Wednesday, January 31, 2018

Afghanistan: War In A Landlocked Country

Afghanistan: War In A Landlocked Country

“We are still in a stalemate,” said Gen. John Nicholson, Top U.S. Military Commander in Afghanistan

مجیب خان
Intercontinental Hotel in Kabul, 15-hour standoff with security forces. 22 people were killed

Bombing in Kabul
    کابل میں صرف چند روز کے وقفہ سے بموں کے دو خوفناک دھماکوں کے بعد سیکورٹی پھر Square One مسئلہ بن گیا ہے۔ 17 سال میں کھربوں ڈالر افغانستان میں سیکورٹی کو بہتر بنانے پر خرچ کیے گیے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سیکورٹی کا مسئلہ تشویشناک ہے۔ گزشتہ ہفتہ کابل میں ا نٹر کانٹینینٹل ہوٹل کا تخریب کاروں نے 15 گھنٹہ گھراؤ کیا تھا۔ جس میں 22 بے گناہ لوگ مارے گیے تھے۔ جن میں 14 غیرملکی شہری تھے۔ ان میں 4 ونیزویلا کے اور 6 یوکرین کے شہری تھے۔ 4 امریکی شہری تھے۔ ونیزویلا اور یوکرین کے یہ شہری ایک افغان نجی ایرلائن Kam Air کا فلائٹ Crew تھے۔ Kam Air کی داخلی پروازیں تھیں۔ دکھ اور تکلیف کی بات یہ تھی کہ ونيزویلا اور یوکرین کے یہ شہری افغانستان میں ائر لائن میں ملازمت کرنے آۓ تھے۔ ان کے اپنے ملکوں میں سیاسی اور اقتصادی حالات بھی خراب تھے۔ بیروزگاری بہت زیادہ تھی۔ افغان نجی ائرلائن میں انہیں ملازمت کی پیشکش ہوئی تھی۔ اور یہ ہزاروں میل سے ایک ایسے ملک آۓ تھے جس کے حالات ان کے ملک کے حالات سے زیادہ بدتر تھے۔ طیاروں سے یہ افغانوں کو ایک صوبے سے دوسرے صوبہ اور ایک شہر سے دوسرے شہر لاتے اور لے جاتے تھے۔ افغانستان میں سیکورٹی کے حالات کی وجہ سے بسوں اور کاروں سے سفر کرنا محفوظ نہیں تھا۔ لہذا افغان نجی ائرلائن سے سفر کرنے لگے تھے۔ ا نٹر کانٹینینٹل ہوٹل پر حملہ کے بعد غیر ملکی افغانستان سے بھاگ رہے ہیں۔ افغانوں کے لئے اپنی جانیں دینے کے لئے اب کوئی تیار نہیں ہے۔
   انٹر کانٹینینٹل ہوٹل میں انسانی خون ابھی خشک نہیں ہوا تھا کہ کابل کے ایک مصروف ترین علاقہ میں طالبان نے بارود سے بھری ایمبولینس کو زور دار دھماکہ سے اڑا دیا تھا۔ جس میں تقریباً 105 لوگ ہلاک ہو گیے تھے۔ اور 2سو لوگ زخمی ہوۓ تھے۔ زخمیوں سے ہسپتال بھر گیا تھا۔ اور لوگ مردہ خانوں میں مرنے والوں کی شناخت کر رہے تھے۔ افغانستان میں سیکورٹی کے صورت حال میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں فوجوں میں اضافہ کیا پھر کمی کی اور پھر اضافہ کیا لیکن حالات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی نئی افغان حکمت عملی گزشتہ سال واضح کی ہے۔ اور اس حکمت عملی کے تحت سات ہزار مزید فوجیں افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی افغان حکمت عملی بھی سابقہ دو انتظامیہ کی حکمت عملی سے مختلف نہیں ہے۔ اور یہ بھی Doom to Fail ہو گی۔ افغانستان کو دوبارہ ایک ملک بنانے میں بہت سے ملکوں اور حکومتوں نے کوششیں کی ہیں۔ افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کی بھی یہ حسرت ہے کہ افغانستان ایک پر امن ملک کب ہو گا؟ لیکن یہ ایک ایسا خواب ہے کہ جس کی کوئی تعبیر نہیں ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں بڑی Blunders کی ہیں۔ اور بے شمار ملک اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ افغانستان میں Rural insurgency ہے جو Urban insurgency سے بہت مختلف اور زیادہ خطرناک ہے ۔ 80 کے عشرہ میں سوویت یونین کے خلاف امریکہ نے Rural insurgency کو ابھارا تھا۔ سی آئی اے نے انہیں تربیت دی تھی۔ اور یہ lethal insurgents ثابت ہوۓ تھے۔ بش انتظامیہ نے ان Lethal insurgents کو امریکہ کا Certified Enemy قرار دیا تھا۔ حالانکہ صدر بش نے افغانستان میں غیرملکیوں کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کا کہا تھا۔ جنہوں نے صدر بش کے مطابق ستمبر 11 کو امریکہ پر حملہ کیا تھا۔ تاہم طالبان حکومت میں ظلم اور بربریت کے نتیجہ میں ان کی حکومت ختم کی گئی تھی۔ لیکن بش انتظامیہ کا طالبان کا مکمل خاتمہ کرنے تک جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ غلط تھا۔
   افغانستان کے حالات اب ایک ایسے مقام پر آ گیے ہیں کہ جس کا ‏علاج نہیں ہے۔ طالبان کی نشاندہی کرنا بھی اب مشکل ہو گیا ہے کہ طالبان کون ہیں؟ طالبان کا خوف ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ طالبان خود طالبان سے خوفزدہ ہیں۔ جو طالبان سیاسی حل چاہتے تھے امریکہ کے ڈر ون نے انہیں ٹارگٹ کیا تھا۔ اور ان طالبان کو مضبوط کیا تھا جو بموں کے دھماکوں سے افغانستان کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ کئی ملکوں نے طالبان سے ایک سیاسی حل کے لئے مذاکرات کیے ہیں۔ چین اور روس نے بھی افغانستان میں امن کے لئے کوششیں کی ہیں۔ طالبان سے رابطہ کیے ہیں۔ ترکی نے بھی طالبان سے مذاکرات کیے ہیں۔ پاکستان نے متعدد بار طالبان سے افغانستان کے مسئلہ کا سیاسی حل کی کوششیں کی ہیں۔ لیکن کبھی امریکہ نے پاکستان کی کوششوں کو ویٹو کر دیا تھا۔ اور کبھی امریکہ کے ڈر ون حملوں نے ان طالبان رہنماؤں کو ہلاک کر دیا تھا۔ جو ایک سیاسی حل کی طرف آ رہے تھے۔ پاکستان نے ایک مرتبہ پھر اس ماہ یہ کوشش کی تھی۔ اور طالبان رہنماؤں سے اسلام آباد میں افغانستان میں امن کے لئے مذاکرات کیے تھے۔ چین کے مندوب بھی اس موقع پر موجود تھے۔ طالبان نے پاکستان کے نقطہ نظر کو سنا تھا۔ اور یہ کہہ کر  گیے تھے کہ وہ ان مذاکرات کی رپورٹ اپنے رہنماؤں کو پیش کریں گے۔
   یہ مذاکرات ابھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچے تھے کہ کابل میں طالبان نے دو بڑے دھماکہ کر دئیے جن میں 128 لوگ مارے گیے تھے۔ اور دوسو سے زیادہ لوگ زخمی ہو گیے تھے۔ اس جنگ کو جتنا زیادہ طول دیا گیا ہے۔ اتنی ہی زیادہ اس میں پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اب ایک طالبان وہ ہیں جو مذاکرات کے ذریعہ سیاسی حل چاہتے ہیں۔ اور ایک طالبان وہ ہیں جو بموں کے دھماکہ کر کے سیاسی حل کی کوششوں کو سبوتاژ کر تے ہیں۔ اور ایک طالبان وہ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ افغانستان کے 59 فیصد  حصہ پر ان کا کنٹرول ہے۔ لیکن 59 فیصد افغانستان کے جس حصہ پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ وہاں امن کی صورت حال افغانستان کے 41 فیصد حصہ سے مختلف نہیں ہے۔ افغانستان کے جو علاقہ  طالبان کے کنٹرول میں ہیں سیکورٹی ان کا مسئلہ بھی ہے اور جو علاقہ کابل حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ وہاں بھی سیکورٹی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ امریکہ نے تقریباً  4 لاکھ افغان سیکورٹی فورس کو تربیت دی ہے۔ لیکن ان کی سرگرمیاں طالبان کا خاتمہ کرنے کے مشن تک محدود ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2017 میں 10 ہزار افغان سیکورٹی فورس کے لوگ مارے گیے تھے۔ جبکہ 15 ہزار سے زیادہ زخمی ہوۓ تھے۔ رپورٹ کے مطابق اتنی ہی تعداد میں طالبان ہلاک اور زخمی ہوۓ تھے۔ دونوں طرف ہلاکتوں اور زخمیوں کے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ افغانستان میں مقابلہ انتہائی سخت ہے۔ حکومت کی سیکورٹی فورس طالبان کو زیر نہیں کر پا رہی ہے۔ اور طالبان حکومت پر قبضہ نہیں کر سکتے ہیں۔ افغان جنگ اب 18ویں سال میں داخل ہو رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کی نئی افغان حکمت عملی کی کامیابی کے امکان بھی بہت مدھم ہیں۔
   امریکہ اور نیٹو افغانستان میں ایک ایسے mind set دشمن سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ خدا نے افغانستان کو جنگیں لڑنے کے لئے ایک بہترین ملک بنایا ہے۔ اور افغان مرنے کے لئے پیدا ہوۓ ہیں۔ امریکہ اور نیٹو کی اعلی تربیت یافتہ فوجیں یہ سوچ رکھنے والے افغانوں سے جنگ لڑ رہی ہیں۔ اور انہیں شکست دینے کی ہر مرتبہ نئی حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔ جو فیل ہو جاتی ہے۔ 17 سال قبل بش انتظامیہ کو افغانستان میں جنگ جیتنے کا ایک سنہری موقعہ ملا تھا۔ جسے بش انتظامیہ نے Blunders   کر کے کھو دیا تھا۔ بش کے بعد اوبامہ انتظامیہ نے بھی ان Blunders کو نظر انداز کر دیا تھا۔ اس پر کبھی غور نہیں کیا تھا کہ طالبان امریکہ کی سی آئی اے کے تربیت یافتہ مجاہدین تھے۔ جنہیں سو ویت یونین کو افغانستان میں شکست دینے کے لئے سی آئی اے نے تربیت دی تھی۔ اور امریکہ اب اپنے ہی تربیت یافتہ تخریب کاروں سے لڑ رہا تھا۔ امریکہ کے لئے انہیں شکست دینا مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن سی آئی اے کے تربیت یافتہ افغان طالبان کے لئے امریکہ اور نیٹو کو ناکام بنانا اتنا مشکل نہیں ہے۔ طالبان سے مسلسل محاذ آ رائی کے بجاۓ امریکہ کو مصالحت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ سی آئی اے کے پاس افغانستان میں اپنے تربیت یافتہ تخریب کاروں کے Ware about  کا علم تھا۔ ان میں سر کردہ جلال الد ین حقانی کا نیٹ ورک بھی شامل تھا۔ جلال الد ین حقانی وائٹ ہاؤس میں صدر ریگن سے ملے تھے۔ اور سو ویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکہ کے قریبی اتحادی تھے۔ 2015 میں جلال الد ین حقانی کا انتقال ہو گیا تھا۔ اور ان کے صاحبزادے سراج الد ین حقانی اب حقانی نیٹ ورک کے بانی ہیں۔
    حزب اسلامی کے حکمت یار گلبدین بھی سی آئی اے کے انتہائی قریبی حلقہ میں تھے۔ 80 کے عشرہ میں سو ویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی تھے۔ لیکن حقانی نیٹ ورک کی طرح گلبدین بھی امریکہ کے خلاف ہو گیے تھے۔ گلبدین کا نام اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی دہشت گردوں کی فہرست میں تھا۔ اور اقوام متحدہ نے بھی گلبدین کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ حکمت یار گلبدین کا کابل حکومت سے سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ گلبدین نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ گلبدین کی حزب اسلامی کا افغانستان کی سیاست میں مقام بحال ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکہ نے دہشت گردوں کی فہرست سے گلبدین کا نام نکال دیا ہے۔ اسی طرح حقانیوں کو بھی افغانستان کے سیاسی عمل میں لایا جا سکتا تھا۔ حقانی امریکہ کے پرانے اتحادی تھے۔ ان کے ساتھ سیاسی ڈائیلاگ ہو سکتے تھے۔ ان کے ساتھ اختلافات کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی۔ اور ان کا ازالہ کیا جاتا۔ امریکہ نے 17 سال میں ایک مرتبہ بھی افغان مسئلہ کے سیاسی حل کی کوشش نہیں کی تھی۔ جنگ میں ایک یقینی شکست سے بچنے کا راستہ سیاسی ڈائیلاگ سے جنگ جیتنا ہوتا ہے۔ صدر ٹرمپ ایک کامیاب  Deal maker  اور بزنس مین ہیں۔ افغانستان صدر ٹرمپ کی کاروباری صلاحیتوں کے لئے ایک چیلنج اور آزمائش ہے۔                

No comments:

Post a Comment