Tuesday, March 26, 2019

Humanity’s First Religion Is Humanity: Prime Minister Jacinda Ardern’s Love for Humanity is Natural

  Humanity’s First Religion Is Humanity: Prime Minister Jacinda Ardern’s Love for Humanity is Natural
One Billion Muslims Are Very Impressed From Prime Minister Jacinda Ardern, The Way She Brings People And Country ‘We Are One’, She Has Changed Thinking In The Islamic World
مجیب خان

Prime Minister Jacinda Ardern, very popular in the Islamic World

Prime Minister Jacinda Ardern, leaves after a visit to the Kilbirnie Mosque in Wellington, New Zealand  

United in grief: New Zealand Prime Minister Jacinda Ardern



  نیوزی لینڈ  کی لبرل پارٹی کی وزیر اعظم Jacinda Ardern کی انسانیت سے محبت Fake نہیں بلکہ  Natural تھی۔ وزیر اعظم نے انسانیت سے اپنی عقیدت کا دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ انسانیت کا پہلا مذہب انسانیت ہے۔ ایک سفید فام نسل پرست دہشت گرد نے Christ Church نیوزی لینڈ میں مسجد میں اندھا دھند فائرنگ کر کے 50 مسلمانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ وزیر اعظم Jacinda Ardern نے اسے ایک مذہبی عقیدہ پر حملہ نہیں سمجھا تھا بلکہ اسے انسانیت پر حملہ کہا تھا۔ اور نیوزی لینڈ میں آباد مسلم آبادی سے کہا ' ہم ایک ہیں اور نیوزی لینڈ  تمہارے ساتھ سوگ میں ہے۔' 50 بے گناہ لوگوں کی ہلاکتوں کا غم 7 دن تک وزیر اعظم Jacinda کے چہرے پر تھا۔ اور وہ خاصی اداس نظر آ رہی تھیں۔ جن لوگوں کے محبوب اس دنیا سے چلے گیے تھے۔ وزیر اعظم Jacinda انہیں گلے لگا رہی تھیں۔ ان کا غم وزیر اعظم کا غم تھا۔ اس المناک واقعہ پر وزیر اعظم کا over reaction تھا اور نہ ہی under reaction تھا۔ بلکہ ایک حقیقی انسانی رد عمل تھا۔ انہوں نے یہ بالکل درست کہا ہے کہ ' دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہے۔' لیکن انسانیت کا پہلا مذہب انسانیت ہے۔ انسانیت میں اس پختہ ایمان سے وزیر اعظم Jacinda Ardern نے جس طرح اس المناک صورت حال کو Handle کیا ہے۔ دنیا میں One Billion Muslim اس سے بہت متاثر ہوۓ ہیں۔ انسانیت سے وزیر اعظم Jacinda کا Love اور Compassion دیکھ کر مسلمانوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ اسلامی دنیا میں وزیر اعظم ایک پسندیدہ شخصیت بن گئی ہیں۔ انہیں ایک Special مقام حاصل ہو گیا ہے۔ اور ان کے اس کردار ہمیشہ یاد رکھا جاۓ گا۔ وزیر اعظم نے "ہم ایک ہیں" ہونے کی جو مثال قائم کی ہے۔ اسلامی دنیا میں لوگ اسے ضرور اپنی زندگی کا ایک مقدس مشن بنائیں گے۔ ایک اچھا لیڈر اپنے خلوص اور کردار سے لوگوں کا رویہ اور سوچ بدل دیتا ہے۔
As General Abdel Fateh el-Sisi imposed his decrees on Egyptian people, same, Commander in chief Donald Trump imposing his proclamations on Arab-Palestinian people, Arab-Palestinian are under Israel’s Armed Forces occupation   
President Donald Trump signs a Proclamation on the Golan Heights, alongside Israeli Prime Minister Benjamin Netanyahu 



  نظریاتی قدامت پسند مذہبی تنگ نظر ہوتے ہیں۔ دنیا کو اپنے بند ذہین سے دیکھتے ہیں۔ اس لئے روشن خیال نہیں ہوتے ہیں۔ ان کی سوچ میں تاریکی رہتی ہے۔ انسانیت سے ان کی عقیدت Fake ہوتی ہے۔ جب انسانیت کو در پیش مسائل کا حل وہ اپنے مفاد میں نہیں سمجھتے ہیں تو انسانیت سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ جیسے ہم یہ مقبوضہ فلسطین اور شام میں دیکھ رہے ہیں۔ اور جب انسانیت کی آ ڑ میں یہ اپنا مفاد دیکھتے ہیں تو انسانیت کو Exploit کرنے لگتے ہیں۔ اور یہ ہم نے عراق میں صد ام حسین اور لیبیا میں کرنل معمر قد ا فی کے خلاف دیکھا تھا۔ اور یہ ان کی موقعہ پرستی تھی کہ عراق اور لیبیا میں انسانیت کا امن تباہ کر کے چلے گیے۔ Double standard اور Hypocrisy ان کی اخلاقی قدریں ہیں۔ عراق میں انسانی تاریخ کی انتہائی فاشسٹ اقتصادی بندشوں کے نتیجہ میں 5لاکھ معصوم بچے پیدائش کے ابتدائی چند گھنٹوں میں مر جاتے تھے۔ لیکن امریکہ میں یہ Abortion کو معصوم بچہ کا قتل کہتے تھے۔ شام کے ایک معصوم  بچہ کو سمندر کی موجیں اٹلی کی ساحل پر مر دہ حال میں لائی تھیں۔ اس بچہ کی سوشل میڈیا اور تمام عالمی اخبارات میں تصویر شائع ہوئی تھی۔ امریکہ میں انہیں شام کی خانہ جنگی فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ ایک ملین لوگ پہلے ہی اس خانہ جنگی میں مارے جا چکے تھے۔ دو ملین سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گیے تھے۔ لیکن انہوں نے ہتھیاروں کے منافع کو انسانیت پر فوقیت دی تھی۔ شام میں یہ ایران کی مداخلت پر شور کر رہے تھے۔ لیکن شام کی داخلی خانہ جنگی میں یہ غیرملکی دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کر رہے تھے۔ انہیں ہتھیار اور تربیت دے رہے تھے۔ امریکہ برطانیہ فرانس سعودی عرب اسرائیل شام میں دہشت گردوں کے ذریعہ شام کے لوگوں کو آزادی دلا رہے تھے۔ لیکن شام کے ہمسایہ میں فلسطینیوں کی اسرائیل کے فوجی قبضہ سے آزادی کی جد و جہد کو دہشت گردی کہتے تھے۔ یہ ان کی انسانی اور اخلاقی قدریں تھیں۔ نظریاتی مذہبی قدامت پسند پھر جھوٹ بھی بولتے ہیں اور اپنے غلط فیصلوں کا الزام دوسروں کو دینے لگتے ہیں۔ عراق میں صدر صد ام حسین نے یہ سچ کہا تھا کہ انہوں نے تمام مہلک ہتھیار بہت پہلے تباہ کر دئیے تھے۔ لیکن بش انتظامیہ نے یہ یقین نہیں کیا تھا۔ اور فوجی حملہ کے بعد جب عراق میں مہلک ہتھیار نہیں ملے تھے۔ تو صدر بش نے کہا کہ صد ام حسین سچ کیوں نہیں بولے تھے۔
  جنہوں نے پہلے امریکہ کی فوجی طاقت کو استعمال کیا تھا اور عراق لیبیا شام یمن میں حکومتیں تبدیل کرائی تھیں۔ وہ اب امریکہ کی اقتصادی طاقت کو استعمال کر رہے ہیں۔ اور اسے Excessive economic sanctions میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ انسانیت کو ہتھیاروں سے ہلاک کرنے کے بجاۓ اب بھوک اور بیماریوں سے لوگوں کو مارا جا رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو نے کہا ہے ' ہم ایران کو اقتصادی بندشوں میں اتنا جکڑ دیں گے کہ ایرانی ریاست گر جاۓ گی۔' یہ مذہبی نظریاتی قدامت پسندوں  کی انسانیت سے نفرت کا ثبوت ہے۔ مڈل ایسٹ کو ایک منصوبہ کے تحت پہلے جنگیں دی گئی ہیں۔ پھر ان جنگوں سے دہشت گرد گروپ پیدا کیے گیے ہیں۔ ان گروپوں کی دہشت گردی سے نفرت پھیلائی گئی ہے۔ نفرت نے عربوں کو کمزور کیا ہے۔ مڈل ایسٹ میں شیعہ سنی تقسیم کے بیج صدر بش نے بوۓ تھے۔ صد ام حسین کی سنی حکومت کا خاتمہ کر کے، یہ ایران کے آیت اللہ نہیں تھے، یہ صدر بش تھے جنہوں بڑے فخر سے کہا تھا کہ ہم نے ایک ہزار سال کی تاریخ میں پہلی بار عراق میں شیعاؤں کی حکومت قائم کی ہے۔ شیعہ عراق میں اکثریت میں تھے۔ امریکہ جہاں انتہائی تعلیم یافتہ ہیں وہ مذہب کی بنیاد پر جمہوریت کا ایک سیاسی نظام عراق کو دے کر گیے ہیں۔ اور ٹرمپ انتظامیہ اب  یہ الزام ایران کو دے رہی ہے کہ ایران مڈل ایسٹ میں شیعہ سنی لڑائی کو شہ دے رہا ہے۔ مذہبی اور قدامت پسند نظریاتی جھوٹ سے اپنے آپ کو معصوم ثابت کرتے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کے ایران کو شیعہ سنی کی لڑائی سے کیا حاصل ہو گا؟ یہ لڑائی اسرائیل کے مفادات پورے کرے گی؟
  صدر ٹرمپ دو سال سے اقتدار میں ہیں۔ ان دو سالوں میں صدر ٹرمپ نے مڈل ایسٹ کو متحد کرنے کے بجاۓ اور زیادہ تقسیم کر دیا ہے۔ نفرتوں کو گہرا کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں کہا تھا ' وہ عرب اسرائیل تنازعہ میں Neutral رہیں گے۔ کیونکہ انتظامیہ اس تنازعہ کے حل میں جب کسی ایک فریق کے ساتھ پارٹی بن جاتی ہے تو پھر اسے حل کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔' صدر ٹرمپ نے اپنے اس وعدہ پر عمل نہیں کیا ہے۔ اور اسرائیل کے ساتھ پارٹی بن گیے ہیں۔ اور اس تنازعہ کے Victims کو انصاف سے محروم کرتے جا رہے ہیں۔ ان میں نفرت اور غصہ پیدا کرنے کی سیاست کر رہے ہیں۔ اور پھر یہ کہتے ہیں کہ ایرانی امریکہ کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔ آخر صدر ٹرمپ اپنے آپ سے یہ سوال کیوں نہیں کرتے ہیں وہ ایسے کیا اقدام کریں کہ انہیں امریکہ کے خلاف یہ نعرے نہیں سننا پڑیں۔ دنیا کو دھونس اور دھمکیوں سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا ہے۔ نہ ہی ان پر فیصلے مسلط کیے جا سکتے ہیں۔ یہ نظر آتا ہے کہ صدر ٹرمپ مڈل ایسٹ میں وزیر اعظم نتھن یا ہو کے لئے کام کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے حکم دیا کہ یروشلم  ہمیں دو۔ 3 ہزار سال سے یہ اسرائیل کا دارالحکومت تھا۔ صدر ٹرمپ نے یہ اسرائیل کو دے دیا۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے جب صدر پو تن سے یہ کہا تھا تو ان کا جواب تھا آج کی بات کریں۔ اور صدر ٹرمپ نے اب گولان پر بھی اسرائیل کے قبضہ کو قانونی تسلیم کر لیا ہے۔ امریکہ نے جس قانون اور اصول کے تحت گولان پر اسرائیلی قبضہ کو قانونی تسلیم کیا ہے اب اسی قانون کے تحت امریکہ کو Crimea بھی روس کا قانونی حصہ تسلیم کرنا چاہیے۔ Crimea بھی 3 ہزار سال سے روس کا حصہ تھا۔
  سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo کو اسرائیل سے یہ کہنے کی بجاۓ کہ لبنان میں عیسائی، شیعہ اور سنی سب ایک ہیں۔ اور حزب اللہ ان کے اس اتحاد کا حصہ ہے۔ امریکہ ان کی داخلی سیاست میں مداخلت نہیں کرے گا۔ تین بڑے مذہبی عقائد اگر لبنان میں متحد ہیں۔ تو ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔ لیکن سیکرٹیری آف اسٹیٹ لبنان جا کر ان کے صدر وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کے اسپیکر سے کہتے ہیں کہ وہ حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دیں اور اس کے ساتھ تمام تعلقات ختم کر دیں۔ وہ یہ سن کر بڑے حیران ہوۓ۔ انہوں نے کہا حزب اللہ لبنان کی ایک بڑی جماعت ہے۔ اور عوام کی ایک بھاری اکثریت  انہیں منتخب کرتی ہے۔ حزب اللہ دہشت گرد تنظیم  نہیں ہے۔ امریکہ اسرائیل سے ہمیشہ سیدھی بات کرتا ہے اور عربوں سے ہمیشہ الٹی بات کرتا ہے۔ لیکن کوئی امریکہ اور اسرائیل سے یہ نہیں کہتا ہے کہ جناب پہلے آپ فلسطین اسرائیل تنازعہ حل کر دیں۔ پھر یہ دیکھا جاۓ گا کہ وہ امن سے رہتے ہیں یا اب بھی دہشت گرد ہیں؟ عربوں کو کچھ دیتے نہیں ہیں۔ ان سے Demands بہت کرتے ہیں۔ یہ تنازعہ کا حل نہیں ہے۔ صرف دنیا کا وقت برباد کرنا ہے۔ 70 سال امریکہ نے  باتیں کرنے، مطالبے کرنے، اور الزامات کی سیاست کرنے میں گزار دئیے ہیں۔ اسرائیلی حکومت دیوار کی دوسری طرف فلسطینیوں کو انسان نہیں سمجھتی ہے۔ ان کی sufferings کا کسی کو احساس نہیں ہے۔ Northern Ireland کا مسئلہ ہو گیا ہے۔ IRA اور دہشت گرد اب کہاں ہیں؟      


          

No comments:

Post a Comment