Friday, April 26, 2019

One Is A Real Estate Tycoon And The Other Is Cricketer, How Do They Do In Politics And Running The Government?

One Is A Real Estate Tycoon And The Other Is Cricketer, How Do They Do In Politics And Running The Government?

مجیب خان

 

  امریکہ میں ایک روایتی اسٹیبلشمنٹ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے حکومت کرنے کے طریقہ کار کو ابھی تک نہیں سمجھ سکی ہے۔ اور پاکستان میں پروفیشنل سیاسی لیڈروں کو عمران خان کے حکومت کرنے کا انداز سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے کبھی سیاست کی تھی۔ اور نہ ہی عمران خان کا سیاسی بیک گراؤنڈ ہے۔ صدر ٹرمپ انتہائی کامیاب بزنس مین ہیں۔ ایک عرصہ تک وہ امریکی چینل NBC پر Realty Show کے نام سے اپنا ایک پروگرام کرتے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے جب یہ دیکھا کہ عوام میں دونوں بڑی پارٹیوں کی ساکھ گرتی جا رہی تھی۔ دونوں پارٹیاں امریکہ کو مسلسل نا ختم ہونے والی جنگوں میں لے جا رہی تھیں۔ امریکی عوام کے کھربوں ڈالر ان جنگوں پر برباد کیے جا رہے تھے۔ امریکہ کا قرضہ 20ٹیریلین ڈالر پر پہنچ گیا تھا۔ اور یہ بڑھتا جا رہا تھا۔ عوام میں دونوں پارٹیوں کی ان پالیسیوں کی وجہ سے خاصی بے چینی تھی۔ صدر ٹرمپ کی سیاست میں آمد جیسے یہ امریکی اسپرنگ تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ ایک تجربہ کار بزنس مین لیکن نا تجربہ کار سیاسی لیڈر تھے جو ری پبلیکن پارٹی کے اسٹیج پر 17 سیاسی  پروفیشنل کی  صف میں کھڑے ہوۓ تھے۔ اور پھر انہوں نے رفتہ رفتہ 17 سیاسی پروفیشنل کی وکٹیں گرا دی تھیں۔ اور سیاسی میدان میں اپنے مخالف کے چیلنج کا مقابلہ کرنے  تنہا کھڑے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخابی مہم خود چلائی تھی۔ اور ری پبلیکن پارٹی کی تاریخ میں ایسی انتخابی مہم پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ اس کا اعتراف پارٹی کے سینیئر رہنماؤں نے بھی کیا تھا۔
  ڈونالڈ ٹرمپ 1980s میں پہلی بیوی سے طلاق کے بعد بالکل دیوالیہ ہو گیے تھے۔ اس کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے آپ کو دوبارہ build کیا تھا۔ کچھ ہی عرصہ میں بزنس پھر Boom کرنے لگا۔ 1980s میں ABC ٹی وی کے پروگرام 20/20 میں Barbara Walters سے انٹرویو میں ڈونالڈ ٹرمپ نے بتایا کہ وہ بزنس میں اب بہت کامیاب تھے۔ ان کا بزنس فروغ کر رہا تھا۔ اس کی وجہ ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ بتائی تھی کہ اب وہ روزانہ صبح 7 بجے آفس جاتے ہیں اور تمام پروجیکٹ خود دیکھتے ہیں۔ اور پھر مینجر ز اور سپر وائزر ز کو ہدایات دیتے اور پروجیکٹ وقت پر مکمل کیے جاتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ پہلے انہوں نے اپنا بزنس مینجر ز پر چھوڑ دیا تھا۔ اس پر بہت کم توجہ دیتے تھے۔ اور خود دنیا میں گھومتے پھرتے تھے۔ لیکن اب وہ خود بزنس کو دیکھتے ہیں۔ اس لئے بزنس کامیاب ہے۔
  ڈونالڈ ٹرمپ اس بیک گراؤنڈ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں آۓ ہیں۔ انتظامیہ کے ہر محکمہ کو خود دیکھتے ہیں۔ محکموں سے متعلق کسی بھی ایشو پر Tweet کرتے ہیں۔ اور محکمہ کے سیکرٹیری کو By Pass کر دیتے ہیں۔ تقریباً ڈھائی سال میں صدر ٹرمپ نے اپنی کابینہ میں کئی مرتبہ رد و بدل کیا ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Rex Tillerson کو ایک Tweet کے ذریعہ بر طرف کر دیا تھا۔ اٹرنی جنرل Jeff Session کے خلاف صدر ٹرمپ نے کئی مرتبہ Tweet کیے تھے۔ بلا آخر اٹرنی جنرل کو استعفا دینا پڑا تھا۔ دو مرتبہ سیکرٹیری آف Home Land Security تبدیل کیے ہیں۔ کابینہ میں اکثر تبدیلیاں کرنا پڑتی ہیں۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس پر تشویش ہونا چاہیے۔ لیکن میڈیا کابینہ میں تبدیلیوں کو سنسنی خیز بنا دیتا ہے۔ کابینہ میں تبدیلیاں انتظامیہ کی کارکردگی کو موثر بنانے کا عمل ہے۔
  جس طرح ڈونالڈ ٹرمپ نے ٹرمپ ایمپائر بنائی ہے۔ اسی طرح وہ امریکن ایمپائر کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کر کٹر ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔ اور اپنی ٹیم کو ور لڈ کپ چمپین بنایا تھا۔ اسی طرح عمران خان پاکستان کی قیادت کرنا چاہتے ہیں۔ اور پاکستان کو اقتصادی ترقی میں چمپین بنانا چاہتے ہیں۔ عمران خان کی زندگی دنیا کی چوٹی کی کرکٹ ٹیموں کے چیلنج قبول کرنے میں گزری ہے۔ اور انہوں نے بڑی کامیابی سے ان کے چیلنجوں کا مقابلہ کیا تھا۔ عمران خان پہلی مرتبہ اقتدار میں آۓ ہیں۔ اور پہلے ہی دن عمران خان سے پاکستان کو در پیش Chronic Challenges قبول کرنے کا کہا گیا ہے۔ جس میں قرضوں میں ڈوبی معیشت، بھارت کی قیادت کی آنکھوں میں پاکستان سے نفرت کا خون، انسانیت کی دشمن دہشت گردی، یہ چند بڑے چیلنج ہیں۔ جبکہ دو بڑی نا معقول جماعتوں کی چوری اور سینہ زوری  کی سیاست بھی ایک چیلنج ہے۔ ان پارٹیوں کو چیلنج قبول کرنے کی عادت نہیں ہے۔ یہ صرف Easy Money کی عادی ہیں۔ 2008 میں آصف علی زر داری جب اقتدار میں آۓ تھے۔ اس وقت انہیں بڑھتی ہوئی دہشت گردی ایک چیلنج نظر آئی تھی۔ لہذا صدر زر داری نے اس چیلنج کو قبول کرنے کے بجاۓ گھبرا کر اسے چیف اف آرمی جنرل کیانی کو دے دیا تھا کہ جنرل کیانی دہشت گردوں کے خلاف جب چاہیں اور جہاں چاہیں کاروائی کریں۔ انہیں اس کے لیے مکمل اختیار دے دیا تھا۔ اور اس اعلامیہ کے ساتھ صدر زر داری اور ان کی حکومت تمام چیلنجوں سے بری الذ مہ ہو گئی تھی۔ اس وقت پاکستان کی معیشت بھی اتنی خراب نہیں تھی۔ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بھی اتنا زیادہ نہیں تھا۔ اس لیے زر داری حکومت نے پاکستان کی معیشت کو اور زیادہ بہتر بنانا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔ امریکہ سے جو امداد مل رہی تھی اسے پاکستان کا بجٹ Finance کرنے میں استعمال کیا جا رہا تھا۔ اس لیے ٹیکس وصول کرنے پر بھی زیادہ زور نہیں دیا گیا تھا۔ ایکسپورٹ کے بجاۓ ہر چیز امپورٹ کرنے کی پالیسی کو اہمیت دی جا رہی تھی۔ بجلی کا بحران پیدا کر کے فیکٹر یاں اور کارخانے بند کروا دئیے تھے۔ حفیظ شیخ کو صدر زر داری نے وزیر خزانہ بنایا تھا۔ جو بجٹ بنانے میں صدر زر داری کا دماغ استعمال کرتے تھے۔ کیونکہ جو بجٹ انہوں نے پاکستان کو دئیے تھے ان سے یہ نظر نہیں آتا تھا کہ وہ London School of Economic  کے PhD تھے۔ ان بجٹ کے تحت پاکستان میں کوئی ترقیاتی کام ہوۓ تھے اور نہ ہی پرانے منصوبے مکمل کیے تھے۔ ایکسپورٹ بڑھانے کی باتیں بہت ہوتی تھیں۔ لیکن ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے فیکٹر یاں اور صنعتیں بند پڑی تھیں۔ کراچی جہاں سے ایکسپورٹ جاتی تھیں۔ وہاں روزانہ ہڑتالیں ہوتی تھیں۔ وزیر خزانہ ایک ایسی حکومت کا خزانہ سنبھالے ہوۓ تھے۔ ہاں وزیر خزانہ حفیظ شیخ سے صدر زر داری کے بنک فراڈ اور جعلی بنک اکاؤٹنس کے بارے میں بھی پوچھا جاۓ۔ کیونکہ بنک، مالیاتی اداروں کی سرگرمیاں اور لاکھوں ڈالروں کی نقل و حرکت وزارت خزانہ کے واچ میں آتی ہیں۔ کیا حفیظ شیخ کو جو اس وقت وزارت خزانہ میں بیٹھے ہوۓ تھے زر داری کی ان سرگرمیوں کا علم تھا یا انہوں نے اس سے منہ موڑ لیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے حفیظ شیخ کو اپنی حکومت میں وزارت خزانہ کا مشیر نامزد کیا ہے۔ وزیر اعظم نے مشیر نامزد کرنے سے پہلے ان کا انٹرویو کیا ہو گا۔ اور سابقہ حکومت میں ان کی کارکردگی کے بارے میں بھی ضرور پوچھا ہو گا۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کسی شخص کو ‘Most Valuable Person’ نہیں بنا دیتی ہے۔ بلکہ معیشت کی ترقی میں اس کے فیصلے اور رول اسے ‘Most Valuable Person’ بناتے ہیں۔ لیکن زر داری جیسے نااہلوں کی حکومت میں قابل اہل لوگ بھی نااہل بن کر حکومت سے باہر آۓ تھے۔ اس حکومت کے وزیر داخلہ رحمان ملک کی کارکردگی پر -F Grade دیا جاۓ گا۔
  وزیر اعظم عمران خان نے 8 ماہ میں اپنی کابینہ میں تبدیلیاں کی ہیں اور بعض وزرا کو ہٹایا ہے ان کی جگہ مشیر نامزد کیے ہیں۔ وزیر اعظم یہ تبدیلیاں کرنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ کرکٹ کا کپتان جب یہ دیکھتا ہے کہ با لر کی ہر بال پر چھکے لگ رہے تھے تو کپتان با لر بدل دیتا ہے۔ کیونکہ اس کے ذہن میں صرف جیتنا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے دیکھا کہ کابینہ کے بعض وزرا کی با لنگ سے مولانا فضل الرحمان بھی چھکے لگا رہے تھے۔ تو ان کے لیے کابینہ میں تبدیلیاں ضروری ہو گئی تھیں۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین بھی کابینہ کا حصہ ہیں۔ انہیں ایک ٹیم کی طرح کام کرنا ہے۔ صرف اسی صورت میں تحریک انصاف پاکستان کو اقتصادی اور سیاسی مسائل سے نکالنے میں کامیاب ہو گی۔ اور اسے نواز شریف کی ن لیگ اور زر داری کی پیپلز پارٹی کو 12 وکٹوں سے شکست دینا ہے۔ تاہم جو یہ باتیں کر رہے ہیں کہ عمران خان کو حکومت کرنے کا تجربہ نہیں ہے۔ ان میں معلومات کا فقدان ہے۔ روس کے صدر ویلا دیمیر پوتن کو بھی حکومت کرنے کا تجربہ نہیں تھا۔ لیکن انہوں نے روس کو سرد جنگ کے ملبہ سے نکال کر دنیا کے اسٹیج پر کھڑا کر دیا ہے۔ فرانس کے صدر Emmanuel Macron بنک میں کام کرتے تھے۔ انہیں بھی حکومت کرنے کا تجربہ نہیں تھا۔ لیکن وہ اب فرانس کے صدر ہیں اور اپنے ملک کے لیے اور عوام کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ جرمن چانسلر Angela Merkel مشرقی جرمنی میں پیدا ہوئی تھیں اور کمیونسٹ نظام میں ان کی پرورش ہو‏ ئی تھی۔ لیکن اب وہ ایک متحدہ اور جمہوری جرمنی میں 14 سال سے چانسلر ہیں۔ اور جرمنی کو انہوں نے یورپ کی ایک بڑی معیشت بنا دیا ہے۔ اور یورپی یونین میں بھی وہ اہم رول ادا کر رہی ہیں۔                 
        

Sunday, April 21, 2019

America’s Role In The Post-Cold War World, Arrogant, Irresponsible, Ill- advice, Improvident


  America’s Role In The Post-Cold War World, Arrogant, Irresponsible, Ill- advice, Improvident
مجیب خان
Central American migrants walking to the U.S Oct 21, 2018

Venezuela refugees trying to cross into Colombia

Syrian refugees march toward Greece's border

Syrian refugees in Lebanon



  اس وقت دنیا میں ہر طرف جو Humanitarian crisis ہے اسے اگر امریکہ کی عالمی پالیسیوں کا سبب بتایا جاۓ تو یہ مبالغہ آ رائی نہیں ہو گی۔ یہ  امریکہ کی  قیادت کے غیر ذمہ دار ا نہ  اور Il-advised فیصلوں کے نتائج ہیں۔ دنیا کی واحد طاقت کی ذمہ دار یاں  سنبھالنے کا امریکہ کو کوئی تجربہ  نہیں تھا۔ سرد جنگ اچانک ختم ہو گئی تھی۔ امریکہ کی انٹیلی جینس ایجنسیوں کو بھی یہ یقین نہیں تھا کہ سوویت ایمپائر جلد collapse ہونے والی تھی۔ عالمی قیادت کی ذمہ دار یاں امریکہ کے کندھوں پر آ گئی تھیں۔۔ امریکہ میں لیڈروں نے عالمی قیادت کی ذمہ دار یاں سنبھالنے کے لیے کوئی home work نہیں کیا تھا۔ دونوں بڑی پارٹیوں کے پاس امریکہ دنیا کی واحد طاقت کا کوئی vision نہیں تھا۔ دونوں پارٹیوں کا cold war vision تھا۔ اور یہ cold war revive کرنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا تھیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ میں جو لیڈر اقتدار میں تھے اس نے سرد جنگ کی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھا تھا۔ ملٹری اتحاد، ہتھیاروں کا فروغ، جنگیں تلاش کرنے کی پالیسیاں جاری رکھی تھیں۔ سرد جنگ کی وجہ سے جن علاقائی تنازعوں کو حل نہیں کیا گیا تھا۔ اور جو عالمی امن اور استحکام کے لیے مسلسل خطرہ بنے ہوۓ تھے۔ امریکی قیادت نے ان کے حل میں لا پرواہی برتی تھی۔ اتفاق سے سرد جنگ ختم ہونے کے وقت یہ جارج ایچ بش تھے۔ جو سرد جنگ کے آخری hawkish صدر رونالڈ ریگن کے نائب صدر تھے۔ 1970s میں سرد جنگ کی کشیدگی جب زوروں پر تھی جارج ایچ بش اس وقت سی آئی اے کے ڈائریکٹر تھے۔ ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں بائیں بازو کے خلاف دائیں بازو کی جنگیں patronize کرنے کا انہیں خاصا تجربہ تھا۔ 1990s میں سوویت قیادت نے سرد جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مشرقی یورپ سوویت orbit سے آزاد ہو گیا تھا۔ جرمنی یونائڈڈ ہو گیا تھا۔ وسط ایشیا کی ریاستوں کو بھی آزادی مل گئی تھی۔ لیکن صدر جارج ایچ بش نے امریکہ کو سرد جنگ سے آزاد نہیں کیا تھا۔ صدر بش نے سرد جنگ ختم ہونے کے بعد ایک نئی دنیا shape دینے میں کوئی نئے اقدامات تجویز نہیں کیے تھے۔ امریکہ کی خارجہ اور ڈیفنس پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگان میں جیسے سرد جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ نیٹو ملٹری پیکٹ کو برقرار رکھا تھا۔ بلکہ مشرقی یورپ کے ملکوں کو بھی نیٹو میں شامل کرنے کے منصوبے بن رہے تھے۔ صدر بش کا ' امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور' بننے کا کوئی نیا vision نہیں تھا۔ بلکہ ان کے سامنے موضوع  یہ تھا کہ سوویت یونین کے بغیر امریکہ کا survival کیسے ہو گا؟ سرد جنگ کی جگہ گرم جنگ کے محاذ کہاں کھولے جا سکتے ہیں؟ امریکہ کا survival صرف فوجی مہم جوئیوں میں دیکھا جا رہا تھا۔
  امریکہ کے ساتھ جنہوں نے 50سال سرد جنگ لڑی تھی اور سوویت یونین کو شکست دی تھی۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد ان کے ساتھ امریکہ کا رویہ بدل گیا تھا، یہ تعلقات ایسے نہیں تھے جیسے نازی جرمنی کے خلاف جنگ جیتنے کے بعد امریکہ کے یورپی اتحادیوں کے ساتھ تھے۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ کے ملک میدان جنگ بناۓ گیے تھے۔ یہاں لوگوں نے زبردست قربانیاں دی تھیں۔ سرد جنگ نے ان ملکوں کو غریب رکھا تھا۔ امریکہ کے صرف یورپی اتحادی مالدار اور خوشحال تھے۔ لیکن سرد جنگ میں  ہر براعظم میں امریکہ کے اتحادی غربت میں غرق تھے۔ انہوں نے صرف ایک خوشحال مستقبل کے لیے امریکہ کوسرد جنگ جیت کر دی تھی۔ لیکن امریکہ نے ان ملکوں کے لوگوں کا شکر یہ تک ادا نہیں کیا تھا۔ ان ملکوں کے ساتھ جنگ جیتنے کا جشن بھی نہیں منایا تھا۔ بلکہ سوویت یونین کو شکست دینے کا سارا کریڈٹ امریکہ نے خود لے لیا تھا۔ اور ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں اپنے اتحادیوں سے منہ موڑ لیا، جیسے ان کے لیے یہ پیغام تھا کہ GO TO HELL۔
  صدر بش نے سرد جنگ ختم ہونے کے بعد ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں اقتصادی اور معاشرتی تعمیر نو کے منصوبوں کو اس طرح فوری اہمیت نہیں دی تھی کہ جیسے نازی جرمنی کے خلاف جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ نے یورپ کی تعمیر نو کے منصوبوں کو فوری اہمیت دی تھی۔ بلکہ مشرقی یورپ کے ملکوں کی جو سوویت یونین کے orbit میں تھے، ان کی تعمیر نو بھی یورپ میں امن اور استحکام کے لیے اہم سمجھا تھا۔ افغانستان سرد جنگ کی ایک عبرتناک مثال ہے۔ سوویت یونین کے خلاف فیصلہ کن جنگ افغانستان میں لڑی گئی تھی۔ ریگن انتظامیہ نے افغان مجاہدین کی حمایت کی تھی۔ انہیں ہر طرح کی امداد دی تھی۔ نائب صدر جارج بش افغان مجاہدین کے ساتھ کھڑے ہونے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ ان کے حوصلے بلند کرنے افغان پاکستان سرحد پر مجاہدین سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ لیکن سوویت یونین کو جب افغانستان میں شکست ہو گئی تھی۔ جارج بش امریکہ کے صدر تھے۔ پھر سرد جنگ بھی ختم ہو گئی تھی۔ صدر بش نے افغان مجاہدین کے ان رہنماؤں کو جو صدر ریگن کے وائٹ ہاؤس میں ان سے ملاقاتیں کرنے آتے تھے، انہیں سوویت فوج کی شکست پر وائٹ ہاؤس میں استقبالیہ تک نہیں دیا تھا۔ انہوں نے جو قربانیاں دی تھیں اس پر انہیں خراج تحسین بھی پیش نہیں کیا۔ اسی طرح ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں دائیں بازو کی جو پارٹیاں امریکہ کی اتحادی تھیں اور سوویت یونین کی حامی جماعتوں سے لڑ رہی تھیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ نے انہیں بھی بالکل فراموش کر دیا تھا۔ انہیں خوشحال مستقبل دینے کے بجاۓ امریکہ انہیں تاریکیوں میں چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ سرد جنگ  ختم ہونے سے امریکہ کو یہ آزادی ملی تھی کہ بش انتظامیہ نے سب سے پہلے پا نا مہ پر حملہ کیا تھا۔ اور امریکی فوجیں صدارتی محل میں داخل ہو گئی تھیں اور ایک sovereign ملک کے صدر Manuel Noriega کو گن پوائنٹ پر پکڑ کر فلوریڈا لے آئی تھیں۔ یہ امریکہ کی گرم جنگوں کی ابتدا تھی۔ پا نا مہ پر 1989 میں حملہ کیا تھا۔ 1991 میں خلیج کی پہلی جنگ عراق کے خلاف لڑی گئی تھی۔ اس کے بعد سے جنگوں کا ایک نا ختم ہو والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
 امریکہ نے 7ٹیریلین ڈالر مڈل ایسٹ میں Regime change جنگوں پر خرچ کیے تھے۔ یہ 7ٹیریلین اگر امریکہ کے Backyard میں ترقیاتی اقتصادی منصوبوں میں Invest کیے جاتے تو آج صدر ٹرمپ Wall build کرنے کی بحث میں وقت برباد نہیں کرتے۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ کو نئی جنگیں دینے کے بجاۓ یورپ کی طرح ان ملکوں کی تعمیر نو کی جاتی تو امریکہ کی 24 گھنٹے قومی سلامتی کے خطروں کی لاحق پریشانی بڑی حد تک دور ہو جاتی۔ لیکن امریکہ کے لیڈروں کو ہزاروں میل دور پہاڑوں، دروں اور ریگستانوں کی دھول میں قومی سلامتی کے خطرے دکھائی دے رہے تھے۔ سرد جنگ میں ایشیا افریقہ اور لا طین امریکہ میں جن مجاہدین کو تربیت اور ہتھیار دئیے گیے تھے۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد وہ سب بیروزگار ہو گیے تھے۔ ان کی زندگیوں میں سرد جنگ ختم ہونے سے کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ وہ پہلے بھی غریب اور بیروزگار تھے۔ اور سرد جنگ ختم ہونے کے بعد بھی غریب اور بیروزگار تھے۔ بلکہ دہشت گردی کے نام پر نئی جنگوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس سے ان کا امن بھی چلا گیا تھا۔ امریکہ کو جو کام کرنے چاہیے تھے وہ کام نہیں کیے اور جو کام نہیں کرنا چاہیے تھے وہ کام کیے تھے۔ امریکہ Venezuela کی اندرونی سیاست میں مداخلت کر رہا ہے۔ لیکن مشرقی یورپ میں پولینڈ اور ہنگری جمہوریت کی پٹری سے اترتے جا رہے ہیں۔ یہاں امریکہ کی کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہے؟
 ?Who is responsible for The Human destruction in Syria  
                    

Monday, April 15, 2019

Anti-Peace Coalition Back In Power In Israel

Anti-Peace Coalition Back In Power In Israel

Despite President Trump’s Full Support, Bibi Netanyahu Couldn’t Win The Elections With Landslide

مجیب خان
President Donald Trump's campaign for Prime Minister Netanyahu, Billboard in Tel Aviv 

Labor party which had signed the Oslo Peace agreement with Palestinians, it's Prime Minister had given his life for Peace, completely wiped out from Israel's politics

 

  صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے انتخابات میں وزیر اعظم نتھن یا ہو کی Landslide victory کے لئے ان کی بھر پور مدد کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم نتھن یا ہو کو یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے لئے دیا تھا۔ تاکہ اسرائیلی خوش ہو کر وزیر اعظم نتھن یا ہو کو ووٹ دیں گے۔ صدر ٹرمپ نے گولا ن کی زر خیز چوٹیوں پر اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ ختم کر کے اسے اسرائیل کا قانونی علاقہ تسلیم کیا تھا۔ کاش صد ام حسین زندہ ہوتے اور یہ دیکھتے کہ امریکہ نے ان کے کویت پر فوجی قبضہ کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اور پھر ان کے ملک پر حملہ کیا تھا اور کویت کو آزاد کرایا تھا۔ لیکن اب امریکہ عربوں کے علاقوں پر اسرائیل کے فوجی قبضہ کو اس کا جائز حق تسلیم کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے صرف وزیر اعظم نتھن یا ہو کے مطالبہ پر ایران کا ایٹمی سمجھوتہ بھر پور عالمی مخالفت کے باوجود ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے عالمی امن پر وزیر اعظم نتھن یا ہو کے مطالبہ کو اہمیت دی تھی۔ اور ایران کے ایٹمی سمجھوتہ سے امریکہ کو علیحدہ کر لیا تھا۔ اسرائیل میں انتخابات سے صرف چند روز قبل صدر ٹرمپ نے ایران کی سیکورٹی کے ادارے  کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ جس پر وزیر اعظم نتھن یا ہو نے صدر ٹرمپ کا شکر یہ ادا کیا تھا۔ امریکہ میں اکثر پریذیڈنٹ ایسے احمقانہ فیصلے کرتے ہیں جو دنیا کے لئے ایک نئی مثال بن جاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم نتھن یا ہو کے مطالبوں اور مشوروں کو اپنی مڈل ایسٹ پالیسی کا کار نر اسٹون بنایا ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو اور لیکوڈ پارٹی صدر ٹرمپ کے ان اقدامات سے بہت خوش تھے۔ اور انہیں صدر ٹرمپ پر یہ اعتماد ہے کہ وہ انہیں 3ہزار سال قبل مڈل ایسٹ کا جو نقشہ تھا وہ  دیں گے۔
  لیکن اسرائیل میں انتخابات کے جو نتائج آۓ ہیں۔ وہ صدر ٹرمپ کے لئے بڑے embarrassing ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں انتہائی مقبول وزیر اعظم نتھن یا ہو اسرائیل میں Landslide victory حاصل نہیں کر سکے تھے۔ اپنے حریف کے مقابلے میں انہیں صرف ایک نشست کی برتری ملی ہے۔ Blue and White جو بالکل ایک نئی پارٹی ہے اور انتخابات سے صرف چند ماہ قبل وجود میں آئی ہے۔ اس نے Knesset میں 35 نشستیں حاصل کی ہیں۔ جبکہ Four Terms Prime minister کی لیکوڈ پارٹی نے صرف 36 نشستیں حاصل کی ہیں۔ Knesset کی 120 نشستیں ہیں۔ اور دونوں پارٹیاں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ تاہم لیکوڈ پارٹی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ ، جو اسرائیلی طالبان ہیں اور مختلف نظریاتی اور مذہبی دھڑوں میں تقسیم ہیں۔ ان پارٹیوں نے پانچ سات نشستیں حاصل کی ہیں، حکومت بناۓ گی۔ پہلے بھی لیکوڈ نے ان پارٹیوں کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی تھی۔ نتھن یا ہو حکومت نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں جو نئی بستیاں تعمیر کی ہیں اور وہاں جن یہودیوں کو آباد کیا ہے۔ وہ یا تو کٹر مذہبی ہیں اور یا فلسطینیوں سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے سخت خلاف ہیں۔ لیکوڈ پارٹی نے ایک تنازعہ کے اندر نیا تنازعہ کھڑا کر کے پرانے تنازعہ کو اور زیادہ پیچیدہ  بنا دیا ہے۔ انتخابات کے بعد اسرائیل میں حکومت کا جو ڈھانچہ بن رہا ہے۔ اس میں صدر ٹرمپ کا مڈل ایسٹ پلان Doomed to fail نظر آ رہا ہے۔ نئی یہودی بستیوں میں آباد کاروں نے وزیر اعظم نتھن یا ہو کے اس وعدہ پر ووٹ دئیے ہیں کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد مغربی کنارے کو اسرائیل میں شامل کر لیں گے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو شاید مخلوط حکومت بنا لیں گے۔ لیکن وزیر اعظم پھر ہر پارٹی کے سیاسی اور نظریاتی ایجنڈہ کے قیدی رہیں گے۔ اور اگر وزیر اعظم کسی ایک پارٹی کے ایجنڈہ کے خلاف جاتے ہیں تو اس  صورت میں ان کی حکومت ختم ہو جاۓ گی۔ صدر ٹرمپ کے لئے بھی اپنے مڈل ایسٹ پلان کی مخلوط  حکومت میں شامل ہر پارٹی کی حمایت حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو گا۔ اسرائیلی طالبان اور افغان طالبان دونوں اب ایک ہی Page پر ہیں۔
  افغانستان میں امن کے لیے طالبان سے مذاکرات Headache بنے ہوۓ ہیں۔ اور اسرائیلی طالبان فلسطینیوں کو امن دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا امن منصوبہ صرف عظیم تر اسرائیل ہے۔ گزشتہ سال اسرائیلی Knesset نے یہ قانون منظور کیا ہے کہ اسرائیل صرف یہودی ریاست ہو گی۔ اور اس قانون کے تحت فلسطینی مسلم اور عیسائی دوسرے درجہ کے شہری ہوں گے۔ دراصل جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے قانون پر یہودی مذہب کا لیبل لگا کر اسے اسرائیل میں نافذ کیا گیا ہے۔ یہ خبر بھی ہے کہ انتخابات میں فلسطینیوں کو جو اسرائیلی شہری تھے۔ انہیں ووٹ ڈالنے سے روک دیا تھا۔ اسرائیل کی 6.3 ملین کی آبادی میں 20فیصد فلسطینی ہیں۔ اسرائیلی جمہوریت میں فلسطینیوں کے مساوی حقوق نہیں ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ امریکہ اور مغربی ملکوں نے جو فلسطینی اسرائیل کے شہری ہیں۔ اسرائیل سے انہیں مساوی حقوق دینے کی کبھی بات نہیں کی ہے۔ لیکن یہ امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ قدریں ہونے پر فخر کرتے ہیں۔
  جس طرح 2016 کے صدارتی انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن کے خلاف سوشل میڈیا کے ذریعہ Fake خبریں پھیلائی گئی تھیں۔ انہیں بدنام کیا گیا تھا۔ اور ووٹر ز کو گمراہ کیا تھا۔ بالکل اسی طرح اسرائیل میں لیکوڈ پارٹی نے بنجیمن نتھن یا ہو کے مخالف امیدوار کے خلاف جھوٹا، بدنام کرنے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی مہم سوشل میڈیا پر چلائی تھی۔ Blue and White پارٹی کے امیدوارBenny Gantz کے بارے میں یہ پراپگنڈہ کیا گیا کہ وہ Arabist ہیں اور فلسطینیوں کے ساتھ ان کا گٹھ جوڑ ہے۔ فلسطینی انہیں منتخب کرنا چاہتا ہیں۔ یہ Typical Right wingers Mentality ہے۔ "صد ام حسین مڈل ایسٹ پر کنٹرول کرنا چاہتے ہیں" بن لادن ہماری قدروں کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔" لیکن عراق لیبیا شام کی قدریں کس نے تباہ کی ہیں۔ جہاں سنی، شیعہ اور عیسائی صدیوں سے ساتھ  رہ رہے تھے۔ اور ان کے درمیان کوئی مذہبی فرقہ پرستی نہیں تھی۔ سرد جنگ میں یہ اپنے سیاسی مخالفین پر کمیونسٹ اور سوشلسٹ ہونے کے لیبل لگاتے تھے۔ اور ووٹروں کو گمراہ کرتے تھے۔ ان کی سیاست صرف جھوٹ پر ہوتی ہے۔
  لیکوڈ پارٹی تقریباً  دس سال سے Bunch of Ultra-Right and Extreme Religious Parties   کے ساتھ مل کر حکومت کر رہی ہے۔ ان سب کا مشترکہ دشمن فلسطینی ہیں۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو ان جماعتوں کو Appeased کر رہے ہیں۔ اور امریکہ نتھن یا ہو کو Appeased کر رہا ہے۔ حالانکہ Appeasement سے اسرائیل Down fall  کی طرف جا رہا ہے۔ حال ہی میں جو سروے آیا ہے اس کے مطابق امریکہ میں پہلی مرتبہ اسرائیل کی حمایت گری ہے۔ نتھن یا ہو حکومت کے دس سالوں میں ان کی Anti-Peace پالیسیوں کے نتیجہ میں دنیا میں Anti-Semitism کا فروغ ہوا ہے۔ اسرائیل کے خلاف BDS movement شروع ہوئی ہے۔ اس کا الزام امریکہ اور یورپ میں دوسروں کو دینے کے بجاۓ انگلی پہلے لیکوڈ پارٹی کی حکومت پر اٹھائی جاۓ جو مڈل ایسٹ میں Anti-Peace اور Pro War پالیسیوں کو فروغ دے رہی ہے۔


  امریکہ کی تین انتظامیہ جارج ڈبلو بش، بر اک اوبامہ اور اب ڈونالڈ ٹرمپ اسرائیل میں لبرل سیاست کو تباہ کرنے کی پالیسی کو فروغ دے رہے ہیں۔ لبرل جمہوریت کا تصور اسرائیل میں ختم ہو گیا ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ مغربی لبرل جمہوری قدریں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ ترکی اور یورپ کے مختلف ملکوں میں مغربی لبرل جمہوری قدروں کا خاتمہ دیکھا جا رہا ہے۔ اسرائیل میں لیبر پارٹی جس نے فلسطینیوں کے ساتھ امن سمجھوتہ کیا تھا اور فلسطینیوں کی خود مختار ریاست کی حمایت کی تھی۔ لیبر پارٹی کے وزیر اعظم Yitzhak Rabin جنہوں نے امن کے لیے اپنی جان دی تھی۔ اس پارٹی کا وجود تقریباً  ختم ہو گیا ہے۔ اس انتخاب میں لیبر پارٹی نے صرف 6 نشستیں حاصل کی ہیں۔ ہم سب با خوبی جانتے ہیں کہ ایران دنیا میں کہا کھڑا ہے۔ لیکن دنیا کو اس پر توجہ دینا چاہیے کہ اسرائیل دنیا کو کدھر لے جا رہا ہے۔                                                                                                                                                                          

Thursday, April 11, 2019

Pakistan: Is The Accountability Process The Last Chapters Of Asif Zardari-Nawaz Sharif’s Politics?

Pakistan: Is The Accountability Process The Last Chapters Of Asif Zardari-Nawaz Sharif's Politics? 

مجیب خان
Prime Minister Imran Khan

Asif Zardari and son Bilawal Bhutto Zardari  

 Nawaz Sharf Three Times former Prime Minister 


   ہر سال پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی مناتی ہے۔ پارٹی کے کارکن جمع ہوتے ہیں۔ پارٹی کے رہنما زور دار تقریریں کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی جب اقتدار میں ہوتی ہے۔ لیڈروں کی تقریروں میں اتنا زور نہیں ہوتا ہے۔ صرف جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ بے نظیر بھٹو جب زندہ تھیں وہ بلاول کو گود میں لے کر بھٹو کے مقبرے پر آتی تھیں۔ اور بھٹو کی برسی پر کارکنوں سے خطاب کرتی تھیں۔ اب بلاول بھٹو زرداری کارکنوں سے خطاب کرتے ہیں۔ اور بھٹو کی برسی مناتے ہیں۔ ' بھٹو کل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے' کہ نعروں سے فضا گونج جاتی ہے۔ صرف ان نعروں نے پارٹی کو بھی زندہ رکھا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی وجہ سے بلاول بھٹو زر داری بھی بڑے قد والوں کی سیاست میں شمار ہونے لگے ہیں۔ بھٹو کی 40ویں برسی پر بلاول زر داری کا یہ پہلا خطاب تھا جب پیپلز پارٹی اقتدار میں تھی اور نہ ہی جس پارٹی سے ان کا مک مکاؤ تھا وہ اقتدار میں تھی۔ بلکہ ایک تیسری پارٹی جس کا عوام سے مک مکاؤ تھا۔ پہلی مرتبہ اقتدار میں آئی تھی۔ عمران خان وزیر اعظم تھے۔ بھٹو کی جب 18ویں برسی تھی اس وقت سے عمران خان سیاسی جد و جہد کر رہے تھے۔ اس دوران عمران خان کو حکومت میں شامل ہونے کی متعدد بار پیشکش ہوئی تھی۔ وزیر اعظم بننے کی دعوت بھی دی گئی تھی۔ لیکن عمران خان کو اقتدار کی  ہوس نہیں تھی اور انہوں نے اپنی جد و جہد جاری رکھی تھی۔ 22سال کی جد و جہد کے بعد عمران خان اب اقتدار میں آۓ ہیں۔ اور انہوں نے دونوں پارٹیوں کے کرپشن کے خلاف احتساب کو اپنی حکومت کا پہلا مشن قرار دیا ہے۔ اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنے کا عزم کیا ہے۔ پاکستان کے لوگوں کو ایک خوشحال ملک دینے کے لیے احتساب بہت انتہائی ضروری ہے۔ لوگوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو انہیں ایک خوشحال ملک دینے کے تین موقع دئیے تھے۔ لیکن ہر مرتبہ ان پارٹیوں کے لیڈروں نے اپنے خاندانوں کو خوشحال کر لیا اور لوگوں کو بدحال کر دیا تھا۔  
  بھٹو کی 40ویں برسی پر بلا و ل بھٹو زر داری نے جو تقریر کی تھی۔ اسے سن کر یہ تاثر مل رہا تھا کہ جیسے یہ تقریر ان کی عمر سے تین گنا بڑے نے لکھی تھی۔ بلا و ل زر داری 40سال آگے کی باتیں کرنے کے بجاۓ 40سال پیچھے کے پاکستان کی باتیں کر رہے تھے۔ وہ پاکستان ایک مختلف دنیا میں تھا۔ پاکستان میں لوگوں کی سوچ بہت مختلف تھی۔ لیکن آج دنیا اور لوگوں کی سوچ بدل گئی ہے۔ بلا و ل زر داری جب لندن میں زیر تعلیم تھے۔ اور اس وقت لندن میں بیٹھ کر پاکستان میں جو سیاسی تاریخ بن رہی تھی۔ جس طرح پیپلز پارٹی اقتدار میں آتی تھی اور کبھی نواز شریف کی مسلم لیگ اقتدار میں آتی تھی۔ اور پھر دونوں میں اقتدار کے ایوانوں میں دنگا فساد ہوتا تھا۔ اس کا بلا و ل زر داری نے کبھی ذکر نہیں کیا تھا۔ حالانکہ یہ تاریخ ان کی نگاہوں کے سامنے بن رہی تھی۔ بلا و ل زر داری نے عمران خان حکومت کے بارے میں کہا  ' تمہاری دم کون ہلا رہا ہے۔' بلا و ل زر داری کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ جن کی جب کوئی دم ہلاتا ہے اس کا حکومت کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ جیسے آصف علی زر داری کی حکومت تھی جس نے اپنے 60 ملین ڈالر سوئس بنک سے بحال کرانے کے بعد اپنی دم صدر بش کے ہاتھ میں دے دی تھی۔ اور دہشت گردی کی جنگ کو پاکستان کی جنگ بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ صدر بننے کے بعد زر داری نے پہلے یہ کہا تھا کہ دہشت گردی ہماری جنگ نہیں ہے۔ پھر پاکستان میں تین چار دہشت گردی کے واقعات ہونے کے بعد بش انتظامیہ نے کہا اب مانتے ہو کہ یہ تمہاری جنگ ہے ۔ صدر زر داری نے کہا ہاں یہ ہماری جنگ ہے۔ اب اگر صدر زر داری نے اپنے 60ملین بحال کرانے کے لئے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہوتا اور اپنی دم اپنے پاس ر کھی ہوتی تو صدر زر داری آستینیں چڑھا کر یہ کہتے کہ یہ ہماری جنگ نہیں لیکن ہم ان دہشت گردوں کو کچل دیں گے۔ جو دہشت گرد ہماری سر زمین پر قدم ر کھے گا وہ زندہ واپس نہیں جاۓ گا۔ اور اس کے ساتھ وہ پاکستان کی سرحدوں کو فوری طور پر سیل کرنے کا حکم دیتے۔ غیر ملکیوں کی پاکستان میں نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی جاتی۔ لیکن صدر زر داری نے پاکستان کی سرحدیں کھول دی تھیں۔ دہشت گرد بھارت سے آ رہے تھے۔ وسط ایشیا سے آ رہے تھے۔ اسرائیل سے بھی مختلف ملکوں کے پا سپورٹ پر آ رہے تھے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کی جیسے گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی۔ ہزاروں پاکستانی شہری اس دہشت گردی میں مارے گیے تھے۔ لاکھوں کا نقصان ہوا تھا۔ اسے کہتے ہیں دم ہلا کر کام لینا۔ اگر زر داری کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ اپنے عوام اور ملک کو حفاظت سے اس خوفناک سازش سے نکال لیتا۔ اور دہشت گردی کو پاکستان کی جنگ بنانے والوں کے عزائم ناکام بنا دیتا۔ زر داری حکومت کرپشن کرنے میں بہت کامیاب تھا۔ لیکن سیاست اور حکومت میں زر داری ایک فیل نام ہے۔
   پیپلز پارٹی کا یہ المیہ ہے کہ یہ تین مرتبہ اقتدار میں آئی تھی۔ لیکن اقتدار میں اپنے کارنامہ عوام کو بتانے کے لئے اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی تقریباً  دس سال سے سندھ میں حکومت  میں ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کے لیڈر سندھ کے عوام کو اپنے کارنامہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے سندھ میں کتنے نئے کارخانے اور فیکٹر یاں لگائی ہیں۔ سندھ میں کتنے ہزار لوگوں کو نوکریاں دی ہیں۔ سندھ کی زرعی پیداوار میں کس قدر اضافہ ہوا ہے۔ سندھ میں کرائمز میں کتنی کمی آئی ہے۔ ہسپتالوں کا نظام کتنا بہتر بنایا ہے۔ سندھ میں تعلیم کا معیار کتنا بہتر بنایا ہے۔ سندھ میں غربت کی شرح میں کتنی کمی ہوئی ہے۔ سندھ میں سڑکوں کا نظام بہتر بنایا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کے ایسے کوئی کارنامے نہیں ہیں۔ اس لئے پارٹی کے لیڈر صرف Non sense باتیں کرتے ہیں۔ مہنگائی وفاقی حکومت کا ہی نہیں صوبائی حکومتوں کا مسئلہ بھی ہے۔ سبزی تر کاریاں پھل صوبوں میں کاشت ہوتے ہیں۔ ان کی قیمتوں کے تعین میں صوبائی حکومتوں کو اقدام کرنا چاہیے۔ صوبائی حکومتوں کو بھی مہنگائی کی روک تھام میں  ذمہ داری قبول کرنا چاہیے۔ صوبائی حکومتیں وفاق سے فنڈ ز بھی لے رہی ہیں۔ اور پھر وفاق سے یہ بھی توقع کرتی ہیں کہ وفاق ان کے صوبہ میں مہنگائی ختم کرے، لوگوں کو امن و امان دے، شہروں میں صاف ستھرائی کے کام کرے۔ اور پھر وہ اس کا کریڈٹ لیں۔ پیٹرول کی قیمت پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہے اس کا تعلق عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمتوں سے ہوتا ہے۔ جب تیل کا بیر ل اوپر جاتا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ پیٹرول پمپ پر قیمت بدل جاتی ہے۔ اور جب پیٹرول کی قیمت گرتی ہے تو پیٹرول پمپ پر بھی قیمت کم ہو جاتی ہے۔ لیکن حکومت کا پیٹرول پر ٹیکس برقرار رہتا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کے پڑھے لکھے ذمہ دار عوام کو Educate کرنے کے بجاۓ حکومت سے ان کی مخالفت براۓ مخالفت میں عوام کو Illiterate رکھنے کی باتیں کرتے ہیں۔ جیسے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی جب حکومتیں تھیں تو لوگوں کو انگریزوں کے دور کی قیمتوں پر ہر چیز ملتی تھی۔ اب  لوگوں کو لیڈروں کو Educate کیا جاۓ۔ ورنہ بلا و ل جیسے پڑھے لکھے جاہل ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر اب بہت اوپر چلا گیا ہے۔ ڈالر 141 پر آ گیا ہے۔ لیکن یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے لئے بھی یہ ایک مسئلہ ہے۔ ڈالر بہت زیادہ strong ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے امریکہ کی ایکسپورٹ بہت مہنگی ہو گئی ہیں۔ اور امپورٹر امریکی اشیا امپورٹ نہیں کر رہے ہیں۔ امریکہ میں ایکسپورٹر بھی ڈالر strong ہونے سے پریشان ہیں۔ عالمی سیاسی اداروں میں Chaos اب عالمی مالیاتی نظام میں داخل ہو رہا ہے۔ ہر طرف غیریقینی ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب کیا ہو گا؟
  انتخابی مہم صرف 7ماہ قبل ختم ہوئی تھی۔ لیکن یہ بلا و ل زر داری کو کیا سوجھی تھی کہ اپنے حلقوں میں کام کرنے کے بجاۓ ٹرین پر چڑھ گیے اور لوگوں کو ٹرین کی بوگیوں پر چڑھ جانے کا کہا۔ یہ منظر دیکھ کر جیسے یہ تاثر پیدا ہو رہا تھا کہ بلا و ل زر داری کیا جلا وطنی سے واپس آۓ تھے۔ اس ٹرین سفر کا اور سندھ کے ہر شہر میں اسٹیشن پر لوگوں  کے یہ بڑے مجمع دکھانے کا مقصد کیا تھا؟ بلا و ل زر داری کے اس ٹرین سفر پر سندھ حکومت نے لاکھوں روپے خرچ کیے تھے۔ ان کی سیکورٹی کے لئے ہر اسٹیشن پر خصوصی پولیس لگائی گئی تھی۔ یہ اخراجات بھی سندھ حکومت نے ادا کیے تھے۔ یہ عوام کے فنڈ ز تھے۔ جو حکومت عوام پر خرچ کرنے کے بجاۓ لیڈر کے ٹرین سفر پر خرچ کر رہی تھی۔ اور لیڈر ہر جگہ اسٹیشن پر لوگوں سے مہنگائی کی بات کر رہا تھا۔ ادھر مسافروں کو خاصی پریشانی کا سامنا تھا۔ ان کی ٹرینیں لیٹ ہو رہی تھیں۔ لیڈر ائر  کنڈیشن بو گی میں سفر کر رہے تھے۔ اور عوام اسٹیشنوں پر لیڈر کی آمد کے انتظار میں گرمی سے پگل رہے تھے۔ پارٹی نے اپنے نئے نوجوان لیڈر کو اپنی پرانی سیاست کی بوتل میں ڈال دیا تھا۔
  پاکستان کے عوام نے لیڈروں کو تبدیل ہونے کے  بہت مواقع دئیے ہیں۔ لیکن لیڈروں نے عوام کو ہر مرتبہ صرف مایوس کیا ہے۔ جب کوئی پہلی مرتبہ غلطی کرتا ہے تو اسے یہ کہہ کر درگزر کر دیا جاتا ہے اب آئندہ ایسی غلطی مت کرنا۔ لیکن  دوسری مرتبہ وہ پھر وہ ہی غلطی کرتا ہے تو اس سے کہتے ہیں بڑے Idiot ہو تم نے پھر وہ  ہی غلطی کی ہے۔ اسے ہدایت کرتے ہیں کہ اب یہ غلطی مت کرنا۔ لیکن تیسری مرتبہ وہ پھر وہی  غلطی کرتا ہے تو اس سے کہتے ہیں بڑے Bastard ہو پھر وہی غلطی کی ہے۔ پاکستان میں لیڈر ہیں جو غلطیوں کی پیداوار ہیں۔ اس لئے غلطیوں سے سیکھتے نہیں ہیں۔ عوام انہیں ہر مرتبہ معاف کر دیتے ہیں۔ انہیں کندھوں پر اٹھا کر اقتدار کے ایوانوں میں چھوڑ آتے ہیں۔ پاکستان اس وقت جن مالی مصائب میں ہے یہ نواز شریف اور زر داری حکومت میں کرپشن کی قیمت ہے جو اب عوام ادا کر رہے ہیں۔ مہنگائی بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ ٹیکس میں اضافہ ، قومی خزانہ سے جو دولت چوری کی گئی ہے۔ آخر اسے کہاں سے لایا جاۓ گا۔ اس کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔ عوام اسے پورا کرتے ہیں۔ عوامی اداروں میں نقصانات، غبن اور کرپشن کے نتائج کا سامنا ہمیشہ عوام  کرتے ہیں۔
  40سال قبل جن سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے جمہوریت کو Derail کیا تھا۔ ان میں ایک جمعیت علماۓ اسلام بھی تھی۔ جس کے قائد مولانا مفتی محمود تھے۔ جنہوں نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو  انتخابات میں دھاندلیوں کے نام پر اقتدار سے ہٹانے کی تحریک شروع کی تھی۔ اور سارے پاکستان میں پہیہ جام کرایا تھا۔ مولانا مفتی محمود، مولانا مودودی، مولانا شاہ احمد نورانی، عبدالولی خان، نوابزادہ نصر اللہ خان اور چند دوسرے آئین اور جمہوریت تباہ کر کے اور ملک کا بیڑہ غرق کر کے دنیا سے گیے تھے۔ پاکستان کے  بچوں کو انہوں نے کوئی مستقبل نہیں دیا تھا۔ اب وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں پاکستان کے اچھے دن قریب آتے نظر آ رہے ہیں۔ تو مولانا فضل الرحمن اپنے باپ کے نقش قدم پر جا رہے ہیں۔ پہیہ جام کرنے کی بجاۓ ملین مارچ کرنا چاہتے ہیں۔ اور ملک کو پھر Derail کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا کے ذہن میں کوئی شریفانہ خیال کبھی نہیں آتا ہے۔ ہمیشہ شر اور فساد پھیلانے کا موقعہ دیکھتے ہیں۔ لاہور میں مولانا فضل الرحمن کی صحافیوں سے گفتگو لوگوں نے ضرور دیکھی ہو گی۔ مولانا میں کیونکہ یہ Guilt ہے کہ ان کی کوئی Credibility نہیں ہے۔ اس لیے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر سیاسی گفتگو کرتے ہیں۔ اور نعوذ باللہ اللہ کی توہین کرتے ہیں کیونکہ اس کا نام لے کر جھوٹ بولتے ہیں۔ الزام تراشی کرتے ہیں۔ معاشرہ میں نفاق پھیلانے کی سیاست کرتے ہیں۔ اور لوگوں کو آپس میں لڑاتے ہیں۔  ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے اسلام نے منع کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اپنی جماعت کی تاریخ میں ایک اچھا کام بتائیں جو عوام اور بالخصوص اسلام کے مفاد میں کیا ہے؟