Monday, March 11, 2019

New World Order, ‘By hook or by crook’

 New World Order, ‘By hook or by crook’

Today Venezuela, Tomorrow A Dissident Will Be A Legitimate Leader Of North Korea

مجیب خان
North Korean leader Kim Jong Un and US President Donald Trump in the Metropole hotel in Hanoi, Vietnam, Feb 28, 2019 

President Xi Jinping and Nicolas Maduro, China backs Nicolas Maduro legitimate President of Venezuela 

President Vladimir Putin with President Hassan Rouhani, Russia support for 2015 nuclear accord



  شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے صدر ٹرمپ کی دوسری تاریخی ملاقات اچانک کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی۔ صدر ٹرمپ نے ویت نام روانہ ہونے سے پہلے بڑے اعتماد سے 'چیرمین کم جونگ ان سے ہنوئی ملاقات میں معاہدہ ہونے کا اظہار کیا تھا۔ شمالی کوریا نے ایک سال سے نئے میزائل تجربہ نہیں کیے ہیں۔ اور اپنا ایٹمی پروگرام بھی منجمد کر دیا ہے۔ جو اچھے اقدام ہیں۔' صدر ٹرمپ نے کہا 'انہیں نیوکلیر پروگرام فوری طور پر بالکل ختم کرنے کی جلدی نہیں ہے۔ اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ چیرمین کم جونگ ان نے میزائل تجربے بند کر دئیے ہیں۔' پھر یہ خبر بھی آئی تھی کہ صدر ٹرمپ شمالی کوریا کو اقتصادی بندشوں میں کچھ Relief دینے کا اعلان کریں گے۔ اور دونوں ملکوں میں ڈپلومیٹک مشن کھولنے کا فیصلہ بھی کیا جاۓ گا۔ لیکن ہنوئی میں ٹرمپ-کم ملاقات اچانک ختم ہو گئی۔ اور صرف 4 نکات پر ایک مختصر اعلامیہ جاری ہوا تھا جس میں دونوں ملکوں نے مل کر کام کرنے کا کہا تھا۔ دونوں ملکوں میں تعلقات بہتر بنانے، آ بناۓ کوریا میں ایک پائدار اور مستحکم امن فروغ دینے، اور Pyongyang کے ایٹمی ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ کرنے اور کوریا جنگ میں جو امریکی مارے گیے تھے ان کے جسم خاکی واپس کرنے کا کہا تھا۔ اس مختصر اعلامیہ کے بعد دونوں رہنما کسی الوداعی ملاقات کے بغیر واپس اپنے ملک چلے گیے۔ تاہم صدر ٹرمپ کا ویت نام دورہ اس لحاظ سے کامیاب تھا کہ انہوں نے ویت نام کے صدر Nyuyen Phu Trong سے صدارتی محل میں ملاقات کی تھی۔ اور پھر صدر Nyuyen کے ساتھ صدر ٹرمپ نے ویت نام کی دو نجی ائر لائن کے تقریباً 16بلین ڈالر کی مالیت کے 110 بوئنگ طیارے خریدنے کے سمجھوتہ کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ اور امریکی بوئنگ کمپنی سے  طیارے خریدنے پر ویت نام کی حکومت اور نجی ائرلائن کا شکر یہ ادا کیا تھا۔
  ہنوئی میں ٹرمپ-کم ملاقات کے بعد 4 نکاتی اعلامیہ میں شمالی کوریا سے آ بناۓ کوریا میں ایک پائدار امن کے لئے کام کرنے کا کہا گیا ہے۔ لیکن چیرمین کم جونگ ان نے صدر ٹرمپ سے 1953 سے آ بناۓ کوریا میں امریکہ نے جو اعلان جنگ برقرار رکھا ہے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن صدر ٹرمپ امن کے مفاد میں اسے ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہوۓ تھے۔ حالانکہ شمالی کوریا کا یہ بہت جائز مطالبہ تھا۔ 65 سال سے ان پر مسلط حالات جنگ میں ایک پائدار امن کیسے آ سکتا ہے۔ شمالی کوریا کے ساتھ یہ بڑی زیادتی ہو گی کہ امریکہ شمالی کوریا سے سب کچھ لینا چاہتا ہے۔ لیکن اسے کچھ دینے کے لئے بالکل تیار نہیں ہے۔ صدر صد ام حسین نے بھی امریکہ کو سب کچھ دے دیا تھا۔ اور پھر امریکی فوجیں عراق میں گھستی چلی گئی تھیں۔ ایسا ہی صدر معمر قد ا فی کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ اس پس منظر میں شمالی کوریا سے صرف مطالبہ اور شرائط کے بجاۓ اعتماد بحال کیا جاۓ۔ ہنوئی ملاقات مایوسی پر ختم ہونے سے یہ نظر آتا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا اور واشنگٹن میں کچھ قوتیں آ بناۓ کوریا میں Status کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ اس لئے ہنوئی ملاقات میں Process آ گے نہیں بڑھ سکا اور امریکہ اور شمالی کوریا میں بات چیت اچانک ختم ہو گئی تھی۔
  اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ شمالی کوریا کی قیادت ایٹمی ہتھیاروں کی سیاست سے Political Economy کی سیاست میں آنا چاہتی ہے۔ شمالی کوریا نے ایٹمی ہتھیاروں پر اخراجات ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کم جونگ ان نے شمالی کوریا کو اقتصادی پاور ہاؤس بنانے کا عزم کر لیا ہے۔ کم جونگ ان کو اب یہ یقین ہو گیا ہے کہ اس صدی کے اختتام تک وہ قومیں زندہ رہیں گی جو اقتصادی ترقی میں آ گے ہوں گی۔ صرف ہتھیاروں میں قوموں کی بقا کا تصور فرسودہ ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے باوجود ویت نام میں جنگ نہیں جیت سکا تھا۔ امریکہ طالبان سے جنگ ہار گیا ہے۔ جن کے پاس کوئی جدید ہتھیار نہیں تھے۔ عراق جنگ امریکہ کے لئے Disaster ثابت ہوئی ہے۔ مہلک ہتھیاروں پر بھاری اخراجات نے امریکہ کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایجادات کی اقتصادی ترقی میں پیچھے کر دیا ہے۔ اس صورت حال کا جائزہ لینے سے شمالی کوریا کی قیادت میں پرانی سوچ کی جگہ ایک نئی سوچ آئی ہے۔ کم جونگ ان پر اس لئے بھی اعتماد کیا جا سکتا ہے کہ شمالی کوریا کا کوئی Imperial Agenda نہیں ہے۔ امریکہ کے ساتھ معاملات طے کرنے میں چیرمین کم جونگ ان نے ایک بڑا Risk لیا ہے۔ ہنوئی سے کم جونگ ان خالی ہاتھ واپس Pyongyang گیے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی اور فوج اس پر زیادہ خوش نہیں ہو گی۔ اس ساری صورت حال کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہو گا۔ امریکہ کی قومی سلامتی امور کی ٹیم چیرمین کم جونگ ان کی سلامتی کے لئے خطرے پیدا کر رہی ہے۔ 65 سال پرانا حالات جنگ کا اعلانیہ ختم کرنے اور 2016 سے شمالی کوریا پر جو بندشیں لگائی گئی ہیں انہیں ختم کرنے میں کیا حرج تھا۔ اس سے Good Faith کا اظہار ہوتا۔ یہ چھوٹی باتیں بڑے مسائل پیدا کر دیتی ہیں۔ امریکہ دوسروں کی مشکلات کو نہیں سمجھتا ہے۔ ان سے ہر بات صرف اپنے مفاد میں چاہتا ہے۔


  صدر ٹرمپ نے ایران کے ایٹمی سمجھوتہ پر قائم رہنے سے انکار کر کے پہلے ہی شمالی کوریا کی فوج اور کمیونسٹ پارٹی کو ایک غلط تاثر دیا ہے۔ انہیں یقین نہیں ہو گا کہ امریکہ کا 46 پریذیڈنٹ شمالی کوریا میں Regime change کی بات نہیں کرے گا۔ ایران نے امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، چین، روس کے ساتھ مشترکہ مذاکرات کے بعد اپنے پروگرام پر سمجھوتہ کیا تھا۔ سلامتی کونسل نے اس کی توثیق کی تھی۔ صدر اوبامہ نے اس پر اپنی Presidential Stapes لگائی تھی۔ اور یہ سمجھوتہ ایک عالمی قانونی دستاویز بن گیا تھا۔ ایران اگر اس سمجھوتہ کی خلاف ورزی کرتا تو سلامتی کونسل اس کے خلاف کاروائی کرتی۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی اس سمجھوتہ کی خلاف ورزی دراصل عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ کون پوچھتا ہے۔ دنیا قانون کی خلاف ورزیاں کرنے والوں سے تعاون کر رہی ہے۔ اور اب ٹرمپ انتظامیہ سے ایران میں Regime change کرنے کا کام بھی لیا جاۓ گا۔ IAEA کا ادارہ ایران کے ایٹمی سمجھوتہ پر عملدرامد ہونے کی نگرانی کر رہا ہے۔ اور تین سال سے یہ ادارہ سمجھوتہ پر مکمل عملدرامد ہونے کی رپورٹیں دے رہا ہے۔ لیکن وائٹ ہاؤس میں نئی انتظامیہ نے سب سے پہلے اس سمجھوتہ کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ایران پر دوبارہ اقتصادی بندشیں لگا دی تھیں۔ اور ایران میں Regime change کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اب کیا Guarantee ہے کہ شمالی کوریا کے ساتھ ایسا نہیں ہو گا؟ صدر ٹرمپ نے جس طرح ونزویلا میں اپوزیشن لیڈر کو ونزویلا کا Legitimate President قرار دیا ہے۔ اسی طرح کل وائٹ ہاؤس میں نیا صدر ایک Dissident کو شمالی کوریا کا Legitimate Leader ہونے کا اعلان کر سکتا ہے۔ امریکہ کی اقتصادی دھمکیوں کے خوف سے بہت سے ممالک اس کی حمایت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ صدر ٹرمپ ایران میں حکومت تبدیل کرنے کے لئے شاید اسی راستے پر جا رہے ہیں۔ اور ایران کے داخلی سیاسی حالات میں اقتصادی بندشوں سے Chaos پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور پھر کسی مقام پر ایرانی حکومت کی اپوزیشن کو ایران کی Legitimate Government تسلیم کیا جاۓ گا۔ صدر پو تن نے یہ Politics Ukraine میں نہیں کی تھی۔ صدر پو تن نے Ukraine کے خلاف اپنی Politics عالمی قانون کی حدود میں ر کھی  تھی۔ شمالی کوریا کو جنوبی کوریا اور چین کی قیادت کے ذریعہ امریکہ سے معاملات طے کرنا چاہیے۔ امریکہ پر 100 فیصد بھرو سہ  نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آج دنیا میں امریکہ کا جو رول ہے اس میں امریکہ پر صرف1 فیصد بھرو سہ کیا جاۓ۔ 99 فیصد اپنے علاقائی ملکوں پر بھرو سہ کیا جاۓ۔             

No comments:

Post a Comment