Thursday, January 4, 2018

Human Rights Segregation In American Foreign Policy

Human Rights Segregation In American Foreign Policy    

President Trump’s New Year's Greeting For The People Of Pakistan, “They Have Given Us Nothing But Lies & Deceit”

مجیب خان

Protests against the government of Iran
Students protest outside Tehran University against the Iranian government 

Protesters supporting the Iranian government
    واشنگٹن میں Swamps صدر ٹرمپ کو کیا ایران میں Regime change کے راستہ پر لے آۓ ہیں؟ ان کے خیال میں ایران میں مظاہرین اس کے لئے زمین زر خیز کر رہے ہیں۔ اور امریکہ کو انہیں صرف push کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر ٹرمپ نے نئے سال کے اپنے پہلے پیغام میں جو ایران میں سڑکوں پر حکومت کے خلاف نعرے لگانے والوں کو دیا تھا۔ جس میں ایران میں ایک ظالم اور کر پٹ حکومت کے خلاف ان کے مظاہروں کی حمایت کی تھی۔ اور ایران میں حکومت کی تبدیلی کے لئے ان کے  مطالبہ سے صدر ٹرمپ نے اتفاق کیا تھا۔ ایران اب صدر ٹرمپ کے ریڈار پر ہے۔ حالانکہ صدارتی انتخابی مہم میں صدر ٹرمپ نے سابقہ دو انتظامیہ بش اور اوبامہ کی Regime Change پالیسی پر سخت تنقید کی تھی۔ اور اس پالیسی کو مشرق وسطی کے مسائل کا سبب بتایا تھا۔ جس کے نتیجہ میں مشرق وسطی عدم استحکام ہو رہا تھا۔ دہشت گردی کا فروغ ہوا تھا۔ اور ISIS وجود میں آئی تھی۔ صدر ٹرمپ نے امریکی عوام  سے کہا تھا کہ انہیں Regime Change میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اور وہ Nation Building نہیں کریں گے۔ مڈل ایسٹ میں وہ مداخلت نہیں کریں گے۔ America First ان کی انتظامیہ کی پالیسی ہو گی۔ Sovereign ممالک اور Regions استحکام اور سلامتی کے فیصلے خود کریں گے۔
   لیکن بد قسمتی سے امریکی عوام نے جسے بھی صدر منتخب کیا ہے وہ بیرونی مہم جوئیوں میں ملوث ہو جاتا ہے یا ان میں گھر جاتا ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز پر امریکی عوام نے جسے صدر منتخب کیا تھا۔ اس نے پہلے افغانستان اور پھر عراق میں حکومتیں تبدیل کرنے میں ان کے وسائل لوٹا دئیے تھے۔ پھر ایک دوسرے صدر نے لیبیا میں حکومت تبدیل کی تھی۔ لیکن شام میں حکومت تبدیل کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئی تھیں۔ ان کوششوں نے شام  کوGround Zero بنا دیا ہے۔ اور اب اکیسویں صدی کے تیسرے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران میں حکومت تبدیل کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ایران میں حکومت تبدیل کرنے کا ایجنڈہ Swamps کا ہے۔ کیا  Swamps کے ساتھ صدر ٹرمپ کا سمجھوتہ ہو گیا ہے؟
   2018 کے نئے سال کی پہلی صبح دنیا کے عوام کو امن، سلامتی، استحکام اور اقتصادی خوشحالی کا پیغام دینے کے بجاۓ صدر ٹرمپ نے 2018 کے اپنے پہلے Tweet میں پاکستان کے عوام کو یہ پیغام دیا کہ “The United States has foolishly given Pakistan more then 33billion dollars in aid over the last 15 years, and they have given us nothing but lies & deceit, thinking of our leaders as fools.”
صدر ٹرمپ نے یہ غلط کہا ہے کہ پاکستانی امریکی لیڈروں کو بیوقوف سمجھتے ہیں۔ پاکستانی دراصل اپنے لیڈروں کو بیوقوف سمجھتے ہیں جو ہمیشہ امریکہ کی خطرناک مہم جوئیوں میں اتحادی بن جاتے ہیں۔ امریکہ اپنی مہم جوئیوں میں اتحادی بنانے کے لئے انہیں لاکھوں ڈالروں کی پیشکش کرتے ہیں اور وہ لالچ میں آ کر اتحادی بن جاتے ہیں۔ اور پھر 2018 کے نئے سال کی پہلی صبح انہیں Curse کیا جاتا ہے۔ پاکستان اتحادی بننے کی اس سیاست میں سب سے زیادہ Looser ہے۔
    صدر ٹرمپ نے نئے سال کے ایک دوسرے Tweet میں ان ایرانیوں کو پیغام دیا تھا جو حکومت کے خلاف سڑکوں پر نعرے بازی اور ہنگامہ آ رائی کر رہے تھے۔ صدر ٹرمپ نے  Tweet میں کہا “ The people of Iran are finally acting against the brutal and corrupt Iranian regime. All of the money that President Obama so foolishly gave them went into terrorism and into their “pockets”. The people have little food, big inflation and no human rights. The U.S. is watching!
صدر ٹرمپ نے Tweet میں ایرانی حکومت کے بارے میں جو کچھ کہا ہے۔ صدر بش نے بھی عراق میں صد ام حسین حکومت کے بارے میں یہ ہی کہا تھا۔ اور صدر اوبامہ نے شام میں اسد حکومت کے بارے میں بالکل یہ ہی جملے استعمال کیے تھے۔ جبکہ ایرانی حکومت ان سے بہت مختلف ہے۔ ایران میں حکومت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اور ایرانی حکومت نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ صدر روحانی نے لوگوں کے احتجاج کرنے  کا حق تسلیم کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے بارے میں بھی انہیں متنبہ کیا ہے۔ مصر، سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارت میں مطلق العنان حکومتیں ہیں۔ اور یہ سب امریکہ کے بہت قریبی اتحادی ہیں۔ مصر یا سعودی عرب میں حکومت کے خلاف کیا لوگ اس طرح احتجاج کر سکتے ہیں؟ ان ملکوں میں پریس کو آزادی نہیں ہے۔ الجیزیرہ کی نشریات بند کرانے کے مسئلہ پر سعودی عرب کی  قطر سے لڑائی ہو رہی ہے۔
  امریکہ کو بادشاہوں کی مطلق العنان حکومتوں اور آئین اور انتخابات کے ذریعہ منتخب ہونے والی حکومت میں ضرور فرق تسلیم کرنا چاہیے۔ ایران میں 1980 کی دہائی سے پابندی کے ساتھ انتخاب ہو رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندے حکومت کے فیصلے کرتے ہیں۔ بادشاہ کی طرح آیت اللہ اپنے فیصلے عوام پر مسلط نہیں کرتے ہیں۔ امریکہ اور مغرب کی مدد کے بغیر ایران کی قیادت ہر چیلنج کا سامنا کر رہی ہے۔ جبکہ مطلق العنان حکمران امریکہ اور مغرب کی بھر پور حمایت کے باوجود آ گے بڑھ رہے ہیں اور نہ ہی پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اپنے عوام کے ساتھ صرف لڑائیوں میں پھنسے ہوۓ ہیں۔ ایران میں جس طرح ہنگامہ ہو رہے ہیں۔ اور حکومت کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آۓ ہیں۔ اگر یہ ہنگامہ اور حکومت کے خلاف مظاہرے سعودی عرب، بحرین، اور متحدہ عرب امارت میں ہو رہے ہوتے تو صدر ٹرمپ اور اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر ایران کو اس کا الزام دینے لگتے۔ ایران کو دھمکیاں ملنے لگتی۔ مظاہرین کو داعش کے دہشت گرد بتایا جاتا۔ اقوام متحدہ کی تاریخ میں امریکہ نے فلسطینیوں کے حقوق کی کبھی بات نہیں کی ہے۔ فلسطینی جو 50 سال سے اسرائیلی Military Occupation میں خود کو زندہ رکھنے کی جد و جہد کر رہے۔ امریکہ نے کبھی ان کے لئے سلامتی کونسل کا اجلاس نہیں بلایا تھا۔
   جس وقت امریکہ کی سفیر Nikki Haley اقوام متحدہ میں پریس کانفرنس میں ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس بلانے کی بات کر رہی تھیں۔ اور ایران میں حکومت تبدیل کرنے کی مہم کی حمایت میں ٹرمپ انتظامیہ کا موقف بیان کر رہی تھیں۔ اسی وقت اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین سعودی عرب سے انسانی حقوق کے سرگرم عناصر کے خلاف Repression ختم کرنے اور سینکڑوں دوسرے لوگوں کو جو اپنے شہری اور سیاسی حقوق کے لئے پرامن مظاہرہ کرنے پر ستمبر سے نظر بند تھے۔ انہیں رہا کرنے کا کہا تھا۔ ان میں 60 سے زیادہ نامور مذہبی عالم دین، Writers، صحافیوں، ماہر تعلیم اور سیاسی عناصر شامل تھے۔ جنہیں ستمبر میں سعودی حکومت کی گرفتاریوں کی ایک مہم کے دوران نظر بند کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے کہا “Despite being elected as member of the Human Rights Council at the end of 2016, Saudi Arabia has continued its practice of silencing, arbitrarily arresting, detaining and persecuting human rights defenders and critics.”
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مڈل ایسٹ میں امریکہ کے جو قریبی Allies ہیں وہ سب Human Rights Polluters  ہیں۔ بلکہ خود امریکہ کی پالیسی بھی ان کے ساتھ شامل ہے۔ Military occupation is The Gross Human rights violations in the Human history لیکن امریکہ نے ہمیشہ اسے Ignore کیا ہے۔ مصر کی جیلیں آزادی اور سیاسی حقوق مانگنے والوں سے بھری ہوئی ہیں۔ جن میں900 کو فوجی حکومت نے سزاۓ موت دی ہے۔ پریس کی آزادی پر تالے ڈال دئیے ہیں۔ سعودی عرب میں مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر شیعاؤں کو موت کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ جو حکومت پر تنقید کرتا ہے۔ اسے بھی موت کی سزاؤں میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ پریس کی آزادی سعودی حکومت کے لئے ایران سے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ بحرین میں بھی ایران کی طرح ہزاروں لوگ سڑکوں پر حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے آۓ تھے۔ اور یہ بھی ان ایرانیوں کی طرح حکومت کے کرپشن اور آزادی اور سیاسی حقوق مانگ رہے تھے۔ لیکن امریکہ کے واچ میں سعودی اور بحرین کی فوج نے انہیں کچل دیا تھا۔ آج ایران کی حکومت کے بارے میں یہ کہا جا رہا کہ ایران لاکھوں ڈالر مڈل ایسٹ میں شام، یمن، اور حزب اللہ پر خرچ کر رہا ہے۔ لیکن سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارت، کویت، قطر 70 سال سے کھربوں ڈالر کے ہتھیار امریکہ سے خرید رہے ہیں۔ اور اپنے عوام کو انہوں نے غریب رکھا ہے۔ ان ملکوں میں نوجوانوں کی ایک فوج ہے جو بیروزگار ہے۔ جن کی حکومتوں کو امریکہ ہتھیار فروخت کرتا ہے۔ اور ان کے بیروزگار نوجوانوں کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ ان اتحادیوں کے ساتھ اور ان پالیسیوں کے نتیجہ میں امریکہ اپنی Credibility کھو چکا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر Nikki Haley کی ایران میں انسانی حقوق کے بارے میں باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے۔ امریکہ ایک بڑی دنیا سے گر کر اس چھوٹی دنیا میں آ گیا ہے جس نے یروشلم کے مسئلہ پر امریکہ کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔    







             

No comments:

Post a Comment