہے۔ یہ بے گناہ انسانیت کے ساتھ بدترین ظلم ہے۔ اور یہ Crime against Humanity ہیں۔ غیر ملکی مداخلت اور غیر قانونی جنگیں اس کا ایک بڑا سبب ہے۔ یہ جنگیں ان ملکوں کے شہریوں کی اجازت کے بغیر ان پر مسلط کی گئی ہیں۔ اس سے ان کے ملک کی Sovereignty پامال ہوئی تھی۔ جو Victims ہوتے ہیں۔ قانون ان کی آخری امید ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ انصاف کرتا ہے۔ عراق، لیبیا، شام، یمن غیر قانونی جنگیں ہیں۔ جس سے ان کی Sovereignty پامال ہوئی ہے۔ اصولی طور پر افغان جنگ بھی غیر قانونی ہے۔ نیٹو کی افغانستان میں مداخلت بھی غیر قانونی ہے۔ افغانوں نے امریکہ پر حملہ نہیں کیا تھا۔ طالبان امریکہ کے خلاف دشت گردی نہیں کر رہے تھے۔ طالبان کا سنگین جرم صرف یہ تھا وہ مجاہدین بن گیے تھے۔ انہوں نے سی آئی اے سے تربیت لی تھی۔ کمیونسٹ فوجوں کے خلاف دہشت گردی کی جنگ لڑنے لگے تھے۔ انہیں اسلام کے نام پر گمراہ کیا گیا تھا۔ اور دو طاقتوں کے درمیان سیاسی نظریات کی جنگ افغانستان میں اسلام کی جنگ بنا دی تھی۔ حالانکہ مشرقی یورپ کے عیسائی ملکوں میں بھی سوویت یونین کی فوجیں اسی طرح آئی تھیں جس طرح یہ افغانستان میں آئی تھیں۔ لیکن انہوں نے پولینڈ، مشرقی جرمنی، ہنگری، چیکوسلاوکیہ اور مشرقی یورپ کے  دوسرے ملکوں میں لوگوں کو سوویت فوجوں کے خلاف گوریلا جنگ پر نہیں اکسایا تھا۔ یورپ میں انہوں نے ایک سیاسی اور سفارتی ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کیا تھا۔ اور یورپ میں امن رکھا تھا۔ لیکن افغانستان جیسے ایک Rigid اسلامی ملک میں انہوں نے لوگوں کو کمیونسٹ فوجوں کے خلاف جہاد کرنے کی تبلیغ کی تھی۔ یہ اس جہاد کے نتائج ہیں جو ابھی تک اسلامی دنیا کا پیچھا کر رہے ہیں۔ اسلامی ملکوں میں تباہی پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا ذمہ دار کون تھا؟ اس لڑائی میں انسانیت کے خلاف جو کرائم ہوۓ تھے۔ ان کی accountability ہونے سے افغان جنگ کا مسئلہ حل ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ accountability طالبان چاہتے ہیں اور نہ ہی امریکہ اور نیٹو ممالک چاہتے ہیں۔ تاریخ جب ان سے یہ تسلیم کر والے گی کہ افغانستان میں اسلامی جہاد فروغ دینے کا ان کا فیصلہ غلط تھا۔ دنیا کو اس دن افغان جنگ سے شاید نجات مل جاۓ گی۔
  عراق دنیا کے امن استحکام اور سلامتی کے لئے کبھی کوئی خطرہ نہیں تھا۔ حقیقت میں یہ دنیا تھی جو عراق کے استحکام اور سلامتی کی دشمن بن گئی تھی۔ عراق ایک چھوٹا ملک تھا۔ اور اس کے پاس دولت بے پناہ تھی کہ اس کا ہر شہری Millionaire بن سکتا تھا۔ لہذا دنیا کے سارے چور اور ڈاکو اس کے پیچھے لگ گیے تھے۔ عراق کے لوگ آج دنیا کے غریب ترین ہیں۔ عراق کی Sovereignty کو جیسے سب نے Rape کیا تھا۔ عراق کے خزانے سے 90بلین ڈالر غائب ہو گیے تھے۔ اس کی کوئی تحقیقات نہیں ہوئی تھی۔ کئی سو عراقی پروفیسروں، ڈاکٹروں، Engineers سائنسدانوں اور دانشوروں کی لاشیں نالے اور کھائیوں میں پڑی تھیں۔ ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی تھیں۔ انہیں کس نے قتل کیا تھا؟ اس کی کسی نے تحقیقات نہیں کی تھی۔ صد ام حسین  پر انسانیت کے خلاف کرائم کا کیس بنانے کے لئے عراق کے ریگستانوں کو کھودا جاتا تھا اور وہاں سے انسانی ہڈیاں نکالی جاتی تھیں۔ لیکن جو لاشیں سامنے پڑی تھیں۔ انہیں انسانیت کے خلاف کرائم نہیں سمجھا  تھا۔ Rule of Law کا اطلاق بھی پسند اور نا پسند کے مطابق ہونے لگا تھا۔ یہ بھی ایک سبب ہے کہ لوگوں کو انصاف دینے کے بجاۓ انہیں دہشت گردی کے راستہ پر رکھا گیا تھا۔ یہ تاریخ ہماری نگاہوں کے سامنے بنی ہے۔ ہم سب اس تاریخ کے گواہ ہیں۔ یہ Historical Myth نہیں ہے۔
  صد ام حسین نے کویت پر حملہ کیا تھا۔ اور سعود یوں نے یمن پر حملہ کیا ہے۔ سعود یوں نے جس طرح ایک غریب ترین یمن کو تباہ کیا ہے۔ اس کے قدیم تاریخی اثاثے تباہ کیے ہیں۔ اس کے اسکولوں، ہسپتالوں، معیشت اور انفرا سٹکچر کو تباہ کیا ہے۔ اسے دیکھ کر صد ام حسین کویت پر فوجی حملہ میں ایک Gentleman Human نظر آتے ہیں۔ ان کی فوجوں نے کویت کو اس طرح تباہ نہیں کیا تھا۔ کویت کو کھنڈرات نہیں بنایا تھا۔ کویت میں شاہی خاندان کے محل لوٹے اور تباہ نہیں کیے تھے۔ لیکن امریکہ برطانیہ اور فرانس کی اخلاقی قدریں یہ ہیں کہ انہوں نے یمن میں سعودی بمباری میں بچوں اور عورتوں کی ہلاکتوں سے منہ موڑ لیا ہے۔ 29 بچے ان کی بمباری میں مر گیے تھے۔ لیکن صدر ٹرمپ اور اقوام متحدہ میں ان کی سفیر Nikki Haley نے اس طرح کے بیان نہیں دئیے تھے جس طرح انہوں نے شام میں بچوں کے مرنے پر دئیے تھے۔ انہوں نے  Petrodollar  کو انسانیت پر فوقیت دی تھی۔ جو ان کے لئے خوشحالی لا رہا تھا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کو یمن میں جنگی جرائم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کی بمباری سے ہزاروں شہری ہلاک ہوۓ ہیں۔ بمباری رہائشی علاقوں، مارکیٹوں، جنا زوں، شادی کی تقریبات، جیلوں، کشتیوں اور ہسپتالوں پر کی گئی ہے۔ جس میں لا تعداد شہری ہلاک ہوۓ ہیں۔ لیکن ان تمام رپورٹوں کے باوجود امریکہ برطانیہ اور فرانس یمن کی جنگ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کو ہتھیار فروخت کر رہے ہیں۔ اپنے اس اقدام سے یہ یمن کی جنگ کو طول دے رہے ہیں۔ یہ جنگ ختم کرانے میں انہیں جیسے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اور پھر ایران کو یہ الزام دیتے ہیں کہ وہ اس جنگ کو بھڑکا رہا ہے اور ہو تیوں کی مدد کر رہا ہے۔ وہ دن کی روشنی میں دنیا سے جھوٹ بول رہے ہیں۔
  مڈل ایسٹ میں انسانیت کے ساتھ یا تو کھیل ہو رہا ہے یا مذاق ہو رہا ہے۔ اور اس طرح Time pass کیا جا رہا ہے۔ شام میں تقریباً  4 لاکھ لوگ مارے گیے ہیں۔ لیکن اب عدلیب میں دہشت گردوں کے خلاف روس اور شام کے فوجی آپریشن میں انہیں چند ہزار شہریوں کے ہلاک ہونے پر پریشانی ہو رہی ہے۔ 6 سال تک امریکہ کے واچ میں 4لاکھ شامی مارے گیے ہیں۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ نے ان شہری ہلاکتوں کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔ باغی دہشت گردوں کو تربیت اور ہتھیا ر دیتے رہے۔ انہوں نے بحر روم کے سمندر میں معصوم بچوں اور لوگوں کی ڈوبتی لاشیں بھی دیکھی تھیں۔ انہوں نے یورپ کی طرف انسانوں کا سیلاب بڑھتا دیکھا تھا۔ لیکن پھر بھی شام میں ہتھیاروں کی فراہمی بند نہیں کی تھی۔ دہشت گردی کے اصل Victims شام، عراق ، لیبیا، یمن ہیں۔ جہاں 3ہزار کے مقابلے میں 50گنا زیادہ لوگ مارے گیے ہیں۔ جو دنیا کے سب سے پرامن شہری تھے۔ جن کا دنیا کی سیاست سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ انسانیت کے بارے میں امریکہ کا کبھی ایک موقف نہیں دیکھا گیا ہے۔ یہ ہمیشہ بدل جاتا ہے۔ باسنیا میں 2ملین مسلمان سرب فوجوں کی نسل کشی کی جنگ میں مارے جانے کے بعد، کانگو میں خونی لڑائی میں کئی لاکھ لوگ مارے جانے کے بعد، Rwanda میں Hutus and Tutsis میں خانہ جنگی جس میں 2ملین لوگ مارے گیے تھے۔ امریکہ اور مغربی ملکوں نے یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ یہ صورت حال پیدا نہیں ہونے دی جاۓ گی۔ اور انسانیت کو ہر قیمت پر ایسی تباہی سے بچایا جاۓ گا۔ لیکن پھر دیکھا یہ گیا ہے کہ جب انہیں ہتھیاروں کا کمرشل مفاد نظر آیا ہے۔ انہوں نے انسانیت سے منہ موڑ لیا ہے۔ اور انہوں نے انسانیت کے خلاف کرائم ہونے کی اجازت دی ہے۔