Wednesday, January 25, 2017

What Has The World Learned From Iraq?

What Has The World Learned From Iraq?

?Why Is America Not In Favor of A Nuclear Weapons-Free Middle East

مجیب خان

Iranian President Hassan Rouhani meets with Pope Francis 

Prime Minister Benjamin Netanyahu

Israeli Settlements near West Bank

Nearly one-third of Al- Walajas land has been confiscated by the Israel
     اسرائیلی رہنما یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل ہر طرف سے خطرناک ہمسائیوں میں گھرا ہوا ہے۔  لیکن اس وقت اسرائیل کے ان خطرناک ہمسائیوں میں امن اور استحکام تھا۔ اور اب اسرائیل کے لئے ہمسایہ شاید خطرناک نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ ہمسایہ اندرونی طور پر خطرناک عدم امن اور عدم استحکام میں گھرے ہوۓ ہیں۔ لیکن اسرائیل کو اپنے ہمسایہ میں خطرناک عدم امن اور عدم استحکام  کا اتنا خوف نہیں کہ جتنا اسرائیل کو ایران سے خطرہ ہے۔ جو اسرائیل کا ہمسایہ نہیں ہے۔ ایران خلیج کے حکمرانوں کا ہمسایہ ہے۔ یہ سنی حکمران ہیں۔ جن کے ساتھ اسرائیل نے اپنے مفاد میں خیر سگالی کا سمجھوتہ کر لیا ہے۔ جس کے بعد یہ سنی عرب حکمران بھی ایران کو خطرہ کہنے لگے ہیں۔ عراق کے حالات سے اسرائیلی بہت خوش ہیں۔ انہیں شاید  یقین ہو گیا ہے کہ عراق شیعہ سنی لڑائی کے Shackle سے برسوں نہیں نکل سکے گا۔ خلیج کے سنی حکمرانوں نے امریکہ کی مدد سے شام کو Ground Zero کر دیا ہے۔ اور یہ بھی اسرائیل کے مفاد میں خوش آئند ہوا ہے۔ اب اگر ایران کو بھی شام اور عراق کی طرح بنا دیا جاتا ہے۔ تو پھر اسرائیلی Kingdom مڈل ایسٹ سے Central Asia تک قائم ہو جاۓ گی۔ اور اسرائیل کے ایٹمی ہتھیار اس Kingdom کی حفاظت میں استعمال ہوں گے۔  
    عراق میں صد ام حسین کے اقتدار میں رہنے کو اسرائیل نے اپنی سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ بنا دیا تھا۔ بش انتظامیہ نے عراق کے مہلک ہتھیاروں کو مشرق وسطی میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے خطرہ بتایا تھا۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیر نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ صد ام حسین اپنے ایٹمی ہتھیار تین سیکنڈ میں Assemble   کر سکتے ہیں۔ اور برطانیہ کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ امریکہ کے 6 ہزار اور برطانیہ کے 600 فوجیوں نے صد ام حسین سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو لاحق خطرہ سے نجات دلانے کے لئے اپنی جانیں دی تھیں۔ لیکن پھر ثبوت یہ ملے کہ صد ام حسین کسی کے لئے بھی خطرہ نہیں تھے۔ اور عراق میں مہلک ہتھیار بھی نہیں تھے۔ یہ صرف Phony اور Fake خطرہ تھا۔ اور امریکی اور مغربی میڈ یا کے ذریعے دنیا سے جھوٹ بولا  گیا تھا۔ عربوں کو یہ Bull-shit دی گئی تھی کہ فلسطین کے تنازعہ کے حل میں صد ام حسین ایک بڑی رکاوٹ ہیں اور صد ام حسین کا مسئلہ حل ہونے کے بعد فلسطین کے تنازعہ کو حل کیا جاۓ گا۔ ایران کے بارے  میں جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ اور پراپگنڈہ Phony ہے۔
Zionism and Wahhabism is the Biggest Problem in the Middle East   
A Palestinian watching Israeli settlements on his land
      لیکن عراق میں ایک مسئلہ حل ہونے کے بعد دس نئے مسئلے پیدا ہو گیے ہیں۔ عراق عدم استحکام ہو گیا ہے۔ انتشار فسادات اور دہشت گردی نے ڈکٹیٹر کے نظام کی جگہ لے لی ہے۔ بش انتظامیہ افغانستان عراق اور القا عدہ کے ساتھ جنگوں میں الجھ گئی تھی۔ مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کے خلاف انتفا دہ شروع ہو گیا تھا۔ اسرائیلی حکومت نے چیرمین یا سر عرفات کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند کر دئیے تھے۔ اور چیرمین یا سر عرفات کو عالمی دہشت گرد کہنا شروع کر دیا تھا۔ لیکوڈ پارٹی کی درخواست پر بش انتظامیہ نے بھی چیرمین یا سر عرفات سے تعلقات منقطع کر لئے تھے۔ اور فلسطینیوں سے ایک نئی قیادت کے لئے اصرار کیا تھا۔ اس وقت تک  امریکہ نے بھی فلسطینیوں سے بات چیت بند کر دی تھی۔ یا سر عرفات دنیا چھوڑ کر چلے گیے۔ فلسطینیوں نے ایک نئی قیادت کے لئے جمہوری راستہ اختیار کیا تھا۔ اور انتخاب کر آۓ تھے۔ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے مندوبین کی موجودگی میں یہ انتخاب ہوۓ تھے۔ سابق صدر کارٹر بھی ایک امریکی وفد کے ساتھ فلسطینی علاقوں میں انتخاب کے موقع پر موجود تھے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور سابق صدر کارٹر نے انتخاب صاف ستھرا ہونے کی تصدیق کی تھی۔ حماس  60 فیصد ووٹوں سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی۔ جبکہ پی ایل او دوسرے نمبر پر آئی تھی۔ اسرائیل نے انتخاب کے نتائج قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اور حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔ بش انتظامیہ نے حماس کے سلسلے میں اسرائیل کے فیصلہ کی پیروی کی تھی۔ لیکن پی ایل او کے نئے صدر محمود عباس سے رابطہ رکھا تھا۔
     16 سال میں دو امریکی انتظامیہ میں فلسطین تنازعہ کے حل میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ لیکن Regime change کے ذریعہ دہشت گردی کو فروغ دیا گیا ہے۔ دنیا کو دہشت گردی میں مصروف کر دیا ہے۔ اور اسرائیل لاکھوں کی تعداد میں فلسطینیوں کی زمین پر نئی یہودی بستیاں تعمیر کرتا جا رہا ہے۔ امن سے اسرائیل کو جیسے نفرت ہے۔ دنیا دہشت گردی کے خلاف struggle کر رہی ہے۔ اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ امن میں پیشقدمی کرنا چاہیے تھی۔ لیکن اسرائیلی حکومت دہشت گردی کے حالات کا exploit کرنے کی سیاست کر رہی ہے۔ جیسا کہ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے امریکہ پر نائن الیون کی دہشت کے واقعہ پر کہا تھا کہ

“We are benefiting from one thing and that is the attack of the Twin Towers and Pentagon and the American struggle in Iraq (The events) swung American Public opinion in our favor. 9/11 terror attacks good for Israel.”

16 April, 2008
  Ma’ariv, Israeli Newspaper
  
     اس میں شبہ نہیں ہے کہ نائن الیون کے امریکہ پر حملہ سے اسرائیل نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔ دنیا کی توجہ اسلامی دہشت گردی پر لگا دی ہے۔ فلسطین تنازعہ کو حل نہ کرنے میں 16 سال اور گزار دئیے ہیں۔ اس تنازعہ میں جتنا وقت گزر رہا ہے۔ اسرائیل اپنی پوزیشن مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ عرب دنیا میں ان قوم پرست اور سیکولر حکومتوں کو تبدیل کرنے کی مہم چلائی گئی تھی۔ جو 30 سال سے اسلامی انتہا پسندوں سے لڑ رہی تھیں۔ اسرائیلیوں نے چیرمین یا سر عرفات کو کمزور کر دیا تھا۔ اور حماس کو ابھرنے کا موقعہ دیا تھا۔ اور پھر مقبوضہ فلسطین کے حالات کو اسرائیلی حکومت نے اپنے مفاد میں exploit کیا تھا۔ عرب اسپرنگ سے بھی اسرائیل نے فائدہ اٹھایا ہے۔ عرب اسپرنگ خلیج کے حکمرانوں کے مفاد میں تھا اور نہ ہی یہ اسرائیل کے مفاد میں تھا۔ اسرائیل کو ایران کے خلاف عرب حکمرانوں کی حمایت کی ضرورت تھی۔ اور عرب حکمرانوں کو عرب اسپرنگ سے نجات کے لئے اسرائیل کی مدد چاہیے تھی۔ اسرائیل نے عرب حکمرانوں کو عرب اسپرنگ سے نجات دلانے کا یقین دلایا تھا۔ اور عرب حکمرانوں نے ایران کے خلاف اسرائیل کے موقف کی حمایت کی تھی۔ سعودی شاہ عبداللہ مرحوم نے کہا کہ "ایران ایک زہریلا سانپ ہے اور اس کا سر کچل دیا جاۓ۔"  اب اسرائیل اور سعودی عرب ایران کا سر کچلنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
    ایران کے اسلامی انقلاب کو 37 برس ہو گیے ہیں۔ لیکن ان 37 برسوں میں کہیں بھی ایسے ثبوت نہیں ہیں کہ ایران نے اپنا اسلامی انقلاب عربوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی تھی۔ یا عرب ملکوں میں شیعہ آبادی کو عرب حکومتوں کے خلاف اکسایا تھا۔ شیعہ سنی کا فساد امریکہ اور برطانیہ کے عراق پر حملہ نے پیدا کیا تھا۔ اور ان عرب حکمرانوں نے عراق پر حملہ میں امریکہ اور برطانیہ کی مدد کی تھی۔ جبکہ ایران نے عراق پر حملہ کی مخالفت کی تھی۔ اس صورت حال سے بھی اسرائیل نے فائدہ اٹھایا تھا۔ 300 ملین کی آبادی کے عربوں کے خطہ میں 80 ملین کی آبادی کے ایران سے عربوں کو کس خطرے کا سامنا ہے۔ شام کو نیو کلیر ہتھیاروں نے ہیروشیما اور ناگا ساکی نہیں بنایا ہے۔ لیکن اسرائیل اور سعودی عرب ابھی تک ایران کے نیو کلیر پروگرام سے خطروں کی بات کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایران کے نیو کلیر پروگرام پر سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس کی توثیق کر دی ہے۔ اور اس پر عملدرامد ہو رہا ہے۔ اسرائیل کو ایران کے ایٹمی پروگرام پر اتنا وا ویلا کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ اسرائیل خود ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے۔ تعجب کی بات ہے اسرائیل کے ساتھ عربوں کی تین جنگیں ہوئی ہیں۔ اسرائیل عربوں کے علاقوں پر قابض ہے۔ جنگ کے حالات بدستور عربوں پر منڈ لا  رہے ہیں۔ لیکن سعودی عرب اور دوسرے عرب حکمران مڈل ایسٹ کو ایٹمی ہتھیاروں سے آزاد خطہ قرار دینے کا مطالبہ کیوں نہیں کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایران اس کی حمایت میں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل کو فلسطین کا تنازعہ حل نہ کرنے اور عربوں کے علاقوں پر قبضہ رکھنے کے لئے اس خطہ میں ایسے دشمن ہونا ضروری ہیں جن سے دنیا کے لئے خطرہ بتایا جاۓ اور پھر دنیا کی توجہ ان سے نمٹنے پر لگی رہے۔ امریکہ نے مڈل ایسٹ میں کب درست فیصلے کیے ہیں۔ امریکہ کے مڈل ایسٹ میں غلط فیصلے اسرائیل کے لئے درست فیصلے ہوتے ہیں۔
    اسرائیل کے وزیر اعظم بنجیمن نتھن یا ہو نے اپنے فیس بک پر ایرانی عوام سے ایک و ڈیو پیغام میں کہا ہے کہ "ہم آپ لوگوں کے دوست ہیں۔ آپ کے دشمن نہیں ہیں۔ آپ کی ایک قابل فخر تاریخ ہے۔ آپ کی ایک شاندار ثقافت ہے۔ یہ المیہ ہے کہ آپ ایک جابرانہ مذہبی حکومت کی بیڑیوں میں جکڑے ہوۓ ہیں۔" ایران میں ملاؤں کے اقتدار کو 37 سال ہو گیے ہیں۔ 37 سالوں میں ایران میں تقریباً سات انتخاب ہو چکے ہیں۔ ایرانی اپنی قیادت کا چناؤ کرتے ہیں۔ ایرانیوں کی یہ سیاسی تربیت مذہبی ملاؤں کے نظام میں ہو رہی ہے۔ اور ایک جمہوری نظام ایران میں فروغ پا رہا ہے۔ یہودی بھی اچھے لوگ ہیں۔ یہودیوں کی بھی ایک شاندار تاریخ ہے۔ لیکن اسرائیلی حکومت کا فلسطینیوں کے ساتھ سلوک ان کی شاندار تاریخ پر ایک سیاہ داغ ہے۔ 50 سال ہو گیے ہیں اسرائیل نے فلسطینیوں کو اپنے فوجی Concentration کیمپوں سے آزادی نہیں دی ہے۔                     

Friday, January 20, 2017

Donald J. Trump, The 45th President of The United States of America

 

Donald J. Trump, The 45th President of The United States of America




Drain The Swamp Now, Before The Swamp Drains You

مجیب خان

    ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے 45 ویں صدر بن گیے ہیں۔ امریکہ کی سیاست میں اب ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کی ایک تاریخی صدارتی مہم تھی۔ ایسی صدارتی مہم امریکہ کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ صدر ٹرمپ امریکہ کے پہلے صدر ہیں جن کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے۔ امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی اسٹبلشمینٹ سے کوئی وابستگی ہے اور نہ ہی امریکہ کی خارجہ پالیسی اور ڈیفنس پالیسی اسٹبلشمینٹ سے کوئی تعلق ہے۔ Real estate developer بزنس میں زندگی گزری ہے۔ ایک ایسے شخص نے ری پبلیکن پارٹی کی تاریخ میں پرائم ریز میں سب سے زیادہ ووٹ لئے تھے۔ اور ری پبلیکن پارٹی کی اعلی Hierarchy کی پشت پنا ہی کے بغیر ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارتی مہم چلائی تھی۔ اور صدر منتخب ہو گیے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر ٹرمپ ری پبلیکن پارٹی کی اعلی Hierarchy کی حمایت کے بغیر جس طرح صدر منتخب ہو ۓ ہیں۔ کیا ان کی انتظامیہ میں پارٹی کی اعلی Hierarchy کی حمایت کے بغیر فیصلوں اور پالیسیوں پر عملدرامد بھی اسی طرح ہو گا؟ صدر ٹرمپ کو معلوم ہے کہ لوگ ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اور وہ امریکی عوام میں خاصے مقبول ہیں۔ صدر ٹرمپ امریکی میڈ یا پر جب سخت تنقید کرتے ہیں۔ انٹیلی جنس پر زیادہ اعتماد نہیں کر رہے ہیں۔ جواب دینے میں دیر نہیں کرتے ہیں۔ اور Tweet کر دیتے ہیں۔ امریکی عوام اس تبدیلی کو پسند کر رہے ہیں۔ بلکہ امریکی عوام صدر ٹرمپ سے انٹیلی جنس اداروں، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگان میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کرنے کی توقع بھی کر رہے ہیں۔ ان اداروں کی وجہ سے ادھا امریکہ ابھی تک سرد جنگ میں ہے۔ اور ادھا امریکہ گلو بل ور لڈ  میں ہے۔ سرد جنگ کے بعد امریکہ کی تاریخ میں دہشت گردی کے خلاف سب سے طویل جنگ ہے۔ جو افغانستان سے شروع ہوئی تھی۔ پھر مڈل ایسٹ پہنچ گئی تھی اور اب یورپ میں داخل ہو گئی ہے۔ نیٹو کے 27 ملک افغانستان میں یہ جنگ لڑ رہے تھے۔ اور اس جنگ میں سب ناکام ہو گیے تھے۔ صدر ٹرمپ شاید اس لئے بھی نیٹو کو Obsolete کہتے ہیں۔ نیٹو افغانستان کو امن اور استحکام دینے میں ناکام ہو گیا تھا۔ اور نیٹو اب یورپ کو عدم استحکام کی طرف لے جا رہا ہے۔ روس کے ساتھ ایک Artificial کشیدگی پیدا کر کے یورپ میں ہتھیاروں کی دوڑ شروع کی جا رہی ہے۔ اور اس طرح ہتھیاروں کی کمپنیوں کے لئے نئے موقعہ فراہم کیے جا رہے ہیں۔ روس کو امریکہ کے ساتھ یا یورپ میں اگر محاذ ار آئی کی سیاست کرنا تھی۔ تو روس سرد جنگ کبھی ختم نہیں کرتا۔ سرد جنگ ختم کرنے کا فیصلہ روس نے کیا تھا۔ اور روس کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ نیٹو ممالک روس کی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں بنیں گے۔
   سرد جنگ ختم ہونے کے بعد مشرقی یورپ کے ملک روس کے فوجی معاہدے سے نکل کر نیٹو میں بھرتی ہونے کی قطار میں کھڑے ہو گیے تھے۔ روس جیسے Out of Business ہو گیا تھا۔ اور نیٹو نے انہیں ملازمتیں دینا شروع کر دی تھیں۔ انہیں نیٹو میں بھرتی کر کے پھر افغانستان بھیج دیا تھا۔ مشرقی یورپ کے ملکوں نے نیٹو میں بھرتی ہونے میں جلد بازی کی تھی۔ انہیں یورپی یونین میں شامل ہو کر یورپ میں پہلے اپنی سیاسی اور اقتصادی پوزیشن مستحکم کرنا چاہیے تھی۔ روس میں عدم سیکورٹی کا احساس پیدا کرنے کے فیصلوں اور پالیسیوں سے خود کو الگ رکھنا چاہیے تھا۔ اگر نارتھ امریکہ اور لاطین امریکہ امریکہ کے خلاف ہو جائیں تو امریکہ اپنی سیکورٹی میں کیا کرے گا؟ روس اپنی سیکورٹی کے مفاد میں اپنی سرحدوں پر صرف استحکام اور امن دیکھنا چاہتا ہے۔ اور صدر ٹرمپ روس کے ان تحفظات کو با خوبی سمجھ رہے ہیں۔ لیکن روس کے ساتھ امریکہ کے اچھے تعلقات ہونے کے بارے میں صدر ٹرمپ کا موقف امریکہ کے اسٹبلشمینٹ کو تقسیم کر رہا ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کے موقف کی حمایت میں دھیمی دھیمی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی اسٹبلشمینٹ کے گاڈ فادر ہنری کیسنجر نے دسمبر 2014 میں صدر پو تن کے ساتھ 6 گھنٹے عالمی صورت حال پر بات کی تھی۔ اور ہنری کیسنجر صدر پو تن کے تحفظات زیادہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ بھی صدر ٹرمپ کے روس کے ساتھ اچھے تعلقات بحال کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔
   روس کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے بعد صدر ٹرمپ کی چین کے ساتھ تعلقات کشیدہ کرنے کی صدر ٹرمپ کی پالیسی بری طرح Back Fire ہو گی۔ چین کی دنیا کے ہر خطہ میں ساکھ  بہت اچھی ہے۔ چین سے قریبی تعلقات کے عشق میں برطانیہ نے یورپی یونین سے طلاق لے لی ہے۔ دنیا کے انتہائی کمزور اور چھوٹے ملکوں کے ساتھ جب Rule of Law میں امریکہ Fair نہیں ہے۔ تو Fair Trade کا سوال کیسا ہے؟ صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران امریکی عوام سے جتنے وعدے کیے ہیں۔ ان کی تکمیل کے لئے صدر ٹرمپ کو چین کے ساتھ تعلقات میں استحکام رکھنا ضروری ہے۔ ری پبلیکن پارٹی کے Hawkish صدر ٹرمپ سے امریکہ کی چین کے ساتھ تعلقات کی 40 سال پرانی پالیسی تبدیل کرنے پر زور دیں گے۔ تاہم چین کے ساتھ امریکہ کے اقتصادی تعلقات کی گہرائی اتنی زیادہ گہری ہے کہ صدر ٹرمپ کے لئے اس پالیسی کو تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے۔ امریکہ کی کمپنیوں اور کارپوریشنوں کے لئے چین ایک بلین لوگوں کی مارکیٹ ہے۔ اور یہ امریکہ سے زیادہ چین میں کاروبار کرتی ہیں۔ پھر چین ایشیا افریقہ اور لاطین امریکہ میں Human Development پر کھربوں ڈالر انویسٹ کر رہا ہے۔ طویل المدت میں اس سے تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ چین کی Human Development سرگرمیوں کی وجہ سے مشرقی ایشیا کے ملک بھی ایک بار پھر اس خطہ کو 50 اور 60 کی دہائیوں میں لے جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جبکہ مشرقی ایشیا کے ملک مغربی ایشیا میں Human Destruction بھی دیکھ رہے ہیں۔ جس پر امریکہ نے کھربوں ڈالر انویسٹ کیے ہیں۔

 Fair Trade? Is Rule of Law Fair for the small and weaker nations?
China has a huge contribution in the human development, and there are forces and alliances, they have huge investment in the human destruction as we are witnessing in Syria, in Iraq, in Yemen, and in Libya.
Tensions with China would be a tussle between human development and alliances of human destruction
President Vladimir Putin and President Xi Jinping
Construction near Kenya's Capital Nairobi and funded by the Kenyan and Chinese government and the African Development Bank 
Chinese and African workers building a railway track 

     مڈل ایسٹ کے حالات دیکھ کر صدر ٹرمپ ابھی سر کھجائیں گے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ ۓ گا کہ کہاں سے شروع کریں۔ سابقہ دو انتظامیہ میں القاعدہ کے خلاف جنگ، Regime Change’’  ,“Arab Spring” فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل میں ناکامیاں، اور اب شام کی خانہ جنگی میں ہولناک انسانی المیہ اور تباہیوں کے بعد صدر ٹرمپ کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس خطہ کا کیا کریں۔ اس خطہ کو اللہ نے جتنی دولت دی ہے۔ اور امریکہ کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں جتنی ترقی دی ہے وہ انہوں نے اس خطہ میں Human Destruction پر استعمال کی ہے۔ مڈل ایسٹ میں بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں کو شاید امریکہ پر اب بھی اعتماد ہو گا۔ لیکن عوام میں امریکہ کی ساکھ خراب ہے۔ صدر ٹرمپ کو صدر پو تن کے ساتھ مڈل ایسٹ میں استحکام اور امن کے لئے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ جبکہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کو حل کرنے کے لئے صدر ٹرمپ کو اپنی کوششیں کرنا ہوں گی۔ ٹرمپ انتظامیہ کے سامنے یہ بڑے چیلنج ہیں۔
  
Human Destruction in Yemen after Saudi-American led bombing

Syrian Rebels backed by U.S and Saudi Arabia

     یہ صدارتی انتخاب اس لحاظ سے بھی تاریخی تھے کہ پہلی مرتبہ امریکی عوام میں اتنے بڑے پیمانے پر سیاسی بیداری دیکھی گئی تھی۔ صدر ٹرمپ نے 18 ماہ میں اپنی انتخابی مہم میں امریکہ کے کرپٹ نظام کے بارے میں امریکی عوام سے جو باتیں کی تھیں۔ وہ ان کے ذہنوں میں اترتی گئی تھیں۔ اور پھر امریکہ کی ہر ریاست میں ہر شہر میں انہیں بار بار لوگوں کو ذہن نشین کراتے تھے۔ We will drain the swamps” "ہم امریکی کمپنیاں واپس امریکہ میں لائیں گے" "ہم امریکہ میکسیکو سرحد پر دیوار تعمیر کریں گے۔" ہم لوگوں کو صحت عامہ کا صدر اوبامہ کے نظام سے زیادہ اچھا نظام دیں گے۔" "ہم امریکہ کے اندرونی حالات بہتر بنانے پر توجہ دیں گے۔" “We will make America great again” "ہم سڑکیں اور پلوں کی تعمیر نو کریں گے۔" "ہمارے ایرپورٹ تیسری دنیا کے ایرپورٹ بن گیے ہیں۔ ہم  جدید ترین ایرپورٹ بنائیں گے۔" "ہم لوگوں کو Good Pay Job دیں گے۔" وغیرہ وغیرہ ۔ اس مرتبہ امریکی عوام صدارتی امیدوار کی ان باتوں کو بھولیں گے نہیں اور ان پر عملدرامد کا انتظار کریں گے۔
    کانگرس میں ری پبلیکن پارٹی کی اکثریت ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ کے ایجنڈے پر عملدرامد میں انہیں کانگرس کا کس حد تک تعاون ہو گا۔ اس کا انحصار صدر ٹرمپ کا اسٹبلشمینٹ کے ساتھ تعلقات پر ہو گا۔ ڈیمو کریٹ اقلیت میں ہیں۔ لیکن سینٹ میں یہ صدر ٹرمپ کے فیصلوں کو بلاک کر سکتے ہیں۔ تاہم دونوں پارٹیوں کی کوشش یہ ہو گی کہ صدر ٹرمپ کی خارجہ اور ڈیفنس پالیسیاں امریکہ کی روایتی اسٹبلشمینٹ پالیسیاں رہیں۔ بالخصوص روس کے ساتھ تعلقات میں محتاط رہا جاۓ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی پالیسیوں پر عملدرامد میں دونوں پارٹیوں سے مزاحمت میں کہاں تک جائیں گے۔
    آئندہ سال نومبر میں کانگرس اور سینٹ کے مڈ ٹرم الیکشن ہوں گے۔ اب جو کانگرس مین اور سینٹر ان کے لئے مسئلہ بنیں گے صدر ٹرمپ ان کے منتخب ہونے میں مسئلہ بن سکتے ہیں۔ لہذا ان کے لئے صدر ٹرمپ کے فیصلوں اور پالیسیوں کے خلاف جانا ذرا مشکل ہو گا۔ صدر ٹرمپ کے لئے نشیب و فراز بھی ہیں لیکن آ گے بڑھنے کے راستے بھی کشادہ ہیں۔ آئندہ چھ ماہ میں یہ واضح ہو جاۓ گا کہ صدر ٹرمپ کدھر جا رہے ہیں؟           

Sunday, January 15, 2017

The Champion Of Human Rights Disregards The Twenty-Four Million People Of Syria

The Champion Of Human Rights Disregards The Twenty-Four Million People Of Syria  

Syria Has Become A Graveyard For Human Rights

مجیب خان
New United Nations Secretary General Antonio Guterres

Destruction of Syria

Syria

    اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹیری جنرل Antonio Guterres نے سلامتی کونسل میں اپنے خطاب میں کہا ہے ک تنازعوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی  کرنے کے بجاۓ انہیں حل کرنے پر زیادہ توجہ دی جاۓ۔ سیکرٹیری جنرل نے کہا "انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور بڑے پیمانے پر تباہی سے بچنے کے لئے اسے روکنے کے فوری اقدام ضروری ہیں۔ اور ہم یہ صرف معقول مذاکرات، حقائق کی بنیاد پر اور حق تلاش کر کے حاصل کر سکتے ہیں۔" سیکرٹیری جنرل نے کہا " خود مختار طاقتور ریاستیں اپنے عوام کی بہبود میں اسے روکنے میں بہتر اقدام کر سکتی ہیں۔ انتہائی سنگین خطرے کی صورت میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی آرٹیکل 6 کے تحت وسیع اختیار حاصل کرنے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ جس کے تحت عالمی ادارے کو تفتیش کرنے کا اختیار حاصل ہو گا۔ اور تنازعہ کو ختم کرنے کے لئے یہ تجویزیں بھی دے سکے گا۔ اور ہم مصالحت کرانے میں اپنی صلاحیتوں کو وسعت دینے کے اقدام بھی کر سکے گے۔ یہ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر اور تنازعوں کے میدان دونوں جگہوں پر ہوں گے۔ اور علاقائی اور قومی مصالحت کی کوششوں کی حمایت بھی کی جاۓ گی۔ شام کی جنگ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بالکل مسدود ہو گئی تھی۔ روس اور چین، امریکہ فرانس اور برطانیہ سے اختلاف کرتے تھے۔ سلامتی کونسل جنوبی سوڈان، Burundi یمن اور دوسرے تنازعوں میں بھی تقسیم ہو گئی تھی۔ جس کی وجہ سے انہیں روکنے کے بہت سے موقعہ رکن ملکوں میں ایک دوسرے کے موقف سے عدم اعتماد اور قومی خود مختاری سے گہری وابستگی کی وجہ سے ضائع ہو گیے تھے۔ اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹیری جنرل نے قوموں کو متحد کرنے اور ان کے اختلاف ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
  
Syria

Syria

Syria

     حالیہ سالوں میں دنیا میں جنگوں کی لہر آئی ہے۔ اس میں ہر طرف بڑے پیمانے پر صرف انسانی تباہی اور المیہ دیکھے جا رہے ہیں۔ دنیا کے لئے یہ انتہائی تکلیف دہ صورت حال بن گئی ہے۔ جن ملکوں میں بھر پور فوجی طاقت سے حکومتیں تبدیل کی گئی ہیں۔ وہاں آمروں کے دور میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مقابلے میں اب انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اور انہیں روکنے کے لئے نئے فوجی حملہ بھی ناکام ہو گیے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے دور میں انسانی حقوق کو جس طرح پامال کیا جاتا تھا۔ طالبان نے اپنی جیلیں قائم کر لی تھیں۔ جہاں طالبان اپنے مخالفین کو اذیتیں دیتے تھے۔ طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد پھر امریکہ اور نیٹو فوجوں نے افغانستان میں اپنے نظر بندی کیمپ قائم کر لئے تھے۔ بگرام سب سے بڑا نظر بندی  کیمپ تھا۔ یہاں طالبان اور ان کے حامی افغانوں کو رکھا جاتا تھا۔ انہیں یہاں تفتیش کے دوران اذیتیں بھی دی جاتی تھیں۔ افغان وار لارڈ نے بھی اپنے علاقوں میں جیلیں قائم کر لی تھیں۔ اور یہ طالبان کے نام پر اپنے مخالفین کو اپنی جیلوں میں رکھتے تھے۔ اور ان سے بدترین سلوک کرتے تھے۔ جنگیں اور خانہ جنگی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں۔ ترقی یافتہ جمہوری قومیں تنازعوں کو پرامن طریقوں سے حل کرتی ہیں۔ اس لئے جمہوری حکومتوں اور آمرانہ حکومتوں میں فرق ہوتا ہے۔ لیکن اب اس کے برعکس دیکھا جا رہا ہے۔ آمرانہ حکومتیں اپنے استحکام میں جنگ سے گریز کرنے لگی ہیں۔ جبکہ ترقی یافتہ جمہوری حکومتیں اپنی سلامتی میں جنگوں پر انحصار کرنے لگی ہیں۔
    ہم پھر یہ دیکھتے ہیں کہ ترقی یافتہ جمہوری حکومتوں نے عراق میں ایک آمر کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے پہلے غیر قانونی حملہ کیا تھا۔ پھر عراق میں انتشار پھیلایا تھا۔ عراق میں مذہبی فرقہ پرستی کی سیاست کو شہ دی تھی۔ عراقیوں کو ایک طرف غیر ملکی فوجوں کی سرگرمیوں کا سامنا تھا۔ اور دوسری طرف داخلی خانہ جنگی کا سامنا تھا۔ غیرملکی فوجیں عراق میں نظم و ضبط پر توجہ دینے کے بجاۓ داخلی خانہ جنگی اور قبائلی لڑائیوں کو Manage کرنے میں مصروف ہو گئی تھیں۔ ہزاروں بے گناہ عراقی اس جنگ اور ان لڑائیوں میں مارے گیے تھے۔ یہ جنگ ان کی تھی اور نہ ہی یہ لڑائیاں ان کی تھیں۔ یہ ان پر مسلط کی گئی تھیں۔ امریکی حملہ کے 13 سال بعد صرف گزشتہ سال اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق عراق میں 16 ہزار عراقی مارے گیے تھے۔ صدام حسین کی آمریت میں بھی ایک سال میں 16 ہزار عراقی کبھی نہیں مارے گیے تھے۔ عراق میں اب انسانی حقوق ہیں اور نہ ہی مذہبی حقوق ہیں۔
    شام اکیسویں صدی کا ایک خوفناک انسانی المیہ ہے۔ ایک شخص واحد کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے Bunch of Countries نے سارا ملک تباہ کر دیا ہے۔ ان میں وہ ممالک بھی شامل تھے جن کی جمہوری قدریں تھیں۔ اور یہ انسانی حقوق کے بہت بڑے علمبر دار تھے۔ اور دنیا میں قانون کی حکمرانی کے دعویدار تھے۔ اور ایسے ممالک بھی تھے جن کا جمہوریت سے کوئی تعلق تھا۔ اور نہ ہی وہ انسانی حقوق میں یقین رکھتے تھے۔ ان کے اس اتحاد نے شام کے 24 ملین لوگوں کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا جیسے یہ لوگ ان کے لئے انسانوں میں شمار نہیں ہوتے تھے۔ اور ایک شخص کے خلاف اپنی جنگ ان پر مسلط کر دی تھی۔ اور د مشق حکومت کے خلاف یہ دہشت گردوں کی پرورش کر رہے تھے۔ 6 سال میں انہوں نے شام کو انسانی حقوق کا قبرستان بنا دیا ہے۔ شام کے 24 ملین لوگوں کے ساتھ یہ ظلم ان کے آمر کے ظلم سے بھی کہیں بڑا ظلم ہے۔ تاریخ ان قوموں کو شاید کبھی معاف نہیں کرے گی جو 5 سال سے شام کو تباہ کرنے  میں معاونت کر رہے تھے۔
    انسانی حقوق ایک ایسا ہتھیار بن گیا ہے۔ جسے مختلف ملکوں کے خلاف مختلف سیاسی مقاصد میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سرد جنگ میں انسانی حقوق کو اشتراکی ملکوں کے خلاف امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ایک کار نر اسٹون بتایا گیا تھا۔ لیکن ایشیا افریقہ اور لاطین امریکہ میں آمرانہ فوجی حکومتیں جو انسانی حقوق کو اپنا دشمن سمجھتی تھیں۔ سرد جنگ میں امریکہ کی خارجہ پالیسی میں انہیں اہم اتحادی کا مقام دیا گیا تھا۔ طالبان مجاہدین جو انسانی حقوق میں ایمان نہیں رکھتے تھے۔ وہ بھی سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی بن گیے تھے۔ امریکہ کی یہ پالیسی بدلی نہیں ہے۔ شام میں ان ہی جہادیوں کے ساتھ جو مختلف شکلوں میں تھے۔ د مشق حکومت کے خلاف امریکہ کا ان کے ساتھ اتحاد تھا۔ لیکن حماس کے ساتھ امریکہ کا کبھی اتحاد نہیں ہو گا۔ جو د مشق حکومت کے مقابلے میں اسرائیلی فوجی قبضہ میں انتہائی بدترین حالات میں ہیں۔ اور انسانی حقوق کے تمام بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ غازہ انسانوں کا Slaughter house ہے۔ غازہ کے حالات دیکھ کر صد ام حسین کے دور میں عراق زیادہ جمہوری نظر آتا تھا۔ لیکن مغربی دنیا اسرائیل کو مشرق وسطی میں جمہوریت کا جزیرہ کہتی ہے۔ جمہوریت میں ریاست کو مسلسل حالات جنگ میں نہیں رکھا جاتا ہے۔

  
Syria

Syria

Syria

Syrian Child, Aylan Kurdi, dies while trying to escape Syria by crossing the Mediterranean 
    اقتصادی بندشیں مفادات کی سیاست کا نیوکلیر ہتھیار ہے۔ انسانیت کے لئے اقتصادی بندشیں اتنی ہی خطرناک ہیں کہ جیسے نیوکلیر ہتھیار ہیں۔ اقتصادی بندشوں سے لوگوں کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ لوگوں کو بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ نوے کے عشرہ میں عراق پر اقتصادی بندشوں کے لوگوں پر انتہائی خوفناک اثرات ہوۓ تھے۔ ہزاروں لوگ ان بندشوں کے نتیجہ میں ہلاک ہو گیے تھے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق عراق میں اقتصادی بندشوں سے پانچ لاکھ معصوم بچے پیدائش کے ابتدائی مہینوں میں مر گیے تھے۔ عراق کے خلاف یہ اقتصادی بندشیں انتہائی آمرانہ تھیں۔ جس میں مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے نہیں بلکہ اقتصادی بندشوں کے ذریعہ انسانیت کے خلاف کرائم کیے گیے تھے۔ لیکن انتہائی خطرناک تنازعوں میں امریکہ اور مغربی ملکوں نے ہتھیاروں کی فراہمی پر ایسی بندشیں کبھی نہیں لگائی تھیں۔ یہ ایسے اہم ایشو ہیں۔ جو عالمی امن اور استحکام پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹیری جنرل Antonio Guterres کو ان پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ دنیا کا امن اور استحکام بحال کرنے کو پہلے ترجیح دینا ہو گی۔                            

Tuesday, January 10, 2017

American Election: Internal Intrigue And External Hacking

American Election: Internal Intrigue And External Hacking

When Government Can’t Convince The People, Then Intelligence
Agencies Have Confused The People By Their Reports 

مجیب خان



     جب یہ انکشاف ہوا تھا کہ امریکہ جرمن چانسلر انجلا مرکل کے فون ٹیپ کر رہا تھا۔ اور پھر مزید انکشافات بھی ہوۓ تھے کہ فرانس کے صدر، برازیل کی سابق  صدرDilma Rousseff کے فون بھی ٹیپ ہو رہے تھے۔ یہ انکشاف ہونے کے بعد ان ملکوں کی حکومتوں نے امریکہ سے احتجاج کیا تھا۔ اور اس کی وضاحت طلب کی تھی۔ لیکن اس طرح واویلا نہیں کیا تھا۔ جو اس وقت امریکہ میں روس کے Hacking اور صدارتی انتخاب میں Meddling کرنے کے دعووں کی بنیاد پر واویلا ہو رہا ہے۔ روس کو یہ الزام دینے کے بعد اس کے 35 سفارت کاروں کو امریکہ سے نکال دیا ہے۔ اور روس کے خلاف مزید نئی بندشیں بھی لگا دی ہیں۔ روس کے خلاف امریکہ کا یہ کیس بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ جیسے عراق کے خلاف مہلک ہتھیاروں کے بارے میں الزامات کی کہانیاں تھیں۔ اور انہیں انٹیلی جینس کی رپورٹوں کے ذریعہ ثابت کیا جاتا تھا۔ جو بعد میں 100 فیصد غلط ثابت ہوئی تھیں۔ تاہم Hacking کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ روس کی ایجاد نہیں ہے۔ Hacking پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ امریکہ کے ریڈار پر چین کا نام بھی Hacking کرنے میں آیا ہے۔ شمالی کوریا اور ایران کے نام بھی Hacking کرنے والے ملکوں میں شامل تھے۔ اسرائیل نے بھی Hacking کی ہے۔
    اب جہاں تک دوسرے ملکوں کے انتخابات میں Meddling کرنے اور اپنی پسند کے امیدوار کو اقتدار میں لانے کی کوشش امریکہ کی سرد جنگ کی روایت ہے۔ امریکہ نے مغربی یورپ کے ملکوں میں انتخابات میں اکثر مداخلت کی ہے۔ اور سوشلسٹ نظریات کے حامی امیدواروں کو انتخابات میں ناکام بنانے کی مہم چلائی تھی۔ برطانیہ کے انتخابات میں لیبر پارٹی کے مقابلے میں کنزر ویٹو پارٹی کو کامیاب کرانے کے لئے ری پبلیکن پارٹی کے کنزر ویٹو Strategists لندن جاتے تھے اور کنزر ویٹو پارٹی کی مدد کرتے تھے۔ امریکہ میں اسرائیل کی مداخلت کے بغیر کوئی انتخاب جیت نہیں سکتا ہے۔ دونوں پارٹیوں کے صدارتی امیدوار اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرنے سے پہلے اسرائیل جاتے ہیں۔ لہذا امریکہ کے انتخاب میں اسرائیلی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جہاں دو ملین یہودی روسی آباد ہیں۔ یہ اسرائیلی روسی بھی امریکہ کے انتخاب میں  Meddling کر سکتے ہیں۔ اور روس کو یہ  الزام دیا جا سکتا ہے کہ صدر پو تن امریکہ کے جمہوری نظام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ یا بن لادن امریکہ کی ترقی اور خوشحالی کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔ امریکہ کیا واقعی اتنا Fragile ہے؟
    16 سال سے جنگوں میں امریکہ کی مسلسل ناکامیوں کے نتیجہ میں یہ امریکہ کا Frustration ہے۔ جو اب صدر پو تن پر اتر رہا ہے۔ اور یہ روس کے خلاف ایک نئی سرد جنگ کی مہم بن رہی ہے۔ یوکرین کے مسئلہ پر روس کو تنہا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ امریکہ کو اس میں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ یورپ یوکرین کے لئے ایک نئی جنگ شروع کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اور اب روس کو شام میں مداخلت کرنے کا الزام دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ شام میں پانچ سال سے امریکہ اور خلیج کے ملک جارحانہ مداخلت کر رہے تھے۔ اور شام میں انسانیت کے خلاف کرائم کرنے والوں کی پشت پنا ہی کر رہے تھے۔ جبکہ روس نے شام کی خانہ جنگی کے ایک انتہائی خطرناک موڑ پر صرف انسانیت کو بچانے کے لئے یہ مداخلت کی تھی۔ اس خطہ کے بعض ملکوں نے شام میں روس کی مداخلت کا خیر مقدم کیا تھا۔ روس کی اس مداخلت کے نتیجہ میں شام میں بڑی حد تک استحکام کے لئے مثبت حالات نظر آ رہے ہیں۔ شام میں خانہ جنگی دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کی جنگ بن گئی تھی۔ روس کی بر وقت مداخلت سے شام میں دہشت گردوں کے گڑھ بھی ختم ہوۓ ہیں۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں روس کی Hacking  سے زیادہ شام کی خانہ جنگی میں روس کی کاروائیوں کے مثبت فیصلے تھے جس کے امریکہ کے صدارتی انتخاب پر گہرے اثرات ہو رہے تھے۔ اور عرب دنیا میں امریکہ کی احمقانہ جنگوں پر ڈونالڈ ٹرمپ کا موقف عوام کی سمجھ میں آ رہا تھا۔
    نائن الیون کے بعد امریکہ میں چار صدارتی انتخابات ہوئیے ہیں۔ 2004 میں پہلا صدارتی انتخاب صدر بش نے بن لادن القاعدہ اور دہشت گردی کے خلاف خود کو ایک مضبوط لیڈر ثابت کر کے جیت لیا تھا۔ جبکہ صدر اوبامہ نے نائن الیون کے بعد دوسرا صدارتی انتخاب عراق جنگ اور صدر بش کی عرب دنیا میں حکومتیں تبدیل کرنے کی پالیسی کے خلاف ایک ٹھوس موقف اختیار کر کے جیت لیا تھا۔ تاہم بن لادن کو پکڑنے اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کا عزم کیا تھا۔ اور نائن الیون کے بعد تیسرے صدارتی انتخاب سے پہلے صدر اوبامہ نے بن لادن کو پکڑ لیا تھا۔ عراق سے امریکی فوجیں واپس بلا لی تھیں۔ اور افغانستان میں بھی امریکی فوجوں میں کمی کرنے اور فوجی آپریشن ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے ایک مضبوط لیڈر ہونے کا ثبوت دے کر صدر اوبامہ دوسری مرتبہ بھی منتخب ہو گیے تھے۔ لیکن صدر اوبامہ کا دوسری مدت کا دور صدر جارج بش کے پہلی مدت کے دور سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ دونوں انتظامیہ نے دنیا کو جنگوں میں گھیر دیا تھا۔ اور دنیا کے لئے جیسے ان جنگوں سے نکلنے کے تمام راستے بند ہو گیے تھے۔ امریکہ میں ایک درجن انٹیلی جینس ایجنسیاں دہشت گردی کے خلاف سرگرم تھیں۔ لیکن ان میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ISIS کو کس نے بنایا تھا۔ اور اسے فنڈ کون فراہم کر رہا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ پر سے دنیا کا اعتماد ختم ہو گیا تھا۔
    یہ حالات دیکھ کر صدر پو تن امریکہ میں Regime Change کے لئے جیسے ھوم ورک کر رہے تھے۔ ادھر امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ بھی صدارتی امیدوار ہونے کا اعلان کرنے سے پہلے اپنا ھوم ورک کر رہے تھے۔ ریپبلیکن پارٹی کے 17 صدارتی امیدواروں میں پیشتر انتہائی Hawkish تھے۔ سب بڑھ چڑھ کر صرف جنگوں کی باتیں کر رہے تھے۔ یوکرین میں امریکی فوجیں بھیجنے کی باتیں کر رہے تھے۔ شام اور عراق میںISIS کے خلاف کارپٹ بمباری کرنا چاہتے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ سب کی سنتے رہے لیکن جنگوں کی باتوں سے خود کو الگ رکھا تھا۔ جنگوں نے عرب دنیا میں جو تباہیاں پھیلائی ہیں اس کا صرف ذکر کر دیتے تھے۔ لوگ جنگوں سے تنگ آ چکے تھے۔ صرف یہ وجہ تھی کہ ڈونالڈ ٹرمپ ری پبلیکن پارٹی کی پرائم ریز میں بڑی تیزی سے Sweep کرتے چلے گیے۔ جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی میں برنی سینڈر بھی جنگوں کی مخالفت کرنے کی وجہ سے مقبول ہو رہے تھے۔ ہلری کلنٹن شام، یوکرین، بحرہ ساؤ تھ چائنا کے مسئلہ پر ذرا Hawkish خیالات رکھتی تھیں۔ لیکن پھر اکثر ہلری کلنٹن برنی سینڈر اور ڈونالڈ ٹرمپ کی عوام میں پوزیشن دیکھ کر اپنے موقف سے پیچھے آ جاتی تھیں۔ یا پھر جنگوں کے موضوع پر کھل کر اظہار کرنے سے گریز کرنے لگتی تھیں۔ لوگ ان کے بارے میں ذرا دواں ڈول ہو رہے تھے۔ جب وہ سیکرٹیری آف اسٹیٹ تھیں لوگوں کے ذہنوں میں ان کے Hawkish خیالات موجود تھے۔
    امریکی قیادت کے فیصلے جب دنیا بھر میں قوموں پر اثر انداز ہوں گے۔ اور ان کے امن اور استحکام کے لئے مسائل پیدا کریں گے۔ تو پھر یہ ملک امریکہ کے صدارتی انتخاب میں مداخلت بھی کریں گے۔ اور ایک ایسے امیدوار کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں گے۔ جو ان کے امن اور استحکام کے مفاد میں ہو گا۔ سرد جنگ ختم ہو نے کے بعد روس کے اطراف میں امریکہ کی جو جنگجو نہ پالیسیاں ہیں اگر روس کی جگہ امریکہ ہوتا تو کیا کرتا؟ لیکن صدر پو تن نے انتہائی ڈھنڈے دماغ اور بڑے تحمل سے امریکہ کی ان اشتعال انگیز یوں کا سامنا کیا ہے۔ اور روس کو جنگوں سے دور رکھا ہے۔ ڈیموکریٹک اور ری پبلیکن پارٹی کی صدارتی انتخاب میں ناکامی روس کے لئے شاید 6 ٹیریلین ڈالر کی کامیابی تھی۔ ان کا امیدوار صدر منتخب ہو گیا تھا۔ صدر پو تن اور ڈونالڈ ٹرمپ دونوں Economic Development  میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ محاذ آرا ئی کی سیاست میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔ اور استحکام کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ExxonMobil کے CEO کو سیکرٹیری آف اسٹیٹ نامزد کیا ہے۔ صدر پو تن کے ساتھ ان کی خاصی دوستی ہے۔ ExxonMobil نے روس کے ساتھ آئل کے 500 بلین ڈالر کے معاہدے کیے ہیں۔ اس معاہدے کے عوض صدر پو تن بھی اس سے کچھ چاہتے ہیں۔ کاروبار ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کے اصولوں پر ہوتا ہے۔ عربوں کی طرح کاروبار نہیں کیا جاتا ہے کہ سب کچھ دینے کے بعد جنگیں انتشار اموات اور عدم استحکام  اپنے عوام کے لئے لے لیا ہے۔
    سیاست یہاں ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ اس سے آگے بھی ہے۔ نو منتخب صدر ٹرمپ کے روس کے ساتھ اچھے تعلقات کے پیچھے اسرائیلی روسیوں کی سیاست کا بڑا دخل ہے۔ جو اسرائیل میں بہت جلد نئی قیادت کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے ۔ اسرائیل کے روس کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہو گیے ہیں۔ دونوں ملکوں میں تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اور اب سارا زور امریکہ اور روس کے تعلقات بہتر بنانے پر ہے۔ نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ کی یہ پہلی ترجیح ہو گی۔ ری پبلیکن پارٹی میں روس کے ساتھ تعلقات استوار  کرنے کی حمایت بڑھتی جا رہی ہے۔ جبکہ روس کی مخالفت کرنے والے کار نر ہوتے جا رہے ہیں۔ اور یہ نمایاں تبدیلی واضح نظر آ رہی ہے۔
    حیرت کی بات ہے کہ امریکی میڈیا میں صدارتی انتخاب میں صدر پو تن کی Meddling کے خلاف خاصا شور ہے۔ لیکن FBI کے ڈائریکٹر کی انتخابات سے صرف چند روز قبل Meddling کو بالکل بلیک آؤٹ کر دیا ہے۔ ہلری کلنٹن کی شکست کو روس کی Hacking نے نہیں، حکومت کے اس تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر کی ‏Meddling کے نتیجہ میں شکست ہوئی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے۔