Sunday, January 21, 2018

How Will They Rebuild War Torn Countries Of The Middle East?

How Will They Rebuild War Torn Countries Of The Middle East?

World Can’t Expect From Those, Who Help In Human Destruction
OPEC Should Have Price Of Oil At $100 Dollars Per Barrel, $10
 Dollars Per Barrel, OPEC Gave To UNRWA, Who’s Funding U.S. Has Cut. While $20 Dollars Per Barrel Should Be Given To Rebuild The War Torn Countries. These Funds Should Be Managed By The U.N. Commission For Reconstruction Of War Torn Countries.

مجیب خان

Can anybody see where is Iranian influence in this Ruble, Syria  

Forces of Human Destruction, Syria

War destruction in Yemen

Iraq, Mosul
   عالمی برادری کے سامنے اس وقت دو بڑے اور اہم ایشو ہیں۔ اقوام متحدہ کی فنڈنگ کس طرح کی جاۓ؟ اور مڈل ایسٹ میں جس طرح تباہی پھیلائی گئی ہے اور بے گناہ ملکوں کو کھنڈرات بنایا گیا ہے۔ ان ملکوں کو تعمیر کرنے کے لئے فنڈ کیسے جمع کیے جائیں؟ اقوام متحدہ کے ممبر ملکوں نے یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کو جس طرح مسترد کیا ہے۔ اس پر ٹرمپ انتظامیہ نے اقوام متحدہ کو فنڈ کی فراہمی میں کٹوتی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلہ پر فلسطینیوں نے امن مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ جس پر ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینیوں کی 120 ملین ڈالر کی امداد آدھی کر دی ہے۔ اور 65 ملین ڈالر فلسطینیوں کی ٹرمپ انتظامیہ کی مذمت کرنے پر انہیں سزا دینے کے لئے روک لئے ہیں۔ یہ امریکی امداد مہاجر کیمپوں میں فلسطینیوں کو غذا فراہم کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے ذریعہ دی جاتی تھی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس فیصلہ سے افلاس اور بھوک سے دم توڑتی انسانیت کو بلیک میل کیا ہے۔ جبکہ اسرائیل نے  فلسطینیوں کا پانی بند کیا ہے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی بجلی کاٹ دی ہے۔ اور انہیں بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم کر دیا ہے۔ ان کا یہ رویہ قابل مذمت اور باعث شرم ہے۔ وہ امن کیسا ہو گا جو بلیک میل سے اسرائیل کے لئے خریدا جا رہا ہے۔ جس طرح اسرائیل کے ساتھ مصر کا سمجھوتہ خریدا گیا تھا۔ امریکہ تل ابیب میں مصر کا سفارت خانہ کھلا رکھنے اور مصری سفیر کو سفارت خانہ میں بیٹھا نے کے لئے 3 بلین ڈالر سالانہ امداد 1980 سے ادا کر رہا ہے۔ اس سے زیادہ اس سمجھوتہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس سمجھوتہ کے 32 سال بعد مصر میں جب جمہوری منتخب حکومت اقتدار میں آئی تو اسرائیلی خوفزدہ ہو گیے تھے کہ Islamist اسرائیل کے گرد حلقہ تنگ کر رہے تھے۔  1994 میں ارد ن نے جب اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ اس کے بعد سے امریکہ ارد ن کو 150 ملین ڈالر سالانہ امداد دیتا ہے۔ مغربی کنارے میں محمود عباس کی قیادت میں فلسطینی حکومت کو بھی امریکہ  سالانہ مالی امداد دیتا ہے۔ اور جب بھی فلسطینی اسرائیل کے خلاف سڑکوں پر آتے ہیں۔ امریکہ نے فلسطینی حکومت کی امداد بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اور اب ٹرمپ انتظامیہ فلسطینیوں کو اسرائیل کی شرائط پر امن سمجھوتہ کرنے کے لئے بلیک میل کر رہی ہے۔ حالانکہ صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران یہ کہا تھا کہ وہ فلسطین اسرائیل تنازعہ میں Neutral رہیں گے۔ طرفدار بننے سے یہ تنازعہ کبھی حل نہیں ہو گا۔ لیکن یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے اور فلسطینیوں کی امداد روک کر صدر ٹرمپ سو فیصد اسرائیل کے طرفدار ہو گیے ہیں۔ اور یہ تنازعہ اب حل نہیں ہو گا۔
   دوسرا بڑا مسئلہ جن ملکوں کو غیر قانونی جنگو ں نے کھنڈرات بنایا ہے۔ ان کی تعمیر نو ہے۔ با لخصوص شام کی تعمیر نو کو اہم ترجیح دی جاۓ۔ تاکہ 20 ملین شامی مہاجرین واپس آئیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے شام کی تعمیر نو کرنے کی ابھی تک کوئی بات نہیں کی ہے۔ یورپی یونین نے بھی اس سلسلے میں کوئی منصوبہ نہیں دیا ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ ریکس ٹلر سن نے کہا ہے کہ امریکی فوجیں شام کے شمال میں ایران اور حزب اللہ کے اثر و رسوخ کی وجہ سے غیر معینہ مدت تک رہیں گی۔ ان کی سمجھ میں شاید یہ نہیں آ رہا ہے کہ جب 20 ملین شامی واپس آئیں گے تو ایران اور حزب اللہ کا اثر و رسوخ  شام سے غائب ہو جاۓ گا۔ ایران کا اثر و رسوخ دراصل Zionist hype ہے۔ جس طرح صد ام حسین کے بارے میں یہ پراپگنڈہ کیا گیا تھا کہ وہ مڈل ایسٹ کے تیل کی سپلائی کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔ حالانکہ مڈل ایسٹ کا تیل اوپیک کنٹرول کرتی تھی۔ اور ہر ملک کے لئے اوپیک نے تیل کا کوٹہ مقرر کیا تھا۔ اور عراق  اوپیک میں شامل تھا۔ صد ام حسین دنیا کی نظروں میں کتنا ہی برا انسان تھا۔ لیکن اس میں اتنی انسانیت ضرور تھی کہ صد ام حسین نے کویت کو شام کی طرح کھنڈرات نہیں بنایا تھا۔ عالمی برادری نے کویت پر عراقی قبضہ کی جس قانون کے تحت مخالفت کی تھی۔ اسی قانون کے تحت عالمی برادری کو شام کے شمالی علاقہ پر امریکی قبضہ کی مخالفت کرنا چاہیے۔ اور شام کی آزادی اور Sovereignty کو بحال کیا جاۓ۔
   اہم سوال اب یہ ہے کہ شام کی تعمیر نو کے لئے فنڈ کون دے گا؟ اور یمن عراق اور لیبیا کی تعمیر نو کے اخراجات کون دے گا؟  ٹرمپ انتظامیہ نے اقوام کے فلسطینی مہاجروں کے لئے غذائی اشیا کی فراہمی کے لئے فنڈ میں کمی کر دی ہے۔ اور اقوام متحدہ  فلسطینیوں کو غذا فراہم کے لئے عالمی برادری سے  فنڈ ز دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ کویت نے آئندہ ماہ عراق کی تعمیر نو کے لئے فنڈ جمع کرنے کے لئے Donor ملکوں کا اجلاس بلایا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہ ہی عراق ہے جس کے پہلی خلیج جنگ کے بعد تیل کی آمدنی جنیوا میں اقوام متحدہ کے  Compensation Commission میں جمع ہوتے تھے۔ اور عراق کے کویت پر حملہ سے جن ملکوں کا نقصان ہوا تھا۔ انہیں اس کی ادائیگی کی جاتی تھی۔ صد ام حسین کا کویت پر سات ماہ کے دوران جو لوٹ مار ہوئی تھی اور نقصان پہنچا تھا اس کی ادائیگی کے لئے عراق نے 50 بلین ڈالر اقوام متحدہ فنڈ میں دئیے تھے۔ اس کے علاوہ کویت کے تیل کی پیداوار اور فروخت کا جو نقصان ہوا تھا۔ UNCC نے 14.7 بلین ڈالر کویت پیٹرولیم کو ادا کیے تھے۔ اور اب بالکل اسی طرز پر اقوام متحدہ کا عراق، شام، یمن، اور لیبیا کی تعمیر نو کرنے کے لئے کمیشن قائم کیا جاۓ۔ عالمی مارکیٹ میں تیل 100 ڈالر فی بیرل ہونا چاہیے۔ اس میں سے 10 ڈالر فی بیرل کے حساب سے اقوام متحدہ کے Refugee Agency کو دئیے جائیں جو فاقہ کش فلسطینیوں کو Feed کرتا ہے۔ جس کی ٹرمپ انتظامیہ نے سیاسی بنیاد پر امداد کاٹ دی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ ادارہ War Torn ملکوں کے لاکھوں لا وارثوں کی دیکھ بھال بھی کرتا ہے۔ جو منافع خور ملکوں کے ہتھیاروں کے Victim ہیں۔ جبکہ 30 ڈالر فی بیرل کے حساب سے War Torn ملکوں کی تعمیر نو فنڈ میں جمع کیے جائیں۔ اور یہ فنڈ اقوام متحدہ Manage کرے اس کی بیلنس شیٹ ہر سال رکن ممالک کو فراہم کی جاۓ۔
   بش انتظامیہ میں تیل کا بیرل 130 اور 140 ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عالمی آئل کمپنیاں وسط ایشیا سے تیل کی پائپ لائنیں یورپ لے جانے پر کھربوں ڈالر کے اخراجات تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے پورے کر رہی تھیں۔ ہتھیاروں کی صنعت نے لوگوں کی زندگیاں برباد کر کے کھربوں ڈالر منافع کمایا ہے۔ ہتھیاروں کی صنعت کی یہ بربریت جوزف اسٹالن کے ظلم سے مختلف نہیں ہے۔ اور اب OPEC ملکوں کو اپنے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر کے ان تباہ حال لوگوں کو نئی زندگی دینا ہے۔         

No comments:

Post a Comment