Monday, August 19, 2019

Big Support From The World Community For The Extremely Oppressed People Of Kashmir



  Big Support From The World Community For The Extremely Oppressed People Of Kashmir

U.N.’s Security Councils’ Verdict: Kashmir Is A Disputed Problem, Modi’s Government Decision To Annex Kashmir Is A Violation Of The Security Council’s Resolutions And U.N. Charters.
مجیب خان

United Nations, China-backed Pakistan's request for the UN Security Council to discuss Indian's decision to revoke the special status of Jammu and Kashmir

"Zhang Jun, Chinese envoy to the U.N. "Deeply concerned about the current situation in Kashmir

Prime Minister Narendra Modi and Home Minister Amit Shah, Master mind of modi's Kashmir policy

Kashmiris protest against the Indian rule 



  چین نے ایک ایسے مشکل حالات میں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو غیر قانونی اقدام سے تبدیل کرنے کے خلاف پاکستان کے موقف کی مکمل حمایت کی ہے۔ اور کشمیر تنازعہ پر اقوام متحدہ کے فیصلے ایک بار پھر سلامتی کونسل میں زندہ کیے ہیں۔ اور کشمیر کے تنازعہ کی نوعیت اور اہمیت Refresh کی ہے کہ جب خود چین ہر طرف سے مسائل میں گھیرا ہوا ہے۔ ہانگ کانگ میں 10ہفتہ سے Black Hands نوجوانوں کو چین کی حکومت کے خلاف سرکشی کی شہ دے رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے چین کے خلاف Trade war شروع کر دی ہے۔ جو Cold war سے زیادہ مہلک ہے۔ صدر ٹرمپ چین پر ایک کے بعد دوسرا Tariff اعلامیہ جاری کر رہے ہیں۔ چین کی کمپنیوں کو قومی سلامتی کے لیے خطرے کا لیبل لگا کر Sanctions کیا جا رہا ہے۔ تائیوان کو ٹرمپ انتظامیہ نے 66 F-16 طیارے  فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایک Uighur-American خاتون پروفیسر کو قومی سلامتی کونسل کی چین پالیسی کا ڈائریکٹر نامزد کیا ہے۔ جو خود ایک Uighur ہیں۔ جبکہ امریکی بحریہ کے جہاز ساؤتھ چائنا Sea میں داخل ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ امریکہ  آسٹریلیا میں بحری اڈہ قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ اس صورت حال کے باوجود چین نے پاکستان کو کشمیر کے مسئلہ پر خصوصی اہمیت دی ہے۔ کشمیر کا کیس چین نے سلامتی کونسل میں پاکستان کے Behalf پر پیش کیا ہے۔ سلامتی کونسل نے 1948 اور پھر 1950s میں بھارت اور پاکستان میں کشمیر کے تنازعہ پر قرار دادیں منظور کی تھیں۔ جن میں مسلم اکثریتی کشمیر کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے استصواب راۓ کرانے کا کہا گیا تھا۔ ایک دوسری قرارداد میں دونوں ملکوں سے ایسے بیانات دینے اور کچھ کرنے یا سبب بننے یا کوئی بھی اقدام جس سے صورت حال میں شدت پیدا ہو سکتی تھی، محتاط رہنے کا کہا گیا تھا۔ سلامتی کونسل کے اس ہنگامی اجلاس میں ان قراردادوں کے حوالے دئیے گیے تھے۔ جس کے بعد کونسل کے اراکین نے مودی حکومت کے فیصلے کو غیر قانونی اقدام قرار دیا ہے۔ اور مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے اقتدار اعلی کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ ہر مشکل وقت میں چین کی حمایت پاکستان- چین دوستی Great Wall of China کی تاریخ بن رہی ہے۔
  کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوج کی بربریت اور ظلم 30سال سے جاری ہے۔ جس کے نتیجہ میں کشمیری عوام بھارتی فوج کے خلاف مزاحمت کرنے پر مجبور ہوۓ ہیں۔ کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوج کی بربریت اور ظلم کی کاروائیوں کے ثبوت ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ بلاشبہ سلامتی کونسل کے اراکین ان رپورٹوں سے با خوبی واقف تھے۔ مودی حکومت نے کشمیر میں گجرات کی تاریخ دہرانے کے بجاۓ کشمیری مسلمانوں کو سخت کرفیو لگا کر گھروں میں قید کر دیا ہے۔ انہیں تمام بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم کر دیا ہے۔ باہر کی دنیا سے کشمیر کے تمام رابطہ کاٹ دئیے ہیں۔ عوام کی بھاری اکثریت سے منتخب  ہونے والا لیڈر اب غیر جمہوری مزاج کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ کشمیریوں کو جمہوری حقوق دینے کی بجاۓ انہیں کٹر ہندو پرستوں کے ماتحت بنایا جا رہا ہے۔ بھارت کی جمہوریت کے دو چہرے ہیں۔ ایک دہلی میں پارلیمنٹ ہے اور دوسرا مقبوضہ کشمیر ہے۔ بہرحال بھارت کا یہ کردار، کشمیر میں بھارتی حکومت کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، نہتے شہریوں پر بھارتی فوج کے مظالم اب سلامتی کونسل کے ریکارڈ پر ہیں۔ بھارت ایک عرصہ سے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت مانگ رہا ہے۔ کیا کشمیریوں کے ساتھ بھارت کا یہ  Behavior  دیکھنے کے بعد دنیا بھارت کو سلامتی کونسل کے مستقل رکن بننے کا مستحق سمجھتی ہے؟ جبکہ بھارت نے سلامتی کونسل کی کشمیر کے تنازعہ پر قرار داروں کی خلاف ورزی کی ہے۔ پاکستان کے خلاف نیو کلیر ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ بھارت کا عالمی امن، استحکام اور تنازعوں کے پر امن حل کا “Credit” خراب ہے۔
 اقوام متحدہ میں بھارت کے سفیر نے اور دہلی میں حکومت کے وزیر دعوی کر رہے ہیں کہ کشمیر بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔ سلامتی کونسل نے بھارت کے ان دعووں کو رد کر دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ کشمیر ایک عالمی تنازعہ ہے۔ اور بھارت کو اسے سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنا چاہیے۔ روس کے وزیر خارجہ Sergey Lavrov نے کشمیر تنازعہ پر سلامتی کونسل  کے اجلاس سے چند روز قبل کہا تھا کہ بھارت اور پاکستان کو 1972 میں شملہ معاہدے اور 1999 میں لاہور معاہدے کے تحت باہمی مذاکرات سے حل کرنا چاہیے۔ گزشتہ ماہ وائٹ ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ سے ملاقات میں کشمیر کے تنازعہ میں Mediation کرنے کی درخواست کی تھی۔ جسے صدر ٹرمپ نے قبول کرتے ہوۓ کہا تھا کہ Osaka جاپان میں ان کی وزیر اعظم مودی سے ملاقات میں بھی کشمیر کے تنازعہ پر بات ہوئی تھی۔ اور اگر وہ بھی کشمیر کے تنازعہ کے حل میں مدد کرنے کے لیے کہیں گے تو وہ ضرور مدد کریں گے۔ اس وقت صدر ٹرمپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ کشمیر پر بھارت کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ مودی حکومت ظلم و جبر سے کشمیریوں کی مرضی کے خلاف ان پر بھارت کی شہریت مسلط نہیں کر سکتی ہے۔ 70 سال سے ہر بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو اس آس میں رکھا تھا کہ انہیں Plebiscite کا حق دیا جاۓ گا۔ 40سال تک کشمیری عوام پر امن بیٹھے اس دن کا انتظار کرتے رہے۔ اور جب وہ دن نہیں آیا تو 30سال سے کشمیری عوام اس دن کی تلاش میں سڑکوں پر آۓ  ہیں۔ بھارتی حکومت انہیں اس دن میں لے جانے کے بجاۓ کشمیریوں کو وردیوں میں فوجی دے رہے ہیں جن کے ہاتھوں میں ڈنڈے لاٹھیاں اور گنیں ہیں۔ جو کشمیریوں کے گلے گھونٹ رہی ہیں۔ بھارتی فوجیوں کے نہتے کشمیریوں پر ظلم اور بربریت دیکھ کر یقین نہیں آتا ہے کہ واقعی بھارت دنیا کی ایک بڑی جمہوریت ہے۔
 حالانکہ 1990s میں پاکستان میں جو سیاسی حکومتیں تھیں وہ بھارت کے ساتھ فرینڈ لی تھیں۔ انہوں نے بھارت کو ایک انتہائی پسندیدہ ملک ہونے کا درجہ دیا تھا۔ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات فروغ دینے کو اہمیت دی تھی۔ دونوں ملکوں کے درمیان آمد رفت کے راستے کھولے تھے۔ کشمیر کو دونوں ملکوں میں تعلقات کی بحالی میں رکاوٹ نہیں بنایا تھا۔ حالانکہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک جاری تھی۔ پاکستان نے شملہ معاہدہ اور لاہور سمجھوتے کے تحت باہمی مذاکرات سے کشمیر کا تنازعہ حل کرنے کے سیاسی عمل کو اہمیت دی تھی۔ بلاشبہ اس سیاسی عمل کو نشیب و فراز، سو نامی، زلزلوں، آندھیوں، طوفانوں، طغیانیوں کے باوجود جاری رکھا جاتا۔ لیکن بھارت نے 9/11 کے بعد یہ سیاسی عمل ختم کر دیا اور کشمیر کا تنازعہ بش انتظامیہ کی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں لپیٹ دیا تھا۔ امریکہ نے اسرائیلی فوجی قبضہ کے خلاف فلسطینیوں کی جد و جہد کو دہشت گردی قرار دے دیا تھا۔ اور بھارت کے خلاف کشمیریوں کی جد و جہد کے پیچھے پاکستان کی دہشت گردی کا لیبل لگ گیا تھا۔ بھارت میں ٹرین پٹری سے اترنے کا الزام پاکستان کی دہشت گردی بتایا جاتا تھا۔ بھارت نے 17سال ان الزام تراشیوں میں برباد کر دئیے تھے۔ دنیا دہشت گردی کی جنگ سے تنگ آ گئی تھی۔ صدر ٹرمپ کی اس جنگ میں دلچسپی نہیں ہے۔ کشمیر کے حالات 17 سال پہلے کے مقابلے میں آج انتہائی بدتر ہیں۔ کشمیریوں سے بھارت کے روئیے نے نفرت پیدا کی ہے۔ کشمیری اب بھارت کے ساتھ  رہنا نہیں چاہتے ہیں۔ کشمیر کے حالات خراب کرنے کے ذمہ دار بھارتی لیڈر ہیں۔ مودی حکومت نے جذباتی اور ہندو پرستی میں کشمیر کا فیصلہ کر کے بھارت کو نئی الجھن میں ڈال دیا ہے۔ لیکن بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ 'آئیں بیٹھ کر بات چیت کریں۔
  بھارت کے معاشی مسائل کشمیر تنازعہ سے زیادہ اہم تھے۔ مودی حکومت کو اس وقت بھارتی معیشت پر توجہ دینا چاہیے تھی۔ عالمی معیشت میں Recession کے الارم سنائی دے رہے ہیں۔ بھارت کو ہر سال لاکھوں نوجوانوں کے لیے روز گار فراہم کرنا ہے۔ اس سال بھارت کا GDP 7.2 سے 5.69 فیصد پر آ گیا ہے۔ بیروزگاری تقریباً 8فیصد پر پہنچ رہی ہے۔ بھارت کی آ ٹو انڈسٹری نے ساڑھے تین لاکھ لوگوں کو بیروزگار کر دیا ہے۔ کیونکہ بھارت میں کاریں فروخت نہیں ہو رہی تھیں۔ TATA نے اپنے کئی کاروں کے پلانٹ بند کر دئیے ہیں۔ جاپان کی آ ٹو کمپنیوں نے بھی اپنے کئی آ ٹو پلانٹ بند کر دئیے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں بھارت میں Toilet کا نظام بہتر بنانے کے لیے کہا ہے۔ بھارت کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے پرانا دقیانوسی Toilet system ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بھارت میں لڑکی والے رشتہ دینے سے پہلے لڑکے والوں سے گھر کے Toilet system کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ بھارت کے مسائل میں کمی نہیں ہو رہی ہے بلکہ ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مودی حکومت نے اپنے پہلے 5سالوں میں گجراتی کاروبار یوں کے مسائل حل کیے ہیں۔ اور اب اپنے دوسرے 5سال کی ابتدا کشمیر کو چھیڑ کر سارے بھارت کو مسائل کے بھنور میں ڈال دیا ہے۔ بھارت کی معیشت پر اس کے گہرے اثرات ہوں گے۔ Brexit کا مسئلہ طے ہونے کے بعد بھارت کو  برطانیہ کی یلغار کا سامنا ہو گا۔ برطانیہ نے کہا ہے کہ جنوبی اور مشرقی ایشیا اس کی بڑی تجارتی مارکیٹ ہوں گے۔ اور بھارت اس میں پہلے نمبر پر ہے۔ بھارتی لیڈر جنوبی اور مشرقی ایشیا پر اپنا سیاسی تسلط دیکھ رہے ہیں۔ اور برطانیہ بھارت کی مارکیٹ پر اپنا تجارتی تسلط دیکھ رہا ہے۔ اس مرتبہ برطانیہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ نہیں بلکہ گجراتیوں کی کمپنیوں کے ذریعہ آۓ گا۔ جن کے کاروبار برطانیہ میں بھی ہیں اور بھارت میں بھی ہیں۔ عرب برطانیہ کے لیے اپنا سرمایہ بھارت میں لگا رہے ہیں۔ اور گجراتیوں کے کاروباروں میں انویسٹ کر رہے ہیں۔              



No comments:

Post a Comment